بے حس خاموشی

peshawar-anp-rally-blast-afp-670.jpg

دھماکے کے بعد کا ایک منظر۔ اے ایف پی فوٹو۔

پشاور میں حالیہ بم دھماکے کے بعد، جائے وقوع پر کھڑا اور واقعے سے انتہائی خوفزدہ ایک کمسن بچہ، جنونی اندازمیں چلاتے ہوئے اپنے دونوں گالوں پر، اپنے ہی ہاتھوں سے تھپڑ مارے جارہا تھا۔

یہ فوٹیج مختلف نیوز چینلزپر بار بار دکھائی گئی، جو اُس خوف کی کہانی بیان کرتی ہے جسے طالبان نے سترہ اپریل کی شب عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی ریلی پر حملہ کر کے پھیلایا تھا۔
جو تباہی پھیلی اسے دیکھنا دھچکے سے کم نہیں تھا لیکن اس ہولناک اور لرزہ خیز تباہی سے زیادہ بڑا دھچکا اس قلِ عام پر زیادہ تر سیاسی جماعتوں کا کٹھور رویہ تھا۔
حملے میں ہونے والے جانی نقصانات پر افسوس اور مذمت کے روایتی بیانات سے آگے بڑھ کر کوئی اور ردِ عمل موجود نہیں تھا۔ کسی نے طالبان کی مذمت نہیں کی جنہوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور جو پہلے ہی جمہوری عمل سبوتاژ کرنے کی کی دھمکی دے چکے تھے۔
اس موقع پر سیاسی جماعتوں، بالخصوص مسلم لیگ نون، پاکستان تحریکِ انصاف اور جمیعتِ علمائے اسلام ۔ فضل کی مجرمانہ خاموشی انتہائی معنیٰ خیز ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ وہ اس کے بدلے کی اپنی سلامتی مول لے چکے، رہے ان کے مخالفین تو وہ عسکریت پسندوں کی زد پر ہیں۔
مفاہمت کی اس پالیسی نے خاص طور پر ان سیاسی جماعتوں کو طالبان کی دہشت گرد مہم کی غیر ضروری پیچیدگیوں سے تو (فی الحال) بچالیا ہے لیکن اس موقع پرستی کی تب بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی جب مستقبل میں عسکریت پسند ان کی طرف بھی اپنا رخ موڑیں گے۔
اس پرکوئی شبہ نہیں کہ طالبان اے این پی کے خلاف کھلی جنگ چھیڑچکے۔ جماعت، خیبر پختون خواہ میں اپنے پورے دورِ حکومت میں دہشت گردی کےخلاف سخت موقف لیے کھڑی رہی جس کے نتیجے میں، صوبے کے مختلف حصوں پر مضبوط گرفت رکھنے والے عسکریت پسندوں نے ان پر بے تکان دہشت گرد حملےکیے اور جماعت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
بلاشبہ، اےاین پی کے خلاف حالیہ حملے، اس کی انتخابی مہم کو ناکام کر کے اُسے دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنے کی کوشش ہے۔ اس مٰں بھی حیرت کا کوئی پہلو نہیں کہ پی پی پی اور ایم کیو ایم بھی طالبان کی ہِٹ لسٹ پر ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں بھی عسکریت پسندی کے خلاف ٹھوس موقف رکھتی ہیں۔
عسکریت پسند ایم کیو ایم کے ایک رکنِ صوبائی اسمبلی اور گذشہ ماہ سندھ اسمبلی کے لیے ان کے ایک امیدوارکے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کرچکے ہیں۔
عسکریت پسندوں نے دیگر جماعتوں کو ایک طرف کرتے ہوئے، سیاسی قوتوں کو تقسیم کر کے، اپنی سرگرمیوں کے لیے ایک وسیع خلا تشکیل دیا ہے۔
خیبر پختون خواہ اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے بعد، اب طالبان اور ان کا تشدد کراچی اور مُلک کے دیگر حصوں تک بھی پہنچ چکا۔ یہ ملک کے سیاسی استحکام کے لیے خطرے کی گھنٹی اور نہیت سنگین صورتِ حال کی عکاسی ہے۔ اس بات کے خدشات ہیں کہ انتخابی مہم کے زور پکڑنے کے ساتھ دہشت گردی کے خطرات بھی بڑھتے چلے جائیں گے۔
گذشتہ دس برسوں کے دوران، عسکریت پسندوں کے پُرتشدد حملوں میں اب تک ہزاروں معصوم شہری اپنی جانوں سے گئے، فرقہ وارانہ تناؤ کی چنگاری پر اس نے تیل چھڑکا اور معیشت کو لرزا کر رکھ دیا اور اب یہ انتخابات کے لیے بڑھتے خطرے کی صورت سامنے آئے ہیں۔
یہ پاکستان کے وجود اورسلامتی کے لیے واضح طور پر نہایت سنگین خطرہ ہیں مگر سیاسی جماعتوں کے منشور میں یہ فُٹ نوٹ یا حاشیے سے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں۔ اس لعنت سے نمٹنے کے لیے انہوں نے ٹھوس لائحہ عمل پیش کرنے کے بجائے، مبہم اندازمیں اسے بیان کرتے ہوئے یونہی چھوڑ دیا ہے۔
درحقیقت عسکریت اور مذہبی شدت پسندی سے نمٹنا زیادہ تر سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں۔ مثال کے طور پر مسلم لیگ نون، جنرل پرویز مشرف کا حوالہ دیتے ہوئے اُن کے طویل دورِ حکومت کو پاکستان میں عسکریت پسندی اور اس کے پھیلاؤ کا سبب قرار دیتی ہے۔
مسلم لیگ نون کا اپنے منشور میں کہنا ہے: ‘سیاسی سرگرمیوں کا خاتمہ اور شہریوں کو اُن کے حقوق دینے سے انکار نے وسیع پیمانے پر عوام میں غم و غصہ اور تناؤ پیدا کیا، جس نے بعض کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ تشدد کا راستا اختیار کرلیں۔’
عسکریت پسندی اور دہشت گردی نے ملک کو شدید نقصانات پہنچائے اوراس کی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک سنگین خطرہ بنے لیکن اس کے جنم لینے کی یہ وضاحت ناقابلِ ہضم دلیل ہے۔
مسلم لیگ نون کے مطابق ‘عسکریت پسند معصوم شہریوں کی جانیں لے رہے ہیں، جبری طور پر بچوں کو خودکش حملوں میں استعمال کررہے ہیں، سکیورٹی تنصیبات پر حملے اور بچیوں کے اسکولوں کو تباہ کیا جارہا ہے اور یہ صرف اس لیے ہورہا ہے کہ ان کے بنیادی حقوق دینے سے انکار کیا گیا تھا۔’
مسلم لیگ نون کی وضاحت کو دیکھیں تو گذشتہ پانچ برس کے دوران ملک میں جمہورت کا راج رہا تو پھرعسکریت پسندوں کے تشدد میں کیوں اضافہ ہوا؟ شاید اس کی بھی وضاحت کے لیے انہیں کوئی جواز مل جائے گا۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ طالبان اور ان کی سرگرمیوں کا زیادہ مضبوط دفاع شاید مذہبی جماعتوں سے زیادہ وہ نام نہاد قومی جماعتیں کررہی ہیں جو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں شاید برسرِ اقتداربھی آجائیں۔ ان جماعتوں کے منشور میں اُن ہزاروں سکیورٹی اہکاروں کا کوئی ذکر موجود نہیں جو شرپسندوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔
پاکستان میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے مسئلے کو تحریکِ انصاف نے سرسری طور پر اپنے منشور میں بیان کیا ہے۔ اس سنگین مسئلے کو ان کے منشور میں درحقیقت چند سطر کی جگہ ہی مل سکی، وہ بھی سکیورٹی پالیسی کے ذیلی حصے میں۔ جس سے یہ بات یقینی ہوتی ہے کہ اُن کے نزدیک عسکریت پسندی اور اس سے ہونے والے نقصان کی کوئی اہمیت نہیں۔
تحریکِ انصاف اس مسئلے کو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ میں پاکسانی حمایت سے منسلک کر کے دیکھتی ہے۔ اس ناقص دلیل نے پاکستان میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی تمام تر وجوہات کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔
عسکریت اور جارحیت پسندی کی جڑیں بہت گہری ہیں اور یقینی طور پر افغانستان سے امریکی انخلا کے باوجود بھی یہ مسئلہ ختم نہیں ہوگا۔
عمران خان ایک طویل عرصے سے طالبان کے لیے اپنے دل میں انتہائی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ طالبان اور دہشت گردی سے متعلق پُرابہام فکر، اُن کی جماعت کے منشور میں بھی صاف نظر آتی ہے۔
بلاشبہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے منشورمیں اس مسئلے کو زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے تاہم اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں جماعت عسکریت پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے یے موثر اور جامع حکمتِ عملی شکیل دینے میں مکمل طور پر ناکام بھی رہی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے دورِ حکومت میں دہشت گردی سے نمٹنے کی کوئی جلدی نہیں دیکھی گئی۔ اینٹی ٹیررازم اتھارٹی کے قیام کے لیے قومی اسمبلی کے منظور کردہ بِل پر منظوری کے دستخط کرنے میں پارٹی کو تقریباً پانچ سال کا وقت لگا تھا۔
اگرچہ اپنے منشور میں پیپلز پارٹی نے نہایت تفصیل سے عسکریت پسندی اور اس سے نمٹنے کے اقدامات بیان کیے ہیں لیکن ایک سوال کھلا چھوڑ دیا ہے۔ جب جماعت خود پانچ سال تک برسرِ اقتدار رہی تب یہ اقدامات کیوں نہیں کیے گئے تھے؟
پاکستان کو درپیش اس سب سے بڑے اور سنگین خطرے سے نمٹنے کے بارے میں ملک بھر کی تمام بڑی سیاسی قوتیں منقسم نظر آتی ہیں اور انہوں نے (اپنے منشور) میں یہ کھل کر نہیں بتایا کہ وہ مستقبل میں کس طرح اس خطرے سے موثر طور پر نمٹیں گے۔
بجائے اس کے کہ تمام سیاسی جماعتیں ملکی استحکام اور جمہوریت کے مستقبل کی خاطر، اپنے منشور میں اس خطرے سے نمٹنے کا لائحہ عمل پیش کرتیں، انہوں نے خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی۔
دراڑیں واضح طور پر بڑھتی جارہی ہیں اور یہ پھیلتے پھیلتے سنگین صورت اختیار کررہی ہیں۔

تحریر:زاہد حسین
ترجمہ: مختار آزاد
بہ شکریہ ڈان اردو
 
Top