تاریخ بروالہ صفحہ 74 سے 97

نایاب

لائبریرین
(74)
تھی جس میں ہریانہ کا تقریبا“ تمام علاقہ شامل تھا۔ انتظامی مرکز حصار منتقل ہونے کے حصار کو “ اقطاع “ کی حیثیت حاصل ہو گئی ۔ اور اس “ اقطاع “ میں ہانسی ، بروالہ ، اگروہہ ، فتح آباد ، سرسوتی ، وغیرہ کی “شقیں “ شامل تھیں ۔
ہنٹر کا بیان
ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپنی مشہور اور بڑی وقیع کتاب امپیریل گزیٹیر آف انڈیا میں حصار کے بارے میں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ۔ کہ یہ ایک ڈویژن کا صدر مقام ہے جس میں تین ضلعے حصار ، روہتک ، اورسرسہ شامل ہیں ۔ضلع حصار کے متعلق اس نے لکھا ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی شرقا“ غربا“ سینتالیس میل اور زیادہ سے زیادہ لمبائی شمالا“ جنوبا“ تراسی میل ہے ۔ پنجاب کے ضلعوں میں شملہ ، رہتک ، اور حصار ہی ایسے ضلعے ہیں جن سے کوئی دریا نہیں گزرتا ۔ ؁۱۸۸۱ کی مردم شماری کے مطابق اس ضلع کی آبادی ٥،٠٤،١٨٣ افراد پر مشتمل تھی ۔ اور اس کا علاقہ ٣٥٤٠ مربع میل تھا ۔
حصار شہر کے بارے میں ہنٹر نے لکھا ہے کہ یہ دہلی سے مغرب میں ایک سو دو میل کے فاصلہ پر نہر جمن غربی کے کنارے ٢٩ درجے ٩ فٹ ٥١ انچ شمالی عرض بلد اور ٧٥ درجے ٤٥ فٹ ٥٥انچ مشرقی طول بلد پر واقع ہے ۔ ؁1868کے اعدادوشمار کے مطابق اس کی آبادی ١٤،١٣٨ تھی اور ؁1881 کی مردم شماری کے مطابق ١٤،١٦٢ ہو گئی تھی ۔ اس میں ٩٠٣٩ ہندو ٥٠٨٠ مسلمان ٤ سکھ اور ٤٤ عیسائی شامل تھے ۔ یہ شہر ؁1354 میں فیروز شاہ تغلق نے آباد کیا تھا ۔ اس نے اس شہر تک پانی پہنچانے کے لئے ایک نہر بھی تعمیر کرائی تھی ۔ اس شہر نے جلد ہی فیروز شاہ تغلق کی پسندیدہ جگہ کی حیثیت اختیار کر لی تھی ۔ اور اس طرح ضلع کا سیاسی اور انتظامی صدر مقام ہانسی سے منتقل ہو کر اس شہر میں آ گیا تھا ۔ جدید شہر کے جنوب میں پرانی عمارات کے ملبہ کے ڈھیر جگہ جگہ بکھرے نظر آتے ہیں ۔ مگر مزارات کے گنبد اور عبادت گاہیں اب تک سلامت ہیں ۔ اور شہر کے ماضی کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں ۔ اس شہر پر تباہی گذشتہ صدی کے دوران سکھوں اور دیگر لٹیروں کے مسلسل حملوں کے باعث نازل ہوئی ۔ اس کے بعد ؁1783 میں سن چالیس کے قحط کے دوران یہ شہر آبادی سے بالکل خالی ہو گیا تھا ۔ اس کے بعد ؁1796 میں یورپی مہم جو جارج تھامس نے اس پر قبضہ کر لیا ۔ اس نے یہاں ایک قلعہ تعمیر کرایا اور اس کی ازسرنو آبادی کی کوشش کی ۔ حصار کی گلیاں اور سڑکیں دوسری مقامی آبادی کے برخلاف فراخ اور کشادہ ہیں ۔ لیکن شہر کی فصیل کے باہر ایک ایسی آبادی ابھر آئی ہے جو زیادہ بہتر اور صاف ستھری نہیں ہے ۔ یہاں مویشیوں کا ایک بہت بڑا فارم ہے ۔ اور حصاری نسل کے جانور بہت قدروقیمت کے حامل خیال کیے جاتے ہیں ۔ (٤)
مفتی غلام سرور لاہوری کا بیان
مفتی غلام سرور لاہوری نے پنجاب کی تاریخ پر اردو میں سب سے پہلی کتاب لکھی ۔ اور ان کی کتاب کو اب تک مستند تسلیم کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٤) W.W.Hunter,imperial Gazetteer of India. london 1885.p.425,434
 

نایاب

لائبریرین
(75)
حصار کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے ۔
“ یہ شہر ہریانہ کے ضلعے میں اس سڑک پر جو دہلی سے بھٹنیر کو جاتی ہے ۔ دہلی سے غرب کی طرف بفاصلہ ایک سو چار میل اور لاہور سے بجانب گوشہ جنوب مشرق ایک سو ساٹھ میل ٓباد ہے ۔ اوہ فی زمانہ تین ہزار پچاس گھروں کی اس میں آبادی ہے ۔ اور نو ہزار تین سو اڑسٹھ کی مردم شماری میں شمار آئی ہے ۔ اور جمنا کی نہر فیروز شاہ بادشاہ کی کھدوائی ہوئی اس شہر کے عین فصیل کے نیچے رواں ہے ۔ یہ نہر مشرق کی طرف سے آن کر جنوب رویہ فصیل کے نیچے ہوتے ہوئے غرب کو چلی گئی ہے ۔ نہر کے کنارے کنارے درختوں کا دونوں طرف ہجوم نہیایت خوشنما نظر آتا ہے ۔ اس کی آبادی کا حال اس طرح درج کتب تواریخ ہے کہ پہلے یہاں بالکل جنگل تھا ۔ ایک عابد بہلول نام اس جنگل میں میں عبادت کیا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ شہزادہ فیروز تغلق جو بتقریب شکار یہاں آیا تھا ۔ اس کو شیخ بہلول نے بشارت سلطنت کی دی ۔ جب وہ بادشاہ ہو گیا تو با ارادت دلی شیخ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسی مقام پر آبادی کی بنیاد ڈال کر اول ٧٥٥ ھجری میں اس نے قلعہ بنوایا ۔ اس کے بعد شہر تعمیر کرایا اور ایک نہر جمنا سے نکال کر اس شہر تک لایا ۔ اس وقت کی آبادی کے نشاں اب بھی دور دور تک نظر آتے ہیں ۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی زمانہ میں یہ بڑا شہر تھا ۔ اب انہی کھنڈرات میں سے شہر والے لوگ عمارات کے واسطے اینٹیں کھود کر لاتے ہیں ۔ گرد اس شہر کے اکثر پرانے مقبرے اور قدیمی عمارات پرانے زمانے کے بنے نظر آتے ہیں ۔ آبادی قدیمی شہر کی سلطنے چغتائی کے اخیر وقت تک برابر قائم تھی ۔ پھر بسبب غارت گری سکھوں اور صدمے قحط کے جو سمت ١٨٤٠ بکر ماجیتی میں وقوع میں آیا تھا یہ شہر بالکل اجڑ گیا ۔ اور چودہ پندرہ برس اجڑا ہوا پڑا رہا اور لوگ مکانات کو گرا کر لکڑیاں ان کی اٹھا لے گئے ۔ سولہ برس کے بعد پھر سمت ١٨٥٦ بکرمی میں جارج تھامس نے اس کو ازسرنو آباد کیا ۔ اور لوگ آکر پہلے قلعہ کے اندر اباد ہوئے جب آبادی کی ترقی ہوئی تو قلعہ سے باہر بھی آبادی ہونی شروع ہوئی ۔ اب مہاجن و مالدار لوگ تو قلعہ کے اندر رہتے ہیں اور مالی ڈوگر شنوئی و قصاب وغیرہ باہر کے حصہ میں سکونت پذیر ہیں ۔ اور قلعہ کی فصیل جو پختہ بنی ہوئی ہے اس کے چار دروازے جاری اور پانچواں دروازہ بند ہے ۔ شہر کے سرائے اور کوٹھیاں بھی اچھی اچھی تعمیر ہوئی ہیں ۔ یہاں صاحب کمشنر بہادر و صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر دونوں تشریف رکھتے ہیں حصار کی کمشنری کے متعلق تین ضلعے حصار ، رہتک ، سرسہ ہیں اور خاص ضلع حصار کے متعلق پانچ تحصیلیں حصار ، بھوانی ، ہانسی ، بروالہ ، فتح آباد ہیں اور کل ضلع کی خانہ شماری اناسی ہزار آٹھ سو چالیس ، مردم شماری تین لاکھ چوالیس ہزار چھ سو انتالیس ہیں ۔ پہلے جب یہ ضلع ممالک مغربی و شمالی کے متعلق تھا تو اس وقت یہاں کی کمشنری دہلی میں تھی ۔ بعد میں غدر ؁١٨٥٧ کے یہ ضلع ماتحت پریذیڈنسی پنجاب کے ہوا اور محکمہ کمشنری یہاں علیحدہ مقرر ہو کر چار ضلعے حصارو جھجرو و رہتک و سرسہ اس کے متعلق ہوئے ۔ بعد چندے جھجر کا ضلع تخفیف میں آ گیا ۔ اور تین ضلعے باقی رہ گئے ۔ اور لوہارو ودوجانہ کے رئیس خود ہیں اسی کمشنری کے ماتحت ہوئے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہر حصار کے گردونواح میں قدیمی مقبرے بزرگان اہل اسلام کے اور مسجدیں بہت ہیں ۔ بہت سے مقبرے اور مسجدیں ان میں سے سکھوں نے براہ تعصب گرا دی تھیں ۔ ان میں سب سے
 

نایاب

لائبریرین
(76)
زیادہ اہم وہ مسجد تھی جو فیروز شاہ کے وقت کی بنی ہوئی قلعہ کے اندر موجود تھی ۔ اس مسجد کے صحن میں ایک سرخ پتھر کا مینار بنا ہوا ہے جس کا طول ٤٥ فٹ اور بنیاد کی موٹائی آٹھ فٹ ہے ۔ یہ مینار بھی اسی قسم کا ہے جیسا کہ فیروز شاہ تغلق نے شہر دہلی و الہ آباد میں اپنی یادگار بنوائے ہیں ۔ اس پر بھی کتبہ بخط عربی پتھروں میں کندہ تھا ۔ مگر جن دنوں کہ سکھوں نے حصار کو لوٹا تو براہ تعصب اس مینار کے گرد لکڑیوں کے انبار لگا کر آگ لگا دی ۔ اس نیت سے کہ منہدم ہو جائے اس آگ سے اس کا اور تو کوئی نقصان نہ ہوا ۔ صرف یہ کہ ایک ایک دو دو انگشت اوپر سے پتھر جل کر چھلکے اوتر گئے اور کتبہ زائل ہو گیا ۔ اس مینار کو فیروز شاہ کی موٹھ کہا جاتا ہے ۔ (٥)
نہر جمن غربی
گذشتہ صفحات میں ذکر آ چکا ہے کہ فیروز شاہ تغلق نے حصار فیروازہ کا شہر جس مقام پر آباد کیا تھا وہاں پانی کی قلت تھی ۔ اس قلت کو دور کرنے اور شہر کی آبادی اور شادابی کی غرض سے بادشاہ نے دو نہریں کھدوائی تھیں ۔ ایک دریائے جمنا سے اور دوسری دریائے ستلج سے ۔ بعد کے زمانہ میں موخر الذکر نہر کا تو کوئی نام و نشان باقی نہیں رہا ۔ البتہ اول الذکر نہر اب تک باقی ہے ۔ اس نہر نے ضلع حصار کو ایک طویل عرصہ تک بہت فائدہ پہنچایا ہے اور اس ضلع کی آبادی اور سیرابی میں اس نہر کا بڑا حصہ ہے ۔ اس نہر کے علاوہ اس ضلعے میں آبپاشی کا کوئی ذریعہ سوائے بارشوں کے نہیں تھا ۔ بارشیں بعض اوقات سالوں تک نہیں ہوتی تھیں تو اس ضلع پر بڑی آفت پڑتی تھی ۔ مگر جن دنوں اس نہر میں پانی جاری رہتا تھا ضلع کی رگوں میں خون کی گردش جاری رہتی تھی ۔ اس لیے اس ضلع کے ذکر کے ساتھ اس نہر کا قدرے تفصیلی ذکر ضروری ہے ۔
اس نہر کے متعلق تاریخ مخزن پنجاب کا بیان اس لیے حیران کن ہے کہ بعد میں یہ نہر اس قدر بڑی اور چوڑی نہیں تھی ۔ اس کتاب میں اس کے بارے میں لکھا ہے ۔
“جمنا کی یہ نہروں میں یہ نہر بڑی اور پرانی و مشہور ، پرآپ ، چوڑی ، اور گہری قابل جہازرانی کے ہے ۔ پہلے یہ نہر جمنا کے دہنے کنارے سے سمت جنوب مغرب چل کر بعد طے کرنے راستے ایک سو میل کے دھرت کے مقام تک پہنچتی ہے ۔ پھر وہاں سے چتنک ندی میں داخل ہو کر ہانسی تک اور پھر اٹھارہ میل شمال مغرب کے سمت کو چلتی ہوئی حصار تک جاتی ہے ۔ حصار کے مقام تک کل طول اس نہر کا دہانہ سے لے کر ایک سو پچاس میل گنا جاتا ہے ۔ حصار سے پھر چند میل آگے کھودا ہوا راستہ اس کا موقوف ہو جاتا ہے ۔ مگر طغیانی کے وقت یہ اپنا راستہ آپ لیتی ہوئی بیکانیر کے غربی ریگستان تک پہنچ جاتی ہے ۔ وہاں پانی اس کا ریگ کے ٹیلوں کے اندر جذب ہو جاتا ہے ۔ مگر بعض اوقات بہت طغیانی ہوتی ہے تو وہاں سے یہ دریائے گھگر میں مل کر اس کے ذریعہ دریائے ستلج میں جا پڑتی ہے ۔ اس نہر کو اول فیروزشاہ بادشاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٥) مفتی غلام سرور لاہوری ۔ تاریخ مخزن پنجاب ۔ نوکلشور لکھنؤ ؁١٨٧٧ ص ٥٤ تا ٥٧
 

نایاب

لائبریرین
(٧٧)
تغلق نے کھدوایا تھا ۔ اور ہریانہ کے جنگل کو جو اس کی شکار گاہ تھی لے گیا تھا ۔ جس کا فیض آج تک جاری ہے ۔ مگر اس کے مرنے کے بعد حکام کی غفلت سے یہ کئی مرتبہ بند ہو گئی اور پانی کا اجرا موقوف ہو گیا تھا۔ پھر شاہ جہاں بادشاہ نے اپنی سلطنت کے وقت اس کے اجرا پر توجہ دی ۔ اور نواب علی مردان خان مشہدی کو اس کے اجرا کے کام پر مامور کیا ۔ اس نے بڑی سعی اور کوشش کے ساتھ اس کام میں تندہی کر کے اس کو پھر جاری کیا ۔ اور اس کے دہانے سے اسی میل نیچے ایک اور نہر کھود کر دہلی کو لایا ۔ اس وقت سے یہ مدت تک جاری رہی ۔ مگر جب فرخ سیر و محمد شاہ کے وقت اس کی خبر گیری نہ ہوئی تو پھر اس کا اجرا بند ہو گیا ۔ اور انگریزی عملداری تک بدستور بند رہی ۔ اگرچہ احمد شاہ درانی کے وقت میں ایک لاکھ روپیہ صرف ہو کر اس کی صفائی ہوئی اور تھوڑی مدت تک اس کا پانی بھی جاری ہوا ۔ مگر پھر بند ہو گٰئی ۔ آخر انگریز عملداری کے وقت لارڈ بیٹنگ صاحب اس کی صفائی کی طرف متوجہ ہوئے اور ؁١٨٢٣ میں اس کی صفائی کا کام شروع ہو کر ؁١٨٢٥ میں ختم ہوا ۔ تب سے یہ برابر جاری ہے ۔“ (٦)
ایک اور مورخ نے اس کے بارے میں لکھا ہے ۔
“سن ٧٥٧ ہجری میں کوہ مندوی اور سرمور کے پاس سے جمنا سے ایک نہر نکالی اور سات نہریں اس میں ملا کر ہانسی کو اور وہاں سے راس کو لے گیا ۔ اور وہاں ایک قلعہ حصار فیروزہ تعمیر کرایا ۔ اور اس کے نیچے ایک بڑا حوض بنوایا ۔ جس میں نہر سے پانی آتا تھا ۔ “(٧)
ایک دوسری کتاب میں بیان کیا گیا ہے ۔
“ یہ نہر دریائے جمنا کے مغربی کنارے سے تاجے والا ضلع انبالہ سے نکالی گئی ہے ۔ یہاں سے دریائے جمنا پہاڑوں سے نکل کر میدان کا رخ کرتا ہے ۔ نہر جمن غربی دہلی ، رہتک ، حصار ، ریاست پٹیالہ اور ریاست جنید کے کچھ علاقوں کو سیراب کرتی ہے “ (٨)
اس نہر کے بارے ایک اور مورخ نے لکھا ہے ۔
“فیروز شاہ تغلق نے چودھویں صدی عیسوی کے درمیان میں یہ نہر حصار کی شکار گاہوں کے واسطے کھدوائی تھی ۔ مزید براں اپنے وقت میں شاہ جہاں نے دہلی کے باغات کے لیے اس کی ایک چھوٹی سی شاخ تعمیر کرائی تھی ۔ اٹھارویں صدی میں کارکنوں کے تساہل سے اس کا نظام بند ہو گیا تھا جسے انیسویں صدی کے آغاز میں گورنمنٹ برطانیہ نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٦) مفتی غلام سرور لاہوری ۔ تاریخ مخزن پنجاب ۔ نوکلشور ، لکھنؤ ؁١٨٧٧ ۔ ص ٦
(٧)محمد سعید احمد مارہروی ۔ آثار خیر ۔ آگرہ ۔ ١٣٢٣ ھجری ص ١٠٨
(٨) اقبال صلاح الدین ۔ تاریخ پنجاب ۔ لاہور ؁١۹٧٤ ص ٣٤
 

نایاب

لائبریرین
٧٨)
پھر جاری کیا ۔ لیکن اس وقت سکیم کے ناقص ہونے کی وجہ سے قرب و جوار میں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آنے لگا ۔ ملیریا کی وبا عام پھیل گئی ۔ اس لیے صدی کے اختتام پر کچھ ترمیمات سے نہر کو جدید طریقہ پر تعمیر کیا گیا ۔ راہ افتادہ کھیتوں کو اس سے پانی بھی دے دیا جاتا ہے اور اس وقت نہر جمن غربی دہلی ، حصار ، رہتک ، کرنال کے اضلاع کے علاوہ ہندوستانی ریاستوں میں سے جنید اور پٹیالہ کو سیراب کرتی ہے ۔ (٩)
نہر جمن غربی کی اہمیت
گذشتہ صفحات میں یہ ذکر آ چکا ہے کہ ہریانہ کا علاقہ تغلق عہد میں پانی کی قلت کا شکار ہو چلا تھا ۔ اس صورت حال کا اثر اس کی سرسبزی و شادابی پر پڑنا قدرتی امر تھا ۔ چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ صورت حال شدت اختیار کرتی چلی گئی ۔ دریائے گھگر میں پانی کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گیا ۔ بارشیں بہت کم ہو گئیں اور آخر کار پانی کی کمیابی کے باعث یہ تمام علاقہ بنجر اور ویران ہوتا چلا گیا ۔ بستیاں ویران ہو گئیں ۔ جنگلی جھاڑیوں کے علاوہ روئیدگی کا نشان باقی نہ رہا ۔ لوگوں کے لیے ذریعہ معاش نایاب ہو گیا اور آخرکار اس تمام علاقہ کی وہ حالت ہوگئی جس کا ذکر سید محمد لطیف نے اپنی کتاب میں کیا ہے اور جسے گذشتہ صفحات میں نقل کیا جا چکا ہے ۔
پانی کی نایابی کی اس صورت حال میں نہر جمن غربی کا وجود اس علاقہ کے لیے ایک نعمت مترقبہ سے کم نہیں تھا ۔ اگرچہ یہ نہر صرف اپنے کناروں کی زمینوں کو سیراب کرتی تھی اور یہ علاقہ کی قابل کاشت زمین کا صرف تین چار فیصد بنتا تھا ۔ مگر پانی کا کوئی اور ذریعہ نہ ہونے کے باعثیہ علاقہ جس ویرانی اور بے آبادی کا شکار ہو گیا تھا ۔ اس کے تناظر میں اس نہر کا وجود بسا غنیمت تھا ۔ اس کا ایک اثر وہاں کے زمیندار طبقہ پر بھی پڑا تھا ۔ جن زمینداروں کی تھوڑی بہت ملکیت بھی اس نہر کے کنارے پر واقع تھی وہ علاقہ کے دیگر بڑے بڑے زمینداروں سے بھی زیادہ خوشحال اور آسودہ تھے ۔ اس لحاظ سے ان زمینداروں کو خوش قسمت سمجھا جاتا تھا اور نہر سے سیراب ہونے والی زمینوں کی بڑی قدروقیمت تھی ۔




۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٩) شیخ عزت اللہ ۔ ہمارا پنجاب ۔ لاہور ۔ ص ٧٠





(٧٩)
مغلوں کا عہد
بابر کا حملہ
؁١٥٢٦ میں بابر نے جب ہندوستان پر یلغار کی تو حصار لودھی خاندان کے اہم فوجی مراکز میں شامل تھا ۔ اور یہاں کا حاکم حامد خان تھا ۔ بابر اپنی فوج کے ساتھ سرہند کے قریب گھگر کے کنارے پہنچا تو اسے پتہ چلا کہ ابراہیم لودھی اس کے مقابلے کے لیے پانی پت کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ ساتھ ہی اسے یہ معلوم ہوا کہ حصار فیروزہ کا حاکم حامد خان بھی اپنے بادشاہ کی حمایت میں اپنی فوجوں کو لے کر بابر کے خلاف نکل آیا ہے ۔ بابر نے قطعہ بیگ کو ابراہیم کی فوجوں کا پتہ کرنے بھیجا اور اتکہ کو حصار فیروزہ کی فوجوں کے مقابلہ کے لیے روانہ کیا ۔ جب وہ انبالہ کے مقام پر پہنچا تو اس نے ہمایوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی کمان میں موجود فوجوں کو لے کر آتکہ کی مدد کے لیے چلا جائے ۔ چنانچہ پانی پت کی اصل لڑائی سے قبل ایک چھوٹی سی لڑائی حامد خان اور ہمایوں کی فوجوں کے درمیان ہوئی جس میں حامد خان کو شکست ہوئی اور ہمایوں نے حصار فیروزہ اور اس سے متعلق تمام علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ ہمایوں کی یہ اولین فوجی مہم تھی جس میں اس نے کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس پر خوش ہو کر بابر نے ہریانہ کی صوبیداری ہمایوں کو عطا کر دی تھی ۔ (١)
ہمایوں کی صوبیداری
اس طرح اس روایت کا تسلسل برقرار رہا جو بڑی طویل مدت سے جاری تھی کہ شمال کی جانب سے دہلی کی طرف بڑھنے والے کو سب سے پہلے ہریانہ کے علاقہ پر قبضہ کرنا ضروری ہوتا تھا ۔ اس علاقہ پر قبضہ ہوئے بغیر دہلی تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا تھا ۔ دوسری روایت جو سلاطین کے عہد سے شروع ہوئی تھی کہ مستقبل کے بادشاہ کو ہریانہ کی صوبہ داری پر مقرر کیا جاتا تھا ۔ وہ بھی اسی طرح پوری ہوئی کہ پہلے مغل بادشاہ نے اپنے ولی عہد ہمایوں کو اس علاقہ کی صوبہ داری پر مقرر کیا ۔
بابر نے اپنی تزک میں ؁١٥٢٨ میں پنجاب کی جس انتظامی تقسیم کا ذکر کیا ہے اس میں حسار فیروزہ کا ذکر ایک ڈویژن کی حیثیت سے کیا ہے ۔ اس زمانہ میں ڈویژن کو “سرکار “ کا نام دیا جاتا تھا ۔
حصار کی جامع مسجد کے بارے میں مفتی غلام سرور لاہوری نے لکھا ہے کہ یہ مسجد شہر کے اندر تحصیل کچہری کے متصل واقع ہے اور اس کی عمارت نہایت مستحکم اور سنگین ہے ۔ اس کے پتھروں میں سنگ فیروزہ بطور گلکاری جا بجا نصب ہوا ہے ۔ جس کے باعث
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) Bukhshah Singh Nijar , Punjab Under the Great Mughals , Lahore 1979 . p 15-18





(۸۰)
بہت خوبصورت زیبائیش ہو گئی ہے ۔ اس مسجد پر ایک کتبہ عربی خط میں نصب ہے جس میں مسجد کے بانی کا نام ہمایوں بادشاہ اور سن تعمیر ٩٣٣ ہجری لکھا ہے ۔ مگر یہ بات قابل غور ہے کہ ہمایوں کی تخت نشینی ٩٣٧ ہجری میں بابر کی وفات کے بعد ہوئی تھی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسجد اس نے شہزادگی کے ایام میں اس وقت تعمیر کرائی تھی جب وہ ہریانہ کا صوبیدار تھا ۔ (٢)
ایک اور مسجد کے متعلق اسی کتاب میں لکھا ہے ۔
“مسجد بیرون دہلی دروازہ بھی ہمایوں بادشاہ کی بنوائی ہوئی ہے ۔ یہ مسجد نتھوا بھٹیارہ کی سرائے میں ہے ۔ اس کا کتبہ بخط عربی ہے اور اس میں نام نامی ہمایوں بادشاہ اور سن ٩٣٩ ہجری لکھا ہوا ہے ۔ (٣)
“شیر شاہ سوری نے جب ہمایوں کو ہندوستان سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تو ہریانہ پر بھی اس نے اپنا صوبیدار مقرر کیا ۔ مگر ؁١٥٥٣ میں جب ہمایوں واپس آیا تو حصار ، ہانسی ، ہریانہ ، اور تقریباً تمام پنجاب پر اس کا قبضہ کسی بڑی لڑائی کے بغیر ہو گیا تھا ۔ ہندوستان پر دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد جب صوبوں کی حکمرانی مختلف شہزادوں اور امیروں میں تقسیم کی گئی تو حصار فیروزہ کا صوبہ اکبر کو دیا گیا ۔ کیونکہ یہ وہی صوبہ تھا جس کی حکمرانی بابر نے ہندوستان میں داخل ہونے کے بعد ہمایوں کو ولی عیدی کہ زمانہ میں دی تھی ۔ “ (٤)
اکبر کا زمانہ
اکبر کو ہریانہ کی صوبہ داری پر مقرر کیا گیا تو اس کے اتالیق بیرم خان خانخاناں کو بھی اس کے ساتھ حصار بھیجا گیا تاکہ اس کی تربیت ہو سکے ۔ یہ دونوں حصار میں ہی تھے جب انہیں ہمایوں کے سیڑھیوں سے گر کر سخت زخمی ہو جانے کی اطلاع ملی ۔ چنانچہ بیرم خان اس وقت اکبر خان کو لے کر لاہور کے لیے روانہ ہو گیا ۔ ابھی ہی وہ کلا نور ہی پہنچے تھے کہ انہیں ہمایوں کے انتقال کی خبر مل گئی ۔ بیرم خان نے اسی جگہ اینٹوں کا ایک چبوترہ بنوا کر اس پر اکبر کو بٹھایا اور ١٤ فروری ؁١٥٥٦ کو اس کے شہنشاہ ہند ہونے کا اعلان کر دیا ۔ (٥)
اکبر کے زمانہ میں انتظامی اصلاحت ہوئیں ۔ بہت منظم صوبائی حکومتیں قائم کی گئیں ۔ تمام سلطنت کو صوبوں میں تقسیم کر کے صوبوں کے گورنروں کو صوبہ کی انتظامیہ کے ہر شعبہ کا ذمہ دار بنایا گیا ۔ صوبہ کو مختلف انتظامی یونٹوں میں تقسیم کر کے انہیں “سرکار “ کا نام دیا گیا “سرکار“ کو اس زمانہ کے “ڈویژن“ کا مترادف سمجھا جا سکتا ہے ۔ ہر سرکار میں محاصل کے افسر سے بالکل علیحدہ ایک فوجی کمانڈر بھی تعنیات کیا جاتا تھا ۔ “سرکار“کو مزید تقسیم کر کے چھوٹے انتظامی یونٹ بنائے گئے اور انہیں “محل“ کا نام دیا گیا ۔ “محل“ کی اصطلاع آجکل کے ضلع کے ہم معنی تھی ۔ اکبر کے زمانہ کا صوبہ لاہور قریب قریب وہی تھا جو انگریزوں کے زمانہ میں صوبہ پنجاب تھا ۔ اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٢) مفتی غلام سرور لاہوری ۔ تاریخ مخزن پنجاب ۔ نوکلشور ۔ لکھنؤ ۔ ؁١٨٧٧ ص ٥٧
(٣)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضاً
(٤) Bukhshah Singh Nijar , Punjab Under the Great Mughals , Lahore 1979 . p 29
(٥) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضاً ص ٣٢
 

نایاب

لائبریرین
(٨١)


زمانہ میں مالیہ کا وہ نظام رائج کیا گیا جس کی پیروی آج بھی کی جاتی ہے ۔ حصار فیروزہ کی “سرکار“ اس زمانہ میں مرکزی صوبہ دہلی کا حصہ تھی اور اس میں انتیس ضلعے شامل تھے جن کے نام کم و بیش یہ ہیں ۔ اگروہہ ، اہرونی ، اتھکھیڑا ، بھنگی وال ، پونیاں ، بھرنگی ، بروالہ ، بھٹو ، بروا ، بھٹنیر ، ٹوہانہ ، توشام ، جنید ، جمال پور ، حصار ، دھترت ، سرسہ ، شیوا رام ، سدھ مکھ ، سوانی ، شانزدہ دیہات ، فتح آباد ، گوہانہ ، کھانڈا ، میہون ، اور ہانسی ۔ (٦)
اس کے ضلعوں کی تعداد سے ہی اندازہ ہو جاتاہے کہ اس زمانہ میں یہ کتنا بڑا ڈویژن تھا ۔ ان ضلعوں کے ناموں سے پتہ چلتا ہے اس ڈویژن کی حدود صرف ہریانہ تک ہی محدود نہیں تھیں ۔ بلکہ ان میں راجپوتانہ کا کچھ علاقہ بھی شامل تھا ۔ اس لحاظ سے یہ مغل سلطنت کا انتہائی اہم ڈویژن تھا ۔ مفتی غلام سرور لاہوری نے شاید اسی لیے اسے ڈویژن کے بجائے صوبہ خیال کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں ۔
“اکبر بادشاہ کے زمانہ میں یہاں دو قلعہ تھے ۔ ایک سنگی دوسرا خشتی اور صوبہ حصار کا دہلی سے علیحدہ مقرر تھا ۔ اور آمدنی کل صوبہ کی تیرہ لاکھ پچھتر ہزار بائیس روپیہ تھی ۔ فوج سوار اور پیادہ بھی صوبہ کے پاس موجود رہتی تھی ۔ جس کے علاقہ کو اب قسمت حصار کا علاقہ تصور لینا چاہئیے ۔ مگر اس میں بھٹیانہ کا ملک زیادہ تر ماتحت تھا ۔ “ (٧)
ہو سکتا ہے کچھ عرصہ کے لیے حصار کو ایک الگ صوبہ کی حیثیت بھی حاصل رہی ہو ۔ مگر بعد میں اسے صوبہ دہلی کی ایک “سرکار“ بنا لیا گیا تھا اور اس سرکار میں ایک نہایت “محل“ بروالہ تھا ۔
اورنگزیب کے بعد
حصار “سرکار“ کی اہمیت برابر برقرار رہی اور دہلی کے دربار سے بہت لائق اور قابل اعتماد امیروں کو اس سرکار کا ناظم بنا کر بھیجا جاتا رہا ۔ ان ناظموں کے تمام نام تاریخ کی کتابوں سے اکٹھے نہیں کیے جا سکے ۔ البتہ یہ پتہ چلتا ہے کہ ؁١٧٠٧ میں جب اورنگ زیب عالمگیر کی وفات ہوئی تو حصار سرکار کا ناظم قصور کا ایک پٹھان شہداد خان نامی تھا ۔ یہ شہداد خان ؁١٧٣٨ تک اس علاقہ کا ناظم رہا ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب دہلی کے تخت کے حصول کے لیے رسہ کشی شروع ہو گئی تھی ۔ اورنگ زیب کے جانیشینوں کے درمیان سازشوں اور جوڑ توڑ کی بنا پر ؁١٧١٩ میں دہلی کا تخت محمد شاہ جیسے شخص کے قبضہ میں آ گیا جسے عیش و عشرت اور رنگ رلیوں کے علاوہ دنیا کی کسی بات کا کوئی پتہ نہ تھا ۔ مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ حصار ، ہانسی ، بروالہ ، اور ہریانہ کے دیگر علاقوں کے لیے وہ زمانہ امن اور سکون کا زمانہ تھا ۔ شہداد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٦) ا۔۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ص ١٠٦
ب ۔۔۔۔ پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ضلع حصار اور لوہارو سٹیٹ ؁١٩٠٤ ص ٢٣
ج ۔۔۔۔۔ ابوالفضل ۔ آئین اکبری ۔ اردو ترجمہ مولوی فدا علی طالب ۔ لاہور ۔ جلد دوم ص ٧٣١
(٧) مفتی غلام سرور لاہوری ۔ تاریخ مخزن پنجاب نوکلشور ، لکھنؤ ؁١٨٧٧ ۔ ص ٥٨









(٨٢)


خان کے حسن تدبیر کے باعث اس علاقے کے لوگ خوشحال تھے اور آرام کی زندگی بسر کرتے تھے ۔ یہ سکون اور امن کا زمانہ ایسا تھا کہ بعد میں ایک طویل عرصہ تک اس علاقہ کو ایسا اچھا وقت نصیب نہیں ہوا ۔
شہداد خان کے بعد فخر نگر گڑگاؤں کے نواب کامگار خان ، نواب فوجدار خان ، اور نواب اولیا خان یکے بعد دیگرے اس سرکار کے حاکم بنے ۔ ان کا زمانہ ؁١٧٣٨ سے ؁١٧٦٠ تک ہے ۔ مگر یہ زمانہ ہے جب مغلوں کی حکومت کی کمزوری کے باعث تمام ملک میں فتنے سر اٹھا چکے تھے ۔ اور ان کے اثرات سے کوئی بھی علاقہ محفوظ نہیں رہا تھا ۔ دہلی کی حکومت سازشوں اور محاذ آرائیوں کے باعث کمزور ہو چکی تھی ۔ اوپر سے ؁١٧٣٩ میں نادر شاہ کے حملے اور قتل و غارت کی افتاد نے حکومت کی بنیادوں تک کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے اکثر علاقوں پر دہلی کی گرفت کمزور پڑ گئی اور قسمت آزما گروہوں نے جگہ جگہ اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دئیے ۔ حصار ، ہانسی ، بروالہ ، اور ہریانہ تین طاقتوں کی کشمکش کا میدان بن گئے ۔ پہلی طاقت شمال مشرقی علاقہ کے سکھ تھے ۔ دوسری طاقت شمالی اور شمال مغربی علاقہ کے بھٹی تھے اور تیسری طاقت جنوبی علاقے کے مسلمان تھے ۔
حقیقت یہ ہے کہ سکھوں اور بھٹی قبیلہ کے درمیان کشمکش کا آغاز ؁١٧٣١ میں ہی ہو چکا تھا ۔ جب ریاست پٹیالہ کے بانی اعلی سنگھ نے بھٹنیر اور فتح آباد کے بھٹی قبائل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کی ۔ یہ چپقلش اعلی سنگھ کے آخری سانسوں تک جاری رہی ۔ بھٹی قبائل اس زمانہ میں آزاد منش ، جنگجو اور غیر متمدن فطرت کے مالک تھے ۔ اور کسی کی تابعداری کے رواردار نہیں تھے ۔ اگرچہ ان کا پیشہ لوٹ مار تھا ۔ لیکن ان کی بہادری ، ان کی تیزی سے حرکت کرنے کی صلاحیت ، اور ان کی غیر متمدن فطرت نے انہیں جنید اور پٹیالہ میں رہنے والے اپنے ہمسایوں کے ہاتھوں کچلے جانے سے محفوظ رکھا ۔ یہ لوگ اکثر کھلے دیہاتوں میں رہتے تھے یا پھر اپنےمویشیوں کے ساتھ چراگاہوں کی تلاش میں گھومتے رہتے تھے ۔ اور نزدیکی سکھ ریاستوں پر حملے اور قتل و غارت کر کے انہیں تنگ کرتے رہتے تھے ۔
اس وسیع و عریض علاقہ کے ویران مقاموں میں چند مقامات ایسے بھی تھے جہاں خطرہ کے وقت بھٹی قبیلے پناہ لے لیتے تھے ۔ ان آبادیوں کی حفاظت کا انہوں نے خاطر خواہ بندوبست کیا ہوا تھا ۔ اور وہاں وہ دشمن سے محفوظ رہ سکتے تھے ۔ یہ بستیاں فتح آباد ، سرسہ ، رانیاں ، اور ابوہر کی تھیں ۔
مخالف طاقتوں کی کشمکش
اعلی سنگھ کی بھٹیوں کے ساتھ چپقلش پورے دس سال جاری رہی مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ۔ اس زمانہ میں بھٹی قبائل کا سردار محمد امین خاں تھا ۔ ؁١٧٥٤ میں سکھ سردار نے کافی قوت جمع کر کے ایک زبردست ہلہ کیا تو ٹوہانہ ، جمال پور ، دھرسول ، اور شکار پور پر قبضہ کر لیا ۔ یہ مقامات اس زمانہ میں بھٹی سرداروں محمد امین خاں اور محمد حسن خاں کے قبضے میں تھے ۔ سکھوں کو یوں پیش قدمی کرتے دیکھ کر بھٹی سرداروں نے حصار کے ناظم سے مدد طلب کی ۔ جو اس علاقہ میں سلطنت دہلی کا نائب اور گورنر تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔






(٨٣)



ناظم نے ان کی مدد کے لیے کچھ فوج بھیجی لیکن اکال گڑھ کے مقام پر بھٹی شکست کھا گئے ۔ اس کے بعد سکھوں کے حوصلے بڑھ گئے ۔ انہوں نے بھٹیوں کے کیمپ پر شبخون مارا اور انہیں تتر بتر کر دیا ۔ محمد امین خاں وہاں سے بھاگ کر حصار پہنچ گیا اور ناظم سے مزید کمک طلب کی ۔ یہ کمک اسے پھر حاصل ہو گئی ۔ اس نے اپنی منتشر طاقت کو جمع کیا اور شاہی فوج کی مدد سے ؁١٧٥٧ میں دھرسول کے مقام پر سکھوں کا مقابلہ کیا ۔ مگر اس متحدہ فوج کو شکست ہوئی ۔ یہاں تک کہ حصار کا حاکم بھی اس لڑائی میں مارا گیا ۔ اس کے بعد سکھ اس تمام علاقے پر قابض ہو گئے اور وہ حصار تک پہچ گئے ۔ اور جہاں جہاں وہ پہچے انہوں نے خوب لوٹ مار مچائی ۔
سکھوں کی پیش قدمی
اس طرح اس علاقہ میں ایسی افراتفری کا عالم ہو گیا کہ کوئی حکومت باقی نہ رہی اور کسی حاکم کا حکم نہ مانا جاتا تھا ۔ جس گروہ کا جہاں بس چلتا لوٹ مار کا بازار گرم کر دیتا ۔ چار پانچ سال برابر یہی حالت رہی ۔ آخر دربار دہلی کا وزیر اعظم بذات خود حصار پہنچا اور حالات پر قابو پانے کی کوشش کی ۔ دیگر تدابیر کے ساتھ اس نے یہ تدبیر بھی اختیار کی کہ بھٹی قبائل کے سردار محمد امین خاں کو حصار کا ناظم مقرر کر دیا ۔ مگر یہ تدبیر بھی مفید ثابت نہیں ہوئی ۔ سکھوں کی طاقت پر کسی طرح قابو نہیں پایا جاسکا ۔ وہ مسلسل اپنی پیش قدمی پر عمل پیرا رہے اور اگلے پانچ چھ سال کے دوران پٹیالہ کے راجاؤں گمبیت سنگھ اور امر سنگھ نے جنید ، سفیدوں ، کسوہان اور ٹوہانہ پر قبضہ کر لیا ۔ اس پر ؁١٧٦٨ میں وزیراعظم نجیبالدولہ نے ایک روہیلہ سردار نذیر خاں کو ہریانہ کا ناظم بنا کر بھیجا ۔ مگر سکھوں کی بڑھتی ہوئی طاقت پر قابو پانے میں وہ بھی ناکام رہا ۔ اور برنالہ کے مقام پر سکھوں کے ساتھ ایک لڑائی میں شکست کھا کر قتل ہو گیا ۔ اس کے بعد ؁١٧٧١ میں امر سنگھ نے آگتے بڑھ کر بٹھنڈہ کے قلعہ پر بھی قبضہ کر لیا ۔ (٨)
حصار کے اگلے دو ناظم تاج محمد خان بلوچ اور نجیب علی خاں تھے ۔ مگر وہ بھی حالات کو رو براہ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ سکھوں کی طاقت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا اور ان کی پیش قدمیاں جاری رہیں ۔ یہاں تک کہ ؁١٧٧٤ کے موسم سرما میں راجہ امر سنگھ نے اپنے مشہور وزیر نانومل کو ساتھ لے کر فتح آباد کے قریب پچادوں کے مضبوط مرکز بیگھار کا محاصرہ کر لیا ۔ بھٹی سرداروں نے اس قلعہ کو بچانے کی اپنی سی ہر کوشش کی مگر انہیں کامیابی نہیں ہوئی اور یہ قلعہ بھی سکھوں کے قبضے میں چلا گیا ۔ اس پر سکھوں کے حوصلے مزید بڑھ گئے اور انہوں نے آگے بڑھ کر فتح آباد اور سرسہ پر بھی قبضہ کر لیا ۔ (٩)
سکھوں کا قبضہ
اس موقع پر دہلی کے حکمرانوں نے اس علاقہ پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی ایک اور کوشش کی اور اس دفعہ سکھوں کے مقابلہ کے لیے ایک اور روہیلہ سردار رحیم داد خاں کو منتخب کیا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٨) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹیر ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٩٠٤ ص ٢٧ ، ٢٨
(٩) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایضاً
 

نایاب

لائبریرین
(٨٤)
رحیم داد خان اس وقت ہانسی کے گورنر تھے ۔ ان کی سرکردگی میں ایک فوجی مہم سکھوں کے مقابلہ کے لیے بھیجی گٰئی ۔ اس کا پہلا مقابلہ جنید کے راجہ گچپال سنگھ سے ہوا ۔ امر سنگھ نے نانومل کی سرکردگی میں جنید کے راجہ کی مدد کے لیے فوج بھیج دی ۔ اس متحدہ سکھ فوج نے شاہی فوج کو جنید کے مقام پر شکست دی اور رحیم داد خان بھی اس لڑائی میں ہلاک ہو گیا ۔ اس شکست کا نتیجہ یہ نکلا کہ گوہانہ کا ضلع اور رہتک کا کچھ علاقہ بھی جنید کے راجہ کے قبضہ میں چلا گیا ۔ دوسری جانب امر سنگھ نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہانسی ، حصار ، اور ٹوہانہ اور آس پاس کے علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ ساتھ ہی رانیہ پر بھی اس کا قبضہ ہو گیا ۔ گویا اب سرسہ کا مکمل پرگنہ اور ہریانہ کے تمام بڑے شہر اور اہم مقامات اس کے قبضہ میں آ گئے تھے ۔ اس نے تو شام کے قلعہ کی مرمت کرائی ۔ اگروہہ کے مقام پر ایک نیا قلعہ تعمیر کرایا اور حصار شہر میں اپنے رہنے کے لیئے ایک محل کی تعمیر کرائی ۔ مگر اس کے بعد بھی پورے علاقے نے مکمل طور پر سکھوں کی بالا دستی کو قبول نہیں کیا ۔ بلکہ یہ علاقہ سکھوں ، بھٹیوں ، پچادوں ، اور جاٹ راجپوتوں کے درمیان پیہم کشمکش اور آئے دن کی لڑائیوں کا مرکز بن گیا ۔ اس طرح یہ ہوا کہ سکھوں کی لوٹ مار سے علاقہ کی تباہی میں اگر کچھ کسر باقی رہ گئی تھی ۔ تو ان آئے دن کی لڑائیوں نے وہ کسر بھی پوری کر دی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس علاقہ کا بیشتر حصہ غیر آباد اور ویران ہو کر رہ گیا ۔ (١٠)
گزیٹیر کے اس بیان میں ایک بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ ہریانہ کے پورے علاقہ پر سکھوں کے قبضہ سے فوراً پہلے آخری مسلمان ناظم رحیم داد خان کو ہانسی کا گورنر بتایا گیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اس زمانہ میں حصار کی نسبت ہانسی کو پھر اہمیت حاصل ہو گئی تھی ۔ اس کے علاوہ سرسہ کی اہمیت بھی کم ہو گئی تھی ۔ اسے صرف پرگنہ لکھا گیا ہے ۔ حالانکہ اس سے کچھ عرصہ قبل وہ اس علاقہ کے اہم ترین شہروں میں سے تھا ۔ اور اسے ضلع کا درجہ حاصل تھا ۔
معاہدہ جنید
آخر ؁١٧٨١ میں دہلی کی حکومت نے ہریانہ کے علاقہ میں امن و امان قائم کرنے کی شاید آخری کوشش کی اور یہ کوشش بڑی حد تک کامیاب ثابت ہوئی ۔ اس دفعہ سردار نجف علی خان اور راجہ جے سنگھ کی سربراہی میں ایک فوج سکھوں کے مقابلہ کے لیے بھیجی گئی ۔ سکھوں نے شاید حالات کی نزاکت کو بھانپ لیا تھا ۔ چنانچہ فریقین کے مابین جنید کے مقام پر ایک معاہدہ طے پایا جو معاہدہ جنید کہلاتا ہے ۔ اس معاہدہ کی رو سے ہانسی ، حصار ، روہتک ، مہم اور توشام پر دہلی کی حکومت کی بالا دستی کو تسلیم کر لیا گیا ۔ فتح آباد اور سرسہ بھٹی سرداروں کے قبضہ میں چلے گئے اور باقی علاقہ جو سکھوں کے قبضہ میں تھا وہ ان کی تحویل میں رہنے دیا گیا ۔ اس معاہدہ کے بعد راجہ جے سنگھ کو حصار کا ناظم مقرر کر دیا گیا ۔ (١١)
مفتی غلام سرور لاہوری ان واقعات کے سلسہ میں لکھتے ہیں ۔
“آخر چغتائی سلطنت کمزور ہو گئی تو سکھوں نے قوی ہو کر اس علاقہ میں جابجا قتل و غارت شروع کی ۔ امر سنگھ پٹیالہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٠) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرز ۔ ضلع حصار اور لوہارو سٹیٹ ؁١٩٠٤ ص ٢٧ ، ٢٨
(١١) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایضاً







(٨٥)
کے رئیس نے ہریانہ میں آکر اول موضع بھکر علاقہ فتح آباد کو لوٹا ۔ پھر فتح آباد کے قلعہ اور سرسہ پر اپنا تسلط جمایا اس وقت رحیم داد خان نام ناظم دہلی سے مامور ہو کر ہریانہ میں آیا ۔ سکھوں نے جمع ہو کر اس لڑائی کی اور اس نے عین معرکہ میں شہادت پائی ۔ اس کے مارے جانے کے بعد امر سنگھ کا قبضہ ہانسی ، حصار و توشام پر بھی ہو گیا ۔ اور سکھ لوگ جابجا ، دیہہ بدیہہ لوٹتے پھرتے رہے کسی کو ان کے ساتھ مقابلہ کی طاقت نہ تھی ۔ یہ حال سن کر نواب نجف خان اور راجہ جے سنگھ فوج لے کر دہلی سے ہریانہ آئے اور بمقام جنید ، امر سنگھ ، پٹیالہ کے رئیس سے انہوں نے ملاقات کی اور باہم عہد نامہ لکھ کر ہانسی ، حصار ، رہتک ، مہم ، توشام ، پر پھر اپنا تسلط جما کر واپس چلے گئے ۔ باقی ملک جو سکھاوں نے دبا لیا تھا ان کے پاس ہی رہنے دیا اس وقت راجہ جے سنگھ ناظم ہریانہ کا شاہ دہلی کی طرف سے مقرر ہوا ۔ (١٢)
انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں اس زمانہ کے بارے لکھا ہے ۔
“نادر شاہ کے حملہ کے بعد یہاں انتشار اور بد امنی پھیل گئی ۔ یہ علاقہ کئی طاقتوں کی رسہ کشی کا میدان بن گیا ۔ ایک جانب ابھرتی ہوئی سکھ طاقت تھی ۔ دوسری جانب کمزور مغل حکومت تھی ۔ تیسری جانب لوٹ مار کرنے والے بھٹنیر اور فتح آباد کے بھٹی سردار تھے جو راجپوت نسل سے مسلمان ہو گئے تھے ۔ جب سکھوں کی طاقت بڑھی تو بھٹی سردار نے مغلوں کی مدد چاہی ایک موقع پر بھٹی سردار کو حصار کا ناظم بھی مقرر کر دیا گیا تھا ۔ لیکن وہ اور اس کے بعد ہانسی اور حصار کے گورنر بننے والے امر سنگھ کی سکھ فوجوں پر قابو نہیں پا سکے ۔ اور آخر پورا علاقہ سکھوں کے قبضہ میں چلا گیا ۔ یہ صورت مغلوں اور سکھوں کے درمیان ؁١٧٨٤ کے معاہدہ جنید تک جاری رہی ۔ اس معاہدہ کے ذریعے ہریانہ کا علاقہ مغلوں کو واپس مل گیا ۔ سرسہ اور فتح آباد بھٹی سرداروں کو دےدیا گیا ۔ اور باقی فتح شدہ علاقے سکھوں کے پاس رہنے دیئے گئے ۔ (١٣)
چالیسا کا کال
یہ پورا علاقہ رات دن کی خانہ جنگی ، مختلف گروہوں کی لوٹ مار اور ہر وقت کی بدامنی کے باعث اجڑ کر ویران ہو گیا تھا ۔ رہی سہی جوکسر تھی وہ ایک قدرتی آفت نے پوری کر دی ۔ یہ آفت ؁١٧٨٣ کا وہ خوفناک قحط تھا جسے اس علاقہ میں “ چالیساکا کال “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ چونکہ بکر ماجیتی کیلنڈر کے حساب سے یہ سن ١٨٤٠ بکرمی تھا ۔ اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ۔ یہ اس قدر زبردست اور ہولناک قحط تھا کہ پورا علاقہ ایک وسیع ویرانے میں تبدیل ہو گیا اور شہر اور قصبے اس طرح اجڑ گئے کہ کوئی متنفس وہاں زندگی کا ثبوت دینے کے لیے باقی نہیں رہا ۔ مورخین نے بیان کیا ہے کہ ہانسی اور حصار کے شہروں میں کوئی زندہ فرد باقی نہیں رہا تھا ۔ اور یہ دونوں شہر اس طرح اجڑ گئے تھے کہ زندگی کا ثبوت دینے کے لیے یہاں کسی جانور تک کا نام و نشان نہیں ملتا تھا ۔ بعد کے زمانہ میں دیر تک اس قحط کا ذکر لوک کہانیوں اور گیتوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٢) مفتی غلام سرور لاہوری ۔ تاریخ مخزن پنجاب ۔ نوکلشور ، لکھنؤ ؁١٨٧٧ ص ٥٣ ، ٥٤
(١٣) Encyclopaedia of Islam , Leadon 1979 , V. 111, P . 225






(٨٦)
شدید خوف و دہشت کے جذبہ کے ساتھ کیا جاتا رہا ۔ اس قحط نے جہاں اس روز روز کی لڑائیوں کے ہاتھوں تباہ حال علاقہ کی ویرانی کو مکمل کر دیا ۔ وہاں سکھوں کو بھی مجبور کر دیا کہ معاہدہ جنید کا پورا احترام کرتے ہوئے اپنے علاقوں میں محدود رہیں اور اس علاقے میں مزید قسمت آزمائی نہ کریں ۔
یہ قحط کس قدر خوفناک اور دہشت خیز تھا ۔ اس کا انادازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہانسی اور حصار کے شہر مکمل بارہ سال تک پوری تباہی اور ویرانی کے عالم میں پڑے رہے ۔ اور ان کی دوبارہ آبادی کی کوئی صورت پیدا نہ ہو سکی ۔ اس قحط کے پورے بارہ سال گزر جانے کے بعد کہیں ان شہروں کی دوبارہ آبادی کی سبیل نکلی ۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس علاقہ کی آبادیوں میں سے صرف بروالہ اور بھونہ ایسی آبادیاں تھیں جن کی آبادی برقرار رہنے کا پتہ چلتا ہے ۔ اس قدر مکمل تباہی اوربربادی کے مقابلہ میں ان بستیوں کا آباد رہ جانا انتہائی تعجب خیز ہے ۔ اگرچہ اس قحط کے تباہ کن اثرات ان بستیوں نے بھی پوری طرح برداشت کیے اور اس کے خوف و دہشت کا سایہ طویل عرصہ تک ان کے اوپر مسلط رہا ۔ لیکن مکمل ویرانی سے خود کو محفوظ رکھ جانا بھی ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جو ان بستیوں نے انجام دیا ۔
ایک انگریز مہم جو
ہریانہ کا علاقہ جب طویل عرصہ کی مسلسل لڑائیوں سے برباد ہونے کے بعد ایک شدید اور خوفناک قحط کے ہاتھوں اس طرح ویران ہو چکا تھا کہ ہانسی جیسا بھرا پرا شہر بھی مکمل طور پر اجڑ گیا تھا ۔ پورے علاقہ میں خال خال ہی انسانی آبادی رہ گئی تھی ۔ علاقہ کو اس طرح اجڑے ہوئے پورے بارہ سال گزر گئے تھے ۔ اور ملک میں کوئی مرکزی حکومت باقی نہ رہ جانے کے باعث اس علاقہ کی دوبارہ آبادی کا کسی کو خیال ہی نہیں آیا تھا ۔ اس تاریخی موڑ پر ایک انگریز مہم جو جارج تھامس یکایک ابھر کر سامنے آتا ہے اور سارے علاقہ پر قبضہ کر کے اس کا حکمران بن جاتا ہے ۔
یہ شخص انگریز تھا اور بڑی صلاحیتوں کا مالک تھا ۔ وہ ؁١٧٨١ میں ایک ملاح کی حیثیت سے ہندوستان پہنچا تھا ۔ یہاں آنے کے بعد کچھ عرصہ جنوبی ہند میں مختلف سرداروں کی ملازمت کرتا رہا ۔ اس کے بعد دہلی چلا آیا ۔ یہاں زیب النسابیگم کے ملازمین میں شامل ہو گیا ۔ یہ خاتون سردھانہ کی بیگم سامرو کے نام سے مشہور تھیں ۔ ان کی خدمت میں اس نے اپنی کارکردگی اور صلاحیتوں کے باعث ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا ۔ لیکن محلاتی سازشوں کے باعث یہ ملازمت اسے ترک کرنا پڑی ۔ اب وہ مرہٹہ سردار آپا کھانڈے راؤ کے دربار میں پہنچ گیا ۔ اور وہاں اسے ملازمت مل گئی ۔ یہ مرہٹہ سردار مہاراجہ سندھیا کا قریبی عزیز تھا ۔ اور ان دنوں جھجر ، دادری اور نارنول پر حکمران تھا ۔ جاج تھامس نے اپنے آقا کی خدمت کے لیے ایک فوج ترتیب دی ۔ اس فوج کے اخراجات کے لیے اسے جھجر اور رہتک میں ایک جاگیر حاصل ہو گئی ۔ اس طرح اس فوج کے ذریعہ سے اس نے پہلے اپنے آقا کھانڈے راؤ اور اس کے بعد اس کے لڑکے اور جانشین داموں راؤ کی بڑی قابل قدر خدمات انجام دیں ۔
مگر اس جگہ بھی درباری سازشوں نے اسے چین نہیں لینے دیا ۔اور اسے مجبوراً یہ ملازمت بھی ترک کرنا پڑی ۔ یہ زمانہ ملک بھر میں افراتفری کا تھا ۔ مرکزی حکومت اس قدر کم زور ہو چکی تھی کہ جو شخص تھوڑی سی طاقت جمع کر لیتا تھا وہ کسی نہ کسی علاقہ پر قابض ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
(٨٧)
کر اپنی حکومت قائم کر لیتا تھا ۔ جارج تھامس نے بھی ان حالات سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔ اسےقسمت آزمائی کے لیے ہریانہ کا علاقہ نظر آیا جو ان دنوں ویران پڑا تھا ۔ اور یہاں کسی قسم کی مزاحمت کا خدشہ بہت کم تھا ۔ چنانچہ سب سے پہلے اس نے تواس کنہورا کے قصبہ پر قبضہ کیا اور وہاں کے قلعہ کو اپنا مرکز قرار دیا۔ یہاں اس کے پاؤں جم گئے تو وپ آگے بڑھا اور ہانسی پر قبضہ کر کے اسے اپنا مرکز بنا لیا ۔یہ ؁١٧٩٥ کی بات ہے ۔ ؁١٧٨٣ کی وحشت ناک قحط کو پورے بارہ سال گزر چکے تھے ۔ اس قحط کے نتیجہ میں مکمل طور پر اجڑ جانے کے بعد ہانسی کا شہر اس عرصہ میں ویران پڑا رہا تھا ۔ اور کھنڈر بن کر رہ گیا تھا ۔ جارج تھامس نے اس کے قلعہ کی مرمت کرائی اور شہر کو نئے سرے سے آباد کیا ۔ تاریخ مخزن پنجاب اس کے متعلق میں لکھا ہے ۔
“ شہر ہانسی و حصار کو اس نے جن کو سکھوں نے بالکل اجاڑ دیا تھا ازسرنو آباد کر کے دارالسلطنت بنایا “ (١٤)
آگے چل کر اسی سلسلے میں لکھا ہے ۔
“ سمت ١٨٤٠ بکرمی کے قحط میں سکھوں کی غارت گری کے بعد یہ شہر بالکل اجڑ گیا ۔ اور چودہ پندرہ برس برابر اجڑا رہا ۔ پھر مرہٹوں کی عملداری میں جارج تھامس صاحب نے دوبارہ اس کو آباد کیا ۔ چاروں طرف اس کے پختہ فصیل بنوا کر چھ دروازے رکھے اور اس کو اپنا دارالحکومت مقرر کیا ۔ آبادی اس شہر کی شمالاً جنوباً طول میں زیادہ ہے اور عرض بہت کم ہے “ (١٥)
جارج تھامس نے ہانسی میں اپنا مستحکم مرکز قائم کرنے کے بعد آس پاس کے علاقوں کو اپنی عملداری میں شامل کرنا شروع کر دیا ۔ علاقہ چونکہ ویران پڑا تھا اور کسی قسم کی مزاحمت نہیں ہو رہی تھی اس لیے جلد ہی اس کی عملداری کی حدود حصار ، توشام ، بروالہ ، اور اس علاقہ کے تمام دیہات تک پھیل گئی ۔ یہاں تک کہ جلد ہی ہریانہ کا پورا علاقہ اس کے قبضے میں آ گیا ۔ تاریخ مخزن پنجاب کا بیان ہے ۔
“ کل ملک ہریانہ کا جو دہلی سے نوے میل شمال و مغرب میں ہے ۔ تھامس صاحب کے تصرف میں آ گیا ۔ جس کی وسعت جنوباً شمالاً اسی کوس و اسی قدر شرقاً غرباً بھی ہو گا “
آگے چل کر قدرے تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ۔
“خاص قصبہ ہانسی کو اس نے اپنا دارالحکومت بنایا ۔ اور اگر خاص اس کے ریاست کی بیان کیا جاوے تو یہ ہے کہ شمالی حد میں اس کے دریائے گھگھر اور جنوب قصبہ بہل اور شرق میں مہم اور غرب میں بہادروتی تھا اور آٹھ سو موضعے اس میں شامل تھے ۔ اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٤) مفتی غلام سرور لاہوری ۔ تاریخ مخزن پنجاب ۔ نوکلشور ۔ لکھنؤ ؁١٨٧٧ ص ٢٤
(١٥) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایضاً ص ٥٩
(١٦)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضاً ص ٢٤
اور W.W.Hunter, Imperial Gazetteer of India . London 1886 , p 337











(٨٨)
بعد انتظام قرار واقعی کے تھامس صاحب نے سکہ اپنے نام کا جاری کیا ۔ اور توپیں قلعہ شکن و میدانی لڑائی کی ڈھلوائیں ۔ لشکر آراستہ کیا ، شان و شوکت شاہانہ جمائی ۔ یہاں تک کے اس کے پاس پچاس ضرب توپ اور آٹھ پلٹن ہزار ہزار آدمی کی اور ایک ہزار سوار اور ساڑھے تین ہزار بے قاعدہ فوج جمع ہو گئی ۔ اور جارج گڑھ اپنے بنائے ہوئے قلعہ میں جو جھجر سے چار کوس کے فاصلے پر ہے سامان جنگ و ذخیرہ جمع کیا “ (١٧)
اس طرح گویا تمام ہریانہ پر جارج تھامس کی حکمرانی مستحکم ہو گئی تھی ۔ مگر اس نے اس پر قناعت نہیں کی اور مہم جوئی کے تقاضوں سے مجبور ہو کر جے پور کے علاقہ میں واقع شیکاوٹی پر حملہ آور ہو گیا ۔ ؁١٧٩٨ میں اس نے بیکانیر کی حدود میں بھی کچھ حملے کیے اور لوٹ میں بہت سا مال اسباب حاصل کیا ۔ اسی سال کے آخر میں اس نے جنید پہنچ کر اس شہر کا محاصرہ کر لیا ۔ مگر جنید کے راجہ کی مدد کے لیے پٹیالہ اور نابھ کی فوجیں پہنچ گئیں ۔ اور تینوں ریاستوں کی سکھ فوجوں نے مل کر اس محاصرہ کو ناکام بنا دیا ۔ جارج تھامس یہاں سے پیچھے ہٹ کر مہم کی جانب چلا گیا ۔ مگر وہاں سے راتوں رات سفر کر کے وہ نارنول پہنچ گیا جہاں سکھ افواج مقیم تھیں ۔ یہاں اس نے سکھوں پر اس قدر اچانک حملہ کیا کہ انہیں تتر بتر کے رکھ دیا ۔
دوسری جانب بھٹی سردار محمد امین خان نے ؁١٧٨٣ میں بھٹنیر سے لے کر فتح آباد تک کا گھگھر کی وادی کا تمام علاقہ اپنے قبضہ میں لے لیا تھا ۔ اس کے مرنے کے بعد یہ علاقہ اس کے دونوں بیٹوں کے درمیان تقسیم ہو گیا تھا ۔ خان بہادر خان فتح آباد کا حاکم بنا اور قمرالدین خاں کے حصے میں سرسہ اور رانیاں آئے ۔ ؁١٧٩٩ میں قمرالدین خاں کی ترغیب پر جارج تھامس نے بڈھلاڈہ اور بھٹی علاقہ سے گزر کر بیکانیر پر حملہ کیا اور اس کے عوض کافی بڑی رقم حاصل کی ۔ اسی سال وہ مرہٹہ سردار انباجی انگلیا کی مدد کے لیے گیا جو ان دنوں سندھیا کے باغی لکواڈوڈا سے برسرپیکار تھا ۔ یہاں سے بھی اسے ایک بڑی رقم حاصل ہوئی ۔
اپنی مہم جوئی کے شوق میں اس نے ایک دفعہ پھر سکھوں کے علاقہ پر حملہ کر دیا ۔ یہ حملہ اس کی تباہی کا باعث بن گیا ۔ پہلے ہلہ میں وہ سکھ علاقہ میں دور تک گھستا ہوا بنسر کے مقام تک پہنچ گیا ۔ مگر وہاں اس کا مقابلہ سکھوں کی متحدہ قوت سے ہوا اور اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ بہت بڑا جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے بعد وہ بمشکل وہاں سے نکل سکا اور کیتھل ، جنید ، سونی پت ، اور پانی پت سے ہوتا ہوا جارج گڑھ کے مقام تک پہنچ سکا ۔ اور یہاں کچھ دن قیام کیا یہاں اس نے ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا ۔ اسی کے نام پر یہ جارج گڑھ کہلاتا تھا ۔ بعد میں یہ نام بگڑ کر جہازگڑھ بن گیا ۔ یہمقام ضلع رہتک میں تھا ۔ (١٨)
جارج تھامس کی طویل غیر حاضری کے باعث ہانسی کے علاقہ میں امن و امان کی صورت حال خراب ہونی شروع ہو گئی تھی ۔ اس لیے ؁١٨٠٠ کے آغاز میں وہ ہانسی واپس پہنچ گیا اور یہاں کے انتظامات کو سنبھالنے کے اقدامات میں مصروف ہو گیا ۔ (١٩)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٧) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٩٠٤ ص ٢٨ ، ٢٩
(١٨) مفتی غلام سرور لاہوری ۔ تاریخ مخزن پنجاب ۔ نوکلشور ۔ لکھنؤ ؁١٨٧٧ ص ٥٤
(١٩) W.W.Hunter, Imperial Gazetteer of India . London 1886 , p337
 

نایاب

لائبریرین
(٨٩)
مرہٹوں کا قبضہ
یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر میں مرہٹوں کو ایک بڑی طاقت کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی ۔ مرہٹہ سردار مہاراجہ سندھیا سارے شمالی ہند کو اپنی مملکت خیال کرتا تھا ۔ چنانچہ جارج تھامس کو ایک ابھرتی ہوئی طاقت کی حیثیت سے برداشت کرنا مرہٹوں کے لیے ممکن نہیں تھا ۔ اس مسلہ کو حل کرنے کے لیے مہاراجہ سندھیا کے فوج کے کمانڈر جنرل پیرن نے جارج تھامس کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا اور اسے بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ غیر مشروط طور پر سندھیا کی تابعداری کو قبول کر لے ۔ مگر جارج تھامس اس بات پر راضی نہ ہوا ۔ اب دوسری صورت یہی تھی کہ طاقت کے بل پر اسے مطیع بنا لیا جائے ۔ اس مقصد کے لیے جنرل پیرن نے لیفٹیننٹ بارکوئن کی سرکردگی میں ایک فوجی مہم ترتیب دی ۔ اس فوج میں وہ شخص بھی شامل تھا جو مستقبل میں کرنل جیمز سکنر کے نام سے مشہور ہونے والا تھا ۔ مرہٹوں کی فوج کے مقابلہ کے لیے جارج تھامس نے بھی اپنی قوت مجتمع کی اور جارج گڑھ کے قریب بارنی کے مقام پر دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا ۔ دونوں فوجوں میں زور آزمائی ہوئی مگر کوئی فیصلہ کن صورت سامنے نہ آ سکی ۔ لڑائی کے بعد چند روز جارج تھامس اسی مقام پر خیمہ زن رہا ۔ اس کے بعد ہانسی واپس آ گیا ۔ اس کے پیچھے پیچھے بارکوئین بھی اپنی فوج لے کر ہانسی پہنچ گیا ۔ یہاں ایک زبردست لڑائی ہوئی جس میں جارج تھامس کو زک اٹھانا پڑی اور وہ پیچھے ہٹ کر قلعہ بند ہو گیا ۔ اس کے بعد صلح کے مذاکرات ہوئے ۔ ان مذاکرات کے نتیجہ میں جارج تھامس بہتر شرائط پر قلعہ سے دست بردار ہونے پر تیار ہو گیا ۔ معاہدہ ختم ہوا تو وہ اپنی تمام مہم جوئیوں کو چھوڑ کر انگریز عملداری کے علاقہ میں چلا گیا ۔
جارج تھامس کی دست برداری کے بعد بارکوئین کچھ عرصہ ہانسی میں مقیم رہا اور امن و امان کی بحالی کے اقدامات کرتا رہا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس دوران اس نے حصار اور توہانہ کے شہروں کی کچھ عمارتوں کو ازسرنو بنوایا تھا ۔ آخر ؁١٨٠٢ میں اس نے ہانسی کے مغل خاندان کے ایک فرد مرزا الیاس بیگ کو مرہٹوں کی جانب سے اس علاقہ کا ناظم مقرر کیا اور خود علی گڑھ چلا گیا ۔




(٩٠)
انگریزوں کا عہد
؁١٨٠٤ کا معاہدہ
ہانسی پر جن دنوں مرہٹوں کو تسلط حاصل ہوا اور اس کے بعد انہوں نے تمام ہریانہ کو اپنے قبضے میں لے لیا ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب انگریزوں اور مرہٹوں کے درمیان لڑائیاں فیصلہ کن صورت اختیار کرتی جا رہی تھیں ۔ انہی لڑائیوں کے نتیجہ میں آخرکار مہاراجہ سندھیا نے گنگا اور جمنا کے درمیانی علاقہ اور جے پور اور جودھ پور کی دیسی ریاستوں کے شمالی علاقہ سے انگریزوں کے حق میں دست بردار ہونا منظور کر لیا ۔ آخر مئی ؁١٨٠٤ میں پونا کے مقام پر انگریزوں اور مرہٹوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ۔ اس کی رو سے یہ تمام علاقے برطانوی حکومت میں شامل ہو گئے ۔ ان علاقوں میں گوڑگاؤں ، رہتک ، حصار ، ہانسی ، بروالہ ، اور ہریانہ کے بیشتر علاقے شامل تھے ۔ (١)
ہریانہ کی صورت حال
ہریانہ کا علاقہ جس وقت انگریزوں کی عملداری میں شامل ہوا اس وقت اس کی جو صورت حال تھی اس کا کسی قدر اندازہ گذشتہ صفحات سے ہو گیا ہو گا ۔ طویل عرصہ کی خانہ جنگی مختلف گروہوں کی بے دریغ لوٹ مار اور آخر میں ایک انتہائی خوفناک قحط کے باعث یہ علاقہ بالکل تباہ ہو چکا تھا ۔ خاص طور پر جس علاقہ میں ہانسی ، حصار ، اور بروالہ واقع ہیں ۔ اس کا پیشتر حصہ غیر آباد اور ویران تھا ۔ دوسری جانب پوری سرسہ تحصیل میں صرف گیارہ گاؤں آباد تھے ۔ یہ تمام کے تمام گھگھر کے کنارے پر بسے ہوئے تھے اور ان میں مسلمان بھٹی ، جوئیہ ، تنوار ، چوہان ، اور کچھ آرائیں گھرانے رہائیش پذیر تھے ۔ (٢)
اس وقت ہریانہ کے تمام علاقہ کی یہ حالت تھی کہ گھگھر کا نزدیکی علاقہ کیسر اور پیلو کے جنگلی درختوں سے اٹا پڑا تھا ۔ اس سے ہٹ کر غیر آباد اور ریتلاعلاقہ یا تو ویران پڑا تھا یا جنگلی گھاس اور جھاڑ جھنکار سے بھرا ہوا تھا ۔ کہیں کہیں کیکر کے درختوں کے علاوہ دور دور تک کوئی درخت نظر نہیں آتا تھا ۔ یہ درخت بھی ان جوہڑوں کے کناروں پر اگ آتے تھے جن میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا تھا ۔ اور کچھ عرصہ کھڑا رہتا تھا ۔ اس بے آباد علاقہ میں خانہ بدوش قبائل اپنے مویشیوں کے گلوں کو لے کر پانی اور گھاس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٨٠٤ ، ص ٣٠ ، ٣١ مفتی غلام سرور لاہوری ۔ تاریخ مخزن پنجاب ۔ نوکلشور ، لکھنؤ ؁١٨٧٧ ص ٥٤
(٢) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضاً
 

نایاب

لائبریرین
(٩١)

کی تلاش میں ادھر ادھر پھرا کرتے تھے ۔ ان خانہ بدوش قبائل میں مسلمان راجپوت ، بھٹی ، چوہان ، پنوار ، اور جوئیہ شامل تھے ۔ بارش کا ہونا قطعاً غیر یقینی تھا ۔ اگر ہو بھی جاتی تھی تو بہت کم ۔ چنانچہ زندگی سخت دشوار تھی ۔ خاص طور پر پینے کا پانی حاصل کرنا ہی بہت بڑا مسلہ تھا ۔ تمام علاقہ میں کوئی تعمیر شدہ کنواں موجود نہیں تھا ۔ بارش کا پانی اگر کہیں جمع ہوتا تو گرمی کے موسم میں خشک ہو جاتا تھا ۔ اس مسلہ کا ایک ہی حل تھا وہ یہ کہ کچے کنویں کھودے جاتے تھے جن میں اینٹوں کی تعمیر موجود نہیں ہوتی تھی ۔ مگر یہ کام بھی آسان نہیں تھا اس پر بڑی محنت صرف ہوتی تھی ۔ اور بڑی مشکل پیش آتی تھی ۔ کیونکہ یہاں زیر زمین پانی ڈیڑھ سو فٹ سے زیادہ گہرائی پر ملتا تھا ۔ وہ بھی ہر جگہ پینے کے قابل نہ تھا ۔ جس سال بارش نہیں ہوتی تھی اس سال نہ صرف یہ کہ جوہڑوں کا پانی خشک ہو جاتا تھا بلکہ کچے کنوؤں کا پانی بھی پینے کے قابل نہیں رہتا تھا ۔ گھاس سوکھ جاتی تھی اور مویشی پیاس اور بھوک سے مر جاتے تھے ۔ اس کے بعد ان لوگوں کی زندگی بھی اجیرن ہو جاتی تھی جن کا گزارہ ان جانوروں کے گوشت اور دودھ پر ہوتا تھا ۔ چنانچہ وہ بھی دوسرے علاقوں کی جانب نکل جاتے تھے ۔ ایسے موسم میں کوئی جنگلی جانور بھی یہاں نظر نہیں آتا تھا ۔ یہاں تک کہ پرندے بھی اس جانب کا رخ نہیں کرتے تھے ۔ پانی کی اس علاقہ میں اس قدر قلت رہتی تھی کہ ایک روایت کے مطابق مویشیوں کو عام حالات میں بھی تین دن میں ایک مرتبہ پانی میسر آتا تھا ۔ بلکہ موسم اگر زیادہ گرم اور خشک ہوتا تھا تو بعض اوقات مویشیوں کو آٹھ دن میں ایک مرتبہ پانی پلایا جاتا تھا ۔ (٣)
ان حالات میں اس علاقہ میں زندگی کا سب سے بڑا سہارا مویشی ہی تھے ۔ چنانچہ مویشیوں کی چوری بھی عام تھی ۔ بلکہ ڈاکہ ڈال کر بھی مویشی چھین لیے جاتے تھے ۔ اس صورت حال میں زندگی کے معمولات کو قائم رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ ہل چلانا جاننے کے ساتھ ساتھ تلوار سے بھی کام لینے کا فن آتا ہو ۔ (٤)
غرض یہ کہ جس وقت یہ علاقہ انگریزوں کی عملداری میں شامل ہوا اس وقت اس کا اکثر و بیشتر حصہ غیر آباد ریگستان پر مشتمل تھا تمام علاقہ میں کہیں کہیں دور دور کے فاصلوں پر بڑے گاؤں اور قصبے تو آباد تھے مگر چھوٹے گاؤں اور دیہات سب کے سب لڑائیوں اور موسم کی سختیوں کے باعث اجڑ گئے تھے اور وہاں کی آبادی نے بھی اپنی حفاظت کی خاطر بڑے دیہات اور قصبوں میں جا کر رہائیش اختیار کر لی تھی ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مرہٹوں نے جب یہ علاقہ ایک معاہدے کے تحت انگریزوں کے سپرد کیا تو اس وقت اس علاقہ پر مرہٹوں کا قبضہ برائے نام ہی تھا ۔ بلکہ اس کے بعد کئی سالوں تک انگریزوں نے بھی اسی رویہ کو برقرار رکھا اور ان کا قبضہ بھی یہاں برائے نام ہی رہا ۔ (٥)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٣) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٨٠٤ ، ص ٣٠ ، ٣١ مفتی غلام سرور لاہوری ۔ تاریخ مخزن پنجاب ۔ نوکلشور ، لکھنؤ ؁١٨٧٧ ص ٥٤
(٤) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضاً
(٥) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٨٠٤ ، ص ٣٢ ، ٣٣





(٩٢)

انگریزوں کی عملداری
؁١٨٠٣ میں جب اس علاقہ کی عملداری مرہٹوں سے منتقل ہو کر انگریزوں کو حاصل ہوئی تو جنرل آکٹرلونی ہانسی پہنچے اور انہوں نے ہانسی کے قلعہ کی حیثیت بحال کی اور مرزا الیاس بیگ کو وہاں کے ناظم کی حیثیت سے برقرار رکھا ۔ اس زمانے میں فتح آباد کے خان بہادر خاں اور رانیاں کے نواب ضابطہ خاں کی سرکردگی میں بھٹی قبائل اپنی پرانی عادت کے مطابق اس علاقہ پر حملے کرتے رہتے تھے ۔ مرزا الیاس بیگ حصار میں متعین فوج لے کر ان کے مقابلہ کے لیے گئے ۔ مگر انہیں شکست ہوئی اور فتح آباد کے مقام پر وہ لڑائی میں مارے گئے ۔ ان کے بعد یکے بعد دیگرے ہریانہ کے تین ناظم مقرر کئے گئے ۔ پہلے لوہارو کے نواب معین الدین خاں اور پھر احمد بخش خاں کو یہ عہدہ دیا گیا ۔ اور اس کے بعد دوجانہ کے عبدالصمد خاں کو مقرر کیا گیا ۔ لیکن اس علاقہ میں لاقانونیت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ کوئی بھی حالات پر قابو نہ پا سکا اور ہر ناظم نے اس ناخوشگوار ذمہ داری سے جلد ہی جان چھڑا لی ۔ یہاں تک کہ ؁١٨٠٨ سے لے کر ؁١٨١٠ تک کا زمانہ تو ایسا گزرا کہ لگتا تھا یہاں سرے سے کوئی حکومت موجود ہی نہیں ہے ۔ (٦)
آخر ؁١٨١٠ میں ایڈورڈ گارڈنر کو ایک مضبوط فوجی قوت کے ساتھ ہریانہ میں امن قائم کرنے اور یہاں کا نظم و نسق درست کرنے کے لیے بھیجا گیا ۔ اس فوجی وقت میں وہ مشہور رسالہ بھی شامل تھا جس کی قیادت کرنل جیمز سکنر کے ہاتھ میں تھی اور جو بعد میں اپنے کارناموں کی بدولت بڑے امتیازات کا حامل بنا ۔ ایڈورڈ گارڈنر نے یہاں پہنچنے کے بعد سب سے پہلے بھوانی پر قبضہ کیا جو اب تک انگریزوں کے قبضے میں نہیں تھا ۔ اس کے بعد وہ ہانسی اور حصار سے ہوتا ہوا فتح آباد پہنچا ۔ خاں بہادر خاں کو اس کے مقابلہ پر شکست ہوئی اور اسے اس علاقہ سے نکال دیا گیا ۔ اس کے مقبوضہ تمام علاقہ کو انگریزی عملداری میں شامل کر کے ضلع کا حصہ بنا دیا گیا ۔ ضابطہ خاں نے تابعداری قبول کر لی ۔ اس لیے اس کے علاقہ کو اسی کے قبضہ میں رہنے دیا گیا ۔ ایڈورڈ گارڈنر نے ہانسی کو انتظامی صدر مقام قرار دے دیا تھا ۔ اور وہ قریباً چھ سال تک اس علاقہ کا انتظامی سربراہ رہا ۔ اس دوران اس نے علاقہ میں لاقانونیت کو ختم کیا ۔ امن و امان کو بحال کیا اور عام زندگی کو کسی حد تک روبراہ کیا ۔ (٧)
ضابطہ خاں نے بعد میں بھی انگریز علاقہ پر حملوں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ جاری رکھا تھا ۔ آخر ؁١٨١٨ میں اس کے خلاف ایک فوجی مہم بھیجی گئی ۔ اس کے تمام علاقہ کو ضبط کر کے انگریز عملداری کا حصہ بنا دیا گیا اور اس طرح تمام علاقہ پر انگریزوں کا قبضہ مکمل ہو گیا ۔ جنگ آزادی ؁١٨٥٧ تک یہ صورت حال تھی کہ موجودہ ضلع حصار دو ضلعوں میں تقسیم تھا ۔ ایک ضلع کا نام بھٹیانہ تھا جس کا صدر مقام سرسہ تھا ۔ اس میں تحصیل سرسہ مکمل اور تحصیل فتح آباد کا کچھ حصہ شامل تھا ۔ باقی تمام علاقہ ضلع حصار میں شامل تھا ۔ صرف بھوانی شہر اور اس کے اردگرد کے چند گاؤں اس سے باہر تھے ۔ (٨)
جنگ آزادی ؁١٨٥٧
مئی ؁١٨٥٧ میں جنگ آزادی شروع ہوئی تو اس وقت حصار اور ہانسی میں ہریانہ رجمنٹ متعین تھی ۔ اس کی کام میجر سٹیفورڈ کے پاس تھی ۔ اس کا دفتر حصار میں تھا ۔ اس زمانہ میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٦) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٨٠٤ ، ص ٣٢ ، ٣٣
(٧) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایضاً
(٨) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضاً





(٩٣)

ضلعی انتظامیہ کا سربراہ جان ویدر برن تھا ۔ وہ حال ہی میں انگلستان سے آ کر حصار کے مجسٹریٹ اور کلکٹر کے عہدوں پر فائز ہوا تھا ۔ جنگ آزادی کی اطلاع جونہی دہلی سے موصول ہوئی ۔ انگریز افسروں نے خزانہ کی حفاظت اور شہر کے حالات کو قابو میں رکھنے کا پورا انتظام کر لیا تھا ۔ بظاہر حالات قابو میں بھی رہے ۔ لیکن لاوا اندر ہی اندر پک رہا تھا ۔ صرف اوپر کی سطح پرسکون تھی ۔ لیکن یہ مصنوعی سکون کتنے دن قائم رہ سکتا تھا ۔ لاوا آخر ایک پھٹنا ہی تھا ۔ چنانچہ ٢٩ مئی کو سب سے پہلا دھماکہ ہانسی میں ہوا ۔ وہاں متعین فوج کے ملکی سپاہیوں نے دن کے گیارہ بجے بغاوت کر دی ۔ میجر سٹیفورڈ اس وقت ہانسی میں موجود تھا ۔ مگر وہ ان سپاہیوں کے ہاتھ نہ آ سکا ۔ ایک مقامی غیر مسلم فوجی اور فوجیوں سے ربط ضبط رکھنے والے ایک بنئے مراری نامی نے اسے حالات سے عین وقت پر آگاہ کر دیا ۔ اور وہ چند دیگر انگریز افسروں سمیت بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔ مگر باقی انگریز جو سپاہیوں کے ہتھے چڑھ گئے وہ قتل کر دیئے گئے اور ان کے مکانات کو آگ لگا دی گئی ۔ (٩)
ہانسی سے ایک سوار کو حصار بھیجا گیا تاکہ وہاں موجود فوجیوں کو صورت حال کی اطلاع اور انہیں بھی اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دے ۔ اس دعوت کا اس قدر فوری اثر ہوا جیسے وہاں کے فوجی اس کے منتظر ہی تھے ۔ چنانچہ وہاں متعین پوری فوج نے بغاوت کر دی ۔ کلکٹر اور دیگر تمام انگریز افسر جو اس کے ہاتھ آئے قتل کر دیئے گئے ۔ ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی ۔ اور جیل کا دروازہ کھول کر قیدیوں کو رہا کرا لیا گیا ۔ (١٠)
اس صورت حال کے بارے ڈاکٹر تارا چند نے لکھا ہے ۔
“ ٢٩ مئی کو دہلی دروازہ سے کچھ انقلابی حصار آئے ۔ دروازہ ان کے لیے با آسانی کھول دیا گیا ۔ ہندوستانی سپاہ ان کے ساتھ ہو گئی ۔ ان سب نے جیل خانے جا کر جیسے ہی کہا کہ “ دروازہ کھول دو اور قیدیوں کو رہا کردو ۔ کیونکہ شاہ دہلی نے اس ضلع پر قبضہ کر لیا ہے اور انگریز قتل ہو گئے ہیں ۔ “ فورا دروازہ کھول دیا گیا پہریدار گارڈ نے قیدی چھوڑ دیئے ۔ انقلابی سپاہیوں نے خزانہ پر قبضہ کر لیا ۔ اور اس کو لے کر بحفاظت دہلی روانہ ہو گئے ۔ شہری عوام نے انگریزوں کے بنگلوں اور سرکاری عمارتوں کو لوٹنا اور جلانا شروع کر دیا ۔ انگریز افسران ہلاک کر دیئے گئے ۔ تحصیلدار کی لاش تحصیل کے سامنے ڈال دی گئی ۔ لوگ آتے جاتے اس کو ٹھوکریں مارتے تھے ۔ ٣٠ مئی کو شہزادہ محمد عظیم بیگ نے جو پہلے سرکاری ملازم تھے انتظام سنبھالا ۔ اور تحصیل میں آ کر اجلاس کیا ۔ شہر میں شہزادے نے ایک جلوس کی صورت میں گشت کیا ۔ لوگ اس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے ۔ آگے ایک آدمی جھنڈا لیئے چل رہا تھا ۔ شہزادہ اس کے بعد مولوی رکن الدین کے ہاں گیا ۔ اور رات گئے تک آئندہ کے لیے مشورہ ہوتا رہا ۔ اگلے دن تمام ملازمین سرکاری کی موجودگی میں شہزادے نے تحصیل میں اجلاس کیا ۔ چار پانچ دن بعد وہ ہانسی روانہ ہو گیا ۔ تاکہ وہاں جو انقلابی مقین تھے ۔ ان کے ساتھ آزادی کی جدوجہد میں حصہ لے سکے ۔ (١١)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٩) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٨٠٤ ، ص ٣٣۔ ٣٤
(١٠) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضاً
(١١) ڈاکٹر تارا چند ۔ جنگ آزادی ؁١٨٥٧ ۔ دہلی ؁١٩٥٩ ص ٢٢٣
 

نایاب

لائبریرین
(٩٤)

یہ جدو جہد ہریانہ کے دوسرے مقامات تک فوراً ہی پھیل گئی تھی ۔ ان مقامات میں بروالہ کو بھی ایک امتیازی مقام حاصل ہے کیونکہ یہاں کے سادات نے انقلابیوں کا بھرپور ساتھ دیا تھا ۔ اس زمانہ میں بروالہ کو ضلع حصار کی ایک تحصیل کی حیثیت حاصل تھی ۔ یہاں کا تحصیل دار کچھ ہندو اہل کاروں کی مدد سے بچ کر نکل گیا تھا ۔ مگر تحصیل پر انقلابیوں نے قبضہ کر لیا تھا ۔ اس جگہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس جنگ آزادی میں ہریانہ کے سید ، مسلمان راجپوت اور پچادے انگریزوں کے خلاف پوری طرح جدوجہد میں شامل تھے ۔ لیکن ہندؤں نے ان کا ساتھ نہیں دیا ۔ بلکہ انہوں نے ہر موقع پر انگریزوں کی مدد کی ۔ اس کے باوجود بہت جلد تمام ہریانہ پر جلد ہی انقلابیوں کا مکمل قبضہ ہو گیا ۔
“انگریزوں نے اس علاقہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے جون کے مہینہ میں ہی کوشش شروع کر دی تھی ۔ ہمسایہ سکھ ریاستیں تمام کی تمام انگریزوں کی حلیف تھیں ۔ دوسری جانب بیکانیر کی ریاست کا ہندو حکمران بھی ان کا حامی تھا ۔ چنانچہ ان سکھ ریاستوں اور ریاست بیکانیر کی فوجی مدد سے انگریزوں نے ہریانہ پر دوبارہ تسلط کی خاطر کئی حملے کیے ۔ مگر ہریانہ کے لوگ برابر ان کے مقابلہ پر ڈٹے رہے “۔ ڈاکٹر تارا چند نے اس بارے میں لکھا ہے ۔
“ جون جولائی میں انگریزوں نے جنگی کاروائیاں شروع کر دیں ۔ ان کے ساتھ پنجاب کے رجواڑوں کی فوجیں بھی تھیں ۔ چنانچہ فیروزپور سے دو فوجیں حصار کی طرف آئیں اور شہزادہ مذکور سے جنگیں شروع کیں ۔ ایک اور فوج سرحد پر حملہ آور ہوئی ۔ انقلابی فوجوں سے پپلی اور بھٹیانہ کے مقام پر چار جنگیں ہوئیں ۔ انقلابی فوجوں کی رہنمائی نواب گوہر علی خاں کر رہے تھے ۔ وہ بڑی بہادری اور استقلال سے لڑے ۔ مگر آخر کار انگریزوں اور پنجابی ریاستوں کی مسلح اور منظم فوجوں سے شکست کھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بالآخر ١٣ ستمبر ؁١٨٥٧ کو شہزادہ عظیم بیگ اور اس کے ہمراہیوں کو جو متعدد جنگیں لڑ چکے تھے ۔ مکمل شکست ہو گئی ۔ اور حصار ہانسی پر انگریزوں کا تسلط ہو گیا ۔ (١٢)
ہریاسنہ کے لوگوں نے انقلابیوں کی بھرپور مدد کی ۔ انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ مگر پنجابی ریاستوں نے اس نازک موقع پر انگریزوں کا سہارا بن کر ہریانہ کی سب قربانیوں پر پانی پھیر دیا ۔ ہریانہ ان ریاستوں سے گھرا ہوا تھا ۔ اور ان ریاستوں کا اس موقع پر جو کردار رہا اس کے بارے مولانا غلام رسول مہر لکھتے ہیں ۔
“ جنید ، نابھ ، پٹیالہ کے علاقے ایسی جگہ واقع تھے کہ اگر وہاں کے رئیس ذرا صبر کرتے تو دہلی سے ستلج تک کا پورا علاقہ انگریزوں کے لیے غیر محفوظ ہو جاتا ۔ اور انبالہ بھی خطرے میں پڑ جاتا ۔ اگر وہ قومی آزادی کی جنگ میں معاون بن جاتے تو انگریزوں کے دستے بکھرے رہتے اور ان کے لیے اکٹھا ہونے یا آپس میں مخابرت قائم کر لینے کی کوئی صورت نہ تھی ۔ اور وہ یقیناً مارے جاتے اس کے بعد انگریز انگلستان سے بڑی فوج لا کر ہندوستان کو ازسرنو فتح کرنے کے لیے اگر کوئی قدم اٹھاتے تو یقیناً اس میں کامیاب ہونا آسان نہ رہتا ۔ لیکن ان سکھ ریاستوں کی انگریز دوستی اور وطن دشمنی نے صورت حال بگاڑ دی“ ۔ (١٣)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٢) ڈاکٹر تارا چند ۔ جنگ آزادی ؁١٨٥٧ ۔ دہلی ؁١٩٥٩ ص ٢٢٤
)١٣) غلام رسول مہر ۔ ؁١٨٥٧ لاہور ۔ طبع اول ۔ ص ٩٩




(٩٥)

ہریانہ کی انتظامی تقسیم
گزشتہ صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے کہ عہد سلاطین میں چونکہ ہریانہ اور ہانسی کے قلعہ کو بڑی اہمیت حاصل رہی تھی ۔ اس لیے برقالہ بھی اس تمام دور میں بڑے اہم مقام کا حامل رہا ۔ اسے ایک اہم “ شق “ کا درجہ بھی حاصل رہا ۔ جو اس زمانہ میں ضلع کو کہا جاتا تھا ۔ مغلوں کے دور تک پہنچتے پہنچتے اس علاقہ میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی تھی اور پیداوار کے لحاظ سے یہ علاقہ اتنا اہم نہیں رہا تھا ۔ اس لیے اس کی اہمیت بہت کم ہو گئی تھی ۔ مگر فوجی اہمیت اسے پھر بھی برابر حاصل رہی ۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ اکبر کے زمانہ میں اسے بہت اہمیت حاصل رہی ۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ اکبر نے اپنی ولیعہدی کا زمانہ اسی علاقہ میں گزارا تھا ۔ اکبر کے زمانہ میں مالیہ کا مشہور نظام نافذ کیا گیا اور اس سلسلہ میں تمام ملک کی ازسرنو انتظامی تقسیم عمل میں آئی ۔ اس تقسیم میں حصار کو “ سرکار “ کی حیثیت دی گئی جو اس زمانہ میں ڈویژن کے مترادف تھا ۔ اس “ سرکار “ کے مختلف “ حمل “ یعنی ضلعے مقرر کئے گئے تو ایک ضلع یا “ محل“ بروالہ بھی تھا ۔ لگتا ہے کہ یہ انتظامی تقسیم مغلوں کے تمام عہد میں برقرار رہی ۔ کیونکہ ؁١٨٠٣ میں جب انگریزوں نے ہریانہ پر قبضہ کیا تو یہ علاقہ تیرہ ضلعوں میں تقسیم تھا ۔ اور یہ تمام ضلعے مرہٹوں کے قبضے میں تھے ۔ ان ضلعوں کے نام یہ تھے ۔ بیری ، رہتک ، مہم ، بھٹنیر ، سفیدوں ، دھترات ، کسوہان ، ہانسی ، حصار ، اگروہہ ، بروالہ ، سوانی ، بہل ، اہروان ، فتح آباد ، سرسہ ، رانیا ، جمال پور ، ٹوہانہ ۔ (١٤)اس طرح بروالہ کی اہمیت واضع ہو جاتی ہے کہ عہد سلاطین کی طرح مغلوں کے عہد میں بھی اسے ہمیشہ ایک ضلع کی حیثیت حاصل رہی ۔
؁١٨١٠ وہ سال ہے جب اس علاقہ میں انگریزوں کی باقاعدہ حکمرانی قائم ہوئی ۔ اس وقت تک دہلی کا علاقہ بھی مرہٹوں نے انگریزوں کے سپرد کر دیا تھا ۔ چنانچہ اب یہ تمام علاقہ دہلی کے انگریز ریذیڈنٹ کے ماتحت تھا ۔ اسی سن میں اس علاقہ کو دو ضلعوں میں تقسیم کیا گیا ۔ اول دہلی کا ضلع ، جس میں دہلی اور اردگرد کے مقامات شامل تھے ۔ دوم ہریانہ جس میں ہانسی ، حصار ، بروالہ ، سرسہ ، رہتک ، پانی پت ، ریواڑی شامل تھے ۔ دہلی کا انتظام ایک ریذیڈنٹ کے سپرد تھا ۔ اور دوسرے ضلع کا انتظام ایک اسسٹنٹ ریذیڈنٹ کے سپرد کیا گیا ۔ ؁١٨١٩ میں اس علاقہ کی نئی تقسیم کی گئی ۔ اور اس کے تین ضلعے بنا دییے گئے ۔ اول مرکزی ضلع ، اس میں دہلی شامل تھا ۔ دوم جنوبی ضلع ، یہ ریواڑی پر مشتمل تھا ۔ سوم شمالی ضلع ، اس میں پانی پت ، ہانسی ، حصار ، بروالہ ، سرسہ ، رہتک ، شامل تھے ۔ ؁١٨٢٠ میں ان ضلعوں کو ڈویژن کی حیثیت دی گئی اور شمالی ضلع دو حصوں میں تقسیم کر کے دو ڈویژن بنا دیے گئے ۔ اول شمالی ڈویژن اور دوم مغربی ڈویژن ۔ موخرالذکر ڈویژن میں بھوانی ، حصار ، ہانسی ، سرسہ ، اور رہتک کے اضلاع شامل تھے ۔ اور اس کا صدر مقام ہانسی قرار پایا ۔ ؁١٨٢٤ تک رہتک مغربی ڈویژن میں شامل رہا مگر اس کے بعد اسے علیحدہ کر کے ایک مستقل ڈویژن بنا دیا گیا اور بھوانی کو اس کے ساتھ شامل کر دیا گیا ۔ اس تمام عرصہ میں بروالہ کو ایک تحصیل کی حیثیت حاصل رہی ۔ یہ بڑی وسیع تحصیل تھی اور اس کی حدود اتنی دور تک پھیلی ہوئی تھی کہ توہانہ اسی تحصیل میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٤) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٨٠٤ ، ص٤٢





(٩٦)





شامل تھا ۔ (١٥)
؁١٨٣٧ میں ان ڈویژنوں کو پھر سے اضلاع کی حیثیت دے دی گئی ۔ اور سرسہ اور اس سے ملحقہ علاقہ کو حصار سے الگ کر کے بھٹیانہ کے نام سے ایک نیا ضلع قائم کیا گیا جس کا صدر مقام سرسہ تھا ۔ باقی تمام علاقہ ضلع حصار میں شامل رہا ۔ اور اس کا صدر مقام حصار کو بنا دیا گیا ۔ ؁١٨٥٨ تک یہ علاقہ دہلی سمیت صوبہ غرب و شمال میں شامل رہا ۔ مگر اسی سن میں بھٹیانہ اور حصار کے ضلعوں کو ہریانہ کے دیگر اضلاع سمیت پنجاب میں شامل کر دیا گیا ۔ البتہ دہلی حسب سابق صوبہ غرب و شمال کا ہی حصہ رہا ۔ اس انتظامی تبدیلی کے ساتھ ہی بھٹیانہ کے ضلع کا نام بھی تبدیل کر کے ضلع سرسہ رکھ دیا گیا ۔ (١٦)
؁١٨٦١ میں پھر کچھ انتظامی تبدیلیاں ہوئیں اور اس سلسلہ میں ضلعوں اور تحصیلوں کی حدود کو بدلا گیا ۔ چنانچہ ضلع تھانیسر کے کچھ گاؤں تحصیل بروالہ میں شامل کر دیے گئے ۔ اور اس طرح اس بہت بڑی تحصیل کے رقبہ میں مزید اضافہ ہو گیا ۔ (١٧) ؁١٨٨٤ میں سرسہ کے ضلع کو ختم کر دیا گیا ۔ اور اسے ایک تحصیل کا درجہ دے کر ضلع حصار کا حصہ بنا دیا گیا ۔ یکم جنوری ؁١٨٩١ کو بروالہ کی تحصیل کو بھی ختم کر دیا گیا ۔ اس تحصیل میں ١٣٩ گاؤں شامل تھے ۔ ان میں سے ١٣ گاؤں تحصیل ہانسی میں ٢٤ گاؤں تحصیل حصار میں اور ١٠٢ گاؤں تحصیل فتح آباد میں شامل کر دیے گئے ۔ بر والہ کا علاقہ تحصیل حصار کے علاقہ میں شامل ہوا ۔
حصار کا ضلع دراصل تین قدرتی حصوں میں بٹا ہوا تھا ۔ اول باگڑ ، دوم ہریانہ ، اور سوم نالی ۔ اس سلسلہ میں سیٹلمنٹ رپورٹ میں لکھا ہے ۔
“اگرچہ بعض اوقات یہ بتانا مشکل ہو جاتا ہے کہ ایک حصہ کہاں ختم ہوتا ہے اور دوسرا کہاں سے شروع ہوتا ہے ۔ مگر ان تینوں کے درمیان فرق بہت واضع ہے ۔ علاقہ کا جنوب اور مشرقی حصہ باگڑ ہے ۔ یہ ریت کے ٹیلوں کا علاقہ ہے ۔ جن کے درمیان میں زمین کے ہموارقطعات مختلف سائز میں موجود ہیں ۔ سبزی کا نام و نشان نہیں کنویں گہرے اور کڑوے ہیں ۔ آبادی بہت کم اور غریب ہے ۔ اور ربیع کی نسبت خریف کی فصل زیادہ کاشت کی جاتی ہے ۔ باگڑ کے شمال اور مغرب میں ہریانہ کا علاقہ ہے ۔ اس کی زمین قریباً ہموارا اور ریتلی زرخیز ہے ۔ اگرچہ کہیں کہیں ریت کے ٹیلے بھی موجود ہیں لیکن زمین باگڑ سے بہتر ہے ۔ کاشتکاری زیادہ اور بہتر ہوتی ہے ۔ اور ربیّ کی فصل باگڑ کی نسبت زیادہ کاشت کی جاتی ہے ۔ ضلع کا شمال مغربی علاقہ جو فتح آباد تحصیل میں واقع ہے نالی کا علاقہ کہلاتا ہے اس علاقہ کی خصوصیت گھگھر ، اس کا معاون نالہ جوئیا اور مصنوعی نہر رنگوئی ہے ۔ اس علاقہ کی زمین عام طور پر سخت ہے ۔ (١٨)
بروالہ سیداں کا علاقہ ہریانہ کے علاقہ میں تھا ۔ بلکہ ہریانہ کو بھی دوحصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ اور بروالہ تحصیل جس علاقہ میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٥) پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیٹرز ۔ ضلع حصار و لوہارو سٹیٹ ؁١٨٠٤ ، ص ٤٢ ، ٤٣
مفتی غلام سرور لاہوری ۔ تاریخ مخزن پنجاب ۔ نوکلشور ، لکھنؤ ؁١٨٧٧ ص ٨٠
غلام رسول مہر ۔ ؁١٨٥٧ لاہور ۔ طبع اول ۔ ص ٣٠٥ ۔ ٣٠٦
(١٦) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضاً
(١٧) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایضاً
(١٨) حصار ڈسٹرکٹ سیٹلمنٹ رپورٹ ؁١٩٠٦۔١٠ ص ١




(٩٧)


مشتمل تھی اسے بروالہ ہریانہ کہا جاتا تھا ۔ یہ علاقہ بھی دو سرکلوں میں تقسیم تھا ۔ مشرقی اور مغربی ، لیکن زرخیزی کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا ۔ صرف یہ تھا کہ مغربی حصے کی زمین کچھ ہلکی تھی اور اس میں کہیں کہیں ریت کے ٹیلے موجود تھے ، جب کہ مشرقی حصہ کی زمین قدرے سخت تھی ۔ مگر مجموعی طور پر دونوں علاقوں کی زمین ریتلی اور زرخیز تھی ۔ (١٩)
ایک ذریعہ کے مطابق ؁١٨٦٢ میں پنجاب دس قسمتوں میں تقسیم تھا ۔ ان میں سے ایک قسمت حصار بھی تھا ۔ اس قسمت میں تین ضلعے تھے ان ضلعوں کے نام اور تحصیلیں درج ذیل تھیں ۔
١۔۔ حصار ۔۔ حصار ، ہانسی ، بروالہ ، بھوانی ، فتح آباد
٢ ۔۔ رہتک ۔۔ رہتک ، سانپلہ ، گوہانہ ، جھجھر
٣ ۔۔ سرسہ ۔۔ سرسہ ، فاضل کا ، سیو والا (٢٠)
؁١٨٩١ میں بروالہ کی تحصیل ختم کر دی گئی اور سرسہ کا ضلع ختم کر کے اسے تحصیل کا درجہ دے دیا گیا ۔ بیسویں صدی کے آغاز میں حصار ایک ضلع کی حیثیت سے دہلی ڈویژن کا حصہ تھا ۔ اس ضلع میں پانچ تحصیلیں تھیں ۔ حصار ، ہانسی ، بھوانی ، فتح آباد ، اور سرسہ ۔ بعد میں اس ضلع کو دہلی ڈویژن سے نکال کر انبالہ ڈویژن میں شامل کر دیا گیا ۔ اور تقسیم ملک تک یہ انتظامی حیثیت برقرار رہی ۔
ذیل
مالیہ کے انتظام اور دیگر انتظامی سہولتوں کی خاطر تحصیلوں کو مختلف ذیلوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ ایک ذیل بہت سے دیہات پر مشتمل ہوتی تھی اور کئی نمبرداریوں کو ملا کر بنتی تھی ۔ علاقہ کا ذیلدار اس شخص کو مقرر کیا جاتا تھا جو صاحب جائیداد اور اثر رسوخ کا مالک ہوتا تھا ۔ علاقہ میں معزز شمار کیا جاتا تھا ۔ اور نمبرداروں کی نسبت اس کی حیثیت ممتاز ہوتی تھی ۔ بروالہ سیداں کو بھی ایک ذیل کی حیثیت حاصل تھی اور یہاں کے سادات میں سے کسی معزز شخص کو ذیلدار مقرر کیا جاتا تھا ۔
نمبرداری
زمانہ قدیم سے ہر گاؤں میں کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت موجود رہی ہے جو گاؤں کی نمایندگی کا حقدار گنا جاتا تھا ۔ اور گاؤں والے اپنے کاموں کے لیے جس کی امداد کے طالب ہوتے تھے ۔ انگریزوں نے ایسے اشخاص کو نمبردار مقرر کیا ۔ نمبردار کے ذمے بنیادی کام یہ ہوتا تھا کہ زمینداروں سے مالیہ کی رقم وصول کرے اور اس رقم کو سرکاری خزانہ میں جمع کرائے ۔ بروالہ سیداں میں سات نمبردار تھے ۔ ان میں سے چھ سید ہوتے تھے اور ایک ڈوگر ہوتا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٩) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضاً
(٢٠) اقبال صلاح الدین ۔ تاریخ پنجاب ۔ طبع اول ، لاہور ، ص ٣٩
 
Top