نایاب
لائبریرین
(١١٦)
زبان
ضلع حصار کی زبانیں
اس ضلع کی حدود میں متعدد زبانیں بولی جاتی تھیں ۔ ان زبانوں کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس علاقہ میں عقیدہ تھا کہ ہر بارہ کوس کے فاصلہ کے بعد زبان تبدیل ہو جاتی ہے ۔ اس کے باوجود بڑی زبانیں تین ہی تھیں ۔ اول پنجابی ، دوم باگڑی ، سوم اردو یا ہندی یا یندوستانی ۔ اس کے بعد جگہ جگہ اور تھوڑے تھوڑے فاصلہ کے بعد مختلف شکلیں اور لہجے اختیار کر جانے والی زبانیں ان تینوں زبانوں کے ہی مختلف روپ تھے ۔ خود ان تینوں زبانوں میں سے ہر ایک کے مختلف لہجے اور شکلیں موجود تھیں ۔ مثلاً پنجابی کے دو مختلف لہجے تھے جو ایک دوسرے سے قطعاً مختلف تھے ۔ ان میں سے ایک سکھ پنجابی تھی اور دوسری مسلمان پنجابی ۔ اردو کے لہجے اور شکلیں بھی مختلف تھیں ۔ کسی جگہ یہ صاف اردو کے نزدیک تھی ۔ کسی جگہ ہندی کی شکل اختیار کیئے ہوئے تھی ۔ اور کسی جگہ ایسی صورت میں تھی کہ اسے اردو یا ہندی کے بجائے ہندوستانی کا نام ہی دیا جا سکتا تھا ۔
دراصل ضلع حصار کا علاقہ اردگرد سے لسانی اثرات قبول کرتا تھا ۔ اور انہی اثرات کے باعث یہان متعدد زبانیں بولی جاتی تھیں ۔ تحصیل فتح آباد کا پورا علاقہ اور تحصیل سرسہ کا کچھ علاقہ پنجابی بولنے والے علاقوں سے متصل تھا ۔ اس لیئے یہاں پنجابی بولی جاتی تھی ۔ اس کے بعد سرسہ تحصیل کا جو علاقہ راجپوتانہ کے ساتھ واقع تھا وہاں باگڑی بولی جاتی تھی ۔ کیونکہ یہ راجپوتانہ کی ریاستوں ، خاص طور پر بیکانیر اور جودھ پور کی زبان تھی ۔ حصار اور ہانسی شہروں میں بولی جانے والی زبان اردو یا ہندی کہلاتی تھی ۔ بھوانی تحصیل میں بولی جانے والی زبان میواتی سے نزدیک تر تھی ۔ ضلع کے باقی علاقوں میں بولی جانے والی زبان بھی یکساں نہیں تھی ۔ ہر تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد اس کی شکل تبدیل ہو جاتی تھی ۔ اور اسی لیئے کہا جاتا تھا کہ یہاں ہر بارہ کوس کے بعد زبان تبدیل ہو جاتی ہے ۔
بروالہ سیدان کی زبان
بروالہ سیدان میں جو زبان بولی جاتی تھی وہ شاید اس قصبے کے ساتھ ہی مخصوص تھی ۔ کسی دوسری جگہ یہ زبان نہیں بولی جاتی تھی ۔ اس کی بڑی وجہ شاید زبانوں کی وہ رنگا رنگی اور تنوع ہی تھا جو ضلع حصار کے طول و عرض میں موجود تھا ۔ چنانچہ بروالہ سیدان کے اردگرد کے دیہات کی زبان سے بھی بروالہ سیدان کے قصبہ میں بولی جانے والی زبان مختلف تھی ۔ اردگرد کے دیہات کی زبان باگڑی کے نزدیک تھی ۔ مگر بروالہ سیدان کی زبان پر باگڑی کی نسبت اردو اور ہندی کا اثر زیادہ تھا ۔ زبان کے اختلاف اور لہجوں کے تنوع کا تو اس علاقہ میں یہ حال تھا کہ بروالہ سیدان کے مختلف محلوں اور مختلف برادریوں میں بولی جانے والی زبانیں بھی اپنے لہجوں اور الفاظ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف تھیں ۔ لہجے اور مخصوص الفاظ کے استعمال کے باعث ہی وہاں کے بزرگ پہچان لیا کرتےتھے ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
(١١٧)
کہ بات کرنے والا شخص کالا پانہ سے تعلق رکھتا ہے یا گورا پانہ سے یا اسماعیل پانہ سے ۔ اسی طرح اس کے مسلمان یا ہندو ہونے یا کسی خاص برادری سے تعلق کا اندازہ بھی اس کی زبان اہر لہجے سے ہو جایا کرتا تھا ۔
اصل بات یہ ہے کہ اس ضلع میں بنیادی زبانیں تو وہی تین تھیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ۔ یعنی پنجابی ، باگڑی اور ہندی یا اردو ۔ ان کے علاوہ جو زبانیں رائج تھیں وہ ان تین زبانوں کی ہی مختلف شکلیں تھیں ۔ یہ شکلیں اپنے لہجہ یا الفاظ کی ساخت کے لحاظ سے ہر تھوڑے سے فاصلے کے بعد تبدیل ہوتی رہتی تھیں ۔ اس لیئے لگتا تھا کہ زبان تبدیل ہوگئی ہے ۔ مگر یہ تبدیلی ایسی نہیں ہوتی تھی کہ یکسر کوئی نئی زبان سامنے آ گئی ہو ۔ سب زبانیں آپس میں ملتی جلتی تھیں اور بعض اوقات ان میں صرف لہجہ کا ہی فرق ہوتا تھا ۔ یہی حالت بروالہ میں بولی جانے والی زبان کی تھی ۔ اس زبان کے مختلف لہجے ہی تھے جو اسے مختلف شکلیں دیکر ہر محلہ کی زبان کی شناخت الگ کر دیتے تھے ۔ ورنہ زبان قریب قریب ایک ہی تھی ۔ الفاظ کا اختلاف بہت معمولی ہوا کرتا تھا ۔
بروالہ کی زبان کی ساخت
ضلع حصار کی تینوں بڑی اور بنیادسی زبانوں کا تعلق زبانوں کے سنسکرت سلسلہ سے تھا ۔ اس لیئے ان کی ساخت اور الفاظ کے استعمال میں بہت زیادہ فرق نہیں تھا ۔ بروالہ سیدان کی زبان انہی زبانوں کے زیر اثر شکل پذیر ہونے والی زبان تھی ۔ اس لیئے اس کی ساخت بھی ان زبانوں کے مطابق تھی ۔ ان تمام زبانوں کی ساخت کے اصولوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ بروالہ کی زبان پنجابی کی نسبت باگڑی سے زیادہ قریب تھی ۔ اور باگڑی کی نسبت اردو سے زیادہ نزدیک تھی ۔ ان زبانوں کی ساخت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات ان کے درمیان صرف لہجے یا حرف علت کے استعمال کا فرق ہوتا تھا ۔ اس سلسلہ میں بروالہ کی زبان پنجابی کی نسبت باگڑی کی پیروی کرتی تھی ، جیسے پنجابی کے ، جٹ ، کو باگڑی میں “جاٹ “ کہا جاتا ہے ۔ بروالہ میں بھی “ جاٹ “ ہی بولا جاتا تھا ۔ اس طرح کے الفاظ کو پنجابی میں مختصر کر کے بولا جاتا تھا اور حرکت کے بعد اگر کوئی حرف آتا تھا تو اسے تشدید دے دی جاتی تھی ۔ جیسے “ ٹبر “ کا لفظ بیوی کے معنی میں بولا جاتا تھا یہی لفظ باگڑی میں “ ٹابر “ تھا اور بروالہ میں بھی اسی طرح بولا جاتا تھا ۔ گویا حرف علت “ الف “ پنجابی میں مختصر کر دیتے تھے اور باگڑی میں اسے کھینچ کر بولتے تھے اور بروالہ میں بھی باگڑی کی پیروی کی جاتی تھی ۔ حرف علت “ ی “ کے سلسلہ میں بروالہ کی زبان پنجابی کی پیروی کرتی تھی ۔ باگڑی میں اسے کھینچ کر بولا جاتا تھا ۔ جیسے ریت کے ٹیلے کو “ ٹیبا “ کہتے تھے ۔ پنجابی میں اسے مختصر کر کے “ ٹبا “ کہتے تھے ۔ اور بروالہ میں بھی “ ٹبا “ کہتے تھے ۔ حرف علت “ واؤ “ کے سلسلہ میں تینوں زبانوں کا معاملہ یکساں تھا ۔ تینوں اسے مختصر کر کے بولتے تھے ۔ جیسے “ روٹی “ کے لفظ کو ملا کر “رٹی “ بولا جاتا تھا ۔
پنجابی میں جن الفاظ میں “ ر “ کا حرف استعمال ہوتا تھا باگڑی میں اس حرف کو اکثر حذف کر دیا جاتا تھا ۔ جیسے پنجابی میں “ پوترا “ اور “ گرام “ کو باگڑی میں “ پوتا “ اور “ گام “ کیا جاتا تھا ۔ بروالہ میں اس سلسلہ میں باگڑی کی پیروی کی جاتی تھی ۔ کسی اسم کے جمع بنانے کے لیے پنجابی میں فارسی کی طرح اسم کے آخر میں “ اں “ زائد کر دیتے تھے ۔ باگڑی میں بھی یہی قاعدہ استعمال ہوتا تھا ۔ اور بروالہ میں بی اسی کی پیروی کی جاتی تھی ۔ مثلاً “ کتاب “ سے “ “ کتاباں “ “ دکان “ سے “ دکاناں “ وغیرہ ۔
اردو میں حالت اضافی کی علامت “ کا ، کے ، کی “ اور “ را ، رے ، ری “ ہے ۔ پنجابی میں اس موقع پر “وا ، وے ، وی “ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ۔ باگڑی میں ان کی شکل ، او ، اے ، ای ، یا ، گو ، گے ، گی ، بن جاتی تھی ۔ بروالہ میں اس موقعہ پر اردو کی تقلید کی جاتی تھی ۔ علامت فاعل “ نے “ اردو میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبان
ضلع حصار کی زبانیں
اس ضلع کی حدود میں متعدد زبانیں بولی جاتی تھیں ۔ ان زبانوں کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس علاقہ میں عقیدہ تھا کہ ہر بارہ کوس کے فاصلہ کے بعد زبان تبدیل ہو جاتی ہے ۔ اس کے باوجود بڑی زبانیں تین ہی تھیں ۔ اول پنجابی ، دوم باگڑی ، سوم اردو یا ہندی یا یندوستانی ۔ اس کے بعد جگہ جگہ اور تھوڑے تھوڑے فاصلہ کے بعد مختلف شکلیں اور لہجے اختیار کر جانے والی زبانیں ان تینوں زبانوں کے ہی مختلف روپ تھے ۔ خود ان تینوں زبانوں میں سے ہر ایک کے مختلف لہجے اور شکلیں موجود تھیں ۔ مثلاً پنجابی کے دو مختلف لہجے تھے جو ایک دوسرے سے قطعاً مختلف تھے ۔ ان میں سے ایک سکھ پنجابی تھی اور دوسری مسلمان پنجابی ۔ اردو کے لہجے اور شکلیں بھی مختلف تھیں ۔ کسی جگہ یہ صاف اردو کے نزدیک تھی ۔ کسی جگہ ہندی کی شکل اختیار کیئے ہوئے تھی ۔ اور کسی جگہ ایسی صورت میں تھی کہ اسے اردو یا ہندی کے بجائے ہندوستانی کا نام ہی دیا جا سکتا تھا ۔
دراصل ضلع حصار کا علاقہ اردگرد سے لسانی اثرات قبول کرتا تھا ۔ اور انہی اثرات کے باعث یہان متعدد زبانیں بولی جاتی تھیں ۔ تحصیل فتح آباد کا پورا علاقہ اور تحصیل سرسہ کا کچھ علاقہ پنجابی بولنے والے علاقوں سے متصل تھا ۔ اس لیئے یہاں پنجابی بولی جاتی تھی ۔ اس کے بعد سرسہ تحصیل کا جو علاقہ راجپوتانہ کے ساتھ واقع تھا وہاں باگڑی بولی جاتی تھی ۔ کیونکہ یہ راجپوتانہ کی ریاستوں ، خاص طور پر بیکانیر اور جودھ پور کی زبان تھی ۔ حصار اور ہانسی شہروں میں بولی جانے والی زبان اردو یا ہندی کہلاتی تھی ۔ بھوانی تحصیل میں بولی جانے والی زبان میواتی سے نزدیک تر تھی ۔ ضلع کے باقی علاقوں میں بولی جانے والی زبان بھی یکساں نہیں تھی ۔ ہر تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد اس کی شکل تبدیل ہو جاتی تھی ۔ اور اسی لیئے کہا جاتا تھا کہ یہاں ہر بارہ کوس کے بعد زبان تبدیل ہو جاتی ہے ۔
بروالہ سیدان کی زبان
بروالہ سیدان میں جو زبان بولی جاتی تھی وہ شاید اس قصبے کے ساتھ ہی مخصوص تھی ۔ کسی دوسری جگہ یہ زبان نہیں بولی جاتی تھی ۔ اس کی بڑی وجہ شاید زبانوں کی وہ رنگا رنگی اور تنوع ہی تھا جو ضلع حصار کے طول و عرض میں موجود تھا ۔ چنانچہ بروالہ سیدان کے اردگرد کے دیہات کی زبان سے بھی بروالہ سیدان کے قصبہ میں بولی جانے والی زبان مختلف تھی ۔ اردگرد کے دیہات کی زبان باگڑی کے نزدیک تھی ۔ مگر بروالہ سیدان کی زبان پر باگڑی کی نسبت اردو اور ہندی کا اثر زیادہ تھا ۔ زبان کے اختلاف اور لہجوں کے تنوع کا تو اس علاقہ میں یہ حال تھا کہ بروالہ سیدان کے مختلف محلوں اور مختلف برادریوں میں بولی جانے والی زبانیں بھی اپنے لہجوں اور الفاظ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف تھیں ۔ لہجے اور مخصوص الفاظ کے استعمال کے باعث ہی وہاں کے بزرگ پہچان لیا کرتےتھے ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
(١١٧)
کہ بات کرنے والا شخص کالا پانہ سے تعلق رکھتا ہے یا گورا پانہ سے یا اسماعیل پانہ سے ۔ اسی طرح اس کے مسلمان یا ہندو ہونے یا کسی خاص برادری سے تعلق کا اندازہ بھی اس کی زبان اہر لہجے سے ہو جایا کرتا تھا ۔
اصل بات یہ ہے کہ اس ضلع میں بنیادی زبانیں تو وہی تین تھیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ۔ یعنی پنجابی ، باگڑی اور ہندی یا اردو ۔ ان کے علاوہ جو زبانیں رائج تھیں وہ ان تین زبانوں کی ہی مختلف شکلیں تھیں ۔ یہ شکلیں اپنے لہجہ یا الفاظ کی ساخت کے لحاظ سے ہر تھوڑے سے فاصلے کے بعد تبدیل ہوتی رہتی تھیں ۔ اس لیئے لگتا تھا کہ زبان تبدیل ہوگئی ہے ۔ مگر یہ تبدیلی ایسی نہیں ہوتی تھی کہ یکسر کوئی نئی زبان سامنے آ گئی ہو ۔ سب زبانیں آپس میں ملتی جلتی تھیں اور بعض اوقات ان میں صرف لہجہ کا ہی فرق ہوتا تھا ۔ یہی حالت بروالہ میں بولی جانے والی زبان کی تھی ۔ اس زبان کے مختلف لہجے ہی تھے جو اسے مختلف شکلیں دیکر ہر محلہ کی زبان کی شناخت الگ کر دیتے تھے ۔ ورنہ زبان قریب قریب ایک ہی تھی ۔ الفاظ کا اختلاف بہت معمولی ہوا کرتا تھا ۔
بروالہ کی زبان کی ساخت
ضلع حصار کی تینوں بڑی اور بنیادسی زبانوں کا تعلق زبانوں کے سنسکرت سلسلہ سے تھا ۔ اس لیئے ان کی ساخت اور الفاظ کے استعمال میں بہت زیادہ فرق نہیں تھا ۔ بروالہ سیدان کی زبان انہی زبانوں کے زیر اثر شکل پذیر ہونے والی زبان تھی ۔ اس لیئے اس کی ساخت بھی ان زبانوں کے مطابق تھی ۔ ان تمام زبانوں کی ساخت کے اصولوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ بروالہ کی زبان پنجابی کی نسبت باگڑی سے زیادہ قریب تھی ۔ اور باگڑی کی نسبت اردو سے زیادہ نزدیک تھی ۔ ان زبانوں کی ساخت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات ان کے درمیان صرف لہجے یا حرف علت کے استعمال کا فرق ہوتا تھا ۔ اس سلسلہ میں بروالہ کی زبان پنجابی کی نسبت باگڑی کی پیروی کرتی تھی ، جیسے پنجابی کے ، جٹ ، کو باگڑی میں “جاٹ “ کہا جاتا ہے ۔ بروالہ میں بھی “ جاٹ “ ہی بولا جاتا تھا ۔ اس طرح کے الفاظ کو پنجابی میں مختصر کر کے بولا جاتا تھا اور حرکت کے بعد اگر کوئی حرف آتا تھا تو اسے تشدید دے دی جاتی تھی ۔ جیسے “ ٹبر “ کا لفظ بیوی کے معنی میں بولا جاتا تھا یہی لفظ باگڑی میں “ ٹابر “ تھا اور بروالہ میں بھی اسی طرح بولا جاتا تھا ۔ گویا حرف علت “ الف “ پنجابی میں مختصر کر دیتے تھے اور باگڑی میں اسے کھینچ کر بولتے تھے اور بروالہ میں بھی باگڑی کی پیروی کی جاتی تھی ۔ حرف علت “ ی “ کے سلسلہ میں بروالہ کی زبان پنجابی کی پیروی کرتی تھی ۔ باگڑی میں اسے کھینچ کر بولا جاتا تھا ۔ جیسے ریت کے ٹیلے کو “ ٹیبا “ کہتے تھے ۔ پنجابی میں اسے مختصر کر کے “ ٹبا “ کہتے تھے ۔ اور بروالہ میں بھی “ ٹبا “ کہتے تھے ۔ حرف علت “ واؤ “ کے سلسلہ میں تینوں زبانوں کا معاملہ یکساں تھا ۔ تینوں اسے مختصر کر کے بولتے تھے ۔ جیسے “ روٹی “ کے لفظ کو ملا کر “رٹی “ بولا جاتا تھا ۔
پنجابی میں جن الفاظ میں “ ر “ کا حرف استعمال ہوتا تھا باگڑی میں اس حرف کو اکثر حذف کر دیا جاتا تھا ۔ جیسے پنجابی میں “ پوترا “ اور “ گرام “ کو باگڑی میں “ پوتا “ اور “ گام “ کیا جاتا تھا ۔ بروالہ میں اس سلسلہ میں باگڑی کی پیروی کی جاتی تھی ۔ کسی اسم کے جمع بنانے کے لیے پنجابی میں فارسی کی طرح اسم کے آخر میں “ اں “ زائد کر دیتے تھے ۔ باگڑی میں بھی یہی قاعدہ استعمال ہوتا تھا ۔ اور بروالہ میں بی اسی کی پیروی کی جاتی تھی ۔ مثلاً “ کتاب “ سے “ “ کتاباں “ “ دکان “ سے “ دکاناں “ وغیرہ ۔
اردو میں حالت اضافی کی علامت “ کا ، کے ، کی “ اور “ را ، رے ، ری “ ہے ۔ پنجابی میں اس موقع پر “وا ، وے ، وی “ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ۔ باگڑی میں ان کی شکل ، او ، اے ، ای ، یا ، گو ، گے ، گی ، بن جاتی تھی ۔ بروالہ میں اس موقعہ پر اردو کی تقلید کی جاتی تھی ۔ علامت فاعل “ نے “ اردو میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔