حسان خان
لائبریرین
بینم چه؟ زلزله، به کجا؟ در فلک، چرا؟
از ماتمِ حسین، که حسین؟ ابنِ مرتضیٰ
کیا دیکھ رہا ہوں؟ زلزلہ۔ کہاں پر؟ آسمان پر۔ کیوں؟ حسین کے ماتم سے۔ کون حسین؟ مرتضیٰ کا بیٹا۔
های! همان حسینِ جگر گوشهٔ بتول؟
وای! همان حسینِ جگربندِ مصطفیٰ؟
ہائے! وہی حسین جو بتول کا جگر گوشہ تھا؟ وائے! وہی حسین جو مصطفیٰ کا جگر بند تھا؟
آری، چه شد؟ شهید، به یثرب شهید شد؟
نی نی! کجا؟ به خاکِ بیابانِ کربلا
ہاں وہی۔ اُسے کیا ہوا؟ وہ شہید ہو گیا۔ مدینے میں شہید ہوا؟ نہیں نہیں۔ پھر کہاں؟ بیابانِ کربلا کی خاک پر۔
آنجا چرا برفت؟ به قصدِ قتال؟ نی
آخر چه کار داشت؟ هدایت به اشقیا
وہ کربلا کس لیے گیا تھا؟ قتال کے قصد سے؟ نہیں۔ پھر کس لیے؟ اشقیا کی ہدایت کے لیے۔
خود رفت؟ نی، به حیله طلب داشتند، چون؟
گفتند شوقِ بیعتِ تو هست ای شها
وہ خود کربلا گیا تھا؟ نہیں، بلکہ حیلے سے بلایا گیا تھا۔ کیسے؟ اُنہوں نے کہا تھا کہ اے شاہ ہمیں آپ کی بیعت کا شوق ہے۔
تنها برفت؟ نی، به رکابش دگر که بود؟
هفتاد و دو رفیق ز اصحاب و اقربا
وہ تنہا گیا تھا؟ نہیں۔ اُس کے ہمراہِ رکاب دیگر افراد کون تھے؟ اُس کے اصحاب اور رشتے داروں میں سے بہتّر رفقاء۔
تشنه شهید شد؟ نه، بدادند آب نیز
از بحر؟ نی ز چشمهٔ پیکانِ جانگزا
تشنہ شہید ہوا تھا؟ نہیں۔ تو کیا سمندر سے اُسے پانی دیا گیا؟ نہیں، بلکہ جاں فرسا تیروں کے چشمے سے۔
آن کیست کو برید سرِ شاهِ بحر و بر؟
فرزندِ سعد باد بر او لعنتِ خدا
وہ کون تھا جس نے شاہِ بحر و بر کا سر کاٹا تھا؟ فرزندِ سعد، اُس پر خدا کی نفرین ہو۔
خود کرد آن چنین؟ نه به حکمِ یزید کرد
از خبث، آن خبیث ابایی نکرد؟ لا
اُس نے یہ کام خود کیا؟ نہیں بلکہ یزید کے حکم پر کیا۔ اُس خبیث نے اس خباثت سے ذرا انکار نہیں کیا؟ نہیں۔
بر جسمِ شاه بود کفن؟ بود، از حریر؟
نی نی، ز ریگِ گرمِ بیابانِ کربلا
شاہ کے جسم پر کفن تھا؟ تھا۔ ریشم سے بنا ہوا؟ نہیں نہیں، بلکہ بیابانِ کربلا کی گرم ریت کا۔
آخر یزید را چه غرض بود از آن ستم؟
تذلیلِ آلِ اطهرِ محبوبِ کبریا
آخر یزید کو اس ستم سے کیا غرض تھی؟ محبوبِ کبریا کی آلِ اطہر کی تذلیل۔
میداشت آرزوی حکومت به آلِ پاک؟
آری، عجب عجب ز تمنای بیحیا
کیا اُسے آلِ پاک پر حکومت کرنے کی آرزو تھی؟ ہاں۔ اس بے حیا تمنا پر صد عجب!
آوخ ز دستِ جورِ ستمپیشه آسمان
بر خاک ریخت خونِ عزیزانِ مصطفیٰ
وا دریغا کہ آسمان نے اپنے ظالم اور ستم پیشہ ہاتھوں سے عزیزانِ مصطفیٰ کا خون خاک پر بہا دیا۔
این ظلم بر نبیرهٔ شاهِ زمن، فغان
وین جور بر عزیزِ علی، وا مصیبتا
یہ ظلم اور شاہِ زمن کے نواسے پر؟ فغاں! یہ جور اور علی کے عزیز پر؟ وا مصیبتا!
از دیده خون بریز عظامی، چه حاصلی؟
دریابدت به حشر تو را رحمتِ خدا
اے عظامی تم اپنی آنکھوں سے خون بہاؤ۔ اس کا حاصل کیا ہو گا؟ حشر کے وقت تمہیں خدا کی رحمت ڈھونڈ نکالے گی۔
(مولانا عزیزالدین احمد عظامی)
از ماتمِ حسین، که حسین؟ ابنِ مرتضیٰ
کیا دیکھ رہا ہوں؟ زلزلہ۔ کہاں پر؟ آسمان پر۔ کیوں؟ حسین کے ماتم سے۔ کون حسین؟ مرتضیٰ کا بیٹا۔
های! همان حسینِ جگر گوشهٔ بتول؟
وای! همان حسینِ جگربندِ مصطفیٰ؟
ہائے! وہی حسین جو بتول کا جگر گوشہ تھا؟ وائے! وہی حسین جو مصطفیٰ کا جگر بند تھا؟
آری، چه شد؟ شهید، به یثرب شهید شد؟
نی نی! کجا؟ به خاکِ بیابانِ کربلا
ہاں وہی۔ اُسے کیا ہوا؟ وہ شہید ہو گیا۔ مدینے میں شہید ہوا؟ نہیں نہیں۔ پھر کہاں؟ بیابانِ کربلا کی خاک پر۔
آنجا چرا برفت؟ به قصدِ قتال؟ نی
آخر چه کار داشت؟ هدایت به اشقیا
وہ کربلا کس لیے گیا تھا؟ قتال کے قصد سے؟ نہیں۔ پھر کس لیے؟ اشقیا کی ہدایت کے لیے۔
خود رفت؟ نی، به حیله طلب داشتند، چون؟
گفتند شوقِ بیعتِ تو هست ای شها
وہ خود کربلا گیا تھا؟ نہیں، بلکہ حیلے سے بلایا گیا تھا۔ کیسے؟ اُنہوں نے کہا تھا کہ اے شاہ ہمیں آپ کی بیعت کا شوق ہے۔
تنها برفت؟ نی، به رکابش دگر که بود؟
هفتاد و دو رفیق ز اصحاب و اقربا
وہ تنہا گیا تھا؟ نہیں۔ اُس کے ہمراہِ رکاب دیگر افراد کون تھے؟ اُس کے اصحاب اور رشتے داروں میں سے بہتّر رفقاء۔
تشنه شهید شد؟ نه، بدادند آب نیز
از بحر؟ نی ز چشمهٔ پیکانِ جانگزا
تشنہ شہید ہوا تھا؟ نہیں۔ تو کیا سمندر سے اُسے پانی دیا گیا؟ نہیں، بلکہ جاں فرسا تیروں کے چشمے سے۔
آن کیست کو برید سرِ شاهِ بحر و بر؟
فرزندِ سعد باد بر او لعنتِ خدا
وہ کون تھا جس نے شاہِ بحر و بر کا سر کاٹا تھا؟ فرزندِ سعد، اُس پر خدا کی نفرین ہو۔
خود کرد آن چنین؟ نه به حکمِ یزید کرد
از خبث، آن خبیث ابایی نکرد؟ لا
اُس نے یہ کام خود کیا؟ نہیں بلکہ یزید کے حکم پر کیا۔ اُس خبیث نے اس خباثت سے ذرا انکار نہیں کیا؟ نہیں۔
بر جسمِ شاه بود کفن؟ بود، از حریر؟
نی نی، ز ریگِ گرمِ بیابانِ کربلا
شاہ کے جسم پر کفن تھا؟ تھا۔ ریشم سے بنا ہوا؟ نہیں نہیں، بلکہ بیابانِ کربلا کی گرم ریت کا۔
آخر یزید را چه غرض بود از آن ستم؟
تذلیلِ آلِ اطهرِ محبوبِ کبریا
آخر یزید کو اس ستم سے کیا غرض تھی؟ محبوبِ کبریا کی آلِ اطہر کی تذلیل۔
میداشت آرزوی حکومت به آلِ پاک؟
آری، عجب عجب ز تمنای بیحیا
کیا اُسے آلِ پاک پر حکومت کرنے کی آرزو تھی؟ ہاں۔ اس بے حیا تمنا پر صد عجب!
آوخ ز دستِ جورِ ستمپیشه آسمان
بر خاک ریخت خونِ عزیزانِ مصطفیٰ
وا دریغا کہ آسمان نے اپنے ظالم اور ستم پیشہ ہاتھوں سے عزیزانِ مصطفیٰ کا خون خاک پر بہا دیا۔
این ظلم بر نبیرهٔ شاهِ زمن، فغان
وین جور بر عزیزِ علی، وا مصیبتا
یہ ظلم اور شاہِ زمن کے نواسے پر؟ فغاں! یہ جور اور علی کے عزیز پر؟ وا مصیبتا!
از دیده خون بریز عظامی، چه حاصلی؟
دریابدت به حشر تو را رحمتِ خدا
اے عظامی تم اپنی آنکھوں سے خون بہاؤ۔ اس کا حاصل کیا ہو گا؟ حشر کے وقت تمہیں خدا کی رحمت ڈھونڈ نکالے گی۔
(مولانا عزیزالدین احمد عظامی)