بہترین اُمت

مجاھد حسین

محفلین
بہترین امت
كُنتُمْ خَيرَْ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ لَوْ ءَامَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكاَنَ خَيرًْا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَ أَكْثرَُهُمُ الْفَاسِقُون *سوره آل عمران آيت 110
تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکہتے ہو اگر اہل کتاب بہی ایمان لے آتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا لیکن ان میں صرف چند مومنین ہیں اور اکثريت فاسق ہے۔
تفسیر:
مذکورہ آیت میں امر باالمعروف (نیکیوں کا حکم دینا) اور نہی عن المنکر (برایوں سے روکنا) کے عام رواجی درجی کو بیان کیا گیا ہے، آیت میں ‏‏‌‎غور کرنے سے یہ باتیں سمجه ميں آتی ہیں۔
1. بہترین امت ہونے کا اعزاز کہوکہلے نعروں سے نہیں ہوگا بلکہ ان کے لیے نیکیوں کا حکم دینا اور برایوں سے روکنا اور اللہ پر ایمان رکہنا لازمی ہوتا ہے۔
2. ساکت اور ترسو امت ،کبھی بہی بہترین امت نہیں بن سکتی۔
3. امر باالمعروف و نہی عن المنکر اتني عظيم چيزيں هيں، کیونکہ امتوں کی فضیلت کا میزان ، قرآن نے ان دونوں کو قرار دیا ہے۔ (کنتم خیر امہ).
4. ‎ امر باالمعروف و نہی عن المنکراس وقت مسلمانوں میں اجاگر ہوگی، جب سارے مسلمان ایک امت بن جائیں اور حاکمیت ان کے ہاتھوں میں ہو۔
5. مسلمانوں پر ہی ساری امتوں کو اصلاح کرنے کی ذمیداری ہے۔ (اخرجت للناس)۔
6. فقط نیکیوں کا کہا جائے اور برایوں سے نہ روکے تو پھر اس کا کوئی فائدا نہیں ہے۔ (تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ)
7. امت کے ہر فرد پر امر باالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے، دوسرے لفظوں میں کہا جائے کہ: ایک 9 سالہ لڑکی ریاست کے صدر کو بہی امر باالمعروف و نہی عن المنکر کر سکتی ہے۔ (تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ)
8. امر باالمعروف میں، عمر، علائقائي، قومي، علمي، سماجي، اور اقتصادي حثيتکاکوئی فرق نہیں ہے۔
 

مجاھد حسین

محفلین
بہترین امت
كُنتُمْ خَيرَْ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ لَوْ ءَامَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكاَنَ خَيرًْا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَ أَكْثرَُهُمُ الْفَاسِقُون *سوره آل عمران آيت 110
تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکہتے ہو اگر اہل کتاب بہی ایمان لے آتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا لیکن ان میں صرف چند مومنین ہیں اور اکثريت فاسق ہے۔
تفسیر:
مذکورہ آیت میں امر باالمعروف (نیکیوں کا حکم دینا) اور نہی عن المنکر (برایوں سے روکنا) کے عام رواجی درجی کو بیان کیا گیا ہے، آیت میں ‏‏‌‎غور کرنے سے یہ باتیں سمجه ميں آتی ہیں۔
1.بہترین امت ہونے کا اعزاز کہوکہلے نعروں سے نہیں ہوگا بلکہ ان کے لیے نیکیوں کا حکم دینا اور برایوں سے روکنا اور اللہ پر ایمان رکہنا لازمی ہوتا ہے۔
2.ساکت اور ترسو امت ،کبھی بہی بہترین امت نہیں بن سکتی۔
3.امر باالمعروف و نہی عن المنکر اتني عظيم چيزيں هيں، کیونکہ امتوں کی فضیلت کا میزان ، قرآن نے ان دونوں کو قرار دیا ہے۔ (کنتم خیر امہ).
4.‎ امر باالمعروف و نہی عن المنکراس وقت مسلمانوں میں اجاگر ہوگی، جب سارے مسلمان ایک امت بن جائیں اور حاکمیت ان کے ہاتھوں میں ہو۔
5.مسلمانوں پر ہی ساری امتوں کو اصلاح کرنے کی ذمیداری ہے۔ (اخرجت للناس)۔
6.فقط نیکیوں کا کہا جائے اور برایوں سے نہ روکے تو پھر اس کا کوئی فائدا نہیں ہے۔ (تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ)
7.امت کے ہر فرد پر امر باالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے، دوسرے لفظوں میں کہا جائے کہ: ایک 9 سالہ لڑکی ریاست کے صدر کو بہی امر باالمعروف و نہی عن المنکر کر سکتی ہے۔ (تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ)
8.امر باالمعروف میں، عمر، علائقائي، قومي، علمي، سماجي، اور اقتصادي حثيتکاکوئی فرق نہیں ہے۔
لگتا ہے دوستوں کو میری تحریر اچھی نہیں لگی۔۔۔ کسی نے جواب ہی نہیں دیا
 
Top