بیٹوں کے سر سے باپ کا سایہ جو ہٹ گیا - پرویز اختر

فرخ منظور

لائبریرین
بیٹوں کے سر سے باپ کا سایہ جو ہٹ گیا
اتنا بڑا مکان تھا حصّوں میں بٹ گیا

کہتے ہیں نقشِ پا کہ رُکا تھا وہ دیر تک
دستک دیے بغیر جو در سے پلٹ گیا

میں خود ڈرا ہوا تھا پہ ہمّت سی آ گئی
جب بچّہ ڈر کے میرے گلے سے لپٹ گیا

ثابت ہوا کہ میری زمیں مجھ کو راس تھی
آ کر بلندیوں میں مرا وزن گھٹ گیا

سب اہلِ خانہ کے ہیں تقاضے جدا جدا
پرویز میرا پیار تو ٹکڑوں میں بٹ گیا
 
Top