بیاں کو نعمتِ خضریٰ سے بھر دیا جائے(حسنین اکبر صاحب)

محمد فائق

محفلین
بیاں کو نعمتِ خضریٰ سے بھر دیا جائے
جو لکھ رہا ہوں اسے نعت کر دیا جائے

میں ایک سنگ ہوں اور بولنے کی حسرت ہے
مجھے بھی اُن ص کی ہتھیلی پہ دھر دیا جائے

سنا ہے آپ مصیبت کے وقت آتے ہیں
تو مشکلوں کو مری سمت کر دیا جائے

اسی کا نام کریمی ہے مصطفیٰ ص کی قسم
کہ کوئی مانگے نہ مانگے مگر دیا جائے

مدینہ مجھ سے زیارت کی نذر مانگے اگر
تو میرا فیصلہ ہو گا کہ سر دیا جائے

رکھے وہ ہستیءٍ بے سایہ زیر سایہ مجھے
اس ایک شرط پہ جنت میں گھر دیا جائے

خدا کے خوف سے پہلے نبی کا خوف رہے
گناہ گار کو رحمت کا ڈر دیا جائے

میں آزماؤں محمد کے اسم اعظم کو
مجھے سفینہ نہیں بس بھنور دیا جائے

کچھ اشک بھی ہیں جنہیں معجزوں کی حسرت ہے
فقط دعاؤں کو کیوں کر اثر دیا جائے

دل و دماغ کا یہ خطہءٍ عرب ہے اجاڑ
نبی کے نور سے لطف سحر دیا جائے

سحر کو شمس تو شب کو قمر دیا جائے
یہ رات دن کا سفر ختم کر دیا جائے

لغت میں صدقہءٍ خیر البشر رہے موجود
میں چاہتا ہوں سخن معتبر دیا جائے

یہ شہر علم کی خواہش تھی کوئی مجھ میں رہے
تو کبریا سے کہا مجھ کو در دیا جائے

عجب نظام ہے پودے کو سنگ میں ہو عطا
گلوں کا رزق انہیں شاخ پر دیا جائے

ہوں دو جہان پہ رحمت کی بارشیں اکبر
مجھے بھی بوند برابر وہ زر دیا جائے
 
Top