عالی بیان درد محبت جو بار بار نہ ہو

سیما علی

لائبریرین
بیان درد محبت جو بار بار نہ ہو
کوئی نقاب ترے رخ کی پردہ دار نہ ہو

سلام شوق کی جرأت سے دل لرزتا ہے
کہیں مزاج گرامی پہ یہ بھی بار نہ ہو

کرم پہ آئیں تو ہر ہر ادا میں عشق ہی عشق
نہ ہو تو ان کا تغافل بھی آشکار نہ ہو

یہی خیال رہا پتھروں کی بارش میں
کہیں انہیں میں کوئی سنگ کوئے یار نہ ہو

ابھی ہے آس کہ آخر کبھی تو آئے گا
وہ ایک لمحہ کہ جب تیرا انتظار نہ ہو

بہت فریب سمجھتا ہوں پھر بھی اے عالیؔ
میں کیا کروں اگر ان پر بھی اعتبار نہ ہو
 
Top