محسن نقوی بچھڑ کے مجھ سے کبھی تونے یہ بھی سوچا ہے

غزل
بچھڑ کے مجھ سے کبھی تونے یہ بھی سوچا ہے
کہ ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ہے

یہ ختم وصل کا لمحہ ہے ، رائگاں نہ سمجھ
کہ اس کے بعد وہی دوریوں کا صحرا ہے

کچھ اور دیر نہ جھڑنا اداسیوں کے شجر
کسے خبر کہ ترے سائے میں کون بیٹھا ہے

یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے

میں کس طرح تجھے دیکھوں ، نظر جھجکتی ہے
ترا بدن ہے یہ کہ آئینوں کا دریا ہے ؟

میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہوا سا رہتا ہوں
کبھی کبھی تونے مجھے ٹھیک سمجھا ہے

مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب
میں نے شاخ سے گل کو بچھڑتے دیکھا ہے

میں مسکرا بھی پڑا ہوں تو کیوں خفا ہیں لوگ
کہ پھول ٹوٹی ہوئی قبر پر بھی کھلتا ہے

اسے گنوا کہ میں زندہ ہوں اس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتا ہے

محسن نقوی
 

فاتح

لائبریرین
آج تو ریکارڈ ہی ٹوٹ گئے۔۔۔ ایک ہی غزل میں اتنی اغلاط:laughing:
بچھڑ کے مجھ سے کبھی تونے یہ بھی سوچا ہے
کہ ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ہے
ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ہے
کچھ اور دیر نہ جھڑنا اداسیوں کے شجر
کسے خبر کہ ترے سائے میں کون بیٹھا ہے
کسے خبر ترے سائے میں کون بیٹھا ہے
میں کس طرح تجھے دیکھوں ، نظر جھجکتی ہے
ترا بدن ہے یہ کہ آئینوں کا دریا ہے ؟
ترا بدن ہے کہ یہ آئنوں کا دریا ہے
میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہوا سا رہتا ہوں
کبھی کبھی تونے مجھے ٹھیک سمجھا ہے
کبھی کبھی تو مجھے تو نے ٹھیک سمجھا ہے
مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب
--میں نے شاخ سے گل کو بچھڑتے دیکھا ہے
کہ میں نے شاخِ سے گل کو بچھڑتے دیکھا ہے

ایک اور شعر بھی ہے اس غزل کا:
کچھ اس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق ترا​
یہ زہر دل میں اتر کر ہی راس آتا ہے​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یہ غزل کلیاتِ محسن میں برگِ صحرا میں صفحہ نمبر 228 پر موجود ہے۔
میں دوبارہ پوسٹ کر دیتا ہوں تاکہ تمام کمی بیشیاں دور ہو جائیں۔

بچھڑ کے مجھ سے کبھی تُو نے یہ بھی سوچا ہے
اَدھورا چاند بھی کتنا اُداس لگتا ہے
یہ ختم وصل کا لمحہ ہے ، رائیگاں نہ سمجھ
کہ اِس کے بعد وہی دُوریوں کا صحرا ہے
کچھ اور دیر نہ جھڑنا اُداسیوں کے شجر
کسے خبر ترے سائے میں کون بیٹھا ہے؟
یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اُس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مُسکرا کے ملتا ہے
میں کس طرح تجھے دیکھوں ، نظر جھجکتی ہے
تِرا بدن ہے کہ یہ آئینوں کا دریا ہے ؟
کچھ اِس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق تِرا
یہ زہر دل میں اُتر کر ہی راس آتا ہے
میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہُوا سا رہتا ہوں
کبھی کبھی تونے مجھے تُو نے ٹھیک سمجھا ہے
مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب
میں نے شاخ سے گُل کو بچھڑتے دیکھا ہے
میں مُسکرا بھی پڑا ہُوں تو کیوں خفا ہیں یہ لوگ
کہ پھول ٹوٹی ہُوئی قبر پر بھی کِھلتا ہے
اُسے گنوا کہ مَیں زندہ ہُوں اِس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہَوا میں چراغ جلتا ہے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میری پسندیدہ غزل۔
بقولِ محفل کے سب سے چھوٹے ایکٹو ممبر
سادہ سی بات ہے سادہ سے لفظوں میں

محسن نقوی نے کمال کر دیا ہے۔
 

بھلکڑ

لائبریرین
ایک بار پھر لاجواب۔۔۔۔غزل محسن نقوی کی۔۔۔۔۔
یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اُس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مُسکرا کے ملتا ہے
اور جیسے منے نے کہا کہ محسن نقوی نے کمال کر دیا۔۔۔۔۔
 
Top