تازہ غزل (برائے اصلاح)

نوید ناظم

محفلین
اس لیے اب بھی راستے میں ہوں
کہ میں چلتا ہی دائرے میں ہوں

یہ مرا عکس ہے جو باہر ہے
دیکھ میں خود تو آئینے میں ہوں

میں عناصر بکھیر دوں اپنے
تیرے کہنے پہ ضابطے میں ہوں

رک سکوں اور نہ چل سکوں آگے
کیا کروں سخت مرحلے میں ہوں

بات تجھ سے کروں تو لگتا ہے
جیسے خود سے ہی رابطے میں ہوں

تُو کسی اور طرح سے دیکھے
میں کسی اور زاویے میں ہوں

تجھ سے باہر نکل نہیں پایا
آج تک تیرے حاشیے میں ہوں

' کُن' سے پہلے بھلا کہاں تھا میں؟
تُو بتا' میں تو مخمصے میں ہوں

میں ازل سے نوید اُس کا تھا
دیکھ لے آ کے' زائچے میں ہوں
 
Top