مجید امجد بڑھی جو حد سے تو سارے طلسم توڑ گئی ۔ مجید امجد

فرخ منظور

لائبریرین
بڑھی جو حد سے تو سارے طلسم توڑ گئی
وہ خوش دلی جو دلوں کو دلوں سے جوڑ گئی

ابد کی راہ پہ بےخواب دھڑکنوں کی دھمک
جو سو گئے انہیں بجھتے جُگوں میں چھوڑ گئی

یہ زندگی کی لگن ہے کہ رتجگوں کی ترنگ
جو جاگتے تھے انھی کو یہ دھن جھنجھوڑ گئی

وہ ایک ٹیس جسے تیرا نام یاد رہا
کبھی کبھی تو مرے دِل کا ساتھ چھوڑ گئی

رکا رکا ترے لب پرعجب سخن تھا کوئی
تری نگہ بھی جسے ناتمام چھوڑ گئی

فرازِ دل سے اترتی ہوئی ندی، امجد
جہاں جہاں تھا حسیں وادیوں٘ کا موڑ، گئی

مجید امجد
 
Top