(بچوں کی کہانیاں)

سیما علی

لائبریرین
IMG-0217.webp
مصطفیٰ کے پودے
شیخ محمد مصطفیٰ

(یہ کہانی شیخ محمد مصطفیٰ نے تحریر کی
یہ ساتویں جماعت کے طالبعلم ہیں)

ارے مصطفیٰ! پودوں کو پانی تو دے دو۔"

امی نے مجھے یاد دلایا۔

آج میں پانی دینا بھول گیا تھا ۔ میرے گھر میں ایلوویرا اور چھوٹی موٹی سبزیاں گملوں میں لگی ہوئی ہیں۔

"بھئ! ماہین آپا سے کہہ دیں۔ کل میں نے دیا تھا۔"

میں نے جواب دیتے ہاتھ ہلایا ۔

"دیکھو تمھیں نیکی کمانے کا موقع ملا ہے۔ ضائع مت کرو ۔"

امی نے کہا تو مجھے اٹھنا ہی پڑا۔ آپا مجھے دیکھ کر ہنس رہی تھیں۔ میں نے چِڑ کر منھ بنایا اور پانی دینے کے لیےچلا گیا۔
(میں ایک اپارٹمنٹ میں رہتا ہوں۔ میرے پودے کھڑکی پر لگی گرل پر رکھے ہوئے ہیں ۔)
 

سیما علی

لائبریرین

IMG-0218.jpg

ایک بھوکا امیر آدمی​

ترجمہ ۔اقرا توحید
واٹسن نامی ایک لکھ پتی سوداگر ایک دن صبح کے وقت کہیں جانے کو تیار تھا۔ نوکر ناشتے کی میز لگائے منتظر کھڑے تھے کہ اتنے میں ایک بھوکے بوڑھے نے آکر سوال کیا۔


سوداگر صاحب ! تین دن سے بھوکا ہوں۔ کچھ کھانا ہو تو خدا کی راہ میں دلوا دو تاکہ میں بھی پیٹ کے دوزخ کو بھر لوں۔

واٹسن نے نہایت کراہت سے کہا ۔ احمق بوڑھے! یہ نانبائی کی دکان نہیں۔


بوڑھے نے کہا کچھ پیسے ہی دے دیجئے کہ بازار سے روٹی خرید لوں۔

واٹسن بولا۔ بس اب تقریر بازی ختم کر کے فوراً دفعہ ہو جاﺅ ورنہ ابھی کتا مزاج پرسی کرے گا۔

غریب خاموش ہو کر نہایت بے دلی کے ساتھ چلا گیا لیکن واٹسن جوں ہی میز پر بیٹھا اسے معلوم ہوا کہ کسی بے احتیاطی سے چائے مکھن اور میوے کو مٹی کا تیل لگ گیا ہے اور سب چیزوں سے مٹی کے تیل کی بو آرہی ہے۔

یہ کام کی جلدی میں فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور نوکر کو ایک بجے کھانالانے کی تاکید کر کے چلا گیا۔ لیکن تین بج گئے مگر نوکر نہ آیا۔ واٹسن بھوک سے بے تاب ہو رہا تھا کہ اس کے ایک معزز دوست نے آکر کہا کہ آپ کا نوکر ایک بجے کھانا لے کر آرہا تھا۔ اتفاقاً میری موٹر سے ٹکر لگ گئی کھانا تو برتنوں سمیت گرا ہی تھا۔ افسوس نوکر کو بھی سخت چوٹ آئی۔ جسے میں اب ہسپتال پہنچا کر اپنے سامنے مرہم پٹی کرا آیا ہوں۔ ڈاکٹر کہتا ہے نوکر چند روز میں اچھا ہو جائے گا مگر میں اس بدقسمتی کے لیے معافی مانگتا ہوں۔

واٹسن دوست کو رخصت کر کے مکان پر آیااور باورچی کو رات کا کھانا معمول سے قدرے پہلے تیار کرنے کا حکم دیا مگر باورچی نے رات کو سر جھکا کر عرض کی۔ میں کھانا پکاکر ایک معمولی کام کے لیے کمرے سے باہر نکلا تھا۔ واپس آکر جو دیکھتا ہوں تو آپ کے کتے نے سب کھانا خراب کر دیا ہے۔

صاحب سخت جھنجھلائے۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا ، پھل جو منگوائے تو وہ بھی بدبودار معلوم ہوئے۔ ناچار بھوکا سونا پڑا۔ دوسرے دن صبح اٹھ کر چائے تیار ہوئی تو اس کی بھی وہی حالت پائی اور ایک بجے کا کھانا بھی کسی وجہ سے یونہی برباد ہو گیا۔

آخر ان باتوں کے پے در پے واقع ہونے سے واٹسن کو خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہ اسی بوڑھے کی بددعا کا نتیجہ ہے۔ ناچار وہ اپنے ایک دوست کے ہاں کھانا کھانے چلا گیا۔ لیکن جونہی دوست کے ساتھ کھانے کو بیٹھا۔ میز پر کھانا رکھتے ہوئے نوکر کا پاﺅں پھسل گیا۔ میز واٹسن پر آپڑی اور یہ اس دوست کی میم صاحبہ پر جا گرا۔ اس کے گرنے سے انہیں بھی چوٹ آئی اور کھانا بھی سب کا سب تہ و بالا ہو گیا۔ ناچار واٹسن شرمندہ ہو کر یہ کہتا ہوا اٹھ آیا کہ ”میں اپنی بدنصیبی میں تمہیں ناحق شریک کرنا نہیں چاہتا۔

اب یہ دوسری رات تھی جو اسے فاقے سے بسر کرنی پڑی۔ تیسری صبح بھوک کے مارے اس کی حالت سخت ابتر ہو رہی تھی اور یہ حیران بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں کہ اتنے میں اتفاقاً پھر اسی بوڑھے فقیر کا ادھر سے گزر ہوا۔ واٹسن نے دیکھتے ہی آواز دے کر اسے پاس بلایا اور اپنا سب حال کہہ سنایا۔

اس نے کہا صاحب! بے شک تمہاری بے رخی دیکھ کر میں نے پرسوں خدا سے دعا مانگی تھی کہ الٰہی! تیرا یہ دولت مند بندہ اس فاقے کی مصیبت کو بالکل نہیں جانتا جو تیرے بھوکے بندوں پر گزرتی ہے۔ اس کے بعد مجھے تو فوراً ایک جگہ سے کچھ رقم مل گئی مگر ادھر خدا نے تمہیں بھی اس بے پروائی کا مزہ چکھا دیا۔ خیر اب تم چل کر میرے ساتھ کھانا کھاﺅ۔ شاید خدا تمہارا قصور معاف کر دے۔
بوڑھے کی بات سنتے ہی لکھ پتی بھوکا فوراً ساتھ ہو لیا اور اس کی پرانی فقیرانہ جھونپڑی میں جا کر خوب پیٹ بھر کر بسکٹ کھائے اور چائے پینے کے بعد عہد کر لیا کہ آئندہ میں کسی فقیر کا سوال رد نہیں کروں گا۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین

بچوں کی سائینسی کہانی ۔۔۔۔۔۔​

جاندار پیڑ​

حُسین قریشی
IMG-0219.jpg

کافی دنوں بعد احمد، فرزانہ، شاکر اور طاہرہ ، آج گاندھی گارڈن میں پکنک کے لئے آئے تھے۔ گارڈن کا نظارہ دلکش و پُر کشش تھا۔ کھیل کے میدان نے سبز چادر اوڑھ رکھی تھی۔ نرم نرم گھاس تلوؤں کو قالین کا احساس دے رہی تھی۔ بچوں کے لئے کھیلنے کے مختلف لوازمات جسے جھولیں ، سلاڈنگ ، گول چکر والی سیڑیاں اور بیلینس پہئیے تھے۔ بچے اس پر خوب مزے لے لے کر خوشی سے کھیلتے رہتے تھے۔ گارڈن، الگ الگ رنگ و نسل کے پھولوں و پودوں سے مزین تھا۔

احمد کو فٹبال کھیلنا بہت پسند تھا۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ فٹبال کھیل رہا تھا۔ فرزانہ نے زور دار کِک لگائی جس سے فٹبال دور ایک چھوٹے پیڑ سے جا ٹکرایا۔ فرزانہ دوڑتی ہوئی ، ۔۔۔۔۔۔۔ فٹبال لینے اس پیڑ کے قریب پہنچی۔ اس نے فٹبال کو اٹھایا اور واپس جانے لگی تبھی۔۔۔۔!!!!! ۔۔۔۔۔۔۔

اسے کسی کے رونے کی آواز سنائی دی۔ “ک ۔۔۔۔۔ کک۔۔۔۔۔۔۔ کون ۔۔۔۔۔ ہے وہاں ؟ ” کیوں رو رہے ہو؟ ” فرزانہ نے گھبراتے ہوئے سوال پوچھا۔ وہ اِدھر اُدھر نظریں دوڑا رہی تھی۔ مگراسے کوئی نظر نہیں آیا۔ البتہ رونے کی آواز لگاتارآ رہی تھی۔ احمد نے ، ” فرزانہ کو پکارا، کیا ہوا؟ کیا کر رہی ہو؟ چلو جلدی ” فرزانہ سے جواب نہ ملنے پر وہ خود دوڑ کر اسکے پاس پہنچ گیا۔ پہنچتے ہی احمد کو بھی رونے کی آواز سنائی دی۔ اسنے فرزانہ سے پوچھا “کون رو رہا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔‌۔‌ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں رو رہا ہے؟” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرزانہ نے…. …… گھبربہٹ کے عالم میں کہا …. . میں بھی رونے والے کو تلاش کر رہی ہوں۔

مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظر نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “میں تمھارے سامنے ہی ہوں۔” پھر اِس آواز نے دونوں کو چونکا دیا۔ احمد نے چھوٹے پیڑ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ لڑکھڑاتی آواز میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہا فرزانہ ۔۔۔۔۔۔۔ اِس پیڑ سے آواز آ رہی ہے۔ کیا پیڑ سے آواز ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیسے ۔۔۔۔۔۔ تم غور سے سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرزانہ سے احمد نے کہا۔

” ارے!! ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم صحیح کہہ رہے ہو۔ آوازاسی پیڑ کی ہے”……… فرزانہ نے تعجب سے جواب دیا۔ تم رو کیوں رہے ہو؟ فرزانہ اور احمد نے پیڑ سے ایک آواز میں پوچھا۔ چھوٹے پیڑ نے جواب دیا۔ “میرے تنے پر کسی نے بہت زور سے پتھر مارا ہے۔ جس سے میری ایک شاخ ٹوٹ چکی ہے۔ اِسی کے درد میں مَیں رو رہا ہوں۔ جیسے تمھارے جسم کے حصّے پر لگنے سے درد ہوتا ہے۔ فرزانہ نے کہا “ہمیں معاف کر دیجئے۔ ہم فٹبال کھیل رہی تھے اسی دوران گیند تمھیں لگی ہے۔”

گفتگو کے درمیان شاکر اور طاہرہ بھی دوڑ کر آگئے۔ احمد نے جسونتی سے پوچھا، تمھیں درد کیسے ہو سکتا ہے۔ تم تو بے جان ہو” طاہرہ نے کہا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ایسا۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ہے۔ نباتات بھی جاندار ہوتے ہیں۔ وہ بھی چھوٹے سے بڑے ہوتے ہیں۔ انکے کی جیسے دوسرے پودے پیدا کرتے ہیں۔ لیکن یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت نہیں کرتے ہیں نا!!! ۔۔۔۔۔۔۔ شاکر نے پوچھا۔

جسونتی کے پیڑ نے کہا، ہاں !!!…..”ہم اپنی جگہ پر ہی حرکات کرتے رہتے ہیں۔ خود سے جگہ منتقل نہیں کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم میں بھی جان ہوتی ہے۔ اور تمھاری طرح ہی ہمارے جسم کے اعضاء ہوتے ہیں۔ مگر ہمارا درد کوئی نہیں سنتا ہیں۔ البتہ ہر کوئی ہم سے مستفید ہوتاہے۔” فرزانہ نے پوچھا، تمھارے جسم کے اعضاء کون کون سے ہوتے ہیں۔” احمد نے کہا ہاں!!! ہمیں بتاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔۔۔۔


” میرے پیر زمین کے اندر دھنسے ہوئے ہیں۔ اسے “جڑ (Root) کہتے ہیں۔ جو جھاڑو جیسے نوکیلے کھردرے ریشے ہوتے ہیں۔ تمھارا ڈالا ہوا یا بارش کا پانی ہم اسی جڑوں سے پورے جسم میں پہنچاتے ہیں۔ اس کے ساتھ زمین سے نمکیات بھی مِلا لیتے ہیں۔ جس طرح خون تمھا رے جسم میں گردش کرتا رہتا ہے۔ پانی (Water) ، سورج کی روشنی (Sunlight) اور ہوا (Air) ہماری غذا ہے۔ جڑ ہم پیڑ پودوں اور درختوں نہایت اہم عضو ہے۔ یہ ۔۔۔۔۔۔ جو موٹا لمبا حصہ تم ۔۔۔۔۔۔۔ دیکھ رہے ہو۔۔۔۔۔۔ نا اسے ” تنہ ” (Trunk) کہتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے، تمہاری ریڈ کی ہڈی کی مانند ہوتا ہے۔ اسی سے ہم شاخوں (Branches) تک پانی و نمکیات پہنچاتے ہیں۔ اسی کے سہارے ہم کھڑے ہوئے ہیں۔

تنے سے نکلنے والے باریک لمبے لکڑی کے ٹکڑوں کو “شاخیں” کہتے ہیں۔ جس پر ہمارے جسم کے اعضاء پتے (Leafs) ، پھول (Flowers) اور پھل (Fruits) لگتے ہیں۔ پتے تمام مخلوق کو ہَوا دیتے ہیں۔ یہ ہوا جانداروں کی زندگی ہے۔ تم ہر وقت ناک یا منہ سے ہوا جسم کے اندر جو ہوا لیتے ہو ۔۔۔۔ نا ۔۔۔۔۔ اسے آکسیجن ( Oxygen (O2 کہتے ہیں۔ اور جو ہوا تم باہر چھوڑتے ہو اسے ” کاربن ڈائی آکسائیڈ ” (CO2) کہتے ہیں۔ ہم پیڑ ، پودے ، اور درخت بارش برسانے میں کافی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ پوری دنیا کو ہم پھول ، پھل اور دوائیاں مہیا کرتے ہیں۔ چاروں بچے پوری توجہ کے ساتھ پودے کی باتیں سن رہے تھے‌۔ احمد نے کہا “ہاں !! ہمیں یہ معلوم ہے۔” پھر بھی تم پودوں ، پیڑ اور درختوں کو توڑتے ہو۔ فوراً جسونتی کے پیڑ نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ اگر تم ماحول کو صحت مند رکھنا چاہتے ہو۔ اور خود بھی تندرستی سے زندگی گزارنا چاہتے ہو تو ہماری خفاظت کرو۔ پودے زیادہ سے زیادہ لگاؤں اور اسکی دیکھبھال بھی کرو۔ سمجھے نا۔۔۔۔۔۔۔۔؟

فرزانہ نے پیڑ کو گلے لگا کر ‘سوری’ کہا۔ احمد نے بولا، “تم نے ہمیں پیڑ پودوں کے بارے میں مفید معلومات دی ہے۔ ہم سب تمہارا شکریہ ادا کرتے ہیں۔” شاکرنے شاخ کو اپنے گالوں سے لگا تے ہوئے کہا، “میرے دوست ، اب ہم پیڑ پودوں کی حفاظت بھی کرینگے اور نئے پودے بھی لگائینگے۔” اور ہاں !!!!!! میں یہ تمام معلوماتی باتیں اپنے سبھی دوستوں کو بتاؤنگا۔ پیڑ نے کہا بہت خوب ۔۔۔۔ اب جاؤں کھیلو کودو اور جلد گھر جاؤں۔ تمام بچے خوشی خوشی میدان پر جاتے ہیں۔
 
Top