تاریخی دستاویزات کی بربادی

10_05.gif
 
اللہ اللہ علم اور نوادرات کے ساتھ یہ رویہ پڑھ کر میں حیرت زدہ ہوں ۔آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔یہ کیا ہو گیا ہے مسلم قوم کو۔اس قدر لاپرواہی !!۔۔۔۔۔مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ میں اس پر کیا تبصرہ کروں ۔ماتم کرنے کا مقام ہے ۔انگریز کو ہم کتنی بھی گالیاں دے لیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ علم دوستی اور اس کی قدر دانی انھیں کے یہاں ہے ۔ابھی ابھی کچھ دن قبل میرا ایک دوست انکر شکلا جو کہ دہلی کی معیشت پر ریسرچ کر رہا ہے تاریخ سے ۔وہ بتا رہا تھا علم اللہ بھائی1947سے پہلے کی ساری چیزیں ،ایک ایک دستاویز محفوظ ہے ۔لیکن اس کے بعد کی چیزیں تو ملتی ہی نہیں ۔بھائی ہم اپنی ہی چیزوں کو محفوظ نہیں رکھ سکے ۔انگریز چاہے انھوں نے کتنوں ہی ظلم کیا ہو لیکن اس معاملہ میں کم از کم وہ ہم سے بہت اچھے تھے اور ہیں ۔یہ کس قدر ہمارے لئے ذلت کی بات ہے کہ ہم اپنے بر صغیر پاک و ہند پر ریسرچ کر رہے ہوتے ہیں اور اپنی ہی چیزوں کا حوالہ غیروں کی لائبریری سے دیتے ہیں ۔کیا یہ ہمارے لئے شرم کی بات نہیں ہے کہ ہماری چیزیں برٹش لائبریری آف لندن ،لائبریری آف کانگریس امریکہ،ڈینش رویال لائبریری میں دستیاب ہوتی ہیں ۔ جن معاشروں میں علم کی ایسی ناقدری ہو تو پھر جہالت کے اندھیروں میں ٹامک ٹوییاں نہیں ماریں گے تو اور کیا کریں گے۔
 
آخری تدوین:

اسد

محفلین
اس طرح کی حرکتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ کام کی بہت سی اشیاء پہلے ہی ٹھکانے لگائی جا چکی ہوتی ہیں اور چوریاں چھپانے کے لئے ریکارڈ تلف کرنا مطلوب ہوتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے، کسی کو نہیں معلوم کہ کہاں کیسی کتابیں موجود ہیں؟ لاہور میں تو ردّی فروشوں کو بھی معلوم ہے کہ کس دفتر میں کون کون سی قیمتی کتابیں موجود ہیں، کس بزرگ کی ذاتی لائبریری میں مہنگی کتابوں کا ذخیرہ ہے اور اس بزرگ کی صحت کیسی ہے۔ دفتر میں کون ایسا ملازم ہے جو کتاب حاصل کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، افسر اعلى کے مالی حالات کیسے ہیں اور گھر میں کون بیٹا/بہو بزرگ کے انتقال پر کتابیں ردّی میں فروخت کریں گے کیونکہ کتابیں جن الماریوں (cupboards) میں رکھی ہیں وہ تو ڈائننگ روم میں سجیں گی۔

اطلاع بہرحال افسوسناک ہے۔
 

اسد

محفلین
Top