اسکین دستیاب بیگمات اودھ کے خطوط

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 5

بیگمات اودھ کے خطوط

واجد علی شاہ کے زمانے میں مرزا رجب علی بیگ سرور اکبرآبادی کی طرز تحریر بالخصوص فسانہ عجائب کی عبارت کے انداز کا چلن عام تھا۔ علی العموم شاہی خاندان کے مراسلات میں عام طور پر تقلید کی جاتی۔ بادشاہ کو خود قافیہ سنجی کا بے حد شوق تھا۔ اس قسم کی عبارت میں اگرچہ مطالب کے ادا کرنے میں سخت دقت تھی مگر انشاءپردازی کا لطف ضرور تھا۔

بادشاہ اور بیگمات کے نامہ و پیام کا ایک مجموعہ میرے کتب خانہ میں بھی ہے۔ ادبی رسائل میں اکثر ایسے خطوط نظر سے گذرے۔ ان کی نقول اپنے مجموعہ میں اور شامل کرتا رہا۔ کتابیات جو ہندوستان اکیڈمی کے لئے ترتیب دے رہا تھا اس کے سلسلہ میں مخزن اسرار سلطانی (رقعات بیگمات) مرتبہ منشی امتیاز علی نجیب فرخ آبادی مطالعہ سے گزری جو 1902 میں شائع ہوئی ہے۔ مکررات عبارت اور ایک ہی سا مضمون خطوط میں ہے۔ میرے


صفحہ 6
مجموعہ میں ان بیگمات کے خطوط ہیں جن کا مخزن اسرار سلطانی میں ذکر نہیں۔ عموما اشتیاق نامے جانبین کے ہیں۔ یہ خطوط اس عہد کے ہیں جب بادشاہ انتزاع سلطنت کے بعد اپنی تمام بیگمات کو چند کے سوا لکھنؤ چھوڑ گئے تھے۔

ان مراسلات میں ہجر و صوال اور اشتیاق و فراق اور سوز و ساز کے سوا ہنگامہ سنہ 1857 کے مصائب اور حالات کا ذکر بھی ہے۔ بعض ایسی باتیں خطوط میں نظر پڑیں جن کا تاریخ ہند سے بڑا تعلق ہے۔ ان کی عموما شہرت نہیں ہے۔ مگر یہ تاریخ کا گم شدہ ورق ہے اور قابل قدر ہے۔

میرے کرم فرما جناب سید آصف علی صاحب ملک مکتبہ ادب دہلی سے اس کا ذکر آیا ۔ ان کا اصرار شروع ہوگیا کہ یہ مجموعہ ان کے لئے ترتیب دے دیا جائے۔ چنانچہ تعمیل کی گئی۔ مخزن اسرار سلطانی سے چند خطوط اپنے مجموعہ کے ساتھ اور شامل کرلئے کیونکہ ان خطوط میں اکثر توارد اور تکرار ہے۔ اور اس کو قافیہ پیمائی اور عبارت آرائی کے کھٹکوں نے بدنما بھی کردیا ہے۔ ضروری ضروری شستہ عبارت کے رقعہ نقل کرلئے گیے ہیں۔ ان خطوط کے القاب قابل دید ہیں۔ زبان بھی پیاری ہے۔ گو اردو قدیم ہے۔ مگر لطف انگیز ہے۔ بعض منظوم رقعے بھی ہیں۔

غرض کہ ''بیگمات اودھ کے خطوط'' کا مجموعہ ہدیہ ناظرین ہے۔

انتظام اللہ شہابی


صفحہ نمبر 7

شیدا بیگم کا خط -------------------------------بنام جان عالم

شہ ہندرشک قمر جان عالم کہ اب مہر کی اک نظر جان عالم

سفر سے جلد آؤ جان عالم جمال اپنا دکھاؤ جان عالم

شمع شبستان موانست و موافقت رنگ افزائے اورنگ مصادقت و مرافقت نغمہ شیخ ریاض خوش بیان زمزمہ پرداز حدیقہ سخن دان زید اللہ حسنہ

حالت ہے اس کی نار کی برق و شرار

کیا کیا تڑپ سناؤں دل بے قرار کی

نیرنگئ گردوں سے افزوں ہے۔ زندگی سے دل تنگ ہے۔ حالت زبوں ہے۔ ترقئ وحشت ہے۔ اپنوں بیگانوں سے نفرت ہے۔ آتش فراق سے سینہ پکتا ہے۔ کبھی حیرت ہے کبھی سکتہ ہے۔ سیماب وار دل بے قرار ہے۔ گریہ وزاری بے شمار ہے۔

تب جدائی سے اب اس طرح نزار ہوں میں

نظر میں خلق کی رشک خط غبار ہوں میں

رہ رہ کے اگلی یاد اٹھتی ہے۔ کیا زمانہ تھا۔ دن عید رات شب برات تھی، فلک کو یہ آرام بھایا نہیں۔ کج رگتاری دکھادی ہی دی۔ جب سے آپ گئے ہیں۔


صفحہ 8

روتے دھوتے دن رات گزرا ہے۔ اپنی خیریت سے شاد کام کرو۔ میرا کہا ولہ رام کرو۔

جب سے ہم کو الف ملی دیوانے ہوئے

اپنے بیگانے سے بیگانے ہوئے

خط سلیمان محل -----------------------بنام جان عالم

یہی کہتا ہے رو رو کر دل رنجور سینے میں

دم سوزان سے آخر پڑگیا ناصور سینے میں

طوطی شکر خائے صدوق و صفا، عندلیب خوشنوا چمنستان دلہ رام معام، مہر پیشانی چہرہ نورانی، ابرو کمان، تیر مژگان، گل کی خوشبو، بلبل کی گفتگو، بے آراموں کےچین استاد تان سین، محفل کی زینائش مہر دل کی آرائش۔ زاداللہ محبتہ

مثل گل اپنا گریباں چاک کردوں تو سہی

اس دل بیتاب کو میں خاک کردوں تو سہی

دست جنوں نے بے طرح پنجے جھاڑے ہیں۔ سر سے پیر تک عقل و خرد کے کپڑے پھاڑے ہیں۔ نالہ و آہ سے رعد و برق کا دم بند ہے۔ ہمارے


صفحہ 9

رونے کا تمہارے فراق میں ابر مطر سے مرتبہ بلند ہے۔ اب رنج ۔۔۔۔کا وفور ہے۔ کلیجہ ناصور ہے۔ آتش دوری پردہ چشم جلاتی ہے۔ آنکھیں حسرت سے ڈبڈبا کر رہ جاتی ہیں۔ اپنی خیریت سے آگاہ کیجیے۔

نہیں دونوں جہاں سے کام ہم کو

اک فقط تیرے مبتلا ہیں ہم

سلیمان محل


شیدا بیگم کا منظوم خط ----------------------بنام جان علم

ساقی ہو صحن باغ ہو ابر بہار ہو

پہلو میں تم ہمارے بعزوقار ہو

ساون کا تو مہینہ اور دن ڈھلاہوا

اور ننھی ننھی بوندوں کی پڑتی پھوار ہو

جھولا پڑا ہوا ہو کسی شاخ تحل میں

اک سمت خوش گلو کوئی گاتا ملار ہو

کوئی کہو کہو کی صدا دے ہر ایک بار

ٹپکا لگا ہو آنبہ کا فصل بہار ہو



صفحہ 10

اس وقت بول اٹھے جو پیپہا کہ پی کہاں

اک تیر عاشقوں کے کلیجہ کے پار ہو

بنگلہ صنوبری بھی صحن میں ہو وہ پڑا

فردوس جس کے دیکھنے سے شرمسار ہو

جز گفتگوئے راز نہ کچھ ہو خیال اور

باتوں کی چھیڑ چھاڑ ہو بجتا ستار ہو

مہندی ہو ہاتھوں پاؤں میں اپنے رچی ہوئی

اور عطر میں بسا ہوا ہر تار تار ہو

جوبن وہ تم پہ ہم پہ ہو اس وقت نور کا

حور و پری بھی آن کے جن پر نثار ہو

خالی ہو بزم دخل نہ ہو وان پہ غیر کا

دل خوب کھول کھول کے بوس و کنار ہو

لب پر جو لب دھرے ہوں تو ہاتھوں میں ہاتھ ہو

سینہ ملا ہو سینے سے دل کو قرار ہو

شیدا تمھاری آٹھ بہر رہتی ہے ملول

اب دیکھئے یہ آرزو کب آشکار ہو1


ذی الحجہ 1271 ہجری
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 11 غیرموجود


صفحہ 12

سلطان جہاں محل کا خط بنام جان عالم


مجنوں کا دل ہوں محمل لیلی سے جدا ہوں

تنہا پھروں ہوں دشت میں جوں نالہ جرس


دوائے دردمندان الفت و اتحاد شفائے مستمدان محبت درداد کلبد گنجہ بہرود وفا خورشید مطلع صدق و صفا جانعالم ہمیشہ سر بلند رہو۔


چمن کا نام سنا تھا ولے نہ دیکھا ہائے

جہاں میں ہم نے قفس میں ہی زندگانی کی


حضرت عشق کا عمل ہے۔ تشنہ لبی ہے۔ گریہ نیم شبی ہے۔ آنکھوں میں دریا کی روانی ہے۔ جسم زار کی ناتوانی ہے۔ موج اشک مے کشتی چرخ کو ڈبو دیا۔ حضرت عشق نے دونوں جہان سے کھو دیا۔


شکوہ کیا کیجیے ناتوانی کا

کھو دیا لطف زندگانی کا


لوگوں نے مجھ رنجور پر اتہام باندھے حضور کو بھی یقین آ گیا۔ حضرت عباس کی سوگند، میں آپ کا نام لیے بیٹھی ہوں۔ نہ غم خوار ہے نہ دمساز ہے صرف آپ کی یاد ہے۔

رفتہ رفتہ ہوئی ہوں سودائی

دور پہنچے گی مری رسوائی


صفحہ 13

بخدا آپ کی تپ جدائی سے بہت تباہ حال ہے ضعف کے باعث آہ تو آہ سانس لینا بھی محال ہے-تمنائے ہم آغوشی میں دونوں ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں-


دردِ فرقت نے ہم کو مارا ہے

ستمِ چرخ آشکارا ہے


رقیمہ: سلطان جہاں محل


۱۵ محرم الحرام ١٢٧٢ ھ

________


بنام نواب شیدا بیگم صاحبہ


طوطی شیریں تقریر چمن مودت بلبل خوش نوید گلشن الفت غنچہ مقصد تمہارا ہمیشہ شگفتہ رہے-

اس گردش افلاک سے پھولے نہ پھلے ہم

جوں سبزہ روندے اگتے ہی پاؤں کے تلے ہم

بہن شیدا بیگم میراں جی کی ٢٧ تاریخ کو ١٢٧١ ھ پنچ شنبہ کا دن عمر بھر نہ بھولے گا جب کہ سلطان عالم کو جنرل اوٹرم صاحب نے باپ دادا کی سلطنت چھوڑنے اور حکومت سے دست بردار ہونے کا حکم دیا


صفحہ 14

اور لکھنؤ سے ہم لوگ جدا ہوئے جیسے بلبل گلزار سے چھوٹی ، یوسف مصر سے نکلے ، بوئے گل چمن سے جدا ہوئی ،پیا جان عالم کا سکوت اور تمام عملہ کا مسرت بھری نگاہ سے دیکھ کر بے کسی کے آنسو بہانا کمال ادب سے رومال میں موتیوں کے غم کو سمونا ، اعزاء کو ہچکیاں لگی ہوئی تھیں ، ہم آخرش محلات میں ماتم بپاکرتے ہوئے سلطان عالم کے ہمراہ روانہ ہوئے ۔ اسوقت جان عالم کا یہ کہنا ،تم پر دس برس تک میں نے سلطنت کی ، اس عرصہ میں جو کچھ صدمہ اور رنج تم کو میری ذات سے پہونچا ہو اس کو بخوشی معاف کردو ، اسوقت میں معزول ہوں اور تم سے چھٹتا ہوں ، خدا جانے پھر زندگی میں ملوں یا نہ ملوں ،، بہن اس جملے نے تمہیں یاد ہے مجلس کو ماتم بنادیا تھا ۔ حضرت منور الدولہ احمد علی خان نے کہا ، سرکار ایسے وقت میں غلام کو قدموں سے جدا تو نہ کرو ، سلطان عالم خاموش ہوگئے ، حضور ملکہ کشور آرا بیگم صاحبہ اور بھیا سکندر حشمت سلمہ اور لخت جگر نور نظر ولی عہد بہادر سلمہ میں اور چار اور سرکار کی خادمہ ہمراہ تھیں ، رجب کی پانچویں کو لکھنؤ سے چلے تھے ، کانپور پہونچے میرا روتے روتے برا حال ہوا ۔ پرون صاحب کے بنگلہ میں ہم لوگ مقیم ہوئے رجب بھر مہینہ وہیں بیتا شعبان کی پہلی کو الہ آباد رخصت ہوئے آٹھ دن وہاں ٹھیرے ، پھر بنارس آئے راجا پرانا نمک خوار تھا اپنی سی اس نے اچھی خدمت کی ، رانیاں حضور ملکہ کی بڑی تواضع کرتیں


صفحہ 15 غیرموجود


صفحہ 16

مجھ رنجور کو تو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تھے کہ فلک نے ستایا اور رنجور بنایا، چند روزہ بھی صحبت میسر نہ آئی، قسمت نے یہ جدائی کی صورت دکھائی، دل بے قرار ہے سینہ فگار ہے، دل صدمۂ ہجر سے بے ہوش ہے، دنیا اور مافیہا سے بالکل فراموش ہے، زندگی کا قصہ تمام ہے، ملک الموت کا پیام ہے، ہر دم نالۂ و آہ ہے، یہی کام ہے دن کا، یہی چین ہے یہی آرام ہے۔

وحشتِ طبع روز افزوں ہے

حال دل کا میرے دگرگوں ہے

اگر وصل ہو تو آرام پائیں گے ورنہ گورمیں چلے جائیں گے، بلانے کا انتظام کیجئے اور خط کے جواب سے دل شاد کام کیجئے۔

راقمہ خرد محل

صفر/1272ھ

بنام سرفراز بیگم صاحبہ

شہر سے دل اُچاٹ ہے انس نہیں اجاڑ سے

پھوڑے سر کو اے جنوں کون سے اب پہاڑ سے

تقدیر نے شبِ ہجر سے زیادہ روزِ سیاہ دکھائے، فلاکت کے



صفحہ 17


پھندے سے کبھی چھٹنے نہ پائے - جگر میں خنجر مژگاں کی کاوش ہے ، آنکھوں سے خون ناب کی ہردم تراوش ہے کچھ حال یہاں کا لکھتی ہوں ۔


جناب عالیہ کے سات ولایت جانے کے لئے ایک سو دس آدمی سب ذکور و اناث تجویز ہوئے مولوی محمد مسیح الدین خاں سفید شاہی ان کی پیشی میں میرمحمدرفیع مقرر ہوئے ۔ حاجی الحرمین شیخ محمد علی واعظ و ذاکر رفیق خاص جنرل صاحب و جلیس الدولہ مصاحب مرزا ولی عهد بہادر کو دس لاکر روپیہ اخراجات کیلئے دیئے گئے جناب ملک معظمہ دام اقبالہا کیلئے ایک ہار الماس کاجس کا وزن تین سیر، دوسرا ہار یاقوت کا ، زمرد کی کنگھی پرچہ الماس بہت سے مالہ مروارید اور انگوٹیاں اور پیشواز بہت تکلف کی بتیس ہزار روپیہ کی تیار کی ہوئی ایک نامہ شاہی متضمن حال خود جناب ملکہ دوراں اور مختارنامہ جری وکلی سپرد جناب عالیہ کیا گیا ۔ آخر استخارہ ذات الرقعہ لیا پانچ رقعے نکلے .١٦ شوال روز سہ شنبه ١٢٦٢ ھ بارہ بجے رات کو جناب عالیہ سوار ہوئیں ۔ وقت رخصت عجیب حشرو نشر محل سے برپا ہوا . نعره الفراق والوداع . مخزرات اس پردہ شب میں محیط كرة عالم ہوا۔ ہر ایک کی آنکھ سے سے مسلسل در اشک بہ رہے تھے۔ صبح جہاز نے لنگر اٹھایا ۔ زیر کوھی شاہی گزرا . بادشاه سلطان عالم فرط بے قراری سے برآمدے میں کھڑے ہوئے . جرنل صاحب ومرزا ولی عہد نے آداب وسلام بادشاه سے



صفحہ 18

کئے ۔خدا حافظ کہہ کے رخصت کیا ۔ طرفین کو عجب صدمہ روحانی ہوا ۔ میں نے غم میں دو وقت کھانا نہیں کھایا۔ جان عالم نے کہا بھی . مگر میں روتی رہی - جو حال پر ملال ہم پر گزرا تم کو لکھ دیا ہے ۔

رخصت سیر باغ نہ ہوئی

یوں ہی جاتی رہی بہار افسوس

جان جاں بیگم

کلکتہ ١٦ شوال ١٢٧٢ ھ


جان عالم

شوقیہ نظم شیدا


مستی ہونٹوں پہ اور آنکھ میں سرمہ

رچی ہاتھوں و پاوں میں حنا ہے

طلائی ہے پڑا مو باف سر میں

چنی ماتھے پر افشاں خوشنما ہے

گلابی پائجامہ سرخ کرتی

دوپٹہ کاج کا دھانی رنگا ہے

ملا ہے عطر مجموعے کا ایسا

کہ سارا مثل عنبر گھر بسا ہے

یہ ساون سب یونہی جاتا ہے خالی

جو ایسے میں تم آو تو مزہ ہے



صفحہ 19


بنام جانعالم سلطان عالم


مہر سپرد دلبری غیرت ماہ مشتری سردرد لہائے پر درد سلطان عالم جان جانعالم ادام اللہ بقاء کم نمیقہ انیقہ


صحیفہ شریفہ مرقوم بست ششم ماہ رمضان ، بھیجا ہوا تمہارا ہمارے دل و جان سے زیادہ پیارا شہر حال یعنی ماه شوال کو آیا ۔ آتش عشق کو بھڑکایا حال تمہاری صحت کا سن کے ہمارے دل نے بڑاحظ اٹھایا سینہ خوشی سے رشک گلشن ہوا گھر سارا روشن ہوا . یہ حال سن کے گھڑی دو گھڑی تو خوشی کی رہی صورت ، پھر زیادہ ہونے غم فرقت ، اب خنجر غم دل پہ چلتا ہے ۔ جان جاتی ہے دم نکلتا ہے اور خدا سے ہروقت یہ دعا ہے کہ تا صدوسی سال تم کو سلامت رکھے۔ تمہاری صحت سے ہماری صحت ہے ۔ جس طرح حکیم مطلق نے عارضہ تپ تم سے کیا دور ، ہمارا دل ہوا مسرور، اب جامع المتفرقین حجاب فرقت ہمارے تمہارے درمیان سے اٹھائے اور ہم کو تم کو ملائے کہ دفع ہو یہ رنج و الم اور ہم تم ہوں باہم ۔


مناجان

مرقوم یازدہم شوال ١٢٧٢ ھ ١

١ سالنامہ ادبی دنیا


صفحہ نمبر-20


نواب منّا جان صاحبہ



ہم ہیں کلکتے میں اور عالم تنہائی ہے



" جان من راحت جان و دل۔صندل درد سر مضمحل۔ باعث آبادی شہر عاشقاں۔بہار ریاض و چمنستاں منّا جان تفریح بخش، غنچہ خاطر اختر مضطر رہو ۔خط تمہارا دل سے عزیز جان سے پیارا بست ویکم شہر حال معرفت کنزالدولہ بہادر کے کلید قفل مسّرت ہوا۔اہل شہر کی بیقراریاں معلوم ہوئیں۔ ان کی ایذائیں سب مفہوم ہوئیں، واللّہ جان جان ان سے زیادہ بیقرار ہوں۔گھر چھوڑے ان کے لیئے ساکن دیار نکبت آثار ہوں آگے جو مقدّر زیادہ حسرت ہم آغوشی"


مرقوم 23 / رجب 73. ھ



ادبی دنیا راقم جان عالم



مخاطب پیا جانِ جان عَالم



اے جان جاں صورت جاں اعتبار کیا


تم آؤ یا نہ آ ؤ ہمیں اختیار کیا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 21
بے اپنے گل کے سیر گلستاں خراب ہے
کیفیتیں دکھائے گی فصلِ بہار کیا
برہم ہوئے ہیں گیسوئے برہم کی یاد سے
اب پوچھتے ہو تم سببِ انتشار کیا
گیسو کی آرزو کسی عارض کا اشتیاق
دیکھیں دکھائے گردش لیل و نہار کیا
ممکن نہیں جو کوچہءجاناں میں رہ سکے
میرے غبار سے ہے صبا کو غبار کیا
لو آؤ ایک دم میرے پہلو میں سو رہو
گر اپنا جانتے ہو تم اے جان عار کیا
قسمت کہاں جو دیکھئے صورت بھی چند دم
تم سے امید واری ء بوس و کنار کیا
بگڑی ہوئی ہے ہجر سے کیفیتِ مزاج
تم ہم سے پوچھتے ہو جی بار بار کیا
آتی ہے خوش کسی گل پژمردہ کی بہار
تم کو دکھائیں شکل دلِ داغدار کیا
لاکھوں حسیں ہیں صورتِ جاناں کے شیفتہ


صفحہ 22
ہم کس قطار میں ہیں ہمارا شمار کیا
کب ہے یقیں کہ زینتِ آغوش ہو حصول
اے حورؔ ان کے دل پہ ہمیں اختیار کیا
حور بیگم ادبی دنیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
قمریء سردستانِ محبت طوطیء شکرستان مودت آفتاب آسمان کرم حضر جانِ عالم زید اللہ حسن الحانہ
آنکھیں روتے روتے سفید ہوئیں تمہارے اشتیاق میں۔رُخسارے گھل گئے اشک باری سے۔ فراق سے میں چین کسی وقت نہیں پاتی۔ بے قراری دم بھر نہیںجاتی۔ سامنا ہے مصیبت کا ہر گھڑی۔اجل سر پر رہتی ہے کھڑی۔ تمہاری فرقت میں بیمار ہوں۔ زندگی سےبیزار ہوں۔ کچھ بس نہیں تقدیر سے۔ لاچار ہوں تدبیر سے۔ سینہ غم سے پارہ ہے۔ ہر لحظہ دھیان تمہارا ہے۔
کیا کہوں کچھ کہا نہیں جاتا
ہائے چپ بھی رہا نہیں جاتا


صفحہ 23
گوہرِ عیش وعشرت نایاب ہے۔خونِ جگر ہر دم پیتی ہوں ۔ تمہارے ذکر سے جیتی ہوں۔ظاہر ہیں آثارِ جنوں۔ تمہارے شربتِ وصال کی پیاسی ہوں۔ اب جلد با مراد تمہیں یہاں لائے اور صحیح و سالم ہم سے ملائے
بست و ہفتم رجب 1273 ء
دلربائے جان عالم
نواب مہدی بیگم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانعالم
آپ وہ چہرہ ء روشن جو دکھا دیں بخدا
بر قراری دلِ بےتاب ہرگز نہ رہے
مہر و گلزار رعنائی ء تدُورِ کوہسار بے وفائی زید اللہ حسنہ
یہاں کا عجیب حال ہے۔ دن دونی رات بداحوال ہے۔ لکھنو میں تازہ روداد ہوئی جس سے طبیعت کچھ کچھ شاد ہوئی ۔ آٹھویں کو اس مہینے کی روز یک شنبہ دوپہر سے فوج فرنگی تقسیم پر کارتوسوں کے بگڑ گئی۔ جنگ و جدل کی ٹہر گئی۔ سب فوج موسیٰ باغ میں عیسائیوں کے قتل کو ایک جا ہوئی۔ اوّل ہیبتوں پر ہیبت غالب سوا ہوئی۔ کتنا مرد مان فوج کو سمجھایا ان لوگوں کے خیال میں نہ آیا۔ آخر ان احمقوں نے کئی سو گورے نکالے اور


صفحہ 24
اور قریب شام قتل کی سمت کو روانہ کیا۔عیش باغ میں پندرہ سو آدمی جمع ہو چکے تھے۔ وقتِ تحریر اب تک وہیں مجمع کثیر ہے۔علما عَلمِ محمدی اٹھانے کو ہیں۔ دیکھئے کیا ہوتی اس کی اخیر ہے۔ بے ڈھب ہوا یہ بگاڑ ہے اب تو عیسائیوں کو موسیٰ باغ جانا پہاڑ ہے۔ اطلاعاًلکھا ہے آگاہ تم کو کیا ہے اور اے جانعالم معلوم نہیں یہاں کےاخبار ہر روز تم کو مطالعہ میں گزرتے ہیں یا اہلکار پوشیدہ کرتے ہیں۔
جیسا ہو ویسا لکھو۔ ہم یہاں سے تحریر کیا کریں اخبار اور حال مفصل تحریر کریں اظہار۔ آپ کی چیہتی نواب سرفراز بیگم بھی یہاں کے احوال سے آپ کو آگاہ کر رہی ہیں۔
فقط۔ فرحندہ محل
شہر صوم 1473 ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام نواب شیدابیگم صاحبہ
مرگ سوجھے ہے آج کل مجھ کو
بے کلی سے نہیں ہے کل مجھ کو
مہر سپہر بے وفائی ماہ سمائے دلربائی گوہر تاج آشنائی جوہر شمشیر یکتائی ہمیشہ خوش رہو؎


صفحہ 25
معلوم ہو گیا ،ہمیں لیل و نہار سے
ایک وضع پر نہیں ہے زمانے کا طور آہ
معلوم ہوا اودھ میں کچھ بلوائی لوگ جمع ہوئے ہیں اور سرکار انگریزی کے خلاف ہو گئے ہیں۔ کم بختوں سے کہو ہم چپ چاپ چلے آئے تم لوگ کاہے کو دنگا مچا رہے ہو۔ میں یہاں بہت بیمار تھا، صفرہ کی تپ نے دق کر دیا تھا۔ آخر تبرید کے بعد صحت ہوئی۔ جس قدر نذر و نیاز مانی تھیں، وہ کی گئیں۔ جلسہ رات بھر رہا، ناچ گانا ہوتا رہا۔ کوئی چار گھڑی رات باقی ہو گی ۔ غل پکار ہونے لگا۔ ہم غفلت میں پڑے تھے۔ آنکھ کھتے ہی ہکّا بکّا رہ گئے۔ دیکھا کہ انگریز فوج موج در موج ٹڈی دل چوراں طرف سے آ گئی۔ میں نے پوچھا یہ کیا غل ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا علی نقی قید ہو گئے۔ مجھ کو غسل کی حاجت تھی۔ میں تو حمام میں چلا گیا۔ نہا کر فارغ ہوا کہ لاٹ صاحب کے سیکرٹری اومغٹن حاضر ہوئے اور کہنے لگے میرے ساتھ چلئے۔ میں نے کہا آخر کچھ سبب بتاؤ۔ کہنے لگے گورنمنٹ کو کچھ شبہ ہو گیا ہے۔ میں نے کہا میری طرف سے شبہ بیکار ہے۔ میں تو خود جھگڑوں سے دور بھاگتا ہوں۔ اس کشت و خون اور خلق خدا کے قتل و غارت کے سبب سے تو میں نے سلطنت سے ہاتھ اٹھا لیا۔ میں بھلا اب کلکتہ میں کیا فساد کرا سکتا ہوں۔انھوں نے کہا مجھ کو صرف اتنا معلوم ہے کہ کچھ لوگ سلطنت کے شریک ہو کر فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا اچھا اگر انتظام کرنا
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ا
صفحہ 26
ہے تو میرے چلنے کی کیا ضرورت ہے۔ میرے ہی مکان پر فوج مقرّر کر دو ۔ انھوں نے کہا جیسا مجھ کو حکم ملا ہے میں نے عرض کر دیا۔ بالآخر میں ساتھ چلنے پر تیار ہوا۔ میرے رفقاء بھی چلنے پر تیار ہو گئے۔ سیکرٹری نے کہا صرف آٹھ آدمی آپ کے ہمراہ چل سکتے ہیں۔ پھوپھو مجاہد الدولہ، ذہانت الدولہ سیکرٹری صاحب اور میں ایک بگھی میں سوار ہو کر قلعہ میں آئے اور قید کر لئے گئے۔ میرے ساتھیوں میں ذوالفقار الدولہ، فتح الدولہ، خزانچی کاظم علی، سوار باقر علی، حیدر خاں کول، سردار جمال الدین چپراسی، شیخ امام علی حقّہ بردار، امیر بیگ خواص، ولی محمد مہتر، محمد شیر خاں گولہ انداز، کریم بخش سقّہ، حاجی قادر بخش کہار، امامی گاڑی پوچھنے والا، یہ قدیم ملازم نمک خوار تھے۔ زبردسی قید خانہ میں آ گئے۔ راحت سلطانہ خاصہ بردار، حسینی گلوری والی، ؐحمدی خانم مغلانی طبیب الدولہ حکیم بھی ساتھ آیا۔ دیکھا دیکھی آیا تھا، گھبرا گیا اور کہنے لگا خدا اس مصیبت سے نجات دے۔ میں نے بہت کچھ حق جتائے کہ تجھ کو بیس برس پالا ہے۔ مگر وہ اپنی جان چھڑا کر بھاگ گیا۔ جس قلعہ میں ہم قید کئے گئے تھے اس کو قلی باب کہتے ہیں۔ یہ خط کربلایہ آب خاصہ دار کے ہاتھ بھیج رہا ہوں۔
ہوا ہے اب تو یہ نقشہ تیرے بیمارِ ہجراں کا
کہ جس نے کھولکر منہ اسکا دیکھا بس وہیں ڈھانکا
جانعالم اختر


صفحہ 27
بنام جانِ عالم سلطانِ عالم
حامی رعایا۔ ناصر برایا۔ تم پر خدا کا سایہ۔ اشتیاق نامہ سترھویں کا لکھا ہوا عین انتظار میں آیا۔ ہم نے دیکھتے ہی آنکھوں سے لگایا۔ جب عسؔیر نے پڑھ کر سنایا کلیجہ منہ کو آیا۔ جدائی نے وہ صدمہ دکھایا غم نے ایسا رلایا کہ خون آنکھوں سے برسایا۔ پیرِ فلک نے عجیب رنگ دکھایا۔ آپ کہیں ہیں ہم کہیں ہیں؎
کسی وقت آرام آتا نہیں
تصّور ترا دل سے جاتانہیں
خدا جلد مصیبت ٹالے۔تمہاری صورت رشک خورشید دکھلائے۔ یعنی تم کو ہم سے ملائے۔ سببِ تردّد جائے دل کو تسکین آئے۔ رقیّہ بانو بیگم کو زکام ہے۔
خدا تم کو صحت سے رکھے سدا
کرے ملک جلدی تمہارا عطا
شیدا بیگم
26جمادی الآخر 1273ھ


صفحہ 28
بنام جانِعالم پیا اختر
انیس ہمدم، مونس محرم حضرت جانِعالم زید اللہ عشقہٗ
محبت نامہ جودت ختامہ تمہارے نے 21 رجب کو مثل تسکین دل غمگین نزول کیا اور صورتِ روح جسم بے جان میں حلول کیا۔ ہماری طبیعت شاد ہوئی، قیدِ غم سے آزاد ہوئی۔ تردّد دور ہوا دل مسرور ہوا۔مگر صدمہ ء فرقت ہے۔ اس قدر تمہارا تصور ہے۔ آٹھ پہر کبھی تمہارے دُرِ دنداں کے تصور میں اشک بہاتی ہوں اور کبھی لبِ یاقت گوں کے دھیان میں دیدہ ء خونبار سے لختِ جگر مثلِ عقیق احمر ٹپکاتی ہوں۔ کبھی تمہارے سبز رنگ زمرد رمانی کے خیال میں دستِ وحشت غیرتِ مرجان سے اپنے عارضِ گلفام کو مارے طمانچوں کے لال کرتی ہوں۔ اور کبھی یشبِ خیال وصل کی تختی واسطے دفع خفقان کے سینہ پر دھرتی ہوں۔ کبھی کاکلِ مشکیں کی یاد میں نیلم کی طرح آنکھوں میں ایسی تیرگی چھاتی ہے کہ ہر آنکھ پتھرا کے نگینہ ء سلیمانی بن جاتی ہے۔ غرض ایسا رنجِ جدائی ہے کہ جان لبوں پر آئی ہے۔ اب خدا کایاب جلد تُم کو لائے اور عیش و عشرت کا دن دکھلائے۔ فقط
محبوبہ سلطان عالم دلپذیر بیگم
22رجب 1273ھ


صفحہ 29
بنام جانعالم
غواص دریائے ہمہ دانی مصلح کلیم ہمدانی اختر اوج حشم حضرت سلطان عالم زید اللہ جودہٗ و طبعہٗ
تمہاری فرقت سے دل بے تاب ہے اور چشم پُر آب ہے۔ گردش آسمان کُہن لیکن عجیب نیرنگ دکھاتی ہے۔ پاؤں کے تلے سے زمین سرکی جاتی ہے۔بے تمہارے سارے شہر میں پرا سنسان ہے، ویران ہر ایک مکان ہے۔ تقدیر کام بناتی نہیں کوئی تدبیر بن آتی نہیں۔ آج کل دریائے غم کا اٹھا طوفان ہے، بحرِ حباب سے مثلِ حباب مٹنے کا سامان ہے۔ آتشِ فراق کے بڑھنے سے آہِ سوزاں بلند ہے۔ مجمر ہجر پروانہ سویدائے دل پسند ہے۔ تمہاری صرصر جدائی سے گریبانِ زندگی چاک ہے اسیسے جینے پہ خاک ہے۔ اب طاقت بارے جدائی اٹھانے کی نہیں رہی ہے۔ آٹھوں پہر یہی دعاہے کہ خدا جلد تم کو یہاں لائے چاند سی شکل ہم کو دکھائے۔؎
پھر وہی چرچے ہوں پھر وہی باتیں
دن ہوں عشرت کے عیش کی راتیں
فاطمہ بیگم
22رجب 1273ھ


صفحہ 30
بنام جانِعالم
سوزِتپِ فرقت سے عجب رنگ ہیں دل کے
تحریر نہیں ہوتے ہیں جو ڈھنگ ہیں دل کے
آشنائے دریائے مونست و اخلاص شناور قلزم مصادقت مرزا جانِعالم بلکہ جانِ جہاں سے بڑھ کر سلطانِ عالم زید اللہ لطفہٗ
ترے فراق میں کیونکر یہ دردناک جئیے
مرے تو مر نہیں سکتا جئیے تو خاک جئیے
چرخِ ناہنجار مستعد آزار ہے۔ کوئی مونس ہے نہ غمخوار ہے۔ زندگی سے یاس ہے۔ جینے کی کسے آس ہے۔ دل میں درد ہے آہ سرد ہے۔ سینہ ماتم سرا ہے جسم خشک جگر ہرا ہے۔ جوشِ وحشت کی شدت ہے۔ جینے سے جی بیزار دنیا سے نفرت ہے؎
کاش کہ دو دل بھی ہوتے عشق میں
ایک رکھتے ایک کھوتے عشق میں
پیا جانِعالم جب سے آپ لکھنو سے سدھارے خواب و خور حرام ہے۔ رونا دھونا مدام ہے۔ یہاں شب و روز آہ و بکا میں گزرتی ہے۔ مگر دوسی میری ہم جنسیں خوش خوش اتراتی پھرتی ہیں۔ آپ کے بعد سے فرنگیوں کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔ نئی نئی باتیں سننے میں آ رہی ہیں۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 31
دل کو ہول ہے۔ دیکھئے فلک کیا رنگ دکھاتا ہے۔ گھانس منڈی میں مولویوں کا جماؤ ہے۔ سُنا ہے کہ ایک صوفی احمد اللہ شاہ آئے ہوئے ہیں۔ نواب چینا ٹین کے صاحبزادے کہلاتے ہیں۔ آگرہ سے آئے ہیں۔ یہ بھی سنا ہے کہ انکے ہزارہا مرید ہیں۔ پالکی میں نکلتے ہیں آگے ڈنکا بجتا ہوتا ہے۔ پہچھے اژدہام بڑا ہوتا ہے۔ وحشت ناک خبروں کی گرم بازاری ہے۔ سرکار سلطانِ عالم اپناحال لکھئیے۔ دل کو شاد کام کیجئیے۔
شیدا بیگم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب
جان جانِعالم نواب شیدا بیگم صاحبہ زاد حسنہا و جمالہا
دو تشفی نامے تمہارے انجم الدولہ بہادر نے نویں رجب کو لا کر دکھائے۔ دل شاد ہوا طبیعت میں قوت آئی۔ جان تازہ پائی۔ مگر اے جانی اب ہم وہ نہیں رہے۔ عشق و عاشقی سب مفقود ہے۔ رنج نے حالت تباہ کی۔ اٹھے تو نالہ کیا۔ بیٹھے تو آہ کی۔ ہم قلعہ فورٹ ولیم میں نظربند ہیں۔ لارڈلنگ صاحب کا میرے پاس بھی خط آیا کہ افسران آپ کے اعزاز مین فرق نہ کریں گے۔ مگر میری زندگی دشوار ہو رہی ہے۔ آٹھ دن بعدِ قلعہ میں


صفحہ 32
ایک کوٹھی ہے، اُس میں اُٹھ آئے۔ 23 آدمی ہمراہ ہیں۔ پرندہ تک پر نہیں مار سکتا۔ قید خانہ کے دروازے بند کر لئے گئے۔ ہمارا دم غھٹتا ہے۔ مجاہد الدولہ، مرزا زین العابدین، دیانت الدولہ، متدین الملک محمد معتمد علیخاں، امانت جنگ کمیدا ہر وقت پروانہ وار جاں نثار تھے۔ فتح الدولہ بخشی الملک ضعیفی کے سبب ثراغِ سحری تھے۔ وہ 82صفر 73ھ کو ہم سے رخصت ہو گئے۔ ہم کو کلفت میں چھوڑ کر خود راہی جنت ہو گئے۔
مہتمم الدولہ بہادر اور ذوالفقار الدولہ سید محمد سجاد علی رسالدار ہر وقت شریکِ درد و غم تھے۔ آخر مصیبت اور تکلیف سے عاجز آ کر اور اکتا کر مجھ سے جُدا ہونا شروع کیا۔ پہلے دیانتالدولہ نے کونسل سے عنبات عالیات جانے کی اجازت لی مگر اجازت ملتے ہی قلعہ سے چل دیا۔ مہتمم الدولہ نے پاگل بن کر ہر ایک کو گالیوں پر دھر لیا۔ مار پیٹ کرنے لگا آخر نکالا گیا۔ محمد شیر گولہ انداز نے باقر علی کی ناک کاٹ لی۔ سزا ہو گئی۔ جیل گیا۔ کریم بخش سقّہ تپ دق میں مبتلا ہوا۔ میں جان سے اجیرن ہوں۔
مرقوم دہم رجب 73 ھ
راقم جانِعالم


صفحہ 33
ایضاً
آشنائے دریائے اشنائی شناور بحر دل ربائی گوہر اکیل رفاقت جوہر جمیل صداقت محبوبہ ء دلنواز زید اللہ محبتہ
فلک نے تو اتنا ہنسایا نہ تھا
کہ جس کے عوض یوں رلانے لگا
محبت نامہ بدست محمد جان چوب دار ملا۔ ہم لوگ ابھی کلکتہ میں مقیم ہیں۔اعزاء کی جدائی، سلطنت جانے کا صدمہ، شہر و دیار کا چھٹنا، 14 شوال کو والدہ اور ولیعہد بہادر اور بھائی کو لندن روانہ کیا۔ اب صرف نواب خاص محل اور چار بیبیاں رہ گئیں۔ ابھی ابھی نواب نقی علی خاں اور منورالدولہ میرے پاس آ گئے ۔ گھبراؤ نہیں خدا پر نظر رکھو۔ مسبّب الاسباب ہے کوئی سبب ملانے کا نکالے گا۔
برجیس قدر کا خیال رکھنا ، رقیہ بانو کو دعا۔
بدقست اختر
نوٹ: شیدا بیگم واجد علیشاہ کی چہیتی محل تھی"حزن اختر" میں واجد علیشاہ نے شیدا بیگم اور ان کی نگین آرا معروف رقیہ بانو بیگم


صفحہ 34
کا ذکر کیا ہے۔
نگین آرا جو چوتھی شہزادی تھی
حقیقت میں گھر بھر کی آباد تھی
رقیہ ملائیں جو بانو سے ہم
لکھیں نام اس مہ کا اے ذی کرم
جو نواب پہلے تو بیگم ہے بعد
کھلا اس طرح مہر کا سعد نام سعد
یہ شیدا کی خالق نے امداد کی
یہ تھی والدہ اس پری زاد کی
خدا نے کی یہ شیدا بیگم پہ مہر
عنایت جو کی اس کو یہ حور چہر
برس تین کی یہ بھی تھی نیک ذات
ابھی منہ سے کرتی نہ تھی ایک بات
سنا یہ عدم کو گئی رشکِ ماہ
خبر یہ مجھے ملی ہے آہ آہ
بنام جانِعالم
اے شہنشاہ شہر حسن و جمال
ماہ تابانِ اوجِ فضل و کمال
گل شاداب گلشن خوبی
سرو آزادے باغِ محبوبی
حق سدا مہربان رہے تم پر
اور علیؑ کی اماں رہے تم پر
دردِ جگر سے کام تمام ہوا مرنا انجام ہوا۔ گریہ شعاری ہے عادت آہ و زاری ہے


صفحہ 35
وحشت سمائی ہے جنوں کی چڑھائی ہے ۔ دل کو اضطراب ہے جگر کباب ہے۔نہ چشم میں خواب ہے نہ جی کو تاب ہے
تپِ جدائی سے اب اس طرح نزار ہوں میں
نظر میں خلق کی رشکِ خطِ غبار ہوں میں
کبھی بُکا ہے کبھی ہنسی ہے۔ عجیب مصیبت میں طبیعت پھنسی ہے۔ غم و الم خوراک ہے ، وحشت کے زور میں گریباں چاک ہے۔ غلا ہے اور خنجرِ فراق ہے۔؎
بیتابی ء دل کسے دکھائیں
یہ دیدہ ء تر کسے دکھائیں
جانِ عالم خواب مین بھی نہیں آتے جب سے یہ معلوم ہوا کہ قلعہ میں قیام ہے۔ دل کو بڑی بے چینی اور ۔۔۔ آلام ہے۔
ایک وضع پر ہی نہیں ہے زمانے کا طورِ آہ
معلوم ہو گیا ہمیں لیل و نہار سے
یہاں نئے گُل کھلائے جا رہے ہیں۔ ھضرت محل آپکی محبوبہ سرکار سے جوڑ توڑ کر کے باغیوں کی سردار بنی ہیں۔نواب محمد علی خاں کے بہکانے میں آ گئی ہیں۔شوراپشتی دکھا رہی ہیں۔ دیکھئیے کس کل اونٹ بیٹھے۔
وہ خوش ہوویں کہ جن کو طاقتِ پرواز ہے
شیدا بیگم
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 36
فاطمہ بیگم کے نام
رشکِ بدر، مژتری قدر، زہرہ جمال، مہرِ مثال، حور نژاد، پری نہاد، گل رو، سمن بو، انیس و ہمدم، خوبی ء مجسم، نواب فاطمہ بیگم صاحبہ۔ اسم بامسمٰی رہو۔ مکتوب محبت اسلوب غرہ ء شعبان کو منشی صفدر کی معرفت نشاط بخش غرہ ء شوال ہوا۔ دل غمزدہ دولتِ خرمی سے مالا مال ہوا۔ شوقِ وصال دوچند ہوا۔ ذوقِ بوس و کنار سے دل دردمند ہوا۔ جامع المتفرقین کہیں اس عذاب سے نکالے۔ مریضانِ فراق کو شربتِ وصال سے سنبھالے۔ پھر اسی طرح ہمارا تمہارا ساتھ ہو۔ ہمارے گلے میں تمہارا اور تمہاری گردن میں ہمارا ہاتھ ہو۔
مرقوم چہارم شہر شعبان 1273ھ
راقم جانِعالم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
چراغ ودودمان خیر و سعادت، شمع شبستانِ محبت و صداقت اختر آسمانِ کرم حضرت جانِ عالم زید اللہ نور جمالہٖ


صفحہ 37
محبت نامہ مہر شمامہ مرقوم نہم ماہِ رجب کا معرفت منشی صفدر جلوہ گر ہوا۔ روشن سارا گھر ہوا۔ خورشیدِ مضمون گردونِ صفحہ ء نیلگوں سے طلوع ہوا۔ دیدہ ء غم دیدہ ء منور ہونے لگا۔ جب دیکھنا شروع کیا سبحان اللہ کیا اچھی عبارت تھی ماشاء اللہ کیا فصاحت تھی۔ ہر فقرہ گقہرِ شاہوار تھا، تسکین بخش دلِ بے قرار تھا۔ تمہاری تحریر کیا خوب ہے تقریر تمہاری دل کو مرغوب ہے۔ جدائی سے حال بہت غیر ، ناچار درپیش ملکِ عدم کی سیر ہے۔ جب تمہارا خط آتا ہے دل تھوڑی دیر آرام پاتا ہے۔پھر بدستور ہوتی ہے بیقراری چشمہ ء چشم رہتا ہے جاری۔ اب جامع المتفرقین وہ دن لائے کہ تم کو ہم سے جلد ملائے۔ فقط
منور بیگم
بست و ہشتم شہر رجب 1273ھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بنام فرخندہ محل
زینت بخش چار بالش محبت، رونق افزائے بساطِ الفت نواب فرخندہ محل صاحبہ جمال با کمال ہمیشہ روز افزوں رہے۔
محبت نامہ تمہارا بیچ تاریخ 23 رجب کے معرفت منشی صفدر کے


صفحہ 38
آیا۔ کاشفِ حالات مندرجہ ہوا۔ خبر صحت اثر قراردہ خاطر مضطر ہوئی۔ ۔ اس نامے سے بو محبت کی آئی۔ تسکین خاطرِ پریشان نے پائی۔ تم نے لکھا ہے خط آنے سے عید ہوئی۔ جانَ عالم کی عید تو اس دن ہو گی جس دن ہم تم ملیں گے۔ دیکھئیے خدا وہ دن کب دکھاتا ہے اور وقت کب آتا ہے۔؎
بہ بینم کہ ناکرد گار جہاں
دریں آشکارا چہ دار و نہاں
لازم ہے کہ دعا سے غافل نہ رہو۔اور نظر اس کے فضل پر رکو۔ کیا خبر کہ مدتِ مہاجرت تمام ہو چکی ہو اور زمانہ ء سرور و مدتِ انبساط قریب پہنچی ہو۔ خدا شاہد ہے کہ اب تابِ مفارقت نہیں رہی۔
محبوب کے مقدمہ میں جو لکھا تھا ہم جانتے تھے۔ تم فہیم ہو ہو خوش ہو گی۔
مرقوم بست و پنجم رجب 1273 ھ
راقم جانِعالم اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
تازگی بخش گلہائے محبت ، رونق افزائے بوستانِ مودت


صفحہ 39
دافع درد و الم حضرت جانِعالم زید اللہ عشقہؑ
محبت نامہ تمہارا دلوں سے پیارا مانند فصلِ بہار کے آیا، خانہ ء ویران ہمارا رشکِ گلزار فرخار بنایا۔ دور سارا غم و ملال کیا ہم کو اس نے نہال کیا۔ باعثِ آرام دل آژفتہ ہو ۔ غنچہ ء طبیعت شگفتہ ہو۔ سبحان اللہ کیا خوب مضامین رنگیں تھے کہ گلہائے مضامین کی خوشبو سے معطر دماغ ہوا، سینہ خوشی سے باغ باغ ہوا۔گھڑی دو گھڑی تو بے کلی دور ہوئی۔ پھر وہی حالت بدستور ہوئی۔ رنج و محن میں چمن چمن ہوں صورتِ بلبل نعرہ زن ہوں
سر مو نہیں اس میں کچھ فرق ہے
مرا دل تیری چاہ میں غرق ہے
اب بحر ہے آنسوؤں کا رواں
روانہ ہوا صبر کا کارواں
تمہاری فرقت میں یہ میرا عالم ہے
دل مضطر ہے چشم پُرنم ہے
گرچہ من لیلے اساسم دل چو مجنوں در ہواست
سر بصحرا میزنم لیکن حیا زنجیر پاست
راقم
مطلوبہ ء جانِ عالم کنیز فاطمہ بیگم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ 40
پیا جانِعالم
پہلے تو خون نکلتا تھا اشکِ سیاہ سے
اب لختِ دل ہی آتے ہیں آنکھوںکی راہ سے
علسِ آئینہ، اختصاص نقش و نگار خانہ ء اخلاص ملاح دریائی آشنائی و دلبری غواص لجہ ء وفا پروری و مہر گستری مادام گوہر مراد ہمکنار باد
جانِ عالم تمہارا محبت نامہ آیا۔پیامِالفت پایا۔ حال نواب خاص محل کے چلے آنے کا معلوم ہوا۔ تمہارا ہاتھ باندھ کے سمجھانا مفۃوم ہوا۔ وہ تو اسی نہیں بے وفا تھیں تم پر ہزار جان سے فدا تھیں مگر بے سبب وہ تم کو چھوڑتی ہیں اور بے وجہ منہ موڑتی ہیں۔ کچھ تو انھوں نے رنج پایا جو چلا آنا یہاں کا پسند آیا۔ جو تم نے لکھا کہ لعن اللہ علٰے اہلِ ہندوستان اس لکھنے کے وقت تمہارا دھیان تھا کہاں کہ سکان ہند کیسے کیسے اور شہروں میں لوگ ایسے ایسےہیں۔ علی الخصوص لکھنو میں کس کس طرح کے دیندار ہیں صد ہا عالم و فاضل اور مفتی و ابرار ہیں۔ہرچند بدکار بھی بے شمار ہیں لیکن ان میں کچھ عقلمند ہیں کچھ ہوشیار ہیں۔
چنانچہ بقول شخصے
نہ ہر زن زن است نہ ہر مرد مرد است
خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 41
مگر اس مقام پر قطعہ ء سعدی نے قطع کلام کیا لٰہذہ یہ نامہ اس پر تمام کیا
چو از قومے یکے بے دانشی کرد
نہ نکہ را منزلت باشد نہ مہ را
نمے بینی کہ گاؤ در علف زار
بیا لاید ہمہ گاواں دہِ را
محبوبہ جان عالم، فرخندہ محل
دہم رمضان 73 ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام امراؤ محل
جانِ جان عالم بانی ء جوروستم گلخانِ عالم کے کعبہ ء اعلیٰ نواب امراؤ محل صاحبہ!
بادہ ء حسن و لازوال سے سرشار اور عنبر گیسوئے مشکیں تمہارا غیرت دہ چین و تاتار رہے۔ کاہژِ تن سے غیرت ہلال ہوں صدمہ ء مفارقت سے بدرجہ ء کمال ہوں ۔ امید فصلِ بہار نے نیا رنگ واللہ دکھایا ہے۔ بادِ صرصر نے آہِ آتشیں سے غنچہ ء وحشت کھلایا ہے۔ تمہارا بلبل گل رخسار یعنی اختر جگر افکار ہوش و حواس سب بھولا ہے۔کلیجہ منہ کو آتا ہے

صفحہ 42
جنون اپنا زور دکھاتا ہے۔ اے مسیحا دل بیمار ہمارا کیا کرے کسی نوع جاں زار بغیر شربتِ وصل آرام نہ پائے گی۔ تمہیں بتاؤ مشتاق تمہارا کس طبیب کی دوا کرے۔ اے قلم سینہ ء چاک وائے خامہء دیدہء غمناک تیرا کدھر خیامل ہے۔ تحریر داستانِ فراق محال ہے۔ لکھنا جواب خط کا مطلوب ہے یہ بات دل کو مرغوب ہے۔ دیباچہ نشاط یعنی خط مسرت ارتباط تمہارا 18 شعبان کو انجم الدولہ کی معرفت آیا۔ اس کے مضمون کو اپنے زخمِجگر کا مرہم بنایا۔ جب تک حصولِ مواصلت نہ ہو خط و کتابت میں غفلت نہ ہو۔ زیادہ شوق ست و بس باقی ہوس۔
20شعبان 1273ھ
راقم خستہ جگر جانِعالم اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جان جاں بیگم
مجنوں کا دل ہوں محملِ لیلیٰ سے ہوں جدا
تنہا پھروں ہوں جرس میں جوں نالہء جرس
دوائے دورد منداں و اتحاد شفائے مشمندان ہمیشہ بامراد رہو۔
لکھنو کی حالت سلطانَ عالم کے بعد سے تباہ وبرباد ہو رہی ہے۔

صفحہ 43
نئے نئے فتنے اٹھ رہے ہیں،کوئی سر دھرا نہیں ہے۔ متوحش خبریں اڑتی ہیں۔ دل ہول کھاتا ہے، دیکھئے کیا کیا فلک رنگ دکھاتا ہے۔ لکھنو میں تلنگو نے اودھم مچا رکھی ہے۔ فیض آباد سے مولوی احمد اللہ شاہ نے آ کر ان کی لوٹ مار کم کی ہے اور جگہ جگہ اپنے چوکی پہرےبٹھا دئیے ہیں۔ بہت سے سرپھرے ان کے خیرخواہ ساتھ ہیں۔ ادھر سلطانِ عالم کے خیر خواہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کا تخت خالی نہ رہے۔ مرزا دارا سطوت کو بادشاہ بنانے کی تجویز ہے۔ 3 لاکھ نذرانہ طلب کیا تھا مگر وہ کہنے لگے نواب شجاع الدولہ انگریزوں سے مقابلہ نہ کر سکے ہم کیا کر سکتے ہیں۔راجہ جواہر سنگھ خلف درشن سنگھ نواب خاص محل کی ڈیوڑھی پر آ کر کہنے لگے مرزا نوشیواں قدر کو مسند نشین ریاست کر لیں۔ شمشیر الدولہ داروغہ نے کہا وہ لڑکا سب طرح معذور ہے اور نواب خاص محل اور بادشاہ کی منظوری بغیر کیسے یہ کام ہو سکتا ہے۔ محمود خاں اور شیخ احمد حسین نے راجہ مان سنگھ و جواہر سنگھ سے مرزا برجیس قدر کے واسطے کہا۔ اس نے یہ جواب دیا فوج کو یہ منظور ہے ۔ بیگمات محل شاہی راضی ہوں تو البتہ ممکن ہے۔ اس وقت محمود خاں راجہ کو اپنے ساتھ لائے۔ میر واجد علی کو بلایا۔سب بیگمات جمع ہوئیں۔ بعض نے کہا واجد علی شاہ کے ہوتے ہوئے کسی کو بادشاہ نہ بناؤ شگونِ بد ہے۔ میں بھی یہ سن رہی تھی۔ بعض بولیں

صفحہ 44
کہ سلطانِ عالم کا بیٹا ان کے سامنے تخت پر بیٹھ رہا ہے اور باپ کو تاج و تخت دلانے کا سامان کر رہا ہے۔ حضرت محل نے سب سے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ یہ لڑکا تمہارا ہے جیسا تم مناسب حال جانو، نواب خرد محل نے از راہِ فراست کہا کہ اگر ہم تمہارے راضی نامہ پر مہر کر دیں، کلکتہ میں انگریز واجد علیشاہ کو مار ڈالیں تو کیا ہو۔ راجہ رخصت ہو کے چلا گیا حضرت محل مایوس ہوئیں مگر محمود کے تل تلوؤں کو لگی ہوئی تھی ، اس نے حضرت محل سے فوج کے سرداروں کو خط بھجوا دئیے۔ 12 ذیعقد روز یک شنبہ 1273 ھ اتفاقاً پانی شدت سے برس رہا تھا۔ راجہ معہ افسرانِ فوج قصر الخان میں آ کر بیٹھے۔ مرزا رمضان علی خان المقلب مرزا برجیس قدر تامجان سواری حضور عالم پر سوار آئے اور مسند جلوس جنت آرام گاہ پر آ کر بیٹھے۔ کسی نے کہا چھوٹا ہے کسی نے کہا عیش و عشرت میں محو ہو کر غافل نہ ہو جائے۔ آخر کار شہاب الدین اور سّید برکات احمد 15 رسالے کے رسالدار نے اٹھ کر مندیل مرزا برجیس قدر کے سر پر رکھ دی۔ مبارکباد دی گئی۔ افسروں نے تلواروں کی نذر دکھائی۔ جہانگیر بخش صوبہ دار توپ خانہ فیض آباد نے 21 توپ کی سلامی سر کی۔ شہر میں ایک غلغلہ ئ مسند نشینی ہوا۔ گرمی کی شدت تھی۔ مرزا برجیس قدر داخل محل ہوئے۔ گھمنڈی سنگھ صوبیدار کلماتِ لا طائل بکتا رہا۔ نائبِ دیوان حسام الدولہ کو بنانا چاہا۔
صفحہ 45
مگر وہ رضامند نہ ہوئے۔شہنشاہِ محل نے مفتاح الدولہ سے کہا وہ بھی تیار نہ ہوئے تو نواب شرف الدولہ محمد ابراہیم خاں کی تجویز ہوئی۔ ممّو خاں بگڑ بیٹھے۔ پھر صفاءی ہو گئی۔ جناب عالیہ کو گیارہ اشرفی نذر دی گئی۔ نواب حسام الدولہ نے اٹھ کر بیگم صاحبہ کے ہاتھ میں رکھ دیں۔ سّید برکات احمد قاسم جان نے ان کی تعریف کی۔ برجیس قدر نے دوسرے دن خلعت نیابت عنایت کیا۔ خلعت دیوانی مہاراجہ بال کرشن کو عطا کیا۔ تیسرا خلعت کوتوالی مرزا علی رضا بیگ چوتھا میر یاور حسین مہتمم روند کو ، پانچواں خلعت جرنیلی حسام الدولہ بہادر کو ۔ پھر تمام نے مرزا برجیس قدر اور حضرت محل کو اور شہنشاہِ محل کو نذریں دیں۔ داروغہ دیوانِ خاص ممو خاں، علی محمد خاں بہادر روانہ ہوئے۔ منشی کچہری خاص امیر حیدر داروغہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ میر واجد علی اخبار ملکی محمد حسن داماد نواب شرف الدولہ کو دیا گیا۔ جرنل حسام الدولہ کو حکم بھرتی 13 پلٹن نجیب کا ہوا اور انگریزوں سے لڑائی شروع کر دی۔ بیلی گارد پر حملہ کر دیا جہاں انگریز جمع ہیں۔ مولوی احمد اللہ شاہ نے بڑی بہادری کی۔ بیلی گارد کے پھاٹک تک پہنچ گئے۔ مگر کوئی اور ساتھی نہ تھا۔ زخمی ہو کر لوٹ آئے۔ میں محلات سے اٹھ کر شہر آ گئی ہوں۔ یہ میرا خط جانِعالم تک پہنچا دینا۔ وہ قلعہ میں نظربند ہیں۔ میرے نام بھی خط آیا تھا۔ بمشکل ملا۔
فقط
سرفراز بیگم لکھنو
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 46
بنام حضرت جانِعالم
کیا لکھوں ادبت بے رحم تری دوری ہے
کونسا دن تھا کہ میں دیدہء گریاں نہ ہوا
جوہر تیغ ناز ونیاز قطرہء سبغ غمزہ و انداز ہمیشہ گلشن خوبی شاداب رہو۔
جانِعالم ایک سال ہو گیا۔ سب چہیتوں کو نوازا۔ مجھ نگوڑی کو کبھی بھول کے بھی پرزہ ء کاغذ سے نہ کیا خوش افزا۔ یہاں دن رات آتشِ فراق میں گحل رہی ہوں۔ وہاں بے خبری وہ ہے جو جان رہی ہوں۔
آتش بھری ہوئی ہے مرے جسمِ بیزار میں
پارے کا ہے خواص دل بے قرار میں
ہم ہیں اور غمِ دلدار ہے۔ سینہ ہے اور آہِ شرر بار ہے۔ محلات میں برجیس قدر کو دیکھ لیتی ہوں۔ دل شاد کر لیتی ہوں۔ تمہاری پھبن اس میں پوری ہے۔ صورت بھی باپ کی سی گوری ہے۔اللہ حضرت محل کی کوکھ کو ٹھنڈی رکھے۔ مجھ پر وہ مہربان ہے مجھ کو بھی پیارا دل و جان ہے۔ کل اس کی گیارہویں سالگرہ تھی۔ یہ تو سنا ہو گا کہ وہ


صفحہ 47
تخت نشین ہے۔ تمام لوگ اس کے فدا کار ہیں۔شب میں رقص و سرود کی محفل تھی۔ ایک طوائف نے غزل پڑھی۔ ایک شعر یاد ہے
غیرتِ مہتاب ہے برجیس قدر
گوہرِ نایاب ہے برجیس قدر
خدا نظرِ بد سے لاڈلے کو بچائے، دشمن کا منہ کالا ہو جائے۔ سنتے ہیں موسمِ خزاں جا چکا اب بہار آئی ہے۔ بلبلوں نے گلستاں میں خوشی مچائی ہے۔
اپنی تو یہ حالت ہے کہ جوں بلبل ِتصویر پرواز کی طاقت نہیں اور یاس چمن ہے
جانِ عالم اپنی خیریت سے اطلاع دیجئے اور سوزِ مہجوری سے نجات دیجئیے۔
موت سی اب تو زیست ہے کہ بہت
دردِ دل کا علاج کر دیکھا
جیتے جی موت کی سی لذت کو
خوب دیکھا کہ تجھ پہ مر دیکھا
یاسمن محل


صفحہ 48
بنام سرفراز محل پنج والی
شعلہ ء برق دوری نائرہ ء نار مہجوری۔ آتشِ حسن دوبالا ہو جیو۔
وہ کون ہے جو مجھ پہ تاسّف نہیں کرتا
پر میرا جگر دیکھ کہ میں اف نہیں کرتا
یہاں کا حال کیا لکھوں دل بے قرار ہے۔ سینہ فرطِ نالہ سے رشکِ رباب ہے۔لکھنو سے میرے ساتھ پانچ سو آدمی آئے تھے۔ موچی کھولا میں مقیم ہیں۔ ولیعہد بہادر کی ماں ملکہ ء خاص محل جرنیل کی والدہ ملکہ ء ملک عالیجناب تاج النساء بیگم تیسرا محل محبوبہ خاص ملکہء عاشق نما جان ضاں بیگم ہے۔ یہ آج کل بیمار ہے۔ خدا اس کو شفا دے۔ محل چہارم بڑی بیگم عاشقِ سلطان ممتاز عالم قیصر بیگم نہ منکوحہ تھی نہ ممنوعہ۔ صرف دوستی میں چلی آئی تھی۔ اس نے خرچ کو مانگا/ گیارہ ہزار روپے دئیے۔ وہ روپیہ پاتے ہی کلکتہ سے چل دی۔ پنجم خستہ محل ششم ممنوع جعفری بیگم عجیب چلبلی طبیعت ، نازک مزاج، کھلنڈری، چنچل، جنگجو، تندخو، تیغ زبان۔ درشت کلام، ہمکو قلعہ ولیم میں اکثر گلوریاں بھیج دیا کرتی ہے، وہ ایسی محبوب تھی کہ ایک دم نظر سے جدا نہ ہوتی تھی یا مہینوں سے اس کے فراق میں تڑپتا ہوں۔ اس کے غم سے دل پانی پانی ہو گیا۔ غنچہ ء دل کملا گیا۔ دل ہزار سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ صبا بھی ہم قیدیوں کی پیغامبری نہیں کرتی


صفحہ 49
ہر طرف پہرا ہے ہر طرف یاس ہے۔ دو رفیق ہیں۔ ایک خوف دوسرا ہراس۔ ایک قید خانہ میں ہم پڑےہوئے ہیں۔ چاروں طرف حراست ہے۔ ہمارے ساتھ اٹھارہ آدمی مصیبت جھیل رہے ہیں۔ ہر ایک اپنے جینے سے بیزار ہے۔ قیدِ غم میں گرفتار ہے۔ بہشتی و خاکروب آتے ہیں ان کے ساتھ ایک ایک گورا بھی آتا ہے۔ مجال کیا جو منہ سے بول سکے۔ قید خانہ کی کوٹھی بہت وسیع ہے۔ مگر میرے کس کام کی۔ ہر وقت دروازے بند گرمی سے دل تنگ ہے اور پریشان ہوں حالت تباہ ہے۔ جب دروازے کھلتے ہیں تو دھوپ کی شدت سے جان بیزار ہوتی ہے۔ کئی مرتبہ لاٹ صاحب کو شکایتی خطوط بھیجے مگر کسی کا جواب نہیں آیا۔ تم خدا کا شکر کرو ۔ آزاد ہو اپنی نیند سوتی ہو۔کوئی پوچھنے والا نہیں۔شیدا بیگم کا خط آیا تھا اس کا جواب لکھ دیا ہے۔ اس کو ملا بھی ہو گا یا نہیں۔ ؎
وہ بُلبُل مردود بہار اور خزاں ہوں
جس کا کہ ٹھکانہ نہ چمن میں نہ قفس میں
کیا ہے اختر بے پر کو اس نے مکر سے قید
کہیں بھی ہوتا ہے ایسا شکار کا اسلوب
راقم جانِعالم



صفحہ 50
بنام اختر محل
فلک تو نے اتنا ہنسایا نہ تھا
کہ جس کے عوض یوں رلانے لگا
ملکہ ملک خوبی پشت پناہ ولایت محبوبی ادام اللہ جمالہا و اقبالہا
میری ملکہ عالم، رفیق سلطان عالم لکھنو کی حالتِ زار جانِعالم کے لئے لکھ رہی ہوں۔ یہاں کا حال دگرگوں ہے، بُرا شگوں ہے۔
ایک دن مشہور ہوا کہ کل یا پرسوں فوج بیلی گارد پر دھاوا کرے گی۔ صاحبان محصور کو زیرِ تیغ کرے گی اور وہاں کی زمین کو کھود کر برابر کر دے گی۔ یہ خبر گوش زد صاحبات محل ہوئی۔ آپس میں کہنے لگیں کہ جس وقت یہاں سب کو قتل کیا تو کیا جتنے کلکتہ میں ہیں ان کی جان کاہے کو رہے گی۔ ایک نے کہا ہم تم ہی نہ بچیں گے کس واسطے کہ فرنگیوں کا جال مثل گھاس کی جڑ کے ہے۔ جتنا کاٹو اتنا ہی بڑھتی ہے۔ غرض کہ نواب فخر محل بندی جان ، نواب سلیمان محل، نواب شکوہ محل، نواب فرخندہ محل، یاسمین محل، محبوب محل اور کئی محل جمع ہو کر حضرت محل سے کہنے لگیں اور نواب خورد محل اور نواب سلطان جہاں محل ان کی شریک تھیں۔کہا کہ تم سب اچھی طرح رہیں تمہارا بیٹا بادشاہ ہوا مبارک مگر ہم سب بے وارث
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 51
ہوئی جاتی ہیں۔کل فوج کا یہ ارادہ سنا ہے۔ اب تمہیں انصاف کرو۔ پھر بادشاہ اور محلات وغیرہ جتنے کلکتہ میں ہیں زندہ بچیں گے یا سب پھانسی دئیے جائیں گے۔ ایسی سکطنت کو چولہے میں ڈالو، جناب عالیہ نے برہم ہو کر جواب دیا۔معلوم ہوا تم سب ہمارا برا چاہتی ہو۔ بلکہ اس سلطنت کے ہونے سے جلتی ہو۔ غرضیکہ ایسی جلی کٹی ہوئی جناب عالیہ برجیس قدر کو لے کر اور دالان میں چلی گئی۔ یہ خبر افسروں کو لگ گئی۔ مفتوح الدولہ وغیرہ حضرت محل کے پاس آئے اور کہا محلات فرنگیوں سے ملے ہوئے ہیں نکال باہر کرو۔وہ بولیں صبر سے کام لو۔ دوسرے دن بیلی گارد پر حملہ کرنے چلے مگر پہلے شہر پر ہاتھ صاف کیا۔ لوٹ مار کی۔ برجیس قدر نے خود گھوڑے پر بیٹھ کر تلنگو کو بلوا کر کہا ۔ بہادرو ہم تم سے بہت خوش ہوئے۔ خوب لڑتے ہو مگر رنج یہ ہے کہ تم شہر کو لوٹتے ہو۔ سب رعایا بد دعا کرے گی۔ افسروں نے دست بستہ عرض کی۔ جناب عالی اب شہر نہ لٹے گا۔ اور دلّی سفیر روانہ کیا کہ حضور بہادر شاہ سے سند مسند نشینی کی لی جائے۔ میں نہیں سمجھتی تھی کہ حضرت محل ایسی آفت کی پرکالہ ہے۔ خود ہاتھی پر بیٹھ کرتلنگوں کے آگے آگے فرنگیوں سے مقابلہ کرتی ہے۔ آنکھ کا پانی ڈھل گیا ہے۔ اور اس کو ہراس مطلق نہیں ہے۔ عالم باغ پر بڑا مقابلہ رہا۔ احمد اللہ شاہ سے بھی حضرت محل مل لی۔ ہر دو نے بڑی جانفشانی دکھائی۔ مگر قسمت کو

صفحہ 52
کیا کرے۔ 22 دسمبر 57 ء کا روز تھا۔ فرنگی سردار جنرل راوٹرم اور جنرل ہولے لاک مقابل تھے۔ 40 ہزار فوج یہاں جمع تھی ۔ پانی بڑے زور کا برسا۔ تاریکی ہو گئی۔ فرنگیوں کے توپ نے اور گولے برسائے۔ تلنگے پلٹے۔ ممو خاں اور اشرف الدولہ نے ہٹ کر ناکہ ء چار باغ لیا۔ راجہ مان سنگھ نے بڑی بہادری دکھائی۔ نو ہزار جمیعت سے ایسا مقابلہ فرنگیوں کا کیا کہ ان کے دل چھوٹ گئے۔ شام ہو گئی تھی۔ جناب عالیہ نے راجہ مان سنگھ بہادر کو جاں فشانی و جاں بازی پر خطابِ فرزندی دیا۔ خلعت دوشالہ رومال اور ملبوس خاص دوپٹہ عنایت کیا اور بہادری کی بڑی تعریف کی۔ مگر یہ سب تدبیریں الٹی رہیں۔ آخرش ہم کو شکست اٹھانا پڑی۔ کانپور سے نانا راؤ پیشوا آیا۔ دلّی سے جنرل بخت خاں روہیلہ یہ رشتہ دار ملکہ خاص کا ہے۔ شاہزادہ فیروز شاہ آئے۔ احمد اللہ نے بڑیہ بہادری دکھائی، سب نے منہ کی کھائی۔ فرنگیوں نے جان توڑ کر تلنگوں کو پسپا کیا۔ قیصر باغ کے محلات پر گولے گرے۔ بیگمات بھاگیں۔ بڑی افراتفری تھی۔ خدا وہ دن دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ پا برہنہ سراسیمہ پریشان حال دامن بڑے پائچوں کے اپنی پتلی کمروں سے باندھے ہوئے پاندان اور بیش قیمت اشیاء ساتھ لئے بھاگتی پھرتی تھیں۔ جناب عالیہ سراسیمہ پریشان پا پیادہ مع صاحبات محل اور شاگرد پیشہ غول عورات ملازمین

صفحہ 53
باغ کے کوٹھوں پر سے گھسیاری منڈی کے پھاٹک سے باہر نکلیں ۔ حلقہ ء عورات صف بستہ ان کے بیچ برجیس قدر ایک سید کی گود میں کندھے سے چمٹے ہوئے اور غالیچہ اور چاندنی رفع احتمال کو ڈالے ہوئے جس نے راہ میں قافلہ ء ناموس شاہی کو دیکھا بے اختیار رونے اور پیٹنے لگا۔ یہ انقلاب کا زمانہ تھا۔ بہرحال گلیوں میں گرتی پڑتی ٹیلہ شاہ پیر جلیل سے گزر کر پُل مولوی گنج میں جواہر علی خاں کے یہاں پہنچے۔ وہاں سے پینس میں سوار ہو کر غلام رضا خاں کے گھر اتریں پھر شرف الدولہ کے یہاں گئیں۔ رات کو شاہ جی کے مکان میں ٹہریں۔ جنرل اوٹرم نے کہلا بھیجا کہ تم اپنے محل میں آرام سے رہو۔ ہم باغیوں کو نکال کر تمہارا احترام کریں گے۔ حضرت محل نے مصیبت اٹھا کر ہمت نہیں ہاری۔ 29 رجب 47 ھ کو قریب شام معہ برجیس قدر پینس میں سوار ہو کر ناکہ عالم باغ کی طرف سے معہ ممو خاں گھوڑے پر سوار لکھنو سے روانہ ہو گئیں ۔ راستہ میں راجہ مردن سنگھ زمیندار تمردی سے پیش آیا ۔ مولوی عماد الدین دیوی عرف مولوی محمد ناظم بسوان باڑی تین کوس سے استقبال جناب عالیہ کے لئے آئے۔ بڑی دھوم نقارہ و نشان جلوس سوار سے مرزا بندہ علی بیگ کے امام باڑے میں اتارا۔ راہ میں فقراء کو دو ہزار خیرات کئے۔ جب داخلِ شہر ہوئیں توپیں سلامی

صفحہ 54
چلیں۔ وہاں صلاح ہوئی کہ بریلی چلیں۔ چنانچہ یہ قافلہ آگے کو روانہ ہو گیا۔ میری چھوکری یاسمین ساتھ تھی وہ لوٹ ائی۔ اور اس نے سب حال کہا جو جانِعالم کو سنانے کے لئے تم کو لکھ رہی ہوں۔ اب یہاں فرنگیوں کا معاملہ مولوی احمد اللہ شاہ سے ہو رہا ہے۔ دیکھئیے کیا انجام ہو۔ میں بھی اپنی بھانجی کے یہاں خیر آباد جا رہی ہوں دیکھوں یہ خط میرا پہنچے ہے یا نہیں۔۔۔ مفتاح الدولہ کے آدمی کے ہاتھ بھیجتی ہوں۔ وہ یہاں سے بھاگ کر کلکتہ جا رہا ہے۔
سرفراز بیگم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
انیس و ہمدم جانِعالم ابقاء کم اللہ تعالیٰ بعد اشتیاق وصال نواب شیدا بیگم کا ظاہر ہو۔
بیتابی ء دل کسے سنا ئیں
یہ دیدہ ء تر کسے دکھائیں
مدت سے خبر فرحت اثر نہیں پائی۔ پریشانی بے شمار ہے اور روز روشن ہماری نظروں میں شب تار ہے۔ حافظ حقیقی صحت و عافیت سے

صفحہ 55
تم کو اپنی حفظ مدام رکھے اور یہ جدائی درمیان سے جد ا علی الدوام رکھےحال میرا یہ ہے
مل گئے خاک میں یہ پھل پایا
تخمِ غم کشتِ دل میں بو بو کے
آپ کے جانے کے ایک سال بعد وہ وہ بلوائے عام ہوئے وہ وہ مصیبتیں آئیں جو خدا دشمن کو بھی نصیب نہ کرے۔ حضرت محل نے ایسی بہادر دکھائی کہ دشمن کے منہ پھر پھر گئے۔بڑی جی دار عورت نکلیں۔ سلطان عالم کا نام کر دیا کہ جس کی عورت ایسی جو مردانہ وار مقابلہ کر سکتی ہےتو اس کا مرد کیسا بہادر اور شجاع ہو گا۔ جب ہی خوف سے حضور کو آنکھوں آنکھوں میں رکھا۔ نواب سرفراز محل نے مفصّل حالات لکھ بھیجے ہیں۔ تکرار لا حاصل ہے۔ جانِعالم فرنگیوں نے بڑی بےدردی سے حضرت باغ پر کچھ گولے برسائے۔ محلات کے ساتھ میں بھی جان لے کر بھاگی۔ سب سامان حضرت باغ میں چُھٹ گیا اور جو کچھ بچ رہا تھا وہ سب مسافرت میں لُٹ گیا۔ اب سردست یہ حال پہنچا ہے کہ جب کسی سے نہیں کچھ قرضہ بہم پہنچتا ہے تو نوبت فاقہ کشی کی آتی ہے۔ دیکھئے قسمت کیا دکھاتی ہے۔ خدا کے واسطے جس صورت سے بنے ہم کو اپنے پاس بلاؤ۔ اور اگر نہیں تو جس طرح ہو گا میں خود چلی آؤں گی۔ یہ صدمہ کہاں تک اٹھاؤں گی۔اور اے جان عالم حال
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 56
میرے والدین کی غربت کا تم پر ہویدا ہے۔ نہ وثیقہ ہے نہ وظیفہ۔ جب شہر کے لوگوں کے ساتھ میں بھی بھاگی والدین اور ہمشیر کے ساتھ ہی پیدل ننگے سر کرسی تک پہنچے وہاں نگین آرا بیگم کو بخار آیا ۔ تین روز وہاں مقام ٹہرایا۔چوتھے دن وہاں سے سب بھاگے میں بھی بڑھی آگے۔آکر رفتہ رفتہ تقدیر ہم کو مسیبت کی جگہ لے گئی۔ یہ صدمہ گم ہم کو دے گئی۔ راہ میں نہ دوا میسّر ہوئی کچچھ نہ اس کو افاقہ ہوا گرمی سے سر کا تڑاقا ہوا سترھویں رمضان کو اس نے انتقال کیا ہمارا غیر حال کیا اب تک جب صورت یاد آتی ہے ٹکڑے چھاتی ہو جاتی ہے۔ جی چاہتا ہے اپنے تئیں ہلاک کروں، گریبان اور کسوتِ حیات چاک کروں۔ ناچار ہوں اگر اس طرح موت نہ ہوتی حرام تو میں کرتی اپنا کام تمام؎
ہمیشہ آگ نکلتی ہے اپنے سینے سے
الٰہی موت دے گزری میں ایسے جینے سے
جان عالم سوگند خدا اور رسول تم اس کو پڑھ کر نہ ہونا ملول۔ تم بھی بڑے بڑے صدموں میں مبتلا ہو موردِ آفت و بلا ہو۔ سلطان بیگم بھی قضا کر گئیں۔ ہر چند دل پارہ پارہ ہے مگر مرضی خدا سے کیا چارہ ہے۔ سیّد علی واجد سے حال تمہارا استفسار کیا انھوں نے خیریت کا اظہار کیا۔

صفحہ 57
اب قسم تم کو ہمارے سر کی، جواب اس کا جلد بھیجو اپنی خیریت سے آگاہ کرو۔
صفر 1274 ھ
شیدا بیگم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانعالم ابوالمنصور ناصر الدین سکندر جاہ بادشاہ عادل قیصر زمان سلطانِعالم واجد علیشاہ
اے خسرو خوش جمال میرے!
اے دلبر ذی کمال میرے!
اے میرے انیس میرے جانی
تم پر رہے حق کی مہربانی
اے میرے وفا شعار دلدار
خالق نہ کرے تمہیں دل افگار
اے شعلہ ء حسن عالم افروز
عشرت ہو نصیب تم کو ہر روز

صفحہ 58
انیس و ہمدم جان عالم زاد محبتہ
بہت عرصہ سے خیر خیریت تمہاری نہیں پائی۔ طبیعت بہت گھبرائی۔ حافظ حقیقی تم کو صحت و عافیت سے رکھے۔ حال گردش لیل و نہار سے بہت پریشان ہے۔ لبوں پر جان ہے۔ جب سے محلات کے ساتھ نکلی شہزادی کو لئے ننگے پاؤں چلی۔ راستے میں سب سے مفارقت ہوئی۔ بدشواری تمام سعادت گنج پہنچنے کی نوبت ہوئی۔ وہاں بڑی تلاش سے ایک مکان خالی پایااس میں دو دن کی بسر۔ تیسرے دن بخوف جان و آبرو وہاں سے کیا سفر۔ غرضن کہ یوں ایک دن کہیں رہی اور دو دن کہیں رہی۔ اس آوارگی میں طاقت جینے کی بھی نہیں رہی۔ اثناء راہ میں کبھی کھانا ملا اور کبھی فاقہ ہوا۔ ایک دم بھی نہ رنج و الم سے افاقہ ہوا۔ آکر کو افتاں و خیزاں ہر قریہ و قصبہ میں پھرتی ہوئی اپنے گھر معافی خاں کی سرائے میں آئی۔ وہاں آ کر سب سے زیادہ مصیبت اٹھائی۔ شہزادی دیہم آرا بیگم بیمار ہوئی ہماری حالتِ دل زار ہوئی۔ وپ صدمہ کس منہ سے بیان کروں کہ راحت جاں ہماری رمضان میں قضا کر گئی۔ خدا شاہد ہے کہ میں جیتے جی مر گئی۔ اب تک جب اس کی صورت یاد آتی ہے ٹکڑے چھاتی ہو جاتی ہے۔ اے جان عالم خدا اور رسول گواہ ہے۔ سب سے زیادہ میہری حالت تباہ ہے۔ کھانے پینے کو حیراں ہوں

صفحہ 59
گھر تک جاتا رہا، بے مکاں ہوں۔ چند روز سے ایک مکان میں رہتی ہوں ہر گھڑی صدمہ سہتی ہوں، اس وقت میں کوئی ہمارا پرسانِ حال نہیں۔ کسی کو ہمارا خیال نہیں۔ہم کو تباہ دیکھ کر سب نے منہ موڑا۔ مگر دن رات تمہاری آتشِ اندوہ میں جلا کرتی ہوں پروانوں کی طرح تصور شمع اختیار میں ہر شب کباب ہوا کرتی ہوں۔
حور کیا عشق میں تاثیر ہے اللہ اللہ
ہر گھڑی کاوشِ تقدیر ہے اللہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
جانِ جہاں سلیمان زماں سلطان انسان عیسٰے امراض الم جاں عالم ہمیشہ رکھے اللہ کمال تمہارا گلستانِ عشق کا پھول راحتِ دلہائے ملول اختر درخشندہءبرجِ محبت گوہر یابندہ درجِ مودت ہم کو لاکھ جان سے مرغوب یعنی مکتوبِ الفت اسلوب، بستم شعبان کا لکھا ہوا یوسف علی خاں بہادر کی معرفت ہمارے خانہءامید کا روشن

صفحہ 60
کرنے والا ہوا تمام گھر میں اجالا ہوا۔ احوالِ شوقیہ ظاہر ہوا دل ہمارا اس کے مضمون سے ماہر ہوا۔
خدا دور تم سے کرے یہ الم
نہ ہووے کسی بات کا تم کو غم
حکومت پھر اسی طرح تم کو دے
قیامت تلک ملک قائم رہے
جہاں میں نہ تم کو ہو کبھی ملال
محب شاد ہوویں عدو پائمال
امراؤ بیگم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
سرور خوبانِجہاں، داور محبوبانِ دوراں اختر اسمان کرم حضرت جان عالم زید اللہ نور حسنہ
بیا بیا کہ ترا تنگ درکنار کشم
بہ تنگ آمدہ ام چند انتظار کشم
داستان تمہارے فراق کی طولانی ہے۔ دریائے اشک کی
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 61
بار بار طغیانی ہے۔ عجب طرح کی پریشانی ہے۔ آتشِ شوق دل میں بھڑکتی ہے۔ جان تن میں پھڑکتی ہے۔ بغیر تمہارے نہیں کل اشتیاق میں لکھتی ہوں یہ غزل۔
غزل
میرے گل پیرہن سلطان عالم
میرے غنچہ دہن سلطان عالم
تو ہی ہے خُسروِ ملک معانی
میرے شیریں سخن سلطان عالم
جدا ہم سے ہوئی فرقت میں تیری
توانِ جان و تن سلطان عالم
تمہارے ہجر میں ہم نے اٹھائے
بڑے رنج و محن سلطان عالم
ستم سے باغیوں کے شہر چھوڑا
بسایا جا کے بن سلطان والم
ستارے نے نئی گردش دکھائی
پھرا چرخِ کہن سلطانِ عالم
ترے پیچھے ہوا جاتا ہے برباد

صفحہ 62
میرا سب بانکپن سلطان عالم
رہیں یاور تمہارے شش جہت میں
خدا وپنجتن سلطان عالم
وزیر غمزدہ تیری ہے مشتاق
مرے شاہِ زمن سلطان عالم
نواب وزیر صاحبہ 18 رجب
وزیر بیگم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
اختر آسمان دلربائی۔ گوہر دریائے آشنائی بلبل ساخار یک جہتی۔ خسرو خو شیریں گفتگو۔ سلیمان چشم بلقیس شمیم ، یوسف جمال زلیخا خصال ماہ صورت چکور سرت لیلیٰ کی سج مجنوں کی دھج ۔ دمن کے دل کا گھاؤ ، نل کیصورت کا ساؤ، عذرا کا ناز وامق کا انداز ، شاہد کی راحت عزیز کی عزت، شمع کا رنگ پروانہ کا ڈھنگ۔ شہر کی آرائش پہلو کی زیبائش۔ بند کے کھولنے والے لپٹ کے سونے والے ، زخمِ فراق کے مرہم مرزا جانِعالم بلکہ جانِ جہاں سے بہتر

صفحہ 63
سلطان عالم اختر۔
نامہ ء محبت آیا، مگر اس نے خوب رلایا۔ مفت کا مجھ پر اتہام لگایا۔ دشمنوں کے بہکاوے میں آ گئے۔ مجھ کو آنکھوں سے ایسا گرا گئے۔ میں کوئی عزت ہی نہیں رکھتی۔ آپ نے یہ جو تحریر کیا" نثار علی لہسنا ہاتھی پر چڑھ کے چینی بازار میں تمہارے محل کے کوٹھے کے سامنے چار گھڑی تک کھڑا رہا اور تمہارے یہاں کی کھڑکیاں کھلی رہیں اور عورتیں بیٹھی رہیں۔ نہ تو کھڑکیاں بند ہوئیں ، نہ تو عورات رخصت ہوئیں۔ اس کے کیا معنی؟ ۔۔۔۔ جانی ! اس کے ہیں دو معنی۔ ایک تو لغوی دوسرے اصلاحی۔ پہلے تو لغوی سے ہو آگاہ۔پھر اصطلاحی سمجھنا خاطر خواہ۔ لغوی تو یہ ہیں نہ اس میں کچھ لغو ہے نہ خلاف، ترجمہ اس حال مصدق ؐآل کا حرف بحرف ہے۔
صاف صاف کہ تین کھڑکیاں دروازہ وار ہمارے محل کے کوٹھے پر جانب چینی بازار کڑے پڑی ہوئی آدھی چُنی ہوئی ہیں۔ فی الحقیقت بہلا بغیر بیلچہ وغیرہ کے ان کے کھلنے کی کونسی صورت جس طرح چاہو اس کی پہنچا لو سند کہ قول حاسدوں کا ہو جائے رد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لُغوی تو ہو چکےمرقوم اب اصطلاحی کرو معلوم کہ جب سے تم ادھر سدھارے ہو ہم نے چینی بازار کی طرف اپنے

صفحہ 64
کوٹھے پر دو کمرے بنوائے ہیں اور جھاڑ شیشہ آلات سے سجوائے ہیں۔ پردے تمامی کے بنوائے ہین۔ چاندی کے پلنگ بچھوائے ہیں اور عورتوں کا کیا ذکر ہے خود ہمارا یہ حال ہے کہ ہم کو ایک ذرہ بھی نہیں تمہارا خیال ہے۔ جو دو تین گھڑی دن رہتا ہے۔ تو ہم ہر روز وہاں بیٹھنے کو جاتے ہیں۔دیدہ ودانستہ ہر مردم سے آنکھیں لڑاتے ہیں۔اور وقتِ شب جس کو چاہتے ہیں اس کو بلاتے ہیں۔ تمام رات خوب خوب مزے اٹھاتے ہیں۔ ہمارا کام بیٹھنا سرِ راہ ہے۔ یہاں سے کلکتہ تک ہر شخص اس پر گواہ ہے۔ جو طرز و انداز ہمارا ہے۔ تم پر بھی سب آشکارا ہے۔ ہم کو ہرگز نہیں ہے کچھ باک، جھوٹوں، حاسدوں کے منہ میں ہے خاک۔ اور ہاں اس وقت مجھ کو خوب یاد آیا۔ ایک نیا مضمون ذہن میں سمایا۔ میں تم سے پوچھتی ہوں خلاصاا س کا جد تر لکھ کر بھجوانا۔ تم نے جو لکھا تھا کہ لہسنیا تمہارے محل کے سامنے کھڑا تھا۔ اس بات کو تصور کرو اور بغور دیکھو کہ لہسن پیاز کا یہاں کیا کام ہے، اس کا تو باورچی خانہ مقام ہے۔ اگر کوئی باورچی ہو گا جہاں مصالحہ بھی ہر ایک ہو گا وہاں ہو گا۔ یہاں کا حال تو تم کو بخوبی معلوم ہے اور ظاہر و باطن سب مفہوم ہے کہ باورچی ہے نہ درزی ہے نہ حجام ہے ان میں سے ایک کا بھی یہاں نہیں کام ہے۔ ہم فقط آپ ہیں یا آپ ہی کے

صفحہ 65
کارکن ہمارے باپ ہیں۔اور عورتیں بھی ہمارے یہاں جتنی ہیں۔ان میں سب ضعیف اور ادھیڑ ہیں کوئی جوان نہیں۔ ان پر فعلِ بد کا کسی کو گمان نہیں۔ ہاں مگر جوان ایک مغلانی ہے۔ سو وہ بھی مستانی نہیں دیوانی ہے۔ کوئی نمک حرام عیار اپنے اڑھائی چاول پکایا کرےہزار لیکن یہاں دال نہیں گلنے کی زینہار۔ بلکہ بعض پختہ کاروں نے ابتدا میں کچھ سمجھ کے ہم کو اکثر دم دیا۔ خدا شاہد ہے کہ ہم نے بجز تمہارے کسی کو قبول نہ کیا۔
فقط
نواب شیدا بیگم 14 رمضان 1273 ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام جانِعالم
جہاندار کشورِ خوبروئی، شہریار اقلیم نکوئی، سلطان ملکِ حسن و جمال۔ خسرو ماہِ طلعتانِ شیریں مقال، ضیا افروز چہرہ حور و پری نور افزائے رخسارِ دلبری، شہنشاہ گیتی ستان، خاقان ابنِ خاقان، مشتاقوں کے حال سے بے غم جانِعالم سلامت رہو۔
اب ہماار وہ حال ہے کہ قلم کو لکھنے میں انفعال ہے۔ دامنِ کاغذ سے منہ چھپاتا ہے۔ سر اٹھانے میں شرماتا ہے۔ تمہاری یاد نے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 66
ایسی صورت دکھائی ہے کہ قابل دیکھنے کے صورت بنائی ہے۔ ہر روز مانندِ رکن مزاحفِ جود مسلسل کا جو دھیان اکثر ہے۔ رکن ابتر کی طرح صورتِ حال ابتر ہے۔ اصلاح کا مقام نہیں کیفیت اصلی پر کلام نہیں۔ درد صدا کہ آغازِ فراق سے حاصل ہوتا ہے۔ ابتدائے سخن دشوار ہے۔ تخیل کو اظہارِ مدعا میں حشو کی شکل حجاب ناگوار ہے۔ ہر چند تحریر میں قلم رکن عروض کی صورت قدم جماتا ہے مگر ضرب مضامین سے کہ عجب طرح کی چوٹ ہے سینہ شق ہو جاتا ہے وہ بیت کہ جس کو اتحادِ قوافی سے مغائرت ہو مطلع مدعا نہیں کر سکتی یا وہ قافیہ کہ جس سے صورتِ زوائد پیش آئے گوہر مقصد کے مانند دامنِ مطلب میں نہیں بھر سکتی۔ چمنِ صبر صرصرِ اضطراب سے پریشان ہے۔ جس کے نظارہ سے افسوس حاصل ہو۔ یہ وہ گلستان ہے۔ یقین ہے کہ بلبلِ شوق کو دمِ نظارہ کمال ملال ہو۔ ہم کو اپنی ویرانی وحشت سے سر تا پا انفعال ہو۔ صبح سے تا شام انتظار ہے درود محبت نامہ سے دل بے قرار ہے۔ آنکھیں جانبِ در میں، کبھی امید وار کبھی مضطر نہیں جتنا لہجے میں صبر ہوگا
اتنا دعا میں اثر ہوگ، تاخیرِ تحریر سے ؑاکم دگرگوں ہو جاتا ہے۔ ہاتھوں دل اچھلتا ہے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اور جو کبھی تقدیر نے یاری کی تمہاری محبت نے طرف داری کی کسی نے کہہ دیا کہ لو خط آیا۔ جوشِ شوق نے ہم کو گھبرا کر اٹھایا۔ از بس کہ دل میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ 67
ارمان ہے۔ کہنے لگی کہاں ہے کہاں ہے۔دل مشتاق ہو کر لب پر آیا۔ کانوں کا پردہ اٹھایا۔ مضامین پر عبور ہوا جی مسرور ہوا۔ پھر دو چار دن کو طاقت جسم میں آگئی۔ گھبراہٹ کچھ ٹہری تسکین جلوہ دجھا گئی۔ چند دن بیقراری سے فرصت پائی۔
حور بیگم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بنام جانِعالم
صدر نشین ضُرعہ نوشانِ بادہ ء حسنِ انتظامی، مسند آرائے بادہ کشانِ زحیق مروق مصطبہ ء خوش کلامی مستسفی شراب حسن دل افروز سر خوشِ ساتگین مے خانہ امروز۔ ماہ سیمائے رعنائی۔ گوہر تاج آشنائی جانِعالم دام اقبالہ
پھر وہی شمع ہو تم پھر وہی پروانہ ہم
پھر پری ہو وہی تم پھر وہی دیوانہ ہم
خوب میری شیفتگی اور فریفتگی کی قدر دانی کی۔قرباں ہوں ہھر مجھ پر نہ نظر ثانی کی۔؎
ان دلبروں کی آنکھ نہیں جائے اعتماد
جب تک انھیں یہ چاہے پیشِ نظر رہیں

صفحہ 68
داروغہ نعمت خاں فیروز خواجہ سرا اور شیخ حسین علی نے مجھ سے امام قائم علیہم السلام کی سوگند کھائی تھی۔ جانِعالم تجھ سے رُخ نہ پھیریں گےاور ہر وقت اپنے پاس رکھیں گے۔ سب وعدہ وعید گاؤ خرد ہوئے۔ادھر الطاف و کرم کے لالے ہیں۔ گو ہم ویسے ہی متوالے ہیں۔ وہ لوگ جا قبر میں ارام پذیر ہوئے۔ ہم ان نقشوں سے یہاں دلگیر ہوئے۔ پچھلی باتیں یاد دلا کر نظرِ کرم کی امیدوار ہے۔ بقسم شرعی بغیر اپ کے جینا دشوار ہے۔ ؎
عاشقی جی ہی لے گئی آخر
یہ بلا کوئی ناگہانے تھی
خدا کے لئے پرزہء خط سے میرے دل کی ڈھارس بندھائیےیا مجھ کو اپنے پہلو کے لئے پاس بلائیے۔
دل آرا بیگم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنا جانِعالم
خسرو فیض مآب، شمع شبستان آفتاب، ظہیر رفیع قدر، مخدوم فخر دہر خورشید مطلع صدق و صفا۔کلید گنجینہ ء مہر و وفا۔ جانعالم

صفحہ 69
دام اقبالہ
اپنی دل پسند صاحباتِ محل کو ساتھ لے گئے۔ ہم سے سوختوں کو اجڑی نگری میں چھوڑ گئے۔ اپنا تو نقشہ یہ ہے ہاتھ پاؤں سنسناتے ہیں۔ اپنے آپ غش پر غش آتے ہیں۔ سینے میں دم بند ہے گھبراتا ہے رہنے کامکان کاٹے کھاتا ہے۔ جان بے قرار ہے۔ بند بند ٹوٹتا ہے۔ دامنِ صبر دستِ استقلال سے چھوٹتا ہے۔ تنہائی خوش آتی ہے۔ اعزا کی شکلوں سے طبیعت نفرت کھاتی ہے۔
ظاہر میں گو کہ بیٹھا لوگوں کے درمیاں ہوں
پر یہ خبر نہیں ہے میں کون ہوں کہاں ہوں
آنکھ ظاہر میں بند ہوئی جاتی ہے۔ نیند مطلق نہیں اتی ہے۔
ہاتھ چاہتے ہیں سر دست چاک گریباں دیکھیں
پاؤں چل نکلے ہیں کہ بیاباں دیکھیں
قرار پاتی نہیں جاں زار بن تیرے
ستا رہا ہے دل بیقرار بن تیرے
منہ کی رونق چند دن میں جاتی رہی۔ زردی چہرہ پر چھا گئی۔ بہارِ حسن پر خزاں آ گئی۔ ہر دم لب پر آہ سرد ہے ایک دل ہے اور ہزار طرح کا درد ہے۔سرکار کا عطیہ جو زیور ہے وہ مثلِ طوق و سلاسل ہے۔

صفحہ 70
جس کی زیب و زینت سے بدمزگی حاصل ہے۔
ہوں کاہ سے کاہیدہ بس زار اسے کہتے ہیں
عیسیٰ سے نہ ہو اچھا بیمار اسے کہتے ہیں
حالتِ اصلی سے آگاہ کیا۔جانِعالم ہم سے اچھا چاہ کیا۔ نامہ ء محبت و شمامہ ء الفت کا انتظار ہے ورنہ ابھی تک تو ہم چشموں میں شرمسار ہے؎
نہ مرت مرتے منہ پھیرا محبت سے کبھی میں نے
جفائیں کس قدر وفا پر اپنی نازاں ہوں
نواب نشاط محل
نوٹ:
نشاط محل
نئی بیگم نام تھا۔ یہ تین بہنیں تھیں۔ حیدری بیگم اور محمدی بیگم۔ میر انشاء اللہ خاں کی صاحبزادیاں تھیں۔ نواب امجد علی شاہ کی سرکار مین یہ تینوں خواتین ذاکرہ ء جںاب سئّد الشہداء کے عہدہ پر ممتاز تھیں۔ ننھی بیگم کے شوہراور اس سے جو دختر تھی ہر دو کے انتقال کے بعد یہ بھی نواب واجد علی شاہ کی منظورِ نظر ہا کر محل میں داخل ہوئیں اور اعزاز و مرتبہ پایا۔ اور خطاب نشاط محل نواب ننھی بیگم صاحبہ عطا ہوا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 71
پیا جانِعالم
اختر آسمان دلربائی گوہر دریائے اشنائی، جواہر، زواحر صدق و صفا زید اللہ حسنہ۔
؎لازم ہے سوزِ عشق میں شعلہ عیاں نہ ہو۔ جل بجھے اس طرح سے کہ مطلق دھواں نہ ہو۔ مرگ درپیش ہے۔ جگر پاش پاش ہے۔ سینہ ریش ہے۔ دریائے غم کا اٹھا طوفان ہے۔ بجز جہاں سے مثلِ حباب مٹنے کا سرو سامان ہے۔ آتشِ فرقت کے بھڑکنے سے شعلہ ء آہ ِ سوزاں بلند ہے۔ عمر ہجر پرونہ سویدائے دل پسند ہے؎ اگرچہ الطاف کے قابل یہ دل زار نہ تھا لیکن اس جورو جفا کا بھی سزاوار نہ تھا۔ جیسے سدھارے ہیں یہاں جان کے لالے ہیں بارہ دور مہر جہاں تاب نے اس زمانہ میں نکالے ہیں۔ اس عرصہ میں ہماری خبر ہی نہ لی
؎نہیں شکوہ مجھے کچھ بیوفائی کا تری ہرگز
گلہ تب ہو اگر تو نے کسی سے بھی نبھائی ہو
ہر ایک مکان ویران ہے۔ کالوں نے اودھم مچائی ہے۔ گوروں نے مات کھائی ہے۔ دو چار دن میں دیکھئیے کیا ہو۔
صنم نامہربان ہی اس قدر اے میرے رب کیا ہے
میری تقصیر کچھ ثابت نہیں وجہء غضب کیا ہے

صفحہ 72
جب سے فلک کجرو درپے ستم و جور ہے۔ یہ شیفتہ و خستہ زندہ درگور ہے۔ گو روتے روتے دیدہء خون میں نمی نہیں پھر بھی لختِ جگر نکلنے میں کمی نہیں
نئی زندگی میں وصل میسر نہ بعد مرگ
عاجز ہوا ہوں اے دلِ ناشاد کیا کروں
مردمِ دنیا سے نفرت ہے۔ جوشِوحدت کی شدت ہے۔ اب تو جینے سے جی چھوٹ گیا۔میرا ہر طرف سے دل ٹوٹ گیا۔یہ عریضہ ارسال کرتی ہوں۔
خط دیجئیو چھپا کےملے وہ اگر کہیں
لینا نہ مرے نام کو اے نامہ بر کہیں
نواب فخر محل
رمضان 1273 ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام نواب شیدا بیگم صاحبہ
غمِ عشق از دل کس کم مبادا
دلے بے عشق در عالم مبادا

صفحہ 73
مہر سپہر بے وفائی ماہ سیمائے رعنائی زاد حسنہا و جمالہا
تشفی نامہ مشعرا احوال گوناگوں ملا کچھ عرصہ سے قلب کو سکون اور مصیبت کا وقت قدرے ٹلا۔ چشم فسوں ساز" ملکہ ء عالم نواب نگار محل" کا جو طعنہ دیا ہے کہ وہ میرے پاس ملنے آئی اور اپنی کُل کہانی اگلی پچھلی سنائی اور خود اس نے کج ادائی دکھائی۔ مگر اے جانی سُن اصلی کہانی۔ اپنے پری خانہ میں اور حزن اختر میں اس کا کہہ کر قصہ لکھا ہے۔کچا چٹھا بھی سب اس میں آ گیا ہے۔ مگر میری زہرہ جمال تجھ کو وہ کاہے کو دیکھنے آئے گا۔انیس و ہمدم ، تئیس چوبیس برس کی عمر تھی ولولہ و شوق کی طبیعت میں لہر تھی، دن و رات رنگین مزاجی میں گزرتا۔ خیر خواہوں کے مفروضات پر کسی نوع نہ سنورتا فصل برشگال میں کالی گھٹائیں گھری تھیں ۔ ننھی ننھی بوندیاں تقاطر کر رہی تھیں۔ رنگ برنگ کے ابر کے ٹکڑے مرے حضرت باغ سے پرے پھرے جاتے تھے۔ دل بہلانے کے لئے محفلِ عیش کے کُل سامان خدّام لگاتے تھے۔ متوسلین حلقہ کئے بیٹھتے تھے اور ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔ایک سپہر پری رو رقص کے جوہر بھی دکھا رہی تھی۔ مصاحب جوشِ انبساط سے دادِ عشرت و خرمی دے رہے تھے۔ اس وقت کی محفل عروسِ نو کی طرح آراستہ و پیراستہ بنی ہوئی تھی۔؎

صفحہ 74
بہشت انجا کہ آزارے نہ باشد
کسے رابا کسے کارے نہ باشد
اتنے میں اس محفلِ سرور میں مرزا سکندر حشمت بہادر آ شریک ہوئے اور کہنے لگے ایک حسینہ کو مجرے لے کئے بلایا ہے۔ ابھی خادم اس کے آنے کا پیام لایا ہے۔ گانے بجانے میں اپنا نظیر نہیں رکھتی۔ یہ سن کے عنانِ اختیار میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی، مگر اتنے مین دوسرا پیک یہ خبر لایا کہ آج وہ بُتِ طناز خستہ و بے حال ہے۔ کل کے آںے کی میرے حضور التجا و التماس کی قال ہے۔ سُن کے دل پر صبر کی سل رکھی۔ لیکن ایک دن کی مفارقت ایک سال کے برابر تھی۔ فجر کے ہوتے ہی انتظامِ بزمِ طرب کیا۔ جرنیل بہادر میری دلجوئی کے مدِ نظر اور میرے ملحوظِ خاطر تڑکے سے ہی اس پریزاد کو ہمراہ لے کر محفلِ عشق میں آ موجود ہوئے۔ دیکھتے ہی ہزار جان سے مہہ پارہ پر متوالا اور عاشق ہو ہے۔
دل اس نے لیا مجھ کو ملی دولتِ دیدار
کیا لوٹ کا سامان ادہر بھی ہے ادھر بھی
رنگ اس کا کندن کی طرح دمک رہا تھا۔ صبح شکرریز کی جھلک تھی۔
؎ان شوخ کہ دی درنظرم جلوہ گری زاشت

صفحہ 75
پر شور ہمہ شہرز حسن شکری داشت
مجھے دیکھتے ہی ایک ایک قدم سے ہزاروں جانیں پائمال کرتی ہوئی بصد ناز و انداز اودی اطلس کا پائجامہ اس کے اوپر سرخ رنگ کی مسالہ دار پشواز پہنے ہوئے آبِ رواں پر شال اوڑھے ہوئے سازندوں کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی تبسم کناں ناز و نزاکت سے خراماں خراماں بل کھاتی ہوئی آئی۔
ندارد نقشِ پا کا ندر زمین است
کہ تصویر خرام فتنہ زین است
بوٹا قد
رعنا قدے چوسر و دلجو
دریدہ ء و الہش لب جو
ان دنوں سن پندرہ برس کا ہو گا۔ بدن کی لطافت و نازکی کا کیا حال کہوں کسی نے کہا ہے
اس کی جبیں کیا تھی۔
کسیکہ تشنہ لب نار تست میداند
کہ موج آب حیات است چنیں پیشانی
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 76
اس کی خوبی چشم اس شعر کی مصداق تھی؎
در حسن دو چیز است بلائے دل و دیدہ
چشمِ سیہ و گوشہء ابروئے کنندہ
اس کا رخ کیا تھا
آئینہ پیش رو نہ و سیرِ بہشت کُن
بایں رُخ شگفتہ گلستاں چہ میکنی
نگاہ چار ہوتے ہی عجب حال سے بے حال ہوا۔ ہم چشموں کی صحبت سے مجبور کچھ کہہ سن نہ سکا۔ البتہ دونوں ہاتھوں سے دل تھام کر اور سرد آہ کھینچ کر رہ گیا۔ رشک بدتر کیا کہوں۔ قریب تھا کہ عالمِ بے خودی میں بیتابانہ فسانہ عشق کہہ سناتا مگر حجاب مانع ہوا۔
اے پری زادو تمہاری آگ نے پھونکا یہ گھر
قاف سے تا قاف سہرہ اور فسانہ ہو گیا
اتنے میں اس پری ہیکر نے رقص کا آغاز کیا
حسن کیا کم تھا جو آئینہ کی کھولی قلعی
ایک حیرنی زیادہ ہوئی حیرانوں پر
وہ مثلِ طاؤس رقص کر رہی تھی۔یاں ہر دو آنکھ رو رہی تھی۔ مجھ میں تابِ ضبط نہ رہی۔

صفحہ 77
دل کو تو ہر طرح سے دلاسہ دیا کروں
آنکھیں جو مانتی نہیں میں اسکو کیا کروں
رات مشکل سے کٹی۔ پوچھتے کیا ہو شبِ ہجر کی حالت یارو
میں ہوں اور رات ہے اور بسترِ تنہائی
توقع صبح ہونے کی کسے ہوتی ہے رفقت میں
وہ راتیں ہجر کی ہیں اے خدا جو کٹ نہیں سکتیں
دوسرا دن آیا۔ محفل جمی۔ پری پیکر نے بزم میں آ کر داد عشوہء و ناز دی۔ اور مجھ مہجور بلا کو خنجرِ ابرو سے بہت ہی مجروح کیا کہ بے طاقت ہو گیا۔ خواب و خور حرام ہوا۔ ناوک مژگاں سے دل دو نیم ہو کر مرغِ بسمل ہوا۔
الجھاؤ پڑ گیا جو ہمیں اسکے عشق میں
دل سا عزیز جان کا جنجال ہو گیا
میرے ایک محرمِ راز پیارے صاحب نواب خاص محل کی نسبتی چچی اور مدار الدولہ بہادر کی نسبتی بہن انھوں نے جو دیکھا میری جان پر بنی ہے، قوتِ صبر و تحمل رخصت ہو چکا ہے تو فرطِ محبت سے ضبط نہ کر کے بیتابانہ میرے قدموں پر گر پڑیں اور عرض پرداز ہوئیں۔ جانِعالم میری جان آُ کے قدموں پر فدا ہو۔ کیا ایسی فکر لاحق ہے جو اپنی جان جس پر ہوں صد بار میں قربان، معرضِ ہلاکت میں لا رہے ہو۔ بندگانِ عالی

صفحہ78
کا چراغ عیش و راحت صر صرِ غم کے جھونکوں سے بجھا نظر آتا ہے۔
سلطانِ عالم یہ کنیز حضور کے فرمان سے سر نہ اٹھائے گی۔
ایک بیمارِ جدائی ہوں میں آپ ہی پسر
پوچھنے والے جدا جان کو کھا جاتے ہیں
محبوبہ جان نواز اس کے جملہ نے ڈھارس باندھی۔ نجم النساء بیگم مرحومہ تجھ کو جنت نصیب ہو میرے لئے حسبِ وعدہ امن اور امامی کو ہمنوا کر کے جد و کد میں لگ گئیں اور میرے آتشِ عشق اس گل نوخیز بوستان محبوبی کا جو میرے دل میں شعلہ زن تھا نغمہ عشق انگیز و غزلیات محبت آمیز گا کر راز سر بستہ کھولنے کے درپے ہوئیں۔ اس اوقات میں مجھے ٹھمریاں کہنے کا شوق دامنگیر ہوا۔ ؎
سن او گوئیاں سیاں رہے واہو دیس
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب ہوئے خاک انتہا ہے یہ
مجھے اس حال میں مبتلا رہنے دیا خود پیارے جناب نجم النسا کسی حیلے حوالہ سےبی جان مادر معشوقہ طناز کے گھر پہنچیں۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اس ستمگر کے مزاج کو بھی تاڑ گئیں کہ وہ پھر میرے تیرِ عشق کی گھائل ہو چکی ہے۔ اور میرے لئے سرگرم نالہ و آہ ہے۔ زبانِ حال سے کہتی ہے
چھیڑ مت بادِ بہاری کہ میں چوں نکہتِ گل
پھاڑ کے کپڑے ابھی گھر سے نکل جاؤں گا

صفحہ 79
مگر اس کی ماں کی جان خونخوار ڈائن سے کم نہیں۔ انھیں ناچار واپس محل میں انا پڑا۔ میں دلی صدمات سے بسترِ غم پر پڑا کروٹیں بدل رہا تھا اور دم بدم آہِ جاں سوز بھر رہا تھا یہ اضطراب دیکھ کر نجم النسا مجھ مہجور و تفتہ جان کے قدموں پر گر پڑیں ۔ نہایت الحاح و زاری سے عرض پرداز ہوئیں کہ سلطان عالم اتنا دل بھاری نہین کرتے ، صبر سے بھی کام لیتے ہیں۔؎
مشکلے نیست کہ آساں نشود
مرد باید کہ ہراساں نشود
خدا نے چاہا حضرت قائم الزماں سلام اللہ علیہ کی سوگند حضور کی معشوقہ پری چہرہ کو پہلو میں لا بٹھاؤں گی۔ الّا چند دن ضبط و تحمل سے کام لو۔ ایسا نہ ہو اس کی ماں جو بڑی قطامہ اور شیطان کی خالہ ہےاور آفت کی پرکالہ ہے داد فریاد کرے اور پرچہ حضرت جنت مکان کی خدمت میں نہ گذارن دے۔ بنا بنایا کام خاک میں مل جائے گا اور ہمارے ہاتھ کچھ نہ آئیگا۔۔
میں نے کہا
سودا ہووے جب عاشق کیا پاس ابرو کا
سُنتا ہے اے دِوانے جب دل دیا تو پھر کیا

صفحہ 80
میں غمزدہ ہمیشہ اس مکان میں جس کا نام خاص مکان تھا بسترِ غم پر منہ دوشالہ سے لپیٹا پڑا رہتا اور شب و روز محبت میں گھل گھل کر نحیف و زار ہوتا جاتا۔ ان دنوں جو میں نے غزلیں کہی ہیں وہ اس وقت کی میری صحیح تصویر ہیں۔ میری اس کیفیت کو مرزا سوداکہہ گیا ہے

عاشق کی بھی کٹتی ہیں کیا خوب طرح راتیں
دو چار گھڑی رونا دو چار گھڑی باتیں
میری سچی بہی خواہوں نے چاہا کوئی ایسی صورت پیدا ہو کہ اس بت طناز سے جلد ملاقات کا سبیتہ ہو۔ الّا اس کی ماں علامہ ء دہر تھی۔ کوئی تدب یر پیش نہ گئی۔ جی کڑا کر کے نجم النسا پھر اس کے گھر گئیں ۔ دیکھا وہ پلنگ پر لیٹی رو رہی ہے اور آہیں سرد بھر رہی ہے۔ اس نے چاہا کنایہ سے اسے تنہائی میں لے جا کر کلمات ضروری سنا کر فقرات محبت آمیز میری طرف سے اسے کہے اور اس کے دل کو ڈھارس دے۔ ناگاہ بیرحم خطامہ نے غل و شور مچایا آسمان سر پر اٹھایا ۔ نجم النسا بعجلت تمام اس کے مکان سے رخصت ہوئیں۔ مجبور و ناچار میرے قریں آئیں، ان کے چہرہ سے رنج و ملال کی علامتیں ہویدا تھیں۔ سبب دریافت کیا۔ اس نے پورا قصہ بیان کیا۔ ویقعہ سن کر غیض آیا۔ میر محمد مہدی جو امین الدولہ کے متوسلین سے تھا اس کو بلایا۔ اس سے کہا جب تک
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 81
میری محبوبہ نہ آئے گی یقین جانو میری اپنے ہاتھوں جان جائیگی۔
دردِ دل کچھ کہا نہیں جاتا
آہ چُپ بھی رہا نہیں جاتا
آخرش مہدی نے میرے قدموں پر سر رکھا اور وعدہ کر کے گیا۔ حضور جلد پری وش کو حاضر کرتا ہوں۔ یہ سنتے ہی دل باغ باغ ہو گیا۔
کیوں آج سماتا نہین سینہ میں خوشی سے
پہنچا ہے مگر دل تجھے پیغام کسی کا
وہ غلام علی کو لے کر اس کے گھر گئے۔ میرے دل کو خوش ہر صورت کر گئے۔ اپنے مکان کو ہر طرح آرائیشوں سے آراستہ کیا۔ نہر کے درمیان جس کے چاروں طرف فوارے چھوٹ رہے تھے ۔ پیراستہ کیا۔ اپنی سیج بچھوائی؎
وعدہء وصل چوں شود نزدیک
آتشِ شوق تیز تر گردد
فرطِ خوشی و مسرت سےاِدھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔ پہر رات گزری تھی کہ دل اپنے آپ انبساط سے اچھل رہا تھا یکایک کیا دیکھتا ہوں ، ماہ وش کے پرتوِ جمال سے مکان روشن ہے، اب تو میرے دل کے قریب ہی شمعِ انجمن ہے۔

صفحہ 82
ہمارے پاس کیا ہے جو فدا کریں تجھ پر
مگر یہ زندگی مستعار رکھتے ہیں
فرطِ بیخودی سے دوڑ کر اسے گود میں اٹھا لیا۔رات بھر اس کے شمعِ جمال پر مثلِ پروانہ نثار ہوتا رہا۔ ہم میں ان میں خوب خوب پیار ہوتا رہا۔
روداد محبت کی مت پوچھ یقیں مجھ سے
کچھ خوب نہیں سننا افسوں ہے یہ فسانہ
الغرض تمام رات شکوہ و شکایت اور راز و نیاز میں بسر ہوئی۔
گہنہ خندم و گہہ گریم گہہ آہ جگر سوز
القصّہ سحر نے غازہ نور اپنے منہ پر ملا۔ آواز نوبت و گجر اور صدائے مرغ و اللہ اکبر نے میرے مرغِ روح کو عین وصال میں ہجر کی چھری سے حلال کر ڈالا۔ ناگاہ پس در سے میر مہدی نے آواز دی ظلمتِ شب برطرف ہو رہا ہے۔ صبح نور چاروں سمت پھیل رہا ہے۔حضور کو رخصت کرنا چاہئیے۔ ان کی صدا سن کر میرے چہرے سے رنگ اور دل سے صبر و قرار جاتا رہا۔ بیتاب ہو کر اٹھا اور بہ ہزار بلا گردانی اسے رخصت کیا۔ ایک مہنہ تک یہی سلسلہ آمدورفت جاری رہا۔ آخر کار ایک روز میں نے اس ماہ برج حسن و خوبی کو جانے سے روک دیا۔القصّہ جس دن وہ محبوبہ میرے گھر بیٹھی تو فرطِ خوشی و خرمی سے مطربان خوش گلو اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ 83
پری رو نے خود محفل کو رشکِ ارم بنا دیا۔ ہر طرف سے صدائے مبارکباد آنے لگی۔ چاروں طرف سے نوبتوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ حضرت مشکل کشا کا دسترخوان کیا۔ ملازمین نے نذریں گذاریں۔ حسبِ مراتب سرفراز کئے گئے۔ نجم النسا بیگم کو دولت سے مالا مال کیا گیا۔ اپنی مہوش کو نفیس نفیس جوہرات بے بہا سے سر سے لے کر پیروں تک لاد دیا اور بڑے خطاب ملکہء عالیہ نواب نگار صاحبہ سے سرفراز کیا۔
ماہِ طلعت ، سنا قصّہ ۔ ایک برس تک اس کا انجم اقبال بڑے کروفر سے چمکتا رہا۔ اس کے بعد بوجوہات چند در چند اس سے دل بجھ گیا۔ سینکڑوں باتیں ہیں جس کی وجہ سے میرا من اس سے بگڑ گیا۔ میں نے خود نگاہیں پھیر لیں۔ دوسری مہ جبین کے تیرِ محبت کا گھائل ہو گیا۔
مر جائیے کسی سے پر الفت نہ کیجئیے
جی دیجئیے تو دیجئیے پر دل نہ دیجئیے
منشی السلطان بہادر کو حکم دے دیا ہے کہ عبد القادر جس دن محلات کو روپیہ پیش کرے اس یوم تمہارے نام ہنڈی بھیج دے۔ حاجی خدا بخش لکھنو گیا ہے وہیں ہنڈی سکار دے گا۔ دعا کرو جامع المتفرقین ہمیں اس عذاب سے نکالے۔ مر یضانِ فراق کو شربتِ وصال سے سنبھالے۔
مرقوم دو از دہ شوال 1276 ھ

صفحہ 84
بنام جانِعالم
جرعہء چشمان ساغر عنایت و سر خوشانِ بادہ مروت مخمورہ بادہ ء حسن و خوبی سرشار میخانہ عاشقی و محبوبی زاد حسنہ و جمالہ
مشہور ہیں دلوں کی میرے بیقراریاں
جاتی ہیں لامکاں دل شب کی زاریاں
الفت نامہ بدستِمنشی عبدالقادر آیا۔ میرے لئے خوب ہی قربت کا پیغام لایا۔ پاک پروردگار جانِعالم کو صدہا سال سلامت رکھے، خدا وہ دن لائے سوختہ بخت فرقت زدہ وصلت کے مزے چکھے۔ ہجر و مہجوری کے دن تمام ہوں۔ پھر نئے سر سے عیش و عشرت کے ایام ہوں۔ یہاں تو دن آہ و زاری میں گزرتا ہے۔ شب کیا آتی ہے رنج و الم میں وقت بسر ہوتا ہے۔
پہر بوئے پیرہن چشم تمنا شد سفید
آخرش اے ماہ نو یکرہ نظر کن سوئے ما
نواب امیر محل
مخاطب خورشید لقا

صفحہ 85
مودت نامہ بنام جانِعالم
مہر تمثال یوسف جمال داؤد الحان سلمان زمان جانِعالم خلد اللہ ملکہ و سلطنتہ
ستم رسیدہ مہاجرت آفت رسیدہ مفارقت بدر عالم بعد عالم ارادت و نیاز و جہان تمنائے دولتِ مواصلت مسرت آغاز کے ملتمس یہ ہے کہ نالہ ء الطاف نظام ،افتخار الصمام ، مملوئے شکوہ و شکایت و متضمن ارشاد و ہدایت نسبت اس بیمار زار اسیر شکنجہ عجز و اضطرار ورودو مسعود کے عزت افزا و مسرت پیرا ہوا۔ اس عنایت پر جانفشانی حیات جاودانی اور محو شیفتہ نوازی ہونا سرمایہ ء انبساط ِ روحانی ہے۔ جس خدائے عز و جل نے مجھ کو شیدائے جمال جہاں آرا کیا۔ اسی کو گواہ کرتی ہوں کہ رات دن تمہارے درد و فراق سے سوائے گریہ و سوز مشغلہ نہیں رکھتی ہوں اور سب ساتھ اور سنگت والیوں سے کنارے بسر کرتی ہوں اور خداوند حقیقی سے جو چارہ گر بیچارگاں ہے بہ ہزار زبان دعا مانگتی ہوں کہ جانَعالم کو باحشمت و اقبال و سلطنت و اجلال زینت افزائے تخت و تاج دیکھوں، ایک تصنیفِ نو غزل بھی ہمرشتہ نامہ ہے
شکل دکھلاؤ بس اب بہرِ پیمبرِ اختر
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 86
ہوں رنجِ جدائی سے مکدر اختر
رات دن تیرے تصور میں بسر کرتی ہوں
اس دلِ زار کو سمجھاؤں میں کیونکر اختر
چُھٹ گیا آب و خورش صدمہ ء ہجراں سے مرا
کیا کہوں تجھ سے کہ جیتی ہوں میں کیونکر اختر
تجھ سلیمانِ جہاں سے جو محبت ہے مجھے
طائرِ دل کو بناتی ہوں کبوتر اختر
سیدھے ہو کر چمنِ دہر میں بارنج و الم
یاد کرتے ہیں تجھے سرو صنوبر اختر
سانپ سے سینہء مجروح پہ لہراتے ہیں
یاد آتی ہیں جو زلفیں تری یکسر اختر
ناتوانی نے کیا جسم کو ایسا لاغر
ضعف سے آتے ہیں ہر گام پہ چکر اختر
بدرِ عالم یہی رکھتی ہے سدا وردِ زبان
نورِ دیدار سے کر دے دل کو منور اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎1
نوٹ: بیگمات اودھ کے خطوط پر جناب سید تمکین کاظمی صاحب کے دو مضمون نظر سے گزرے اس سے بھی اس مجموعہ میں مدد لی ہے جس کا ذکر ضروری ہے۔

صفحہ 87
مودت نامہ دوم بنام جانِ عالم
جانِعالم ہمارے اختر پیارے
بدر عالم تمہارے عجب صدمہ میں گرفتار ہے درد دوری سے بے قرار ہے۔ حال مختصر اگرچہ سلسلہ ء نظم میں موزوں کیا ہے۔ لیکن کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔ دل کی کیفیت بیان میں نہیں آتی ہے۔ جو حقیقت گزرتی ہے نظم و نثر میں کسی طرح نہیں سماتی ہے۔ مسیحا سے دوری ہے مریضِ محبت کی جہاں سے رخصت ضروری ہے۔ زندگی کا سہارا اب فقط خط تمہارا ہے۔ للہ ہاتھ جوڑتی ہوں منتیں کرتی ہوں جان عالم ادھر دیکھو ہماری طرف منہ پھیرو۔ سنتے ہو خط جلدی جلدی لکھا کرو۔اچھے جانعالم ہماری طرف سے غافل نہ ہو۔ نہیں تو ہم سچ کہتے ہیں مر جائیں گے جہاں سے گزر جائیں گے۔ کوئی مصیبت اٹھ نہیں رہی ہے جو ہم پر نہیں پڑی ہےاب ہم پر رحم کا مقام ہے دردِ دوری سے ہمارا کام تمام ہے، زیادہ سوائے آرزؤے وصل خطوط کے کیا لکھیں حالِ زار اپنا کہاں تک کہیں۔ فقط
11ذیقعد 1275ھ
مرقومہ بدر عالم

صفحہ 88
بنام نواب بدر عالم صاحبہ
کچھ حسن بھی رکھتے ہو اگر عشق فزوں ہو
موجود ہے اختر سا خریدار تمہارا
شعلہ ء برق دوری نائرہ نار مہجوری، آئینہ سکندر حیراں صحیفہ ء حسنِ دلبراں آتشِ حسن دوبالا ہو۔ جیو۔
بدر عالم تیری تصویر خیالی کبھو متصور ہوتی ہے دل بیچین ہو جاتا ہے پہروں باتیں یاد آےی ہیں دم الٹ جاتا ہے۔
بر میں دلدار ہے اور پیار سے شرماتا ہے
آج ہم محوِ تصور ہیں مزہ آتا ہے
تقدیر نے یہ ایامِ شب دکھائے ۔ آئینہ ء رخ میں جو حیرانی ہے وہ کہہ سکتا ہوں۔ دیوانوں کی طرح ہر ایک کا منہ تکتا ہوں۔ افسانہ ء رنج و فراق ہوں۔ اب تو اپنا جینا مجھ کو شاق ہے۔ دل بہلانے کو آپ بیتی میں کچھ فکر کر لیا کرتا ہوں پھر کسی کی یاد اٹھ آتی ہے سر دھننے لگ جاتا ہوں۔ غزل تصنیف نو ارسال ہے تری چاہت کا اس میں پورا حال ہے
دل جس کو ہمارا ڈھونڈتا ہے
اے چراغ کدھر وہ مہ لقا ہے

صفحہ 89
ہم غم میں ہیں جس کی جان دیتے
پرواہ نہیں اوسکو آخر ذرا ہے
روٹھیں ہیں جو آپ مجھ سے روٹھیں
بندے کا بھی اے صنم خدا ہے
اے چرخ ہماری کیا ہے تقصیر
کیوں ہم سے وہ مہ لقا خفا ہے
معشوق تمام بے وفا ہیں
عاشق کے سرشت میں وفا ہے
ہم جان دیں اور تم نہ پوچھو
پیارے یہی عشق کی جزا ہے
پریاں ہوتی ہیں سن کے تسخر
اختر کا کلام دل ربا ہے
جان عالم اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جواب)
بنام جانِعالم مودت نامہ سوم
اختر پیارے میں صدقے تمہارے ہمیشہ شاد رہو ۔ دائماً

صفحہ 90
آباد رہو۔ خدا تم کو قید سے نجات دے مجھ کو آبِ حیات دے۔ وہ دن آئے کہ تم یہاں آؤ پیاری پیاری صورت مجھ کو دکھاؤ۔ تم کو پاؤں مرتی ہوں جی جاؤں۔ جب سے یہ غزل آئی مرے دل مضطر کو کل آئی۔ سبحان اللہ کیا فصاحت ہے۔ ماشاءاللہ کیا بلاغت ہے۔ نظیری تمہارے بے نظیری کا مقر ہے۔ ظہوری کے اظہار حال سے یہ ظاہر ہے۔ جامی تمہارے جام بادہ شاعری سے مدہوش ہے نظامی تمہارے کلام معجز نظام کا حلقہ بگوش ہے۔ انوری تمہاری روشن بیانی کا قائل ہے۔ فرید الدین عطار نسخہ صحت کا تم سے سائل ہے۔عرفی شرعاً اور عرفاً تمہارا مدح خواں ہے۔ خاقانی تم کو خاقان اقلیم سخن جان کر قربان ہے۔ اہلی اگر دعویٰ کرے تو سراپا اس کی نا اہلی ہے۔ صائب اگر قائل نہیں تو رائے صائب نہیں بلکہ بڑا جہلی ہے۔حسان بن ثابت پر ثابت اور عیاں ہے۔ ہلالی فرط ِ غیرت سے سر بگریباں ہے مرزا رئیس واقف خوب واقف ہے۔ سلیمان سا وجی سلیمانِ روح سخن جان کر تمہارا واصف ہے۔ شمس الدین فقیر تمہارے باب ابیات کا گدا ہے۔ کلیم کو کیا کلام ہے بلکہ تمہارے کلام کا طالب سدا ہے۔ فردوسی اور سعدی ہر ایک تمہارے گلستان سخن کا گل چیں ہے۔ بیدل بے دل حزیں کوئی تمہارا ثانی نہیں ہے۔ ہر شب ماہ کالم بایں کمال
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 91
نظم ثریا کو دکھاتا ہے۔ بر صبح پیر فلک بایں کہنہ سالی مطلع آفتاب کو بامید اصلاح لاتا ہے۔ ہر بیت ایک مثنوی ہر شعر ایک دیوان ہے بلکہ مثنوی صدقے دیوان قربان ہے۔ یہ بحر اصل مسدس متصور شش جہت میں لاجواب ہے۔ ہر مضمون اس بحر میں گوہر نایاب ہے۔ سر مطلع تکرار لفظ بدر عالم قند مکرر کا مزہ دیا۔ فصاحت کا دریا بہا دیا۔
یا الہیٰ وصلِ اختر ہو نصیب
ہو پذیر اب دعائے عاشقان
ہو کہیں یوسف کو زنداں سے نجات
آڑزومندوں کا دل ہو شادماں
بدر عالم سے نہ ہونا بے خبر
اے مرے اختر مرے بخت جواں
9ذی الحجہ 1275ھ
بدر عالم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مودتِ نامہ چہارم بنام جانِعالم
اختر جانی زاد اللہ محبتہ، بعون اللہ سبحانہ تعالیٰ
بیوم خامس شہر ذی الحجہ 1275ھ مژدہ ء صحت مزاج عیسےٰ الا علاج نامہ ء اعلیٰ صحیفہ ء والا آیا۔ اعجاز مسیحائی دکھلایا۔ ایک جوڑا جہانگیری

صفحہ 92
مرصع الماس فرحت اساس کی آمفٓد کا مژدہ پایا۔ بن دیکھے بے پہنے دل نے مزا اٹھایا ۔ الحق سوا تمہارے یہاں کون ہے جو اس از خود فراموش کو یاد کرے۔ اور ایسے ایسے تحائف بھیج کر پھر اس اجڑی بستی کو آباد کرے۔ واللہ ایک جہانگیری پر ہی کیا ہے میں نے کل زیورات و اسباب قدیمی سے صبر کیا۔ باغیوں اور ظالموں نیگ لگایا۔ تمہاری سلامتی کی دعا لیل و نہار ہے۔ یہی اب زیور اور سنگھار ہے۔خدا تم جہانگیر ثانی کو آباد رکھے۔ خرم و شاد رکھے۔ ہر چند کہ اس مہجور کے پاس اب کچھ نہیں ہے۔ مگر تم سلامت رہو تو سب کچھ ہے۔ اور تم نے جو لکھا ہے صندلی کلائیوں میں لہراوٹ انکی مبارک ہو شاخِ گلاب میں سجاوٹ کی چمک ہو۔ سنو جانِعالم بغیر تمہارے ان صندلی کلائیوں میں جہانگیریوں کا نقشہ یہ ہے کہ گویا شاخِ نخل صندل میں مار پیچاں لپٹا ہے۔ ان دنوں خلش خار المشاخِ گلاب کو پژمردہ کیا ہے۔ طائرِ دل کو مانند عندلیب نالاں کے افسردہ کیا ہے۔ آجکل روپیہ کا بڑا توڑا تتھا۔ نہ بہت تھا نہ تھوڑا تھا۔ تمنے ہزار روپیہ بھجوائے مگر میں نے ابھی نہیں پائے جس وقت پاؤں گی رسید بھجوا دوں گی۔ خدا تعالیٰ اب تمکو جلد لائے اور جلوہ جمال جہاں آرا ہم کو دکھلائے۔ واللہ اب تاب مفارقت نہیں ہے۔ ضبط کی طاقت نہیں ہے۔ زیادہ اشتیاق
فقط
بدر عالم

صفحہ 93
غزل
شکل اپنی دکھاؤ جانِ عالم
بس اب نہ ستاؤ جانِ عالم
مجھ زار حزیں کے جان و دل پر
صدمہ ہے اب آؤ جان عالم
دل پُھنکتا ہے آتش الم سے
تم آ کے بجھاؤ جانِ عالم
راحت ہو میری تمہیں جو منظور
مجھ کو ببھی بلاؤ جانِ عالم
فرقت کے الم سے رو رہی ہوں
اب تم نہ رلاؤ جانِ عالم
تم مری محبت و ولا کو
دل سے نہ بھلاؤ نوابِ عالم
غم کھاتی ہوں خونِ دل پیتی ہوں
یہ شغل چھڑاؤ جانِ عالم
ہر دم ہے یہ ذکر بدرِ عالم
للہ اب آ جانِ ؎1عالم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منظوم خط بنام جانِ عالم
پس از شوق وصال جانِعالم
بیان کرتی ہوں اپنا حال پُر غم
تپِ فرقت سے یہ بیتاب ہے دل
مثالِ پارہ سیماب ہے دل

صفحہ 94
خداوند کبھی پھر وصل ہو گا
مبدل وصل کیا یہ فصل ہو گا
کبھی دل محو زیب و زین ہو گا
کبھی اس جان کو پھر چین ہو گا
کبھی آئیں گے یاں سلطانعالم
میں پھر دیکھوں گی شکلِ جانِعالم
کبھی یہ دور دل کا داغ ہو گا
میسر پھر وہ قیصر باغ ہو گا
کبھی پھر عیش کا سامان ہو گا
کبھی پورا میرا ارمان ہو گا
کبھی نکلے گی میرے دل کی حسرت
خوشی کی پھر کبھی دیکھوں گی صورت
ستاتا ہے بہت دردِ جدائی
دوہائی ہے خداوندا دوہائی
اسی فقرے کے اوپر خاتمہ ہے
کہ خط کی بدرِ عالم راقمہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مودت نامی منظوم بنام جانِعالم
دوائے درد منداں جانِ عالم
مسیحائے مریضان جانِ عالم
قیامت تک رکھے تم کو سلامت
خدائے پاک با اقبال و شوکت
پس ذوق وصال و شوق دیدار
میں اپنا حال یوں کرتی ہوں اظہار
جدا تم سے ہوئی ہوں جس گھڑی سے
کہ تنگ آئی ہوں اپنی زندگی سے
چھڑایا ہے فلک نے تممکو جب سے
گھلی جاتی ہوں میں رنج و تعب سے

صفحہ 95
ستاتا ہے مجھے دردِ جدائی
بلا یہ کیسی میرے سر پہ آئی
کہوں کیا اپنی دل کی بیقراری
ہوئی ہوں جان سے میں اپنی عاری
تمہاری ہر گھڑی ہے یادگاری
ہر اکدم آنکھوں سے آنسو ہیں جاری
کُھلے رہتے ہیں مرے دیدہ تر
نہیں آتی ہے مجھ کو نیند دم بھر
تڑپتی ہوں سحر سے لے کے تا شام
نہیں ملتا کسی دم مجھ کو آرام
میرا دل خانہء تن میں ہے بیتاب
خدا آگاہ ہے مانندِ سیماب
تیری فرقت میں فرشِ رنج و غم پر
پڑی رہتی ہوں ہر دم تانے چادر
ہوئی ہے مجھ کو صحبت رنج و غم سے
بہا کرتے ہیں آںسو چشمِ نم سے
ہوئی ہوں یاں تلک میں زار و لاغر ہوا ہے جسم شکلِ تار بستر
ہوا ہے بار دوش اپنا مجھے سر
ہوئی ہے اب تو اپنی جان دو بھر
یہاں تک جوش سودے کی ہے کثرت
کہ اپنے سایہ سے آتی ہے وحشت
ہوا ہے گھر مجھے زنداں سے بدتر
دہان مار ہے گھر کا مجھے در
زیادہ دم بدم ہوتا ہے سودا
نہیں مجھ کو خبر کچھ اپنی اصلا
بلائے ہجر میں جب سے پھنسی ہوں
میں انگاروں کے اوپر لوٹتی ہوں
پڑی ہوں نیم جاں فرقت میں تیری
ہوئی ہوں ناتواں فرقت میں تیری
تڑپتا ہے میرے پہلو میں یہ دل
ہر اِک ساعت برنگ مرغِ بسمل
تپِ فرقت ستاتی ہے بہت اب
نہیں ملتی مجھے راحت کسی ڈھب
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 96
الجھتا ہے مرا دم خود بخود اب
ملائے گا مجھے تم سے خدا کب
دعا ہے ہر گھڑی مری خدا سے
تمہاری شکل پھر مجھ کو دکھا دے
ہوئی ہے تم سے جس دن سے جدائی
عدوئے جان ہوئی ساری خدائی
نہیں لگتا کسی جا پر میرا جی
تڑپتی پھرتی ہوں مانندِ وحشی
خدا آگاہ ہے یہ بدرِ عالم
تمہاری یاد میں رہتی ہے ہر دم
ہوئی شدت جنوں کی جب کہ مجھ کو
پڑھا تب اس غزل کو میں نے رو رو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
خدا لائے یہاں سلطانِ عالم
تمہیں با عز و شاں سلطانِ عالم
تمہاری یاد کرتے ہیں شب و روز
حسینانِ جہاں سلطانِ عالم
کرے سر سبز باغِ آرزو کو
بہارِ جاوداں سلطانِ عالم
ہر اک گلرو یہی کہتے ہیں ہر دم
گُلِ باغِ جہاں سلطانِ عالم
پڑی ہوں بسترِ غم پر یہاں میں
گئے جب سے وہاں سلطانِ عالم
تمہاری بزمِ عشرت یاد کر کے
ہوں روتی شمع ساں سلطانِ عالم
غم و اندوہ و رنج و درد و صدمہ
مرے ہیں مہرباں سلطانِ عالم

صفحہ 97
تمہارے ہجر میں زار و لاغر
پڑی ہوں نیم جاں سلطانِ عالم
یہ کیسی سر پہ مرے آ گئی ہے
بلا اک ناگہاں سلطانِ عالم
ہیں جلتے آتشِ فرقت سے ہر دم
ہمارے استخواں سلطانِ عالم
کہوں کس سے حالِ دل کو اپنے
نہیں کوئی یہاں سلطانِ عالم
نہ روؤں کس طرح سے میں شب و روز
ہیں آنکھوں سے نہاں سلطانِ عالم
حباب آساں ہوں اس بحرِ جہاں میں
کوئی دم مہماں سلطانِ عالم
کیا غربال تیرِ ہجر نے دل
مرے ابرو کماں سلطانِ عالم
مریضِ ہجر کی اب کوئی دم میں
نکلتی ہے یہ جاں سلطانِ عالم
اب اپنی بدرِ عالم کو یہاں سے
بلا لیجئیے وہاں سلطانِ عالم
بدر عالم
جمادی الآخر 1275 ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام نواب نشاط محل صاحبہ
روحِ رواں سردار محبوبہ زماں گل باغ زرم و حیا گلدستہ ء بزمِ خفا خوش رو خوش خو گل اندام باعث صبر ازام ہمیشہ خوش رہو۔

صفحہ 98
سب گئے ہوش و صبر و تاب و تواں
دل سے اک داغ ہی جدا نہ ہوا
تمہارے برادرم مکرم ذوالفقار الدولہ میر محمد سجاد کے معرفت شکوہ نامہ آیا پچھلی یاد آتے ہی آنکھوں سے لگایا۔ گھبراؤ نہیں خدا مسبب الاسباب ہے کوئی صورت نکالے۔ بچھڑے ہوئے پھر وہ نئے سرے سے ملا دے۔ تمہاری دلی حالت سے آگاہ ہوا اب تم سے اور چاہ ہوا۔ یہ نئی غزل بھیجتا ہوں

کانوں کو پھر خوش آتی ہے صورت ہزار کچھ
آتی چلی ہے گلشن ِدل میں بہار کچھ
مطرب کی صوت سے دل ناساز ہے فگار
باقی پہر پھر گلے میں گریباں کے تار کچھ
پھر آمدِ بہار میں کٹتے ہیں پر مرے
بے رنگ ہو گیا چمنِ روزگار کچھ
ساقی نے اپنے دور میں محروم جو رکھا
روشن ہے اس کے نور سے اب اسمیں نار کچھ
دارومدار دارِفنا میں خدا پہ ہے
اختر بتوں کا عشق نہیں پائیدار کچھ

صفحہ 99
یہاں کا وہی حال ہے مرے دل پہ بڑا ملال ہے۔
سخت مشکل ہے کہ ہر بات کنایہ سمجھو
ہے زبان میری بھی گفتار کروں یا نہ کروں
منشی السلطان بہادر کو ہدایت کر دی ہے وہ ہمارا محبت نامہ معہ رقم تمہارے تک پہنچا دے۔ فرنگیوں کی بے اعتنائی حد سے زیادہ ہے۔ مرے حالات جو صاحبات محل تک پہنچے ہوں گے۔ مصائب کی تفصیل ان سے ہویدا ہے۔
حیف سمجھا ہے نہ وہ قاتل نادان ورنہ
بے گنہ مارنے کے قابل یہ گنہ گار نہ تھا
راقم جانِعالم اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نامہ منظوم بنام جانِعالم
اے سرور مئے ایاغ مراد
اب بخش نہال باغ مراد
افسر افسران کشور حُسن
خسرو خسروان کشور حُسن
نگہت افزائے گیسوئے قدرت
جوہر تیغِ ابروئے قدرت

صفحہ 100
سپہر آرزو منور باد
ظلِ الطاف سائی گسترد باد
بعد اظہار شوقِ بوس و کنار
شرح کرتی ہوں حالتِ زار
لاکھ میں آپ کو سنبھالتی ہوں
ہر طرح دردِ ہجر پالتی ہوں
خود بخود دم مگر نکلتا ہے
دل کو جیسے کوئی مسلتا ہے
سوزِ غم سے ہوا ہے دل تفتہ
رفتہ رفتہ ہو از خود رفتہ
گاہ اٹھتی ہوں گاہ گرتی ہوں
چاہ میں باولی سی پھرتی ہوں
ہائے تقدیر کا پرا یہ بجوگ
جان کو لگ گیا کہاں کا روگ
لالہ باغ میں تو چار ہیں داغ
ایک دل میں مرے ہزار ہیں داغ
دن گزر کر جو شام ہوتی ہے
ایک منزل تمام ہوتی ہے
کشورِ دل خراب ہے پیارے
رنج اب بے حساب ہے پیارے
مدتوں سے مدام رونا ہے
صبح رونا ہے شام رونا ہے
اب یہ چوتھا برس ہوا ہے شروع
مہر وصل نے کیا نہ طلوع
ایک دو میں سے حال ہو جائے
وصل ہو یا وصال ہو جائے
تم سے یہ التجا ہے جانِ جہاں
کوئی صورت تو زیست کی ہو عیاں
واقعی کم ملال ہوتا ہے
خط بھی نصف الوصال ہوتا ہے
جانِ عالم پے رحیم و رؤف
آمد و شد نہ خط کی ہو موقوف
ہجر سے جان دردناک ہے اب
زندگی برسبیل ڈاک ہے اب
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 101
دردِ دل جس قدر لکھوں کم ہے
راقمہ خط کی بدر عالم ہے
بدر عالم
3محرم 1276ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منظوم رقعہ بنام جانِعالم
ہمارے قدردان سلطانِ عالم
سلمان زمان سلطانِ عالم
معدنِ الفت مسیحائے زماں
جانِ عالم جانِ عالم جانِ عالم
سپہر مہر و الفت کے ستارے
تم بھی ہو اختر طالع ہمارے
مرے مالک مرے سلطان غازی
مرے وارث خداوند مجازی
تا صد وسی سال تم قائم رہو
شعر حق حامی رہیں اور مہرباں
داستانِ شوق کیا کیجئیے رقم
مختصر بھی ہو نہیں سکتی بیاں
ہے تپِ فرقت سے بھڑکی دلکی آگ
آہ کا سینہ سے اٹھتا ہے دھواں
کس قدر دشوار ہے آزارِ ہجر
قرض کا بھی سر پہ ہے بارِ گراں
تین ہزار اور ایک سو کی قرضدار
ہو گئی ہوں ان دنوں ایجانِ جاں

صفحہ 102
اطلاعاً کر دیا افشائے حال
ورنہ تھا یہ راز سینہ میں نہاں
رقمیہ بدر عالم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنام نواب بدر عالم صاحبہ
انیس باوفا متصف با صدق و صفا آتشِ حسن دوبالا ہو جیو۔
پڑا ہے پاؤں میں اب سلسلہ محبت کا
بُرا ہمارا ہوا ہو بھلا محبت کا
تیری صورت کبھی جو یاد آتی ہے۔ دم الٹتا ہے سینہ میں سانس نہیں سماتی ہے۔
گو نالہ نارسا ہو نہ ہو آہ میں اثر
میں نے تو درگذر نہ کی جو مجھ سے ہو سکا
پچھلی کہانی کسی معشوقہ ء طناز کی یاد آ جاتی ہے۔ ساعتوں کروٹیں بدلتا رہتا ہوں۔ نیند بالکل اُچٹ جاتی ہے۔ میں نے ایسے حال میں کہا ہے
پریاں تو اڑ گئیں دل دیوانہ رہ گیا
شعلہ پتنگ ہو گیا پروانہ رہ گیا

صفحہ 103
عرصہ بعد سرفراز بیگم کا نامہء اشتیاقیہ آیا گذرا ہوا فسانہ یاد آیا۔ نواب خاص محل اور تمہارے سنانے کو اس بیوفا کی کج ادائی اور اپنی قسمت کی نارسائی کیا بیان کروں۔ سرفراز پری امخاطب بہ نواب سرفراز بیگم صاحبہ مرے گھر میں جیسے پڑی تھی دادِ عیش دے رہی تھی پر اس سودے کا کیا علاج تھا اور ہر لحظہ ناوک مژہ اس کا مرے دل کے پار ہوتا تھا۔ اس کی ایک ایک ادا پر ہزار ہزار سنگ، رنج و غم اپنے سینہء بے کینہ پر رکھا تھا۔ اس کی دلربائیوں کا نظارہ کیا کرتا وہ سوتی تو میں تمام رات جاگتا اور اس کے حسن جہانتاب کا نظارہ کیا کرتا۔ اس کے عشق میں عجب حال تھا۔
کہنے سے میر اور بھی ہوتا ہے مضطرب
سمجھاؤں کب تک اس دل خانہ خراب کو
الغرض اس نے ہزاروں مکر و فریب سے مجھے اپنا گرویدہ کر لیا تھا۔ وہ دن میں کئی کئی لباس رنگ برنگی بدلتی۔ ہر وقت حنا کا عطر لگائے رہتی۔دندانِ گوہر آبدار پر مسّی ملی رہتی۔ ہونٹوں پر ہر وقت پانوں کی لالی، اس پر میں نے کہا
لکھوٹا مسی پہ اس نے غضب جمایا ہے
اٹھا ہے آتشِ بیداد سے دھواں کیا خوب

صفحہ 104
ماتھے پر افشاں چنی اور بالوں کو خوبصورتی سے بنائے رکھتی۔ چوٹی میں غضب کا موباف ہوتا۔ ہاتھوں میں مہندی ہمیشہ لگی رہتی۔ چھوٹی چھوٹی انگلیوں میں چھلّے آرسی کا بڑا شوق۔ غرضکہ ہزاروں اداؤں سے میرا دل لبھاتی۔ میں بے تکلف اس کے بادہ ء الفت سے سرشار رہتا اور ہر وقت اس کا ہی طلبگار رہتا۔ جب کبھی وہ مجھ کو اشارے سے بلاتی مری جان میں جان آ جاتی۔ اس سے کہتا
شمع عریاں کی طرح دل نہ جلاؤ صاحب
اپنے جامہ سے نہ باہر ہوئے جاؤ صاحب
مری اس خودفراموشی نے سب صاحباتِ محل کو مجھ سے کشیدہ کر رکھا تھا۔ ایک روز نجم النسا ، نواب خورد محل اور نواب نشاط محل نے بالاتفاق مجھے علیٰحدہ شہنشاہ منزل کے ایک گوشہ میں بلایا اور منہ بنا کر ذریعہ ء نشاط محل کہلایا میں نے پوچھا خیر تو ہے مدعا کیا ہے۔ آخر بہ ہزار رقم سرفراز پری پر عاشق ہونے کی داستان سنائی۔ عجیب عجیب مکر گانٹھا۔ ایک ذکر کرتی دوسری اپنا سر افسوس سے ہلاتی تیسری حسرت سے زانوں پر ہاتھ مارتی کبھی ہونٹوں پر زبان پھیرتی۔ کبھی دستِ تاسف ملتی۔ یہ حال دیکھا نہ گیا۔ بے اختیار ہو کر پوچھا خدا و رسول کا واسطہ تم جو کہنا چاہتی ہو اصلی بات جلد کہو تا کہ میرے دل کا

صفحہ 105
اختلاج رفع ہو۔ ہرچند تفحص کرتا مگر ان کی طرف سے تکلف ہوتا۔ آخرش نجم النسا نے بات کاٹ کر کہا اے سرتاج پیا جانعالم کہنا یہ ہے۔ سرفراز پری کی چاہت و محبت میں اس قدر اپنا حال تباہ کر لیا ہے لین اس کی عجیب عجیب باتیں گوش زد ہوئی ہیں۔ میں نے تکتدر خاطر ہو کر کہا کچھ تو کہو مجھے خفقان ہوتا ہے۔ اور جی کو خلجان ہوتا ہے۔ ہمزبان ہو کر عرض کرنے لگیں جانعالم آپ پر ہم سب قربان و نثار ہوں۔ تمام عورتوں میں بدی کی خو ہوتی ہے۔ ان کے آب و گِل میں حد درجہ بے مرعتی ہے۔ اگر ملالِ خاطر نہ ہو تو یہ عرض کریں۔ سرفراز پری بظاہر آپ سے تپاک رکھتی ہے باطن میں ذرا خیال نہیں۔ اس کے فراق میں نصیب ڈشمناں کچھ ہی حال ہو اس کو ذرہ ملال نہیں۔ سرفراز کا نام سنتے ہی میرا رنگ اڑ گیا۔ چہرہ فق ہوگیا۔ دونوں ہاتھوں سے دل پکڑ کر رہ گیا۔ قلب پر ایسی چوٹ پڑی کہ بے اختیار منہ سے آہ نکل گئی۔ اس دن ٹالا۔ دوسرے روز جملہ پریوں کو جمع کر کے سب کے سامنے ہاتھ باندھ کر میں نے کہا اے صاحبو میں نے تم لوگوں میں سے کسی کو جبراً اپنے گھر میں بٹھایا ہے۔ کوئی مجھ پر عاشق ہو کر آیا ہے کوئی خواب میں دیکھ کر فدا ہوا ہے۔ کوئی بازار میں دیکھ کر فریفتہ ہوا ہے۔ کوئی گھر میں خود شیدا ہوا ہے۔ کسی نے ناچ میں دل دے دیا ہے۔ کسی نے گانے میں طوقِ الفت گلوگیر کیا ہے۔ ایسا نہ ہو مجھے حسرت و افسوس کا شکار بننا پڑے
 
Top