تاریخ بروالہ سیداں صفحہ 49تا58

جاویداقبال

محفلین
عہدسلاطین سے قبل کے حالات
قدیم ہندوعہد:- اس علاقہ میں جہاں دریائے سرسوتی،دریائے گھگھرواوران کی شاخوں کے کناروں پرآریاؤں نے اپنی اولین بستیاں بسائی تھیں۔ہانسی اوربروالہ کی دوبستیاں ایسی بھی تھیں جوبعدمیں اس علاقہ کے بنجربن جانے اوراکثربستیوں کے نیست ونابودہوجانے کے بعدبھی اورقا‏‏ئم رہیں مگرتاریخی ذرا‏ئع سے نہ تویہ پتہ چلتاہےکہ یہ بستیاں کب آبادہوئیں اورنہ یہ معلوم ہوتاہے کہ کب اس علاقہ پرویرانی کی آفت نازل ہوئی۔حدتویہ ہے کہ ہانسی جیسے اہم قلعہ کی عہدبعہدتاریخ کاکوئی سراغ نہیں ملتا۔صرف اتناپتہ چلتاہے کہ پہلی یادوسری صدی عیسوی میں یہ قلعہ کشن خاندان کے حکمرانوں کے قبضہ میں تھااوران کااہم فوجی مرکزتھا۔اس کے علاوہ کسی تفصیل کاکچھ۔ پتہ نہیں چلتامعلوم ہوتاہے کہ ہندوحکمرانوں کویہ شعورہی نہیں تھاکہ تاریخ نویسی بھی علم کاکوئی شعبہ ہےاوراپنے زمانہ کی تاریخ کومحفوظ کرنابھی ایک اہم ذمہ داری ہے۔قدیم ہندودانشوربھی اس فکرسے عاری نظرآتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہندؤں کے عہدکی تاریخ کاکوئی سراہاتھ۔ نہیں آتا۔اگرکچھ۔ ہے توصرف قصے کہانیاں ہیں۔بقول مولاناوقارانبالوی کے۔
"ہندوؤں کے ہاں تاریخ لکھنےکارواج ہی نہیں تھا۔یہاں تک کہ بھارت میں جودوزمانے بھارتیوں کےعقیدہ کے مطابق مقدس زمانے گزرے ہیں۔یعنی رام چندرجی اورکرشن جی کے زمانے،ان کاتاریخی تعین بھی آج تک نہیں ہوسکاہے(وقارانبالوی کالم،سرراہے،روزنامہ نوائے وقت لاہور25نومبر1984)
اس سلسلہ میں ایک ہندوعالم اوردانشوربھی اعتراف کرتاہے کہ،
سنسکرت میں تاریخی تحریریں بہت نایاب ہیں(سندھیاکرتاندی،راماچترا،مرتبہ مہاماہورپاددھیاہراپرشادشاستری ایم اے میموٹرزآف ایشیاٹک سوسائٹی بنگال جلد3ص 56)

































یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں کے عہدکے حالات معلوم کرنے کے ہمارے پاس کوئی ذرا‏ئع نہیں ہیں اوراس طویل عہدکے متعلق ہمیں سوائے چندروایات کے اورکچ۔ھ۔ حاصل نہیں ہوتا۔
تنواریاتومارخاندان:-ان روایات کے مطابق پہلی یادوسری صدی عیسوی کے کشن خاندان کے بعداس علاقہ کے جس سب سے پہلے حمکران خاندان کاپتہ چلتاہےاس کانام دوطرح سے لکھاگیاہےکچھ۔ مصنف اسے،تنوار(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ1904)،لکھتے ہیں اورکچھ۔ نے،تومار((ecylopeadia of islam 1979P.225لکھاہے اس بات پرالبتہ سب متفق ہیں کہ یہ راجپوت خاندان تھا۔راجپوتوں کے اس خاندان نے آٹھویں صدی عیسوی کے نصف آخرمیں دہلی میں اپنی حکومت قا‏‏ئم کی۔(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ1904)اسکاسب سے پہلاحمکران اننگپال اول تھا۔دہلی میں حکومت قا‏ئم کرنے کے بعدآس پاس کے علاقوں کازیرنگین کرنے کاکام شروع ہوا۔چنانچہ اننگپال اول کے بھائی بجیے پال کی سرکردگی میں ہریانہ کے علاقہ کی تسخیرکے لیے ایک مہم بھیجی گئی۔اس نے اس علاقہ کوزیرنگین کرلیااوریہاں قیام کے دوران علاقہ کی ترقی اوربہبودکے لیے بھی کچھ۔ کام کیے۔یہاں تک کہ کچھ۔ نئی بستیاں بھی اس نے اس علاقہ میں آبادکیں۔ان بستیوں میں سے زیادہ مشہوربھونہ کاقصبہ ہے۔اس کافاصلہ بروالہ سیدان سے بارہ کوس ہے اوربروالہ سیدان کے بعدیہ قصبہ اس علاقہ میں باقی رہ جانے والی قدیم بستیوں میں شمارہوتاہے۔
چوہان راجپوت خاندان:-برصغیرکے بارے میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سوائے دوتین مختصروقفوں کے یہ کبھی متحداورواحدحکمران کےتحت نہیں رہا۔خاص طورپرمسلمانوں کے قبضہ سے قبل توصرف شمال برصغیرمیں ہی بے شمارچھوٹی چھوٹی خودمختارریاستیں قا‏ئم تھیں اوران میں سے اکثرپرراجپوتوں کے مختلف خاندان حکمران تھے ان میں سے جوحکمران طاقت حاصل کرلیتاتھاوہ اپنی پڑوسی ریاستوں کواپناباجگذاربنانے کی کوشش کرتاتھا۔اس طرح ان حکمرانوں کاآپس میں کھانڈاکھڑکتاہی رہتاتھا۔چنانچہ انہی دنوں جب دہلی پرتنوارخاندان کی حکومت تھی۔اجمیراورسانبھرکے علاقہ پرچوہان راجپوت حکمران تھے(ایضا)اس خاندان کے بارے میں کہاجاتاہےکہ پہلی یادوسری صدی عیسوی میںاجے پال تاروایک راجہ نےاجمیرپراپنی حکومت قا‏ئم کی اوریہی شخص چوہان راجپوتوں کامورث اعلی تھا۔اس کے جانشینوں نے نہ صرف اس کے جانشینوں نے نہ صرف اس سلطنت کوقائم رکھابلکہ اسے مضبوط بنایااوراسکی حدودمیں وسعت پیداکرتے رہے۔یہاں تک کہ 1785(ایضا)میں راجہ مانک رائے چوہان اجمیر




























اورسانبھرکے اردگردوسیع علاقہ کاحکمران تھا۔اس راجہ کوچوہان خاندان کے راجاؤں میں بہت مقام حاصل ہےکہاجاتاہے کہ یہی وہ سال ہے جب اجمیرپرمسلمانوں نے سب سے پہلاحملہ کیااوراس علاقہ کومانک رائے سے چھین لیا۔مگرمانک رائے نے ہمت نہیں ہاری۔اپنی قوت کونئی سرے سے مجمع کیااورفوراہی اپناعلاقہ واپس لے لیا۔اس طرح چوہان خاندان کی حکومت اس علاقہ میں قا‏ئم رہی۔
1000تک چوہان راجپوتوں کی اس حکومت نے اتنی قوت حاصل کرلی تھی اوراپنی سلطنت کواس قدروسیع کرلیاتھاکہ دہلی کے حکمران تنوارخاندان بھی اس کے باجگذاروں میں شامل تھی(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ1904) اس زمانہ میں اس سلطنت کاحکمران بسالدیوتھااورشمال برصغیرکےتمام راجپوت حکمرانوں میں اس بزرگی اورعزت کامقام حاصل تھا۔ہریانہ کاعلاقہ خاص طورپرہانسی کاقلعہ اوراس کے نواحی مقامات اس چوہان سلطنت کے سرحدی مراکزتھےاوران پرخصوصی توجہ دی جاتی تھی۔چنانچہ کرنل ٹاڈکی روایت کے مطابق 1000 میں ہانسی کاسرحدی قلعہ بسالدیوکے بیٹے انوراج کوجاگیرکے طورپردیاگیااوراس علاقہ کی حفاظت کی ذمہ داری اس کے سپردکی گئی۔(ایضا)
مسلمانوں کاپہلاحملہ:-اس علاقہ کی مستندتاریخ کاآغازمسلمانوں کے پہلے حملہ کے ساتھ۔ ہوتاہےمسلمان بادشاہوں میں سب سے پہلے اس علاقہ اورہانسی کے قلعہ کوفتح کرنے کی کوشش محمودغزنوی کے بیٹے مسعودغزنوی نے کی ۔ اس نے بڑی زبردست تیاری کے ساتھ۔ ہانسی پرحملہ کیا۔مگراس علاقہ کےراجپوت حکمران کےلیے یہ زندگی اورموت کاسوال تھا۔اس لیے انہوں نے متحدہوکراس قلعہ کی حفاظت کےلیے اپناسب کچھ۔ داؤپرلگادیااورانتہائی بے جگری کے ساتھ۔ لڑے۔مسعودکواس جنگ میں شکست ہوئی اورزبردست جانی ومالی نقصان اٹھاکریہاں سے واپس ہوااس جنگ کے بارے میں بیان کیاجاتاہےاس میں ڈیڑھ لاکھ۔ مسلمان شہیدہوئے۔ہانسیشہرسے تین میل کے فاصلہ پرایک اونچاٹیلہ ہے۔جس پرایک مسجدبھی بنی ہوئی تھی۔اس ٹیلہ کوشہیدگنج یاگنج شہیداں اسی لیے کہاجاتاتھاکہ اس جنگ میں شہیدہونے مسلمانوں کے مزارات یہاں تھےایک مصنف نے اس ٹیلہ کوپرانی آبادی کے آثارمیں بھی شمارکیاہےاورلکھاہے۔
"موجودہ آبادی کے شمال مشرق میں ایک وسیع ٹیلہ ہےجس کے اندرتہہ بہ تہہ کئی تہذیبوں کے نشانات دفن ہیں(Enclocaedia of Islam London 1979 P 168)



























مسلمانوں کادوسراحملہ اورہانسی کی فتح:- مسعودغزنوی نے ہانسی پرجوپہلاحملہ کیااورجس میں اسے شکست ہوئی تھی۔اس کاسن اکثرمورخین نےنہیں لکھا۔البتہ اس کے دوسرے حملے اورہانسی کے فتح کاحال تقریباتمام مورخین نے متعین کیاہےبعض مورخین نے یہ ضروربتایاہےکہ دوسراحملہ پہلے حملے کے تین سال بعدہوا(ایضا)ہانسی کے قلعہ کے بارے میں ہندوؤں کاعقیدہ تھاکہ یہ ناقابل تسخیرہے۔اس عقیدہ کی وجوہ یہ تھیں کہ اولایہ بہت مضبوط فوجی مرکزتھااورتمام ہندوراجوں نے متحدہوکراس کے دفاع کاعہدکیاہواتھا۔ثانیاکوئی غیرملکی حکمران اب تک اسے فتح نہیں کرسکاتھا۔اورہندوؤں کے عقیدہ کویہ روایات بہت مضبوط کردیتی تھیں کہ علاقہ کے اس قدیم ترین قلعہ کی حفاظت دیوتاکرتے ہیں۔ثالثامسعودغزنوی پہلے حملہ میں اسے فتح نہیں کرسکااوراسے شکست ہوئی تویہ عقیدہ اوربھی زیادہ مستحکم ہوگیا۔اورہندوؤں کویقین ہوگیاکہ ہانسی کوفتح کرناتودورکی بات ہے اب تواس طرف مسلمان رخ بھی ہیں کرسکیں گے۔مگرمسعودغزنوی نے حوصلہ نہ ہارا۔اس نے اپنی ضائع شدہ قوت کاازالہ کیا۔نئے سرے سے تیاری کی اورہانسی کی تسخیرکواپناایک اہم مقصدقراردے دیا۔دراصل ہانسی پرقبضہ اس کی سلطنت کی حفاظت کےلیے ضروری تھا۔اس کے زمانہ میں لاہوراورملتان غزنی کی سلطنت کے صوبے تھے اوران کی سرحدوں کومحفوظ کرنے کے لیے ہانسی کے قلعہ کی تسخیرضروری خیال کی گئی تھی۔اس لیےاس نے پوری تیاری کے بعدپھرسے ہانسی کی جانب رخ کیا۔
ہندوراجوں کی اس قلعہ کی مضبوطی اوراسکے ناقابل تسخیرہونے پرپہلے ہی پورابھروسہ تھا۔اس موقع پربرہمنوں اورجوتشیوں نے اپنے یوتھیوں سےحساب کتاب کرکے انہیں پورایقین دلادیاکہ اس قلعہ پرمسلمانوں کاقبضہ کبھی نہیں ہوسکتا۔اس کانتجہ یہ ہواکہ بہت سے ہندوراجوں نےاپناسب مال وخزانہ لاکراس قلعہ میں محفوظ کردیا(مفتی غلام سرورلاہوری تاریخ مخزن پنجاب نولکشورلکھنؤ1877میں ص59)اوراپنی فوجیں لےکرمسلمانوں کے مقابلہ میں آگئے۔مگراس دفعہ جنگ کانتیجہ ہندوؤں کی توقعات کے برعکس نکلا۔مفتی غلام سرورلاہوری کے بقول۔
"مگرمسعودنے چھ۔ دن کے عرصہ میں اس کوفتح کیااورمسلمان فوج دیواروں میں میخیں گاڑکردیوارپرچڑھ گئے(ایضا)اسطرح قلعہ فتح ہوگیااورہندوراجوں نے وہاں پرجومال ودولت اورخزانے جمع کیے تھے۔وہ سب گنج ہےتخت ورنج مسعودنے لےلیا(ایضا)




























اسی مصنف نے ایک اورجگہ لکھاہے۔
"سلطان مسعودابن محمودغزنوی نے اپنے باپ کی سنت کوجاری فرمایا۔ہندپرچڑھ آیا۔ہانسی وسونین پت وغیرہ قلعوں کوفتح کرکے بےشماردولت غزنین کولے گیا۔(مفتی غلام سرورلاہور۔تاریخ مخزن پنجاب نولکشورلکھنؤ1877ص12،14)
کہتے ہیں کہ لڑائی کے ذریعہ اس قلعہ پرقبضہ کرنےوالااولین شخص مسعودتھا۔اس قبضہ کے سن کے بارے میں مورخین کےدرمیان تھوڑاسااختلاف ہے۔ایک دومورخین نےاسے 1036لکھامثلا:
تین سال بعد1036میں مسعودنےایک بارپھرہندوستان پرحملہ کیااورپنجاب کےقریب ہانسی کےمقام پرلشکراندازہواقلعہ ہانسی کے بارےمیں خیال کیاجاتاتھاکہ یہ ناقابل تسخیرقلعہ ہے۔لیکن مسعودکےحملوں کےسامنےاس قلعہ کی تمام مضبوطی پانی کے بلبلے کی مانندتھی(سیداصغرعلی شاہ تاریخ پنجاب۔لاہورص49)
427ھ۔ مطابق 1036میں ایک نیامحل تعمیرہواجس میں جواہرات سے مرصع تخت نصب کیاگیاتھااس پرایک مرصع تاج بھی آویزاں تھا۔سلطان مسعوداس تخت پرجلوہ افروزہوا۔سرپروہی تاج پہنااوررعایاکوباریابی بخشی اسی سال اس نے اپنے فرزندامیرمودودکوطبل وعلم کے اعزازکے ساتھ۔ بلخ بھیجااورخودہندوستان کے جانب روانہ ہوا۔سب سےپہلے قلعہ ہانسی فتح کیا۔(ملاعبدالقادرملوک شاہ یدجوانی۔منتخب التواریخ اردوترجمہ محموداحمدفاروقی لاہور1962ص42)
فرشتہ نے بھی نئےمحل تعمیراوراس میں سلطان مسعودکی جلوہ افروزی کےمتعلق اس سارے بیان کی حرف بحرف تائیدکرتے ہوئےکہاہے۔
اس سال مسعودنےاپنے بیٹے مودودکوصاحب طبل وعلم کیااورقلعہ ہانسی کوفتح کرنے کے لیے ہندوستان کی طرف روانہ ہوا۔طبقات ناصری کے مؤلف کابیان ہےکہ اس زمانہ میں ہانسی سوالک کادرالسلطنت تھا۔ہانسی کاقلعہ بہت ہی مضبوط تھا۔اسکی بابت ہندویہ عقیدہ رکھتےتھےکہ اسے کوئی مسلمان فرمانرواتسخیرنہیں کرسکتا۔امیرمسعودنےہانسی پہنچ کراس قلعہ کامحاصرہ کرلیااورچھ۔ روزکی محنت کے بعداسے فتح کرلیا(محمدقاسم فرشتہ،تاریخ فرشتہ اردوترجمہ عبدالحی خواجہ لاہور1974جلداول ص166)
مگراکثرجدیدمورخین نے ہانسی کی فتح کاسن 1037لکھاہےاوریہی درست معلوم ہوتاہے۔مثلا:




























1030میں مسعودنے ہانسی کوفتح کرلیا(Bukhsh singh Nijar Punjab Under the sultan Lahore 1979P23)
1037میں اپنی مغربی سرحدوں پرسلجوقوں کے خطرہ کے باوجوداس نے ہانسی پرحملہ کیااوراس پرقبضہ کرلیا(J.C.Power Pric A History of India London 1955 P5)
بلکہ ایک مستندکتاب میں ہجری سن بھوتھوڑاسامختلف لکھاہےاوراسکے ساتھ۔ ساتھ۔ حملہ کے وقت کاتعین بھی کیاہے۔
محمودغزنوی کےبیٹے مسعودنے جب 429ھ۔ کے موسم سرمامیں ہانسی پرحملہ کیا(Enclopaedia of Islam London 1979 P 167)
غرض اس سال میں مسعودغزنوی نے اپنے دوسرے حملہ میں سخت مقابلہ کے بعدہانسی پرقبضہ کرلیااورایک بیان کے مطابق:
اس کے بعدہانسی کوغزنوی سلطنت کے ہندوستانی صوبہ کے سرحدی قلعہ کی حیثیت سے بہت اہم پوزیشن حاصل ہوگئی۔چنانچہ مسعودکے دوسرے بیٹے مجدوکواس صوبہ کاگورنرمقررکیاگیا۔اوراس نے 432ب۔ کاموسم سرماہانسی کے مقام پربیٹھ۔ کراس انتظارمیں گزاراکہ اسے دہلی پرحملہ کرنے کاموقع مل سکے(ایضا)
ہراخاندان:-مسلمانوں نے جب ہانسی پرقبضہ کیاتووہاں کاحکمران چوہان خاندان کاراجہ تیشت پال تھاوہ انودن کابیٹاتھا۔اسے جب ہانسی سے نکلناپڑاتواپنےخاندان اورساتھیوں سمیت بونڈی کےمقام پرچلاگیااوروہاں ہراخاندان کے نام سے ریاست قا‏ئم کرلی(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصارولوہاروسٹیٹ1904)یہاں ہراکالفظ چوہان خاندان کی ایک شاخ کے طورپراستعمال ہواہےیہ شبہ ہوسکتاہےکہ اسی لفظ سے ہریانہ کانام بناہو۔مگریہ شبہ اسی وقت تسلیم ہوسکتاہےجب کہ یہ تسلیم کرلیاجائے کہ اس علاقہ کانام قدیم زمانہ سے ہریانہ نہیں تھا۔حالانکہ اسے قدیم تاریخوں میں بھی اسی نام سے لکھاگیاہےدوسرے یہ کہ ہراخاندان کی ریاست بہت چھوٹی سی تھی اوروہ ایک وسیع علاقہ کی وجہ تسمیہ نہیں بن سکتی تھی۔اس لیے یہ شبہ قطعادرست نہیں ہےکہ اس ہراخاندان کے باعث اس علاقہ کانام ہریانہ رکھاگیاہے۔
غزنویوں کانظام مملکت:-ہانسی کاقلعہ اوراس کے اردگردکاعلاقہ تقریبادس سال تک غزنویوں کے قبضہ میں رہا۔اورلاہوراورملتان توغزنوی سلطنت کاصوبہ طویل عرصہ تک رہے۔ان کی




























حکومت نے ہانسی کوجومقام دیاتھااس کااندازہ کرنے کے لیے ان کے نظام ممکت پرایک سرسری نظرڈالنی ضروری ہےاس سلسلہ میں ڈاکٹربخشیش سنگھ۔ بخارکی کتاب سےیہی بڑی اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں انہوں نے لکھاکہ سلطان مسعودغزنوی پہلامسلمان بادشاہ تھاجس نے پنجاب میں حکومت قائم کی۔اس حکومت کاانتظامی ڈھانچہ اس کے اپنے ملک میں رائج نظام کے نمونہ پرتشکیل دیاگیاتھا۔یہ نظام غزنویوں نے امویوں،بازنقینوں اورایرانیوں سے حاصل کیاتھااس کیمابق پنجاب کی اقطاعات میں تقسیم کردیاگیاتھا۔ایک اقطاع میں ایک شہراوراس کے ساتھ۔ کچھ۔ دیہات پرمشتمل علاقہ ہوتاتھا۔ایک اقطاع کوصوبہ کی حیثیت حاصل ہوتی تھی اوراس کے گورنرکووالی یا مفتی کہاجاتاتھا۔ہانسی کوغزنوی دورحکومت میں ایک اقطاع کی حیثیت حاصل تھی(Bakhsh Singh Nigar Punjab under the Sultan Lahore 1979 P 99-100)اوراس اقطاع میں ظاہرہے کہ بروالہ سیدان ایک اہم قصبہ اورانتظامی مرکزتھا۔
ہانسی پرہندوؤں کادوبارہ قبضہ:- غزنویوں کے عہدمیں ہانسی کاعلاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آنے کے بعدزیادہ عرصہ ان کے تسلط میں نہیں رہ سکا۔شمالی ہندکی راجپوت حکومتوں کےلیے اس قلعہ کی اتنی اہمیت تھی کہ اس پرقبضہ کے بغیروہ خودکوبالکل غیرمحفوظ سمجھتے تھے۔یہ قلعہ دہلی پرحملہ کے لیے ابتدائی ٹھکانے کے طورپراستعمال ہوسکتاتھا۔کیونکہ خراسان سے براستہ ملتان اورجنوبی پنجاب ،دہلی تک پہنچنے والے راستے پریہ قلعہ ایک انتہائی اہم فوجی مرکزتھا۔(شمالی پنجاب کاراستہ سرہندسےہوکرگزرتاتھا)اس لیےراجپوت حکمران اس قلعہ کومسلمانوں سے واپس لینے کے لیے مسلسل تیاری اورکوشش میں مصروف رہے۔اورزیادہ عرصہ گزرنے سے قبل ہی وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئے۔فرشتہ کے بیان کے مطابق 435 ،1043 میں دہلی اورشمالی ہندکے دیگرہندوراجاؤں نے مل کرہانسی اورتھانیسرکے علاقوں پرقبضہ کرلیا۔(محمدقاسم فرشتہ تاریخ فرشتہ اردوترجمہ عبدالحی خواجہ لاہور1974 جلداول ص175)اس قبضہ کے بعدہانسی کودہلی کے راجہ کی حکومت میں شامل کردیاگیاجوچوہانوں کے باجگذارتنوارخاندان سے تھا۔اوراس کے بعدیہ قلعہ ایک صدی سے زائدعرصہ تک اسی خاندی کے قبضہ میں رہا۔آخر 1173میں چوہان اورراجہ پرتھوی راج نے اس خاندان کےآخری راجہ (ننگ پال دوم کوتخت سے محروم کرکے خوداس پرقبضہ کرلیااوراس طرح ہانسی کاعلاقہ بھی پرتھی راج کی حکومت میں شامل ہوگیا۔اس کے زمانہ میں ہریانہ پردہلی حکومت کی گرفت کوزیادہ مضبوط کردیاگیا۔ہانسی کے قلعہ کی تعمیرات میں بہت اضافہ کیاگیااوراسے بہت مضبوط بناکراتنہائی مستحکم فوجی مرکزمیں تبدیل کردیاگیا۔(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ 1904)

























انسائیکلوپیڈیاآف اسلام نے بھی ہانسی کے دوبارہ ہندوؤں کے قبضہ میں جانے کے سن اورواقعات کی تصدیق کی ہے اورلکھاہےاس علاقہ پردوبارہ قبضہ کے وقت دہلی پرحکمران راجہ کانام مہی پال تھااورہانسی کواسی کی سلطنت میں شامل کیاگیاتھا۔اس کے بعدتمام ہندوحکمراں اس قلعہ کی مضبوطی میں اضافہ کی جانب توجہ دیتے رہےکیونکہ یہ قلعہ ان کی سلطنت کی حفاظت کےلیے انتہائی اہم مقام کاحامل تھا۔یہاں تک کہ اگلی صدی کے آخرمیںپرتھوی راج نے اس قلعہ کی وسعت میں بھی اضافہ کیااوراسے اس قدرمضبوط بنادیاکہ غوری افواج کے مقابلے میں اس پر پوری طرح بھروسہ کیاجاسکے۔(Encylopadia of Islam London 1979 P 167)
بڑی دلچسپ بات ہے کہ ہانسی پرغزنویوں کے قبضہ اوران کے دس سالہ دورحکومت کی بیشترتفصیلات سن اورتاریخ کے حوالوں سمیت مہیاہوجاتی ہیں۔مگردوبارہ ہندوؤں کے قبضہ میں چلے جانے کے بعداس علاقہ کی تاریخ کی تفصیلات پرپھرتاریکی کاپردہ پڑجاتاہے۔اس قریباڈیڑھ صدی کےعرصہ کے صرف ایک دوحکمرانوں کے نام ملتے ہیں اوربس باقی کسی تفصیل کاکچھ۔ پتہ نہیں چلتا۔ البتہ بارھویں صدی عیسوی کےآخرمیں پرتھوی راج کے دورحکومت کی کچھ۔ تفیصلات میسرآجاتی ہیںوہ بھی شایداس لیے کے وہ اس علاقہ کاآخری ہندوحکمران تھااوراس کے بعدیہاں حکومت ہزارہاسال کے لیے مسلمانوں کومنتقل ہوگئی تھی۔
انسائیکلوپیڈیاآف اسلام نےایک جگہ تویہی لکھاہے کچھ۔ کتبوں سے یہ پتہ چلتاہےکہ ہانسی پرتنواراورچوہان راجپوت قابض رہے۔اورہندوؤں کایہ قبضہ پہلی یادوسری صدی عیسوی میں کشن عہدسے جاری تھا(ایضا)لیکن دوسری جگہ غیاث الدین بلبن کےزمانے کے کچھ۔ سنسکرت کے کتبوں کے حوالہ سے لکھاہے۔
"ہریانکا پرتومارراجپوت حکمران رہے اس کے بعدچوہان خاندان کی حکومت آئی۔اسکے بعدساکاخاندان کے بادشاہ آئے(ایضا)لیکن اس بات کاکچھ۔ پتہ نہیں چلتاکہ یہ ساکاخاندان کون ساخاندان تھا۔صرف دوہی خاندانوں کانام ملتاہے۔ایک توماریاتنوارخاندان ہےاوردوسراچوہان خاندان ہے غزنویوں نے جب اس علاقہ پرقبضہ کیاتواس پرتنوارخاندان کی حکومت تھی۔دوبارہ ہندوؤں کے قبضہ میں جانے کے بعدبھی یہ علاقہ اسی خاندان کی حکومت میں شامل ہوا۔اورایک صدی سے زائد عرصہ کےبعداسی خاندان کےآخری راجہ کوحکومت سے محروم کرکےپرتھی راج نےاس علاقہ اورہانسی کے قلعہ کوبراہ راست اپنی حکومت کاحصہ بنالیاتھا۔اس تمام عرصہ میں ساکاخاندان کانام کہیں نہیں ملتاہےاوراس کتبہ کی اس تحریرکی اورکسی ذریعہ سے تصدیق نہیں ہوتی ہے۔




























عہ۔۔۔۔دسلاطین
شہاب الدین محمدغوری کاپہلاحملہ:- جیساکہ گذشتہ باب میں بیان کیاجاچکاہے1173 میں چوہان خاندان کے راجہ پرتھی راج نےہانسی کے قلعہ کوبراہ راست اپنے قبضہ میں لےلیاتھااوراس نے اس نےاس قلعہ کوایک انتہائی اہم فوجی مرکزکی حیثیت دے کراسے مستحکم بنانے میں بڑی دلچسپی لی۔چنانچہ اس کے زمانہ میں اس قلعہ کی تعمیرات میں بہت اضافہ کیاگیا۔شہرکووسیع کردیاگیااوراسے اسے ایک ایسے فوجی مستقرکی حیثیت دےدی گئی کہ ایک سرحدی قلعہ کی حیثیت سےہرقسم کےبیرونی حملہ کے مقابلہ میں اس پربھروسہ کیاجاسکے۔اس علاقہ کوپرتھی راج نے براہ راست اپنے قبضہ میں لیابھی اسی غرض سے تھاکہ ہانسی کے قلعہ کواپنی مرضی کے مطابق مضبوط بناسکےورنہ اس سے قبل اس علاقہ پرحکمران تنوارخاندان بھی اس کاباجگذارہی تھا۔دراصل پرتھی راج کی خواہش تھی کہ اس علاقہ میں استحکام پیداکرکے اورہندوراجاؤں کوایک متحدقوت بناکرپنجاب کے ان علاقوں کوبھی مسلمانوں سے واپس لے لے جوابتک ان کے قبضہ میں تھے۔
ادھرشہاب الدین غوری بھی راجپوتوں کی اس مجتمع ہوتی ہوئی قوت کودیکھ۔ کرخطرہ محسوس کررہاتھااوراس کے توڑکی تدابیرمیں مصروف تھا۔اورانہی تدابیرمیں سے ایک تدبیریہ تھی کہ 591(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ 1904)میں اس نے راجپوتوں کی قوت سے پہلی ٹکرلینے کافیصلہ کیاوہ اپنالشکرلےکرآگے بڑھاتوراجپوتوں نے اسے دریائے سرسوتی کے کنارے ترائن کے مقام پرروکا۔یہاں بہت زورکامعرکہ پڑا۔اس معرکہ میں راجپوتوں کاپلہ بھاری رہاغوری کوشکست ہوئی اوروہ زخمی ہونے کےبعدبمشکل جان بچاکرمیدان سے نکلنے میں کامیاب ہوسکا۔اوراپنے بچے کچے لشکرکولے کرواپس غزنی چلاگیا۔
ہانسی کی فتح:- اس شکست کوغوری نے اپنی جان کاروگ بنالیااوراپنی تمام صلاحیتوں کواسکابدلہ چکانے کی تیاری میں صرف کردیا۔اورایک سال بعدہی وہ پھرراجپوتوں سےمقابلہ کےلیےآموجودہوا۔دوسری جانب راجپوتوں نےبھی وقت کوضائع نہیں کیاتھا۔پرتھی راج کواندازہ تھاکہ غوری اس شکست کوخاموش بیٹھ۔ کربرداشت کرنےکےلیےتیارنہیں ہوگاچنانچہ اس نےشمالی ہندکےتمام ہندوراجوں کایکجاکرکےمسلمانوں کامقابلہ کرنےکی تیاری کرلی تھی۔تمام راجاؤں نے



























اپنی فوجی قوت سمیت خودکوپرتھی راج کے سپردکردیاتھا۔چنانچہ اس دفعہ کامعرکہ گذشتہ سال کی نسبت زیادہ پرزورتھااس دفعہ بھی دونوں فوجوں کاآمناسامناگذشتہ سال والے مقام پرترائن میں ہوا۔گھمسان کارن پڑا۔اس دفعہ مسلمان اس بے جگری سے لڑےکےراجپوت فوجوں کوتہس نہس کرکےرکھ۔ دیا۔پرتھی راج شکست کھاکرمیدان سےبھاگ نکلا۔مگرسرسہ کےقریب پکڑاگیااورقتل کردیاگیا۔اس وقت ہانسی پرچوہان خاندان حکمران ہمیرنامی تھا۔وہ بھی جنگ میں قتل ہوگیا۔(ڈسٹرکٹ گزیٹیرزپنجاب 1904)یہ1192،588ھ کاہے۔اس واقعہ کومنہاج سراج نے بیان کرتے ہوئے لکھاہے۔
"رائےپتھوراہاتھی پرسوارتھا۔اترکرگھوڑےپربیٹھا۔بھاگ کردریائے سرستی پرپہنچاتوپکڑاگیااوراسےجہنم رسیدکیاگیااوررائے میدان جنگ میں ماراگیا۔سلطان نے خوداس کاسرپہنچان لیا۔کیونکہ دواگلے دانٹ ٹوٹے ہوئےتھے۔اجمیرکامرکزحکومت سوالک کے سواتمام حصے مثلاہانسی سرستی اوردوسرے علاقےفتح ہوگئے(منہاج سراج۔طبقات ناصری ترجمہ غلام رسول مہر۔لاہور1975 جلداول ص712)
صاحب منتخب التواریخ نے اس واقعہ کویوں بیان کیاہے
588ھ۔۔ میں سلطان شہاب الدین غوری چالیس ہزارنامورسواروں کےساتھ۔ پھرہندوستان آیا۔اس نے اپنی فوج کودوحصوں میں تقسیم کیا۔اورموضع تبرہندہ کےنواح میں جنگ کی اوراسے فتح کرلیا۔رائے پتھوراگرفتارہوااورکھنڈرائے ماراگیااوراس کےبعدسلطان نےہانسی اورسرستی کےقلعوں پرچڑھائی کی اورانہیں بھی فتح کرلیا۔(منتخب التواریخ۔ملاعبدالقادربدیوانی ترجمہ محموداحمدفاروقی لاہور۔1962ص16)
گویاترائن یاتروڑی کےمقام پرراجپوتوں کوشکست ہونے کےبعدسرستی کاقلعہ توظاہرہےکہ مسلمانوں کےقبضہ میں آہی گیاتھا۔اس کے بعدمسلمانوں نےجس علاقہ کوقبضہ میں لینے کی کوشش کی وہ ہانسی کاقلعہ تھا۔کیونکہ یہ قلعہ انتہائی اہم تھااوراس پرقبضہ کیے بغیراس علاقہ پرمسلمانوں کاقبضہ مکمل نہیں ہوسکتاتھا۔اس قعلہ پرقبضہ کےبعدشہاب الدین غوری کواطمینان ہوگیاکہ اب یہ علاقہ پوری طرح اسکے تصرف میں آگیاہے۔اس قلعہ پراس نے نصرت الدین کوحاکم مقررکیا۔
راجپوتوں کی آخری ناکام کوشش:-راجپوتوں کی قوت اگرچہ ترادڑی کی دوسری جنگ میں پاش پاش ہوچکی تھی مگراس جنگ کے بعدجلدہی انہوں نے سنبھالالینے کی آخری کوشش کی۔انہوںنے اپنی بچی کھچی قوت کواکٹھاکیااورچندماہ بعدہی 1192 کے اختتام پرہریانہ پرحملہ آورہوئےاورہانسی کے گورنرنصرت الدین کوقلعہ میں محصورہونے پرمجبورکردیا۔مگرسلطان شہاب الدین اس جانب سے غافل نہیں تھا۔اس نےقطب الدین ایبک کوفورالشکردے کربھیجا۔اس نے نہ صرف ہریانہ میں راجپوتوں کوشکست دی بلکہ آگے بڑھ کردہلی اوراجمیرپرقبضہ کر
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،

یہ پتہ نہیں کیاپرابلم ہے یہ توبھائی نبیل یازکریابھائی ہی بتاسکتے ہیں کہ کیاپرابلم ہے کہ پوراکاپی پیسٹ نہیں ہورہا۔


والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
تاریخ بروالہ سیدان

ہریانہ اورہانسی

بروالہ سیدان کاعلاقہ:- گذشتہ با ب میں اس بات کی توپوری طرح وضاحت ہوگئی ہے کہ بروالہ سیدان کی بستی ان آبادیوں میں سے ہےجوبہت قدیم زمانہ میں میں سرسوتی دریائے گھگھرکی کسی شاخ کے کنارے آبادکی گئی تھیں۔ مگر اس بات کاتعین بھی ضروری ہے کہ بعدکے زمانوں میں اس بستی کاشمار کس علاقہ میں کیاجاتارہاہےاورجغرافیائی، تاریخی اورانتظامی لحاظ سے اس بستی کوکس علاقہ میں شامل سمجھاگیاہے۔ اس بات کاتعین کرنے کے بعدہی ہم اس قابل ہوسکیں گے کہ بعدکے ادوارمیں اس تاریخی حالات کو سمجھ۔ سکیں۔اس لحاظ سے یہ تمام علاقہ جس میں یہ بستی آبادہے قدیم زمانہ سے "ہریانہ"کے نام سے موسوم چلاآتاہے۔چنانچہ تقسیم برصغیرکے کچھ۔ عرصہ بعدہندوستان کی حکومت نے اپنے ملک کے صوبوں کی نئے سرے سے حدبندی کی تو اس علاقہ کوپھرسے اس کاقدیم نام دے دیاگیاہےاب یہ علاقہ پنجاب سے علیحدہ ایک صوبہ کی حیثیت رکھتاہے اوراس صوبہ کانام"ہریانہ"ہے۔
ہریانہ:- یہ علاقہ اپنی اہمیت اورمنفردخصوصیات کی بناء پرنمایاں اورممتازرہاہےتاریخ کی کتابوں میں اس کاذکرخصوصی طورپرکیاگياہے۔مفتی غلام سرورلاہوری نے لکھاہے۔
'یہ ایک بڑاعلاقہ اورفراخ زمین ماتحت لیفٹینٹ گورنربہادرپنجاب ہے۔شمال مغرب وشمال مشرق کی طرف اس کے سرہندکے علاقہ کے شہراورمشرق میں ضلع رہتک و دادری وجنوب میں دادری کاعلاقہ ولوہاروومغرب میں ریاست بیکانیروبٹھیانہ ہے۔کل سطح اس کا تین ہزارتین سومربع میل ہے۔اس کے زمین کے بہت سے نشان ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویاان پر کبھی دریاچل چکاہے۔دریائے گھگھروچتنگ وغیرہ ندیاں کوہ ہمالہ سے نکل کراس میں بہتی ہیں۔زمین اس کی بہت سے مقامات سے زرخیزولائق پیداواربسبب مل جانے پانی مناسب کے ہے،پیداواریہاں کی شالی،گہیوں،جووغیرہ ہرایک قسم کاغلہ ہے۔اس علاقہ میں جن جن مقامات پرپانی کی کمی ہے زمینداروں نے وہاں پرپختہ تالاب بنوائے ہوئے ہیں۔برسات کے موسم میں وہاں پانی جمع ہوجاتاہےاورمکئی کے موسم میں ان تالابوں سے وہ پانی خرچ میں لاتے ہیں۔اوراگربرسات نہ ہوتوکنوؤں کے ذریعہ سے زراعتوں کوپانی دیتے ہیں۔کنوئیں یہاں بعض ایک سواوربعض ایک سوبیس فٹ تک گہرے ہوتے ہیں۔زمین یہاں بہت سے مقامات سے خشک و سوختہ ہےاگربرسات نہ ہوتوکنوؤں کے پانی خشک ہوجاتے ہیں۔(مفتی غلام سرورلاہوری۔تاریخ مخزان پنجاب،نولکشور،لکھنو1877 ص 53)
اس اقتباس سے جہاں ہریانہ کے علاقہ کی نمایاں خصوصیات کاپتہ چلتاہے وہاں اس کے طبعی حالات ،پیداوار
























اورطرززندگی کابھی اندازہ ہوجاتاہے۔بلکہ یہاں تواس علاقہ کے حدوداربعہ کاذکربھی کردیاگیاہے۔انسائکلوپیڈیاآف اسلام میںبھی اس علاقہ کاذکرملتاہے۔اس میں لکھاہے۔
یہ ہندوستانی پنجاب میں دہلی کے شمال مغرب میں واقع علاقہ کانام ہے۔جوموجودہ ضلع حصارمیں حصارفیروزہ اورہانسی کے شہروں کے اردگردواقع ہے اور مشرق میں ضلع رہتک تک پھیلاہواہے۔یہ گھگھرندی کے جنوب میں واقع ہے یہ ندی جزوی طورپرقدیم دریائے سرسوتی کاہی حصہ ہے۔جوکسی زمانہ میں سندھ سے جاکرمل جاتاتھا۔اورآجکل ایک برساتی نالہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔اوراس کاپانی راجستان کے ریگزاروں میں گم ہوجاتاہے۔اس علاقہ کانام کے معنی سبزعلاقہ ہیں۔ اگرچہ آجکل یہ علاقہ نیم صحراکی صورت میں ہے۔ایک عام روایت یہ بھی ہے کہ اس علاقہ کانام علاقہ کے روایتی حکمران ہری چندکے نام پررکھاگياتھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ علاقہ مویشیوں کی پرورش کے لیے بہت مشہورہےاورہندوستان میں ہریانہ کے مویشیوں کوبہت اعلی سمجھاجاتاہے۔((Encyloped of Islem Loadon (Holland)1979 V.III.P.225
امپیریل گزیٹزمیں اس علاقہ کاذکربڑی تفیصل سے کیاگیاہےاس میں بتایاگیاہے۔
یہ پنجاب میں ضلع حصارمیں ایک علاقہ ہےایک روایت کے مطابق اس کانام ایک قدیم بادشاہ ہری چندکے نام پررکھاگیاتھاجوکسی نامعلوم زمانہ میں اودھ سے یہاں آیاتھااوراس نے اس تمام علاقہ کوآبادکیاتھا۔یہ علاقہ ضلع کے مرکزمیں ہموارمیدان پرمشتمل ہے۔جس میں جہاں جہاں ریتلاعلاقہ آجاتاہےاورجس میں اکثرجگہ جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں۔بتایاجاتاہےکہ یہ جھاڑیاں کسی زمانہ میں تمام علاقہ کوڈھکے ہوئے تھیں۔نہرجمن غربی جواس علاقہ کوتقریبادوبرابرٹکڑوں میں تقسیم کرتی ہے۔وہ اب اپنے کناروں پرآباددیہات کوسیراب کرتی ہےلیکن اپنے مقامی حکمرانوں کے عہد میں ہریانہ خشک علاقہ مشہوررہاہے۔جوراہپوتانہ کے صحراکےکنارے پرواقع تھا۔پانی صرف کنوؤں سے حاصل ہوتاہےجوسوسے ایک سوتیس فٹ تک گہرے ہوتے ہیںاوراسطرح کے کنوئیں کی تعمیرکے اخراجات ایک سوپچاس پونڈسے کم نہیں ہوتے۔چنانچہ کنوؤں سے آبپاشی کی کوشش سوائے بہت خراب موسم کے کبھی نہیں کی جاتی۔اورجب ایساکیاجائے تب بھی زیادہ سے زیادہ چندایکڑزمین سبزیوں کے لئے گاؤں کے نزدیک سیراب کی جاسکتی ہےاس علاقہ کی زمین سخت ہے۔جیسے زیادہ بارش کی ضرورت ہوتی ہے۔اورجس میں ہل چلانامشکل ہوتاہے۔جس زمانہ میں بارش نہیں ہوتی،تواس علاقہ میں قطعاکوئی پیداوارنہیں ہوتی۔چنانچہ خشک موسم میں یہاں نہ صرف غلہ کی فصل نہیں ہوتی بلکہ چارہ کی فصل بھی نہیں ہوتی۔یہاں تک کہ گھاس تک نہیں اگتا۔www.hunter.lenperfai.gazebeer of India.London (665.P.337
ایک اورکتاب میں اس علاقہ کی بارے میں تحریرہے۔

























ہریانہ کے علاقہ کی زمین قریباہمواراوراچھی مٹی والی ہے۔کہیں کہیں کوئی ٹکڑاسخت مٹی کاآجاتاہے یا کہیں کہیں ریت کاکوئی ٹیلاموجودہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نہرجمن غربی اس قطعہ زمین کے درمیان میں سے مغرب سے مشرق کی جانب بہتی ہوئی گزرتی ہے۔یہ زیرکاشت زمین کے صرف چارفیصدرقبہ کوسیراب کرتی ہےکنوؤں سے آبپاشی اس علاقہ میں ناممکن ہے کیونکہ کنوئیں یاتوبہت گہرے ہیں یاان کاپانی نمکین ہے ۔اوران سے آبپاشی پرخرچ ہونے والی رقم بھی فصل سے واپس نہیں مل سکتی۔البتہ انتہائی قحط کے دنوں میں آبپاشی کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ورنہ اصولی طورپران سے صرف پینے کاپانی حاصل کیاجاتاہے۔وہ بھی صرف بہارکےموسم میں یاگرمی میں جب کے تالابوں کاپانی خشک ہوجاتاہے۔(حصارڈسٹرکٹ سیٹلمنٹ رپورٹ۔92-1887 ص 2)
ان تمام اقتباسات سے اس علاقہ کے جغرافیائی حالات ، طبعی کیفیت ، محل وقوع،تاریخی پس منظر،طرزمعاشرت پیداوار،اوردیگرمتعلقہ باتوں کابخوبی علم ہوجاتاہے۔یہی وہ علاقہ ہے جس کی بستیوں میں سے ایک اہم اورتاریخی بستی کانام بروالہ سیدان تھا۔اس بستی کے تاریخی حالات اورجغرافیائی کیفیات سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے اس علاقہ سے واقفیت ضروری ہے۔کیونکہ اس علاقہ کے حالات کے ذیل میں ہی اس بستی کے حالات کوسمجھاجاسکتاہے۔
زمین کی ایک قسم کانام:- ہریانہ کالفظ جہاں ایک مخصوص علاقہ اورخاص قطعہ زمین کے نام کے لیے استعمال ہواہےوہاں اس زمین کے بندوبست کے موقع پرزمین کی ایک قسم کے لیے بھی استعمال کیاگياہےدونوں مقامات پراس لفظ کااستعمال بالکل مختلف معنوں میں ہواہےاس لیے اس امتیازکے پیش نظررکھناچاہیے اول الذکرمعنی میں اس کااطلاق تاریخی اورجغرافیائی حیثیت کے حامل ایک خطہ زمین پرہوتاہےاورثانی الذکرمعنی میں یہ محض زمین کے بندوبست اورمحمکہ مال کی ایک اصطلاح کے طورپراستعمال ہواہےمثلاایک جگہ مال گذاری کے لحاظ سے اس علاقہ اوراس سے ملحقہ علاقہ کو اس طرح تقسیم کیاگیاہے۔
اس علاقہ کواسطرح تقسیم کیاجاتاہے۔
1-ہریانہ یابانگریادیس،یہ وہ علاقہ ہے جوحصارکے مشرق میں واقع ہے اور ضلع حصارکے مشرقی علاقہ کے ساتھ۔ ساتھ۔ ضلع رہتک کابڑاحصہ بھی اس میں شامل ہے۔جمناکے نزدیک بانگرکالفظ اونچی زمین کے معنی میں استعمال کیاجاتاہےجوکھادریادریائی زمین کامتضادہےہریانہ کودیس شایداس لیے کہاجاتاہےکہ یہ جاٹوں کادیس ہے۔اس علاقہ کے رہنے والے جاٹوں کودیسوالی جاٹ کہاجاتاہے۔سرسہ ضلع کاکوئی حصہ ہریانہ میں شامل نہیںاورہریانہ کاعلاقہ مغرب میں حصارسے آگے نہیں بڑھتا۔
2- نالی یاسوترکاعلاقہ یہ وہ علاقہ ہے جوگھگھرکی وادی میں یااس کےساتھ۔ ساتھ۔ واقع ہے۔
3- باگڑ:یہ علاقہ بانگرسے بالکل علیحدہ ہے اوریہ وہ ریتلاخشک علاقہ ہے جوگھگھرکی وادی کے جنوب میں بیکانیر























تک پھیلتاچلاگیاہے۔
-4روہی یاجنگل:- یہ وسیع اورخشک علاقہ ہے جو گھگھراورستلج کی وادی کے درمیان واقع ہے۔
زمین کی یہ ساری تقسیم اس کی پیداواری قوت کے لحاظ سے کی گئی ہے تاکہ اس کے مطابق اس پر مالیہ اور محصول عائدکیاجاسکے۔اس لحاظ سے ہریانہ کے نام سے منسوب ہونے والی زمین کی خصوصیات اس طرح بیان کی کئی ہیں۔
اس نام کاقطعہ باقی قطعات سے وسیع ہے اور اس میں ضلع حصارکے 631میں سے 292دیہات شامل ہیں یہ ضلع کے درمیان میں واقع ہے اورنہرجمن غربی اس کے بیچ میں سے مغرب سے مشرق کی جانب بہتی ہے۔اس کی مٹی دوطرح کی ہے ان دوقسموں کواصلاحی طورپر،ڈاکر،اورروسلی، کے نام دیئے جاتے ہیں۔اول الذکرسخت ہوتی ہےاوربجائی سے قبل اسے کافی زیادہ آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہےجبکہ مؤخرالذکرکسی حدتک ریتلی مٹی ہوتی ہےاوراسے کم پانی کی ضرورت ہوتی ہےاس تمام علاقہ کی زمین ایسی ہے کہ اگراسے کافی پانی مل جائے توبھرپورپیداواردیتی ہےلیکن بارش نہ ہونے کی صورت میں یہاں کچھ۔ بھی پیدانہیں ہوتا۔زیرزمین پانی سوسے ایک تیس فٹ تک گہرائی پرملتاہےاورپکے کنوئیں کی تعمیرپرڈیڑھ سوپونڈسے کم خرچ نہیں اٹھتا۔اس لیے کنوؤں سے آبپاشی کی یہاں کوشش ہی نہیں کی جاتی۔البتہ بہت خراب موسم ہوتوہرگاؤں کے آس پاس چندایکڑزمین سبزی کی کاشت کے لیے کنوؤں سے سیراب کرنے کی کوشش کرلی جاتی ہے۔خشک موسم میں غلہ کی فصل توایک طرف عام چارہ کی فصل بھی ختم ہوجاتی ہےچنانچہ بارش سے زیادہ زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے زمینوں کے وسیع ٹکڑوں کوکاشت کے بغیرچھوڑدیتے ہیں ان میں جوپانی جمع ہوجاتاہےاسے نالوں کے ذریعہ کاشت شدہ کھیتوں میں لے جاتے ہیں۔اوراسطرح پیداوارمیں اضافہ کرتے ہیں۔(www.hunter.imperial of India. London 1885 P226.27)
ان اقتباسات کے پیش نظررکھاجائے تو لگتاہےکہ "ہریانہ"کے لفظ کے الگ الگ استعمال کرنے کے باوجوددونوں معنوں میں بہت سی خصوصیات مشترک ہیں۔ظاہرہے کہ یہ ایک قدرتی امرہے۔کچھ۔ خصوصیات کی بناپرہی ایک خاص نام کو استعمال کیاجاتاہےمگراس کے باوجودکچھ۔ پہلوایسے بھی موجودہیں جودونوں معنوں کوایک دوسرے سے ممتازکرتے ہیں اس لحاظ سے اول الذکرمعنی کے لئے "ہریانہ"کالفظ اورموخرالذکرمعنی کے لیے "چک ہریانہ"استعمال کیاجائے توزیادہ مناسب ہے۔
وجہ تسمیہ:- ہریانہ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کئی روایتیں بیان کی جاتی ہیں(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرز۔مصاء اورلوہاروسیٹیٹ۔1904۔)ایک روایت تووہی ہے جس کاگذشتہ صفحات میں ذکرہوچکاہےکہ ہری چندکاکوئی راجہ ادوھ سے آیاتھا۔جس نے اس علاقہ کوآباد

























کیااوریہاں اپنی حکومت قائم کی۔ہوسکتاہے کہ مہابھارت کےبعدکے زمانہ میں ایساہواہو۔ورنہ مہابھارت سے قبل کازمانہ تووہے جب پنجاب کے علاقہ سے آریاؤں نے گنگااورجمناکے میدانوں میں منتقل ہوکراپنی حکومتیں قائم کی تھیں دوسری روایت میں اس نام کاتعلق"ہری"کے لفظ سے قائم کیاجاتاہےاس لفظ کے معنی قتل کے ہیں اوربیان کیاجاتاہےکہ پارس رام نامی کسی راجہ نے اس علاقہ میں اکیس مرتبہ کھریوں کاقتل عام کیاتھا۔اس طرح علاقہ کانام"ہریانہ"پڑگیا۔تیسری روایت اس نام کوایک جنگلی پودے"ہریابان"سے متعلق کرتی ہےکہاجاتاہےکہ کسی زمانہ میں یہ تمام علاقہ اس جنگلی پودے سے اٹاہواتھااس لیے اس کانام ہریانہ پڑگیا۔اس روایت کوہنٹرکے اس بیان سے تقویت ملتی ہےجسکاگذشتہ صفحات میں ذکرآیاہے کہ کسی زمانہ میں یہ تمام علاقہ جھاڑیوں سے ڈکھاہواتھا۔ہوسکتاہے کہ یہ جھاڑیاں اس پودے "ہریابان"کی ہی ہوں۔آخری روایت یہ ہے کہ یہ نام لفظ "ہرا"کی نسبت سے پڑاہےہراکے معنی سرسبزکے ہیں اوراگریہ روایت درست ہے تویہ زمانہ کی یادگارہے جب دریائے سرسوتی اوراس کی معاون شاخیں اس تمام علاقہ کوسیراب کرتے تھے۔بارشیں بھی اتنی کم نہیں ہوتی تھیں جنتی کم بعدمیں ہونے لگیں۔اوریہ علاقہ سرسبزوشاداب تھا۔اسکی آبادیاں پررونق تھیں اوریہاں کی حالت ویسی بنجراوربے آبادعلاقے کی نہیں تھی جیسی بعدمیں ہوگئی۔
ان تمام روایات میں سے پہلی اورآخری روایت زیادہ قابل اعتبارنظرآتی ہیں۔ان دونوں میں سے کسی روایت پربھروسہ کرلیاجائے۔بات ایک ہی ہے کہ یہ علاقہ جب آباداورپررونق تھااس وقت اس کانام ہریانہ رکھآگیاتھا۔یہ نام خواہ اس کے آبادکرنے والے کے نام پررکھاگیایاعلاقہ کی سرسبزی کے باعث رکھاگیا۔بات ایک ہی ہےبعدمیں اس علاقہ کایہی نام اب تک باقی ہےخواہ اسکی ظاہری حالت کتنی ہی تبدیل ہوگئی ہے۔
ہانسی کی اہمیت:- بروالہ سیدان کاقدیم تاریخی قصبہ برصغیرکے جس علاقہ میں واقع ہے اسے ہریانہ کانام دیاجاتاہےاوراس علاقہ سے ہم گذشتہ صفحات میں پوری واقفیت حاصل کرچکے ہیں۔اس پورے علاقہ میں جو شہرقدیم ترین زمانہ سے آبادرہااورجسے ہمیشہ یکساں اہمیت حاصل رہی۔وہ ہانسی کاشہرہے۔اس شہرکومدت مدیدتک ہریانہ کے علاقہ کے دراالحکومت کی حیثیت حاصل رہی ہے اور علاقہ کے تاریخی حالات کاجائزہ زیادہ تراسی شہرکے حوالے سےلیاجاسکتاہے۔یہ شہرجن حالات سے گزرتارہا۔وہی حالات گویااس تمام علاقہ کے بھی رہے ہیں۔خاص طورپربروالہ سیدان توہانسی کے نواح میں واقع ہےاس لیے ہانسی کے حالات سے بروالہ سیدان کے حالات کی پوری طرح عکاسی ہوسکتی ہے۔حصارفیروزہ کے آبادہونے تک قدیم ترین زمانہ سے ہانسی ہی اس علاقہ کامرکزی شہرتھااوراسکی قریب ترین قدیم آبادی بروالہ سیدان ہی کی تھی۔اس لیے بروالہ سیدان کے حالات جاننے کے لیے ہانسی کی اہمیت ہردوسری بستی سے زیادہ ہے۔یوں لگتاہے کہ پرانے زمانے میں علاقوں کی انتظامی تقسیم صوبوں کی بنیادپرنہیں بلکہ قلعوں کی بنیادپرہوتی تھی۔ہرعلاقہ کے کسی مرکزی مقام پر مضبوط قلعہ بناہوتاتھاجہاں قعلہ وارمتعین ہوتاتھااوراردگردکاتمام علاقہ
















اس کے انتظامی اختیارمیں ہوتاتھا۔ہانسی میں ایک ایساہی قلعہ موجودتھااوراس کے انتظامی حدودکے اندرسب سے قریب اورسب سے نزدیک بستی بروالہ سیدان کی تھی۔چنانچہ ہانسی میں وقوع پذیرہونے والےہرحادثہ،ہرتبدیلی اورہرچھوٹے سےچھوٹے واقعہ کااثربروالہ سیدان پربھی ضرورپڑتاتھا۔چنانچہ مختلف تاریخی ادوارکے دوران بروالہ سیدان کی حالت کامطالعہ ہانسی کے حالات کے حوالہ سے ہی ہوسکے گا۔اس لیے پہلے ہمیں ہانسی کے بارے میں بھی پوری حاصل کرلینی چاہیے تاکہ بعدکے حالات کوسمجھنے میں آسانی رہے۔
ہانسی کامحل وقوع:- اس شہرکے محل وقوع کی تفصیلات متعددذرائع سے مہیاہوجاتی ہیں۔چونکہ یہ قدیم مشہوراوراہم شہررہاہےاس لیے ہرکتاب میں اسکے متعلق کافی تفصیلات موجودہیں۔ایک ذریعہ سے یہ تفیصل حاصل ہوتی ہے۔
"ہانسی کاشہر"19ب،29"شمالی بلداور70مشرقی عرض بلدپردہلی سرسہ روڈپرحصارسے سومیل کے فاصلہ پرنہرجمن غربی کے کنارے واقع ہےاس نہرکی وجہ سے اس کے آس پاس کاعلاقہ سرسبزہے اور شہرکے چاروں طرف درختوں کی بہتات ہے(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ104)
ایک اورکتاب میں لکھاہے۔
"ہزجمن غربی کے کنارےپر19ب 290شمالی اور19-26"مشرقی درجہ پرواقع ہے حصاردہلی سڑک پرحصارشہرسےسولہ میل مشرق کی جانب واقع ہے(www.hunter.imperial guzetter of India (London 1885 P.311
ایک اورجگہ تحریرہے
"یہ شہرحصارسے جانب شرق بفاصلہ تیرہ کوس اوردہلی سے سمت شمال مغرب نواسی میل کے فاصلہ پردہلی کی سڑک اورفیروزشاہی نہرکے کنارے پرآبادہے(مفتی غلام سرورلاہورتاریخ مخزان پنجاب۔نولکشور،لکھنؤ1877۔59)
شہرسے متعلق تفصیل:- اس شہرکےبارے میں تاریخ کی کتابوں میں بڑی تفصیلات درج ہیں ان میں سے کچھ۔ اہم باتیں یہاں صرف اس غرض سے درج کی جاتی ہیں کہ ان کے ذریعہ اس شہرکی واقفیت بہترطورپرحاصل ہوسکےگی۔ایک جگہ اس کے بارے میں لکھاہے۔
پرانے شہرکے چاروں طرف پختہ اینٹوں کی فصیل اس طرح بنی ہوئی ہے جیسے کہ ہرقدیم اوراہم شہرکے گردبنی ہوتی ہے اس فیصل میں کئی دروازے ہیں اورشہرکے دفاع کے لیے اس کے اوپربرجیاں بنی ہوئی ہیں اندرون شہرمکانات قدیم
 

جاویداقبال

محفلین
طرزپرچھوٹی اینٹوں کے بنے ہوئے ہیں۔اس قدیم شہرمیں دوچوری سڑکیں ہیں۔جوایک دوسری کوکئی جگہ سے کاٹتی ہیں باقی گلیاں قدیم شہروں کی طرح تنگ اورپیچ درپیچ ہیں:(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ۔1904)
اس شہرکی مرکزی اہمیت کوتوہرمؤرخ نے تسلیم کیاہے اورلکھاہے کہ یہ ہریانہ کے علاقہ کاسب سے بڑااوراہم شہرتھااورقدیمی دارالحکومت تھااوربہت طویل مدت تک اسی تمام علاقہ کامرکزرہاہے۔(www. Hunter. Imperal gazetter of India London 1885 P.311)مفتی غلام سرورلاہوری نے اس کے ساتھ۔ بہنے کی بھی کچھ۔ تفصیل لکھی ہے۔
شہرسے بجانب مشرق بفاصلہ ایک کوس جمناکی نہرپرچادرپل ہے۔جہاں سے نہرکی دوشاخیں ہوکرایک شاخ جنوب اوردوسری شمالی رویہ گھوم کرآتی ہے پھریہ تینوں شاخیں نیچے جاملتی ہیں۔اورشہرکانواح اس نہرکے سبب بہت پرفضاوخوشنمامعلوم ہوتاہے۔(مفتی غلام سرورلاہوری تاریخ مخزان پنجاب۔نولکشورلکھنؤ1877ص59)
مفتی صاحب نے اس شہرکی مرکزی اہمیت اجاگرکرنے کے لیے ان سڑکوں کی تفصیل لکھی ہے جواسے دوسرے شہروں سے ملاتی ہیں خیال رہے کہ یہ تفصیل اس زمانہ کی ہے جب سڑکیں کچی اورذرائع آمدورفت غیرمشینی اورمحدودتھے۔ان حالات میں اس دورافتادہ شہرتک اتنی سڑکوں کاموجودہونابجائے خوداس کی اہمیت کوواضح کرنے کے لیے کافی ہے جواس گئے گزرے زمانہ میں بھی اس شہرکوحاصل تھی۔سڑکوں کی تفصیل یہ ہے۔
1- ہانسی سے دہلی براستہ بہادرگڑھ،رہتک،جگووہ، دوھدووغیرہ۔
2- ہانسی سے لدھیانہ براستہ راملی،سنگروروغیرہ
3- ہانسی سے پمخ براستہ دادری،کانوند،نارنول وغیرہ
4- ہانسی سے متھرابراستہ جھجر
5- ہانسی سے بھٹنیربراستہ سرسہ(غلام سرورلاہوری تاریخ مخزان پنجاب نوکہشورہ لکھنؤ1877)
ہانسی کی اہمیت کااندازاہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ یہاں 1867میں میونسپل کمیٹی قا‏ئم کردی گئی تھی(Encyip 1983 V.IV.P804)۔موجودہ شہرکی ایک جھلک شایداس اقتباس سے نظرآجائے۔





























یہ شمال مغربی ہندوستان کی ریاست ہریانہ میں ضلع حصارکاایک شہرہے پکی سڑک پرواقع ہے جوشمال مغرب میں حصاراورجنوب مشرق میں دہلی کوجاتی ہےاہم تجارتی اورمواصلاتی مرکزہےدوکالج موجودہیں جوکوروکھیشتریونیورسٹی کے ساتھ۔ ملحق ہیں۔کپاس بیلنے،دستی کھڈیوں اوردھات کی صنعتیں موجودہیں۔یہ بہت قدیم اوراہم شہرہے۔( ایضا)
ہانسی کاقلعہ:- جس طرح ہانسی کاشہربرصغیرکی قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک ہے اسی طرح یہاں کے قلعہ کے بارے میں مؤرخ یک زبان ہیں کہ یہ برصغیرکے انتہائی قدیم قلعوں میں سے ایک ہےایک رائے یہ ہے کہ پہلی یادوسری صدی عیسوی میں یہ قلعہ کشن خاندان کااہم متقرتھا۔(ایضا)اسی سے اس کی قدامت کااندازہ کیاجاسکتاہے کہ غالبایہ قلعہ اس زمانہ سے قبل موجودتھااس کے متعلق بیان کیاگیاہے کہ:
"قلعہ یہاں کامٹی کے بھراؤسے نہایت سنگین،مضبوط اوراونچابناہواتھاسابق میں اس کی مرمت ہمیشہ ہوتی رہتی تھی اورقلعہ کے اندربھی اچھے اچھے مکانات بنے ہوئے تھے۔اورچودہ پندرہ برس سے قلعہ بالکل بے مرمت ہوگیاہے اورعمارت واراضی بھی قلعہ کی نیلام ہوگئیں اورمکانات نیلام سے بچے وہ مسمارکرائے گئے۔غرض اب قلعہ میں کوئی عمارت نہیں رہی(مفتی غلام سرورلاہوری تاریخ مخزن پنجاب نولکشورلکھنؤ1877-ص59)
اس قلعہ کوتباہ اورمسمارکرکے اس کی زمین کونیلام کردینے کی کاروائی انگریزحکومت نے کی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ 1957 کی جنگ آزادی میں یہ تمام علاقہ مجاہدین آزادی کابہت بڑا مرکزبن گیاتھابعدمیں انگریزوں نے انتقامااس قلعہ کوملیامیٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔یہ قلعہ شہرکے شمالی حصہ میں ایک بلندجگہ پربناہواتھا۔جنگ آزادی میں علاقہ کے مجاہدین نے اس قلعہ کواپنامضبوط مرکزبنالیاتھا۔اس لیے بعدمیں اس کے بیشترحصہ کو مسمارکرکے ملبہ کونیلام عام کے ذریعہ فروخت کردیاگیاتھا۔قلعہ کاتھوڑاساشمالی حصہ باقی رہ گیاتھاوہ بھی بیشترکھنڈرات کی صورت میں تھا۔(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ1904)
ہانسی کی وجہ تسمیہ:- ہانسی اس قدرقدیم شہرہے کہ اب تک درست طورپریہی اندازہ نہیں لگایاجاسکاکہ اسے کس زمانہ میں آبادکیاگیاتھااس لیے اس کی وجہ تسمیہ بھی درست طورپربیان نہیں کی جاسکی ہے صرف مفتی غلام سرورنے کچھ۔ روایات بیان کی ہیں اگرچہ ان روایات پریقین انہیں بھی نہیں ہے انہوں نے لکھاہے۔
"وجہ تسمیہ اس شہرکی باسم ہانسی کسی کومعلوم نہیں بعضوں کاقول ہے کہ راجہ انلگپال تنوارنے اس کوآبادکیاتھااوربعض کہتے ہیں کہ رائے پتھوراکی یہ آبادی ہےبعض کہتے ہیں کہ آساجاٹ،ہالی کے رہنے والے کے نام پرآبادہوکرآسی نام رکھاگیاتھا۔

























اورایک مشہورتقریریہ ہے کہ چوہان راجپوتوں کی سلطنت میں ایک راجہ کی لڑکی بیمارتھی توتبدیل آب وہواکے واسطے یہاں بھیجی گئی۔یہاں آتے ہی اس کے مرض میں آفاقہ ہوا اوروہ ہنسی اس کی تندرستی کی خبرسن کر دہلی سے راجہ بھی یہاں آیااورلڑکی کے ہنسنے کومبارک سمجھ۔ کراس نے یہ شہرآبادکرکے ہنسی نام رکھاجواب ہانسی مشہورہے۔یہ قلعہ بھی اس کی بنیادرکھی ہوئی ہےاورقلعہ کے نیچے کی جانب اسی لڑکی کے نام پرایک تالاب بھی تعمیرکرایا۔اس تالاب کانام اب تک ابنتی مشہورہے۔(مفتی غلام سرورلاہورتاریخ مخزن پنجاب نولکشورلکھنؤص59)
اگرچہ ایک اورذریعہ نے بھی اس شہرکوراجہ اننگپال تنوارکابسایاہوابیان کیاہے(www. Hunter . imperial gazette of India London 1885 P 311)لیکن یہ بیان اس لیے اعتبارکے قابل نہیں کہ اس قلعہ کوتوپہلی اوردوسری صدی عیسوی میں کشن خاندان کااہم مقام ہونابیان کیاگیاہےاورراجہ اننگپال کازمانہ اس کے بہت بعدکاہےاسی طرح رائے پتھوراکازمانہ تواس کے بھی بعدکاہےاس نے اتناضرورکیاتھاکہ اس قلعہ کی مرمت کراکے اسے ایک مضبوط فوجی مرکزکی حیثیت دےدی تھی اوراس شہرکوبھی ترقی دے کراہم مقام بنادیاتھا۔جہاں تک چوہان راجہ کی لڑکی کاقصہ ہے وہ بھی بے بنیادہی لگتاہےدہلی پرچوہان خاندان کی حکومت بہت بعدکی بات ہےیہ قلعہ اورشہرتواس سے ہزارہاسال قبل سے موجودتھےاس لیے یہ تمام روایات ناقابل اعتبارہیں۔اورحقیقت یہ ہے کہ اس شہریااس قلعہ کی بنیادیااس کی وجہ تسمیہ کاکھوج اب تک کوئی نہیں لگاسکاہے۔
ہانسی کے تاریخی آثار:- ہانسی کے تاریخی آثارمیں سب سے اہم قلعہ کی عمارت تھی۔یہ قلعہ برصغیرکے قدیم ترین فوجی مراکزمیں سے تھا۔اوربرصغیرکے تمام انقلابات کاشاہدرہا۔مگرانگریزوں نے(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ1904) 1857کی جنگ آزادی میں ہریانہ اورہانسی کے شامل ہونے کی سزاصرف انسانوں کوہی نہیں دی۔بلکہ ان کے انتقام کانشانہ تاریخی عمارتیں بھی بنیں۔چنانچہ ہانسی کے قلعہ کوبھی اس جذبہ انتقام کے تحت مسمارکردیاگیا(ایضا)اوراس کے ملبہ کونیلام عام کے ذریعہ فروخت کردیاگیا۔بعدمیں یہ قلعہ مٹی کے ایک بہت بڑے ٹیلے کی صورت میں باقی رہ گیا۔یہ ٹیلاشمالاجنوباتین سوسترگزاورشرقاغرباتین سوپنتالیس گزتھا۔اسکی اونچائی باون فٹ اورچوڑائی سینتیں فٹ تھی ۔ اس قلعہ کابڑادروازہ اوردربانوں کی جگہ بھی باقی تھی جس سے اس قلعہ کی عظمت ،وسعت اوربلندی کااندازہ کرنامشکل نہیں تھا۔
قلعہ کے احاطہ کے اندرکچھ۔ نئی سرکاری عمارتیں تعمیرہوگئی تھیں۔مگرکچھ۔ قدیم آثاربھی باقی تھے۔ان آثارمیں دوپرانے کنوئیں اور


























ایک احاطہ میں بنی ہوئی دومسجدیں شامل تھیں اورسب سے اہم کہ یہ یہاں سیدنعمت اللہ کامزارتھا(ایضا)ان کے بارے میں تمام تاریخیں یہ بتانے میں متفق ہیں کہ یہ بزرگ شہاب الدین غوری کے ساتھ۔ تشریف لائے تھے۔غوری نے ہانسی پرقبضہ کرنے کے لیے جوجنگ کی اس میں ایسے وقت شہیدہوئے جب کہ قلعہ پرقبضہ ہوہی گیاتھا۔ان کامزارقلعہ کے اندراسی جگہ بنایاگیاجس جگہ وہ شہیدہوئے تھےکہاجاتاہے کہ ان کامزاراورمذکورہ بالادومسجدوں کااحاطہ ہانسی پرمسلمانوں کے قبضہ کے فورابعدکی تعمیرات میں سے ہیں۔کہتے ہیں کہ مسجدوں کے اس احاطہ پر589 کاکتبہ لگاہواہےاگریہ تاریخ درست لکھی ہوئی ہے تویہ مسجدیں برصغیرکی قدیم ترین مساجدمیں سے ہوں گی(encyclopaidia of islam London 1979 P 168)
شہرکے مغرب کی جانب بھی ایک تاریخی مسجدموجودتھی(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ 1904)اس کے قریب ہی چارقطب کی درگاہ تھی اس مقام پرتین احاطے بنے ہوئے تھےایک احاطہ میں مسجدبنی ہوئی تھی جس کے صحن میں ایک حوض بھی موجودتھا۔اس مسجدکو1491 میں کسی شخص نے تعمیرکرایاتھاجس کانام ابوبکرجوانی تھادوسرے احاطے میں حضرت قطب جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ اوران کے تین جانشینوں کے مزارات تھے۔اس طرح یہ چارقطب کی بارگاہ کہلاتی تھی۔اس مقبرہ پرواحدگنبدبناہواتھاجوکافی عرصہ بعدکی تعمیرمعلوم ہوتاتھاتیسرے احاطہ میں چاردیوانوں کے مزارات تھےیہ چارقطب کی بارگاہ کے اولین سجادہ نشین تھے(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ 1904)
ہانسی شہرسے قریباتین میل کے فاصلہ پربھی ایک ٹیلہ اوراسے اوپرایک مسجدموجودتھی۔اسے شہیدگنج کہاجاتاتھا(ایضا)روایت کے طورپربیان کیاجاتاتھاکہ اس مقام پرڈیڑھ لاکھ۔ مسلمان شہیدہوئے تھےکہاجاتاہے کہ یہ وہ مقام تھاجہاں مسعودغزنوی نے ہانسی کے قلعہ پرقبضہ کرنے کے لئے ہندوراجوں کے ساتھ۔ پہلی لڑائی لڑی تھی مسعودغزنوی کواس جنگ میں شکست ہوگئی تھی اوربے شمارمسلمان اس جنگ میں شہیدہوئے تھے۔ہانسی پرقبضہ کرنے کے لیے مسلمانوں کایہ اولین حملہ تھا۔
































عہدسلاطین سے قبل کے حالات
قدیم ہندوعہد:- اس علاقہ میں جہاں دریائے سرسوتی،دریائے گھگھرواوران کی شاخوں کے کناروں پرآریاؤں نے اپنی اولین بستیاں بسائی تھیں۔ہانسی اوربروالہ کی دوبستیاں ایسی بھی تھیں جوبعدمیں اس علاقہ کے بنجربن جانے اوراکثربستیوں کے نیست ونابودہوجانے کے بعدبھی اورقا‏‏ئم رہیں مگرتاریخی ذرا‏ئع سے نہ تویہ پتہ چلتاہےکہ یہ بستیاں کب آبادہوئیں اورنہ یہ معلوم ہوتاہے کہ کب اس علاقہ پرویرانی کی آفت نازل ہوئی۔حدتویہ ہے کہ ہانسی جیسے اہم قلعہ کی عہدبعہدتاریخ کاکوئی سراغ نہیں ملتا۔صرف اتناپتہ چلتاہے کہ پہلی یادوسری صدی عیسوی میں یہ قلعہ کشن خاندان کے حکمرانوں کے قبضہ میں تھااوران کااہم فوجی مرکزتھا۔اس کے علاوہ کسی تفصیل کاکچھ۔ پتہ نہیں چلتامعلوم ہوتاہے کہ ہندوحکمرانوں کویہ شعورہی نہیں تھاکہ تاریخ نویسی بھی علم کاکوئی شعبہ ہےاوراپنے زمانہ کی تاریخ کومحفوظ کرنابھی ایک اہم ذمہ داری ہے۔قدیم ہندودانشوربھی اس فکرسے عاری نظرآتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہندؤں کے عہدکی تاریخ کاکوئی سراہاتھ۔ نہیں آتا۔اگرکچھ۔ ہے توصرف قصے کہانیاں ہیں۔بقول مولاناوقارانبالوی کے۔
"ہندوؤں کے ہاں تاریخ لکھنےکارواج ہی نہیں تھا۔یہاں تک کہ بھارت میں جودوزمانے بھارتیوں کےعقیدہ کے مطابق مقدس زمانے گزرے ہیں۔یعنی رام چندرجی اورکرشن جی کے زمانے،ان کاتاریخی تعین بھی آج تک نہیں ہوسکاہے(وقارانبالوی کالم،سرراہے،روزنامہ نوائے وقت لاہور25نومبر1984)
اس سلسلہ میں ایک ہندوعالم اوردانشوربھی اعتراف کرتاہے کہ،
سنسکرت میں تاریخی تحریریں بہت نایاب ہیں(سندھیاکرتاندی،راماچترا،مرتبہ مہاماہورپاددھیاہراپرشادشاستری ایم اے میموٹرزآف ایشیاٹک سوسائٹی بنگال جلد3ص 56)

































یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں کے عہدکے حالات معلوم کرنے کے ہمارے پاس کوئی ذرا‏ئع نہیں ہیں اوراس طویل عہدکے متعلق ہمیں سوائے چندروایات کے اورکچ۔ھ۔ حاصل نہیں ہوتا۔
تنواریاتومارخاندان:-ان روایات کے مطابق پہلی یادوسری صدی عیسوی کے کشن خاندان کے بعداس علاقہ کے جس سب سے پہلے حمکران خاندان کاپتہ چلتاہےاس کانام دوطرح سے لکھاگیاہےکچھ۔ مصنف اسے،تنوار(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ1904)،لکھتے ہیں اورکچھ۔ نے،تومار((ecylopeadia of islam 1979P.225لکھاہے اس بات پرالبتہ سب متفق ہیں کہ یہ راجپوت خاندان تھا۔راجپوتوں کے اس خاندان نے آٹھویں صدی عیسوی کے نصف آخرمیں دہلی میں اپنی حکومت قا‏‏ئم کی۔(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ1904)اسکاسب سے پہلاحمکران اننگپال اول تھا۔دہلی میں حکومت قا‏ئم کرنے کے بعدآس پاس کے علاقوں کازیرنگین کرنے کاکام شروع ہوا۔چنانچہ اننگپال اول کے بھائی بجیے پال کی سرکردگی میں ہریانہ کے علاقہ کی تسخیرکے لیے ایک مہم بھیجی گئی۔اس نے اس علاقہ کوزیرنگین کرلیااوریہاں قیام کے دوران علاقہ کی ترقی اوربہبودکے لیے بھی کچھ۔ کام کیے۔یہاں تک کہ کچھ۔ نئی بستیاں بھی اس نے اس علاقہ میں آبادکیں۔ان بستیوں میں سے زیادہ مشہوربھونہ کاقصبہ ہے۔اس کافاصلہ بروالہ سیدان سے بارہ کوس ہے اوربروالہ سیدان کے بعدیہ قصبہ اس علاقہ میں باقی رہ جانے والی قدیم بستیوں میں شمارہوتاہے۔
چوہان راجپوت خاندان:-برصغیرکے بارے میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سوائے دوتین مختصروقفوں کے یہ کبھی متحداورواحدحکمران کےتحت نہیں رہا۔خاص طورپرمسلمانوں کے قبضہ سے قبل توصرف شمال برصغیرمیں ہی بے شمارچھوٹی چھوٹی خودمختارریاستیں قا‏ئم تھیں اوران میں سے اکثرپرراجپوتوں کے مختلف خاندان حکمران تھے ان میں سے جوحکمران طاقت حاصل کرلیتاتھاوہ اپنی پڑوسی ریاستوں کواپناباجگذاربنانے کی کوشش کرتاتھا۔اس طرح ان حکمرانوں کاآپس میں کھانڈاکھڑکتاہی رہتاتھا۔چنانچہ انہی دنوں جب دہلی پرتنوارخاندان کی حکومت تھی۔اجمیراورسانبھرکے علاقہ پرچوہان راجپوت حکمران تھے(ایضا)اس خاندان کے بارے میں کہاجاتاہےکہ پہلی یادوسری صدی عیسوی میںاجے پال تاروایک راجہ نےاجمیرپراپنی حکومت قا‏ئم کی اوریہی شخص چوہان راجپوتوں کامورث اعلی تھا۔اس کے جانشینوں نے نہ صرف اس کے جانشینوں نے نہ صرف اس سلطنت کوقائم رکھابلکہ اسے مضبوط بنایااوراسکی حدودمیں وسعت پیداکرتے رہے۔یہاں تک کہ 1785(ایضا)میں راجہ مانک رائے چوہان اجمیر




























اورسانبھرکے اردگردوسیع علاقہ کاحکمران تھا۔اس راجہ کوچوہان خاندان کے راجاؤں میں بہت مقام حاصل ہےکہاجاتاہے کہ یہی وہ سال ہے جب اجمیرپرمسلمانوں نے سب سے پہلاحملہ کیااوراس علاقہ کومانک رائے سے چھین لیا۔مگرمانک رائے نے ہمت نہیں ہاری۔اپنی قوت کونئی سرے سے مجمع کیااورفوراہی اپناعلاقہ واپس لے لیا۔اس طرح چوہان خاندان کی حکومت اس علاقہ میں قا‏ئم رہی۔
1000تک چوہان راجپوتوں کی اس حکومت نے اتنی قوت حاصل کرلی تھی اوراپنی سلطنت کواس قدروسیع کرلیاتھاکہ دہلی کے حکمران تنوارخاندان بھی اس کے باجگذاروں میں شامل تھی(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ1904) اس زمانہ میں اس سلطنت کاحکمران بسالدیوتھااورشمال برصغیرکےتمام راجپوت حکمرانوں میں اس بزرگی اورعزت کامقام حاصل تھا۔ہریانہ کاعلاقہ خاص طورپرہانسی کاقلعہ اوراس کے نواحی مقامات اس چوہان سلطنت کے سرحدی مراکزتھےاوران پرخصوصی توجہ دی جاتی تھی۔چنانچہ کرنل ٹاڈکی روایت کے مطابق 1000 میں ہانسی کاسرحدی قلعہ بسالدیوکے بیٹے انوراج کوجاگیرکے طورپردیاگیااوراس علاقہ کی حفاظت کی ذمہ داری اس کے سپردکی گئی۔(ایضا)
مسلمانوں کاپہلاحملہ:-اس علاقہ کی مستندتاریخ کاآغازمسلمانوں کے پہلے حملہ کے ساتھ۔ ہوتاہےمسلمان بادشاہوں میں سب سے پہلے اس علاقہ اورہانسی کے قلعہ کوفتح کرنے کی کوشش محمودغزنوی کے بیٹے مسعودغزنوی نے کی ۔ اس نے بڑی زبردست تیاری کے ساتھ۔ ہانسی پرحملہ کیا۔مگراس علاقہ کےراجپوت حکمران کےلیے یہ زندگی اورموت کاسوال تھا۔اس لیے انہوں نے متحدہوکراس قلعہ کی حفاظت کےلیے اپناسب کچھ۔ داؤپرلگادیااورانتہائی بے جگری کے ساتھ۔ لڑے۔مسعودکواس جنگ میں شکست ہوئی اورزبردست جانی ومالی نقصان اٹھاکریہاں سے واپس ہوااس جنگ کے بارے میں بیان کیاجاتاہےاس میں ڈیڑھ لاکھ۔ مسلمان شہیدہوئے۔ہانسیشہرسے تین میل کے فاصلہ پرایک اونچاٹیلہ ہے۔جس پرایک مسجدبھی بنی ہوئی تھی۔اس ٹیلہ کوشہیدگنج یاگنج شہیداں اسی لیے کہاجاتاتھاکہ اس جنگ میں شہیدہونے مسلمانوں کے مزارات یہاں تھےایک مصنف نے اس ٹیلہ کوپرانی آبادی کے آثارمیں بھی شمارکیاہےاورلکھاہے۔
"موجودہ آبادی کے شمال مشرق میں ایک وسیع ٹیلہ ہےجس کے اندرتہہ بہ تہہ کئی تہذیبوں کے نشانات دفن ہیں(Enclocaedia of Islam London 1979 P 168)



























مسلمانوں کادوسراحملہ اورہانسی کی فتح:- مسعودغزنوی نے ہانسی پرجوپہلاحملہ کیااورجس میں اسے شکست ہوئی تھی۔اس کاسن اکثرمورخین نےنہیں لکھا۔البتہ اس کے دوسرے حملے اورہانسی کے فتح کاحال تقریباتمام مورخین نے متعین کیاہےبعض مورخین نے یہ ضروربتایاہےکہ دوسراحملہ پہلے حملے کے تین سال بعدہوا(ایضا)ہانسی کے قلعہ کے بارے میں ہندوؤں کاعقیدہ تھاکہ یہ ناقابل تسخیرہے۔اس عقیدہ کی وجوہ یہ تھیں کہ اولایہ بہت مضبوط فوجی مرکزتھااورتمام ہندوراجوں نے متحدہوکراس کے دفاع کاعہدکیاہواتھا۔ثانیاکوئی غیرملکی حکمران اب تک اسے فتح نہیں کرسکاتھا۔اورہندوؤں کے عقیدہ کویہ روایات بہت مضبوط کردیتی تھیں کہ علاقہ کے اس قدیم ترین قلعہ کی حفاظت دیوتاکرتے ہیں۔ثالثامسعودغزنوی پہلے حملہ میں اسے فتح نہیں کرسکااوراسے شکست ہوئی تویہ عقیدہ اوربھی زیادہ مستحکم ہوگیا۔اورہندوؤں کویقین ہوگیاکہ ہانسی کوفتح کرناتودورکی بات ہے اب تواس طرف مسلمان رخ بھی ہیں کرسکیں گے۔مگرمسعودغزنوی نے حوصلہ نہ ہارا۔اس نے اپنی ضائع شدہ قوت کاازالہ کیا۔نئے سرے سے تیاری کی اورہانسی کی تسخیرکواپناایک اہم مقصدقراردے دیا۔دراصل ہانسی پرقبضہ اس کی سلطنت کی حفاظت کےلیے ضروری تھا۔اس کے زمانہ میں لاہوراورملتان غزنی کی سلطنت کے صوبے تھے اوران کی سرحدوں کومحفوظ کرنے کے لیے ہانسی کے قلعہ کی تسخیرضروری خیال کی گئی تھی۔اس لیےاس نے پوری تیاری کے بعدپھرسے ہانسی کی جانب رخ کیا۔
ہندوراجوں کی اس قلعہ کی مضبوطی اوراسکے ناقابل تسخیرہونے پرپہلے ہی پورابھروسہ تھا۔اس موقع پربرہمنوں اورجوتشیوں نے اپنے یوتھیوں سےحساب کتاب کرکے انہیں پورایقین دلادیاکہ اس قلعہ پرمسلمانوں کاقبضہ کبھی نہیں ہوسکتا۔اس کانتجہ یہ ہواکہ بہت سے ہندوراجوں نےاپناسب مال وخزانہ لاکراس قلعہ میں محفوظ کردیا(مفتی غلام سرورلاہوری تاریخ مخزن پنجاب نولکشورلکھنؤ1877میں ص59)اوراپنی فوجیں لےکرمسلمانوں کے مقابلہ میں آگئے۔مگراس دفعہ جنگ کانتیجہ ہندوؤں کی توقعات کے برعکس نکلا۔مفتی غلام سرورلاہوری کے بقول۔
"مگرمسعودنے چھ۔ دن کے عرصہ میں اس کوفتح کیااورمسلمان فوج دیواروں میں میخیں گاڑکردیوارپرچڑھ گئے(ایضا)اسطرح قلعہ فتح ہوگیااورہندوراجوں نے وہاں پرجومال ودولت اورخزانے جمع کیے تھے۔وہ سب گنج ہےتخت ورنج مسعودنے لےلیا(ایضا)




























اسی مصنف نے ایک اورجگہ لکھاہے۔
"سلطان مسعودابن محمودغزنوی نے اپنے باپ کی سنت کوجاری فرمایا۔ہندپرچڑھ آیا۔ہانسی وسونین پت وغیرہ قلعوں کوفتح کرکے بےشماردولت غزنین کولے گیا۔(مفتی غلام سرورلاہور۔تاریخ مخزن پنجاب نولکشورلکھنؤ1877ص12،14)
کہتے ہیں کہ لڑائی کے ذریعہ اس قلعہ پرقبضہ کرنےوالااولین شخص مسعودتھا۔اس قبضہ کے سن کے بارے میں مورخین کےدرمیان تھوڑاسااختلاف ہے۔ایک دومورخین نےاسے 1036لکھامثلا:
تین سال بعد1036میں مسعودنےایک بارپھرہندوستان پرحملہ کیااورپنجاب کےقریب ہانسی کےمقام پرلشکراندازہواقلعہ ہانسی کے بارےمیں خیال کیاجاتاتھاکہ یہ ناقابل تسخیرقلعہ ہے۔لیکن مسعودکےحملوں کےسامنےاس قلعہ کی تمام مضبوطی پانی کے بلبلے کی مانندتھی(سیداصغرعلی شاہ تاریخ پنجاب۔لاہورص49)
427ھ۔ مطابق 1036میں ایک نیامحل تعمیرہواجس میں جواہرات سے مرصع تخت نصب کیاگیاتھااس پرایک مرصع تاج بھی آویزاں تھا۔سلطان مسعوداس تخت پرجلوہ افروزہوا۔سرپروہی تاج پہنااوررعایاکوباریابی بخشی اسی سال اس نے اپنے فرزندامیرمودودکوطبل وعلم کے اعزازکے ساتھ۔ بلخ بھیجااورخودہندوستان کے جانب روانہ ہوا۔سب سےپہلے قلعہ ہانسی فتح کیا۔(ملاعبدالقادرملوک شاہ یدجوانی۔منتخب التواریخ اردوترجمہ محموداحمدفاروقی لاہور1962ص42)
فرشتہ نے بھی نئےمحل تعمیراوراس میں سلطان مسعودکی جلوہ افروزی کےمتعلق اس سارے بیان کی حرف بحرف تائیدکرتے ہوئےکہاہے۔
اس سال مسعودنےاپنے بیٹے مودودکوصاحب طبل وعلم کیااورقلعہ ہانسی کوفتح کرنے کے لیے ہندوستان کی طرف روانہ ہوا۔طبقات ناصری کے مؤلف کابیان ہےکہ اس زمانہ میں ہانسی سوالک کادرالسلطنت تھا۔ہانسی کاقلعہ بہت ہی مضبوط تھا۔اسکی بابت ہندویہ عقیدہ رکھتےتھےکہ اسے کوئی مسلمان فرمانرواتسخیرنہیں کرسکتا۔امیرمسعودنےہانسی پہنچ کراس قلعہ کامحاصرہ کرلیااورچھ۔ روزکی محنت کے بعداسے فتح کرلیا(محمدقاسم فرشتہ،تاریخ فرشتہ اردوترجمہ عبدالحی خواجہ لاہور1974جلداول ص166)
مگراکثرجدیدمورخین نے ہانسی کی فتح کاسن 1037لکھاہےاوریہی درست معلوم ہوتاہے۔مثلا:




























1030میں مسعودنے ہانسی کوفتح کرلیا(Bukhsh singh Nijar Punjab Under the sultan Lahore 1979P23)
1037میں اپنی مغربی سرحدوں پرسلجوقوں کے خطرہ کے باوجوداس نے ہانسی پرحملہ کیااوراس پرقبضہ کرلیا(J.C.Power Pric A History of India London 1955 P5)
بلکہ ایک مستندکتاب میں ہجری سن بھوتھوڑاسامختلف لکھاہےاوراسکے ساتھ۔ ساتھ۔ حملہ کے وقت کاتعین بھی کیاہے۔
محمودغزنوی کےبیٹے مسعودنے جب 429ھ۔ کے موسم سرمامیں ہانسی پرحملہ کیا(Enclopaedia of Islam London 1979 P 167)
غرض اس سال میں مسعودغزنوی نے اپنے دوسرے حملہ میں سخت مقابلہ کے بعدہانسی پرقبضہ کرلیااورایک بیان کے مطابق:
اس کے بعدہانسی کوغزنوی سلطنت کے ہندوستانی صوبہ کے سرحدی قلعہ کی حیثیت سے بہت اہم پوزیشن حاصل ہوگئی۔چنانچہ مسعودکے دوسرے بیٹے مجدوکواس صوبہ کاگورنرمقررکیاگیا۔اوراس نے 432ب۔ کاموسم سرماہانسی کے مقام پربیٹھ۔ کراس انتظارمیں گزاراکہ اسے دہلی پرحملہ کرنے کاموقع مل سکے(ایضا)
ہراخاندان:-مسلمانوں نے جب ہانسی پرقبضہ کیاتووہاں کاحکمران چوہان خاندان کاراجہ تیشت پال تھاوہ انودن کابیٹاتھا۔اسے جب ہانسی سے نکلناپڑاتواپنےخاندان اورساتھیوں سمیت بونڈی کےمقام پرچلاگیااوروہاں ہراخاندان کے نام سے ریاست قا‏ئم کرلی(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصارولوہاروسٹیٹ1904)یہاں ہراکالفظ چوہان خاندان کی ایک شاخ کے طورپراستعمال ہواہےیہ شبہ ہوسکتاہےکہ اسی لفظ سے ہریانہ کانام بناہو۔مگریہ شبہ اسی وقت تسلیم ہوسکتاہےجب کہ یہ تسلیم کرلیاجائے کہ اس علاقہ کانام قدیم زمانہ سے ہریانہ نہیں تھا۔حالانکہ اسے قدیم تاریخوں میں بھی اسی نام سے لکھاگیاہےدوسرے یہ کہ ہراخاندان کی ریاست بہت چھوٹی سی تھی اوروہ ایک وسیع علاقہ کی وجہ تسمیہ نہیں بن سکتی تھی۔اس لیے یہ شبہ قطعادرست نہیں ہےکہ اس ہراخاندان کے باعث اس علاقہ کانام ہریانہ رکھاگیاہے۔
غزنویوں کانظام مملکت:-ہانسی کاقلعہ اوراس کے اردگردکاعلاقہ تقریبادس سال تک غزنویوں کے قبضہ میں رہا۔اورلاہوراورملتان توغزنوی سلطنت کاصوبہ طویل عرصہ تک رہے۔ان کی




























حکومت نے ہانسی کوجومقام دیاتھااس کااندازہ کرنے کے لیے ان کے نظام ممکت پرایک سرسری نظرڈالنی ضروری ہےاس سلسلہ میں ڈاکٹربخشیش سنگھ۔ بخارکی کتاب سےیہی بڑی اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں انہوں نے لکھاکہ سلطان مسعودغزنوی پہلامسلمان بادشاہ تھاجس نے پنجاب میں حکومت قائم کی۔اس حکومت کاانتظامی ڈھانچہ اس کے اپنے ملک میں رائج نظام کے نمونہ پرتشکیل دیاگیاتھا۔یہ نظام غزنویوں نے امویوں،بازنقینوں اورایرانیوں سے حاصل کیاتھااس کیمابق پنجاب کی اقطاعات میں تقسیم کردیاگیاتھا۔ایک اقطاع میں ایک شہراوراس کے ساتھ۔ کچھ۔ دیہات پرمشتمل علاقہ ہوتاتھا۔ایک اقطاع کوصوبہ کی حیثیت حاصل ہوتی تھی اوراس کے گورنرکووالی یا مفتی کہاجاتاتھا۔ہانسی کوغزنوی دورحکومت میں ایک اقطاع کی حیثیت حاصل تھی(Bakhsh Singh Nigar Punjab under the Sultan Lahore 1979 P 99-100)اوراس اقطاع میں ظاہرہے کہ بروالہ سیدان ایک اہم قصبہ اورانتظامی مرکزتھا۔
ہانسی پرہندوؤں کادوبارہ قبضہ:- غزنویوں کے عہدمیں ہانسی کاعلاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آنے کے بعدزیادہ عرصہ ان کے تسلط میں نہیں رہ سکا۔شمالی ہندکی راجپوت حکومتوں کےلیے اس قلعہ کی اتنی اہمیت تھی کہ اس پرقبضہ کے بغیروہ خودکوبالکل غیرمحفوظ سمجھتے تھے۔یہ قلعہ دہلی پرحملہ کے لیے ابتدائی ٹھکانے کے طورپراستعمال ہوسکتاتھا۔کیونکہ خراسان سے براستہ ملتان اورجنوبی پنجاب ،دہلی تک پہنچنے والے راستے پریہ قلعہ ایک انتہائی اہم فوجی مرکزتھا۔(شمالی پنجاب کاراستہ سرہندسےہوکرگزرتاتھا)اس لیےراجپوت حکمران اس قلعہ کومسلمانوں سے واپس لینے کے لیے مسلسل تیاری اورکوشش میں مصروف رہے۔اورزیادہ عرصہ گزرنے سے قبل ہی وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئے۔فرشتہ کے بیان کے مطابق 435 ،1043 میں دہلی اورشمالی ہندکے دیگرہندوراجاؤں نے مل کرہانسی اورتھانیسرکے علاقوں پرقبضہ کرلیا۔(محمدقاسم فرشتہ تاریخ فرشتہ اردوترجمہ عبدالحی خواجہ لاہور1974 جلداول ص175)اس قبضہ کے بعدہانسی کودہلی کے راجہ کی حکومت میں شامل کردیاگیاجوچوہانوں کے باجگذارتنوارخاندان سے تھا۔اوراس کے بعدیہ قلعہ ایک صدی سے زائدعرصہ تک اسی خاندی کے قبضہ میں رہا۔آخر 1173میں چوہان اورراجہ پرتھوی راج نے اس خاندان کےآخری راجہ (ننگ پال دوم کوتخت سے محروم کرکے خوداس پرقبضہ کرلیااوراس طرح ہانسی کاعلاقہ بھی پرتھی راج کی حکومت میں شامل ہوگیا۔اس کے زمانہ میں ہریانہ پردہلی حکومت کی گرفت کوزیادہ مضبوط کردیاگیا۔ہانسی کے قلعہ کی تعمیرات میں بہت اضافہ کیاگیااوراسے بہت مضبوط بناکراتنہائی مستحکم فوجی مرکزمیں تبدیل کردیاگیا۔(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ 1904)

























انسائیکلوپیڈیاآف اسلام نے بھی ہانسی کے دوبارہ ہندوؤں کے قبضہ میں جانے کے سن اورواقعات کی تصدیق کی ہے اورلکھاہےاس علاقہ پردوبارہ قبضہ کے وقت دہلی پرحکمران راجہ کانام مہی پال تھااورہانسی کواسی کی سلطنت میں شامل کیاگیاتھا۔اس کے بعدتمام ہندوحکمراں اس قلعہ کی مضبوطی میں اضافہ کی جانب توجہ دیتے رہےکیونکہ یہ قلعہ ان کی سلطنت کی حفاظت کےلیے انتہائی اہم مقام کاحامل تھا۔یہاں تک کہ اگلی صدی کے آخرمیںپرتھوی راج نے اس قلعہ کی وسعت میں بھی اضافہ کیااوراسے اس قدرمضبوط بنادیاکہ غوری افواج کے مقابلے میں اس پر پوری طرح بھروسہ کیاجاسکے۔(Encylopadia of Islam London 1979 P 167)
بڑی دلچسپ بات ہے کہ ہانسی پرغزنویوں کے قبضہ اوران کے دس سالہ دورحکومت کی بیشترتفصیلات سن اورتاریخ کے حوالوں سمیت مہیاہوجاتی ہیں۔مگردوبارہ ہندوؤں کے قبضہ میں چلے جانے کے بعداس علاقہ کی تاریخ کی تفصیلات پرپھرتاریکی کاپردہ پڑجاتاہے۔اس قریباڈیڑھ صدی کےعرصہ کے صرف ایک دوحکمرانوں کے نام ملتے ہیں اوربس باقی کسی تفصیل کاکچھ۔ پتہ نہیں چلتا۔ البتہ بارھویں صدی عیسوی کےآخرمیں پرتھوی راج کے دورحکومت کی کچھ۔ تفیصلات میسرآجاتی ہیںوہ بھی شایداس لیے کے وہ اس علاقہ کاآخری ہندوحکمران تھااوراس کے بعدیہاں حکومت ہزارہاسال کے لیے مسلمانوں کومنتقل ہوگئی تھی۔
انسائیکلوپیڈیاآف اسلام نےایک جگہ تویہی لکھاہے کچھ۔ کتبوں سے یہ پتہ چلتاہےکہ ہانسی پرتنواراورچوہان راجپوت قابض رہے۔اورہندوؤں کایہ قبضہ پہلی یادوسری صدی عیسوی میں کشن عہدسے جاری تھا(ایضا)لیکن دوسری جگہ غیاث الدین بلبن کےزمانے کے کچھ۔ سنسکرت کے کتبوں کے حوالہ سے لکھاہے۔
"ہریانکا پرتومارراجپوت حکمران رہے اس کے بعدچوہان خاندان کی حکومت آئی۔اسکے بعدساکاخاندان کے بادشاہ آئے(ایضا)لیکن اس بات کاکچھ۔ پتہ نہیں چلتاکہ یہ ساکاخاندان کون ساخاندان تھا۔صرف دوہی خاندانوں کانام ملتاہے۔ایک توماریاتنوارخاندان ہےاوردوسراچوہان خاندان ہے غزنویوں نے جب اس علاقہ پرقبضہ کیاتواس پرتنوارخاندان کی حکومت تھی۔دوبارہ ہندوؤں کے قبضہ میں جانے کے بعدبھی یہ علاقہ اسی خاندان کی حکومت میں شامل ہوا۔اورایک صدی سے زائد عرصہ کےبعداسی خاندان کےآخری راجہ کوحکومت سے محروم کرکےپرتھی راج نےاس علاقہ اورہانسی کے قلعہ کوبراہ راست اپنی حکومت کاحصہ بنالیاتھا۔اس تمام عرصہ میں ساکاخاندان کانام کہیں نہیں ملتاہےاوراس کتبہ کی اس تحریرکی اورکسی ذریعہ سے تصدیق نہیں ہوتی ہے۔




























عہ۔۔۔۔دسلاطین
شہاب الدین محمدغوری کاپہلاحملہ:- جیساکہ گذشتہ باب میں بیان کیاجاچکاہے1173 میں چوہان خاندان کے راجہ پرتھی راج نےہانسی کے قلعہ کوبراہ راست اپنے قبضہ میں لےلیاتھااوراس نے اس نےاس قلعہ کوایک انتہائی اہم فوجی مرکزکی حیثیت دے کراسے مستحکم بنانے میں بڑی دلچسپی لی۔چنانچہ اس کے زمانہ میں اس قلعہ کی تعمیرات میں بہت اضافہ کیاگیا۔شہرکووسیع کردیاگیااوراسے اسے ایک ایسے فوجی مستقرکی حیثیت دےدی گئی کہ ایک سرحدی قلعہ کی حیثیت سےہرقسم کےبیرونی حملہ کے مقابلہ میں اس پربھروسہ کیاجاسکے۔اس علاقہ کوپرتھی راج نے براہ راست اپنے قبضہ میں لیابھی اسی غرض سے تھاکہ ہانسی کے قلعہ کواپنی مرضی کے مطابق مضبوط بناسکےورنہ اس سے قبل اس علاقہ پرحکمران تنوارخاندان بھی اس کاباجگذارہی تھا۔دراصل پرتھی راج کی خواہش تھی کہ اس علاقہ میں استحکام پیداکرکے اورہندوراجاؤں کوایک متحدقوت بناکرپنجاب کے ان علاقوں کوبھی مسلمانوں سے واپس لے لے جوابتک ان کے قبضہ میں تھے۔
ادھرشہاب الدین غوری بھی راجپوتوں کی اس مجتمع ہوتی ہوئی قوت کودیکھ۔ کرخطرہ محسوس کررہاتھااوراس کے توڑکی تدابیرمیں مصروف تھا۔اورانہی تدابیرمیں سے ایک تدبیریہ تھی کہ 591(پنجاب ڈسٹرکٹ گزیٹیرزحصاراورلوہاروسٹیٹ 1904)میں اس نے راجپوتوں کی قوت سے پہلی ٹکرلینے کافیصلہ کیاوہ اپنالشکرلےکرآگے بڑھاتوراجپوتوں نے اسے دریائے سرسوتی کے کنارے ترائن کے مقام پرروکا۔یہاں بہت زورکامعرکہ پڑا۔اس معرکہ میں راجپوتوں کاپلہ بھاری رہاغوری کوشکست ہوئی اوروہ زخمی ہونے کےبعدبمشکل جان بچاکرمیدان سے نکلنے میں کامیاب ہوسکا۔اوراپنے بچے کچے لشکرکولے کرواپس غزنی چلاگیا۔
ہانسی کی فتح:- اس شکست کوغوری نے اپنی جان کاروگ بنالیااوراپنی تمام صلاحیتوں کواسکابدلہ چکانے کی تیاری میں صرف کردیا۔اورایک سال بعدہی وہ پھرراجپوتوں سےمقابلہ کےلیےآموجودہوا۔دوسری جانب راجپوتوں نےبھی وقت کوضائع نہیں کیاتھا۔پرتھی راج کواندازہ تھاکہ غوری اس شکست کوخاموش بیٹھ۔ کربرداشت کرنےکےلیےتیارنہیں ہوگاچنانچہ اس نےشمالی ہندکےتمام ہندوراجوں کایکجاکرکےمسلمانوں کامقابلہ کرنےکی تیاری کرلی تھی۔تمام راجاؤں نے



























اپنی فوجی قوت سمیت خودکوپرتھی راج کے سپردکردیاتھا۔چنانچہ اس دفعہ کامعرکہ گذشتہ سال کی نسبت زیادہ پرزورتھااس دفعہ بھی دونوں فوجوں کاآمناسامناگذشتہ سال والے مقام پرترائن میں ہوا۔گھمسان کارن پڑا۔اس دفعہ مسلمان اس بے جگری سے لڑےکےراجپوت فوجوں کوتہس نہس کرکےرکھ۔ دیا۔پرتھی راج شکست کھاکرمیدان سےبھاگ نکلا۔مگرسرسہ کےقریب پکڑاگیااورقتل کردیاگیا۔اس وقت ہانسی پرچوہان خاندان حکمران ہمیرنامی تھا۔وہ بھی جنگ میں قتل ہوگیا۔(ڈسٹرکٹ گزیٹیرزپنجاب 1904)یہ1192،588ھ کاہے۔اس واقعہ کومنہاج سراج نے بیان کرتے ہوئے لکھاہے۔
"رائےپتھوراہاتھی پرسوارتھا۔اترکرگھوڑےپربیٹھا۔بھاگ کردریائے سرستی پرپہنچاتوپکڑاگیااوراسےجہنم رسیدکیاگیااوررائے میدان جنگ میں ماراگیا۔سلطان نے خوداس کاسرپہنچان لیا۔کیونکہ دواگلے دانٹ ٹوٹے ہوئےتھے۔اجمیرکامرکزحکومت سوالک کے سواتمام حصے مثلاہانسی سرستی اوردوسرے علاقےفتح ہوگئے(منہاج سراج۔طبقات ناصری ترجمہ غلام رسول مہر۔لاہور1975 جلداول ص712)
صاحب منتخب التواریخ نے اس واقعہ کویوں بیان کیاہے
588ھ۔۔ میں سلطان شہاب الدین غوری چالیس ہزارنامورسواروں کےساتھ۔ پھرہندوستان آیا۔اس نے اپنی فوج کودوحصوں میں تقسیم کیا۔اورموضع تبرہندہ کےنواح میں جنگ کی اوراسے فتح کرلیا۔رائے پتھوراگرفتارہوااورکھنڈرائے ماراگیااوراس کےبعدسلطان نےہانسی اورسرستی کےقلعوں پرچڑھائی کی اورانہیں بھی فتح کرلیا۔(منتخب التواریخ۔ملاعبدالقادربدیوانی ترجمہ محموداحمدفاروقی لاہور۔1962ص16)
گویاترائن یاتروڑی کےمقام پرراجپوتوں کوشکست ہونے کےبعدسرستی کاقلعہ توظاہرہےکہ مسلمانوں کےقبضہ میں آہی گیاتھا۔اس کے بعدمسلمانوں نےجس علاقہ کوقبضہ میں لینے کی کوشش کی وہ ہانسی کاقلعہ تھا۔کیونکہ یہ قلعہ انتہائی اہم تھااوراس پرقبضہ کیے بغیراس علاقہ پرمسلمانوں کاقبضہ مکمل نہیں ہوسکتاتھا۔اس قعلہ پرقبضہ کےبعدشہاب الدین غوری کواطمینان ہوگیاکہ اب یہ علاقہ پوری طرح اسکے تصرف میں آگیاہے۔اس قلعہ پراس نے نصرت الدین کوحاکم مقررکیا۔
راجپوتوں کی آخری ناکام کوشش:-راجپوتوں کی قوت اگرچہ ترادڑی کی دوسری جنگ میں پاش پاش ہوچکی تھی مگراس جنگ کے بعدجلدہی انہوں نے سنبھالالینے کی آخری کوشش کی۔انہوںنے اپنی بچی کھچی قوت کواکٹھاکیااورچندماہ بعدہی 1192 کے اختتام پرہریانہ پرحملہ آورہوئےاورہانسی کے گورنرنصرت الدین کوقلعہ میں محصورہونے پرمجبورکردیا۔مگرسلطان شہاب الدین اس جانب سے غافل نہیں تھا۔اس نےقطب الدین ایبک کوفورالشکردے کربھیجا۔اس نے نہ صرف ہریانہ میں راجپوتوں کوشکست دی بلکہ آگے بڑھ کردہلی اوراجمیرپرقبضہ کر
 
Top