حسان خان
لائبریرین
(به محمد اقبال)
ای بلنداقبالِ فردوسیسرشت
عالم از طبعِ تو خرم چون بهشت
ای پس از شهنامهپردازِ کهن
کس نکِشته همچو تو تخمِ سخن
ای که بردی رنجها در سال سی
تا سخن نو آوری در پارسی
ای که با نظمِ دری کاخی بلند
ساختی، از باد و باران بیگزند
ای که پیوستی به هم، چون مولوی
خوی درویشی و لفظِ خسروی
ای که با سحرِ سخن کردی پدید
بر 'مسافر'، 'گلشن راز جدید'
ای به 'اسرارِ خودی' پرداخته
ای 'رموزِ بیخودی' را ساخته
ای خدایی کرده در لفظِ دری
در 'پیام مشرقت' پیغمبری
ای که گفتی با جوانانِ عجم
کای خمارآلودگانِ جامِ جم
راستی، جانِ من و جانِ شما
لالهام من در گلستانِ شما
آری، ای اقبالِ معنیآفرین
سر برآر از خوابِ سنگین و ببین
کاندر اینجا، در دلِ اقلیم تو
مجلسی کردند در تکریمِ تو
هر که آورد از تو ذکری در میان
انگلیسیدان شد و اردوزبان
لفظِ زیبای تو را یک سو نهاد
حرمتِ شعرِ دری بر باد داد
گر تو تجلیلی چنین میخواستی
از چه قدرِ پارسی را کاستی
یا به 'اردو' مینوشتی نامهها
یا به لفظِ 'انگلیسی' چامهها
لیک میدانم که ای مردِ شگفت
این گنه را بر تو نتوانم گرفت
گر دگر بار از بهشت آیی فرود
کَی به جز شعرِ دری خواهی سرود
کاشکی نامآورانِ انجمن
در کتابت خوانده بودند این سخن:
"گرچه هندی در عذوبت شکر است
طرز گفتار دری شیرینتر است"
(نادر نادرپور)
۱ نومبر ۱۹۷۷ء
ترجمہ:
اے بلند اقبالِ فردوسی فطرت، عالم تمہاری طبع سے بہشت کی طرح شاد ہے۔ اے کہ کہنہ شاہنامہ پرداز (= فردوسی) کے بعد کسی نے تمہاری طرح سخن کا بیج نہ بویا۔ اے کہ تم نے فارسی میں سخنِ نو لانے کے لیے تیس سال رنج اٹھائے۔ اے کہ تم نے نظمِ دری سے ایک بلند محل بنایا جو باد و باراں سے بے گزند ہے۔ اے کہ تم نے رومی کی طرح خُوئے درویشی اور لفظِ خسروی کو باہم پیوست کیا۔ اے کہ تم نے سحرِ سخن سے 'مسافر' پر 'گلشنِ رازِ جدید' ظاہر کیا۔ اے 'اسرارِ خودی' میں مشغول رہنے والے؛ اے 'رموزِ بے خودی' کی بِنا کرنے والے۔ اے لفظِ دری میں خدائی کرنے والے؛ اے کہ تمہارے 'پیامِ مشرق' میں پیغمبری ہے۔ اے کہ تم نے جوانانِ عجم سے کہا کہ اے خمار آلودگانِ جامِ جم، حقیقتاً، تمہاری اور میری جان کی قسم، میں تمہارے گلستان کے اندر لالہ ہوں۔ ہاں، اے اقبالِ معنی آفریں، خوابِ سنگین سے سر اٹھاؤ اور دیکھو کہ یہاں تمہاری اقلیم کے دل میں تمہاری تکریم میں ایک مجلس برپا کی گئی۔۔۔ جو کوئی بھی تمہارا ذکر درمیان میں لایا، یا تو وہ انگریزی داں ہو گیا یا اردو گو۔۔۔ تمہارے سخنِ زیبا کو اُس نے ایک طرف رکھ دیا اور شعرِ دری کی حرمت کو برباد کر دیا۔ اگر تمہیں ایسی کسی تجلیل کی خواہش تھی تو کس لیے تم نے فارسی کی قدر کم کی؟ یا تو تم اردو میں نامے لکھتے، یا پھر انگریزی زبان میں شاعری کرتے۔ لیکن اے مردِ حیرت انگیز، میں جانتا ہوں کہ اِس گناہ کے لیے میں تمہیں قصوروار نہیں ٹھہرا سکتا۔ (کیونکہ) اگر تم دیگر بار بھی بہشت سے نیچے آؤ گے تو کَب فارسی اشعار کے سوا کچھ کہو گے؟ کاش کہ انجمن کے نام آوراں تمہاری کتاب میں یہ سخن پڑھ چکے ہوتے کہ "اگرچہ ہندی شیرینی میں شکر ہے، لیکن طرزِ گفتارِ دری شیریں تر ہے"۔
ای بلنداقبالِ فردوسیسرشت
عالم از طبعِ تو خرم چون بهشت
ای پس از شهنامهپردازِ کهن
کس نکِشته همچو تو تخمِ سخن
ای که بردی رنجها در سال سی
تا سخن نو آوری در پارسی
ای که با نظمِ دری کاخی بلند
ساختی، از باد و باران بیگزند
ای که پیوستی به هم، چون مولوی
خوی درویشی و لفظِ خسروی
ای که با سحرِ سخن کردی پدید
بر 'مسافر'، 'گلشن راز جدید'
ای به 'اسرارِ خودی' پرداخته
ای 'رموزِ بیخودی' را ساخته
ای خدایی کرده در لفظِ دری
در 'پیام مشرقت' پیغمبری
ای که گفتی با جوانانِ عجم
کای خمارآلودگانِ جامِ جم
راستی، جانِ من و جانِ شما
لالهام من در گلستانِ شما
آری، ای اقبالِ معنیآفرین
سر برآر از خوابِ سنگین و ببین
کاندر اینجا، در دلِ اقلیم تو
مجلسی کردند در تکریمِ تو
هر که آورد از تو ذکری در میان
انگلیسیدان شد و اردوزبان
لفظِ زیبای تو را یک سو نهاد
حرمتِ شعرِ دری بر باد داد
گر تو تجلیلی چنین میخواستی
از چه قدرِ پارسی را کاستی
یا به 'اردو' مینوشتی نامهها
یا به لفظِ 'انگلیسی' چامهها
لیک میدانم که ای مردِ شگفت
این گنه را بر تو نتوانم گرفت
گر دگر بار از بهشت آیی فرود
کَی به جز شعرِ دری خواهی سرود
کاشکی نامآورانِ انجمن
در کتابت خوانده بودند این سخن:
"گرچه هندی در عذوبت شکر است
طرز گفتار دری شیرینتر است"
(نادر نادرپور)
۱ نومبر ۱۹۷۷ء
ترجمہ:
اے بلند اقبالِ فردوسی فطرت، عالم تمہاری طبع سے بہشت کی طرح شاد ہے۔ اے کہ کہنہ شاہنامہ پرداز (= فردوسی) کے بعد کسی نے تمہاری طرح سخن کا بیج نہ بویا۔ اے کہ تم نے فارسی میں سخنِ نو لانے کے لیے تیس سال رنج اٹھائے۔ اے کہ تم نے نظمِ دری سے ایک بلند محل بنایا جو باد و باراں سے بے گزند ہے۔ اے کہ تم نے رومی کی طرح خُوئے درویشی اور لفظِ خسروی کو باہم پیوست کیا۔ اے کہ تم نے سحرِ سخن سے 'مسافر' پر 'گلشنِ رازِ جدید' ظاہر کیا۔ اے 'اسرارِ خودی' میں مشغول رہنے والے؛ اے 'رموزِ بے خودی' کی بِنا کرنے والے۔ اے لفظِ دری میں خدائی کرنے والے؛ اے کہ تمہارے 'پیامِ مشرق' میں پیغمبری ہے۔ اے کہ تم نے جوانانِ عجم سے کہا کہ اے خمار آلودگانِ جامِ جم، حقیقتاً، تمہاری اور میری جان کی قسم، میں تمہارے گلستان کے اندر لالہ ہوں۔ ہاں، اے اقبالِ معنی آفریں، خوابِ سنگین سے سر اٹھاؤ اور دیکھو کہ یہاں تمہاری اقلیم کے دل میں تمہاری تکریم میں ایک مجلس برپا کی گئی۔۔۔ جو کوئی بھی تمہارا ذکر درمیان میں لایا، یا تو وہ انگریزی داں ہو گیا یا اردو گو۔۔۔ تمہارے سخنِ زیبا کو اُس نے ایک طرف رکھ دیا اور شعرِ دری کی حرمت کو برباد کر دیا۔ اگر تمہیں ایسی کسی تجلیل کی خواہش تھی تو کس لیے تم نے فارسی کی قدر کم کی؟ یا تو تم اردو میں نامے لکھتے، یا پھر انگریزی زبان میں شاعری کرتے۔ لیکن اے مردِ حیرت انگیز، میں جانتا ہوں کہ اِس گناہ کے لیے میں تمہیں قصوروار نہیں ٹھہرا سکتا۔ (کیونکہ) اگر تم دیگر بار بھی بہشت سے نیچے آؤ گے تو کَب فارسی اشعار کے سوا کچھ کہو گے؟ کاش کہ انجمن کے نام آوراں تمہاری کتاب میں یہ سخن پڑھ چکے ہوتے کہ "اگرچہ ہندی شیرینی میں شکر ہے، لیکن طرزِ گفتارِ دری شیریں تر ہے"۔
آخری تدوین: