تاریخ بروالہ صفحہ 98 سے 115

نایاب

لائبریرین
98



نظام زمینداری
طبعی حالات
گذشتہ صفحات میں ذکر کیاجا چکا ہے کہ ہریانہ کا علاقہ جو قدیم زمانہ میں اپنی سرسبزی اور شادابی کے لیے مثالی اور بے نظیر گنا جاتا تھا ۔ اس پر بعد میں ایسا بھی وقت آیا کہ سرسوتی اور گھگھر کے پانی سے محروم ہو جانے کے بعد آہستہ آہستہ بنجر ویران اور غیر آباد ہوتا چلا گیا ۔ آخرکار وہ وقت آ گیا کہ اس علاقہ کا اکثر و بیشتر حصہ اجاڑ اور بیابان کی شکل اختیار کر گیا ۔ دور دور تک بھورے ریت کے ٹیلے یا خشک چٹخی ہوئی سخت زمین نظر آتی تھی ۔ کہیں کہیں صرف کیر کی بے برگ وبار جھاڑیاں یا پیلو اور کیکر کے درخت نظر آ جاتے تھے ۔ اگر کسی جگہ جنگلی بیروں کی جھاڑیاں مل جاتی تھیں تو نعمت غیر مترقبہ شمار ہوتی تھی ۔ ان سے انسان اور جانور یکساں طور پر متمتع ہوتے تھے ۔ تمام علاقہ کے درمیان اک نہر گزرتی تھی ۔ جس کا نام نہر جمن غربی تھا ۔ مگر وہ صفائی اور دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث یہ نہر ایک مدت سے بند پڑی تھی ۔ اس لیے اس علاقہ کی زندگی کا دارومدار بارشوں پر تھا ۔ مگر جب سے اس علاقہ کے دریا خشک ہو گئے تھے ۔ بارشوں نے بھی ادھر سے منہ موڑ لیا تھا ۔ بارشیں بہت کم ہوتی تھیں ۔ بعض اوقات بالکل بھی نہیں ہوتی تھیں ۔ اور جب بارش بالکلنہیں ہوتی تھی تو یہاں قحط پڑ جاتا تھا ۔ فصلیں ناکام ہو جاتی تھیں اور پینے کے لیے پانی بھی نایاب ہو جاتا تھا ۔ اس صورت حال میں زندگی کو برقرار رکھنا ناممکن ہو جاتا تھا چنانچہ انسان اور مویشی یا تو مر کھپ جاتے تھے یا اپنی آبادیاں چھوڑ کر کسی ایسے علاقہ کی جانب چلے جاتے تھے جہاں زندگی کا سلسلہ برقرار رکھنے کی صورت نظر آتی تھی ۔ اس طرح یہ تمام علاقہ اجڑتا اور ویران ہوتا چلا گیا ۔ یہاں تک کہ سن چالیسا کا قحط ایک شدید آفت کی طرح نازل ہوا ۔
چالیسا کا قحط
گذشتہ صفحات میں اس قحط کا بھی مختصراً ذکر ہو چکا ہے ۔ یہ وہ خوفناک قحط تھا جس نے ہریانہ کے علاقہ کی تباہی اور بربادی کو مکمل کر دیا تھا ۔ قدرتی آفات ، خشک سالی اور خانہ جنگی کے باعث یہ علاقہ پہلے ہی اجڑ کر رہ گیا تھا ۔ اس پر ؁١٧٨٣ میں یہ ہولناک قحط پڑا جسکا ذکر اب تک یعنی دو سو سال گزرنے کے بعد بھی اس علاقہ کی لوک داستانوں اور لوک گیتوں میں خوف اور دہشت کے جذبات کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ اس علاقہ میں لوگ سنوں اور تاریخوں کا حساب جن قحطوں کے سالوں سے لگایا کرتے تھے ان میں یہ قحط بھی شامل تھا ۔ قحط تو اس علاقہ میں اس سے قبل بھی پڑتے رہے تھے ۔ لیکن ان کی تفصیل کسی ذریعہ سے مہیا نہیں ہوتی ۔ یہ پہلا قحط ہے جس کی تفصیلات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٩٩)

ہم تک پہنچی ہیں اور یہ تفصیلات بڑی ہولناک ہیں ۔
اسے چالیسا کا اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ سمت ١٨٤٠ بکر می میں پڑا تھا ۔ اس سال سے قبل کے دو سالوں میں بھی بارش کم ہوئی تھی ۔ اور پیداوار نہ ہونے کے برابر تھی ۔ اس کے بعد قحط والے سال بارش سرے سے نہیں ہوئی ۔ ایک بوند بھی نہ پڑی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اناج کا ایک دانہ بھی پیدا نہیں ہوا ۔ سبزہ تو ایک طرف تمام علاقے میں کوئی روئیدگی باقی نہیں رہی ۔ جوہڑوں میں پانی تک خشک ہو گیا ۔ اب لوگوں کے پاس نہ خود کچھ کھانے کو تھا نہ جانوروں کو کھلانے کے لیے کچھ باقی رہا تھا ۔ زندگی کا کوئی وسیلہ ہی باقی نہیں رہ گیا تھا ۔ چنانچہ لوگوں نے اپنے گھربھار چھوڑے اور جدھر سینگ سمائے نکل گئے ۔ چھوٹے دیہات تو قطعی طور پر ویران ہو گئے ۔ ان میں سے اکثر ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے ۔ البتہ بروالہ سیداں جیسے چند بڑے قصبوں میں زندگی کا سلسلہ کسی نا کسی طرح قائم رہا ۔ (١) ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق اس قحط کے باعث غلہ کی قیمت چھ سیر فی روپیہ تک پہنچ گئی تھی ۔ جو عام قیمت سے چھ گنا زیادہ تھی ۔ اور لوگوں کو اناج کے حصول کی خاطر اپنے بچے تک فروخت کرنا پڑے تھے ۔ مگر اس کے بعد غلہ اس طرح نایاب ہوا کہ ایک دانہ تک کا حصول نا ممکن ہو گیا ۔ (٢)
غلہ اور پانی کی اس نایابی نے تمام علاقہ میں وہ تباہی مچائی کہ حقیقتاً یہاں خاک اڑنے لگی ۔ یہ تباہی اتنی ہمہ گیر تھی کہ انسانوں کی اموات اور مویشیوں کی ہلاکت کے اعدادوشمار کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا ۔ جانوروں کے بڑے بڑے ریوڑ اور گلے جو اس علاقہ میں ادھر ادھر چرتے پھرتے تھے بھوک اور پیاس سے ختم ہو گئے اور آبادی کی بڑی تعداد بھی اسی صورت حال کا شکا ہوئی ۔ بچ جانے والے لوگ بہتر علاقوں کی جانب بھاگ گئے ۔ سرسہ کا شہر مکمل طور پر ویران ہو کر رہ گیا ۔ اور سرسہ کے تمام ضلع میں صرف دس یا بارہ بڑے گاؤں ایسے تھے جو کسی حد تک آباد رہے ۔ ورنہ کافی عرصہ تک پورا ضلع ویران پڑا رہا ۔ ؁١٧٩٩ میں جارج تھامس نے اس علاقہ کو پھر سے آباد کیا ۔ (٣)
ادھر ضلع حصار کا بھی یہی حال تھا ۔ سارا علاقہ پوری طرح اجڑ کر ویران ہو گیا تھا ۔ اور تو اور ہانسی جیسا شہر اس قحط کے باعث ویران ہو کر کھنڈر بن گیا تھا ۔ حصار شہر کا حال بھی کچھ زیادہ بہتر نہ تھا ۔ اس علاقہ میں بھی چند بڑے اور پرانے قصبے ہی ایسے تھے جو آباد رہ گئے تھے ورنہ ساری آبادیاں ختم ہو گئی تھیں ۔ بروالہ سیداں ان آباد رہ جانے والے قصبوں میں سے ایک تھا ۔ یہ قحط اس قدر تباہ کن تھا کہ تمام علاقہ پوری طرح ویران ہو گیا تھا ۔ اور کافی عرصہ تک ویران ہی پڑا رہا ۔ اس کے بعد گویا نئے سرے سے آباد ہوا ۔ دوبارہ آبادی کے وقت ایسا ہوا کہ اکثر جگہ پرانے لوگ واپس نہ آئے ۔ وہ یا تو مر کھپ گئے یا اتنے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) ۔۔۔ پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٩٠٤ ، ص ١٩٣
(٢) سرسہ ڈسٹرکٹ سیٹلمنٹ رپورٹ ؁١٨٧٩۔٨٣ ص ٢٧
(٣) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضاً



)١٠٠)

عرصہ میں کسی دوسری جگہ رہنے بسنے لگے تھے ۔ چنانچہ نئے سرے سے آبادی ہونے لگی تو اکثر جگہ دیہات کو نئے لوگوں نے آباد کیا ۔ بہت سے دیہات ایسے بھی تھے جو پھر کبھی آباد نہ ہو سکے ۔ (٤)
چالیسا قحط سے قبل زمینداری کا نظام
چالیسا کے قحط سے قبل غالباً اس علاقہ میں جائداد کی ملکیت کا کوئی تصور موجود نہیں تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ علاقہ کی آبادی بہت کم اور دور دور بکھری ہوئی تھی ۔ جو گاؤں آباد تھے ان کے درمیان کافی فاصلہ تھا ۔ اور اردگرد کافی زمین موجود ہوتی تھی ۔ آبپاشی کا کوئی انتظام نہیں تھا ۔ اس لیے زمین کی کاشت کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ بارش ہونے کی صورت میں لوگ کھیتی باڑی کی جانب متوجہ ہوتے تو کاشت کے لیے کافی زمین موجود ہوتی تھی ۔ لوگ ادھر ادھر زمین کے قابل کاشت ٹکڑے منتخب کر لیتے تھے اور ان میں اپنی مرضی کے مطابق کاشت کاری کیا کرتے تھے ۔ اس طرح گاؤں کے اردگرد نزدیکی میں قابل کاشت زمین کے ٹکڑے کسی حد تک کام آ جاتے تھے ۔ مگر اس کاشت کاری پر حکومت کو مالیہ ادا کرنا پڑتا تھا ۔ اس کا طریقی یہ تھا کہ گاؤں پر مالیہ مجموعی طور پر لگا دیا جاتا تھا ۔ مقررہ شرح کوئی نہیں تھی ۔ بس یہ حکومت کے کارندوں کی مرضی تھی کہ جو مالیہ بھی لگا دیں ۔ اس کی ادائیگی کے لیے گاؤں کے لوگ یہ طریقہ اختیار کرتے تھے کہ مالیہ کی رقم کو کاشت کاروں کا تعداد کے لحاظ سے یا مویشیوں کی ملکیت کے لحاظ سے آپس میں تقسیم کر لیتے تھے اور رقم پوری کر کے حکومت کو ادا کر دیتے تھے ۔
مگر پیداوار کم ہوتی تھی اور مالیہ کی ادائیگی بہٹ بڑا بوجھ ہوتی تھی ۔ اس کے علاوہ اس علاقے کے پچادے ، راجپوت ، اور سکھ باقاعدہ گروہ بنا کر لوٹ مار میں مصروف رہتے تھے ۔ اور زمیندار ان کا خاص نشانہ بنتے تھے ۔ اس لیے اس زمانہ میں زمین کی ملکیت کوئی نفع بخش معاملہ نہیں تھا ۔ بلکہ ایک بوجھ ہوتا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ زمین کی مستقل ملکیت کا جھنجھٹ یہاں کے لوگ نہیں پالتے تھے ۔ بلکہ اکثر لوگ تو ایک جگہ گھر بنا کر مستقل رہاییش بھی نہیں رکھتے تھے ۔ بارشیں کم ہوتی تھیں اور لوگ خوراک کی تلاش اور مویشیوں کو چارہ ملنے کی امید میں ایک جگہ سے ترک سکونت کر کے کسی دوسری جگہ جا رہنے میں قطعاً عار نہیں سمجھتے تھے ۔ صرف چند پرانے قصبے اور بڑے گاؤں ایسے مقامات تھے جن کی آبادی مستقل تھی ۔ ان کی زندگی میں باقاعدگی تھی اور زندگی گزارنے کے ان کے اپنے ذرائع تھے ۔
اس صورت حال میں جب چالیسا کا قحط پڑا ہے تو اس نے تمام علاقے کو پوری طرح ویران کر کے رکھ دیا ۔ ایک دوسرے سے فاصلہ فاصلہ پر واقع دیہات اجڑ گئے اور ان میں سے اکثر کا نام و نشان تک ختم ہو گیا ۔ پوری آبادی یا تو ہلاک ہو گئی ۔ یا ترک سکونت کر گئی ۔ پورا علاقہ اس طرح ویران ہو گیا کہ چھوٹی آبادیوں کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا ۔ پورے علاقہ میں گنتی کی چند بڑی آبادیاں زندگی کاسلسلہ بمشکل برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکیں ۔ ویرانی اور بربادی کی یہ صورت پورے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٤) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٩٠٤ ص ١٩٣
 

نایاب

لائبریرین
(١٠١)


بارہ پندرہ سال پر پھیلے ہوئے طویل عرصے تک جاری رہی ۔ اس کے بعد کہیں جا کر اس علاقہ کی نئے سرے سے آباد ہونے کی صورت پیدا ہو سکی ۔
دوبارہ آبادی کے بعد نظام زمینداری
چالیسا قحط کے اثرات ختم ہونے لگے اور اس علاقہ میں پھر سے آبادی کا سلسلہ قائم ہوا تو دیہات میں بہت کم مقام ایسے تھے جہاں ان کے اصل باشندے واپس آئے ۔ اکثر و بیشتر جگہ نئے لوگوں نے ہی آبادیاں قائم کیں ۔ آبادیاں قائم ہونے کے ساتھ ہی کاشتکاری کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ۔ اس کے علاوہ زندگی بسر کرنے کا کوئی ذریعہ ہی موجود نہیں تھا ۔ مگر کاشتکاری کا طریقہ اب بھی وہی پرانا تھا ۔ زمین کی ملکیت کا کوئی نظام موجود نہیں تھا ۔ اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی ۔ ایک گاؤں کے قریب جو قابل کاشت زمین ہوتی تھی ۔ اسے گاؤں کے باشندے افہام و تفہیم کے ساتھ کاشت کر لیتے تھے ۔ اور حکومت کو مالیہ ادا کرنے کے لیے گھر کے افراد کے حساب سے یا مویشیوں کی ملکیت کے حساب سے یا اسی قسم کے کسی اور طریقہ سے رقم یا جنس اکٹھی کر لی جاتی تھی ۔ لیکن ان لوگوں کو حکومت کا مالیہ ادا کرنے کے ساتھ ان لٹیروں کے مطالبات بھی پورے کرنے پڑتے تھے ۔ جو گروہوں کی صورت اس علاقہ میں پھرتے رہتے تھے اور اس علاقہ کے لوگوں کے لیے عذاب کی صورت اختیار کئے ہوئے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ یہاں کے باشندے اپنا سارا سازوسامان چھوڑ کر بھی اپنی سکونت دوسری جگہ منتقل کر لینے کو غیر معمولی بات خیال نہیں کرتے تھے ۔
ٹھیکیداری
اس غیر یقینی اور لوٹ مار کی صورت حال کا نتیجہ یہ تھا کہ دوبارہ آبادی شروع ہونے کے باوجود یہ علاقہ دیر تک پوری طرح آباد نہ ہو سکا ۔ آخر ؁١٨١٠ میں یہ علاقہ انگریزوں کے قبضہ میں آیا اور انہوں نے آہستہ آہستہ اپنا قبضہ مستحکم کر لیا تو علاقہ کو باقاعدہ آباد کرنے کی جانب توجہ کی گئی ۔ چالیسا کے کال میں اجڑ جانے کے بعد جو دیہات اب تک غیر آباد چلے آرہے تھے انہیں آباد کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کچھ نئے دیہات بھی بسائے گئے ۔ ان دیہات کے آس پاس کی زمین اب مشترکہ ملکیت نہیں رہی ۔ بلکہ اب یہ زمین قطعات کی صورت میں الگ الگ ان کاشتکاروں کو دی گئی ۔ جو سرکاری مالیہ ادا کرنے کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار ہو گئے ۔ ایک زمین دار جس قدر زمین کا مالیہ ادا کرنے پر تیار ہوا اسے اتنی ہی زمین ایک معینہ مدت کے معاہدے پر دے دی گئی ۔ مگر اس زمانہ میں مالیہ کی ادائیگی کوئی آسان کام نہ تھا ۔ زمین سے پیداوار حاصل کرنے کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے ۔ اور مالیہ ادا کرنے کی ذمہ داری ایک دفعہ قبول کر لینے کے اس سے بچا نہیں جا سکتا تھا ۔ چنانچہ اس نظام کے تحت زمین کے مستقل حقوق حاصل کرنے پر بہت کم لوگ آمادہ ہو سکے ۔ (٥)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٥) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٩٠٤ ص ٢١٣ تا ٢١٦








(١٠٢)





بہر صورت علاقہ میں آبادی کی آہستہ آہستہ کچھ صورت پیدا ہونے لگی ۔ دیہاتوں میں کچھ لوگ مالیہ ادا کرنے کی ذمہ داری قبول کر کے یا اپنے اثرورسوخ کے باعث زمینوں کے مالک بن گئے ۔ وہ زمین کے اصل کاشت کاروں سے بٹائی وصول کرنے لگے ۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ قابل کاشت زمین کا حصول مشکل ہونے لگا ۔ کیونکہ اب زمین کی ملکیت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا ۔ اس طرح آخرکار وہ نظام وجود میں آ گیا جو زمینداری اور پٹہ داری کا نظام کہلاتا ہے ۔ اور اسی بنیاد پر ؁١٨٤٠-٤١ کا بندوبست کیا گیا ۔ یہ انگریز حکومت کے تحت اس علاقہ کا پہلا بندوبست تھا ۔ اس بندوبست کی رو سے وہ تمام لوگ زمین کے مالک قرار پائے جو زمین کا مالیہ ادا کرتے تھے ۔ پٹے دار اس شخص کو قرار دیا گیا جو آبائی جائیداد میں آمدنی کا حصہ دار تھا ۔ ان زمینداروں اور پٹہ داروں کو حکومت نے زمین کا مالک قرار دیتے وقت کچھ کڑی شرایط کا پابند کیا تھا ۔ اور ان شرائط کا پورا کرنا انہوں نے قبول کیا تھا ۔ اس معاہدہ کو اصطلاحاً “ ٹھیکیداری “ کا نام دیا گیا اور یہ زمیندار اور پٹہ دار بعد میں ہمیشہ “ ٹھیکیدار “ کہلائے ۔ (٦)
بھائی چارہ یا شاملات
چالیسا کے کال کے نتیجہ میں سرسہ کو چھوڑ کر ضلع حصار کی چار تحصیلوں میں صرف ڈیڑھ سو دیہات ایسے تھے جو آباد رہ سکے تھے ۔ باقی تمام گاؤں اجڑ کر ویران ہو گئے تھے ۔ بعد میں جب اجڑے ہوئے دیہات کو نئے سرے سے آباد کیا گیا یا جو نئے گاؤں بسائے گئے وہاں زمینداری کا “ ٹھیکیداری “ نظام قائم ہوا ۔ البتہ جو دیہات اور قصبے اس قحط کے دوران آباد رہے تھے اور اجڑنے سے بچ گئے تھے ۔ ان پر بعد میں بھی حکومت کے واجبات مجموعی طور پر لاگو کیے جاتے رہے ۔ ظاہر ہے کہ زمین کی اس زمانہ میں قلت نہیں تھی ۔ ہر گھرانہ اپنی مرضی اور ہمت کے مطابق رقبہ کاشت کر سکتا تھا ۔ اس کے زیر کاشت جتنی زمین ہوتی تھی اسی کے مطابق حکومت کے واجبات میں اپنا حصہ ادا کرنے کا ذمہ دار ہوتا تھا ۔ اس طرح ان دیہات اور قصبوں میں زمین کسی کی شخصی ملکیت نہیں ہوتی تھی ۔ البتہ صرف کاشت کی غرض سے الگ الگ گھرانوں کے قبضہ میں زمین کے مختلف قطعات ہوتے تھے ۔ اس لیے اس قسم کے دیہات کو “ بھائی چارہ “ یا “ شاملات “ کے دیہات کہا جاتا تھا ۔ (٧)
بسوے دار
یہ صورت حال کچھ عرصہ برقرار رہی تو یہ ہوا کہ کاشت کار خاندانوں کے لیے زمین کے وہ مختلف ٹکڑے مخصوص ہو گئے جہاں وہ کاشت کرتے تھے ۔ اور گاؤں کی تمام آبادی ان ٹکڑوں پر ان خاندانوں کے کاشت کے حقوق تسلیم کرنے لگی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کاشت کہ یہ حقوق ملکیت کے حقوق میں تبدیل ہو گئے ۔ مگر یہ ملکیت مشترکہ تھی ۔ یعنی زمین کسی فرد کی نہیں بلکہ خاندان کی ملکیت قرار پائی ۔ اور خاندان کو بھی یہ حق حاصل نہیں تھا کہ اپنی ملکیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٦) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٩٠٤ ص ٢١٣ تا ٢١٦
(٧) ایضاً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ص ٢١٦ تا ٢١٧
 

نایاب

لائبریرین
(١٠٣)

کو گاؤں کے باہر کسی کو فروخت کر سکے ۔ ایسا کرنے کی صورت میں زمین گاؤں والوں کو واپس مل جاتی تھی ۔ اس قسم کی غذائی ملکیت کو ؁١٨٤٠۔٤١ کے بندوبست میں تسلیم کیا گیا ۔ بلکہ اس بندوبست میں یہ اہتمام کیا گیا کہ گاؤں کی آباد زمین میں گاؤں کے کاشت کار خاندان جس نسبت سے حصہ دار قرار پائے اس نسبت سے گاؤں کی غیر آباد زمین بھی ان خاندانوں کی مشترکہ ملکیت قرار دی گئی ۔ ایسے مالکان کو “ بسوے دار “ کا نام دیا گیا ۔ (٨)
پانہ اور ٹھلہ
بھائی چارہ کے دیہات میں کئی جگہ یہ صورت حال پیدا ہوئی کہ زمین کو آباد کرنے والا خاندان ایک ہی تھا ۔ بعد میں اس خاندان میں وسعت آئی اور افراد کی تعداد بڑھی تو زیر کاشت زمین میں بھی اضافہ ہو گیا ۔ ہوتے ہوتے یہ ایک ہی خاندان کئی حصوں میں تقسیم ہو گیا ۔ اور زمین کی کاشت کے لیے بھی اس نے اپنے الگ الگ حصے مقرر کر لیے ۔ اس قسم کے حصوں کو “ پانہ“ کا نام دیا جاتا تھا ۔ آبادی میں مزید اضافہ ہونے پر جب “پانہ“ کے حصے کو بھی مزید تقسیم کیا گیا تو اس کے ہر جزو کو “ٹھلہ“ کا نام دیا گیا ۔ گویا زمین اول اول تمام گاؤں کی مشترکہ ملکیت شمار ہوتی تھی ۔ اس کے بعد اس کی ملکیت “پانہ“ میں تقسیم ہوئی ۔ اس کے بعد مزید تقسیم سے “ٹھلہ“ وجود میں آیا ۔ اور آخر کار یہ ملکیت “خاندان “ میں منتقل ہو گئی ۔ البتہ بعض اوقات ایسا ہوا کہ اس گاؤں کے ابتدائی باشندوں کے علاوہ بعد میں کوئی اور گروہ آ کر یہاں آباد ہو گیا اور اسے علیحدہ پانہ قرار دیا گیا ۔
زمین خاندانوں کی ملکیت میں آئی تو خاندانوں سے آگے چولہوں میں تقسیم ہوئی ۔ اور خاندان کے ہر چولہے کی ملکیت الگ قرار پائی ۔ آخر ہوتے ہوتے زیرکاشت زمین انفرادی ملکیت کی حیثیت اختیار کر گئی ۔ مگر غیر آباد زمین بدستور شاملات کی حیثیت سے مشترکہ ملکیت میں رہی ۔ (٩)
بعد کے قحط
ہریانہ کے علاقہ میں چالیسا کا کال تو اس قدر خوفناک تھا کہ بعد میں اسے ہمیشہ خوف و دہشت کے حوالہ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ۔ لیکن اس علاقہ کے لیے خشک سالی اور قحط کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی ۔ اکثر و بیشتر ایسی صورت پیدا ہو جاتی تھی کہ قحط کے حالات پیدا ہو جاتے تھے ۔ انگریزوں کی حکمرانی مستحکم ہو جانے کے بعد بھی یہ صورت حال اکثر پیدا ہوتی رہی ۔ اس کا ایک سرسری سا جائزہ درج ذیل ہے ۔
؁١٨٦٠۔٦١ میں بارش نہ ہونے کے برابر تھی ۔ چنانچہ دونوں فصلیں ناکام ہو گئیں اور قحط پڑ گیا ۔ جنوری ؁١٨٦٠ میں جو آٹا ایک روپیہ کا چوبیس سیر ملتا تھا وہ جنوری ؁١٨٦١ میں ایک روپیہ کا نو سیر ہو گیا ۔ چنانچہ لوگوں نے علاقہ سے ہجرت کرنی شروع کر دی ۔ اندازہ ہے کہ اس قحط میں ١٩٢ افراد اور ٣٨٠٠٠ مویشی ہلاک ہو گئے ۔ ٣١٤٠٠ آدمیوں اور ٤٧٥٠٠ مویشیوں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٨) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٩٠٤ ص ٢١٦ تا ٢١٧
(٧) ایضاً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ص ٢١٦ تا ٢١٧



(١٠٤)



ضلع سے نقل مکانی کر کے دوسرے علاقوں میں پناہ حاصل کی ۔
؁١٨٦٩۔٧٠ میں اس علاقہ کو پھر قحط کی مصیبت سے دوچار ہونا پڑا ۔ بارشیں نہ ہونے کے سبب جنوری ؁١٨٦٨ میں روپیہ کی بیس سیر بکنے والی گندم اسی سال اکتوبر میں روپیہ کی گیارہ سیر بکنے لگی اور جنوری ؁١٨٦٩ میں روپیہ کی آٹھ سیر ہو گئی ۔ جوہڑ سب سوکھ گئے ۔ کنوؤں کا پانی کم ہو گیا ۔ اور یہ قحط ؁١٨٦٠۔٦١ کے قحط کی نسبت شدید ثابت ہوا ۔ اس قحط کی سب سے زیادہ شدت تحصیل بروالہ کو برداشت کرنا پڑی ۔
اس کے بعد ؁١٨٧٧۔٧٨ ، ؁١٨٩٥۔٩٦ ، اور ؁١٩٠٣۔٤ میں بھی اس علاقہ میں شدید قحط پڑے ۔ (١٠) اور بعد میں بھی حالات جوں کے توں ہی رہے ۔ یہاں تک کہ ؁١٩٣٦ میں بھی یہ علاقہ ایک سخت قحط سے دوچار ہوا ۔ اس طرح پتہ چلتا ہے کہ یہ علاقہ کم از کم دو سو سال سے زیادہ عرصہ تک مسلسل قحط ، خشک سالی ، اور بد حالی کا شکار رہا ۔ انگریزوں کے قبضہ کے بعد اگرچہ نہر جمن غربی کی مرمت کرا دی گئی تھی ۔ مگر اس سے بہت کم رقبہ سیراب ہوتا تھا ۔ اور علاقہ کی ضروریات اس سے پوری نہیں ہوتی تھیں ۔ البتہ انگریز حکومت قحط کے زمانہ میں ایسے کام شروع کرا دیتی تھی کہ لوگ وہاں محنت مزدوری کر کے پیٹ بھرنے کا بندوبست کر سکیں ۔ مثلا پنجاب کے دوردراز علاقوں میں بھی سڑکوں کی تعمیر ، نہروں کی کھدائی ، اور اسی قسم کے کاموں پر حصار کے لوگ قحط کے زمانے میں آکر مزدوری کیا کرتے تھے ۔ ؁١٩٣٦ کے قحط کے دوران بروالہ کے تالاب سدھانی کی کھدائی اور صفائی کا کام اسی سلسلہ میں کرایا گیا تھا ۔ اس طرح کے کاموں کو “مدد“ کہا جاتا تھا ۔ یعنی حکومت صرف لوگوں کی مدد کرنے کے لیے یہ کام کرا رہی ہے ۔ “مدد“ کے علاوہ امدادی کیمپ بھی قائم کیے جاتے تھے ۔ قحط گزر جانے کے بعد لوگوں کو تقادی قرضے بھی دیئے جاتے تھے ۔ ان تدابیر کے باعث علاقہ مکمل تباہی سے بچ رہتا تھا ۔ مگر اس علاقہ کی حالت مستقل طور پر نہیں سدھر سکی ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٠) Famine Report on Punjab . 1897-1900





(١٠٥)

معاشرتی حالات
رقبہ
بروالہ سیداں ایک بہت قدیم اور بہت بڑا قصبہ تھا ۔ اس کا کل رقبہ پینتیس ہزار ایکڑ پر مشتمل تھا ۔ تمام رقبہ بارانی تھا ۔ اس لیے پیداوار کا انحصار بارش پر تھا ۔ شاملات کا قصبہ تھا ۔ ایک ہزار ایکڑ شاملات دیہہ کی زمین قصبہ کے اردگرد موجود تھی ۔ پانچسو ایکڑ چراہ گاہ کی زمین اس کے علاوہ تھی جو رفاہ عامہ کے لیے استعمال ہوتی تھی ۔ اس وسیع چراہ گاہ کے باعث مویشیوں کی پرورش میں بڑی آسانی تھی ۔ پیشہ ور رکھوالے موجود تھے جو اپنے ذمہ کے مویشیوں کو مختلف گھروں سے اکھٹا کر کے چراہ گاہ لے جاتے تھے اور تمام دن چرانے کے بعد شام کو واپس چھوڑ جاتے تھے ۔ وہ اس کام کا معاوضہ ماہانہ بنیادوں پر وصول کرتے تھے ۔
محلے
بروالہ سیداں ایک بڑا قصبہ ہونے کے باعث چار محلوں میں تقسیم تھا ۔ ان محلوں کے نام یہ تھے ۔
١۔۔ کالا پانہ ٢۔۔۔ گورا پانہ ٣ ۔۔۔ اسماعیل پانہ ٤ ۔۔۔۔ کوئلہ یا گڑھی
اس کے علاوہ متفرقات کی آبادی تھی ۔ ان میں سے اول الذکر تین محلوں میں آبادی کی اکثریت سیدوں کی تھی ۔ ایک روایت کے مطابق سادات خاندان کے دو بھئیوں کو کالا اور گورا کہا جاتا تھا ۔ ان کے خاندان الگ الگ ہو کر آباد ہو گئے تو ان کے نام پر دو محلے بن گئے ۔ ان دونوں کا بھانجہ اسماعیل نام کا تھا ۔ اس نے ایک نیا محلہ آباد کیا جو اس کے نام پر اسماعیل پانہ کہلایا ۔ ان محلوں میں سیدوں کے علاوہ کچھ برہمن بنئیے بھی آباد تھے ۔ کوئلہ میں بھی اگرچہ کچھ سادات گھرانے موجود تھے ۔ مگر یہاں زیادہ آبادی ڈوگروں کی تھی ۔ ڈوگر اس قصبے کے رقبہ میں پتی دار تھے ۔ اس محلہ میں ہندو مہاجنوں ، برہمنوں ، اور سناروں کے بھی کچھ گھر آباد تھے اس کے علاوہ ہندو مالیوں کی بھی کچھ آبادی تھی ۔ قصائی ، منیار ، لوہار ، بڑھئی ، کمہار ، نائی ، دھوبی ، تیلی ، وغیرہ پیشہ ور لوگ مختلف محلوں اور متفرقات میں آباد تھے ۔
ذاتیں
بروالہ سیداں میں آبادی کی اکثریت نقوی بخاری سادات کی تھی ۔ بلکہ تمام ضلع حصار میں سادات کی آبادی صرف اسی قصبہ میں تھی ۔ یہاں کے علاوہ صرف ہانسی میں دو گھرانے سیدوں کے تھے اور وہ بھی کچھ عرصہ قبل بروالہ سے ہی نقل مکانی کر کے وہاں جا آباد ہوئے تھے ۔ اس کے علاوہ تمام ضلع میں سیدوں کا کوئی گھرانہ موجود نہیں تھا ۔ بروالہ میں ملکیت بھی قریب قریب ساری سادات کی ہی تھی ۔ اس لیے یہ قصبہ “ بروالہ سیداں “ کہلاتا تھا ۔ سیدوں کے علاوہ مسلمانوں میں سے یہاں ڈوگر ، قائم خانی راجپوت ، پٹھان ، حجام ، میراثی ، لوہار ، بڑھئی ، دھوبی ، تیلی ، کمہار ، وغیرہ آباد تھے ۔ ہندؤں میں سے برہمن اور بنیوں کے بہت سے گھرانے موجود تھے ۔ اس کے علاوہ ہندو مالی ، کھٹیک ، ہیڑی ، چمار وغیرہ آباد تھے ۔ جمعدار ہندو بھی تھے اور عیسائی بھی ۔ اکثر آبادی مسلمانوں کی تھی ۔ ہندو بہت کم تھے۔ مسلمان بھی قریباً سب حنفی العقیدہ تھے ۔ شیعہ عقیدہ رکھنے والے صرف دو تین گھرانے تھے ۔ ایک دو اسماعیل پانہ میں اور ایک کالا پانہ میں ۔ باقی تمام اہل سنت والجماعت تھے ۔
بروالہ سیداں کے اردگرد کے دیہات کی آبادی میں غالب اکثریت جاٹوں اور راجپوتوں کی تھی ۔ جاتوں میں اکثریت ہندؤں کی تھی ۔ مسلمان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





(١٠٦)
جاٹ کم تھے ۔ مگر راجپوتوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی ۔ ہندو راجپوت کم تھے ۔
پیشے
بروالہ سیداں کے سادات تمام کے تمام زراعت پیشہ تھے اور ان کے گزر بسر کا انحصار اسی کام پر تھا ۔ گھر سے دور جانے اور ملازمت اختیار کرنے کو عام طور سے عار خیال کیا جاتا تھا ۔ اس کے باوجود کچھ لوگوں نے ملازمت کا شغل اختیار کیا تھا ۔ مگر ان کی تعداد بہت کم تھی ۔ یہ لوگ فوج پولیس تعلیم اور مال کے محکموں میں ملازمت کرتے تھے ۔ مگر ان میں سے کوئی شخص کسی اعلی عہدہ تک نہیں پہنچا ۔ تجارت اور کاروبار کے سارے کام پر ہندو بنئیوں کی اجارہ داری تھی ۔ دوسرے پیشوں کے لوگ اپنے پیشوں کے مطابق محنت مزدوری کرتے تھے ۔
لباس
بروالہ سیداں کے باشندوں میں سے مسلمان مردوں کا لباس عام طور سے کرتہ یا قمیض کے ساتھ تہمد اور سر پر صافہ یا پگڑی اور دیسی جوتی پر مشتمل ہوتا تھا ۔ شلوار تقریباتی لباس تھا جو کہیں آتے جاتے وقت پہنا جاتا تھا ۔ اس کے ساتھ دیسی جوتی کی جگہ بوٹ یا گرگابی پہنی جاتی تھی ۔ ہندو مرد دھوتی اور کرتہ استعمال کرتے تھے ۔ مسلمان عورتیں قمیض اور تنگ پاجامہ پہنتی تھیں ۔ بعد میں پاجامہ کی جگہ شلوار بھی پہنی جانے لگی ۔ ہندؤں میں اعلی ذات کی عورتیں عموماً ساڑھی استعمال کرتی تھیں ۔ نیچی ذات میں چولی اور گھاگھرا پہنی جاتی تھی ۔ ننگے سر رہنا معیوب خیال کیا جاتا تھا ۔ سادات کی خواتیں پردہ کی سخت پابند تھیں ۔ ہندؤں کی اعلی ذاتوں میں بھی پردہ کا لحاظ رکھا جاتا تھا ۔
سواریاں
چھوٹے موٹے فاصلے یعنی پانچ دس میل کا سفر لوگ عمومااً پیدل ہی طے کر لیا کرتے تھے ۔ ضرورت پڑنے پر گھوڑے اور اونٹ کی سواری زیادہ مقبول تھی ۔ ایک دو پہیوں والی سواری “ ریڑھو“ کہلاتی تھی ۔ اس میں دو بیل جوتے جاتے تھے ۔ اور آٹھ دس تک آدمی اس میں سوار ہو سکتے تھے ۔ مسلمان خواتین کے لیے عمومااًیہی سواری استعمال ہوتی تھی اور اس مقصد کے لیے اس پر چادریں وغیرہ باندھ کر باپردہ بنا لیا جاتا تھا ۔ باربرداری کے لیے اونٹ ، گدھے ، اور گڈے استعمال ہوتے تھے ۔ گڈے کو وہاں کی مقامی زبان میں “ لڈھا “ کہا جاتا تھا ۔ راستے اور سڑکیں تمام کچے تھے ۔ ان سڑکوں پر کبھی کبھار کوئی لاری بھی چلنی شروع ہو جاتی تھی ۔ کالا پانہ کے سید حسن علی کے ایک دو گھرانوں کے پاس کچھ عرصہ کاریں بھی رہیں تھیں ۔
گھروں کی ساخت
بروالہ سیداں میں مکانات پختہ تعمیر کے تھے ۔ جب کہ اس علاقہ میں پختہ تعمیرات بہت کم اور خال خال تھیں ۔ اس قصبہ کی پختہ عمارتیں اکثر و بیشتر چھوٹی اینٹوں سے بنی ہوئی تھیں ۔ سادات گھرانوں کی عمارتیں وسیع اور کشادہ تھیں اور حویلیاں کہلاتی تھیں ۔ ان کے بیرونی دروازے بہت بلندوبالا محراب کی شکل کے ہوتے تھے ۔ مردانہ حصے میں بیٹھک ، صحن اور مہمان خانہ شامل ہوتا تھا ۔ زنانہ حصے میں کھلا صحن ، رہائیشی کمرے ، باورچی خانہ ، غسل خانہ اور سٹور شامل ہوتے تھے ۔ اناج سٹور کرنے کے لیے خصوصی کوٹھے اور کٹھلے بنائے جاتے تھے ۔ کیونکہ جس گھر میں جتنا زیادہ اناج موجود ہوتا تھا وہ اسی قدر خوشحال شمار ہوتا تھا ۔ اکثر اوقات اناج ہی کرنسی کے طور پر استعمال ہوتا تھا ۔ اناج سٹور کرنے کے لیے بنائے جانے والے کوٹھوں کو “بخاری“ کہا جاتا تھا ۔ ہندو گھروں کی عمارتیں تنگ پیچدار اور اندھیری ہوتی تھیں ۔ مگر زیادہ بلند وبالا بنائی جاتی تھیں ۔ غریب لوگوں کے گھر چھوٹے تھے لیکن پختہ وہ بھی تھے ۔
تفریحات
تفریحی مشاغل کے لیے بچوں میں وہ تمام کھیل رائج تھے جو پنجاب کے دیہات میں عام طور سے کھیلے جاتے ہیں ۔ گلی ڈنڈا ، لکھن چھپائی ، موناکیاری ، بیجو باندری ، کھدو کھونڈی ، جیسے کھیل کھیلے جاتے تھے ۔ نوجوانوں میں کبڈی کا کھیل بہت مقبول تھا ۔ سکولوں میں والی بال کا کھیل سب سے زیادہ پر کشش تھا ۔ اس کے علاوہ ہاکی اور فٹ بال بھی کھیلے جاتے تھے ۔ گھوڑے کی سواری عام تفریح تھی ۔ شکار کا شغل بھی عام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ً
 

نایاب

لائبریرین
(١٠٧)


تھا ۔ جنگلی جانوروں کی کثرت تھی ۔ ہنٹر کا بیان ہے (١) کہ ؁١٨٣٠ تک اس علاقہ میں شیر بھی پائے جاتے تھے ۔ اور اس کی کتاب لکھی جانے کے زمانہ یعنی ؁١٨٨٦ تک کہیں کہیں چیتے مل جاتے تھے ۔ دوسرے جانور مثلا لگڑ بھگا ، بھیڑیئے ، سور ، جنگلی مرغی ، کالے تیتر ، خرگوش ، اور بٹیر وغیرہ بڑی بہتات سے ملتے تھے ۔ خاص طور پر ہرن کا شکار بہت کثرت سے ملتا تھا ۔ اس لیے ہرن کا شکار کھیلنے کے لیے صاحب وسیلہ لوگ دور دور سے یہاں آیا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ وقت گزاری کے مشاغل میں تاش ، چوسر ، شطرنج شامل تھے ۔ قصبہ میں جگہ جگہ ان مشاغل کی منڈلیاں جمی ہوتی تھیں اور عام طور پر ان میں بہت دلچسپی لی جاتی تھی ۔ لوگوں کے پاس کام کم اور وقت زیادہ تھا ۔ اس لیے ان مشاغل کو اہمیت حاصل تھی ۔
کھیلوں کے علاوہ دوسرے تفریحی مشاغل میں وہ کھیل تماشے شامل تھے جو مختلف سفری جماعتیں دکھاتی پھرتی تھیں ۔ ان میں مداری کا تماشا تو عام تھا جو بنسری اور ڈگڈگی کے سہارے اپنے فن کا مظاہرہ کرتا تھا ۔ نٹ اور بازی گر بھی اپنے کرتب دکھانے آتے رہتے تھے ۔ ان میں ایسے باکمال بھی تھے جو آٹھ دس فٹ بلندی پر بندھے ہوئے رسے پر چل کر دکھاتے تھے یا آٹھ آٹھ فٹ کے بانسی پاؤں دونوں پاؤں کے ساتھ باندھ کر قصبے کے بازاروں میں پھر کرتے تھے ۔ ان سفری جماعتوں میں سب سے زیادہ مقبول وہ ناچ منڈلیاں تھیں جو عوامی داستانوں کو غنائی ڈراموں کی شکل میں پیش کرتی تھیں ۔ اس پروگرام کو “ناچ“ یا “سانگ“ کہا جاتا تھا ۔ کیونکہ اس کی سب سے پرکشش چیز اس خوبرو لڑکے کا ناچ ہوتا تھا جسے وہ زنانہ بھیس میں پیش کرتا تھا ۔ یہ پروگرام رات رات بھر جاری رہتا تھا ۔ اور جس گاؤں میں ایسی کوئی منڈلی پہنچ جاتی تھی ۔ اردگرد کے دیہاتوں کے نوجوان رات ہوتے ہی اس سمت امڈ پڑتے تھے ۔ اس منڈلی کے تمام ارکان مرد ہوتے تھے اور زنانہ کردار بھی وہی ادا کرتے تھے ۔
مذہبی تہوار بھی بڑے جوش و خروش سے منائے جاتے تھے ۔ عیدین پر بڑا جشن کا سماں ہوتا تھا ۔ اور اس کی رونق دو تین دن جاری رہتی تھی ۔ شب برات بڑے زوروشور سے منائی جاتی تھی ۔ اور آتش بازی وغیرہ کا خوب اہتمام کیا جاتا تھا ۔ محرم کی رسومات میں سب شریک ہوتے تھے ۔ تعزیہ داری صرف شیعہ گھرانے کرتے تھے مگر اس میں شمولیت سب کی ہی ہوتی تھی ۔ ہندؤں کے تہوار دیوالی ، دسہرہ ، ہولی وغیرہ بھی پورے جوش وخروش سے منائے جاتے تھے اور ان میں ہندؤں کے ساتھ مسلمان بھی شریک ہوتے تھے ۔ خاص طور پر دسہرہ کے موقع پر رام لیلا کی رسم بڑی پر رونق ہوتی تھی ۔
شادی بیاہ کی رسومات
یوں تو برصغیر میں تمام مسلمان خاندانوں میں ان رسوم و رواج پر عمل کیا جاتا تھا ۔ جو ہندو معاشرہ کے اثرات کی پیداوار تھے مگر ہریانہ کے علاقہ میں چونکہ ہندو جاٹوں اور ہندو راجپوتوں کا بڑا اثر تھا ۔ اس لیے یہاں کے رسم و رواج پر ہندوانہ چھاپ کچھ زیادہ ہی گہری تھی ۔ بروالہ سیداں میں بھی یہی رسمیں ادا کی جاتی تھیں ۔ شادی بیاہ کا طریقہ یہ تھا کہ دو گھرانوں کے درمیان رشتہ طے کرانے کا کام نائی یا میراثی کرتے تھے ۔ خواہ یہ گھرانے آپس میں رشتہ دار اور نزدیکی ہی ہوتے تھے ۔ ہونے والے دلہا کے گھرانے کی جانب سے نائی یا میراثی رشتہ کا پیغام لے کر جاتا تھا تو اس کے ہاتھ میں کسی درخت کی سبز ٹہنیاں ہوتی تھیں ۔ جو رشتہ قبول ہونے کی صورت میں دلہن کے گھر کے باہر والے دروازے پر باندھ دی جاتی تھیں ۔ اس کے بعد دلہن کا باپ اپنے نائی کو دلہا کے گھر بھیجتا تھا ۔ جو وہاں جا کر دلہا کے کپڑے اور کچھ نقدی پیش کرتا تھا ۔ اور مٹھائی تقسیم کرتا تھا ۔ درمیان میں ایک تھالی رکھ دی جاتی تھی جس کے اندر وہاں موجود لوگ کچھ پیسے ڈالتے تھے ۔ یہ نائی کا نیگ کہلاتا تھا ۔ دلہا کا باپ بھی اسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) W.W.Hunter. Imperial Gazetteer of India . London 1885 P



(١٠٨)

کچھ پیسے اور کپڑے دیتا تھا ۔ اس رسم کو “روپنا“ کہا جاتا تھا ۔ اس کے جواب میں دلہا کا باپ اپنے نائی کو ساتھ لے کر دلہن کے باپ کے پاس جاتا تھا اور دلہن کے لیے ایک جوڑا اور ہنسلی پیش کرتا تھا ۔ اس طرح منگنی کی رسم پوری ہو جاتی تھی ۔ (٢)
نکاح کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے دلہن کا باپ اپنے نائی کو ایک خط اور دلہا کے لیے جوڑا دے کر دلہا کے باپ کے پاس بھیجتا تھا ۔ تاریخ مقرر ہو جانے پر شادی کی تیاریاں شروع ہو جاتی تھیں اور ان تیاریوں میں یہ بات بھی شامل تھی کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کو اپنے اپنے گھر میں پابند کر دیا جاتا تھا ۔ اسے “مائیوں بٹھانا“ کہا جاتا تھا ۔ انہیں روزانہ ابٹن ملا جاتا تھا ۔ جسے “بان “ ملنا کہتے تھے ۔ پیلے کپڑے پہنائے جاتے تھے ۔ میلا کچیلا رکھا جاتا تھا ۔ کلائی میں پہنچی یا کنگن ڈالا جاتا تھا ۔ دلہا کو اپنے ہاتھ میں لوہے کی چھڑی لیے رہنے کو کہا جاتا تھا ۔ اور عزیزواقارب میں اس کی دعوتیں کی جاتی تھیں ۔(٣)
برات سے ایک دن قبل دونوں گھرانے اپنے عزیزوں ، رشتہ داروں ، دوستوں اور برادری والوں کی دعوت کرتے تھے اور ان سے نیوتہ اکٹھا کیا جاتا تھا ۔ نیوتہ کی رسم گویا ایک چندہ اکٹھا کرنے کی رسم تھی ۔ یہ قرض کی شکل میں ہوتا تھا ۔ زید اگر بکر کے ہاں کسی تقریب میں سو روپیہ نیوتہ دے کر آتا تھا تو جب زید کے ہاں کوئی ایسی تقریب ہوتی تو بکر کے لیے ضروری ہوتا تھا کہ اس تقریب پر پہنچے اور زید کی رقم چند زائد روپوں کے ساتھ واپس کرے ۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا تھا ۔ اور اس کا باقاعدہ حساب رکھا جاتا تھا ۔ حساب بیباق کرنے کے لیے وہی پوری رقم واپس کر دی جاتی تھی ۔ جو نیوتہ کے قرض کے طور پر واجب الادا ہوتی تھی ۔ بعض اوقات اتنی زائد رقم لینے سے انکار کر دیا جاتا تھا جسے واپس ادا کرنا مشکل معلوم ہو ۔ (٤)
برات آنے سے ایک دن قبل دلہن کا ماموں “ بھات) لے کر پہنچتا تھا ۔ بھات میں دلہن کے لیے کپڑے ، زیورات ، کچھ برتن بھانڈے اور دیگر قیمتی اشیا~ ہوتی تھیں ۔ اس کے علاوہ بھات لانے والا اپنی بہن بہنوئی ، ان کی تمام اولاد اور دیگر عزیزوں کے لیے بھی کپڑے کے جوڑے بھات میں لاتا تھا ۔ (٥)
برات کی روانگی سے قبل دلہا کو نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنا کر اس کی سہرہ بندی کی جاتی تھی ۔اس موقع پر سب حاضرین اسے سلامی دیتے تھے ۔ یہ سلامی کی رقم بھی قرض شمار کی جاتی تھی ۔ اور اس کا بھی حساب رکھا جاتا تھا ۔ اسی موقع پر دلہا کے کسی چھوٹے بھائی ، بھانجے ، یا کسی عزیز بچے کو شہ بالا بنا کر ساتھ بٹھایا جاتا تھا ۔ اس نے بھی نئے کپڑے پہنے ہوتے تھے اور سہرا باندھا ہوتا تھا ۔ سلامی دینے والے اسے بھی کچھ پیسے دیتے تھے اور ساتھ نائی کی تھالی میں بھی روپیہ دو روپیہ ڈالتے جاتے تھے ۔ اس تمام رقم کا الگ الگ حساب رکھا جاتا تھا ۔ سلامی کی رسم کے بعد دلہا کو گھوڑے پر سوار کیا جاتا تھا ۔ اس کے پیچھے شہ بالا کو بٹھا دیا جاتا تھا ۔ ان کے اوپر ایک سرخ ڈوپٹہ ڈال دیا جاتا تھا ۔ اور باقاعدہ جلوس کی صورت اسے تما گاؤں میں پھرایا جاتا تھا ۔ اس کے بعد برات روانہ ہوتی تھی ۔ دلہن کے گاؤں کے قریب پہنچ کر بارات رک جاتی تھی ۔ اور جب تک اسے لینے کے لیے دلہن کے بزرگ نہیں پہنچ جاتے تھے رکی رہتی تھی ۔ یہاں براتیوں کو شربت پلایا جاتا تھا اور دلہن کا والد برات کے ساتھ آنے والے نائیوں اور میراثیوں کو پیسے دیتا تھا ۔ اس کے بعد برات کو گاؤں کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٢) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٩٠٤ ص٦٣
(٣) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٩٠٤ ص٦٣
(٤) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٩٠٤ ص ٦٤
(٥) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٩٠٤ ص٦٤



(١٠٩)

اندر لے جا کر کسی کھلے مکان میں ٹھہرایا جاتا تھا ۔ دلہا کے بری کے طور پر کپڑے زیور اور میوہ ساتھ لائے ہوتے تھے ۔ وہ دلہن کے گھر بھجوا دیا جاتا تھا ۔ اہتمام یہ کیا جاتا تھا کہ برات دن چھپنے سے تھوڑی دیر قبل دلہن کے گاؤں پہنچے ۔ دن چھپنے کے بعد دلہا اپنے بزرگوں کے ساتھ دلہن کے گھر جاتا تھا ۔ وہاں نکاح خوانی کی رسم ادا ہوتی تھی ۔ ایجاب و قبول کے بعد دلہا کے بزرگ اپنے ساتھ لائے ہوئے چھوہارے حاضرین کی جانب پھینکتے تھے جو لوگ چن لیتے تھے ۔ نکاح کے وقت دلہن وہ جوڑا پہنتی تھی جو اس کے لیے بری میں آتا تھا یا بھات میں اس کا ماموں لے کر آیا ہوتا تھا ۔ نکاح کے بعد برات کو کھانا کھلایا جاتا تھا ۔
برات کو دو دن ضرور روکا جاتا تھا ۔ نکاح سے اگلے دن دونوں وقت کا کھانا دلہن کے گھر سے دیا جاتا تھا ۔ اس کے بعد ایک وقت کے لیے دلہن کے کوئی اور بزرگ برات کو روک لیتے تھے ۔ پھر کوئی اور بزرگ اس عمل کو دہراتے تھے ۔ اور اس طرح بعض اوقات کئی کئی دن رکی رہتی تھی ۔ رخصت کے وقت جہیز کے سامان کو پھیلا کر سجادیا جاتا تھا ۔ اس میں کپڑے زیور ، بستر ، برتن ، پلنگ ، پیڑھا ، اور گھریلو استعمال کی قریبا تمام اشیا شامل ہوتی تھیں ۔ جہیز کو سب لوگ دیکھ لیتے تو اس کی فہرست دلہا کے بزرگوںکے سپرد کر دی جاتی تھی کہ اب یہ سامان ان کا ہے ۔ اسے سمیٹ کر سنبھال لیں اور لے جانے کا بندوبست کریں ۔ جہیز میں دلہا کی سواری کا جانور اور ایک دودھ والا جانور ضرور شامل ہوتا تھا ۔ (٦)
رخصتی سے قبل دلہا کو اپنی سسرال کے گھر کے اندر جانا ہوتا تھا ۔ یہاں کئی رسمیں ادا کی جاتی تھیں ۔ جن میں دلہا کو اپنی سالیوں سے پیسے دے کر جان چھڑانی پڑتی تھی ۔ اس کے بعد ہی وہ اپنی دلہن کو لے کر باہر نکل سکتا تھا ۔ رخصتی سےقبل دلہا کے بزرگ اپنے سمدھیانے کے نائیوں ، میراثیوں کو پیسے دیتے تھے اور گاؤں کی مسجد کے لیے بھی پیسے دئیے جاتے تھے ۔
دلہا جب اپنی دلہن کو لے کر گھر واپس پہنچتا تو یہاں اس کی بہنیں گھر کا دروازہ روک لیتی تھیں اور بغیر کچھ وصول کیے اسے اندر نہیں آنے دیتی تھیں گھر کے اندر داخل ہونے پر اس کے راستہ میں تیل ڈالا جاتا تھا ۔ اسے ایک نیک شگون سمجھا جاتا تھا ۔ اور اس کے عوض بھی کوئی تحفہ یا پیسے وصول کیے جاتے تھے ۔ غرض یہاں دلہا کی بہنیں کئی چھوٹی چھوٹی رسمیں ادا کرتی تھیں اور ہر رسم پر انہیں دلہا سے پیسے یا تحفے وصول ہوتے تھے ۔ یہ تحفے عموما دودھ والے جانور کی صورت میں ہوتے تھے ۔
دوسرے دن دلہن کی منہ دکھائی کی رسم ادا کی جاتی تھی ۔ دلہا کی تمام عزیز رشتہ دار عورتیں اکٹھی ہوتی تھیں ۔ دلہن ایک جانب گھونگھٹ نکالے بیٹھی ہوتی تھی ۔ عورتیں باری باری گھونگھٹ ہٹا کر اس کا منہ دیکھتی تھیں ۔ اس کے حسن کی تعریف کرتی تھیں ۔ اور سلامی کے طور اسے پیسے دیتی تھیں ۔ اس کے بعد “گوت کھلائی “ رسم ادا کی جاتی تھی ۔ اس طریقہ سے گویا دلہن کو دلہا کے قبیلے یا گوت کا فرد بنا لیا جاتا تھا ۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ کوئی میٹھی چیز کھیر کی قسم پکائی جاتی تھی ۔ اور ایک بڑی تھالی یا سینی میں ڈال کر بیچ میں رکھ دی جاتی تھی ۔ دلہا کی عزیز سات سہاگن عورتیں اردگرد بیٹھ جاتی تھیں ۔ دلہن بھی ان کے ساتھ شامل ہوتی تھی اور سب اس تھالی یا سینی سے یہ کھیر کھاتی تھیں ۔
اگلے دن دلہن اپنے ساتھ آئے ہوئے بھائی اور نائن کے ساتھ اپنے گھر واپس چلی جاتی تھی ۔ وہاں وہ اس وقت تک رہتی تھی جب تک “مکلاوا“ کی رسم ادا نہیں ہو جاتی تھی ۔ اور بعض اوقات یہ رسم کئی کئی سال بعد ادا ہوتی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٦) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٩٠٤ ص ٦٤
 

نایاب

لائبریرین
(١١٠)


پیدائیش کی رسومات
بچہ کی پیدائیش کی نگرانی گاؤں کی دائی اور خاندان کی بزرگ عورتیں کرتی تھیں ۔ پیدا ہونے والا بچہ اگر لڑکا ہوتا تھا تو اس کا اعلان کرنے کے لیے پیتل کی تھالی پیٹی جاتی تھی ۔ لڑکی پیدا ہونے کی صورت میں ایسا نہیں کیا جاتا تھا ۔ بچے کو دائی ایک مٹی کے برتن میں نہلاتی تھی ۔ لڑکا پیدا ہونے کی صورت میں خاندان کی عورتیں اور بچے کو دیکھنے کے لیے آنے والی عورتیں اس برتن میں کچھ پیسے ڈالتی رہتی تھیں ۔ جو دائی کا حصہ ہوتا تھا ۔ لڑکی پیدا ہونے کی صورت میں دائی کو کچھ نہیں ملتا تھا ۔ بچے کو نہلانے کے بعد امام مسجد کو بلایا جاتا تھا ۔ جو آکر بچے کے کان میں اذان دیتا تھا ۔ اس کے بعد بچے کو گھٹی دی جاتی تھی ۔ لڑکا پیدا ہونے کی صورت میں اس گھر کا نائی اور میراثی سبز شاخیں یا گھاس لا کر بیرونی دروازہ پر لٹکا دیتے تھے اور اپنا نیگ حاصل کرتے تھے ۔ وہ خاندان کے دوسرے گھروں اور عزیزوں کے ہاں اس پیدائیش کی اطلاع دینے جاتے تھے تو سبز شاخ پیش کرتے تھے اور انعام حاصل کرتے تھے ۔ لڑکی کی پیدائیش کے موقع پر یہ رسم نہیں کی جاتی تھی ۔
زچہ کو ایک علیحدہ کمرے میں رکھا جاتا تھا ۔ جہاں صرف عورتیں جا سکتی تھیں ۔ یہ کمرہ ایسا ہوتا تھا جہاں ہوا اور روشنی کا گزر کم سے کم ہوتا تھا ۔ زچہ کو کسی لمحہ اکیلا نہیں چھوڑا جاتا تھا تاکہ کوئی بھوت پریت اسے نقصان نہ پہنچا جائے ۔ اس کے کمرے کے دروازہ پر ہر وقت آگ سلگتی رہتی تھی ۔ اور اس آگ میں وقتاً فوقتاً ایسی چیزیں ڈالی جاتی رہتی تھیں ۔ جن کی دھونی کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ زچہ و بچہ کو بداثرات سے محفوظ رکھنے والی ہے ۔ زچہ کو ناپاک سمجھا جاتا تھا ۔ وہ کسی چیز کو چھو نہیں سکتی تھی تاکہ ناپاک نہ ہو جائے ۔ اس کے کھانے پینے کے برتن علیحدہ ہوتے تھے جو گھر کے دوسرے برتوں میں شامل نہیں ہوتے تھے ۔ وہ اپنے کمرے سے نکل بھی نہیں سکتی تھی کہ کہیں اس کے ساتھ چھو کر گھر کی اشیاء ناپاک نہ ہو جائیں ۔
چھٹی کے دن زچہ کو اس کے کمرے سے باہر نکال کر نہلایا جاتا تھا ۔ بچہ کا نام رکھا جاتا تھا ۔ اور اس کا سر منڈوا کر بال محفوظ کر لیے جاتے تھے تاکہ عقیقہ کےموقع پر ان الوں کے ہم وزن چاندی خیرات کی جا سکے ۔ اس دن میراثنیں اکھٹی ہو کر زچگی کے گیت گاتی تھیں اور حاضریں انہیں کچھ پیسے دیتے تھے ۔ لڑکا پیدا ہونے کی صورت میں اس دن تمام خاندان اور عزیزوں دوستوں کے گھروں میں مٹھائی بھیجی جاتی تھی ۔ بچہ کی باپ کی طرف سے اپنی ساس ، سالیوں ، بہنوں ، اور بھائیوں کو کپڑوں کے جوڑے دیئے جاتے تھے ۔ اس کی بہنیں اس موقع پر “ چوچی دھلائی “ اور “ سرمہ لگائی “ کی رسم کے ذریعے بھی کوئی زیور یا دودھ والا جانور حاصل کرتی تھیں ۔ گاؤں کے دستکار بھی اس موقع پر اپنا اپنا حصہ لینے آتے تھے ۔ بڑھئی کی بیوی لکڑی کا کوئی کھلونا لے کر آتی تھی ۔ لوہار کی بیوی پاؤں میں ڈالنے کے لیے لوہے کا کڑا لے کر آتی تھی ۔ کمہارن مٹی کے برتن لے کر آتی تھی ۔ میراثی آ کر بچے کا شجرہ سناتا تھا ۔ غرض سب لوگ اپنے اپنے پیشے کے مطابق اہتمام کرتے تھے اور انہیں اناج یا نقدی کی صورت میں کچھ نہ کچھ دے دیا جاتا تھا ۔
چھٹی کی رسومات ختم ہونے پر زچہ پھر اپنے کمرے میں چلی جاتی تھی ۔ اس کی ناپاکی اور کمرے کی حالت جوں کی توں رہتی تھی ۔ اسے دسویں دن ، بیسویں دن ، اور تیسویں دن بھی نہلایا جاتا تھا ۔ اور ہر دفعہ میٹھے چاول پکا کر خاندان میں تقسیم کیے جاتے تھے ۔ چالیس دن پورے ہونے پر زچہ کو غسل دیا جاتا تھا ۔ اسے “چھلہ نہانا “ کہتے تھے ۔ اس کے بعد وہ پاک ہو جاتی تھی اور اپنے کمرے سے نکل کر دوسرے لوگوں سے ملنے جلنے کے قابل شمار کی جاتی تھی ۔ اس موقع پر بھی خاندان کی عورتیں اکھٹی ہو تی تھیں ، مٹھائی تقسیم کی جاتی تھی ۔ میراثنیں ڈھولک بجاتی تھیں اور جشن برپا کیا جاتا تھا ۔
پہلے بچہ کی پیدائیش کے لیے عورت اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاتی تھی ۔ اور واپسی سسرال اس وقت آتی تھی جب بچہ کی عمر چھ ماہ اور ایک سال کے درمیان ہوتی تھی ۔ اس موقعہ پر ننہال کی جانب سے بچہ ، اس کی ماں اور اس کے ددھیال والوں کے لیے کپڑوں کے جوڑے ، زیور ، برتن ، کھلونے ، بستر اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


(١١١)

بے شمار سامان دیا جاتا تھا ۔ اسے “ چھوچھک “ کہا جاتا تھا ۔
عقیقہ اور ختنہ کی رسم پر کم ہی توجہ دی جاتی تھی ۔ عقیقہ تو بعض اوقات اس وقت کیا جاتا تھا ۔ جب شادی کے موقع پر برادری کی دعوت کی جارہی ہوتی تھی ۔ یعنی شادی کی دعوت کے ساتھ ہی عقیقہ کا فرض ادا کر دیا تھا ۔ ختنہ عام طور پر دس بارہ سال کی عمر میں کی جاتی تھی ۔ مگر اس کے لیے ایک زبردست دعوت اور جشن کا اہتمام کرنا لازمی گردانا جاتا تھا ۔ اس لیے ان کے انتظامات مہیا ہونے کے انتظار میں ہی اتنی دیر کر دی جاتی تھی کہ لڑکے جوان ہو جاتے تھے اور ان کی ختنہ نہیں ہوئی ہوتی تھی ۔
لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالنے کی رسم بھی کسی زمانہ میں اس علاقہ میں موجود رہی تھی ۔ گزیٹیٹیرز کا بیان ہے کہ جاٹ سکھوں اور راجپوتوں کے درمیان کہیں کہیں یہ رسم موجود تھی ۔ مگر بعد میں آہستہ آہستہ ختم ہو گئی ۔ (٧)
مرگ کی رسومات
جس گھر میں موت ہوجاتی تھی ۔ وہاں گھر کی چارپائیاں ٹیڑھی کر کے ایک جانب کھڑی کر دی جاتی تھیں ۔ اور فرش پر دری بچھا دی جاتی تھی ۔ عزیز رشتہ دار عورتیں اکھٹی ہو جاتی تھیں اور بین کر کے روتی تھیں ۔ باہر مردانے میں بھی چارپائیاں اور مونڈھے وغیرہ ہٹا کر دری بچھا دی جاتی تھی ۔ لوگ اکھٹے ہو جاتے تھے اور وہیں بیٹھتے تھے ، درمیان میں حقہ رکھ دیا جاتا تھا ۔ لوگ حقہ پیتے تھے اور ادھر ادھر کی باتیں کیے جاتے تھے ۔ جنازہ تیار ہونے پر اگر عورت کا جنازہ ہوتا تھا تو عزیزوں کو گھر کے اندر بلا لیا جاتا تھا کہ منہ دیکھ لیں ۔ ورنہ جنازہ کو باہر لا کر رکھا جاتا تھا اور تمام موجود لوگوں کو منہ دکھایا جاتا تھا ۔ پھر جنازہ لے کر قبرستان کی جانب روانہ ہوتے تھے ۔ گھر کے اندر عورتوں کی جانب سے آہ وزاری ، چیخنے اور بین کرنے کا کہرام بلند ہوتا تھا ۔
میت کو دفنانے کے بعد اس کی قبر پر اس کی بخشش کی اجتماعی دعا کی جاتی تھی ۔ اس کے بعد واپس ہو کر قبر سے چالیس قدم دوری پر ٹھہر کر پھر ایک دفعہ فاتحہ پڑھی جاتی تھی اور دعا کی جاتی تھی ۔ سوگوار لوگ جب قبرستان سے واپس گھر پہنچتے تھے تو کسی عزیز رشتہ دار کے گھر سے کھانا پک کر آچکا ہوتا تھا ۔ یہ کھانا حاضرین کو کھلایا جاتا تھا ۔ قل کی رسم ادا ہونے تک میت والے گھر میں چولہا گرم نہیں ہوتا تھا ۔ عزیزوں کے ہاں سے کھانا پک کر آتا تھا ۔ اس کھانے کو “بھتی“ کہا جاتا تھا ۔ میت کے دفن کے دوسرے دن ہی اٹھارہ سیر چنے بھنوا کر باہر دری پر چادریں بچھوا کر ڈھیریوں کی صورت میں رکھ دیئے جاتے تھے ۔ تعزیت کے لیے آنے والے لوگ فاتحہ پڑھتے تھے اور کچھ دیر ان چنوں پر کلمہ طیبہ پڑھتے تھے ۔ مسجد میں قران خوانی کے لیے کہہ دیا جاتا تھا ۔ میت کے دفن ہونے کے تیسرے دن صبع سویرے قل کی رسم ادا کی جاتی تھی جسے “سویم “ کہا جاتا تھا ۔
سویم کی رسم کے بعد چولہا گرم ہو سکتا تھا ۔ مگر چارپائیاں چالیس دن تک نہیں بچھائی جاتی تھیں ۔ فرش پر سویا جاتا تھا ۔ کچھ عزیز رشتہ دار مرد اور عورتیں بھی دکھ بٹانے کے لیے چالیس دن تک اس گھر میں موجود رہتے تھے ۔ گھر والوں کو اکیلا نہیں چھوڑا جاتا تھا ۔ مردانے میں ہر وقت کچھ لوگ موجود رہتے تھے ۔ اور تعزیت کرنے والے آ کر فاتحہ خوانی کرتے رہتے تھے ۔ زنان خانے میں صبح دن چڑھے اور شام کو دن چھپے تمام عزیز رشتہ دار عورتیں اکٹھی ہوتی تھیں اور ڈوپٹوں سے منہ ڈھک کر بین کر کے روتی تھیں ۔ اس رسم کو “ منہ ڈھکنا “ کہتے تھے ۔ یہ سلسلہ پورے چالیس دن جاری رہتا تھا ۔ صبح شام کے علاوہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٧) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٩٠٤ ص ٥٦


(١١٢)


جس وقت بھی کوئی عزیز ، رشتہ دار یا میل ملاپ والی عورت کہیں دور سے تعزیت کے لیے پہنچتی تھی تو اس وقت بھی یہی عمل دہرایا جاتا تھا ۔ ایک گاؤں میں موجود عزیز رشتہ دار خواتین کا دونوں وقت اس رسم میں شامل نہ ہونا قابل اعتراض ہوتا تھا ۔ زیادہ نزدیکی خواتین کو چالیس دن تک میت کے گھر ہی فرش پر سونا لازمی بھی تھا ۔
میت کو جس جگہ نہلایا جاتا تھا وہاں چالیس دن تک رات کہ چراغ جلایا جاتا تھا ۔ اسے لحد پر چراغ جلانا کہا جاتا تھا ۔ چالیس دن تک کسی فقیر کو میت کے نام پر کھانا کھلایا جاتا تھا ۔ اور کسی حافظ کو قبر پر قرآن خوانی کے لیے مقرر کیا جاتا تھا ۔ چہلم کے بعد ہر جمعرات کو کو فقیر کو کھانا کھلایا جاتا تھا اور اس کا عرصہ توفیق پر ہوتا تھا ۔ جو کم از کم ایک سال کا ضرور ہوتا تھا ۔ میت کے دس دن گزر جانے کے بعد دسواں ، بیس دن گزر جانے کے بعد بیسواں اور مہینہ گزر جانے کے بعد مہینہ کی ختم دلائی جاتی تھی ۔
چالیس دن گزرنے کے بعد چہلم کیا جاتا تھا ۔ اس موقع پر دورونزدیک کہ عزیز ، رشتہ دار ، دوست اکٹھے ہوتے تھے ۔ ختم پڑھا جاتا تھا ۔ اور کھانا کھلایا جاتا تھا ۔ لیکن اگر مرنے والا عمر رسیدہ آدمی تھا تو اس کے چہلم کا اسی قدر اہتمام کیا جاتا تھا جو شادی بیاہ کے موقعوں پر کیا جاتا ہے ۔ باقاعدہ تمام عزیزوں ، رشتہ داروں ، دوستوں ، اور ملنے والوں کو بلاوہ بھیجا جاتا تھا ۔ طرح طرح کے کھانے پکوا کر زبردست دعوت کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔ خاندان کے لوگوں کو جوڑے دئیے جاتے تھے ۔ اور نائیوں میراثیوں کو اسی طرح کپڑے اور چاندی کے کڑے وغیرہ دئیے جاتے تھے جس طرح شادی کے موقعہ پر دئیے جاتے ہیں ۔ اس قسم کے چہلم کو “ کاج “ کہا جاتا تھا ۔ اور اسے یادگار بنانے کے لیے اسی طرح کوشش اور خرچہ کیا جاتا تھا جس طرح شادی کے جشن کو شاندار اور قابل یاد داشت بنانے کی سعی کی جاتی تھی ۔ بعد میں شادی کے جشنوں کے درمیان مقابلہ کی طرح یہ بھی مقابلہ کیا جاتا تھا کہ کس کا “ کاج “ زیادہ شاندار کیا گیا تھا ۔
مرد کی موت کے بعد بیوہ ہو جانے والی عورت اپنی چوڑیاں توڑ ڈالتی تھی زیور اتار دیتی تھی اور سفید کپڑے پہن لیتی تھی ۔ اب اس کے لیے تمام عمر چوڑیاں ، زیور ، رنگین کپڑے یا خوشی کی محفلیں ممنوع ہو جاتی تھیں ۔ چہلم کے موقع پر عزیز رشتہ دار اس کے اور اس کے بچوں کے لیے کپڑے لے کر آتے تھے اور اسے پیسے بھی دیتے تھے ۔
غلامی کا رواج
کچھ عرصہ قبل تک غلام اور لونڈیاں رکھنے کا رواج بھی بروالہ سیداں میں موجود تھا ۔ اگرچہ غربت اور بیروزگاری کے باعث گھریلو ملازموں کا حصول نہایت آسان تھا اور صرف روٹی کپڑے کے عوض نوکر مل جاتے تھے ۔ مگر اس کے باوجود غلام اور لونڈیاں رکھنے کو صاحب حیثیت لوگ شاید اپنی شان خیال کرتے تھے ۔ شادی کے موقع پر جہیز میں دوسرے سامان اور جانوروں کے ساتھ ساتھ لونڈیاں اور غلام بھی دیے جاتے تھے ۔ اس طرح کے غلاموں کے ایک دو گھرانوں کے افراد آخر وقت تک سید حسن علی کے خاندان کے خدمت گاروں میں موجود تھے ۔
تعلیم
تعلیم کی جانب بہت کم توجہ دی جاتی تھی ۔ بمشکل دو تین فیصد لوگ پڑھے لکھے ہوں گے ۔ اور ان میں سے بھی سب سے اعلی تعلیم مڈل تک تھی ۔ ورنہ عام طور سے زیادہ سے زیادہ تعلیم پرائمری تھی ۔ اس زمانہ میں پرائمری تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ٹیچرز ٹریننگ سکول یا پٹوار سکول میں داخلہ مل جاتا تھا ۔ یا چھوٹی موٹی ملازمت کے لیے یہ تعلیم کافی سمجھی جاتی تھی ۔ اس لیے اس سے زیادہ تعلیم کو ضروری خیال نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
(١١٣)


کیا جاتا تھا ۔ عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ تعلیم کا مقصد ملازمت کا حصول ہے ۔ اور ملازمت کو غلامی اور عیب سمجھا جاتا تھا ۔ اس لیے تعلیم کا حصول بھی ضروری نہیں تھا ۔ لڑکیوں کی تعلیم کو معیوب خیال کیا جاتا تھا ۔ خاص طور سے مسلمان اور سادات گھرانوں میں تو اسے بہت برا سمجھا جاتا تھا ۔ انہیں صرف قران شریف پڑھا لینا کافی خیال کیا جاتا تھا ۔ بروالہ سیداں میں لڑکیوں کے لیے دو پرائمری سکول تھے ۔ ایک ہندی پرائمری سکول اور ایک اردو پرائمری سکول ۔ لڑکوں کے لیے مڈل سکول تھا ۔ لیکن ان سکولوں سے بہت کم فائدہ اٹھایا جاتا تھا ۔ حصار شہر صرف چوبیس میل کے فاصلہ پر تھا اور وہاں ہائی سکول تھا ۔ مگر بروالہ سیداں کے کھاتے پیتے گھرانوں کے بچوں کو بھی وہاں تک نہیں بھیجا جاتا تھا ۔ سادات میں سے میٹرک کی سند حاصل کرنے والا سب سے پہلا لڑکا سید محمد حسن کے صاحبزادے سید علی تھے ۔ کالج میں سب سے پہلے سید ممتاز حسن کے بڑے صاحبزادے سید جمیل حسن نقوی داخل ہوئے ۔ وہ اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علم تھے ۔ بعد میں بروالہ سیداں بلکہ تمام علاقہ کے مسلمانوں میں سب سے پہلے گریجویٹ وہی بنے ۔ سب سے پہلے ایم اے بھی ان کے بھائی یعنی راقم الحروف نے کیا ۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے والی سب سے پہلی لڑکیاں بھی سید ممتاز حسن کی صاحبزادیاں ثریا اور نفیسہ ہیں ۔ سب سے پہلے بی اے اور بعد میں ایم اے کرنے والی لڑکی سید مہدی حسن کی بڑی صاحبزادی خالدہ جلیل نقوی ہیں ۔
جہالت
بروالہ سیداں کے باشندے خاص طور سے وہاں کے سادات بچوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دیتے تھے ۔ بلکہ تعلیم کو قطعا غیر ضروری خیال کرتے تھے ۔ ملازمت کو غلامی کے مترادف سمجھا جاتا تھا ۔ تجارت بھی ان کی شان کے خلاف کام تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اپنے محدود اور بند ماحول میں رہتے تھے اور اپنے حال میں پوری طرح مگن تھے ۔ تفاخر کا یہ عالم تھا کہ خود کو سب سے بہتر سید خیال کرتے تھے اور کسی کو اپنے برابر سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ اپنی رائے کو صائب سمجھا جاتا تھا اور اس کے مقابلہ میں کسی بڑے سے بڑے مفکر کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی تھی ۔ اپنے رسم و رواج اور طرز زندگی کو اتنا بے عیب اور مکمل خیال کیا جاتا تھا کہ صریح مذہبی احکام کی تاویل بھی ان کے مطابق کر لی جاتی تھی ۔ یہی انداز فکر تھا جس نے ان سادات کو زندگی کے کسی میدان میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے سے روکے رکھا ۔ اپنی جہالت کا خود بھی اعتراف کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں کئی کہاوتیں اور روایتیں مشہور ہیں جو ان کی جہالت کی عکاسی کرتی ہیں ۔ اس کے باوجود اب تک اکثریت اپنی روش پر قائم ہے اور اس جہالت کے حصار سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہے ۔
پانی کی قلت
ہریانہ کے تمام علاقہ کا سب سے بڑا مسلہ پانی کی قلت تھا ۔ پانی کی قلت اور بارشوں کی کمی نے ہی اس زرخیز اور شاداب علاقہ کو اجاڑ کر ویران کر دیا تھا ۔ بر والہ سیداں میں بھی یہی حال تھا ۔ قصبہ کے چاروں جانب متعدد وسیع جوہڑ اور تالاب بنے ہوئے تھے جو اکثر کچے تھے بعض کے کچھ حصے پکے بھی بنے ہوئے تھے ۔ ان میں بارش کا پانی جمع ہوتا تھا اور کئی کئی مہینے تک باقی رہتا تھا ۔ یہ پانی نہانے ، کپڑےدھونے ، اور مویشیوں کے پلانے کے کام آتا تھا ۔ کنوئیں کا پانی صرف پینے اور کھانے پکانے کے مقصد کے لیے استعمال ہوتا تھا ۔ کنوئیں بہت گہرے تھے اور ان میں سے پانی نکالنا کچھ آسان کام نہیں تھا ۔ ڈیڑھ سو فٹ سے زیادہ گہرائی پر جا کر پانی نکلتا تھا ۔ مسلمان سقے پانی نکالنے کے لیے بھینسے یا بیل استعمال کرتے تھے ۔ ڈول کے رسے کو جانور کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا اور چرس کی طرح اسے دور تک چلایا جاتا تھا ۔ تب جا کر ایک ڈول پانی نکلتا تھا ۔ بھینسے یا بیل کے اوپر چمڑے کی بنی ہوئی “ پکھال “ رکھی جاتی تھی ۔ بالکل اسی طرح جیسے اناج کے بورے جانوروں پر لادے جاتے ہیں ۔ اس پکھال میں پانی بھر کر سقے کنوؤں سے پانی لاتے تھے اور اس میں سے مشکوں میں بھر کر گھروں کے اندر پہنچاتے تھے ۔ ایک دفعہ کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



(١١٤)



چکر میں آٹھ دس مشک پانی لے آتے تھے ۔ گھروں میں عام استعمال کا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے پختہ حمام بنائے جاتے تھے ۔ جو دیواروں کے ساتھ بنے ہوتے تھے ۔پینے کا پانی بہت بڑے بڑے مٹی کے مٹکوں میں رکھا جاتا تھا جنہیں “جھال “ کہا جاتا تھا ۔
سقوں کے ذریعہ پانی صرف سادات کے گھرانوں میں بھرایا جاتا تھا ۔ دوسرے مسلمان تو غربت کے باعث سقہ کا ماہانہ دینے کے قابل نہیں تھے ۔ اور ہندو مذہبی مجبوری کے باعث اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے ۔ ان کے ہاں چمڑے کی بنی مشک کا پانی پینا جائز نہیں تھا ۔ چنانچہ ایسے گھرانوں میں پانی لانے کی ذمہ داری عورتوں کی تھی ۔ بہت سی عورتیں اکٹھی ہو کر پانی لانے کنوئیں پر جاتی تھیں دول کنوئیں میں ڈالنے کے بعد دس پندرہ عورتیں اکٹھی مل کر رسے کو کھینچتی دور تک چلی جاتی تھیں ۔ اس طرح سب کے برتن بھر لیے جاتے تھے جنہیں وہ سروں پر اٹھا کر لے آتی تھیں ۔ چنانچہ کنؤں سے پانی حاصل کرنا اتنا مشکل اور محنت طلب تھا کہ کچھ غریب لوگ پینے کے لیے بھی جوہڑوں اور تالابوں کا پانی ہی استعمال کر لیتے تھے ۔
خشک سالی اور قحط کے دنوں میں جوہڑ بھی خشک ہو جاتے تھے ۔ ایسی صورت میں انتہائی دقت اور مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ کنوئیں کا پانی بہت زیادہ گہرائی پر ملتا تھا ۔ اس لیے کنوئیں کھودنا آسان کام نہیں تھا ۔ اور کنوئیں کا پختہ کرنا تو اس سے بھی زیادہ مشکل تھا ۔ چنانچہ تمام علاقے میں کنوئیں کچے تھے ۔ مگر بروالہ سیداں میں کنوئیں بڑی تعداد میں تھے ۔ ہندؤں اور مسلمانوں کی ہر برادری کے اور ہر محلہ کے الگ الگ کنوئیں تھے اور تمام کے تمام پختہ تھے ۔ اس لیے یہاں کسی زمانہ میں بھی اور کسی بھی قسم کے برے سے برے حالات میں بھی پانی پوری طرح نایاب نہیں ہوتا تھا ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ چالیسا کے کال جیسے تباہ کن زمانہ میں بھی یہاں زندگی اور آبادی کا سلسلہ قائم رہا تھا ۔
معاشی حالت
ہریانہ کا علاقہ انتہائی پسماندہ تھا ۔ صنعت و حرفت کا یہاں کوئی سلسلہ نہیں تھا ۔ زراعت کا انحصار بارش پر تھا اور بارش بہت کم ہوتی تھی ۔ تجارت پر ہندؤں کا پوری طرح قبضہ تھا ۔ اس لیے مسلمان بالکل ہی پسماندہ تھے ۔ مسلمانوں میں سے وہ لوگ کچھ بہتر تھے جو ملازمت کر لیتے تھے ۔ اس علاقہ کے زیادہ تر لوگ فوج کی ملازمت کرتے تھے ۔ مگر بروالہ کے سادات ملازمت کو بھی عار سمجھتے تھے ۔ اس لیے معاشی طور پر بدحال رہتے تھے ۔ صرف چند گھرانے تھے جو کھاتے پیتے شمار ہوتے تھے ۔ انہیں بھی ہندو بنیوں نے اپنے طلسم میں اسیر کر کے رکھا ہوا تھا اور وہ ان مہاجنوں کے محتاج رہتے تھے ۔ مگر معاشی اونچ نیچ معاشرتی مقام اور مرتبہ پر اثر انداز نہیں ہوتی تھی اس لیے لوگ اس کی زیادہ پرواہ بھی نہیں کرتے تھے ۔ جو کچھ میسر آجاتا تھا اس پر ہی خوش رہتے تھے اور کسی کے سامنے اپنا حال بیان کر کے اپنی خودداری کو زک نہیں پہنچنے دیتے تھے ۔ بلکہ ہر حال اور ہر موقعہ پر اپنی عزت اور وقار بہرصورت محفوظ رکھتے تھے ۔
کیلنڈر
برواہ میں تاریخوں اور مہینوں کا حساب رکھنے کے لیے عام طور پر بکرمی سمت کے مہینے استعمال کیے جاتے تھے ۔ یہ مہینے دیہات کے موسموں اور فصلوں کی بجائی اور برداشت کے مطابق چلتے ہیں ۔ اس لیے زمیندار انہی مہینوں کے حساب سے اپنے کاروبار کو ترتیب دیتے ہیں ۔ چنانچہ بروالہ میں بھی عام گفتگو میں دنوں ، مہنیوں ، اور موسموں کے لیے اسی کیلنڈر کے مہنوں کا حوالہ دئا جاتا تھا اور انہیں “ دیسی مہینے “ کہا جاتا تھا ۔ مگر ان مہنیوں کا استعمال صرف مردوں کے درمیان ہوتا تھا ۔ عورتیں اپنی ضروریات کے لیے قمری مہینوں کا حوالہ استعمال کرتی تھیں ۔ انہیں “ چاند کے مہینے “ کہا جاتا تھا ۔ اور ان کے نام بھی بروالہ کی زبان میں اپنے ہی تھے جو شاید کہیں اور استعمال نہ ہوتے تھے ۔ یہ نام درج ذیل تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١١٥)

محرم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دہے
صفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیرہ تیزی
ربیع الاول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بارہ وفات
ربیع الثانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گیاری
جمادی الاول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ مدار
جمادی الثانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خواج مامدین
رجب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مریم روزہ
شعبان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شبرات
رمضان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روزے
شوال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عید
ذیقعدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خالی “ خدا کا“
دوالحج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بقر عید
عیسوی سن کا استعمال صرف پڑھے لکھے لوگ کرتے تھے ۔ یا پھر دفتری اور سرکاری خط و کتابت کے لیے استعمال ہوتا تھا ۔ اور انہیں “ انگریزی مہینے “ کہا جاتا تھا ۔
فنکاروں کی سرپرستی
بروالہ کے سادات تجارت اور ملازمت سے دل چسپی نہیں رکھتے تھے ۔ صنعت و حرفت کا سلسالہ علاقہ بھر میں موجود نہیں تھا ۔ صرف زمینداری اور کاشت کاری تھی ۔ اس کا انحصار بارش پر تھا ۔ اس لیے ان لوگوں کے پاس کام کم تھا اور وقت زیادہ ۔ چنانچہ زیادہ وقت وہ کھیل تماشوں ، گپ شپ ، اور محفل بازی میں صرف کرتے تھے ۔ اور اپنے حال میں خوش رہتے تھے ۔ ایسے ماحول میں فن کی سرپرستی لوگوں کو کافی مل جاتی ہے ۔ چنانچہ سادات میں سے ذرا فارغ البال لوگ کسی نہ کسی فنکار کی سرپرستی کو اپنی شان کا حصہ خیال کرتے تھے ۔ اس سرپرستی کے باعث وہاں فنکاروں کی کھیپ کی کھیپ موجود تھی ۔ ان میں سے بعض فنکار تو ایسی صلاحیتوں کے حامل تھے کہ بعد میں فن کی دنیا سے اپنا آپ تسلیم کرانےمیں کامیاب ہوئے ۔
ایسے فنکاروں میں سب سے زیادہ مشہور ہونے والے استاد شریف خان ستارنواز تھے جو پاکستان کے چوٹی کے فن کاروں میں شمار ہوتے تھے ۔ ان کے والد رحیم اللہ نے اپنے فن کی بدولت مہراجہ پونچھ کے دربار میں ملازمت حاصل کر لی تھی ۔ اس لیے انہیں “ پونچھ والا “ کہا جاتا تھا ۔ مگر انہوں نے آخر وقت تک بروالہ سے اپنا تعلق قائم رکھا تھا ۔ اس کے علاوہ بھی فن کے حلقوں میں بر والہ کے کئی فنکاروں نے اپنی شناخت پیدا کی ۔ بروالہ میں شیر علی کو بین بجانے میں ایسی مہارت حاصل تھی کہ اس سے بین سننے کے لیے باقاعدہ محفلیں جما کرتی تھیں ۔ کچھ اور فنکار بھی اپنے اپنے شعبوں میں مہارت رکھنے والے موجود تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top