من

محفلین
در پے اس حسن کہ دربان بٹھا رکھا ہے
تو نے یہ پھول جو زلفوں میں سجا رکھا ہے

کتنی بے باک ہے یہ شوخ حسینہ اس پر
سرمہء عشق بھی انکھوں میں لگا رکھا ہے

کیوں مہکتی ہوی مجھ سے یہ لپٹ جاتی ہے
نام بھی سوچ کہ لوگوں نے صبا رکھا ہے

ناز برداریاں اور دیکھ کر ہر ایک ادا
دانت میں ہم نے بھی انگلی کو دبا رکھا ہے

اٹھ گییں پلکیں تو اک روشنی پھیلی ہر سو
انکی انکھوں میں ہی جیسے کہ دیا رکھا ہے

دیکھ کر انکا وہ معصوم کتابی چہرہ
کیوں لگا مجھکو ہر اک ورق پڑھا رکھا ہے

بھول سے ہی سہی شاید کہ ادھر ہو آنا
ہم نے اس دل کے ہر اک در کو ہی وا رکھا ہے

اتنی شدت سے نہ چاہو کہ پگھل جاؤں میں
عشق کی لو نے مجھے شمع بنا رکھا ہے

من یہ کیا چیز مچلتی ہے ترے سینے میں
دل کا کچھ کیجے جو پہلو میں دبا رکھا ہے
من
 
واہ واہ کیا کہنا منصورہ بہنا بہت عمدہ لاجواب اسی زمین پر ایک اور غزل ہے میرے خیال میں

جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں سجا رکھا ہے
شاید کچھ ایسے ہی ہے
 
بہت خوبصورت غزل ہے داد قبول کیجیے۔
ورق غلط باندھا گیا ہے۔ لفظ در حقیقت وَرَق ہے یہ وتد مجموع ہے اس لیے یہاں نہیں آ سکتا۔ البتہ اس کو بآسانی صفحہ کے ساتھ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

دانت والا مصرعہ ایسے بہتر رہے گا
ہم نے دندان میں انگلی کو دبا رکھا ہے
ویسے رکھا بھی ایسے شاید نہیں باندھا جا سکتا ہے۔ کھ پر تشدید نہیں ہے۔

شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
 
ہم نے دندان میں انگلی کو دبا رکھا ہے
ویسے رکھا بھی ایسے شاید نہیں باندھا جا سکتا ہے۔ کھ پر تشدید نہیں ہے۔
میرا خیال ہے کہ دونوں طرح سے مستعمل ہے۔

حکیم ناصر کی مشہور غزل
جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
 
Top