بڑی امی - ایک خاکہ

بڑی امی (ایک خاکہ)

چوہدری لیاقت علی

چند سال پہلے اپنی الماری کی صفائی کرتے ہوئے ایک تصویر نظر آئی۔ اس پر نظر پڑتے ہی اپنی بڑی امی کا چہرہ اور اپنا سارا بچپن ذہن میں آگیا۔ اس کے بعد سے یہ تصویر اکثر ذہن میں ابھرتی ہے، کچھ لمحے سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور پھر دھندلا سی جاتی ہے۔ اس تصویر کی آنکھ مچولی اسی طرح جاری و ساری ہے۔ یہ تصویر میری دادی مرحومہ جنت بی بی اور میرے چھوٹے بھائی سعدکی ہے۔ اس تصویر میں ان کا جھریوں بھرا پر نور چہرہ، بیٹھنے کا پر تمکنت انداز، بڑی بڑی آنکھیں اور ایک دھیمی سی مسکراہٹ ذہن پر چپک سی جاتی ہے۔ یہ تصویر بار بار آکر ذہن میں ایسے بلاوے دیتی ہے کہ

ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی

بڑی امی نے کیا کیا صدمے دیکھے۔ اپنے خاوند کو کھویا، اپنے کئی بچوں کو، ان بچوں کے بچوں کو مگر ہمیشہ ایک مسکراہٹ ان کے چہرے پر قائم رہی۔ نہایت صبر و شکر کے ساتھ زندگی بسر کی۔ کبھی انہیں گلہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ تمام خوبیاں ان میں نہ جانے کہاں سے آئیں۔رسمی تعلیم سے بالکل بے بہرہ مگر انتہائی گہری سوجھ بوجھ کی حامل۔ وہ کسی عام کتاب کی خواندہ نہیں تھیں بلکہ کتاب زندگی کی پیرو تھیں۔

میری دادی جان جنت بی بی جنہیں ان کے سارے پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں بڑی امی کہا کرتے تھے، اپنے شناختی کاغذات کی رو سے ۱۹۲۱ ؁ء ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئیں۔میرے دادا چوہدری فضل محمد ان سے عمر میں بیس برس بڑے تھے۔ پیشے کے لحاظ سے ٹھیکیداری کرتے تھے۔ ان دونوں کی شادی ۱۹۳۶ء ؁ میں ہوئی۔ قیام پاکستان کے وقت اپنے پانچ بچوں کے ہمراہ ہجرت کی اور ملتان کے علی پور نامی قصبے میں آباد کاری کی۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے بڑی امی کو اولاد فراوانی سے عطا کی۔ ان کی پانچ بیٹیاں اور پانچ بیٹے تھے۔ ان میں ایک بیٹے کا انتقال صغر سنی میں ہو گیا۔ اپنے انتہائی محدود وسائل جے باوجود انہوں نے اپنی تمام اولاد کو مقدور بھر زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ ان کے تمام بچوں نے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیا اور بساط بھر اپنے والدین کا ہاتھ بٹایا۔

میرے دادا جان اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دے ایک درد ناک ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئے۔ یہ سن ۱۹۷۱ ؁ء کا ذکر ہے۔ یہ سب سے پہلا صدمہ تھا جو میری دادی جان نے اپنی ناتواں جان پر جھیلا۔ انہوں نے کمال حوصلے سے اس جانکاہ حادثے کو جھیلا۔ میرے والد سمیت پانچ بچے ابھی تک غیر شادی شدہ تھے۔ انہوں نے کیسے یہ وقت گزارا، کیسے خود کو سنبھالا، کیسے اپنے بچو ں کی شادیاں کیں، میرا دماغ یہ سب سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس صدمے کے بعد اور بھی ایسے جان گسل لمحات ان کی زندگی میں آئے۔ ان میں سب سے درد ناک جوان موت میرے تایا ابو کی تھی۔ ان کا نام تھا عاشق حسین۔ ایک انتہائی خوب رو اور متاثر کن شخصیت کے حامل تھے۔ بسلسلہ روزگار انہیں کراچی جانا تھا۔ انہوں نے وہاں حاضری دہ، پتہ چلا کہ ٹریننگ ایک ہفتہ بعد شروع ہے، وہاں سے واپس آئے اور عین عنفوان شباب میں ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئے۔ ایسا خوبصورت شخصیت اور ایسی بے نشان موت۔ پورے خاندان پر ایک سکتے کی سی کیفیت طاری تھی۔ ہر جگہ صرف اسی بات کے چرچے تھے کہ غیر شادی شدہ تھے کوئی نشانی بھی نہیں ہے جو اس کی یاد دلائے۔ بڑی امی جتنا یاد اپنے ان صاحبزادے کو کرتی تھیں شاید ہی ہم نے کسی اور کو انہیں اتنا یاد کرتے ہوئے دیکھا ہو۔ کہاں سارا خاندان اس بات پر گریہ کناں کہ ایک بیٹا بے نشان چلا گیا وہیں کچھ عرصے بعد میرے سب سے بڑے تایا ابو ریاست علی کا انتقال ہو گیا۔ ان کے سات بچے تھے۔ ان کی وفات سے آس پاس ہی میری ایک پھپھو کا انتقال ہو گیا جن کے دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ ۹۰ء کی دہائی کا آغاز میں میری سب سے بڑی پھپپھو کا انتقال ہو گیا۔ ان کا ماشاء اللہ آٹھ بچے تھے۔ کچھ ہی سالوں میں ان کی ایک نواسی انتقال کر گئیں۔ یہ تھے وہ حالات جن کے سائے میں انہوں نے اپنی زندگی بسر کی۔

ان تمام الم ناکیوں کے باوجود ان کا وجود ہمارے لئے روایتی دادیوں کی طرح کہانیوں اور مزیدار واقعات سے مزین تھا۔ ان کا ہونا ہمیں ایک عجیب سی مسرت دیتا تھا۔ ان کی زندگی کم از کم میرے ہوش سنبھالنے کے بعد اپنے بچوں کے گھروں میں گزری، کبھی ہمارے ہاں، کبھی کسی تایا ابو کے ہاں اور کبھی کسی کسی پھپھو کے ہاں۔ مگر ان کے ساتھ جتنا بھی وقت بیتا وہ تمام کا تما م میری زندگی کا سنہرا وقت ہے۔ ان کی تصویر کیا سامنے آتی ہے۔ ذہن میں اپنا سارا بچپن آجاتا ہے۔ ایک بڑی روشن یاد جو اکثر میرے ذہن میں اپنی جگہ بناتی ہے کہ جب وہ ہمارے گھر رہا کرتی تھیں ان تمام دنوں میں وہ ہماری سکول واپسی کے اوقات میں اکثر گھر کے باہر بیٹھ کر ہمارا انتظار کر رہی ہوتی تھیں۔ ان کے چلے جانے کے بعد سے واپس آنے تک ہماری نظریں ان کے مخصوص مقام پر گڑی رہتی تھیں۔ ان کی وہاں موجودگی کے ہم ایسے عادی ہو گئے تھے کہ ان کے جانے کے بہت عرصہ بعد بھی ان کی جگہ پر نظریں ٹکی رہتی تھیں۔ اکثر ہم سب بھائی کھانے کے بعد ان کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے اور وہ ہمیں علی پور کے قصے اور بالخصوص میرے ابو جی کے بچپن کے قصے سنایا کرتی تھیں۔ ان کی اس کہانی کو ہم آج بھی بہت یاد کرتے ہیں۔ وہ بھی کیا دن تھے،جب صبح پی ٹی وی پر کارٹون اور شام کو بڑی امی کی کہانی۔ جانے کہاں گئے وہ دن۔

بڑی امی کی شخصیت بڑی بارعب تھی۔ خاص طور پر ان کی تیکھی نظر اور کڑک دار آواز۔ ان کا چہرہ ان کے اندرونی اتار چڑھاؤ کا بہت بڑا عکاس تھا۔ اگر وہ خوش ہیں تو چہرہ اور آنکھیں مسکرا رہی ہیں۔ تمام خطوط کھلے پڑ رہے ہیں۔ اگر ناراض ہیں تو ایک تحکم ان کے چہرے پر اور ایک گرج ان کی آواز میں۔ مگر جیسے یہ بادل آتا ویسے ہی چلا جاتا۔ پھر وہی برکھا پیار اور اپنے بچوں کے بچپن کی باتیں اور ہماری لاڈیاں۔ اپنے بچوں کو یاد کر کے در اصل وہ اپنی ان سنہری یادوں کو تازہ کرتی تھیں جن کے سہارے انہوں نے ڈھیر سارے صدمات جھیلے۔ اپنے تمام بچوں میں انہیں اپنی سب سے چھوٹی صاحبزادی سے بہت پیا ر تھا۔ وہ ان کے اور ان کے بچوں کے لیے بہت متردد رہتی تھیں۔ ہر نماز کے بعد بڑی طویل دعا مانگتی تھیں ۔ اپنے تمام بیٹوں بیٹیوں کے لئے ان کی اولادوں کے لئے۔ خصوصا میری چھوٹی پھپھو اور ان کے بچوں کے لئے۔ ان کا وجود پورے خاندان کی یکجا ئی کا باعث تھا۔ جب تک وہ حیات رہیں انہوں نے ایک ایسی مرکزی اکائی کی صورت اختیار کی کہ اگر وہ ہمارے گھر ہیں تو سب ان سے ملنے ہمارے گھر آرہے ہیں۔ اگر وہ کسی اور پھپھو ک گھر ہیں تو اب پورے خاندان کی ملنے کہ جگہ ان کا گھر ہے۔ اگرچہ آج بھی ہمارا خاندان ایک دوسرے کے بہت قریب ہے تاہم

وہ بات نہ تھی پہلے سی

جب تک وہ ہمارے گھر میں رہیں ہماری تربیت میں اپنا مثبت کردار ادا کرتی رہیں۔ ہمارے دلوں میں اپنے ددھیالی رشتوں کی محبت جگاتی رہیں۔ آج بھی میرا ذہن تسلیم نہیں کرتا کہ ایک ان پڑھ خاتون جو صرف قرآن کریم پڑھنا جانتی ہو بغیر کسی رسمی تعلیم کے زندگی گزارنے کا ایسا ڈھب جانتی ہو کہ ہر روپ سروپ میں کامل۔ بیٹوں سے کیسے بات کرنی ہے، دامادوں کو کتنی عزت دینی ہے، سسرالیوں کا اکرام کیسے کرنا ہے۔ پرانے ہمسائے آئیں تو کیسے عزت دینی ہے یہ سب کام وہ ایسے طریقوں سے کرتیں کہ آج کی پڑھی لکھی خواتین شاید یہ سب کچھ نہ کر پائیں۔ اپنے تمام صدمات کو اپنی ذات کے ایک مخصوص اور مضبوط خول میں چھپا کر وہ ہمارے لئے ہماری شفیق اور مہربان بڑی امی تھیں۔ محبت اور شفقت کا پیکر، جلال و جمال کا ایک حسین امتزاج۔ ہماری شرارتوں پر برہم اور اگلے ہی لمحے موہوم سی مسکراہٹ۔ انہوں نے ہماری زندگی میں کیسے کیسے رنگ بکھیرے۔ آج بھی ان رنگوں سے ایک پو پھوٹتی محسوس ہوتی ہے۔

بقول امجد اسلام امجد
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم

ان تمام صدمات و حوادث کے رد عمل میں میری بڑی امی کو بہت سی بیماریوں نے گھیر ا ہوا تھا۔ ہر کھانے کے بعد جو اکثر پر ہیزی ہو ا کرتا تھا ایک مٹھی بھر گولیاں کھا یا کرتی تھیں۔ آخری عمر میں ان کا چلنا پھرنا قریبا موقوف ہو گیا تھا۔ جب وہ ہمارے گھر ہو ا کرتی تھیں تو انہیں ان کے کمرے سے شام کے وقت صحن میں یا پھر واپس صحن میں یا تو اپنی گود میں یا کسی کرسی پر بٹھا کر اس کرسی کو اٹھا کر لے جایا کرتا تھا۔جنوری ۲۰۰۲ ؁ء میں وہ اپنی طویل علالت سے نجات پا کر اس سفر پر روانہ ہو گئیں جہاں جلد یا بدیر ہم سب نے چلے جانا ہے۔ ایک باب تھا جو اس روزتمام ہوا۔ ایک عہد تھا جو اس روز ختم ہوا۔ ایک ایسی شخصیت جو ہمارے پورے خاندان اور ماضی سے تعلق کا رابطہ پل تھی اس دن ہم سے رخصت ہوئی۔ ایک برکھا رت تھی جو جب تھمی تو دیر تک اس کے رکنے کا احساس ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ ان کے جانے کے بعد احساس ہوا کہ آج ہمارا بچپن بھی ان کے ساتھ ہی رخصت ہو گیا۔ اب کون ہمیں ہمارے بزرگوں کے بچپن کی کہانیاں سنائے گا۔ کون گھر کے باہر بیٹھ کر ہمارا انتظار کرے گا۔ کون ہماری شرارتوں پر ہمیں مصنوعی غصے سے ڈانٹے گا۔ آج بھی ان کی تصویر دیکھتا ہوں تو ان کی پیار بھری جھڑکیاں اور گھوریاں یاد آتی ہیں۔ ان کی سنائی ہوئی کہانیاں اور قصے یاد آتے ہیں۔ سوچتا ہوں زندگی میں انہیں کیا ملا، اپنوں سے بچھڑنے کا غم، حوادث، جب اولاد مرفع الحال ہوئی تو انہیں طرح طرح کی بیماریوں نے گھیر لیا مگر ان تمام چیزوں کو انہوں نے اپنی ذات کی پرتوں میں اس طرح چھپا لیا کہ ہمیں احساس ہی نہ ہوا ان کا دل کتنا دکھی ہے۔ اور ہمیں انہوں نے کیا دیا بے پناہ شفقت اور محبت اور سے بڑھ کر اپنے ماضی سے ایک مضبوط ناطہ۔ اللہ ان کے درجات مزید بلند فرمائے۔
 
Top