بے قرار لمحوں کے

ثامر شعور

محفلین
یونیورسٹی کے دنوں میں لکھی ہوئی شاعری میں سے کچھ غزلیں شامل کر رہا ہوں ۔ ابتدا 'بے قرار لمحوں' سے :)

لوح زیست سے مجھ کو نقش کچھ مٹانے ہیں بے قرار لمحوں کے
کاش لوٹ کر آئیں جو سبھی زمانے ہیں بے قرار لمحوں کے

لوگ جن کو پڑھتے ہیں جوسجے ہیں چہرے پر وہ خوشی کے قصے ہیں
جو سنبھال رکھے ہیں وہ تو کچھ فسانے ہیں بے قرار لمحوں کے

فاصلوں کی گردش سے لوٹنا نہیں ممکن جانتا ہوں میں، پھر بھی
ہو سکے تو آؤ تم درد کچھ سنانے ہیں بے قرار لمحوں کے

سانس کے سفر میں اب ایک ہی تمناہے رکھ دوں تیرے قدموں میں
آنکھ کے سمندر میں جس قدر خزانے ہیں بے قرار لمحوں کے

تشنگی کے سب موسم کیوں ٹھہر سے جاتے ہیں،کس لیے نہیں کٹتے
زندگی ذرا رکنا بھید ہم کو پانے ہیں بے قرار لمحوں کے

آس کے سبھی پنچھی پھر سے آنکھ کی جھیلوں پر پلٹ کے آجا ئیں
ایک اس تمنا میں خواب تک جلانے ہیں بے قرار لمحوں کے

سانس رک سی جاتی ہے درد اور بڑھتا ہے لمحے پھیل جاتے ہیں
سوچتا ہوں جب ثامر کتنے غم بھلانے ہیں بے قرار لمحوں کے​
 
آخری تدوین:
Top