بھاونیاں میں مسیحی برادری کے گھر نذر آتش کرنے کے خلاف اقلیتوں کا احتجاج

فخرنوید

محفلین
وائس آف پاکستان نیوز ۔۔۔۔۔۔نمائندہ گوجرانوالہ۔
قصور کے نواحی گاوں بھاونیاں والا میں مقامی باا ثر افراد کی طرف سے مسیحی برادری کے16گھروں کو آگ لگانے اور عورتوں کی بے حرمتی کرنے کے خلاف اقلیتی برادری کے سینکڑوں مرد و خواتین نے احتجاجاً جی ٹی روڈ ایک گھنٹہ تک بلاک کئے رکھا۔ مظاہرین مختلف ریلیوں کی شکل میں جی ٹی روڈ گوندلانوالہ اڈہ اکٹھا ہوئے۔ اور انہوں نے ٹائروں کو آگ لگا کر سڑک کو کسی بھی قسم کی آمدو رفت کے لئے معطل کر دیا۔احتجاج میں شریک افراد نے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر مذمتی الفاظ درج تھے۔انہوں نے اس موقع پر پولیس کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ چند با اثر افراد مسیحی گھر سے شراب لینے کے لئے گئے۔ جس کے انکار پر انہوں نے مسیحی برادری کے 16گھروں کو آگ لگا دی۔جس کا ابھی تک پولیس نے نہ تو پرچہ درج کیا ہے اور نہ ہی کوئی ملزم گرفتار ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ احتجاج اس وقت تک چلے گا جب تک ملزمان کے خلاف پرچہ درج کر کے انہیں گرفتار نہیں کیا جاتا۔ بعد ازاں مظاہرین پر امن طور پر منتشر ہو گئے۔ اور ٹریفک بحال ہو گئی۔

واضح رہے اس سے قبل ایک معروف نیوز ایجنسی کی جانب سے یہ خبر مورخہ 2 جولائی 2009 کو اس طرح شائع ہوئی تھی۔

پنجاب کے ضلع قصور میں عیسائیوں کے ایک گاؤں پر ہمسایہ گاؤں کے مسلح افراد نے حملہ کرکے ان کے پینتیس گھروں کو توڑ پھوڑ دیا جبکہ پندرہ افراد کو زخمی کیا گیا۔مقامی مسلمانوں نے الزام عائد کیا ہے کہ مسیحی توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔

واقعہ کے بعد علاقے میں کشیدگی پائی جارہی ہے۔حکومت پنجاب نے فریقین میں مصالحت کے لیے دو صوبائی وزراء اور پولیس و انتظامی افسروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔

قصور کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس وقاص حسن نے بی بی سی کو بتایا کہ جھگڑے کے بعد پولیس کی بھاری نفری علاقے میں تعینات کردی گئی ہے تاکہ مزید کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہوسکے۔

پولیس کےمطابق جھگڑے کا آغاز دوروز پہلے اس وقت ہوا جب مسلمانوں کے گاؤں مان والا کے موٹرسائیکل سوار محمد ریاض نے مسیحی اکثریتی گاؤں باہمنی والا کے ٹریکٹر سوار سردار مسیح کو راستہ نہ دیا۔

دونوں افراد میں لڑائی ہوئی محمد ریاض اپنے ساتھیوں کے ساتھ انتقام لینے آیا تو مسیحیوں کے گاؤں میں ان سب کی پٹائی ہوگئی۔

پولیس کے مطابق سنی تحریک کے ایک مقامی رہنما قاری لطیف نے معاملہ کو بگاڑا اور اگلے روز مسجد سے اعلانات کرائے گئے کہ مسیحوں نے توھین رسالت کی ہے۔پولیس کا کہنا کہ قاری لطیف نے تیس چالیس نوجوانوں پر مشتمل ایک فورس بھی بنارکھی ہے جس میں بارہ اور چودہ برس کے لڑکے بھی شامل ہیں۔

کیتھولک چرچ کی انسانی حقوق کی تنظیم قومی کمیشن برائے امن وانصاف کے ایگزیکٹو سیکرٹری پیٹر جیکب کے مطابق گاؤں مان والا کے مسلمانوں نے مسیحوں کے گھروں میں گھس کر مرد خواتین بچوں کو زدوکوب کیا۔ چند ایک پر تیزاب پھینکا موٹرسائیکلوں اور پالتو جانوروں پر پٹرول چھڑک کر انہیں آگ لگائی جبکہ گھروں کو توڑ پھوڑ دیا گیا۔مسیحی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ چالیس مکانوں کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ پندرہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔

پیٹر جیکب کاکہنا ہے کہ ان کے کمیشن کے اراکین نے گاؤں کا دورہ کرکے نقصان کا اندازہ کرنے کی کوشش کی ہے ان کے مطابق حملہ کےدوران ایک حاملہ خاتون کا حمل گرگیا اور خود اس کی حالت نازک ہے اس کے علاوہ مقامی لوگوں نے زیوارت نقدی اور دیگر قیمتی سامان کے چوری ہونے کی شکایات بھی کی ہیں۔

اے ایس پی قصور نے کہا کہ سرکاری اہلکار نقصان کا اندازہ لگا رہے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ کسی گھر کو آگ نہیں لگائی گئی ایک بھینس کو جلاکر ضرور ہلاک کیا گیاہے۔پولیس کے مطابق جن مکانوں کو زیادہ نقصان پہنچا ان کی تعداد گیارہ ہے۔

ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مان والا گاؤں کے لوگوں نے توھین رسالت کا مقدمہ درج کرانے کی کوشش کی تھی لیکن چونکہ پولیس انکوائری میں یہ ثابت ہوگیا تھا کہ یہ الزام جھوٹا ہے اس لیے مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔

ہنگامہ آرائی کی اطلاع ملنے پر اقلیتی امور کے صوبائی وزیر کامران مائیکل، کمشنر لاہور ڈویژن خسرو پرویز اور دیگر حکام کے ہمراہ قصور پہنچ گئے۔ حکومت پنجاب کی قائم کردہ مصالحتی کمیٹی میں دو صوبائی وزیر ایک مقامی ایم پی اے،ڈسٹرکٹ پولیس افسر،ضلعی رابط افسر اور فریقین کے نمائندے شامل ہیں۔

ایشین ہیومن رائٹس کمشن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پولیس نے تاحال مسیحی گھروں پر حملہ کرنے کا مقدمہ درج نہیں کیا ہے۔

اے ایس پی کا کہنا ہے کہ امن کمیٹی کو تین روز کے اندر صلح کرانے کا ٹاسک دیا گیا اور اگر یہ کمیٹی امن قائم کرنے میں ناکام رہی تو پولیس گرفتاریاں عمل میں لائے گی۔
 
Top