اسکین دستیاب بیگمات اودھ کے خطوط

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 106
پھر خوب سیلِ اشک آنکھوں سے جاری ہونے لگے۔ سرفراز پری سے مخاطب ہو کر کہا تجھ کو خدا کا واسطہ ہے مری تمام راحتیں و آرام ترے ہاتھ میں ہیں۔ میری ہمدردیاں اور نوازشات ترے ساتھ ہیں۔ ظالم اظلم تمہیں کب قید کیا۔ جس وقت جس بات کو تو نے چاہا اسی وقت سر انجام اور تری مرضی کا عہد کیا۔
جگرِ عاشق دل سوز جلاتے نہ چلو
شمع کو محفلِ عشرت میں رُلاتے نہ چلو
بے تامل میری اجازت سے ہر کام کر سکتی ہو۔ اور ہر آرزو پوری کرنے کو دل و جان سے موجود ہوں۔ جو خواہش ہو بیان کرو۔ سر آنکھوں سے بجا لانے کو بہر نوع ظیار اور موجود ہوں مگر للہ ایسی باتیں نہ کرو جس کا انجام نمکحرامی کی طرف منتقل ہو۔ اس نے اطمینانِ قلب کے ساتھ نہایت شدید و غلیظ قسمیں کھائیں کہ جانِعالم میری آنکھیں پھوٹیں اگر سوا تمہارے خوشی ہو۔ مجھ کو کوئی اور غرض کی۔ اس کے بعد حور پری اور دیگر بلکہ سب نے ہی زیادہ سے زیادہ قسمیں کھائیں۔ جانِعالم کی پیاری دل سے دلاری اس وقت کا کیا حال پوچھتی ہو۔ باتیں سنتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا۔ آخر میرے غم و رنج کی آگ کچھ خرد ہوئی لیکن تحقیق میں ضرور لگا رہا مگر وہ جب کبھی نظر پڑی دل بے قابو ہو گیا۔ ؎

صفحہ 107
جب کہ آنکھیں دو چار ہوتی ہیں
برچھیاں دل کے پار ہوتی ہیں
ایک دن تنہائی میں سرفراز پری سے جو باتیں ہوئیں اس نے مخبر کو پوچھا میں نے بسبب یکدلی بے تکلف ان صاحبوں کا نام بتا دیا۔ پھر تو آپس میں دشمنی کی بنا پڑ گئی۔ کٹی چھنی ہونے لگی۔ مرتے دم تک ان میں دشمنی نہ گئی۔ آخر موافق انکی عذر خواہی کے ان لوگوں کی تقصیر سے درگذرا۔ میرا سینہ سرفراز پری کے غم سے چونے کی بھٹی کے مانند ہو گیا تھا۔ ہر چند اس کی محبت روز بروز کم ہوتی جاتی تھی لیکن اس کے رشک کی آگ دن بدن بھڑکتی جاتی تھی۔ آخر ایک روز بہزار شکوہ شکایت اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا اے یار جانی اے معشوق لاثانی تو ہمیشہ مجھے مبتلائے آلام نہانی کرتی ہے۔ یہ کیا ضرور ہے کہ اپنے عشق میں میرا دل جلانا اور مجھ سے محبت نہ کرنا یہ تو کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ تیری ان باتوں سے مجھے سخت صدمہ ہے اس قدر بیوفائی کرنا چھوڑ دے اور اپنے کئے سے باز آ ۔
پھر عہی شمع ہو تم پھر وہی پروانے ہم
پھر پری ہو وہی تم پھر وہی دیوانے ہم
آخرش اس نے طریقہ بہتر اختیار کیا مگر دیگر پریاں نے اس کے عمل کو مکاری پر محمول رکھا۔ عزل حکومت کے بعد یہاں آ گیا۔ اس کی تحریر نے تمام شبہات

صفحہ 108
رفع کر دئیے۔لگائی بجھائی نے مجھے برسوں پریشانی میں ڈالے رکھا۔ دلآرام یہ کہانی سرفراز پری کی تھی جو تمہیں قلمبند کی۔ مرا اک شعر اس زمانے کا ہے
دارومدار ِ فنا میں خدا پر ہے
اختر بتوں کا عشق نہیں پائیدار کچھ
جانعالم اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
طوطی رنگین بیان ، بلبل ہزار داستان مرہم زخم درد و الم جانعالم ہمیشہ رہے محبت تمہاری ۔ مدت مدید اور عرصہ بعید ہوا کہ تحریر تمہاری نہیں آئی خبر خیریت کی نہیں پائی۔ ہم نے کئی خط تمکو بھجوائے۔ جواب ایک کا بھی نہیں ملا۔ غنچہء دل نسیمِ عشرت سے نہ کھلا۔ بیس روز گزرےکہ ایک خط منشی سرور کے ذریعہ ہم نے بھجوایا اس کا بھی جواب اب تک نہیں آیا۔
معلوم نہیں یہ کیا سبب ہے
تشویش زیادہ مجھ کو اب ہے
میرا تو غیر حال ہے تمکو تو کچھ نہیں خیال ہے۔ محبت میں تو یہ بات نہیں چاہئیے جہاں تک ہو سکے رسمِ الفت کو نبھائیے۔ میں یہ نہ جانتی تھی کہ

صفحہ 109
وہاں جا کے تم مجھ کو فراموش کر دو گے اور غمِ ہجرت سے بیہوش کرو گے۔ تم کو لازم ھا کہ ہر روز اشتیاق نامہ جات سے ہمارا دل شاد کرتے لیکن اب تو ہفتہ عشرہ میں بھی یاد نہیں کرتے۔
نہیں آتا ہے اب قرار مجھے
ترے خط کا ہے انتظار مجھے
حال اپنا میں کیا کروں اظہار
بس ترا دھیان مجھ کو ہے ہر بار
دن کو رہتا ہے اضطراب مجھے
شب کو آتا نہیں ہے خواب مجھے
ہر گھڑی حال غیر ہے جانی
خاتمہ اب بخیر ہے جانی
گر رہے گا یہی تمہارا رنگ
اور ہو جائے گا ہمارا رنگ
( حضور السلطان نواب) امراؤ محل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام حضرت سلطانعالم شاہِ اودھ
مسند آرائے محافل دلاء صدر نشیں مجلس صدق و صفا گوہر دریائے آشنائی اختر آسمان دلربائی سلیمان حشم و دیہم ادام اللہ شوکتہ
تھی آرزو نہ قدموں سے تا مرگ ہوں جدا
پر کیا کروں نصیب نے تجھ سے چھڑا دیا
(عالم)

صفحہ 110
مہر سپہر بےوفائی بہت ہو چکی کج ادائی
کیا جو قید سے تو نے مجھے رہا صیاد
بتا تو کونسی مجھ سے ہوئی خطا صیاد
(عالم)
غیروں کا کیا گلہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنا ہی طالع کجی پر آ رہا ہے۔ نہ کوئی مونس ہے نہ رفیق ہے نہ عزیز ہے۔ وطنِ غیر میں بھی وہی اگلی سی نفرت آپ کو دلپذیر ہے۔ کبھی تو قریب ہوتے ہوئے صورت دکھا دیا کرو۔ اب مفارقت شاق ہے۔ سرکارِ عالم آپ کو دیکھنے کا بڑا اشتیاق ہے۔
پھر شوق سے حضور سنا لیتے گالیاں
ثابت کیا تو ہوتا ہمارے قصور کو
(عالم)
مغلانی سے بار بار کہلایا مگر کوئی جواب نہ آیا۔
آنکھوں سے یمِ اشک سدا بہتے ہیں
کس سے کہیں دل پر الم جو سہتے ہیں
کرتے ہیں جلا جلا کے عاشق کو یہ خاک
ثابت کب قول پر حسین رہتے ہیں
یاد رخ گیسو میں سدا ہم نے بسر کی
رو رو کے کبھی شام کی اور گاہ سحر کی
(عالم)
جواب کی طالب بادشاہ محل متخلص بہ عالم
نواب بادشاہ محل عالم بنت نواب علی تقی خان بہادر
ابن شرف الدولہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 111
بنام حضرت جانِعالم سلطانِعالم بہادر
شاہِ مملکت خوبی پشت و پناہِ ولایت مجنوں انیس و ہمدم سلطانِ عالم ابقاء کم اللہ تعالیٰ
تارے گن گن کے سحر ہو گئی ہم کو عالم
سرِ افلاک نظر آیا جو اختر میرا
امراؤ خانم مغلانی کے ہمراہ قلماقنیوں کے سر پر خوانِ طعام ؎1 ارسال پیشِ حضور کیا تھا۔ اغلب ہے کہ شاہِ عالم ، سرتاج عالم نے اس کو مرغوب طریقے سے بھی پسندِ خاطر کیا ہو۔ برسہا برس ہو گئے چشمِ الطاف اس طرف نہ ہوئی۔ شیفتہ و خستہ زندہ درگور ہوئی۔
نہ ہونا حکم سے باہر کبھی تا زیست اختر کے
ہمیشہ جادہ ء طاعت پہ عالم اپنا سر رکھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎1 ملکہ مخدرہ ء عظمےٰ نواب بادشاہ محل کے یہاں سے خوان طعام واجد علی شاہ کے لئے آتا۔ اس کا ذکر خود بھی اپنی مثنوی "حُزن اختر" میں کیا ہے
محل خاص ہے جو مرا نیک نام
وہاں سے بھی آتا ہے خوانِ طعام

صفحہ 112
اکثر انیسوں نے مجھ سے کہا اپنی مہ رخوں اور گلعذاروں کے دریان میرا ذکر کبھی آیا گیا ہے۔ بادلِ نخواستہ اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔
خود ہوئے رسوا مجھے رسوا کیا
جس جگہ بیٹھے مرا چرچا کیا
سینہ داغِ الم سے تختہ ء گلزار ہے۔لب پر نالے ہیں جوشِ جنوں کی بہار ہے
پیک اجل نے دلِ مجروح پر اور نمک مہجوری کا لگا دیا۔ حضرت کی چاہت نے دونوں جہاں سے مجھ کو تو برباد کیا۔
حاصل نہیں کچھ اور سوا ایذا کے
پچھتائے گا دیکھنا جو شیدا ہو گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گر مہر تری او بت پُر فن ہو جائے
موقوف ابھی فغان و شیون ہو جائے
عالم کو غرض نہیں ہے کچھ عالم سے
تو دوست رہے زمانہ دشمن ہو جائے
سلطانِ عالم پر فدا عالم

صفحہ 113
بنام جانِعالم
سر آمد خسروانِ زمن ، شیریں سخن، عنقائے اوج رعنائی ہمایوں طاؤس چمن زیبائی دافع حزن دلِ رنجور سراپا ابتہاج و سرور حضرت جانعالم نور اللہ وجہہ
تقصیر نہ خوباں کی نہ جلاد کا کچھ جرم
تھا دشمن جانی میرا اقرارِ محبت
پیا جانِعالم لکھنو سے جب سدھارے صاحبانِ محلات کے پاس پے بہ پے محبت نامے آئے۔ مگر ہمارے لئے ایک بھی پرزہ آپکی سرکار میں نہ تھا۔ جھونٹوں بھی ہمیں پوچھا جاتا۔ یہاں اگلی باتیں یاد آ آ کے ستاتی ہیں۔ پھلی عشرت کی راتیں مجھے ساعتوں رلاتی ہیں۔ حضور حضرت باغ کبھی جانا ہوتا ہے اگلا سماں آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ پیا جانعالم اپنے پاس ہی بلا لو اور گلے سے لگا لو۔یہاں فرقت میں جان جاتی ہے۔ شبِ ہجر میں کاہے کو نیند آتی ہے۔
مت پوچھ کس طرح سے کٹی رات ہجر کی
ہر نالہ مری جان کو تیغ کشیدہ تھا
جب تصویر خیالی سامنے آتی ہے دم الٹ جاتا ہے۔ پہروں میرے سینہ ء

صفحہ 114
بے کینہ میں سانس نہیں سماتی ہے۔
راہِ دردِ عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئیے ہوتا ہے کیا
مہجور و مخموم زہرہ بیگم المخاطب انجمن السلطان
ذی الحجہ 1271ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔
شمع بزم خوبی مہر تمثال محبوبی۔ خورشیدِ طلعت ۔ گل بوستان شجاعت مسند آرائے محافل ولادام اللہ شوکتہ
لبریز شکوہ تھے ہم لیکن حضور ترے
کارِ شکایت اپنا گفتار تک نہ پہونچا
امتیاز بیگم کی زبانی کچھ حالات پریشانی گوش زد ہو کر بہت ملال ہوا۔ مرا بڑا برا حال ہوا۔ واقعات سے مطلع کرا صدقہ جاؤں کبھی تو یاد کرو۔ آپ کی بدولت بہت آرام سے ہوں۔ پر آپ کے خیال سے تکدر اور مبتلائے آلام ہوں۔ نہیں شکوہ مجھے کچھ بیوفائی کا تری ہر گز۔۔۔ گلہ تب ہو اگر تو نے کسی سے بھی نبھائی ہو
کنیز سردار پری

صفحہ 115
بنام جانعالم
اچھے مرے پیارے جانعالم
قربان تمہارے جانعالم
گل گلزار خوش بیانی ۔ سرو جائبار سحر بیانی خوشنوائے چمنستان ۔ زمزمہ سرائے گلستان گل مراد شگفتہ باد
گرفتار زندان فرقت و الم و یاس مبتلائے رنج و غم حراس
اس کے وصالِ ہجر میں یونہی گزر گئی
دیکھا تو ہنس دیا جو نہ دیکھا تو رو دیا
اب رنج و محن کا وفور ہے۔ کلیجہ میں ناسور ہے۔ آبلہ ء دل پک رہا ہے۔ زخمِ جگر لپک رہا ہے۔
کای صورتیں بگڑی ہیں مشتاقوں کی ہجراں میں
اس چہرہ کو اے خالق ایسا نہ بنانا تھا
اگر جلد بلاؤ گے تو جان بچ جائے گی ورنہ فریاد و فغاں سے اک قیامت مچ جائے گی۔
عاشقی جی ہی لے گئی آخر
یہ بلا کوئی ناگہانی تھی
رقیمہ نشاط محل ننھی بیگم
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 116
بنام جانعالم
سرتاج خوبرویاں ، خورشید ماہرویاں، فروغ بدر منیر مرے اختر بے نظیر چہرہ ئ الفت باآب و تاب باد
ہشیار کہ ہے راہ محبت کی خطرناک
مارے گئے ہیں لوگ بہت بیخبری سے
لکھنو پر خدائی قہر نمودار ہوا۔ ہم سب کا عجیب حال ہوا۔ آتشِ باری نے کی خانہ عیرانی۔ ہر کس تھا مبتلائے حیرانی۔ غیر جگہ کا رُخ کر کے وطن چھوڑا، با جبر و اکار گھر سے منہ موڑا۔ بحال تباہ خستہ و خراب کانپور پہونچے با دلِ مضطر و بیتاب، ناعواقفوں نے از راہِ کرم بیٹھنے کو جگہ دی۔ میں نے اپنا قصہ ء کلفت سنایا۔ ہر ایک کا جی بھر بھر آیا۔ جبکہ انھیں یہ معلوم ہوا کہ بادشاہ اودھ کی دیگر کنیزوں میں سے ایک کنیز ہونے کا شرف رکھتی ہوں سب نے آنکھوں پر بٹھایا۔ گو آرام سے مقیم ہوں پر یاد آٹھوں پہر ستاتی ہے۔ آہِ سرد کھینچ کر طبیعت رہ جاتی ہے۔ بحال رنج و الم ہوں مبتلائے غم ہوں۔ حضرت سرور نے کیا خوب مرے حسبِ حال کہا ہے
عشرت کدے جہاں مکیں سینکڑوں ولے
اک دل ہمارا تھا کہ وہ ماتم سرا رہا

صفحہ 117
تاثیر آہ دیکھی نہ گریے میں کچھ اثر
ناحق میں اس امید پر کرتا بُکا رہا
کیا دیکھتا ہے سینہ کو مرے تو اے سرور
جز یادمار اس میں نہیں دوسرا رہا
حالات و واقعات سے آگاہی بخشئیے اور اپنی رنج و مخموم پر نظرِ الطاف کیجئیے۔
بہر النسا خانم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام نواب بدرِعالم صاحبہ
گلغدار خوبی سرتاج محبوبی شیریں گفتار حجۃ اطوار نیک کردار نواب بدر عالم صاحبہ زید اللہ حسنہا و جمالہا
تم بلبل گلشن سخن ہو
معنی کے چمن میہں نغمہ زن ہو
پیشہ نہیں مرا شاعری کچھ
خط میں نہیں اس کا بیان اجی کچھ
کچھ شعر و سخن کا مشغلہ تھا
دل میں بھی عجیب ولولہ تھا
تھا نشہ بادہ ء جوانی
حاصل تھا سرور زندگانی
میں گوہرِ بحرِ شاعری ہوں
میں فخرِ حکیم و انوری ہوں

صفحہ 118
اعجاز رقم ہے میرا خامہ
ہر نظم ہے ایک کارنامہ
سر مست مئے سخن سے ہیں ہم
جامی کیا ہو گا ہم سے ہم جم
بے مثل ہیں آج ہم سخن ور
گر چاہیں تو صورت سمندر
بحرِ مضمون بہائیں پل میں
ملک سخن اپنے ہی عمل میں
پیرو اپنے ہیں سب سخنور
کرتے ہیں بہت ادب سخن ور
شاگرد کسی کا میں نہیں ہوں
ہے میری ازل سے طبع موزوں
ایک طبع کا یہ ہی مشغلہ ہے
الفت کا جو دل میں ولولہ ہے
تفریح کے واسطے کبھی کچھ
موزوں کر لیتے ہیں اجی کچھ
کیا یہاں ہی دماغ آض کل ہے
معشوق مزاج ہوں ازل سے
کیا کیا کیجئیے فلک کا شکوہ کچھ
دردِ جگر بھی سنئیے میرا
دنیا کا یہی ہے کارخانہ
دکھلاتا ہے گردشیں زمانہ
اختر اب اٹھاؤ کلکِ فطرت
دکھلاؤ روانیء طبیعت
حیران ہوں یار تو کدھر ہےکچھ تری نہیں مجھے خبر ہے
پھرتا ہوں میں جس کی جستجو میں
وہ حال سے میرے بیخبر ہے
کس طرح سے ملے وہ سیمبر آہ
نہ زور ہے کچھ نہ پاس زر ہے
مجھ تک اسے کھینچ لا تو اے دل
کچھ بھی تجھ میں کشش اگر ہے

صفحہ 119
نالہ بھی کئے نہ دل پسیجا
پتھر سے بھی بہت وہ سخت تر ہے
کس طرح کٹے گی ہجر کی رات
اے جان میرا ہی یہ جگر ہے
اختر کی خبر وہ لیوے گا کیا
جس کو نہیں اپنی خود خبر ہے
جانِعالم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام نگار محل صاحبہ
گلغدار نگینہء یگانگی عندلیب خوشنو ا چمنستان والا لعاب دہن آبِ حیات باد
نواب نگار محل تو نے پھر ستا رکھا ہے اور دل کو بہت کچھ جلا رکھا ہے، آنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ مہ لقا دردِ فرقت بُری بیماری ہے کسی طرح شفا نہیں ملتی جان عاری ہے۔
جی سیرِ چمن سے پھر گیا ہے
اب یار میں دل لگا ہے
یا رب مجھے یار سے ملا دے
مُکھڑا وہ چاند سا دکھا دے
جبتک کہ نہ یار ہم بغل ہو
ہر گز نہ دلِ زار کو کل ہو

صفحہ 120
شائق نہیں میں کسی حسین کا
مشتاق ہوں اپنی نازنین کا
اس اشتیاق نامہ کے دیکھتے ہی چلی آؤ ۔۔۔ تپِ ہجر کے بیمار کو شفا دے جاؤ ۔میرا معالجہ اب صرف شربتِ دیدار ہے اور کوئی تدبیر سراسر بیکار ہے۔
بیتاب جی کو دیکھا دل کو کباب دیکھا
جیتے رہے تھے کیوں ہم جو یہ عذاب دیکھا
اب صرف تجھ سے ملنے کی آرزو ہے۔ ہر لحظہ لو لگی تری شمع رو ہے۔
اختر یہ مری ہمدم میں غمگسار اُس کا
اُلفت نثار مجھ پر اور میں نثارِ الفت
اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
گلچیں دوحہ ء تحریر و تقریر ہمصفیر گلشن نظیر دلپذیر مہر گلزار رعنائی زید اللہ حسنہ و جمالہ
گہہ شربت وصلت بہ لب تشنہ نداوند
بیمارِ غمِ عشق چشم تری ہست
جانِعالم یہ گرفتارِ رنج و الم سوزِ فرقت سے دل تنگ۔ ورنہ ہر ایک
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 121
صاحبات محل خوش و خرم مست و ملنگ اپنا نہ کوئی ہمدرد و دمساز ہے نہ کوئی ہمراز ہے۔ اپنے پیا کی بدولت کنبہ چھوڑا پھر تو اب سب نے ہیہ منہ موڑا بلکہ نام دھرتے ہیں۔ ؎
کوئی کہتا ہے وحشی اور کوئی کہتا ہے دیوانہ
تیری الفت میں مجھ کو لوگ کیا کیا نام دھرتے ہیں
کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ بیمار پڑی طبیب سے کہنے والا حال نہیں۔ مشکل کشا نے مشکل کشائی کی افاقہ ہوا پر ماہانہ موصول نہ ہونے پر فاقہ پر فاقہ ہوا۔ قرض پر گزر اوقات۔ کیا کہوں نا گفتہ واقعات اب تو جلد خبر لیجئیے جس طرح ہو مدد کیجئیے۔ ہجر و فراق کی کیفیت اس شعر میں ہے ظاہر
دل کو تو ہر طرح سے دلاسہ دیا کروں
آنکھیں جو مانتی نہیں میں اسکو کیا کروں
خسرو محل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانِعالم کی عشقیہ غزل
عاشق کو نہ اسقدر ستاؤ
پچھتاؤ گے اب بھی باز آؤ
وہ غمزہء و ناز کے گئے دن
بس باتیں بہت تم نہ بناؤ

صفحہ 122
ہم جانتے ہیں کہ بے وفا ہو
اتنی الفت نہ تم جتاؤ
بے وصل جئیے مریضِ الفت
کچھ ایسا علاج تم بتاؤ
بے رحم ہو خود غرض ہو صاحب
بس دیکھ لیا تمھیں بھی جاؤ
مشتاق فقط ہیں دید رُخ کے
للہ نہ ہم سے منہ چھپاؤ
الفت سے کہا کبھی نہ اتنا
مر جاؤ گے غم بہت نہ کھاؤ
عاشق نہ ملے گا ہم سا دیکھو
جو کہتے ہیں اب بھی مان جاؤ
ناقد ہیں خود غرض ہیں معشوق
اختر ان سے نہ دل لگاؤ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
قدردان اہل فضل و ہنر سخن فہم والا گہر دُرِ بے بہائے بحرِ زخار ریاست ، سرو خراماں امارت۔ نیر اعظم برج سپہر جاہ و جلال ۔ بدر درخشاں آسمان دولت و اقبال ، مسند نشین بزم خلق و مروت و زینت افزائے آریکہ شوکت، جوہر شناس ملک اساس، والا مرتبت اعلیٰ ہمت مشہور ادیب صاحب تہذیب۔ نافع الخلق جامع الحلق سرتاج خوبرویان انیس مہرو یان جان عالم سلطان عالم ادام اللہ شوکتہ۔

صفحہ 123
سرفراز نامہ فیض شمامہ شعر حالات و عیش و عشرت کے واقعات باعث رفع تکدر و ملال ہوا۔ دل کو شعر گوئی میں لگا لیا ہے۔ اپنے کو مجنوں صفت بنا لیا ہے۔ بحمد اللہ اشتیاق نامہ کلفت کے دفیعہ کے سبب بنے مگر یہاں حال فی الحقیقت دگرگوں ہے۔
اچھا نہیں ہے میر کا احوال آجکل
غالب کہ ہو چکے گا یہ بیمار آجکل
نواب نشاط محل صاحبہ کا بھی اس طرف دورا ہوا تھا۔ ساعتوں پچھلے ذکر و اذکار ہے۔ آپ کی عاشقانہ داستانوں پر بہت گفتار ہے۔
پاسِ ناموسِ عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
ہمیں ایک جانِعالم کے متوالے ہیں؎
ہم ہوتے تن ہوتے کہ میر ہوتے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوتے
غرضکہ جو ہے اپنا عشق جتاتا ہے اور فرقت کے احوال سناتا ہے۔
کوئی تور لزلہ کرے میرا سا د ل خراش
یوں تو قفس میں اور گرفتار بہت ہیں
بدر عالم

صفحہ 124
بنام حضرت جانِعالم
سرو گلزار رعنائی ۔ شمشاد گلستان زیبائی، گل اقبال گلشن شاہی زیر حکم ہو مہ سے تا ماہی زید اللہ جمالہ
دوری میں کروں نالہ و فریاد کہاں تک
یکبار تو اس شوخ سے یارب ہو ملاقات
محبت نامہ مہر شمامہ جلواہ گر ہوا۔ دل رنجیدہ خور سند ہوا۔ کبھی آپ کے معشوق تھے اب عاشقوں میں نام ہے۔ ہجوم نالہ و آہ ہے فراق میں بند کلام ہے ۔ راحت کسی پہلو نصیب نہیں، وہ کون سا وقت ہے جو دو چار بلائیں ہم سے قریب نہیں۔ بہر حال اے جانی تمہارے شکر گزار ہیں۔ اپنے دل کی طرح بے اختیار ہیں۔ خدا جلدی اس حجاب ظاہری کو درمیان سے ہٹائے تمہارا جمال رشک آفتاب ہمکو دکھائے۔ وہ محیط نظر جو دلِ مشتاق سے بھی زیادہ تنگ ہے۔ مانند سخن دراز ہو کر تم کو آزاد کرے فیض قدر گلرنگ سے تمہارے اس باغ ویراں کو خدا آباد کرے۔ ہم بھی رنجِ فرقت سے فرصت پائیں۔ خوشیاں منائیں۔ اب جی ہمارا نہایت تنگ ہے۔ طبیعت کا یہ رنگ ہے کہ بات کرنی مشکل ہے آرزوؤں کی سونی محفل ہے۔ جان عالم کے تصور میں آشفتہ سری ہے کیا کہیں کہ کیا بے خبری ہے۔

صفحہ 125
راحت ہمیں نصیب کہاں ہجر یار سے
آہیں نکل رہی ہیں دل بیقرار سے
پھر محبت نامہ سے کبھی شاد کرو اپنی محفل مین گاہے ہمیں بھی یاد کرو۔
ہم تو ناکام لہین جہاں میں رہے
ہاں کبھو اپنا مدعا نہ ہوا
ستم رسیدہ عمدہ محل
1273ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
سودائے محبت کے خریدار عشق کے طلبگار، تیغ نگاہ کے گھائل ، ترچھی نظر پر مائل، خوبروؤں کے فدائی آشنائے کوچہ دلربائی ، محبت تابانی باد۔
فلک نے کھانے کو اتنا تو غم دیا ہوتا
کہ چار روز مری زندگی کے چل جاتے
آپ کے جاتے ہی اسیرِ کنج تنہائی موجب بربادی و تباہی خونِ دل پیتی ہوں لختِ جگر کھاتی ہوں بیکسی کو مخاطب کر کے یہ شعر سناتی ہوں
تو ہی دم ساز ہے پسِ مردن
بیکسی صدقہ اس رفاقت کا
کپڑے جان جی کے جنجال ہو گئے بال سر پر وبال ہو گئے۔ کبھی یہ عشرت محل تھا اب سودائیوں کا جیلخانہ ہے خدنگ ظلم کا نشانہ ہے، ہر روز سرِ شام فراق میں مبتلائے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 126
آلام سودا اٹھتا ہے گلا گھٹتا ہے کیا کہیں جو ہمارا رنگ ڈھنگ ہے نہ کوئی ہمدرد پاس ہے نہ کوئی رفیق سنگ ہے تقدیر سے جنگ ہپے۔
شکل امید تو کب ہم کو نظر آتی ہے
صورتِ یاس بھی بن بن کے بگڑ جاتی ہے
گوہر طرح عاقل و فرزانہ ہوں ،جب دل بس میں نہیں آپ ہی دیوانہ ہوں
فریبِ عشق ثابت ہے مجھے بھی
مگر دل پر میرا قابو نہیں ہے
یاس و الم سے کثرتِ غم سے طبیعت بگڑتی ہے، ہنسنے سے زخم جگر پھٹ پھٹ جاتے ہیں۔ کلیجہ کے ٹکڑے منہ کو آتے ہیں۔ چپ رہنے سے جنون کا جن سر چڑھتا ہے سودا بڑھتا ہے۔ کمبخت محبت برا آزار ہے۔ سیر گلزار بھی بغیر دلدار کے خار ہے۔ یہاں تو گریہ و زاری ہے اور ہمارا رونا ابرِ بہاری ہے۔ عاشقوں کے دل سے پوچھئیے کیا کیا اس رونے میں مزا ملتا ہے۔
نہ جاگنے میں ہے لذت نہ سب کو سونے میں
مزا جو پایا تو پچھلے پہر کے رونے میں
جواب کی طالب
نو روزی بیگم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
گل باغ نوجوانی اپنے حسن میں لاثانی۔ گوہر محیط گلغدار محبوبی زاد حسنہ و جمالہ

صفحہ 127
چشمِ دریا بار سے اب خون دل آنے لگا
دستِ وحشت سوئے داماں آپ سے جانے لگا
صدمہ ء فراق میں کلپ رہی ہوں۔ مرغِ بسمل کی طرح تڑپ رہی ہوں۔ کھانا پینا حرام ہےگریہ و زاری سے رات دن کام ہے۔ بال الجھ الجھ کر جی کے وبال ہو گئے کپڑے تار تار ہو کر جنجال ہو گئے۔ اچھا جوگی بروگی نے اپنے روپ پر رجھا ہمیں بھی جوگن بنایا ، اس مکھتی میں باسا ہوا جینے کا سانسا ہوا تار گریبان زنار ہوئے قشقہ کی جگہ داغ حرماں نمودار ہوئے اشک خونی گلے کا ہار ہوئے۔ مرگ چھالا ہے نالہ سے نقوس کا کام نکالا ہے ۔ بھبوتی خاک دھول ہے کہنی بیراگن پنجہ ترسول ہے۔ گیسوئے مشک بار الجھ الجھ کر جٹا بن گئے۔ کسی سبزہء رخسار کے ہجر میں دل و جگر پانی کی طرح چھن گئے۔ شراب الست کے مست ہیں۔ بے شراب مخمور ہیں۔ پربھو کی دیا سے جوگ روگ میں بھرپور ہیں۔ اپنے کنور کنھیا کی پوجاری ہیں۔ جگت دھرم لٹا دھاری ہیں۔ یعنی حضرت عشق کی تقلید ہے۔ کفر و اسلام سے غرض نہیں محبت کے سوا کوئی مرض نہیں۔
نو گرفتار ہوں کچھ رسم مجھے یاد نہیں
اس لئے لب پہ مرے نالہ و فریاد نہیں
لیٹتی ہوں تو سینہ میں سانس گھٹتی ہے بیٹھتی ہوں تو کلیجہ سے ہوک اٹھتی ہے یہ ایک میں ہی سخت جان ہوں ورنہ اب تک اور کسی کا کام تمام ہو جاتا۔

صفحہ 128
بیمار ہوئے دل کو آرام ہو جاتا۔ ملک الموت کی یاوری ہے، زندگی سے شرمساری ہے۔ لختِ جگر آنکھوں سے جاری ہے۔ دم بھر گذارنا فرقت میں دشوار ہے۔ یا الہٰی کوئی گھڑی ارمان بھری نیند آ جائے تا کہ جانعالم تمہارا مکھڑا خھواب میں ہی نظر آ جائے۔
رشک ہے حال زلیخا پہ کہ ہم سے کم بخت
خواب میں بھی نہ کبھی وصل سے مسرور ہوئے
نامہ ء الفت کی منتظر نگار محل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
جانعالم سراپا ناز عربدہ ساز۔ زینت فرمائے انجمن ۔رونق کاشانہ ء جان و تن۔دلدار دلبر گلفام سیمبر زید اللہ حسنہ
عزیزان غم میں اپنے یوسف گم گشتہ کی ہر دم
چلے جاتے ہین آنسو کارواں در کاروان مرے
پیا تمہارا یہاں سے سدھارنا مرے لئے باعثِ صد رنج و تکدر ہے۔ لب خشک ہیں ہر وقت چشم تر ہے۔ بالکل بھوک پیاس مر گئی ہے۔ خواب و خور مجھ پر حرام ہو گئی ہے۔خونِ دل پیتی ہوں مر مر کے جیتی ہوں
اپنوں کے طعنوں سے

صفحہ 129
اور سینہ فگار ہے۔ جینے سے اب تو دل بےزار ہے۔ سلطان عالم چھوڑ گئے کچھ نہ سمجھا کیسا منہ موڑ گئے۔ دن ہجر کی بیقراری میں گزرتا ہے۔ شب اختر شماری میں کٹتی ہے۔
بے طاقتی میں شب کی پوچھو نہ ضبط میرا
ہاتھوں میں دل کو رکھا دانتوں تلے جگر کو
خیر و عافیت سے شاد کام کیجئیے اپنی مہجور غمزدہ کی جلد خبر لیجئیے۔
آنکھ پڑتی تھی تمہاری منہ پہ جب تب تھ چین نہ تھا
کیا کیا تم نے کہ مجھ بیتاب سے پردہ کیا
بست و سوم شہر رجب 1272 ھ
حضرت بیگم
معشوقہ سلطانعالم نواب حضرت بیگم (مخاطب مطلوب السلطان)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانعالم
شناور بحرِ محبت۔ غواص چشمہء الفت۔ غریق محیط الم۔ گرفتار لطمہ ء غم ۔ دُرِ شہوار، غمگسار، خسرو زمان، سلطانِ دوران زید اللہ محبتہ
منشی عبدالقادر وثیقہ کیا لایا سکونِ قلب کے لئے جواہر کا خریطہ

صفحہ 130
لایا۔ سخت پریشانی تھی۔ پیسہ پیسہ کے لئے دیوانی تھی۔ بدولت غدر سب برباد ہوا حتٰی کہ گھر بھی خیرباد ہوا۔ گو کچھ ایک طرف سے سکون ملا ہے پر دوسری طرف سے دل غم و رنج میں مبتلا ہے۔ کوئی اپنا غمگسار نہین اعزا کو مجھ سے اب پیار نہیں۔ دن رات جانِ عالم کی یاد ہے پہر ہونے وصال کی مولا سے فریاد ہے۔
تصویرِ مرقع ہوں سکتے کا سا عالم ہے
جنبش ہی نہیں نقشِ دیوار اسے کہتے ہیں
ماہ ربیع الثانی 1274 ھ
گلزار بیگم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بنام جانِ عالم
صاحبِ کرم خجستہ شیم۔ فروغ بزمِ دولت۔ دانشمند فراخ ہمت خلق خوش لقا، صاحبِ ولا زید اللہ لطفہ
الفت نامہ نظر سے نہیں گزرتا ہے۔ دل بے چین رہتا ہے۔ دو پہر آنکھیں لگی رہتی ہیں۔ غم کھاتی ہوں نیت نہیں بھرتی کیا غم ہے مزے کا کہ طبیعت نہیں بھرتی۔سینہ کہاں جی سینے میں بیقرار پہلو میں ہر چیز مثلِ خار
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ131
ہر دم آہ سرد
دل پُر درد سے بلند چشمہ ء چشم جاری فریاد و زاری دو چند، جگر میں سوز ِ فراق نہاں دود پنہاں عیاں
کسی کی شب وصل سوتے کٹے ہے
کسی کی شبِ ہجر روتے کٹی ہے
ہماری یہ شب کیسی شب ہے الٰہی
نہ سوتے کٹے ہے نہ روتے کٹے ہے
تن من پُھنک رہا ہے کلیجہ کباب ہو رہا ہے۔
بسوزِ شمع رویاں اسطرح کا سینہ ء سوزاں
کہ رفتہ رفتہ آخرجلوہ ء سرو چراغاں ہوں میں
(نواب) قیصر بیگم
مخاطب عاشقِ السلطان ممتاز بیگم
یکم رجب المرجب 1274 ھ
۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
گل گلدستہ حدیقہ شجاعت و نونہال گلشن جلالت شاہباز روح ہمت و صولت اے شہر یار والا تبار جانِعالم سلطانعالم یار وفادار

صفحہ 132
صادق الاقرار سلامت باد
شرح اشتیاق داستان فراق قصہ طول و طویل ہے۔ زندگی کا بکھیڑا قلیل ہے۔ اگر ہماری زیست منظور ہے اپنے پاس جلد بلاؤ صورت اپنی دکھاؤ۔ نہیں تو تاسف کرو گے پچھتاؤ گے۔ تم نے اگر بلانے میں دیر ککی تو ہم نے صدمہ ئ ہجر سے تڑپ کر جان دی۔
جبر یہ ہے کہ تری خاطر دل
روز بے اختیار رہتا ہے
کوئی دم کو دم سینے میں مہمان ہے نام کو جسم میں جان ہے۔
مفت یوں ہاتھ سے نہ کھو ہمکو
کہیں پیدا بھی ہوتے ہیں ہم سے
فلک نے ہماری دو روزہ صحبت کا رشک کھایا بے تفرقہ پردازی ظالم کو چین نہ آیا۔ ہم کہیں ہیں تم ہو کہیں۔ روز شب رنج جدائی سے جان کھوتی ہوں۔
روتے پھرتے ہیں ساری رات
اب یہی روز گار ہے اپنا
اتنا کبھی کاہے کو کسی دن ہنسے تھے جیسا اب بلک بلک کر فرقت کی راتوں میں روتے ہیں۔
بیتابی ء دل کسے سنائیں
یہ دیدہ ء تر کسے سنائیں

صفحہ 133
تمہاری اگلی باتیں ہر دم بر زبان ہیں۔ بے تصور باتیں کئے چین نصیب کہاں ہیں؎
یہ جانتے تو نہ باتوں کی تجھ سے خو کرتے
ترے خیال سے پہروں ہی گفتگو کرتے
ہر پہر گجر سے فزوں شور و فغاں ہے۔ چشم ہر اختر معائنہ حال زار سے بخیریت وا ہے۔ چراغ گرداں مری گردش دیکھ کر چکر کر رہا ہے
دکھ اب فراق کا ہم سے سہا نہیں جاتا
پھر اس پر ظلم یہ ہے کچھ کہا نہیں جاتا
آپ ہم کو بلائیں گے رنجِ فرقت کے ذکر مفصل سنائیں گے۔
ستم اٹھانے کی طاقت نہیں ہے اب ہم کو
جو دل میں اوے تو ٹک میر پر رحم کرے
اور جو فلک کو ہی منظور ہے تو انسان مجبور ہے اس حسرت کو بھی درگور لے جائیں گے۔
جیتا ہی نہین ہو جسےآزارِ محبت
مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمارِ محبت
بخدا نماز پنجگانہ میں یہ دعا ہے جامع المتفرقین سے یہی التجا ہے کہ تم سے جلد ملاقات ہو جائے۔ جان زار دل بیقرار کو چین ائے۔

صفحہ 134
اضافہ غم کا لب تک آتا ہے مدتوں میں
سو جائیو نہ پیارے اس داستان تلک تو
زیادہ ملاقات کا اشتیاق ہے۔ اشتیاق اور جدائی کا صدمہ جانکاہ سخت شاق ہے۔ اب تو وصلِ محبوب کا دل مشتاق ہے۔
ٹک میر جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسہ ہے چراغِ سحری کا
انجمن السلطان زہرہ بیگم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانعالم
گوہر گرانمایہ ء خوبی ، گل گلشن محبوبی۔رہرو راہِ دوستی، و ولا جرس کاروانِ صدق و صفا ، بہار ِ گلشن وصل، زمانہ ء حسن کی فصل، خوبی میں خوبی ء تقدیر ، چین کی صورت، راحت کی تصویر۔ جان عالم خدا سلامت رکھے۔ کیا پوچھو ہو ہمارا کیا حال ہے۔ یہاں چشم اپنی نمناک ہے دل وحشت منزل صد چاک ہے۔جامہ ء ہستی اندامِ شوق پر تنگ جینے سے ہم کو ننگ جگر پھوڑے کی طرح پکتا ہے قلب مثلِ ماہی بے آب تڑپتا ہے۔ زبان ناطقہ لال ہے تمہیں کیا بتائیں کہ کیا حال ہے۔

صفحہ 135
وہ بدخو اور مری داستان عشق طولانی
عبارت مختصر قاصد بھی گھبرا جائے ہے مجھ سے
مختصر عرضِ حال کرتی ہوں شب و روز جدائی میں ٹھنڈی آہیں بھرتی ہوں۔
عزلت نشین ہوئے جب دل داغ ہو گیا تب
یعنی کہ عاشقی میں ہم گھر جلا کے بیٹھے
خجستہ صورت دیکھنے کی تمنا ہے۔ آخری مری یہی التجا ہے۔
یک نظر دیکھنے کی حسرت میں
آنکھیں نو پانی ہو گئیں پیارے
شکستہ دل
امیر محل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
حدیقہ مندان گلشن معانی و گل چشان بہارستان نکتہ دانی جرس کاروانِ صدق و صفا رہرو راہِ دوستی و لا زید اللہ لطفہ
جدائی میں بھوک پیاس گئی، کھانے کو ہمیں اپنا دل افگر، اور پینے کو اپنا ہی خونِ جگر۔ اب تو تمہارا دیدار مدِ نظر۔ کب تک دیکھیں پھری رہے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 136
ہم سے نظر۔
وصل دلبر نہ ٹک ہوا قسمت
مر چلے ہجر میں رہے با قسمت
شیخ علی حسین بیٹھے بٹھائے مجھ کو جونعالم تمہاری چاہت کا اچھا روگ لگا گئے۔
مبارک ہو تمہیں میر ہو عشق کرنا
بہت ہم تو پچھتائے دل کو لگا کر
آفت زدہ
محبوبہ فیروزہ دلدار پری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانعالم
غالب کہ یہ دل خستہ شبِ ہجر میں مر جائے
یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گذر جائے

صفحہ 137
حدیقہ بندان گلشن معانی۔ غواص بحر چمن سخندانی، غیرت دہ گلشن حُسن معشوقاں، حسن خزاں بخش گلزار جناں انار اللہ برہانہ۔
نامہ ء محبت موصول ہوا۔ دل بے حد مسرور ہوا۔ اب یہاں امن و امان ہے۔ ہر ایکی خوش خرم شادمان ہے۔ سب کی کلفتیں ختم ہوئیں۔ مگر یہاں تو وہی اشتیاقِ ملاقات ہے۔ اس طرح یہ فغاں کش ہمسر عنادل مصروف شیون۔ دودوآہ بھی یاد گلغدار میں گلشن سینہ داغدار۔ شام ہوتے ہی بہار آتشِ لالہ و گل نے اور بھی آگ لگائی جانِ مضطر فراقِ یار میں لب پہ آئی۔
گو طاقت و آرام و خور و خواب گئے
بارے یہ غنیمت ہے جیتا تو رہا ہوں
حضور پری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
گوہر کراں مایہ ء خوبی، گلشن محبوبی۔ خورشید تاج بخش شہان، رہینِ آباد تا قیام زمان، زینت بزمِ موافقت، رونق صدر مونست دام مجدکم۔
اس کے گئے پہ دل کی خرابی کا نہ پوچھئیے
جیسے کسی کا کوئی نگر ہو لُٹا ہوا

صفحہ 138
جانعالم پچھلی باتیں یاد آتی ہیں گھنٹوں رلاتی ہیں۔ برسات کا کیا موسم آتا ہے دل بے چین ہو جاتا ہے۔ مجھ پہ غم کا عالم چھا جاتا ہے۔ عیش باغ کا جلسہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ دل پاش پاش ہو جاتا ہے۔ مینہ برسا، پانی جا بہ جا بہہ گیا۔ گلی کوچہ صاف رہ گیا۔ ساون بھادوں میں زرد و زی پاپوش پہن کر پھرے کیچڑ کا نام کیا ہے مٹی بھی نہ بھرے۔
فصلِ بہار کی صفت پروردگار کی قدرت باغ میں آنے کا ہر ایک شائق تماشہ دیکھنے کے لائق۔خواجوں کا جمگھٹا رنگا رنگ کی پوشاک۔ آپس کی تاک جھانک۔ باغ کا تختہ لالہ و نافرمان جن پر مٹنے والوں کی جان قربان۔ صاحبانِ محلات کی سُبک روی۔ خرامِ ناز ہر قدم پر کبک دری ، چال بھول کر جبینِ نیاز رگڑتی شاخِ سرو ان کے روبرو نہ اکڑتی۔ جانعالم تمہاری جانب سے آم کے درختوں میں جھولا پڑتا۔ جھولنے والیوں پر آپ کا دل ٹپکا پڑتا۔ ہر ایک سے محبت کے پتنگ بڑھاتے۔ ضواجیں ہمت بڑھا بڑھا کے نیگ چڑھاتے۔ باغ میں کوئل پپیہے مور کا شور جھولے پر گھٹا رہی رو یہی گھنگھور ساون بھادوں کے جھالے وہ رنگین جھولنے والے
کیسی کیسی صحبتیں آنکھوں کے آگے سے گئیں
دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا اک بارگی
اس سمے کا خیال آ کر دل پاش پاش ہو جاتا ہے۔ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ پیا کی

صفحہ 139
بدولت سب عیش کرے۔ اب صرف ضدائی شاق ہے اور دن و رات آپ ہی کا فراق ہے۔
اب کیا کریں نہ صبر ہے نہ دل کو تاب ہے
کل اس گلی میں آٹھ پہر غش میں پڑے رہے
ؐھبوبہ عالم نواب مغل صاحبہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
دقیقہ سنج معانی پرور و سخنور فیض گستر و قدردان متاع بازار معانی و خریدار جواہر زواہر دکان سخندانی جانعالم سلطان عالم زید اللہ نطفہ
ادھر آپ لکھنو سدھارے ادھر شعلہ عشق نے بھڑک کر مجھ کو سلامت نہ رکھا۔ تاب و تواں شکیب و تحمل کو ہیزم خشک کی طرح جلا کر صبر کا قافلہ لوٹ لیا۔ حضرت میر نے میری حالت کا نقشہ ہو بہو کھینچا ہے۔
بستر خاک پر گرا بہ زار
درد کا گھر ہوا دل بیمار
خاطر افگار خار خار ہوئی
جان تمنا کش نگار ہوئی
دل نہ سمجھا اور اضطراب کیا
شوق میں کام کو خراب کیا
رفتہ رفتہ۔۔۔۔۔ ہوئے نالے
لگے اڑنے جگر کے پرکالے

صفحہ 140
تپ مہاجرت اور دردِ مفارقت سے صاحب فراش ہوئے۔ دل و جگر سینے میں پاش پاش ہوئے۔ حس و حرکت کی طاقت نہ رہی
اب زبان میں بھی طلاقت نہ رہی
کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
زمین سخت ہے آسمان دور ہے
کجا کھانا پینا بجز غم کھانے اور پانی سوا اشک بہانے کے آنسو پینے کا نام ہے۔ اس سے نہیں پیتی ہوں اور کھانے کی قسم سے قسم تک نہیں کھاتی ہوں۔ متحیر ہوں کیونکر جیتی ہوں۔ مگر تنہائی میں ہاں خوف کھا کے روز دن بھرتی ہوں۔ ہر شب کو شب اوّلین گور ہے۔ جاں کنی رہتی ہے سخت جانی کی بدولت نہیں مرتی ہوں۔
یہ غلط کہتے ہیں بے آب و خورش جیتے ہیں
لختِ دل کھاتے ہیں اور خونِ جگر پیتے ہیں
اگرچہ آپ کی جذب محبت سے میرا حال تغیر ہوا ضبط سے کام لیا دل بیقرار کو تھا م لیا۔ خنجرِ الم سے جسم داغدار ہے۔ سنانِ غم سینے کے پار ہے۔
رفاق میں ترے بن موت اب تو مارا ہے
تڑپ تڑپ کر دل بیقرار نے ہم کو
دن رات کی وہ صحبت تمہارے ساتھ کی جب یاد آتی ہے۔ نیند اچٹتی ہے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ141
بےچینی کی رات پہاڑ ہو جاتی ہے ، کاٹے نہیں کٹتی ہے۔
کیا جانتے تھے اسے دن آ جائیں گے شتاب
روتے گزرتیاں ہیں ہمیں راتیں ساریاں
چارپائی تنہائی میں پلنگ بن کر کھائے جاتی ہے۔ خواب میں نیند کا خیال نہیں۔ کھانا پینا ہجر میں حرام ہے حلال نہیں۔؎
مرے جاگنے کے میرے پیارے ستارے شاہد ہیں گواہ شرعی زاہد ہیں۔
مرغِ سحر کو بیقراری سے چونکاتی ہوں موذن کی نیند آہ و زاری سے اڑاتی ہوں۔
ہماری تو گذری اسی طور عمر
یہی نالہ کرنا یہی زاریاں
دل ہر ساعت گھڑی سے زیادہ نالاں ہے۔ وحشت پیرا موں حال ہے ہر گھڑی فرقت کی ماہ ہے جو پہر ہے وہ سال ہے۔؎
کیا کیا نہ ہم نے کھینچے آزار تری خاطر
اب ہو گئے ہیں آکر بیمار تیری خاطر
تمہاری صورت ہر پل روبرو ہے۔ جس طرف دیکھا تو ہی تو ہے۔ چشمِ فرقت دیدہ ء دریا بار ہے، آنکھ نہیں چشمہ ء آبشار ہے۔
لہو لگتا ہے ٹپکنے جو پلک ماروں میں
اب تو یہ رنگ ہے اس دیدہ ء اشک افشاں کا

صفحہ 142
جن آنکھوں کو تم پُرنم نہ دیکھ سکتے تھے ان سے خون کے دریا بہہ گئے،
جب پاس رات رہنا آتا ہے یاد اس کا
تہمت نہیں ہے دو دو پہر ہمارا
اب تو خیریت کا کچھ حال لکئیے شقہء عالی سے قلب کو خوشحال کیجئیے۔
محبوب محل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
اسیر زلف گرہ گیر باد گیسو کی پا بہ زنجیر شہیدان خنجر الفت رہروان بادہ ء کلفت شمشیر کرشمہ کی مذبوح تیر غمزہ کے مجروح چشم نرگسیں کے بیمار جامِ محبت کے سرشار مئے تعشق کے متوالے اشک حسرت کے پینے والے۔ حضرتِ عشق کے سرتاج حسن کے محتاج ازل کے مست ابتدا کے حسن پرست شمع محفل اخلاص چراغ مجلسِ اختصاص چہرہ ء مراد درخشاں باد۔
آیا ہوں تنگ اس دل وحشی مزاج سے
دے دوں اگر حسین کوئی دلربا ملے
مرغ بسمل ہو گیا بے قابو میرا دل ہو گیا۔ ہر چند ضبط کیا سنبھل نہ سکا۔ ہاتھ پاؤں سرد ہو گئے رخسار زرد ہو گئے۔ حالتِ غشی طاری ہوئی، بُری

صفحہ 143
حالت ہماری ہوئی۔
ہوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ
صبر رخصت ہوا اک آہ کے ساتھ
حق تو یہ ہے کہ جو سر سودائے محبت سے خالی ہے وہ سر نہیں سبوچہ ء گل ہے۔ اور جس سنگدل میں صہبائی عشق نہیں وہ دل نہیں سل ہے۔مرضِ عشق نے گھیر لیا دل محبت منزل کو اپنی طرف پھیر لیا۔ شرابِ محبت کا چسکا پڑ گیا۔ اچھا خاصہ بگڑ گیا۔ ہلالِ ابرو کے دیکھنے کی آرزو ہوئی، مہ جبینوں کی جستجو ہوئی۔ تنہائی میں بیٹھے بیٹھے طبیعت اداس ہو جاتی ، جینے سے یاس ہو جاتی۔ ناچار دل کو تھام لیا دیدہء خونبار سے کام لیا۔ گو عالمِ تحیر میں محو اور خاموش تھا اور بالکل خواب و آرام فراموش تھا۔
حالت ہے اس کی پارہ کی برق و شرار کی
کیا کیا تڑپ سناؤں دلِ بیقرار کی
یکایک مجھ بیمارِ عشق کی طبیعت بگڑ گئی ، تمام گھر میں ہلچل پڑ گئی۔ پھر تو میں آیا تو لایا۔ ہر ایک نے طبیعت آزمائی تشخیص دکھائی۔ جس کے جو سمجھ میں آیا مرض بتایا۔آخر کار شافیء امراض بڑے بڑے نباض حاضر ہوئے۔ مگر مرضِ خاص سے ذرا بھی نہ ماہر ہوئے کیونکہ یہ مریضِ عشق چشمِ نرگسیں کے بیمار تپِ محبت ان کا آزار۔ انکی دوا عناب لبِ یار اور شربت دیدار دلدار ہیں۔ شربتِ دینار سے کیا غرض۔ حبِ شفا کا یہاں کسے مرض۔ نہیں ممکن ہے جینا کشتہ تیغ تغافل کا

صفحہ 144
مسیحا بے سبب کیوں دعوٰی اعجاز کرتے ہیں۔ جب ہم کو کسی کی چاہ نہ تھی دل سے دل کو راہ نہ تھی۔ منزلِ عشق کو آسان سمجھتے تھے۔ دل لگی یہ درد بے درمان سمجھتے تھے۔ آج جان گئے لو مان گئے کہ تیغ ابرو کے گھائل مرتے ہیں نہ جیتے ہیں لختِ جگر کھاتے ہیں خونِ دل پیتے ہیں؎
گر یونہی رہے گی بیقراری
تو ہو چکی زندگی ہماری
جانعالم تمہارے خیال میں تدبیر وصال میں حیران ہوں کیا کروں۔ کہاں جاؤں کس طرح کوچہ ء دلدار لوں ۔ بہتر ہو جو اس ابروئے خمدار کی یاد میں خنجر آبدار مار لوں مگر؎
تپ فراق کا صدمہ سہا نہیں جاتا
حرام موت نہ ہوتی تو زہر کھا جاتا
(نواب) امراؤ محل
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 145
تقریظ
باسمہ سبحانہ
اردو زبان کے سلسلے مین لکھنو کو ایک خاص امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ وہاں کی ٹکسالی زبان کا دارو مدار "صنف نازک" کے دو طبقات پر رہا ہے۔ بیگمات اور مہترانیاں۔۔۔ کسی محاورے کی تحقیق کے سلسلے مین تمام اہلِ فن انھیں کی طرف رجوع کرتے رہے ہیں۔ ہمارے یو پی کے مایہ ناز ادیب و محقق رفیق محترم مفتی محمد انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی اہلِ ادب کے شکریہ کے مستحق ہیں۔ کہ "بیگمات اودھ کے خطوط" جیسا گراں مایہ ذخیرہ حاصل کرنے میں نہ صرف کامیاب ہو گئے ہیں بلکہ اسے شائع کر کے ادبی خزانے میں ایک بیش قیمت سرمایہ کا اضافہ کر رہے ہیں۔ آپ کا خاندانی کتب خانہ بیش بہا نسخوں کا مجموعہ ہے۔ کیونکہ آپ اس علمی گھرانے کی یادگار سے ہیں۔جس میں اعلم العلما مُلّا وحیدالدین موءلف فتاوٰی عالم گیری، علامہ قاضی مبارک شارح مسلم اور افضل العلماء قاضی ارتضٰے علیخاں بہادر قاضی القضاۃ مدارس اور مفتی انعام اللہ خاں بہادر مفتی محکمہ شرعیہ دہلی سے نامور اور باکلمال بزرگ گزرے ہیٰ۔ وراثتاً یہ سرمایہ انھیں حضرات سے ہمارے مفتی صاحب تک پہنچا ہے۔ اس میں اس قسم کے

صفحہ 146
بعض نوادر بھی ملتے ہیں۔ یہ خطوط بھی انھی نادرات کی ایک کڑی ہے۔
اس قسم کے خطوط کی اہمیت کا اندازہ مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی مرحوم ایڈیٹر دلگداز کی "آپ بیتی" کی اس عبارت سے ہو سکتا ہے۔
مجھے فارسی عاشقانہ عبارت آرائی کے شوق میں یہاں بیت الاجرا واجد علی شاہ میں حسن و عشق کا ایک نہایت ہی دلچسپ مشغلہ ہاتھ آ گیا۔ بادشاہ کے تمام محلات عالیات اور بیگمات جو خطوط بھیجا کرتیں وہ خطوط بادشاہ کے ملاحظے کے بعد اسی دفتر بیت الاجرا میں محفوظ رکھے جاتے۔یہ خط جو تودہ نامے کہلاتےعلی العموم سُرخ اور پُر افشاں کاغذ پر ہوتے اور عموماً عاشقانہ انداز سے رنگین عبارت سے لکھے جاتے۔ ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہو گی جن کو میں نے پڑھنا شروع کیا، مجھے ان میں بڑا لطف آیا۔ افسوس کہ وہ نایاب ذخیرہ خدا جانے کہاں گم ہو گیا۔ آج موجود ہوتا تو شائع کرنے کے قابل تھا۔
اس لئے کہ اس میں جتنے خطوط تھے "بیگمات" انشا پردازوں کے لکھے ہوئے تھے۔ اور نہایت زورِ قلم دے کر رنگین عبارتوں میں لکھے گئے تھے۔۔۔۔ ہر ایک خط

صفحہ 147
میں ایک جداگانہ جدت طرازی اور تازگی تھی۔ بہرحال میری انشا پردازی کا پہلا نصاب یہی تودد نامے تھے، ظاہری صورت اور باطنی رنگِ عبارت دونوں حیثیتوں سے بہت ہی دلکش تھے۔
( دلگداز جون 33 ء صفحہ 133)
ان خطوط کے القاب و آداب اور عبارتوں کا بصد مطالعہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس قدر اچھوتے انداز سے لکھے گئے ہیں۔ یہ واقعات حقیقت میں اردو ادب کے لئے سرمایہ افتخار ہیں۔ ان میں بڑی حصوصیت یہ ہے کہ محلاتی زبان ہے۔ روز مرہ کے نہایت فصیح محاورے ، ٹھیٹ ٹکسالی اور اسلوب بیان حد درجہ سادہ اور دلفریب ہے۔ چونکہ عموماً زیادہ واقعات فراق زدہ بیگمات کے لکھے ہوئے ہیں اس لئے نہایت درد انگیز ہیں۔ مکرر رفیق محترم موصوف کا قلبی اعتراف کہ آپ کی وجہ سے یہ نادر تحفہ اہلِ علم کے مطالعہ کے لئے دنیائے اردو میں آیا۔
محمد عبد الشاہد خاں شروانی
مصنف " باغی ہندوستان"
سوانح علامہ فضل حق خیر آبادی و حالات و انقلاب 57 ء
24 محرم الحرام
1366ھ
 
Top