بچے

سلمان میرا بھتیجا ہے۔ دوسری جماعت میں پڑھتا ہے۔ میرے ساتھ اس کی بڑی دوستی ہے۔ اکثر وہ سکول سے جب کوئی نئی بات سیکھ کر آتا ہے تو گھر آکر سب سے پہلے تمتمائے چہرے اور چمکتی آنکھوں سے اس یقین سے مجھےبتاتا ہے کہ اس کے بتانے سے پہلے مجھے یہ بات معلوم نہیں تھی۔

ایک دن میں نے غور کیا کہ یہ عادت تو اکثر بڑی عمر کے لوگوں میں بھی ہوتی ہے۔ وہ بھی کوئی بات جو ان کے علم میں نئی ہوتی ہے اس یقین اور جذبے کے ساتھ دوسروں کو بتاتے ہیں کہ دوسرے یہ بات نہیں جانتے۔ بلکہ بعض لوگ تو ہر بات اس یقین کے ساتھ کرتے ہیں کہ دوسرے کم عقل یا جاہل ہیں۔ اس کا مظاہرہ اس وقت دیکھا جاسکتا ہے جب کوئی بحث مباحثہ ہورہا ہو۔ ﷽بحث یا مباحثہ کا اصل مقصد تو کسی بھی موضوع کو مختلف زاویوں سے جانچنا ہوتا ہے۔لیکن شرکائے بحث اسے ہار جیت کامیدان بنا لیتے ہیں اور دوسری طرف کے موقف کو جانچے بغیر صرف اپنے موقف کو سچا ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔

شاید بچپن کی عادت انسان کے لاشعور میں اس قدر پختہ ہو چکی ہوتی کہ وہ ہر بحث میں سیکھنے کی بجائے سکھانے پر زیادہ زور لگاتا ہے کیونکہ اس سے اسے برتری کا احساس ہوتا ہے۔ اس طرح وہ جسمانی طور پر بڑا ہونے کے باوجود شعوری طور پر بچہ ہی رہتاہے۔

لیکن کچھ لوگ شعوری طور پر بھی بڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یہ سمجھ جاتے ہیں کہ جو ہم نہیں جانتے وہ لامحدود ہے اور لامحدود کے مقابلے میں ہم جتنا بھی جان لیں وہ نہ ہونے کے برابر ہی ہوگا۔

نوٹ:- صاحبِ تحریر کو بھی بچوں میں ہی شمار کیا جائے۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ایک دن میں نے غور کیا کہ یہ عادت تو اکثر بڑی عمر کے لوگوں میں بھی ہوتی ہے
شاید بچپن کی عادت انسان کے لاشعور میں اس قدر پختہ ہو چکی ہوتی کہ وہ ہر بحث میں سیکھنے کی بجائے سکھانے پر زیادہ زور لگاتا ہے کیونکہ اس سے اسے برتری کا احساس ہوتا ہے۔ اس طرح وہ جسمانی طور پر بڑا ہونے کے باوجود شعوری طور پر بچہ ہی رہتاہے۔
بچپن کی عادت، جیسا کہ آپ نے فرمایا، ہماری شخصیت میں اس حد تک رچ بس جاتی ہے کہ بڑی عمر میں بھی اس کا اثر برقرار رہتا ہے۔اور اسی بچپنے کے باعث، بحث یا مباحثہ اکثر ہار جیت کا میدان بن جاتا ہے، جہاں علم بانٹنے یا سیکھنے کے بجائے، اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف ہمارے سیکھنے کے عمل کو متاثر کرتا ہے بلکہ ہمارے تعلقات کو بھی پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
لیکن کچھ لوگ شعوری طور پر بھی بڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یہ سمجھ جاتے ہیں کہ جو ہم نہیں جانتے وہ لامحدود ہے اور لامحدود کے مقابلے میں ہم جتنا بھی جان لیں وہ نہ ہونے کے برابر ہی ہوگا۔
درست فرمایا۔ جو لوگ شعوری بلوغت حاصل کر کے اس بات کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ زندگی ایک مسلسل سیکھنے کا عمل ہے،اور دوسروں سے کچھ سیکھنے میں کسی قسم کی جھجھک نہیں ہونی چاہئیے ، وہ نہ صرف خود بہتر انسان بن جاتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی ایک مثال بن جاتے ہیں۔سیکھنے اور سکھانے کا عمل ایک دو طرفہ راستہ ہے۔ اگر ہم دوسروں کی بات سننے اور ان سے کچھ سیکھنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو ہم نہ صرف ایک بہتر انسان بن سکتے ہیں بلکہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو بھی زیادہ خوشگوار اور تعمیری بنا سکتے ہیں۔
اس طرح بحث مباحثے کا اصل مقصدیعنی کہ مختلف زاویوں سے علم و حکمت کو سمجھنا اور اپنی سوچ کو وسعت دینا ، بھی حاصل ہو جائے گا ۔ کیونکہ یہی ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے ہم دوسروں کے خیالات کو سمجھ کر اپنی سوچ کو نکھار سکتے ہیں۔ لیکن جب ہم اس عمل کو صرف اپنی برتری یا جیت کے لیے استعمال کرتے ہیں تو اس کا حقیقی فائدہ ضائع ہو جاتا ہے۔
 
بچپن کی عادت، جیسا کہ آپ نے فرمایا، ہماری شخصیت میں اس حد تک رچ بس جاتی ہے کہ بڑی عمر میں بھی اس کا اثر برقرار رہتا ہے۔اور اسی بچپنے کے باعث، بحث یا مباحثہ اکثر ہار جیت کا میدان بن جاتا ہے، جہاں علم بانٹنے یا سیکھنے کے بجائے، اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف ہمارے سیکھنے کے عمل کو متاثر کرتا ہے بلکہ ہمارے تعلقات کو بھی پیچیدہ بنا دیتا ہے۔

درست فرمایا۔ جو لوگ شعوری بلوغت حاصل کر کے اس بات کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ زندگی ایک مسلسل سیکھنے کا عمل ہے،اور دوسروں سے کچھ سیکھنے میں کسی قسم کی جھجھک نہیں ہونی چاہئیے ، وہ نہ صرف خود بہتر انسان بن جاتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی ایک مثال بن جاتے ہیں۔سیکھنے اور سکھانے کا عمل ایک دو طرفہ راستہ ہے۔ اگر ہم دوسروں کی بات سننے اور ان سے کچھ سیکھنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو ہم نہ صرف ایک بہتر انسان بن سکتے ہیں بلکہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو بھی زیادہ خوشگوار اور تعمیری بنا سکتے ہیں۔
اس طرح بحث مباحثے کا اصل مقصدیعنی کہ مختلف زاویوں سے علم و حکمت کو سمجھنا اور اپنی سوچ کو وسعت دینا ، بھی حاصل ہو جائے گا ۔ کیونکہ یہی ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے ہم دوسروں کے خیالات کو سمجھ کر اپنی سوچ کو نکھار سکتے ہیں۔ لیکن جب ہم اس عمل کو صرف اپنی برتری یا جیت کے لیے استعمال کرتے ہیں تو اس کا حقیقی فائدہ ضائع ہو جاتا ہے۔
بچے کی اس طرح حوصلہ افزائی پر ایک بہن کا شکریہ!
 

جاسمن

لائبریرین
ماشاءاللہ۔ آپ نے درست تجزیہ کیا۔
ایسا ہی ہے اور گُلِ یاسمیں نے بھی اچھا تجزیہ کیا ہے۔
ہم میں سے اکثریت اچھے سامع بھی نہیں ہیں۔ بقول یونس بٹ ہم دوسرے کی بات جو بظاہر توجہ سے سن رہے ہوتے ہیں دراصل اپنی باری کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔
ہر شخص ”کہنے/بتانے“ کو بے تاب ہے۔ سننے، توجہ دینے اور عمل کی نیت کرنے والے بہت کم ہیں۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
 
ماشاءاللہ۔ آپ نے درست تجزیہ کیا۔
ایسا ہی ہے اور گُلِ یاسمیں نے بھی اچھا تجزیہ کیا ہے۔
ہم میں سے اکثریت اچھے سامع بھی نہیں ہیں۔ بقول یونس بٹ ہم دوسرے کی بات جو بظاہر توجہ سے سن رہے ہوتے ہیں دراصل اپنی باری کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔
ہر شخص ”کہنے/بتانے“ کو بے تاب ہے۔ سننے، توجہ دینے اور عمل کی نیت کرنے والے بہت کم ہیں۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
محترمہ جاسمن صاحبہ! رائے دینے اور تبصرہ کرنے کا شکریہ!
 

یاسر شاہ

محفلین
سلمان میرا بھتیجا ہے۔ دوسری جماعت میں پڑھتا ہے۔ میرے ساتھ اس کی بڑی دوستی ہے۔ اکثر وہ سکول سے جب کوئی نئی بات سیکھ کر آتا ہے تو گھر آکر سب سے پہلے تمتمائے چہرے اور چمکتی آنکھوں سے اس یقین سے مجھےبتاتا ہے کہ اس کے بتانے سے پہلے مجھے یہ بات معلوم نہیں تھی۔

ایک دن میں نے غور کیا کہ یہ عادت تو اکثر بڑی عمر کے لوگوں میں بھی ہوتی ہے۔ وہ بھی کوئی بات جو ان کے علم میں نئی ہوتی ہے اس یقین اور جذبے کے ساتھ دوسروں کو بتاتے ہیں کہ دوسرے یہ بات نہیں جانتے۔ بلکہ بعض لوگ تو ہر بات اس یقین کے ساتھ کرتے ہیں کہ دوسرے کم عقل یا جاہل ہیں۔ اس کا مظاہرہ اس وقت دیکھا جاسکتا ہے جب کوئی بحث مباحثہ ہورہا ہو۔ ﷽بحث یا مباحثہ کا اصل مقصد تو کسی بھی موضوع کو مختلف زاویوں سے جانچنا ہوتا ہے۔لیکن شرکائے بحث اسے ہار جیت کامیدان بنا لیتے ہیں اور دوسری طرف کے موقف کو جانچے بغیر صرف اپنے موقف کو سچا ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔

شاید بچپن کی عادت انسان کے لاشعور میں اس قدر پختہ ہو چکی ہوتی کہ وہ ہر بحث میں سیکھنے کی بجائے سکھانے پر زیادہ زور لگاتا ہے کیونکہ اس سے اسے برتری کا احساس ہوتا ہے۔ اس طرح وہ جسمانی طور پر بڑا ہونے کے باوجود شعوری طور پر بچہ ہی رہتاہے۔

لیکن کچھ لوگ شعوری طور پر بھی بڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یہ سمجھ جاتے ہیں کہ جو ہم نہیں جانتے وہ لامحدود ہے اور لامحدود کے مقابلے میں ہم جتنا بھی جان لیں وہ نہ ہونے کے برابر ہی ہوگا۔

نوٹ:- صاحبِ تحریر کو بھی بچوں میں ہی شمار کیا جائے۔
خوب۔
بقول اقبال:
کچھ جو سنتا ہوں تو اَوروں کو سُنانے کے لیے
دیکھتا ہوں کچھ تو اَوروں کو دِکھانے کے لیے
 

سیما علی

لائبریرین
لیکن کچھ لوگ شعوری طور پر بھی بڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یہ سمجھ جاتے ہیں کہ جو ہم نہیں جانتے وہ لامحدود ہے اور لامحدود کے مقابلے میں ہم جتنا بھی جان لیں وہ نہ ہونے کے برابر ہی ہوگا۔

نوٹ:- صاحبِ تحریر کو بھی بچوں میں ہی شمار کیا جائے۔
بچپن کی عادات انسان میں بیحد پختہ ہوتی جاتیں ہیں
بچپن تو بچپن ہوتا ہے بچہ جو سیکھتا ہے وہ اپنے بڑوں کو آکر بتانا اپنا فرض سمجھتا ہے اور بچوں سے اُنکی بات ضرور سن لینا چاہیے کیونکہ جب آپ اُنکی سنی ہوئی یا سیکھی ہوئی بات سنتے ہیں تو اُنکی خوشی دیدنی ہوتی سب سے زیادہ جب آپ کہتے ہیں کہ ہمیں تو یہ بات پہلے پتہ ہی نہ تھی
اکثر ہم میکائیل سے کہتے ہیں
I haven’t heard this before, this’s the first time you are telling me about this, you’re so intelligent at this age I was not ۔
اور یہی بات آپ اپنی عمر سے بڑی لوگوں بات کرنے میں بھی اپناتے ہیں تو اُنکی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔۔۔۔
کیا فرق پڑتا ہے اس سے کہ آپکو یہ بات پہلے سے پتہ تھی یا نہیں جیسے واقعی جب میکا ئیل نے ہمیں یہ بات بتائی تو واقعی ہم نے یہ بات نہیں پڑھی تھی کہ مصر سے زیادہ اہرام ہیں سوڈان میں
Sudan has more ancient pyramids than Egypt
تو وہ اتنا خوش ہوئے کہ ہم اُنکی وہ کیفیت الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے ماشاء اللہ اتنی سی عمر میں اتنی کتابیں پڑھتے جو اُنکی عمر کے کم بچے پڑھتے برٹش کونسل لائبریری
جاکر کتابیں رضا کی طرح لاتے ہیں ۔۔
 
بچپن کی عادات انسان میں بیحد پختہ ہوتی جاتیں ہیں
بچپن تو بچپن ہوتا ہے بچہ جو سیکھتا ہے وہ اپنے بڑوں کو آکر بتانا اپنا فرض سمجھتا ہے اور بچوں سے اُنکی بات ضرور سن لینا چاہیے کیونکہ جب آپ اُنکی سنی ہوئی یا سیکھی ہوئی بات سنتے ہیں تو اُنکی خوشی دیدنی ہوتی سب سے زیادہ جب آپ کہتے ہیں کہ ہمیں تو یہ بات پہلے پتہ ہی نہ تھی
اکثر ہم میکائیل سے کہتے ہیں
I haven’t heard this before, this’s the first time you are telling me about this, you’re so intelligent at this age I was not ۔
اور یہی بات آپ اپنی عمر سے بڑی لوگوں بات کرنے میں بھی اپناتے ہیں تو اُنکی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔۔۔۔
کیا فرق پڑتا ہے اس سے کہ آپکو یہ بات پہلے سے پتہ تھی یا نہیں جیسے واقعی جب میکا ئیل نے ہمیں یہ بات بتائی تو واقعی ہم نے یہ بات نہیں پڑھی تھی کہ مصر سے زیادہ اہرام ہیں سوڈان میں
Sudan has more ancient pyramids than Egypt
تو وہ اتنا خوش ہوئے کہ ہم اُنکی وہ کیفیت الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے ماشاء اللہ اتنی سی عمر میں اتنی کتابیں پڑھتے جو اُنکی عمر کے کم بچے پڑھتے برٹش کونسل لائبریری
جاکر کتابیں رضا کی طرح لاتے ہیں ۔۔
اللہ تعالٰی میکائیل کو ہمیشہ آپ کی اور اس کے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ آپ کی باتوں سے اس کےلیے آپ کا والہانہ پیار جھلک رہاہے۔ معصوم بچے والدین کے لیے ہمیشہ ہی تسکین کا باعث ہوتے ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
Top