بڑا اندھیر ہے ظلمات کے علاوہ بھی ۔۔۔

بڑا اندھیر ہے ظلمات کے علاوہ بھی۔
حصارِ تیرگی ہے رات کے علاوہ بھی۔
٭٭٭
کشاں کشاں لئے چلتی ہے کوئی مجبوری۔
ستم ظریفئی حالات کے علاوہ بھی۔
٭٭٭
تو جیت جاتا کوئی اور چال چل کر بھی۔
میں ہار جاتا کسی مات کے علاوہ بھی۔
٭٭٭
کہاں کہاں نہیں ملتے ہیں راہ گم کردہ۔
حرم کے اور خرابات کے علاوہ بھی۔
٭٭٭
نصیبِ دل ہیں یہ تکمیلِ خواب کے کچھ زخم۔
شکستِ خواب کے صدمات کے علاوہ بھی۔
٭٭٭
بہت ہے اُنسِ رفیقاں کی نا فراوانی۔
تمہارے درد کی بہتات کے علاوہ بھی۔
٭٭٭
کمال اور بہت کر گیا ہے ساحر چشم۔
اِن آشکار کرامات کے علاوہ بھی۔
٭٭٭
 
Top