بے محابا جب تصور میں کوئی آجائے ہے

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
بے محابا جب تصور میں کوئی آجائے ہے
پھر نہ تڑپا جائے ہے دل سے نہ سنبھلا جائے ہے

جب کبھی آتا بھی ہے ترک تمنّا کا خیال
شوق دل میں اور اک شعلہ سا بھڑکا جائے ہے

ہوک سی اٹھتی ہے جب دل میں کسی کی یاد سے
چند لمحوں کو محبت کا مزہ آجائے ہے

کیا کروں ہنگامئہ عالم میں تدبیر سکوں
اب تو دل اس کے تصور سے بھی گھبرا جائے ہے

جس قدر تھکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں قدم
اعتبارِ قربِ منزل اور بڑھتا جائے ہے

کیا کریں ان کے تصور سے تغافل کا گلہ
جانے کیا چپکے سے آکر دل کو سمجھا جائے ہے

جس نے سمجھا ہو جنونِ شوق کو رازِ حیات
عارفی کیا اور بھی کچھ اس سے سمجھا جائے ہے

ڈکٹر عبدالحئی صاحب
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب شراکت
کیا کریں ان کے تصور سے تغافل کا گلہ​
جانے کیا چپکے سے آکر دل کو سمجھا جائے ہے​
 
Top