بھوک، بیماری، ہلاکت، نفرتوں کی زد میں ہےاز ناز مظفر آبادی

ابو سلوی

محفلین
غزل

بھوک، بیماری، ہلاکت، نفرتوں کی زد میں ہے
آدمی کی ذات، کتنے زلزلوں کی زد میں ہے

گو سفر انسان کا جاری ہے تا روزِ ازل
منزلِ مقصود لیکن، فاصلوں کی زد میں ہے

پیش بندی ہے یقیناً یہ نئی اُفتاد کی
پھر ہماری ذات اُن کے تبصروں کی زد میں ہے

وہ سزائے موت سے پہلے ہی کل شب چل بسا
رحم کی عرضی ابھی تک فائلوں کی زد ميں ہے

ایسے لگتا ہے کہ سایہ ہے کسی آسیب کا
ملتِ اسلام جیسے عاملوں کی زد میں ہے

اپنے آنگن میں نہیں اُتری ابھی تک چاندنی
ناز اپنا چاند شاید بادلوں کی زد میں ہے

نازمظفرآبادی​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top