بھارت میں اُردو کا مستقبل

ہمہ جہت شخصیت کے مالک حسن کاظمی نے 7اکتوبر 1960کو کان پور کے ایک ادبی گھرانے میں جنم لیا۔ اِن کا شمار بھارت کی اُن ادبی اور صحافتی شخصیات میں کیا جاتا ہے جو ہمہ وقت بھارت میں اُردو کے فروغ اور صحافتی اقدار برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
شاعری حسن کاظمی کا عشق اور صحافت اُن کا مشن ہے۔
پُروقار شخصیت کے مالک حسن کاظمی نے ایک دہائی تک دور درشن لکھنئو کے ناظرین کو خبروں سے آگاہ کیا۔
1992میں ’’سہارا پریوار‘‘ کا حصہ بنے۔ ٹیلی ویژن نیٹ ورک ’’سہارا سمے‘‘ کے اردو نیوز چینل ’’عالمی سہارا‘‘ میں بہ حیثیت ’’چینل ہیڈ‘‘ اپنے فرائض کی بجا آوری کی۔
آج کل ریاست اتر پردیش میں ’’سہارا نیٹ ورک‘‘ کے اخبارات اور ٹی وی چینل کے معاملات دیکھ رہے ہیں

ربط
٭ایکسپریس: آپ بھارت میں اُردو کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟
حسن کاظمی: بھارت میں اُردو کا مستقبل بہت تاب ناک ہے۔ لوگوں میں اُردو بولنے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ اُردو سکھانے والے نئے ادارے کُھل رہے ہیں۔ اسکول کُھل رہے ہیں۔ جنوب کی وہ ریاستیں جہاں کبھی اُردو کا نام و نشان نہیں تھا، اب وہاں بھی مشاعرے اور ادبی تقریبات ہو رہی ہیں۔ اُردو گانوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اُترپردیش تو اُردو کا گہوارہ ہے، وہاں تو اُردو زبان پر بہت بڑے پیمانے پر کام ہورہا ہے۔ بھارتی معاشرے میں اُردو شاعروں کو اتنی داد و تحسین ملتی ہے کہ ہمارے وہ ہندو شعرا جو گیت اور کویتا کہتے تھے، اب انہوں نے بھی غزل کہنا شروع کردی اس کا آغاز سب سے پہلے ’’گوپال داس نیرج ‘‘ نے کیا۔
وہ ہندی کے گیت کار کہلائے جاتے تھے، لیکن اُردو میں اُن کے فلمی نغموں کو وہ پذیرائی ملی کہ انہوں نے فلمی گیت ہی کہنا شروع کردیے۔ اب ہندی کا ایک کوی اردو فلمی گیت لکھ رہا ہے۔ ریاست اترپردیش کے سابق وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادیو نے بھی اُردو کے فروغ کے لیے بہت کام کیا ہے اور تا حال کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے سرکاری دفاتر میں خط و کتابت سے لے کر افسران کے ناموں کی تختیاں تک اُردو میں لکھوا دی تھیں۔ انہوں نے ہر دفتر میں ایک اُردو مترجم کو لازمی قرار دیا۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں سرکاری تعلیمی اداروں میں اُردو پڑھانے کے لیے 74ہزار اساتذہ بھرتی کیے تھے۔
بھارت میں پاکستانی ادیبوں اور شاعروں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ اُن کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ ’’احمد فراز‘‘،’’فہمیدہ ریاض‘‘، ’’کشور ناہید‘‘،’’امجد اسلام امجد‘‘،’’قتیل شفائی‘‘ اور بہت سے پاکستانی ادیبوں کی کتابوں کے جتنے ایڈیشن چھاپے جائیں کم ہیں۔ پاکستانی فن کاروں کو بھارت میں بے حد عزت دی جاتی ہے، ماسوائے چند انتہا پسند تنظیموں کے۔ ’’غلام علی‘‘، ’’راحت فتح علی خان‘‘،’’مہدی حسن خان‘‘ اور ’’قتیل شفائی‘‘ صاحب کی تو وہاں لوگ پوجا کرتے ہیں۔ ان کے شوز کے منہگے سے منہگے ٹکٹ خریدتے ہیں۔ منہگے سے منہگے البم خریدتے ہیں، اور شاید ان فن کاروں کے جتنے البم بھارت میں بکتے ہیں دنیا میں کہیں نہیں۔جو زبان لوگوں کے روزگار سے منسلک ہو وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ آپ کو اگر کسی زبان کو ختم کرنا ہے تو اُسے روزگار سے الگ کردیں وہ خود ہی ختم ہوجائے گی۔ ہم آپ کو یہ بات بھی بتادیں کہ تمام تر سازشوں کا شکار ہونے کے باوجود اُردو زبان ختم نہیں ہوپائی اور نہ کبھی ختم ہو سکے گی۔
٭ایکسپریس: کیا بھارت میں اُردو کو انتہاپسند ہندوئوں کی جانب سے خطرات لاحق ہیں؟
حسن کاظمی: انتہا پسندوں کی جانب سے اکثر سنسکرت کو قومی زبان کا درجہ دینے کا واویلا کیا جاتا ہے، لیکن عملی طور پر یہ ممکن ہی نہیں۔ سنسکرت کے نفاذ کے لیے تحریک چلانے والے افراد کے اہل خانہ بھی اس زبان کی اتنی شُد بُد نہیں رکھتے جتنی دسترس اُنہیں اُردو پر حاصل ہے۔
٭ ایکسپریس: بھارت میں اُردو صحافت کا حال، مستقبل کیا ہے؟
حسن کاظمی : بھارت میں اُردو صحافت کا مستقبل بہت روشن ہے۔ بھارت میں پہلے اُردو کے دو بڑے اخبارات ہوتے تھے، ’’سیاست‘‘ اور کانگریس کا ’’قومی آواز‘‘، اب آٹھ دس بڑے اُردو اخبارات شایع ہو رہے ہیں، لیکن رسائل کی تعداد کم ہورہی ہے۔ اُردو صحافت میں انگریزی کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ صحافیوں کی اُردو زبان پر مکمل دسترس کا نہ ہونا اور اُن کی کم علمی ہے۔
کچھ پاکستانی صحافی ایسے ہیں جن کی خبروں کو بھارتی میڈیا میں بہت مستند سمجھا جاتا ہے اور ہم ’’بیپر‘‘ کے لیے انہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان میں پابندی کے باوجود کیبل کے ذریعے بھارتی چینلز دکھائے جا رہے ہیں۔ بھارت میں کیبل پر پاکستانی چینلز کے دکھائے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہاں اس ضمن میں بہت سختی ہے، لیکن اگر آپ کے پاس ڈش انٹینا ہے تو آپ فریکوئنسی سیٹ کر کے پاکستانی چینلز دیکھ سکتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
Top