بے زبانوں کو

رشید حسرت

محفلین
ہم ترستے ہیں عمدہ کھانوں کو
موت پڑتی ہے حکم رانوں کو

جرم آزاد پھر رہا ہے یہاں
بے کسوں سے بھریں یہ تھانوں کو

چھپ کے بیٹھے گا تُو کہاں ہم سے
جانتے ہیں تِرے ٹھکانوں کو

سر پہ رکھتے ہیں ہم زمیں لیکن
زیرِ پا اپنے، آسمانوں کو

آئے دِن اِن کے بیچ دنگل ہے
دیکھو گتّے کے پہلوانوں کو

کیا یہ کم ہے کہ بولنے کو زباں
مل گئی ہم سے بے زبانوں کو

ہسپتال اپنا، اپنے پاس رکھو
مت اُکھیڑو مگر گِدانوں کو

یہ ہی دھرتی کا سینہ چاک کریں
اور روٹی نہیں کسانوں کو

اک نیا مسئلہ ہؤا درپیش
پھر سے صحرا کے اُونٹ بانوں کو

چار سُو سر پِھری ہوا کا راج
تہ نہیں رکھنا بادبانوں کو

کر کے وعدہ جو کل نہیں آیا
بِیچ لائے گا پِھر بہانوں کو

ہم نے تھوڑا قلم جہاد کِیا
یاد رکھنا ہے اِن ترانوں کو

حسنِ اخلاص اور روا داری
آؤ ڈھونڈیں پھر اِن خزانوں کو

روزے رکھنا تو فرض سب پر ہے
ہم مگر سونپ دیں پٹھانوں کو

موت بھی یوں ہماری گھات میں ہے
صید چُگتا ہے جیسے دانوں کو

زندگی قید میں گزاری ہے
بھول بیٹھے ہیں اب اُڑانوں کو

ہم نے سیکھا ہے آہ بھرنا بس
یاد کر کے گئے زمانوں کو

اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے
اِک کہانی کئی فسانوں کو

اتنے مجبور تھے گِرانی سے
بیچ آئے ہیں سائبانوں کو

اس کو زلفیں بکھیرنا تو تھیں
شان بخشی ہمارے شانوں کو

سچ کو سچ سے رشید ماپیں گے
وہ بھلے تان لیں کمانوں کو


رشید حسرت
 
Top