سید عمران

محفلین
حماقتیں سبھی کرتے ہیں، بچے بھی بڑے بھی۔ یہ اور بات ہے عمر کے ہر دور میں ان کے انداز بدل جاتے ہیں، لیکن کہلاتی حماقتیں ہی ہیں۔۔۔
بچپن کی حماقتیں یادوں کی پھلجھڑیوں کی ننھی چنگاریوں کی مانند ہوتی ہیں، تصور میں ہر دم پھوٹتی رہتی ہیں، ہاتھ لگاؤ تو ہاتھ نہیں آتیں اور پیچھا چھڑاؤ تو جان کو آجاتی ہیں!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اُن دنوں کا ذکر ہے جب ہمارے دودھ کے دانت جھڑ گئے تھے۔ تب والدہ کی بہن خالہ ہوتی تھیں۔ آج کل آنٹی کہلاتی ہیں۔ ارشد، نعمت خالہ کے پہلوٹے تھے۔ ہمارے خالہ زاد بھائی تھے۔ اب بھی ہیں۔ ان کے علم سے مرعوب ہوکر سب انہیں فلسفی کہتے تھے۔ فہد ان سے چھوٹے تھے۔ چھوٹے ہونے کی وجہ بتاتے ہیں کہ دیر سے پیدا ہوئے۔ ایک دن ہم نے ان کے نام کا مطلب پوچھا۔ تب سے چیتا مشہور ہوگئے۔ گڑیا کو پیدا ہونے میں مزید دیر لگی لیکن بالآخر پیدا ہو ہی گئیں۔ ایک ہم، تین وہ۔ چار کی چوکڑی جہاں جاتی اودھم مچاتی۔ ممانی اپنے گھر بلانے سے جھجکتی تھیں۔ لیکن ہم پرواہ کیے بغیر پہنچ جاتے۔ ان کے باغ میں جاکر خوب شور مچاتے۔ تربوز کی بیل جڑوں سے کھودتے۔ فلسفی کا فلسفہ تھا کہ اس طرح بیل کو سانس لینے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ فالسے کے درخت کو ہلا ہلا کر ادھ موا کردیتے۔ فلسفی کہتا فالسے کو ہاتھ سے توڑنے پر نئے فالسے نہیں نکلتے۔ سب اس کی بات مان لیتے۔ درخت سے فالسوں سے زیادہ پتے گرتے۔ بقول فلسفی زیادہ پتے گرنا درخت کی صحت کے لیے مفید ہے۔ مگر ممانی کی صحت باغ کی صفائی کے دوران خراب ہوجاتی۔

ہم نے مزید دو دن رکنے کا پروگرام بنالیا۔ ممانی کی صحت مزید خراب ہوگئی۔

باہر خوب بارش ہورہی تھی۔ سب باہر آگئے۔ چیتے کے ہاتھ میں آصف کی کاپیوں کا ڈھیر تھا۔ہم نے کھول کر دیکھا سب بھری ہوئی تھیں۔
’’سادہ کاپیوں کو چھوڑ دیا، ضائع ہوجائیں گی۔ ‘‘چیتے نے اطمینان دلایا۔
سب نے اطمینان سے کاغذ پھاڑ کر کشتیاں بنائیں اور صاف ستھری موزائیک کی بنی نالیوں میں چلانے لگے۔ یہ نالیاں صرف بارش میں بہتی تھیں۔ تبھی گڑیا ہاتھ میں بڑی سے کشتی اٹھا لائی:
’’ آصف کے ماموں دبئی سے لائے تھے۔ بیٹری سے چلتی ہے۔‘‘
سب کاغذ کی کشتیاں بھول گئے۔ بیٹری سے چلنے والی کشتی کا شور سن کر ممانی بوکھلائی ہوئی آئیں۔ بچے کی امپورٹیڈ کشتی ہمارے ہاتھوں بگڑتے دیکھ کر بگڑ گئیں:
’’بہت مہنگی ہے۔ بارش میں خراب ہوجائے گی۔‘‘
’’بارش روز روز نہیں ہوتی۔‘‘ گڑیا نے ممانی کی باتوں پر دھیان نہیں دیا۔
’’ابھی اسے خراب ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔‘‘ فلسفی منمنایا۔
’’خراب ہونے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ ممانی کچھ اور بگڑ گئیں۔
‘‘ماموں نئی لے آئیں گے۔‘‘ ہماری پیش گوئی تھی۔
ممانی موڈ خراب کرکے چلی گئیں۔

اندر آصف زور زور سے بول رہا تھا: ’’میری کاپیاں نہیں مل رہیں۔ ہوم ورک کرکے یہیں رکھی تھیں۔‘‘
سب نے چیتے کو گھورا۔ چیتا خاموشی سے باقی ماندہ کاپیاں واپس رکھ آیا۔ اس روز کاپی کے صفحے پھٹنے کا کسی کو علم نہیں ہوا۔

باہر بارش تیزی سے برسنے لگی۔ پانی زور زور سے بہہ رہا تھا۔ کشتی کی رفتار مزید تیز ہوگئی!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
شام کی چائے بابا نے بنائی۔ بابا خانساماں تھے۔ ممانی ابھی تک بیڈ روم میں تھیں۔ موڈ صحیح نہیں ہوا تھا۔ گڑیا نے ٹرالی میں رکھا جالی سے ڈھکا کیک اٹھا لیا۔
’’بے بی نے بنایا ہے۔‘‘ بابا نے اطلاع دی۔
’’مہمان روز روز نہیں آتے۔ کیک پھر بن سکتا ہے۔‘‘ گڑیا نے کیک کا پیس منہ میں ٹھونسا۔ کیک مزے کا تھا۔ بعد میں پتا چلا بے بی نے پہلی دفعہ بنایا ہے۔ بے بی کے ہاتھ کی صفائی کے سب قائل ہوگئے!!!

صبح ناشتے کے بعد از سر نو باغ کا معائنہ شروع ہوا۔ چیتا ہاتھوں میں بیجوں کے چھوٹے چھوٹے لفافے اٹھا لایا:
’’فریج پر رکھے تھے۔‘‘ نئی اطلاع دی۔
سب نے دل جمعی سے لفافے پھاڑے۔ کھرپی سے جگہ جگہ کیاری کھودی۔ ہر لفافے کے بیج نئے گڑھے میں دبائے۔ گڑھے میں مٹی ڈالی۔ فلسفی گھسیٹ کر پانی کا پائپ لے آیا۔ سب نے خوب پانی بہایا۔ کل کی بارش سے زمین گیلی تھی۔ کیاری پانی سے لبالب بھرگئی۔ اتنے میں باغی بھاگا بھاگا آیا۔ سب اسے مالی کہتے تھے لیکن فلسفی کا کہنا تھا باغ کی نسبت سے اسے باغی ہونا چاہیے۔ بیجوں کے پھٹے ہوئے لفافے اور کیاری میں بھرا پانی دیکھ کر باغی بولا: ’’بابا لوگو یہ بیج اگلے موسم کی سبزیوں اور پھولوں کے تھے۔ بیگم صاحبہ ناراض ہوں گی۔‘‘
’’انہیں اگلے موسم سے پہلے پانی نہ دیں۔ یہ زمین میں محفوظ رہیں گے۔‘‘ فلسفی کو علم نباتات پر بھی کافی معلومات تھیں۔

رات کو باہر سناٹا اور خنکی تھی۔ اندر موسم گرم تھا۔ سب مونوپلی کھیلنے لگے۔ گڑیا پانچواں کھلاڑی تھی۔ آصف نے زبردستی بینک کا کیشیر بنادیا۔ اس نے بھی خوب بدلے لیے۔ بینک سے پیسے چراتی اور نظر بچا کر ہماری مٹھیوں میں دبادیتی۔ آصف کو آخر تک اپنے کنگال اور ہمارے مالا مال ہونے کا پتا نہ چل سکا۔
مونوپلی کھیلتے بہت دیر ہوگئی تھی۔ سب کو بھوک لگنے لگی۔
’’میں نے فریج میں بہت ساری چاکلیٹ دیکھی ہیں۔‘‘ گڑیا کی اطلاع پر آصف بپھر گیا۔
’’ماموں دبئی سے لائے ہیں۔ کسی نے بھی نہیں چکھیں۔ ابھی کوئی نہیں کھائے گا۔‘‘
سب خاموش ہوگئے۔ آصف سونے چلا گیا۔ ممانی نے آکر کمرے کی لائٹ بند کردی۔ تھوڑی دیر بعد گڑیا اٹھی:
’’ماموں سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔اور چاکلیٹ بھی۔‘‘ سب نے اتفاق کیا۔
کچن میں اندھیرا تھا لیکن فریج کی لائٹ میں سامنے رکھی چاکلیٹ صاف نظر آرہی تھیں۔ فریج کا دروازہ کھلا رکھ کر پیٹ بھر کے چاکلیٹ کھائیں۔ پلٹتے وقت دیکھا بالکل سامنے ممانی کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ وہ سامنے بیڈ پر سو رہی تھیں۔ شاید ہمیں دیکھ لیا ہو۔ سب کو خدشہ لاحق ہوا۔
’’ممانی جاگ رہی تھیں۔ فریج کی روشنی میں ان کی آنکھیں چمکتی دِکھیں۔‘‘ چیتا خوفزدہ تھا۔
’’بلی ہوگی۔‘‘ گڑیا نے تسلی دی۔
’’بستر پر؟‘‘
’’زیادہ نہ سوچو۔ ورنہ وہم سچا ہوجائے گا۔‘‘ فلسفی نے کہا۔ سب نے سوچنا چھوڑ دیا۔ وہم سچا نہ ہوا۔ صبح ممانی نے کوئی باز پرس نہ کی۔ مگر آصف شک میں تھا۔ سارا دن عجیب نظروں سے دیکھتا رہا۔ کسی نے پرواہ نہ کی۔ فسلفی کا کہنا تھا جس بات کی جتنی پرواہ کروگے اُتنا پریشان رہوگے۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
نعمت خالہ کچن میں تھیں۔ سب چھت پر آگئے۔ فلسفی چھوٹی سی دیوار پھلانگ کر برابر والوں کی چھت پر چلا گیا۔ وہاں کارٹنوں کا انبار تھا۔ تھوڑی دیر بعد فلسفی ہاتھ میں شیشے کی چھوٹی سی بوتل تھامے آیا:
’’ اس میں زہر ہے۔‘‘
’’تمہیں کیسے پتا؟‘‘
’’انگریزی میں پوائزن لکھا ہے۔‘‘انگریزی دانی کا رعب جھاڑا۔
’’ اسے کس پر آزمائیں؟‘‘سب بے چین ہوگئے۔
’’کتے کو کھلا کر دیکھتے ہیں۔‘‘چیتے نے تجویز دی۔
سب نیچے آگئے۔ لان میں کتا اونگھ رہا تھا۔ اس کی پلیٹ میں دودھ ڈالا۔ اوپر سے زہر کی آدھی بوتل انڈیل دی۔ کتے نے دودھ سونگھا اور چٹ کرگیا۔
’’ایک منٹ میں زہر کا اثر ہوجائے گا۔‘‘ فلسفی کے لہجے میں وثوق تھا۔
سب کئی منٹ بیٹھے رہے لیکن کتے کو کچھ نہیں ہوا۔
’’ثابت ہوا آج کل زہر بھی نقلی آرہا ہے۔‘‘ فلسفی نے اعلان کیا۔ سب نے سر ہلادئیے۔
زہر کی آدھی بچی ہوئی شیشی واش بیسن میں انڈیل دی گئی!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین

فلسفی

محفلین
مفتی صاحب کی یہ تحریر پڑھنے کے بعد "فلسفی" یعنی میں "فلسفے" سے تائب ہو کر نام بدلنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں۔
 
Top