بھنبھور، سندھ کی قدیم اور شاندار بندرگاہ

05_big.jpg

بھنبھور کا محل وقوع۔
بھنبھور کے آثارسندھ کے دارلخلافہ کراچی سے مشرق طرف پینتیس میل دور ٹھٹھہ ضلع میں عربی سمندرکی خلیج گھارو کے جنوبی کنارے ، دریائے سندھ کی ایک قدیم شاخ کے ساحل پرتحصیل میر پور ساکرو میں واقع ہیں۔ یہ کھنڈرات گھارو شہر سے پانچ کلومیٹردور ایک چھوٹے سے پہاڑی سلسلے کے چھیڑے کے خاتمے پرشروع ہوتی ہوئی زمین کی ایک ایسی محدود ایراضی پر موجود ہیں جو آگے سمندر تک چلی جاتی ہے ۔
یہ اس عظیم الشان شہرکے کھنڈرات ہیں جس کے سندھی باشندوں نے آٹھویں صدی عیسوی میں عرب حملہ آوروں کو مسلسل اور پے درپے شکستیں دے بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔ بھنبھور ایک ساحلی شہر تھا جس کی بندرگاہ اپنے دور میں یقیناًمصروف ترین رہی ہوگی لیکن اب یہاں دیواروں اور گھروں کی گھسی پٹی بنیادوں کے سوا کچھ نہیں بچا ۔ بمنبھور کے بہرمن راجہ کی بیٹی سے متعلق سندھ کی رومانوی داستان سسی پنوں کے قصے کا مرکز یہی شہر بھنبھور تھا کیونکہ احمد نامی وہ دھوبی جس نے سسئی کو پالا تھا یہاں کا رہواسی تھا ۔ پنوں چونکہ ایک کیچ مکران کا بلوچ شہزادہ تھا اس لئے بلوچ قوم کے لوگوں نے سسئی سے پنوں کی محبت کے طور پر مری پہاڑو ں کی ایک چوٹی کا نام بھی بھنبھور رکھا ہے۔ روایت ہے کہ ارمابیل کی سرزمین نے اس رومانی جوڑے کو نگل لیا تھا۔

بھنبھور شہر کی قدامت۔
گوکہ بھنبھور سندھ کی رومانوی اور دیومالائی کہانیوں کا مرکز رہا ہے مگر ایلیٹ کا کہنا ہے کہ ’’ بھنبھور سندھ کی قدیم تاریخی مسودوں میں نہیں ملتا‘‘۔ اس بیان کے الٹ ہنری کزنس کا کہنا ہے کہ ’’سندھ کے لوگ دریائے کے اس وقت کے بہاؤ اور شہر کے علاقوں کو نظر میں رکھتے ہوئے اس شہر کو تمام پرانہ سمجھتے ہیں اور جہاں تک ہماری طرف سے ان آثاروں کو تلاش کرنے کا تعلق ہے تو ایسی بندرگاہ کا سکندر کے ہندستان پر حملہ کرنے کے وقت موجود ہونے کے کئی امکانات موجود ہیں ‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بھنبھور ایک قدیم شہر ہے جس کا ذکر مختلف تاریخی کتابوں میں کثرت سے ملتا ہے۔ یونانی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب سکندر نے سندھ پر حملہ کیا تھا تب کراچی کے نزدیک پاتال بندر مشہور تھا جو اصل میں بھنبھورہی تھا۔ سنکنگ میں کھوٹان نامی ایک علاقہ تھا جوپہلی صدی عیسوی میں ایران، یونان، چین اور ہندستان کے قافلوں کا تجارتی پڑاؤ ہونے کے ناطے ان کے تہذیبی رابطوں کا بھی اہم مرکزمانا جاتا تھا۔ یہاں سے دوسری چیزوں کے علاوہ چین کا ریشم روم بھیجا جاتا تھا جو کاشغر اور چترال سے دریائے سندھ کے ذریعے بھنبھورکی بندرگاہ سے چڑھایا جاتا تھا۔ قدیم کتابوں کے انوسار کاشغر اور بھنبھور والے اس تجارتی راستے کو اس وقت’’ سندھو ریشم ‘‘راستہ کہا جاتا تھا۔
ایم ایچ پنہور کا خیال ہے کہ ’’ وادی ء سندھ کا ریشم والا راستہ سب سے چھوٹا تجارتی راستہ تھا۔ کشن حکمرانوں کا سندھ کی لاڑ والی بندرگاہوں پر ضابطہ نہیں تھا کیونکہ اس زمانے میں جنوبی سندھ پر پارتھیوں اور ستھیوں کی حکمرانی تھی۔ اس الجھی ہوئی صورتحال میں کشنوں نے سندھ کی طرف آنے والے تجارتی مال کا رخ موڑدیا تھا اس لئے تیسری صدی تک یہ راستہ ویران ہوچکاتھا‘‘۔ ایران کی قدیم تاریخ میں لکھا ہے کہ ’’ایران میں دریک نامی سکے رائج ہوا کرتے تھے جو سندھ سے لائے جانے والے خالص سونے سے بنائے جاتے تھے‘‘۔
اسی دور میں ساسانیوں نے پارتھیوں کو یہاں سے بھگا دیا تھا چونکہ کشن سلطنت زوال پذیر ہورہی تھی اس لئے انہیں بھی تارم وادی سے نکل جانے پر مجبور کردیا گیا۔ روم اور ایران کے درمیاں ہونے والی خونریز جنگوں کے باعث خشکی کے تجارتی راستے ویران ہوگئے تو چینیوں نے انہیں استعمال کرنا چھوڑکر سمندری راستوں کواپنا لیاتھا۔
۵۰ قبل مسیح سے ۱۵۰ قبل مسیح دورکے مشہورمصنفوں جیسا کہ ٹالمی اور آسٹریبو جنہوں نے بادشاہ آگسٹس کے کہنے پر’’ جغرافی ‘‘نامی تصنیف لکھی یا پلینی جس نے نیرو کے کہنے پر’’ نیچرل ہسٹری ‘‘ کی کتاب لکھی اور نیسپاشین جس نے’’ پیریپلس آف ایریتھرین‘‘ سی جیسی شہرہ ء آفاق کتاب لکھی۔ ان کتابوں کے علاوہ اسی دور کی بیشتر تصنیفوں کے مطالعے سے سندھ کی قدیم تجارت سے متعلق ناقابلِ تردیدمعلومات ملتی ہیں کہ تجارتی مال خشکی پر اونٹوں کے ذریعے اور پانی پر کشتیوں ذریعے مصر کے آرسینو(سوئیز)، میوس، ہورموس یا بیرنس کے بندرگاہوں پر پہنچتا تھا جہاں سے پھرجہازوں کے ذریعے صومالیہ کا سمندری کنارا لئے عدولس پہنچایاجاتا تھا ۔ اس کے بعدوہاں سے جنوب میں عربی سمندر کے ساحلی بندر اہل موضا سے ہوتے ہوئے آسیلا (اوسیلا )کی طرف روانہ کیا جاتا تھا جہا ں سے جہاز میٹھا پانی لیتے تھے اور پھر باب المندیب کا چکر لگاکربودامون (موجودہ عدن) میں لنگر انداز ہوکرجہاز سیدھے بھنبھور کی طرف لائے جاتے تھے جو دریائے سندھ کے چھوڑ پر سمندری بندرگاہ تھی۔ پرانی کتابوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ’’ جہازو ں کو عدن سے بھنبھور تک پہنچنے میں بیس دن لگتے تھے‘‘ ۔
پلینی لکھتا ہے کہ ’’ یہاں تجارت پر پانچ سو پچاس ملین سیسٹرسز (چاندی کے رومی سکے) جتنا سونا ادا کیا جاتا تھا ‘‘۔ یہ ہندستان کے اس تجارتی مال کی قیمت تھی جو بھنبھور کی بندرگاہ سے دیساور کی طرف بھیجا جاتا تھا۔ چوتھی صدی کی شروعات میں چین کے خانہ بدوش ہن باشندے مغرب طرف بڑہنے لگے جو کسی ایک جگہ گاؤں یا گھر بنا کر بیٹھنے والے نہیں تھے بلکہ ان کی آبادیاں آج یہاں کل وہاں کی ہجرتی بنیادوں پر آبادہوا کرتی تھیں۔ یہ جنگجو لوگ تھے جنہوں نے گپت اور بازنطینی باشندوں کے بھی دانت کھٹے کردئے تھے۔ وہ فرانس ، اسپین ، اٹلی، قسطنطنیہ اور یونان میں بھی اپنی تخریبی معاملات کے ذریعے تجارتی راستوں کو ویران کرکے قافلوں کو لوٹ کر آگے بڑہتے رہے۔ بال�آخر اپنی ظالمانہ کاروایوں کا مرکز سکندریہ کی تجارت کو بنایا جہاں ان کی حرکتوں سے بندرگاہوں اور بازاروں میں راکاس گھوم گیا۔ ایشیا اور یورپ کی تجارتی مرکزوں کی تباہی کا اثر یہ ہوا کہ تجارت عربوں کے ہاتھ آنے سے ان کے وارے نیارے ہوگئے۔ اتھوپیا کا عدول بندر بے انتہا ترقی کرتے کرتے تجارت کا اہم مرکز بن گیا۔ عربوں کے بعد تجارتی دنیا پر ایرانیوں نے قبضہ کیا جن کا تعلق ہندستان کی تجارتی مال سے تھا اور یہاں کی تجارت پرتگالیوں کے ہاتھ آنے تک یہی صورتحال رہی۔

بھنبھور یا دیبل
اگر پرانے دور سے چھٹی صدی عیسوی تک حقیقتیں سمیٹی جائیں تو ان میں کافی بوقلمونیاں پائی جاتی ہیں۔ بعض تاریخ دان بھنبھور کو ہی دیبل کا وہ شہر لکھتے ہیں جس کو محمد بن قاسم نے حملہ کرکے تباہ کر دیا تھا۔ شروع شروع میں ان کھنڈرات کی ہونے والی کھدائیوں سے قبل اسلام کی کوئی نشانی منظر عام پر نہیں آسکی تھی اس لئے اس خیال کو نظر انداز بھی کیا جاتا رہا لیکن بعد ازاں ہونے والی کچھ کھدائیوں سے جب قلعہ بندی اور بستی کے دیگر آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے تو اس خیال کے حامی مورخ اپنی تحریروں میں پھر متحرک نظر آئے کہ دیبل ہی دراصل بھنبھور ہے۔ آئین اکبری تو ابہام گوئی میں اتنا گزر گیا کہ لکھ دیا ’’ٹھٹھہ ہی دراصل بھنبھور یا دیبل ہے‘‘۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ککر بکیرا جسے بیگ چگیو بھی کہا جاتا ہے اصل میں دیبل ہو۔
مسعودی لکھتا ہے کہ ’’جس جگہ دریائے سندھ سمندر میں گرتا ہے دیبل وہاں سے دو دنوں کے فاصلے پر ہے‘‘۔ تحفت الکرام تو واضع لکھا ہے کہ ’’جس جگہ پہلے دیبل بندر تھا آج وہاں لاہری بندر ہے اور جس کو ٹھٹہ کہا جاتا ہے وہ ساکرو کے نزدیک کہیں پر واقع تھا‘‘۔ مرئسیدل لکھتا ہے کہ ’’دیبل ہندی سمندرکے کنارے ایک مشہور شہرتھا جس میں وسیع کاروبار ہواکرتا ہے ، اس جگہ ملتا ن اور لاہور کے دریا سمندرمیں چھوڑ کرتے ہیں‘‘۔
بنیادی طور پر بھنبھور ایک قدیم شہر ہے جس کا ذکر یونانیوں اور مصریوں کی پرانی دستاویزوں میں بھی ملتا ہے ۔ یونانیوں نے اپنی کتابوں میں بھنبور کو ’’ بار بائیک ‘‘لکھا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ یہا ں کپاس اور تل دوسرے ملکوں درآمد کئے جاتے تھے‘‘۔ رومیلا تھاپر اپنے ایک مضموں میں لکھتی ہیں کہ ’’یونانی لوگ سندھیوں کو بہت پسند کیاکرتے تھے ‘‘۔ ان کا ماننا تھا کہ ’’ سندھی لوگ بہادر ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں ‘‘۔ شاید یہی وجہہ ہے کہ یونان کے شہنشاہ سیلوکس نے جہیز میں اپنی بیٹی کو سندھ کا خطہ دیا تھا۔ کچھ مورخ سمجھتے ہیں کہ دوابی کا قدیم شہر دیبل بھی اسی جگہ کہیں تھا جبکہ کچھ اس راءِ کے حامی ہیں کہ بھنبھور اصل میں دیبل ہے یا جس دیبل کا ذکر عربوں کی پہلی شکستوں اور بعد کی فتح میں آتا ہے وہی اصل میں یہ بھنبھور کا شہر ہے۔
محمد بن قاسم سے پہلے بھی بارہا سندھ پرحملے ہوتے رہے تھے، کبھی کسی بناپر تو کبھی کسی سبب۔ اس سونے کی چڑیا کو قبضے میں کرنے کے لئے عربوں نے بارہا جتن کئے مثال کے طور پر عربوں نے سندھ پر سب سے پہلا حملہ ۱۵ ہجری میں کیاتھا، دوسرا ۲۳ ہجری، تیسراپھر۲۳ ہجری، چوتھا ۳۸ ہجری (حضرت علی کرم اللہ کے دور میں)، پانچواں ۳۹ ہجری میں، چھٹا ۴۲ ہجری میں، ساتواں بھی۴۲ ہجری میں، آٹھواں ۴۳ہجری میں، نواں ۴۴ ہجری میں، دسواں ۴۵ ہجری میں، گیارھواں ۵۸ ہجری میں، بارھواں ۵۹ ہجری میں، تیرھواں بھی ۵۹ ہجری میں، چودھواں ۲۴۰ ہجری میں ، پندرھواں ۶۳۲ع اور ۷۱۲ ع میں ہونے والاسولھواں آخری حملہ تھا جس کا سالار محمد بن قاسم تھا۔
ان میں سے دیبل کے لئے اہم تین حملے تھے جن میں سے ایک وہ جو بدیل نامی عرب نے کیا تھا مگر وہ راجا ڈاہر کے بہادر جیسینہ کے ہاتھوں شکست کھاکر مارا گیا ۔ دوسرا حملہ سنہ ۶۳۲ع میں تب ہوا جب عربوں کا لشکر دیبل فتح کرنے کے خیال سے یہاں گھس آیا گھمسان کی جنگ میں دیبل کا حاکم سامہ بن دیوائج لڑائی میں مارا گیا اور تیسرا حملہ ۷۱۱ع میں محمد بن قاسم نے کیا تھا جب اس نے چھ ہزار شامی اور چھ ہزار عراقی فوج کا لشکر لے کر دیبل کا گھیراؤ کیا ۔ ان کے پاس ایک طاقتور منجنیق عروسک تھی جس سے قلعے کی دیواریں توڑ کرعربی فوج اندر گھس گئی اور دیبلی باشندوں کا قتل عام کرکے ہنستا بستا شہر تاراج کیا یہاں تک کہ انہوں نے دیبل میں پنڈتوں کا بھی قتلِ عام کیا تھا۔ یہاں سے ہاتھ آنے والابے انتہا مالِ غنیمت جن میں زر و جواہر کے ساتھ سندھی مرد اور عورتیں بھی تھیں( جنہیں عرب جنگ جیتنے کے بعد غلام اور کنیزوں کا نام دیتے تھے ) جنہیں انہوں نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لئے بصرہ بھیج دیا تھا۔
ہمارے درسی کتابوں میں رٹی رٹائی باتیں کچھ بھی لکھ دی جائیں مگر اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عربوں کا سندھ پر حملے کا اصل مقصد اس خوشحال خطے سے فائدہ اٹھانا تھا۔ سیلونی مسافروں کادیبل کے بحری قزاقوں کے ہاتھوں اغوا کاتو بہانہ تھا جنہیں عربوں نے اپنی کتابوں میں بوراج لکھا ہے ۔ حقیقت یہ ہے جب سے انسانی تہذیب نے جنم لیا ہے تب سے بحری قزاقی دھرتی کے ہر گوشے میں جاری رہی ہے اور بشمول موجودہ دور کسی زمانے میں ختم نہیں ہوئی ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام سے پہلے اور بعد میں بھی نہ صرف سندھ کی آبی سرحدوں پر بلکہ جزیرۃ العرب کے تمام ساحلوں پر بحری قزاقی روز کا معمول ہوا کرتی تھی۔ اس لئے ہی حکمران کوشش کرکے اپنے اہم ساحلی شہروں کو قلعہ بند کروایا کرتے تھے ۔ علاوہ ازیں بڑے بڑے جہازوں پرزیادہ سے زیادہ ملازم یا ملاح رکھے جاتے تھے جو کبھی کبھی تو پانچ چھ سو سے بھی زیادہ ہو جاتے تھے جو ہر قسم کے قزاقی حالات سے نپٹنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ سندھ یا ہندستان بھی اس قسم کے حالات سے گزرتا رہا ہے ۔ اس دور میں بھی ہندستان میں بحری قزاقوں کے اہم ٹھکانے یا اڈے کے طور پر مکران کا ساحلی کنارہ، دیبل اورسومنات (گجرات) اہم تھے۔
دیبل فتح کرنے کے بعدمحمد بن قاسم ملتان کی طرف حملہ کرنے چلا گیا وہا ں بھی دیبل کی تاریخ دہرائی گئی خزانہ و مالِ غنیمت سمندری جہاز کے ذریعے پہلے دیبل اور وہاں سے بصرہ بھیجا گیا۔ اس زمانے تک تو دیبل کا نام سندھ یا ہندستان کی تاریخ میں نہیں ملتا مگر اس کے بعد اس شہریا بندرگاہ کا نام کہیں نہیں ملتا۔ بیشتر تاریخ دان اس تناظر میں ماضی کی دستاویزوں میں رید پھید کرکے الجھاؤ پیدا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ مورخوں نے ماضی میں ہونے والی جغرافیائی تبدیلیوں کو نظروں میں نہیں رکھااور سنے سنائے قصوں سے تاریخ میں دو مختلف جگہوں کو ایک تاریخی مقام کے طور پر الجھادیا گیا ۔
سندھ اور بلوچستان کا ساحلی علاقہ ایک ہزار کلومیٹر سے بھی بڑا ہے ایک دور میں اس ساحلی پٹی پر سینکڑوں چھوٹے بڑے شہر آباد ہوا کرتے تھے جن میں سے اکثر کے نام آج بھی بڑے مشہور ہیں جیسا کہ دیبل، بھنبھور، شاہ بندر، سونمیانی، کلاچی ، کیٹی بندر، دیبالپور، دھاراجا، گھوڑا باری، وکر بندر، ککرالہ وغیرہ ۔ گوکہ دیبل اور بھنبھور سے متعلق کچھ واقعات و معاملات ملتے جلتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ یہ دونوں ایک ہی شہر نام ہوں اور اگر ہیں بھی اس کے لئے مورخوں کو چاہیے یہ غیر مستند ڈانڈیاں ملانے سے پرہیز کرکے ٹھوس اور قابلِ قبول حقیقتوں کو سامنے لائیں۔

بھنبھور کے رہائشی مکانات اور تعمیرات۔
بھنبھور کی تعمیرات سلیقے اوررتھا بندی سے آباد کی ہوئی معلوم پڑتی ہیں جہاں دیواریں غیر معمولی طور پر موٹی اور بنیادیں انتہائی گہری ہیں جنہیں مظبوط رکھنے کے لئے پتھروں کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ مکانات زیادہ تر کچی اینٹوں کے ہیں پکی اینٹوں کی تعمیرات بہت کم ہیں، بیشتر جگہوں پر چونے کا پلستر بھی کیا ہوا ملتا ہے۔ رہائشی علاقے الگ الگ بلاکوں میں تقسیم ہیں جن میں نہ صرف مکانات صحنوں کے گرد قرینے سے بنے ہوئے ملتے ہیں بلکہ سڑکیں اور گلیاں بلاکوں کے درمیاں بنائی گئیں ہیں۔ مکانوں کے آثار بتاتے ہیں کہ انکی چھتیں اینٹوں کے بڑے چھوکوں اور لکڑی شہتیروں سے بنائی جاتی ہوں گی جن کی اونچائی دس سے بارہ فٹ ضروررہی ہوگی۔
جیسا کہ دنیا بھر میں پائی جانے والی تمام قدیم بستیوں کے آثاروں میں دیکھا گیا ہے کہ حکمران طبقے کے لئے قلعہ بندیاں اور عام رعایا کے لئے فصیلوں سے باہر بستیوں کے آثار ملتے ہیں ویسا ہی سندھ کے تمام پرانے شہروں کے کھنڈرات میں دیکھا گیا ہے ۔ بھنبھور کی یہ آبادی بھی رہائشی اعتبار سے دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصے میں سے ۱۹ فٹ بلند قلعہ بندی ہے جو شمال سے جنوب طرف تقریباً ۱۲۰۰فٹ طویل اور مشرق سے جانبِ مغرب ۲۰۰ فٹ چوڑی ہے۔ اس کی تعمیر انتہائی خوبصورتی سے تراشیدہ اور کہیں ناتراشیدہ مگر بھاری پتھروں اور گارے سے کی گئی ہے ۔ فصیل کو مظبوط بنانے کے لئے مساوی فاصلوں پر بڑے بڑے برجوں اور بھاری بھرکم سنگی پشتوں کے استعمال کے آثار بھی ملتے ہیں۔ قلعہ کی فصیل پر تحقیق سے معلوم پڑتا ہے کہ اس کی ضخامت اور ساخت کو نہ چھیڑتے ہوئے اس کی تعمیر اور مرمت کے چار مختلف مراحل گزرے ہیں۔
اس قلعے کی چاردیواری کے تین داخلی دروازے ہیں جن میں سے مشرقی دروازہ کافی زبوں حالی کا شکار ہے جس میں کھڑے ہوکر باہر والی تمام بستی کا نظارا کیا جا سکتا ہے ۔ اس دروازہ کا جھیل کے سیدھے رخ پر ہونے کے ساتھ اس کی چوڑائی اور خستہ زینوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ شایدکسی دور میں یہاں سے قلعہ کے اندر جھیل کا پانی لے جانے کے لئے باربردار جانوروں اور چھوٹے بڑے چھکڑوں کی آمدرفت بھی رہتی ہو۔ قلعے کے باقی دودرواز ے نہ صرف بہتر حالت میں ہیں بلکہ ان کی زیبائش کافی ہنری اور خوبصورت ہے ۔ ان کے زینے مصفا پتھروں کو تراش خراش کر بنائے گئے ہیں۔ دوسراشمال مشرقی دروازہ تقریباً دس فٹ اور تیسرا جنوبی دروازہ آٹھ فٹ چوڑا ہے جس کے دو برج ہیں اور پیچھے ایک ڈیوڑھی بھی موجودہے جس کے چوٗ طرف پائی گئی عمارت کے آثارکافی مظبوط لگتے ہیں ۔ اس دروازے کے بلکل سامنے ایک بڑی شاندار عمارت کے آثار موجود ہیں جس کی بنیاد یں مظبوط پتھروں سے بندھی ہوئی ہیں ۔ اس عمارت کے سمندرکی طرف کھلتے ہوئے وسیع و عریض حصے پرتراشیدہ پتھروں سے بنے ہوئے چبوترے اور مظبوط ستون کی کشادگی دیکھ کر اندازہ لگایا گیاہے کہ یہاں پر کشتیاں یا بحری جہازلنگر انداز ہوکر اپنا ساز و سامان اتارا کرتے ہوں گے۔ آثاروں سے ایسا لگتا ہے جیسے کچھ عرصہ اس عمارت کے کئی حصے زیرِ آب رہے ہیں اس لئے سمندری لہروں اور کھارے پانی سے ان کو پہنچایاہو نقصان واضع طور پر نظر آتا ہے ۔
قلعہ بندی کے شمال مشرقی دامن میں اور جنوبی دروازے کے پہلومیں ایک پرانی جھیل موجود ہے جس میں برساتی نالوں کے ذریعے پانی جمع ہوتا رہتا لوگا۔ بھنبھور کے باشندے اپنی ضرورتوں کے لئے اسی جھیل کا پانی استعمال کیا کرتے تھے۔ سیلابی موسموں میں جب پانی حد سے زیادہ جمع ہوجاتا تھا تو اس کے مضر رسان اثرات سے قلعہ بندی کو بچانے کے لئے جھیل کے کناروں پر مظبوط پشتے بنے ہوئے ملے ہیں جن پر بعض ایسی جگہ جہاں سامنے کسی گھر کا صحن یا برآمدہ ہے اترنے کے قدمچے بھی بنے ہوئے ہیں ۔
شہر کا دوسراحصہ فصیل کی دیوار سے باہرپھیلا ہوا ہے جو اس قدیم جھیل کے آثاروں کے شمال مشرق میں دور دور تک گھیرا بندی کئے ہوئے ہے۔ یہ سارا رہائشی علاقہ ہے جس میں ہر قسم کی تعمیرات ملتی ہیں ۔ اسی حصے کے مشرقی ٹیلوں اور دامن میں ایک قبرستان بھی موجود ہے۔
شہری مضافات میں پرانی تعمیر کے میٹھے چشموں کے علاوہ چند ایک سنگ بستہ پختے کنووٗں کے آثار بھی ملے ہیں جیسا کہ قلعہ کے شمال مشرقی گوشے میں شاندار پتھروں سے تعمیر کی ہوئی محل نما عمارت کے اندر ایک بڑا گول کنواں موجود ہے۔ اس قدر وسیع و عریض جھیل کے ہوتے ہوئے ان کنووٗں کی موجودگی ہمارا دھیاں اس طرف لے جاتی ہے کہ شاید سال کے کسی موسم میں جھیل کا پانی زمین چوس لیتی ہوگی یا پھر کسی موسم میں پانی کم ہوجاتا ہوگا اس لئے شہری آبادیوں نے روز مرہ گزربسر کے لئے متبادل کے طور پر یہ کنویں کھود لئے ہوں۔

بھنبھور شہر کے آثارو ں کی کھدائی۔
بھنبھور کے ان کھنڈرات کا پہلا مطالعہ ۱۹۳۰ع میں آرکیالوجی سروے آف انڈیا کے سپرینٹینڈنٹ این جی مجمدار نے کیا تھا ۔ یہ صاحب ایک علم الآثارکے انتہائی ماہر تھے جس نے محدو وقت میں دو تین جگہوں پر مختصر سی کھدائی کرکے اپنی راءِ قلمبند کی تھی کہ ’’اس بستی کی تعمیری بناوٹ زیادہ تر عربی تعمیرات سے ملتی جلتی ہے اور یہاں سے ملنے والی زیادہ تر اشیاٗ سے بھی اسلامی ہنر و فن جھلکتا ہے مگر یہاں اسلامی دور سے پہلے کے آثار موجود نہیں ہیں نہ ہی یہ مختلف ادوارمیں آباد ہوتی رہی معلوم پڑتی ہے‘‘ ۔ مجمدار کو کھدائی سے کوئی بھی ایسی چیز ہاتھ نہیںآسکی تھی جس پر ہندو یا بدھ مت دور سے تعلق کاگمان پیدا ہو ۔
کچھ عرصہ بعد ہنری کزنس نے ان آثاروں کا تفصیلی مطالعہ کیا ، اسے یہاں سے دیگر کچھ چیزیں جیسا کہ مصفا برتنوں کے ٹکڑے یاکچھ سکے وغیرہ ملے جن سے اس شہر متعلق معلومات میں کچھ اضافہ بھی ہوا ۔ ۱۹۵۱ع میں مسٹر الکوک نے بھی چند ایک جگہ کھدائی کی ۔ اپنی تحقیق سے یہ صاحب بھی مجمدار کی راءِ کے ہمنوا نکلے اور کہا کہ ’’یہاں قبل اسلام کی کسی بستی کے آثار دکھائی نہیں دیتے‘‘۔
قدیم بستیوں کے کھنڈرات کی کھدائی سے متعلق کوئی بھی راءِ آخری نہیں ہوا کرتی اس لئے کہ تحقیق ہر نئے دن کوئی نہ کوئی نیا روزن کھول دیتی ہے۔ بھنبھور میں ایک بار پھر۱۹۵۸ع سے کھدائی کاسلسلہ شروع ہوا جو ۱۹۶۲ع تک جاری رہا۔ اس کھدائی کے نتیجے میں کہ ایک شاندار قلعہ بندی والی بستی کے آثار سامنے آنے شروع ہوئے۔ جیسے جیسے کھدائی بڑہتی گئی آثار مزید واضع ہوتے گئے یوں شہر کی تعمیرات، کاریگری، ہنر و حرفت اور ملنے والی اشیا ٗسے ماہرو ں کوادواری بنیادوں کا کھوج لگانے میں آسانی ہوتی گئی جو پہلی صدی قبل مسیح سے تیرھویں صدی عیسوی تک کے مانے گئے ۔ ان میں اہم تریں آثار (نیچے سے اوپرتک پائے جانے والے) شاکا ( پہلوی)، ہندو (بدھ متی) اورقبل اسلام کے ہیں جبکہ بھنبھور کی اوپر والی تہہ سے اسلامی دور کی بیشتر باقیات ہاتھ آئی ہیں۔

بھنبھور کے آثاروں سے جھلکتی ہوئے قبل اسلام کے آثار۔
قلعے کے مغربی حصے سے کچی اینٹوں اور چونے کاری سے بنی دیواروں والی ایک عمارت کے بارے میں ماہروں کا خیال ہے کہ یہ شیو مندر کے آثار ہیں۔ اس خیال کی وجہہ یہاں سے ملنے والے شیو کے دو لنگم ہیں جبکہ شہر کے کچھ دوسرے حصوں سے بھی مختلف ناپ کے کئی شیو لنگم ملے ہیں۔ اس عمارت کے اندر چوطرف سنگریزوں سے بنے ہوئے فرش کا ایک وسیع احاطہ موجود ہے ، یہاں خو بصورت نقش و نگار لئے تراشیدے ہوئے ستون کا ایک حصہ بھی ملا ہے جو شاید کسی بت کو کھڑا رکھنے لئے بنایا گیا ہوگا۔ اس قسم کی اور بہت ساری چیزوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ’’ کسی دور میں یہاں ہندوآبادی سکونت پذیر رہی ہوگی‘‘ جس کی سماجی زندگی میں شیو کو مانے والوں کی بڑی تعداد رہی ہوگی۔ یہاں سے ہندو دور کے بڑے بڑے مرتبان بھی ملے ہیں جن پر آٹھویں صدی عیسوی کے ناگری حروف میں ایک تحریرلکھی ہوئی ہے جو ہاتھ اور روشنائی کی ملی جلی کوشش لگتی ہے ۔
کوزہ گری کے کچھ سانچے بھی یہاں سے ملے ہیں جن پر اقلیدسی اور نباتاتی نقش و نگار وں کے علاوہ حیوانی اور انسانی شکلیں بنی ہوئی ہیں ۔ کچھ برتنوں پر سورج مکھی، ہاتھی اور دیگر شکلیں ملی ہیں۔ یہاں سے ٹھپہ دار اور منقش برتنوں کا بھی بڑا ذخیرہ ملا ہے ۔ علاوہ ازیں پتھر کے مجسموں کے ٹکڑے ، بیشتر حیوانی اور انسانی مورتیاں ملی ہیں جن میں مٹی سے بنایا ہوا عورت کاایک خوبصورت خد و خال والاسر ہے۔ یہاں سے پرندوں اور جانوروں کی ابھری ہوئی ساسانی طرز پر بنی تصویریں بھی ملی ہیں۔
کھدائی کے دوران ایک ٹیلے کی سطح سے تیس پینتیس فٹ نیچے والی جگہ سے پہلی صدی قبل مسیح کے شاکا پہلوی دور کی نمائندہ اشیاٗ جیسا کہ عنابی اور بادامی پالش کئے ہوئے پتلی اور سیدھی گردن والے نازک کوزے ملے ہیں ۔ واضع رہے کہ شاکا جنہیں تاریخ میں سینھی قبیلے بھی کہا جاتا ہے بنیادی طور پر ایرانی تھے جنہوں نے ایک دور میں جنوبی افغانستان اور موجودہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدوں والے علاقوں کواپنے حملوں سے تہہ و بالا کردیا تھا۔ پہلی صدی عیسوی میں پہلوی خاندان نے ان کی جگہ لی اوراپنی سلطنت کو وسعت دے کر یہاں اپنی ثقافت کو عام کردیا تھا۔ چونکہ بھنبھور کا موجودہ علاقہ بھی ان کی سلطنت میں شامل تھا شاید اس لئے ہی یہاں سے شاکا پہلوی دور کی چیزیں ہاتھ آئی ہیں۔
شہر پناہ کی تعمیر ، برتنوں اور ملنے والی دیگر چیزوں کے مطالعہ سے ماہروں نے اندازہ لگایا ہے کہ’’ اس شہر میں چار مختلف تہذیبی و ثقافتی ادوار کی آبادیاں موجود رہی ہیں‘‘۔ مثلاً یہاں سے ملنے والے مٹی کے منقش سفیدبرتن اور بھاری نیلے و سبز روغنی برتن اموی دورِ حکومت (۶۶۱۔۶۶۱ع) سے تعلق رکھتے ہیں ، مشاقوں کا خیال ہے کہ فصیل شہر بھی اسی دور میں بنائی گئی ہوگی۔ یہاں سے ایسے برتن ہاتھ آئے ہیں جن میں سے بعض پر مٹی کا لیپ اور بعض پر چمکیلے سیسے کا صیقل جڑا ہوا ہے جو عباسی دور حکومت (۷۵۰۔۱۲۵۸ع) سے متعلق سمجھے جاتے ہیں۔ اسی دور کی شروعات میں قلعہ کی دیوار کی مرمت ہوئی ہوگی جبکہ اس دور کے خاتمے تک قلعہ گاہ کے کئی حصے زبوں حالی کا شکار ہوکر گر گئے ہوں گے۔
یہاں سے ملنے والی کچھ اشیا ٗسلاطین دور (۹۹۸ع۔ ۱۵۲۴ع) کی بھی نمائندگی کرتی نظر ٓتی ہیں جیسا کہ مخصوص چینی کے برتن وغیرہ۔ اس دورمیں قلعہ کی گرتی ہوئی دیوارو ں کی دوبارہ تعمیر کی گئی ہوگی۔ چوتھا اور آخری دوربھنبھور کی کی خوشحال آبادی اورشاندار روایتوں کے زوال کا زمانہ تھا ۔
جھیل کنارے قلعہ بندی کے دامن میں شہر کے شمالی حصے کی کھدائی سے عمارتوں کے جوادھڑے ہوئے ڈھانچے نمایاں ہوئے ہیں ان میں سے ایک بڑا ھال، ایک وسیع کمرہ اور چھوٹے کمروں کے دو سلسلے ہیں ۔ یہاں ایک کمرے کی دیواروں اور فرش پر سیاہ چونے کی جھلسی ہوئی استرکاری کے علاوہ تین برتن ایسے بھی ملے جن پر آتشی اثرات دیکھ کر تجزیہ کاروں نے راءِ دی ہے کہ ’’یہ کوئی کارخانہ ، بھٹی یا صنعتی عمارت رہی ہوگی جہاں شہر ی آبادی کے لئے ضرورت کی اشیاء بنائی جاتی ہوں گی‘‘۔
یہاں شمال مشرق والے برج کے نزدیک واقع ایک عمارت سے کٹھالی، راکھ اور کوئلے کے ٹکڑے، سیاپتھر کے روڑے اور مختلف لوہے کی اشیاء ملی ہیں جن سے گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ کوئی لوہار کا کارخانہ ہوگا۔ علاوہ ازیں ایک چھوٹے سے ٹیلے سے جو یقیناًکوئی کمرہ رہا ہوگا شیشے کے بہت سارے چھوٹے بڑے ٹکڑے ملے جن کی موجودگی بتاتی ہے کہ یہاں شیشہ گری کا کام کیا جاتا ہوگا۔
قلعہ بندی کے اندر تقریباً مربع ایراضی پر پھیلی ہوئی ایک مسجد کے آثار بھی ملے ہیں جس کے مشرقی اور شمالی سمت میں کھلنے والے دو بڑے دروازوں میں سے داخلی دروازہ مشرقی معلوم پڑتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ ایک ڈیوڑھی اور تین سیڑھیاں موجود ہیں ۔ کھدائی کے وقت اس دروازے کے قریب ایک ٹوٹا پھوٹا کتبہ بھی ہاتھ آیا تھا جس پر خطِ کوفی میں ایک تحریر کنندہ تھی ۔ شمالی دروازے کے اندر چوبی چوکٹھے اور دہلیز کے نشانات پائے گئے ہیں جبکہ مغرب میں ایک چھوٹے دروازے کے آثار بھی موجود ہیں۔
اس مسجد کی پتھر سے بنی ہوئی بیرونی دیوار تین سے چار فٹ چوڑی ہے جس کے مغربی طرف پتھر کے ۳۳ ستونوں والا ایک بڑا ایوان ہے جبکہ تین ا طراف میں دالان اور غلام گردشیں موجودہیں ۔ ان کے منقش پتھر کے ستون واقع ہیں جن پر شاید لکڑی کی چھتیں کھڑی کی جاتی ہوں گی جبکہ درمیاں میں پکی اینٹوں کا بنا ہوا فرشی صحن ہے جو ۷۵فٹ طویل اور ۵۸ فٹ عریض ہے۔
مسجد کے شمال مشرقی گوشے میں نمازیوں کے لئے وضو کرنے کا چبوترہ موجودہے جس پر چونے کا موٹاپلسترکیا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ وضو کا پانی بہہ جانے کے لئے ایک سنگی نالی بھی موجود ہے۔ وہیں سے ٹھکر کے برتنوں کے کچھ ٹکڑے بھی ملے ہیں جو شاید وضو کے لئے استعمال کئے جانے والے برتنوں کے ہوں ۔ اسی چبوترے کے فرش پر چراغوں کا ڈھیر ملا تھا۔
مسجد کے شمال میں طویل و عریض غلا م گردشوں والی بڑی عمارت کے آثار موجود ہیں جس کے دونوں طرف بیشمار کمروں کی قطاروں کے آثار ہیں۔ مسجد کے مشرق طرف کچی اینٹوں سے بنی ہوئی ایک دوسری عمارت کے کھنڈر بھی موجود ہیں ۔ چونکہ ان دونوں عمارتوں سے گھریلواستعمال اشیاٗ نہیں ملی ہیں اس لئے ماہروں کا خیال ہے کہ یہ انتظامی عمارتیں جیسا کہ قافلہ سراءِ ، مسافر خانہ ، مدرسہ ، اسکول یا کالیج وغیرہ ہوں گی۔

بھنبھور کی آثاروں سے ملنے والی اشیا۔

بھنبھور کی کھدائی سے ہندو، اموی، عباسی ، شاکا، پہلوی اورتانگ خاندانوں کے دورِ حکومت کی بیشتر نمائندہ چیزیں ہاتھ آئی ہیں جن میں خاص دریافتیں مختلف قسموں کے رنگدار برتن ہیں جن پر آبی پرندوں جیسے بطخ، کلنگ، مچھلیوں کے علاوہ سانپ ، لمبی دم والے مور، طلوع ہوتا ہوا سورج بنے ہوئے ہیں ۔ زیادہ تر برتن کھانا پکانے والی ہنڈیاں ، مٹھ والے ڈھکنے، پیالیاں اور پیالے ہیں۔ کچھ منقش برتنوں کے بارے میں ماہروں کا خیال ہے کہ یہ عربوں نے بحیرہ روم کے ساحلی مقامات سے درآمد کئے ہوں گے یا یہ بھی ہو سکتا ہے بھنبھور واسیوں نے یہ فن وہاں سے سیکھا ہو ۔ چونکہ شہر بھر میں بیشتر جگہوں سے برتنوں کی بڑی تعداد ہاتھ آئی ہے اس سے اندازہوتا ہے کہ کمہارگری یہاں کے باشندوں کی مقبول ترین صنعت رہی ہوگی۔
یہاں سے ہزاروں تانبے اور چاندی کے سکے ہاتھ آئے ہیں جو زیادہ تر ساسانی حکمرانوں، بغداد کے خلیفوں اور ان کے گورنروں کے نام سے جاری کئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک طلائی سکہ عباسی خلیفہ ابوجعفر ھارون الواثق باللہ (۸۴۲ع۔ ۸۴۷ع)کے عہدِ حکومت کا ہے۔ ایک دوسرے سکے کے سیدھے رخ پر ساسانی بادشاہ کی مخصوص آدھی مورت اور پہلوی زبان میں کچھ تحریر ہے جبکہ الٹے رخ پر اتشکدہ دارالضرت کا نام اور تقویم یزد گرد کا سنہ درج ہونے کے ساتھ اوپر بسم اللہ لکھا ہوا ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اموی خلیفہ عبدالملک نے سنہ۶۹۶ع میں عربی سکے جاری کرائے ورنہ اس سے پہلے اسلامی خلافت کے زیرِ ِ تسلط علاقوں میں بازنطینی سکے جاری کئے جاتے تھے، ان کے اوپر صرف بسم اللہ یا اللہ لکھ دیا جا تا تھا تاکہ اسلامی سلطنت سے سمجھے جائیں۔ یہاں سے ہاتھ آئے ہوئے پتلے سکوں پر عربی زبان میں کوئی عبارت لکھی ہوئی ہے۔ یہاں سے ملنے والے کچھ سکوں اور سکوں کو ڈھالنے والے کئی سانچوں کی ماہیت اور نوعیت والے سکے اور ڈھانچے برہمن آباد سے بھی ملے ہیں۔ ان تمام سکوں کی یہاں سے برآمدگی سے ظاہرکرتی ہے کہ بھنبھور واسیوں کے تجارتی تعلقات یا سماجی معاملات ان علاقوں سے ضروررہے ہوں گے۔
بھنبھور سے پکی مٹی اور پتھر کی بنی ہوئی انسانی اور حیوانی مورتیاں بھی ملی ہیں۔ مندر کے احاطے سے ملنے والے پرت دار پتھر کے تراشے ہوئے دومجسموں کے ٹکڑے بڑے خوبصورت ہیں حالانکہ یہاں سے نکلنے والی اکثر مورتیاں بھدی اور اڈھنگی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بھنبھور میں ہاتھی دانت ، مٹی ، صدف، قیمتی پتھراور ہڈی کے بہتریں کاریگر رہے ہونگے کیونکہ ان چیزوں سے بنی ہوئی انگوٹھیاں ، دستے، چوڑیاں، کنگن، کنگھیاں ، جڑاؤزیور، مختلف ناپ کے منکے، کانٹے، آویزے اور گھریلوں آرائشی اشیاٗ جو یہاں سے ملی ہیں ان پر کافی نفیس اور نازک صنائی کا کام کیا ہوا ہے جو عہدِ قدیم کی صنائی کا بہترین نمونہ ہیں۔
یہاں سے قیمتی نگ جڑی ہوئی تانبے کی انگوٹھیوں کے علاوہ سرمے کی سلائیاں اورچوڑیاں بھی ملی ہیں۔ لوہے کی کیلیں جو لکڑی کے ساز و سامان میں کام آتی ہوں گی، مٹی کی کٹھالیاں، پتھر کی سلیں اور موسلیاں وغیرہ بھی ہاتھ آئی ہیں۔ اس کے علاوہ شیشے کی بیشتر چیزیں جیسا کہ عطر کی شیشیاں ، لمبی گردن والی بوتلیں، گلدان، شمعدان، حجم والی پیالیاں اور پیالے بھی ملے ہیں۔ شیشے کا ایک پیندہ بھی مندر سے ملا ہے۔

بھنبھور شہر کی تباہی کے متعلق کی گئی تحقیقات
سندھ کے ہر شہر کی طرح بھنبھور کے متعلق بھی بیشتر تاریخی کتابوں میںیہی افسانوی کتھا مشہور ہے کہ یہ شہر اپنے حاکم کے کالے گناہوں کی بدولت ایک ہی رات میں تباہ ہوگیا تھا اور اروڑ کی طرح یہاں بھی اس گنہگار حاکم کا نام دلوراءِ لیا جاتا ہے۔ بارہویں صدی میں دریائے سندھ نے یہاں سے اپنا رخ تبدیل کیا تھا ، اس لئے ماہروں کا خیال ہے کہ اسی دوران بھنبھور کی تباہی شروع ہوئی ہوگی کیونکہ دریائی گزرگاہ نہ ہونے کے باعث اس کی ساحلی و تجارتی سرگرمیاں ختم ہوگئی ہوں گی۔
شہر کے کھنڈرات سے کھدائی کے دوران ملنے والے انسانی ڈھانچے ادھر اد ھر بے ترتیبی سے پڑے ہوئے ملے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کوئی انہونی ، خانہ جنگی یا ہنگامہ ہوا ہوگا۔ کچھ ڈھانچوں کی کھوپڑیوں میں تو تیربھی پیوستہ ملے ہیں۔ شہر کے اکثر حصوں میں راکھ ، کوئلے اور جلی ہوئی اشیاٗ کے ڈھیر پڑے ملے ہیں جس سے لگتا ہے کہ کسی خارجی حملہ آور نے شہر میں آگ لگادی ہو۔ کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ جلال الدین خوارزم نے تیرہویں صدی عیسوی میں سندھ پر حملہ کرکے اس کے کئی ساحلی علاقوں کو تاراج کر دیا تھا ہو سکتا ہے بھنبھور بھی ان شہرو ں میں سے ایک ہو۔
الیگزینڈرکننگھم کی راءِ ہے کہ ’’دیبل ۱۲۵۶ع میں تباہ ہو چکا تھا ‘‘۔ یہاں دیبل سے اس کا مطلب بھنبھور ہی ہے۔ اس بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جلال الدین خوارزم کے ۱۲۲۱ع میں کئے گئے حملے اور۱۳۳۳ ع میں ابنِ بطوطہ کے سندھ میں آنے تک یہ شہر تباہ ہوکر ویران ہو چکا تھا۔ اگر یہ بیان تسلیم کر لیا جائے تو ایک نئی حقیقت سامنے آتی ہے کہ ابنِ بطوطہ نے جو بندر گاہ اس وقت دیکھی تھی اور جس کے متعلق اپنے سفر نامے میں لکھتاہے کہ ’’یہ سندھ کی ایک مصروف ترین بندر گاہ کے طور پر ابھر رہی ہے ‘‘۔ وہ لازمی طور پر بھنبھور نہیں (جیسا کہ کچھ مورخ ایسا سمجھتے ہیں )بلکہ لاہری بندر ہوگا۔
یہ خیال بھی خارج از امکان نہیں کہ مختلف دور میں آباد ہوکر برباد ہونے کا فلسفہ اس شہر کی تاریخ میں بھی شامل ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ محمد بن قاسم نے جس دیبل کو تباہ کیا اسکو اپنے باشندوں نے پھر آباد ہو اور ہو سکتا ہے اس نئے شہر کا نام بھنبھور رکھ دیا ہوجسے بعد ازاں جلال الدین خوارزم نے تاراج کیا تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شہری زندگی کے آخری وقتوں میں یہاں ایسی کوئی سیاسی یا سماجی بد نظمی پھیل گئی ہوگی جس کا سبب خارجی حملہ یا دریا ئے سندھ کا رخ بدلنا بھی ہو سکتا ہے، جس کی وجہہ سے یہ وسیع ساحلی شہر تباہ و برباد ہوگیا اورکچھ عرصہ بعداس کی جلی ہوئی کوکھ سے ایک چھوٹے سے گاؤں نے سمٹتے ہوئے جنم لیا مگر اپنے بندرگاہ کی ویرانی کے سبب آہستہ آہستہ وہ بھی ناپید ہوگیا یوں صدیوں کی روایات کے وارث شہر کے شاہد یہ کھنڈرات رہ گئے۔

جغرافی۔ آسٹریبو۔
نیچرل ہسٹری۔ پلینی۔
پیریپلس آف ایریتھرین ۔ نیپا شین ۔
The Rigveda:Encapsulating Social ChangeRomeela Thaper۔
ْ ارلی ہسٹری آف انڈیا۔ ونسینٹ سمتھ۔
انڈس ڈیلٹا کنٹری۔
آرکٹک ہوم۔ لوکمانیہ تلک ۔
تگ ویدک انڈیا۔ ڈاکٹر ابناش چندر داس ۔
راج ترنگی۔ ایم اے اسٹین۔ (ترجمہ)
ا ینشنٹ جاگرافی آف انڈیا۔ الیگزینڈر کننگھم۔
کامرس بٹوین رومن امپائر انڈ انڈیا۔ وئرنگٹن۔
قدیم سندھ کی تجارتی تاریخ۔ چیتن لال ماڑیوالا۔ایم ایچ پنھور۔عطا محمد بھنبھرو۔ٍ
سندھ ری وزٹیڈ۔ برٹن۔
مکلی نامہ۔ میر علی شیر قانع۔
سندھ کی اقتصادی تاریخ۔ ایس، پی چھبلانی۔
سندھ ایک عام جائزہ۔ ایچ ، ٹی لئمبرک۔
انڈس ڈیلٹا کنٹری۔ میجر ایم ، آر ، ہیگ۔
 

حمیر یوسف

محفلین
بھنبھور یا دیبل
اگر پرانے دور سے چھٹی صدی عیسوی تک حقیقتیں سمیٹی جائیں تو ان میں کافی بوقلمونیاں پائی جاتی ہیں۔ بعض تاریخ دان بھنبھور کو ہی دیبل کا وہ شہر لکھتے ہیں جس کو محمد بن قاسم نے حملہ کرکے تباہ کر دیا تھا۔


محمد بن قاسم سے پہلے بھی بارہا سندھ پرحملے ہوتے رہے تھے، کبھی کسی بناپر تو کبھی کسی سبب۔ اس سونے کی چڑیا کو قبضے میں کرنے کے لئے عربوں نے بارہا جتن کئے مثال کے طور پر عربوں نے سندھ پر سب سے پہلا حملہ ۱۵ ہجری میں کیاتھا، دوسرا ۲۳ ہجری، تیسراپھر۲۳ ہجری، چوتھا ۳۸ ہجری (حضرت علی کرم اللہ کے دور میں)، پانچواں ۳۹ ہجری میں، چھٹا ۴۲ ہجری میں، ساتواں بھی۴۲ ہجری میں، آٹھواں ۴۳ہجری میں، نواں ۴۴ ہجری میں، دسواں ۴۵ ہجری میں، گیارھواں ۵۸ ہجری میں، بارھواں ۵۹ ہجری میں، تیرھواں بھی ۵۹ ہجری میں، چودھواں ۲۴۰ ہجری میں ، پندرھواں ۶۳۲ع اور ۷۱۲ ع میں ہونے والاسولھواں آخری حملہ تھا جس کا سالار محمد بن قاسم تھا۔
ان میں سے دیبل کے لئے اہم تین حملے تھے جن میں سے ایک وہ جو بدیل نامی عرب نے کیا تھا مگر وہ راجا ڈاہر کے بہادر جیسینہ کے ہاتھوں شکست کھاکر مارا گیا ۔ دوسرا حملہ سنہ ۶۳۲ع میں تب ہوا جب عربوں کا لشکر دیبل فتح کرنے کے خیال سے یہاں گھس آیا گھمسان کی جنگ میں دیبل کا حاکم سامہ بن دیوائج لڑائی میں مارا گیا اور تیسرا حملہ ۷۱۱ع میں محمد بن قاسم نے کیا تھا جب اس نے چھ ہزار شامی اور چھ ہزار عراقی فوج کا لشکر لے کر دیبل کا گھیراؤ کیا ۔ ان کے پاس ایک طاقتور منجنیق عروسک تھی جس سے قلعے کی دیواریں توڑ کرعربی فوج اندر گھس گئی اور دیبلی باشندوں کا قتل عام کرکے ہنستا بستا شہر تاراج کیا یہاں تک کہ انہوں نے دیبل میں پنڈتوں کا بھی قتلِ عام کیا تھا۔ یہاں سے ہاتھ آنے والابے انتہا مالِ غنیمت جن میں زر و جواہر کے ساتھ سندھی مرد اور عورتیں بھی تھیں( جنہیں عرب جنگ جیتنے کے بعد غلام اور کنیزوں کا نام دیتے تھے ) جنہیں انہوں نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لئے بصرہ بھیج دیا تھا۔
ہمارے درسی کتابوں میں رٹی رٹائی باتیں کچھ بھی لکھ دی جائیں مگر اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عربوں کا سندھ پر حملے کا اصل مقصد اس خوشحال خطے سے فائدہ اٹھانا تھا۔ سیلونی مسافروں کادیبل کے بحری قزاقوں کے ہاتھوں اغوا کاتو بہانہ تھا جنہیں عربوں نے اپنی کتابوں میں بوراج لکھا ہے ۔

محترم آپ نے یہ لائینیں لکھ کر ایک ہیرو کو ویلن بنادیا ;)۔ اگر محمد بن قاسم اتنا ہی برا ہوتا تو اسکی واپسی پر مقامی لوگ کیوں دھاڑیں مار کہ رو رہے تھے اور کیوں اسکی یاد میں وہاں کی ہندو آبادی نے بت بنا کر پوجے؟ محمد بن قاسم کی ہی بدولت یہ خطہ زمین سرزمیں ہند و پاک اسلام سے روشناس ہوا تھا۔ ان فاتحین نے ہی اس خطہ زمین پر اسلام کا پیغام سب سے پہلے پہنچایا۔ اگر ان سب کا کردار اتنا ہی گھٹیا ہوتا جیسا آپ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے تو اسلام اور اسلامی حکومت کا وجود سو سے ڈیڑھ سو سال کے اندر ہی ختم ہوجانا چاہئے تھا، جب محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا۔ اور سن 15 ھ میں تو سندھ پر حملہ سیدنا عمر فاروق رض کے دور خلافت میں ہوا تھا، جسمیں اسلامی خلافت کی سرحدیں مکران تک آن کر رک گئی تھیں
 
محترم آپ نے یہ لائینیں لکھ کر ایک ہیرو کو ویلن بنادیا ;)۔ اگر محمد بن قاسم اتنا ہی برا ہوتا تو اسکی واپسی پر مقامی لوگ کیوں دھاڑیں مار کہ رو رہے تھے اور کیوں اسکی یاد میں وہاں کی ہندو آبادی نے بت بنا کر پوجے؟ محمد بن قاسم کی ہی بدولت یہ خطہ زمین سرزمیں ہند و پاک اسلام سے روشناس ہوا تھا۔ ان فاتحین نے ہی اس خطہ زمین پر اسلام کا پیغام سب سے پہلے پہنچایا۔ اگر ان سب کا کردار اتنا ہی گھٹیا ہوتا جیسا آپ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے تو اسلام اور اسلامی حکومت کا وجود سو سے ڈیڑھ سو سال کے اندر ہی ختم ہوجانا چاہئے تھا، جب محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا۔ اور سن 15 ھ میں تو سندھ پر حملہ سیدنا عمر فاروق رض کے دور خلافت میں ہوا تھا، جسمیں اسلامی خلافت کی سرحدیں مکران تک آن کر رک گئی تھیں
سب سے پہلے آپ اپنے طرز تخاطب پر غور کریں او اس کے بعد میرے تمام دھاگے دیکھیں میں جہاں سے مواد حاصل کرتا ہوں من و عن نقل کر دیتا ہوں اوراس کا ربط ضرور دیتا ہوں مزید صاحب تحیریر سے میرا متفق ہونا ضروری نہیں میرا مطمع نظر صرف معلومات فراہم کرنا تھا مجھے خود ان باتوں سے اختلاف ہے مگر مضمون میں ردوبدل کرتا تو بد دیانتی کا مرتکب ہوتا اب معلوم نہیں کہ اس میں ربط شامل ہونے سے کیسے رہ گیا آپ کو اختلاف ہے تو اس بلاگ پر جائیں اور اپنی رائے کا اظہار کریں بغیر سوچے سمجھے کسی کی نیت پر شک کرنا درست نہیں
ربط یہ رہا
http://asifrazamorio.com.pk/بھنبھور،-سندھ-کی-قدیم-اور-شاندار-بندرگ/
 
سب سے پہلے آپ اپنے طرز تخاطب پر غور کریں او اس کے بعد میرے تمام دھاگے دیکھیں میں جہاں سے مواد حاصل کرتا ہوں من و عن نقل کر دیتا ہوں اوراس کا ربط ضرور دیتا ہوں مزید صاحب تحیریر سے میرا متفق ہونا ضروری نہیں میرا مطمع نظر صرف معلومات فراہم کرنا تھا مجھے خود ان باتوں سے اختلاف ہے مگر مضمون میں ردوبدل کرتا تو بد دیانتی کا مرتکب ہوتا اب معلوم نہیں کہ اس میں ربط شامل ہونے سے کیسے رہ گیا آپ کو اختلاف ہے تو اس بلاگ پر جائیں اور اپنی رائے کا اظہار کریں بغیر سوچے سمجھے کسی کی نیت پر شک کرنا درست نہیں
ربط یہ رہا
http://asifrazamorio.com.pk/بھنبھور،-سندھ-کی-قدیم-اور-شاندار-بندرگ/
سید صاحب میری گزارش ہے کہ جب آپ من وعن کسی بلاگ سے کوئی معلومات شئر کریں تو اس کے بعد اپنی طرف سے بھی وضاحت لکھ دیا کریں تاکہ کسی کو آپ کی نیت پر شک نا ہو :)
 
سید صاحب میری گزارش ہے کہ جب آپ من وعن کسی بلاگ سے کوئی معلومات شئر کریں تو اس کے بعد اپنی طرف سے بھی وضاحت لکھ دیا کریں تاکہ کسی کو آپ کی نیت پر شک نا ہو :)
مشورہ مناسب ہے
اسی لئے میں ربط ضرور لگاتا ہوںخیر آپ کا مشورہ مد نظر رکھوں گا
جزاک اللہ :)
 

حمیر یوسف

محفلین
سب سے پہلے آپ اپنے طرز تخاطب پر غور کریں
بھائی میں اپنے طرز تخاطب پر غور کرونگا، لیکن محترم آپ بھی کوئی بھی پوسٹ لگانے سے پہلے اسکو اچھی طرح پڑھ لیا کریں، خصوصا ایسی پوسٹیں جس میں اپنے کسی مسلمان ہیرؤں سے تعصب کی بنا پر ایسا یک رنگا مواد شامل کیا گیا ہو جو ہمارے شاندار ماضی کو اپنے کسی مخفی ایجنڈے کی بنا پر جھٹلانے کی کوشش کرے۔ آپ اگر کہیں سے کاپی پیسٹ کر بھی رہے ہوتے تو یا تو پوسٹ کے شروع میں ہی یہ بات لکھ دیتے کہ میں اس پوسٹ کے مواد سے متفق نہیں ہوں اور صرف اطلاع فراہم کررہا ہوں یا جس جس جگہ پر جو اشتعال انگیز لائینیں لکھی گئی تھیں، انکی اپنے انداز میں بریکٹ میں وضاحت ضروری تھی، تاکہ آپ کا معاملہ صاف رہتا۔ آپ کا اسطرح اس مواد کا من و عن کاپی پیسٹ کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا تھا (اس وقت جب آپ نے نیچے وضاحتی نوٹ نہیں دیا تھا) کہ آپ اس پوسٹ کے مندراجات سے متفق ہیں۔ جسکی بعد میں آپ نے تردید کی۔ یہ چیز صحافتی معیار کی بدیانتی کہلاتی ہے۔

مضمون میں ردوبدل کرتا تو بد دیانتی کا مرتکب ہوتا
آپ بے شک پورے پورے مضمون میں رد و بدل نہ کرتے لیکن اگلے مراسلے میں ایک وضاحتی نوٹ ضرور لکھ دیتے کہ میں اوپر والی پوسٹ سے حرف بہ حرف متفق نہیں ہوں، تو معاملہ اتنا سنگین نہ ہوتا۔ نیز اسکے ساتھ جن جن جگہوں پر آپکو اپنے نقطہ نظر سے اختلاف سمجھ میں آتا، وہاں آپ بریکٹ میں وضاحت کرسکتے تھے

آپ کو اختلاف ہے تو اس بلاگ پر جائیں اور اپنی رائے کا اظہار کریں بغیر سوچے سمجھے کسی کی نیت پر شک کرنا درست نہیں
محترم جو لنک آپ نے دیا ہے، اس میں اس پوسٹ کے مضمون پر کمنٹس کرنے کا کوئی آپشن نہیں ہے:sneaky: ورنہ میں وہاں جواب ضرور دیتا، ایک کمنٹس کا آپشن موجود تو ہے لیکن وہ پوری ویب سائٹ کے حوالے سے ہے۔ دوسری بات یہ میں نے بغیر سوچے سمجھے نہیں جواب دیا تھا، بلکہ آپ کی پہلی پوسٹ کو اچھے طرح پڑھ کر ہی جواب دیا تھا، کیونکہ آپکی پہلی پوسٹ کے بعد مجھے کوئی آپکی "تردیدی پوسٹ" نظر نہیں آئی تھی، اس لئے میں نے ریکارڈ درست رکھنے کے لئے اور محض جو باتیں آگ لگانے والی تھیں، انکے جواب میں اپنا مراسلہ تحریر کیا تھا، جسکے بعد ہی آپکا وضاحتی بیان سامنے آیا۔ اگر محترم مجھے پہلی ہی پوسٹ کے بعد آپ کا تردیدی بیان نظر آجاتا یا آپ خود "قابل اعتراض" مواد کی مناسب تدوین کردیتے، تو یقین مانئیے آپکی پوسٹ کو پسند کرنے میں ، میں بھی پیچھے نہیں ہوتا۔ خیر دیر آید درست آید۔ آئندہ کے لئے نصیحت یہی ہے کہ اس طرح کے "شرانگیز" مواد کو شائع کرنے سے پہلے اسکا ایک عدد Review ضرور کرلی جیا کریں تاکہ مستقبل میں ایسی کوئی وضاحت کی ضرورت نہیں پڑے۔ محمد بن قاسم ابھی بھی بہت سوں کے دلوں میں ہیرو کا تاثر لیے ہوئے ہیں، انکو اور انکے ہم عصر مسلمان فاتحین کو ویلن بنانا، ان کے جذبات کے کھیلنے سے برابر ہے۔
جزاکم اللہ خیرا
 

حمیر یوسف

محفلین
محمد بن قاسم اور سندھ کے ہندو حکمرانوں کے ساتھ معرکہ آرائیوں کی مذکورہ تفصیل کو معروف مورخ پروفیسر محمد اسلم نے ’’محمد بن قاسم اور اس کے جانشین‘‘کے عنوان سے کتابی صورت میں اصل ماخذ سے مرتب کیا ہے‘ اس تاریخی معرکے کے اثرات نہ صرف سندھ بلکہ پورے ہندوستان پر اشاعت اسلام کی صورت میں اثر انداز ہوئے۔ محمد بن قاسم نے فتوحات کے بعد مفتوحہ قوم سے حسن سلوک کی مثال قائم کی۔ غیر مسلم رعایا کو عزت و تکریم کے ساتھ اقتدار میں شریک کیا مذہبی معاملے میں غیرمسلموں پر جبر کے بجائے مذہبی آزادی دیں سندھ میں بدھ مت کے پیروکاروں کو ہندوئوں کے مظالم کے تحفظ فراہم کیا۔ اس کے عظیم کارناموں کی بدولت آج ہم اس خطے ہندوپاک میں بحثیت مسلمان اپنی شناخت رکھنے کا امتیاز رکھتے ہیں

سندھ میں راجہ داہر کی حکومت کے خلاف عرب کی اسلامی حکومت کی عسکری مہم اور اس کی کامیابی کے درج ذیل ممکنہ محرکات قرار دیا جاسکتا ہے۔ اول‘ عرب کی اسلامی حکومت کے خلاف سندھ کے حکمرانوں کا معاندانہ طرز عمل اور اسلامی کے مخالفین کی سرپرستی۔ دوم‘ بدھ مت کے پیروکاروں کے خلاف انتقامی کارروائیاں اور انہیں بزور قوت ہندومت اختیار کرنے کی زور زبردستی۔ سوم‘ سندھ میں بدامنی اور لاقانونیت جسے ڈاکو راج کہنا زیادہ مناسب ہوگا سے تنگ اور بے زار عوام کی حکمرانوں سے نفرت۔ اور چہارم وہ فوری واقعہ ہے جس میں بحرین کے عرب قبائل بنو تمیم اور بنوعبدالقیس کے وہ خاندان جو سراندیب (سری لنکا) میں آبادتھے ان میں چند خاندانوں کے سربراہ وہیں فوت ہوگئے تو ان کے اہل و عیال بحری جہازوں سے وطن واپسی کے لیے روانہ ہوئے تو یہ جہاز جو طوفانی موجوں سے ٹکر اکر ساحل سمندر پر پہنچے جہاں سندھ کے بحری قزاقوں نے ان جہازوں کو لوٹ لیا مسافروں کو یرغمال بنالیا جس میں عورتیں بھی شامل تھیں اس حادثے میں بچ جانے والے نے عراق پہنچے اور سارا ماجرا ممالک مشرق کے سربراہ حجاج بن یوسف کے گوش گزار کیا حجاج جو اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف سختی میں شہرت رکھتا ہے اس سانحے پر بے چین ہوگیا مسلمان خواتین کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے خلاف لوٹ مار پر طیش میں آگیا اس نے ایک احتجاجی مراسلہ قاصدوں کے ذریعے سندھ کے راجہ داہر کو ارسال کیا لیکن راجہ داہر نے یہ کہہ کر اپنی ذمہ دای سے سبکدوش ہونے کی کوشش کی کہ ’’دیبل کی بندرگاہ پر بحری قزاقوں کا قبضہ ہے اور یہ قزاق اس کی دسترس سے باہر ہیں اس لیے وہ کچھ کرنے سے قاصر ہے۔‘‘

سندھ کی فتح‘ سیاسی‘ تہذیبی اور علمی اعتبار سے ایک جمہوری اور روشن خیالی دور کا آغاز تھا۔ کوئی نو گوایریا نہ تھا‘ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات بھی برابری اور رواداری پر قائم تھے‘ ہر شہری کی جان ومال کو تحفظ حاصل تھا۔ محمد بن قاسم نے اور اس کے جانشینوں نے رعایا پروری کی ایسی مثال قائم کی اس کی روانگی پر وہ آنسو بہاتے تھے اور اس کی یادگاریں بناتے تھے۔ سندھ کے موجودہ حکمرانوں کے دور میں آج اہل سندھ بالخصوص میں کراچی کے شہری جس بھیانک دور سے گزر رہے ہیں ان کے لیے ابن قاسم کا کردار ایک مثالی نمونہ ہے۔ سندھ آج بھی امن‘ ترقی اور خوشحالی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ جب حکمران اتحاد ابن قاسم کی سیاسی رواداری اور رعایات پروری کو اختیار کریں ۔ یہ بات سندھ کے موجووہ حکمرانوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اگر انہوں نے راجہ داہر کی داہریت کو ترک نہ کیا تو محمد بن قاسم ضرور پیدا ہوں گے
 

حمیر یوسف

محفلین
سندھ کا ملک چونکہ بصرہ وکوفہ یعنی عراق سے نسبتاً قریب تھا اور ایرانی حکومت کی سرحد اس سے ملتی تھی؛ لہٰذا زیادہ ترشرارت پیشہ ایرانیوں کا مامن ملک سندھ ہی بنا ہوا تھا، اسلامی فتوحات کے سیلاب کودیکھ دیکھ کرسندھ کا راجہ خود بھی ایرانیوں کی بربادی سے متاسف اور اس امر کا کوشاں تھا کہ کسی طرح ایرانی اپنی سلطنت پھرقائم کرسکیں؛ چنانچہ ایران کے آخری بادشاہ نے معرکہ نہاوند کے بعد کئی مرتبہ فوجیں جمع کرکے مسلمانوں کا مقابلہ کیا توان مقابلوں اور معرکوں میں سندھ کی امدادی فوج شاہ ایران کے ساتھ ضرور ہوتی ایران کی سلطنت جب برباد ہوئی توسندھ کے راجہ نے اپنے سرحدی ایرانی صوبوں کواپنی سلطنت میں شامل کرلیا اور مغلوب ومفتوح ایرانیوں نے کرمان وبلوچستان وغیرہ کے صوبوں کوبخوشی سندھ کے راجہ کوسپرد کردیا؛ تاکہ وہ مسلمانوں کے قبضے میں نہ جاسکیں او راس کے معاوضہ میں سندھ کے راجہ کی حمایت ان کوحاصل رہے۔

سندھ کا ملک چونکہ بصرہ وکوفہ یعنی عراق سے نسبتاً قریب تھا اور ایرانی حکومت کی سرحد اس سے ملتی تھی؛ لہٰذا زیادہ ترشرارت پیشہ ایرانیوں کا مامن ملک سندھ ہی بنا ہوا تھا، اسلامی فتوحات کے سیلاب کودیکھ دیکھ کرسندھ کا راجہ خود بھی ایرانیوں کی بربادی سے متاسف اور اس امر کا کوشاں تھا کہ کسی طرح ایرانی اپنی سلطنت پھرقائم کرسکیں؛ چنانچہ ایران کے آخری بادشاہ نے معرکہ نہاوند کے بعد کئی مرتبہ فوجیں جمع کرکے مسلمانوں کا مقابلہ کیا توان مقابلوں اور معرکوں میں سندھ کی امدادی فوج شاہ ایران کے ساتھ ضرور ہوتی ایران کی سلطنت جب برباد ہوئی توسندھ کے راجہ نے اپنے سرحدی ایرانی صوبوں کواپنی سلطنت میں شامل کرلیا اور مغلوب ومفتوح ایرانیوں نے کرمان وبلوچستان وغیرہ کے صوبوں کوبخوشی سندھ کے راجہ کوسپرد کردیا؛ تاکہ وہ مسلمانوں کے قبضے میں نہ جاسکیں او راس کے معاوضہ میں سندھ کے راجہ کی حمایت ان کوحاصل رہے۔

سندھ کی فتح میں حجاج کی توجہ پورے طور پرمحمد بن قاسم کی طرف مبذول رہی وہ روزانہ خبریں منگواتا اور روزانہ محمد بن قاسم کوہدایات بھیجتا تھا، محمد بن قاسم نے اپنے آپ کوسندھیوں کے لیے نہایت شفیق ورحم دل فاتح اور رعایا پرور حکمراں ثابت کیا، اس نوجوان فتح مند نے جس رواداری، بردباری، سیرچشمی اور لطف وعطا کا اظہار کیا، اس کی مثالیں تاریخ عالم میں بہت کم دستیاب ہوسکتی ہیں
 

حمیر یوسف

محفلین
ڈاکٹر طاہر القادری کہتے ہیں "نصابی کتب میں درست نہیں لکھا کہ اسلام 93، 94 ہجری میں محمد بن قاسم کے سندھ اور طارق بن زیاد کی سپین آمد سے وہاں پہنچا۔ محمد بن قاسم نے سندھ اور طارق بن زیاد نے سپین میں اسلامی ریاست قائم کی اس سے تقریباً 80 سال قبل اسلامی تہذیب و ثقافت صحابہ کرام کے ذریعے وہاں پہنچ چکی تھی۔ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ اسلام کی خدمات، عظمت اور خوبیوں کا انکار کرنا اکثر غیر مسلم مستشرقین کا بنیادی ہدف ہے۔ وہ متعصبانہ ذہنیت کے باعث اسلام کے کمالات کو نظر انداز کرکے اس کا چہرہ مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ غیر مسلم مستشرقین کا مشن ہے کہ اسلام کی ایسی تصویر دنیا کو دکھائی جائے جس میں اس کے کمالات، عظمت اور انسانیت کے لئے تاریخی خدمات کی کلیتاً نفی ہو اور اسلام ایک قابل عمل، پرامن اور روشن خیال دین کے طور پر نہ جانا جاسکے"

ماخذ:
http://www.minhaj.org/urdu/tid/7993...ام-پہنچ-چکے-تھے-:-ڈاکٹر-محمد-طاہرالقادری.html
 

حمیر یوسف

محفلین
ایک گروہ مسلسل اس تگ و دو میں لگا ہوا کہ کسی بھی طرح ان مسلم فاتحین و حکمرانوں کی عظمت کو داغدار کیا جائے اور انکے کارناموں کو جھٹلایا جائے جو آج کی ہماری نوجوان نسل کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، اس طرح ہماری سوچ و فکر کو ہمارے شاندار اسلاف کے کاناموں سے منہ موڑ کر اپنے ان نام نہاد "ہیرؤں" کو آگے بڑھایا جائے، جنکے ان مشتبہ "کارناموں" کو سوائے یہ خود کہ کوئی نہیں جانتا۔ اس گروہ کی ایک اسی طرح کی کاوش کو میں نے اپنی فیس بک کی اس پوسٹ میں سامنے لایا تھا، اور اسکا مناسب جواب بھی دیا تھا، جسکے کچھ حصوں کو میں نے اوپر پوسٹ بھی کیا ہے

https://www.facebook.com/photo.php?...567.1073741826.100000222512030&type=3&theater
 

arifkarim

معطل
محمد بن قاسم ابھی بھی بہت سوں کے دلوں میں ہیرو کا تاثر لیے ہوئے ہیں، انکو اور انکے ہم عصر مسلمان فاتحین کو ویلن بنانا، ان کے جذبات کے کھیلنے سے برابر ہے۔
میں اس تلخ موضوع پر لکھنا نہیں چاہ رہا تھا البتہ آپ کی محمد بن قاسم کو بار بار ہیرو قرار دینے والی گردان پر میرے بھی کچھ تحفظات ہیں۔ یاد رہے کہ محمد بن قاسم نہ تو سندھی تھا اور نہ ہی ہندوستانی۔ اسکا اس علاقہ سے کوئی رشتہ و تعلق نہیں تھا۔ اگر اس نے سندھ فتح کیا تو اسمیں وہ "ہمارا" ہیرو کیسے ہو گیا؟ کیا ہم سب عرب مسلمان ہیں؟ عرب فاتحین کو ہندوستانی یا پاکستانی فاتح سمجھنا ہی درحقیقت سارے فساد کی جڑ ہے۔ اور جہاں تک اسلام کے یہاں پھیلنے کا سوال ہے تو وہ اولیاء کرام ، صوفیاء کے نیک اعمال کی وجہ سے پھیلا۔ نہ کہ بزور شمشیر۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیری اسلام عرب دنیا کے اسلام سے قدرے مختلف ہے۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
ایک گروہ مسلسل اس تگ و دو میں لگا ہوا کہ کسی بھی طرح ان مسلم فاتحین و حکمرانوں کی عظمت کو داغدار کیا جائے اور انکے کارناموں کو جھٹلایا جائے جو آج کی ہماری نوجوان نسل کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں،
مسلم فاتحین اور عرب فاتحین میں کیا فرق ہے؟ اگر کوئی ایرانی، افغانی ، عرب یا کوئی اور مسلمان فاتح برصغیر پر حملے کرے اور یہاں قابض ہو جائے تو ہم اسے اپنا ہیرو بنا لیں یا اسکے خلاف جہاد کریں؟
 

حمیر یوسف

محفلین
میں اس تلخ موضوع پر لکھنا نہیں چاہ رہا تھا البتہ آپ کی محمد بن قاسم کو بار بار ہیرو قرار دینے والی گردان پر میرے بھی کچھ تحفظات ہیں۔ یاد رہے کہ محمد بن قاسم نہ تو سندھی تھا اور نہ ہی ہندوستانی۔ اسکا اس علاقہ سے کوئی رشتہ و تعلق نہیں تھا۔
عارف بھائی محمد بن قاسم نہ تو سندھی تھا اور نہ ہی ہندوستانی، لیکن ایک مسلمان تو تھا نہ؟ کیا مسلمان ہونا اتنا ہی بڑا جرم بن گیا ہے کہ اس کے سارے کاناموں پر آپ پردہ ڈال دیں۔ اسکے برعکس راجہ داھر کون تھا اور اسکا تعلق کس مذہب سے تھا، شائد مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ایک بات اور بتاتا چلوں کہ ایک مسلمان رنگ، روپ، نسل و ملت سے بالکل الگ ہوتا ہے، اور کل مسلمان ملت واحدہ میں شمار ہوتے ہیں۔ آج کی ہماری اس درجہ بندی کو چھوڑ دیں، اب تو وہ نہ دین خالص ہے نہ ہی وہ جذبات، لیکن آج سے ہزار سال پہلے مسلمان ایسا ہی سوچتے تھے، اور اپنے آپ کو ایک ملت ہی کا تصور کیا کرتے تھے۔ راجہ داہر کے مقابلے میں آپکا ایک عظیم مسلمان (یاد رہے میں نے کہیں عرب فاتح کا لفظ نہیں لکھا) کو نیچا دکھانا میرے لئے بڑا تعجب خیز ہے
 

حمیر یوسف

محفلین
میرے لئے ہر وہ مسلم اہم ہے اور میرا ہیرو ہے جس نے اپنے روشن و شاندار کارناموں سے اسلام کا نام روشن کیا اور دنیا کو سبق سکھایا کہ "اسلام" بے حیثیت مجموعی کوئی خراب دین نہیں ہے بلکہ دین فطرت ہے اور خرابیاں "مسلمانوں" میں تو ہوسکتی ہیں لیکن "اسلام" میں نہیں۔ ہمارے اسلاف ایسے بھی گئے گزرے نہیں تھے کہ انکو اسطرح Let down کیا جائے جیسا کہ مندرجہ بالا مضمون میں کیا گیا تھا۔ تعجب ہے کہ ایسی فتوحات اگر سکندر یونانی، چنگیز خان اور اشوکا (جس نے اپنی کایا پلٹ سے پہلے تین لاکھ انسانوں کا قتل کروایا تھا) کی بیان کی جائے توانکو عظیم فاتحین سے گردانا جاتا ہے، اور ایسی ہی فتوحات اگر کسی مسلم فاتح نے حاصل کی ہوں تو اسکو ایک وحشی درندہ اجڈ اور نہ جانے کیا کیا کہا جاتا ہے، حالانکہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے اپنی ان فتوحات میں بے حد مہذبانہ روش کو اختیار کیا، پھر بھی ہم سے کچھ لوگ مغربی میڈیا کا تعصب اور اپنے کچھ نادان دوست نما شمنوں کے بیانات کا شکار ہوکر اپنے ان اسلاف پر انگلیاں اٹھاتے ہیں جنکی کاوشوں کے ہی بدولت آج ہم اس دنیا میں اپنا وجود رکھتے ہیں
 

arifkarim

معطل
عارف بھائی محمد بن قاسم نہ تو سندھی تھا اور نہ ہی ہندوستانی، لیکن ایک مسلمان تو تھا نہ؟ کیا مسلمان ہونا اتنا ہی بڑا جرم بن گیا ہے کہ اس کے سارے کاناموں پر آپ پردہ ڈال دیں۔
مسلمان تو محمود غزنوی بھی تھا جس نے ہندوستان پر 17 حملے کئے اور یہاں آکر لوٹ مار کا بازار گرم کیا؟ کیا فاتح کا صرف مسلمان ہوجانا ہی اصل کارنامہ ہے یا اسکے علاوہ اور بھی محرکات ہیں جنکا تاریخی مطالعہ ضروری ہے؟

ایک بات اور بتاتا چلوں کہ ایک مسلمان رنگ، روپ، نسل و ملت سے بالکل الگ ہوتا ہے، اور کل مسلمان ملت واحدہ میں شمار ہوتے ہیں۔ آج کی ہماری اس درجہ بندی کو چھوڑ دیں، اب تو وہ نہ دین خالص ہے نہ ہی وہ جذبات، لیکن آج سے ہزار سال پہلے مسلمان ایسا ہی سوچتے تھے، اور اپنے آپ کو ایک ملت ہی کا تصور کیا کرتے تھے
سندھ میں جب محمد بن قاسم نے حملہ کیا تو تب یہاں کوئی مسلمان آباد نہیں تھے۔ اگر ہم عرب ہوتے تو یقیناً اس عرب فاتح کو تمغہ شجاعت دیتے۔ لیکن آپ شاید جان بوجھ کر یہ اگنور کر رہے ہیں کہ اسنے جن علاقوں کو فتح کیا وہ ہمارے ہی اباؤ اجداد یعنی اسی سرزمین کےمکینوں کے تھے جو اسوقت تک غیر مسلم تھے۔

۔ تعجب ہے کہ ایسی فتوحات اگر سکندر یونانی، چنگیز خان اور اشوکا (جس نے اپنی کایا پلٹ سے پہلے تین لاکھ انسانوں کا قتل کروایا تھا) کی بیان کی جائے توانکو عظیم فاتحین سے گردانا جاتا ہے، اور ایسی ہی فتوحات اگر کسی مسلم فاتح نے حاصل کی ہوں تو اسکو ایک وحشی درندہ اجڈ اور نہ جانے کیا کیا کہا جاتا ہے
یہ آپ سے کس نے کہہ دیا؟ مغرب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے فاتح کو عظیم ہی تصور کیا جاتا ہے۔ البتہ اگر کوئی مسلمان فاتح اپنی فتوحات کے بعد لوٹ مار، فساد کا بازار گرم کریگا تو اسکو اچھا تصور نہیں کیا جائے گا۔
 
Top