ام اویس
محفلین
”ڈیڈ! مجھے پانچ ڈالر چاہیے۔“ سکپ ایسٹس گھر کے لان میں اپنے دوست محمد المصری کے ساتھ بیٹھا کاروبار سے متعلق ایک اہم مسئلہ پر گفتگو کر رہا تھا۔ عین اسی وقت اس کی دس سالہ بیٹی ماریا نے اس سے آ کر کہا:
”آپ اس ماہ کا جیب خرچ لے چکی ہیں۔“ اس نے نرمی سے جواب دیا:
”ڈیڈ پلیز ! میں وہ خرچ کر چکی ہوں ، مجھے ایک خاص چیز خریدنے کے لیے صرف پانچ ڈالر درکار ہیں۔“ ماریا نے اصرار کیا
”نہیں یہ اصول کے خلاف ہے ، ہم طے کر چکے ہیں کہ آپ کو جیب خرچ کے علاوہ مزید پیسے نہیں ملیں گے، آپ کو اپنے پیسے دھیان سے خرچ کرنا چاہیے۔“ سکپ نے نرم مگر حتمی لہجے میں جواب دیا اور محمد کی طرف متوجہ ہوگیا۔
ماریا سر جھکائے کھڑی تھی کہ اچانک محمد اس کی طرف دیکھتے ہوے بولا: ”میں آپ کو پانچ ڈالر ادھار دے سکتا ہوں، شرط یہ ہے کہ آپ مجھے جیب خرچ ملتے ہی واپس کر دیں گی۔“
”ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گی۔“ محمد نے جیب سے پانچ ڈالر کا سکہ نکالا اور اس کے ہاتھ پر رکھ دیا، خوشی سے ماریا کا چہرہ چمکنے لگا۔
سکپ نے حیرانی سے دیکھا لیکن پھرکچھ کہے بغیر بات چیت کی طرف متوجہ ہو گیا۔
ایک ہفتے بعد جب محمد لان میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا سکپ نے دیکھا مریم اسے پانچ ڈالر واپس کر رہی تھی۔ اس نے سوچا پانچ ڈالر، بہت معمولی رقم ہے محمد یہیں رہتا ہے اور اب ہمارا اچھا دوست بن چکا ہے، یقینا وہ کہے گا واپس کرنے کی ضرورت نہیں؛ لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا جب محمد نے پیسے لے کر جیب میں رکھ لیے اور مسکراتے ہوئے مریم کا شکریہ ادا کیا۔ یہ بات سکپ کے لیے انتہائی عجیب تھی؛ بلکہ اس کے لیے تو محمد المصری کی ہر بات ، ہر عمل ہی عجیب تھا۔ اس نے محمد سے پوچھا؛ ”تم نے پانچ ڈالر واپس کیوں لیے ؟“
اس کا جواب سن کر مزید حیران ہوا جب اس نے کہا: ”یہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، اسی لیے ہم اپنے بچوں کو قرض لینا اور ادا کرنا سکھاتے ہیں۔“
امریکہ سے تعلق رکھنے والا سکپ ایسٹس پیدائشی عیسائی تھا۔ اس کا تعلق مڈویسٹ کے ایک کٹر مذہبی خاندان سے تھا۔ اس کے اباء و اجداد نے اس علاقے میں بے شمار چرچ اور مشنری سکول بنائے تھے۔ اپنی نوعمری میں ہی وہ ہیوسٹن ، ٹیکساس منتقل ہوگیا۔ وہ باقاعدگی سے چرچ جاتا اور عیسائیت کے مختلف فرقوں کی تعلیم حاصل کرتا۔ اسے عیسائیت سے محبت تھی اور وہ اپنے مذہب کے معاملے میں بہت حساس تھا۔ اس کے خیال میں اس دنیا میں صرف عیسائیت ہی امن و سلامتی کا مذہب ہے، اس لیے وہ ہر شخص کوعیسائی بنانا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے ہر جگہ عیسائیت کی تبلیغ کرتا تھا۔ دوسری چیز جس کا اسے بے انتہا شوق تھا وہ موسیقی تھی۔ عیسائیت میں موسیقی کی بہت اہمیت ہے اور عبادت کے وقت باقاعدہ موسیقی کے آلات استعمال کیے جاتے ہیں؛ چنانچہ اپنے اس شوق اور مہارت کی وجہ سے وہ چرچ میں میوزک منسٹر تھا۔
عیسائیت کے فروغ کے علاوہ وہ اپنے باپ سے مل کر کئی قسم کے کاروبار بھی کرتا تھا۔ جن میں ریڈیو ، ٹی وی کے لیے موسیقی کے پروگرام تیار کرنا ، نجی طور پر میوزیکل شو منعقد کرنا، آلاتِ موسیقی کی تربیت دینا، اور انہیں فروخت کرنا اہم کام تھے۔ وہ ہر سال لاکھوں ڈالر کماتے تھے، اس کے علاوہ جو بھی نیا کاروبار شروع ہوتا، دونوں باپ بیٹا اس میں رقم لگانے سے نہ گھبراتے۔ کاروبار کے سلسلے میں اسے ہر طرح کے لوگوں سے ملنا اور سامان خریدنا پڑتا تھا؛ لیکن وہ کبھی کسی مسلمان سے نہیں ملا تھا۔
ایک دن اس کے والد نے کہا انہیں مصر کے ایک شخص سے کاروبار میں شراکت کرنی چاہیے۔ اسے یہ تجویز بہت اچھا لگی۔ ایسا کرنے سے ان کا کاروبار عالمی سطح پر شناخت بنا سکتا تھا؛ لیکن جب اس کے باپ نے بتایا: ”محمد المصری ایک مسلمان نوجوان ہے۔“
سکپ نے فورا جواب دیا:” نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں کسی مسلمان سے ملاقات نہیں کروں گا۔ مسلمان قابلِ بھروسہ نہیں ، وہ دہشت گرد، ہائی جیکر اور کڈ نیپر ہوتے ہیں۔ خدا پر یقین نہیں رکھتے بلکہ صحرا میں موجود ایک سیاہ کمرے کی عبادت کرتے ہیں اور دن میں پانچ وقت زمین کو چومتے ہیں۔“ اس کے لہجے میں حقارت تھی ، وہ مسلمانوں کے متعلق اتنا ہی علم رکھتا تھا۔
اس کے باپ نے اصرار کرتے ہوئے کہا : ”میں اس سے مل چکا ہوں وہ بہت عمدہ اور نفیس آدمی ہے، تم اس سے ایک بار مل لو! “
اسی وقت سکپ ایسٹس کو خیال آیا کیوں نہ میں اسے اپنے مذہب کی دعوت دے کر اپنا ہم مذہب بنا لوں پھر کوئی مسئلہ باقی نہیں رہے گا۔
چنانچہ اس نے اپنے باپ سے کہا:” میں اس سے اپنے طریقے سے ملوں گا۔“
المصری سے ملاقات کے لیے اس نے اتوار کے دن چرچ سے واپسی کا وقت مقرر کیا۔ اس نے عیسائی مبلغوں والا لمبا چوغہ پہنا، ہاتھ میں بائبل تھامی، گلے میں چمکدار صلیب لٹکائی اور سر پر پادریوں والی ٹوپی پہنی جس پر لکھا تھا( jesus is lord) اور انتہائی طمراق سے مکمل پادری کے روپ میں مسلمان نوجوان سے ملاقات کے لیے روانہ ہوا۔ اس کی بیوی اور دونوں بچیاں بھی مکمل مذہبی لباس میں اس کے ہمراہ تھیں، گویا وہ ایک مسلمان کومتاثر کرنے کا پورا اہتمام کرکے چلے تھے۔
جب وہ دفتر پہنچے تو اس کے باپ نے ایک نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان سے ملو یہ محمد المصری ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ اس کا ملاقاتی ایک لمبے عربی لباس میں ملبوس ہوگا، لمبی داڑھی ، لمبے گھنگھریالے بال، سر پر بڑا سا پگڑ باندھے، ماتھے پر بل ڈالے، کمر پر سیاہ نیام باندھے، یا کوٹ کے نیچے بم چھپائے، ذرا سا غصہ آنے پر جھٹ سے تلوار لہرانے لگے گا یا پھر بم نکال کر دھماکا کر دے گا ۔
لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ سادہ لباس میں ملبوس ، ایک عام سا، سیدھا سادا اور نفیس نوجوان تھا، نہ لمبی داڑھی ، نہ توپ، نہ عمامہ ، نہ تلوار اور تو اور اس کے تو سر پر بال بھی بہت کم تھے۔
محمد نہایت گرم جوشی سے مسکراتے ہوئے اٹھا اور سکپ سے ہاتھ ملایا۔ ابتدائی مختصر تعارف کے بعد اسکپ نے اس سے پوچھا:
کیا تم خدا پر یقین رکھتے ہو؟
محمد نے جواب دیا: ہاں
سکپ نے پوچھا: کیا تم آدم اور حوا (علیھما السلام ) کو مانتے ہو؟
محمد نے کہا: ہاں!
اچھی بات ہے۔ سکپ نے دل میں سوچا:
ابراھیم (علیہ السلام) کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے، کیا تم انہیں مانتے ہو اور ان کا اپنے بیٹے کو الله کی راہ میں قربان کرنا تسلیم کرتے ہو؟
ہاں ! محمد نے اثبات میں سر ہلایا۔
اچھا تو موسی علیہ السلام ، ان کے دس احکام اور سرخ سمندر کا پانی روک دینے پر یقین رکھتے ہو؟
ہاں !
بہترین ! سکپ نے دل ہی دل میں کہا:
اور دوسرے پیغمبروں موسی ، داود اور سلیمان (علیھم السلام ) کو بھی مانتے ہو؟
ہاں! محمد نے پھر سر ہلایا:
اس کے خیال کے مطابق اب سب سے مشکل سوال کا وقت آ گیا تھا، اس نے کہا: کیا تم بائبل کو مانتے ہو اور جیسس یعنی عیسٰی ( علیہ السلام ) کو بھی مانتے ہو کہ وہ الله کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔
ہاں !
اور یہ کہ ان کو سولی چڑھایا گیا تھا؟
ہاں !
اور کیا تم ان کے معجزاتی پرندوں کو بھی مانتے ہو؟ ہاں ہاں ! میں مانتا ہوں۔
سکپ ایسٹس نے دل میں سوچا: “ یہ تو اس سے کہیں زیادہ آسان ہے جتنا میں نے خیال کیا تھا، یہ عیسائیت قبول کرنے کے لیے بالکل تیار ہے کیونکہ یہ سب کچھ مانتا ہے۔
لیکن خود سکپ کے لیے یہ ایک دھماکہ دار خبر تھی کہ مسلمان بائبل کو بھی مانتے ہیں اور عیسی علیہ السلام کو بھی اور اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عیسی (علیہ السلام) دوبارہ دنیا میں واپس آئیں گے۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس نے دل میں سوچا:
اسے محمد المصری بہت اچھا لگا، اس کی طرف دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں خود سے شرط لگائی، وہ اس کو ضرور عیسائی بنائے گا۔
محمد نے مسکراتے ہوئے ایسٹس کو دیکھا اور کہا:” کیا اب ہم کاروبار کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟ “
بالاخر کچھ شرائط طے کرنے کے بعد وہ دونوں کاروبار میں شراکت دار بن گئے اور تقریبا ہر روز ان دونوں کی ملاقات ہونے لگی۔ یہاں تک کہ ان میں خوب دوستی ہوگئی۔ اکثر کاروباری دوروں میں بھی وہ اکٹھے سفر کرنے لگے۔ دورانِ سفر وہ ایک دوسرے سے لوگوں کے مختلف عقائد کے متعلق گفتگو کرتے، خدا کے تصور پر بات کرتے ، انسانی تخلیق کا کیا مقصد ہے؟ زندگی سے کیا درکار ہے؟ پیغمبر دنیا میں کیوں آئے اور کیا پیغام لے کر آئے؟ وہ اپنے ذاتی تجربات و احساسات بھی ایک دوسرے کو بتاتے۔ سکپ اچھی طرح جان گیا کہ محمد نفیس ، کم گو اور کسی قدر شرمیلا نوجوان ہے۔ وہ دل ہی دل میں بہت خوش تھا کہ اسے ایک معصوم مسلمان کو عیسائی بنانے کا موقع مل رہا ہے۔
ایک دن اسے معلوم ہوا کہ محمد اپنی عبادت گاہ یعنی مسجد میں قیام پذیر ہے۔ حالانکہ وہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کر رہا تھا۔ سکپ نے یہ سمجھ کر کہ شاید وہ بے گھر ہوگیا ہے اسے اپنے گھر رہنے کی دعوت دی۔ محمد نے انکار کر دیا۔ تبھی سکپ نے یہ سوچ کر کہ شاید یہ مفت میرے ساتھ رہنے پر راضی نہیں اسے پندرہ ڈالر کرایہ ادا کر دینے کا کہا۔ یہ سن کر محمد سوچ میں پڑ گیا، فورا ہی سکپ نے اسے پندرہ ڈالر میں ساتھ کھانے کی سہولت بھی پیش کر دی۔ دراصل وہ اسے عیسائیت کی طرف مائل کرنے کی ہر ممکن کوشش میں تھا۔ آخر اس کے اصرار پر محمد نے یہ پیشکش قبول کر لی اور اُن کے ساتھ رہنے پر آمادہ ہو گیا۔ اسکپ کا بڑا سا گھر شہر کے مضافات میں واقع تھا، جس کے پچھلے صحن میں ایک کمرہ محمد کو دے دیا گیا۔ جہاں وہ رہنے لگا اور رفتہ رفتہ گھر والوں کے ساتھ گُھل مل گیا۔
سکپ ایسٹس محمد المصری پر خاص نظر رکھتا۔ اس کے ہر کام کو غور سے دیکھتا اور اس کی عادات کا مشاہدہ کرتا۔ محمد انتہائی کم گو تھا، ضرورت کے وقت نپی تلی بات کرتا ورنہ خاموش رہتا۔ لین دین کے معاملات میں بہت ایماندار اور اصول پسند تھا، خریدار کے ساتھ انتہائی تحمل سے بات کرتا، چیز کی خوبی اور خامی کھول کر بیان کرتا، ہر ایک سے نرمی اور مہربانی سے پیش آتا اور اپنے بہترین برتاؤ سے اگلے کا دل جیت لیتا تھا۔
ایک دن سکپ اپنے نئے سپر سٹور میں پہنچا جس میں محمد کی شراکت داری تھی تو اس نے دیکھا اس کے سامنے میز پر قیمتی دوائیوں کے بہت سے بنڈل پڑے تھے اور وہ ان کی انتہائی تاریخ دیکھ رہا تھا۔ ان دواؤں کے ایکسپائر ہونے میں پانچ دن رہ گئے تھے، اس نے تمام دوائیں اٹھا کر کوڑے دان میں ڈال دیں۔
کیوں ؟ تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟ سکپ نے حیرت سے پوچھا: اس طرح تو بہت نقصان ہو گا۔
”جب تک یہ دوائیں ہسپتال پہنچیں گی ان کی آخری تاریخ گزر چکی ہو گی، اب انہیں بھیجنا بے کار ہے۔“محمد نے تحمل سے جواب دیا:
سکپ نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا: ”سو واٹ( پھر کیا ہوا ) “
”یہ دھوکا ہے میں ایسا نہیں کر سکتا، اسلام میں اس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ “
وہ شرمندہ ہوگیا اور اس نے دل سے تسلیم کیا، واقعی یہ غلط ہے۔
سکپ کو محمد کی ایک اور عادت نے بہت متاثر کیا۔ پہلے دن سے جونہی نماز کا وقت ہوتا وہ ہر کام چھوڑ کر انتہائی مہذب انداز میں معاف کیجیے کہتا، وضو کرتا اور ایک طرف کپڑا بچھا کر نماز ادا کر لیتا۔ البتہ جمعہ کے دن دو گھنٹے کے لیے غائب ہوجاتا۔ نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد آکر دوبارہ کام کرنے لگتا۔
اتوار کی چھٹی گزار کر سکپ پیر کو سٹور پر موجود تھا جب اس نے دیکھا کہ کھانے کے وقفے کے دوران بھی محمد کام میں مصروف ہے۔ اس نے محمد سے کہا: آؤ لنچ کے لیے چلیں تو اس نے نرمی سے بتایا کہ آج وہ روزے سے ہے۔
تھوڑے عرصے میں ہی اسے معلوم ہوگیا کہ محمد المصری ہر پیر اور جمعرات کے دن روزے سے ہوتا ہے۔ ہفتے کے ان دو دنوں میں وہ کچھ کھاتا پیتا نہیں اور اگر کوئی اسے کھانے کی پیشکش کرے تو نرمی سے انکار کر دیتا ہے۔
سکپ ایسٹس اس کے معمولات کو نہایت دل چسپی سے دیکھتا، اکثر اس سے سوالات کرتا اور مختصر و مدلل جواب سن کر دل ہی دل میں اس سے متاثر ہوتا۔ سو سویٹ ، سو نائس ۔ وہ سوچتا ، اگر یہ شخص عیسائی ہوجائے تو سچ مچ ایک اینجل (فرشتہ) بن جائے۔
رفتہ رفتہ کاروباری گفتگو کے علاوہ سکپ اس سے مذہب کے متعلق بھی بات چیت کرنے لگا۔ کبھی بائبل سے کوئی بات پڑھ کر سنا دیتا، کبھی کوئی واقعہ سنانے لگتا۔ محمد المصری مسکراتے ہوئے سنتا رہتا، اس دوران اگر نماز کا وقت ہوجاتا تو اٹھ کر نماز ادا کر لیتا۔ اس کی ایک اور بات جو سکپ کو بہت عجیب لگتی کہ وہ نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر کچھ مانگتا اور اس کے آنسو بہنے لگتے ۔ سکپ حیرت کے عالم میں چپکے چپکے دیکھتا کہ آخر اسے کیا دکھ ہے جو دعا مانگتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہنے لگتا ہے۔
سکپ ایسٹس اس بات پر بھی حیران ہوتا رہتا کہ محمد المصری نے کبھی اسے اسلام کی دعوت نہیں دی، کبھی اس نے اپنے خدا یا اپنے نبی کے متعلق کُھل کر بات نہیں کی۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
نزہت وسیم
”آپ اس ماہ کا جیب خرچ لے چکی ہیں۔“ اس نے نرمی سے جواب دیا:
”ڈیڈ پلیز ! میں وہ خرچ کر چکی ہوں ، مجھے ایک خاص چیز خریدنے کے لیے صرف پانچ ڈالر درکار ہیں۔“ ماریا نے اصرار کیا
”نہیں یہ اصول کے خلاف ہے ، ہم طے کر چکے ہیں کہ آپ کو جیب خرچ کے علاوہ مزید پیسے نہیں ملیں گے، آپ کو اپنے پیسے دھیان سے خرچ کرنا چاہیے۔“ سکپ نے نرم مگر حتمی لہجے میں جواب دیا اور محمد کی طرف متوجہ ہوگیا۔
ماریا سر جھکائے کھڑی تھی کہ اچانک محمد اس کی طرف دیکھتے ہوے بولا: ”میں آپ کو پانچ ڈالر ادھار دے سکتا ہوں، شرط یہ ہے کہ آپ مجھے جیب خرچ ملتے ہی واپس کر دیں گی۔“
”ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گی۔“ محمد نے جیب سے پانچ ڈالر کا سکہ نکالا اور اس کے ہاتھ پر رکھ دیا، خوشی سے ماریا کا چہرہ چمکنے لگا۔
سکپ نے حیرانی سے دیکھا لیکن پھرکچھ کہے بغیر بات چیت کی طرف متوجہ ہو گیا۔
ایک ہفتے بعد جب محمد لان میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا سکپ نے دیکھا مریم اسے پانچ ڈالر واپس کر رہی تھی۔ اس نے سوچا پانچ ڈالر، بہت معمولی رقم ہے محمد یہیں رہتا ہے اور اب ہمارا اچھا دوست بن چکا ہے، یقینا وہ کہے گا واپس کرنے کی ضرورت نہیں؛ لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا جب محمد نے پیسے لے کر جیب میں رکھ لیے اور مسکراتے ہوئے مریم کا شکریہ ادا کیا۔ یہ بات سکپ کے لیے انتہائی عجیب تھی؛ بلکہ اس کے لیے تو محمد المصری کی ہر بات ، ہر عمل ہی عجیب تھا۔ اس نے محمد سے پوچھا؛ ”تم نے پانچ ڈالر واپس کیوں لیے ؟“
اس کا جواب سن کر مزید حیران ہوا جب اس نے کہا: ”یہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، اسی لیے ہم اپنے بچوں کو قرض لینا اور ادا کرنا سکھاتے ہیں۔“
امریکہ سے تعلق رکھنے والا سکپ ایسٹس پیدائشی عیسائی تھا۔ اس کا تعلق مڈویسٹ کے ایک کٹر مذہبی خاندان سے تھا۔ اس کے اباء و اجداد نے اس علاقے میں بے شمار چرچ اور مشنری سکول بنائے تھے۔ اپنی نوعمری میں ہی وہ ہیوسٹن ، ٹیکساس منتقل ہوگیا۔ وہ باقاعدگی سے چرچ جاتا اور عیسائیت کے مختلف فرقوں کی تعلیم حاصل کرتا۔ اسے عیسائیت سے محبت تھی اور وہ اپنے مذہب کے معاملے میں بہت حساس تھا۔ اس کے خیال میں اس دنیا میں صرف عیسائیت ہی امن و سلامتی کا مذہب ہے، اس لیے وہ ہر شخص کوعیسائی بنانا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے ہر جگہ عیسائیت کی تبلیغ کرتا تھا۔ دوسری چیز جس کا اسے بے انتہا شوق تھا وہ موسیقی تھی۔ عیسائیت میں موسیقی کی بہت اہمیت ہے اور عبادت کے وقت باقاعدہ موسیقی کے آلات استعمال کیے جاتے ہیں؛ چنانچہ اپنے اس شوق اور مہارت کی وجہ سے وہ چرچ میں میوزک منسٹر تھا۔
عیسائیت کے فروغ کے علاوہ وہ اپنے باپ سے مل کر کئی قسم کے کاروبار بھی کرتا تھا۔ جن میں ریڈیو ، ٹی وی کے لیے موسیقی کے پروگرام تیار کرنا ، نجی طور پر میوزیکل شو منعقد کرنا، آلاتِ موسیقی کی تربیت دینا، اور انہیں فروخت کرنا اہم کام تھے۔ وہ ہر سال لاکھوں ڈالر کماتے تھے، اس کے علاوہ جو بھی نیا کاروبار شروع ہوتا، دونوں باپ بیٹا اس میں رقم لگانے سے نہ گھبراتے۔ کاروبار کے سلسلے میں اسے ہر طرح کے لوگوں سے ملنا اور سامان خریدنا پڑتا تھا؛ لیکن وہ کبھی کسی مسلمان سے نہیں ملا تھا۔
ایک دن اس کے والد نے کہا انہیں مصر کے ایک شخص سے کاروبار میں شراکت کرنی چاہیے۔ اسے یہ تجویز بہت اچھا لگی۔ ایسا کرنے سے ان کا کاروبار عالمی سطح پر شناخت بنا سکتا تھا؛ لیکن جب اس کے باپ نے بتایا: ”محمد المصری ایک مسلمان نوجوان ہے۔“
سکپ نے فورا جواب دیا:” نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں کسی مسلمان سے ملاقات نہیں کروں گا۔ مسلمان قابلِ بھروسہ نہیں ، وہ دہشت گرد، ہائی جیکر اور کڈ نیپر ہوتے ہیں۔ خدا پر یقین نہیں رکھتے بلکہ صحرا میں موجود ایک سیاہ کمرے کی عبادت کرتے ہیں اور دن میں پانچ وقت زمین کو چومتے ہیں۔“ اس کے لہجے میں حقارت تھی ، وہ مسلمانوں کے متعلق اتنا ہی علم رکھتا تھا۔
اس کے باپ نے اصرار کرتے ہوئے کہا : ”میں اس سے مل چکا ہوں وہ بہت عمدہ اور نفیس آدمی ہے، تم اس سے ایک بار مل لو! “
اسی وقت سکپ ایسٹس کو خیال آیا کیوں نہ میں اسے اپنے مذہب کی دعوت دے کر اپنا ہم مذہب بنا لوں پھر کوئی مسئلہ باقی نہیں رہے گا۔
چنانچہ اس نے اپنے باپ سے کہا:” میں اس سے اپنے طریقے سے ملوں گا۔“
المصری سے ملاقات کے لیے اس نے اتوار کے دن چرچ سے واپسی کا وقت مقرر کیا۔ اس نے عیسائی مبلغوں والا لمبا چوغہ پہنا، ہاتھ میں بائبل تھامی، گلے میں چمکدار صلیب لٹکائی اور سر پر پادریوں والی ٹوپی پہنی جس پر لکھا تھا( jesus is lord) اور انتہائی طمراق سے مکمل پادری کے روپ میں مسلمان نوجوان سے ملاقات کے لیے روانہ ہوا۔ اس کی بیوی اور دونوں بچیاں بھی مکمل مذہبی لباس میں اس کے ہمراہ تھیں، گویا وہ ایک مسلمان کومتاثر کرنے کا پورا اہتمام کرکے چلے تھے۔
جب وہ دفتر پہنچے تو اس کے باپ نے ایک نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان سے ملو یہ محمد المصری ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ اس کا ملاقاتی ایک لمبے عربی لباس میں ملبوس ہوگا، لمبی داڑھی ، لمبے گھنگھریالے بال، سر پر بڑا سا پگڑ باندھے، ماتھے پر بل ڈالے، کمر پر سیاہ نیام باندھے، یا کوٹ کے نیچے بم چھپائے، ذرا سا غصہ آنے پر جھٹ سے تلوار لہرانے لگے گا یا پھر بم نکال کر دھماکا کر دے گا ۔
لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ سادہ لباس میں ملبوس ، ایک عام سا، سیدھا سادا اور نفیس نوجوان تھا، نہ لمبی داڑھی ، نہ توپ، نہ عمامہ ، نہ تلوار اور تو اور اس کے تو سر پر بال بھی بہت کم تھے۔
محمد نہایت گرم جوشی سے مسکراتے ہوئے اٹھا اور سکپ سے ہاتھ ملایا۔ ابتدائی مختصر تعارف کے بعد اسکپ نے اس سے پوچھا:
کیا تم خدا پر یقین رکھتے ہو؟
محمد نے جواب دیا: ہاں
سکپ نے پوچھا: کیا تم آدم اور حوا (علیھما السلام ) کو مانتے ہو؟
محمد نے کہا: ہاں!
اچھی بات ہے۔ سکپ نے دل میں سوچا:
ابراھیم (علیہ السلام) کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے، کیا تم انہیں مانتے ہو اور ان کا اپنے بیٹے کو الله کی راہ میں قربان کرنا تسلیم کرتے ہو؟
ہاں ! محمد نے اثبات میں سر ہلایا۔
اچھا تو موسی علیہ السلام ، ان کے دس احکام اور سرخ سمندر کا پانی روک دینے پر یقین رکھتے ہو؟
ہاں !
بہترین ! سکپ نے دل ہی دل میں کہا:
اور دوسرے پیغمبروں موسی ، داود اور سلیمان (علیھم السلام ) کو بھی مانتے ہو؟
ہاں! محمد نے پھر سر ہلایا:
اس کے خیال کے مطابق اب سب سے مشکل سوال کا وقت آ گیا تھا، اس نے کہا: کیا تم بائبل کو مانتے ہو اور جیسس یعنی عیسٰی ( علیہ السلام ) کو بھی مانتے ہو کہ وہ الله کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔
ہاں !
اور یہ کہ ان کو سولی چڑھایا گیا تھا؟
ہاں !
اور کیا تم ان کے معجزاتی پرندوں کو بھی مانتے ہو؟ ہاں ہاں ! میں مانتا ہوں۔
سکپ ایسٹس نے دل میں سوچا: “ یہ تو اس سے کہیں زیادہ آسان ہے جتنا میں نے خیال کیا تھا، یہ عیسائیت قبول کرنے کے لیے بالکل تیار ہے کیونکہ یہ سب کچھ مانتا ہے۔
لیکن خود سکپ کے لیے یہ ایک دھماکہ دار خبر تھی کہ مسلمان بائبل کو بھی مانتے ہیں اور عیسی علیہ السلام کو بھی اور اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عیسی (علیہ السلام) دوبارہ دنیا میں واپس آئیں گے۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس نے دل میں سوچا:
اسے محمد المصری بہت اچھا لگا، اس کی طرف دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں خود سے شرط لگائی، وہ اس کو ضرور عیسائی بنائے گا۔
محمد نے مسکراتے ہوئے ایسٹس کو دیکھا اور کہا:” کیا اب ہم کاروبار کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟ “
بالاخر کچھ شرائط طے کرنے کے بعد وہ دونوں کاروبار میں شراکت دار بن گئے اور تقریبا ہر روز ان دونوں کی ملاقات ہونے لگی۔ یہاں تک کہ ان میں خوب دوستی ہوگئی۔ اکثر کاروباری دوروں میں بھی وہ اکٹھے سفر کرنے لگے۔ دورانِ سفر وہ ایک دوسرے سے لوگوں کے مختلف عقائد کے متعلق گفتگو کرتے، خدا کے تصور پر بات کرتے ، انسانی تخلیق کا کیا مقصد ہے؟ زندگی سے کیا درکار ہے؟ پیغمبر دنیا میں کیوں آئے اور کیا پیغام لے کر آئے؟ وہ اپنے ذاتی تجربات و احساسات بھی ایک دوسرے کو بتاتے۔ سکپ اچھی طرح جان گیا کہ محمد نفیس ، کم گو اور کسی قدر شرمیلا نوجوان ہے۔ وہ دل ہی دل میں بہت خوش تھا کہ اسے ایک معصوم مسلمان کو عیسائی بنانے کا موقع مل رہا ہے۔
ایک دن اسے معلوم ہوا کہ محمد اپنی عبادت گاہ یعنی مسجد میں قیام پذیر ہے۔ حالانکہ وہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کر رہا تھا۔ سکپ نے یہ سمجھ کر کہ شاید وہ بے گھر ہوگیا ہے اسے اپنے گھر رہنے کی دعوت دی۔ محمد نے انکار کر دیا۔ تبھی سکپ نے یہ سوچ کر کہ شاید یہ مفت میرے ساتھ رہنے پر راضی نہیں اسے پندرہ ڈالر کرایہ ادا کر دینے کا کہا۔ یہ سن کر محمد سوچ میں پڑ گیا، فورا ہی سکپ نے اسے پندرہ ڈالر میں ساتھ کھانے کی سہولت بھی پیش کر دی۔ دراصل وہ اسے عیسائیت کی طرف مائل کرنے کی ہر ممکن کوشش میں تھا۔ آخر اس کے اصرار پر محمد نے یہ پیشکش قبول کر لی اور اُن کے ساتھ رہنے پر آمادہ ہو گیا۔ اسکپ کا بڑا سا گھر شہر کے مضافات میں واقع تھا، جس کے پچھلے صحن میں ایک کمرہ محمد کو دے دیا گیا۔ جہاں وہ رہنے لگا اور رفتہ رفتہ گھر والوں کے ساتھ گُھل مل گیا۔
سکپ ایسٹس محمد المصری پر خاص نظر رکھتا۔ اس کے ہر کام کو غور سے دیکھتا اور اس کی عادات کا مشاہدہ کرتا۔ محمد انتہائی کم گو تھا، ضرورت کے وقت نپی تلی بات کرتا ورنہ خاموش رہتا۔ لین دین کے معاملات میں بہت ایماندار اور اصول پسند تھا، خریدار کے ساتھ انتہائی تحمل سے بات کرتا، چیز کی خوبی اور خامی کھول کر بیان کرتا، ہر ایک سے نرمی اور مہربانی سے پیش آتا اور اپنے بہترین برتاؤ سے اگلے کا دل جیت لیتا تھا۔
ایک دن سکپ اپنے نئے سپر سٹور میں پہنچا جس میں محمد کی شراکت داری تھی تو اس نے دیکھا اس کے سامنے میز پر قیمتی دوائیوں کے بہت سے بنڈل پڑے تھے اور وہ ان کی انتہائی تاریخ دیکھ رہا تھا۔ ان دواؤں کے ایکسپائر ہونے میں پانچ دن رہ گئے تھے، اس نے تمام دوائیں اٹھا کر کوڑے دان میں ڈال دیں۔
کیوں ؟ تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟ سکپ نے حیرت سے پوچھا: اس طرح تو بہت نقصان ہو گا۔
”جب تک یہ دوائیں ہسپتال پہنچیں گی ان کی آخری تاریخ گزر چکی ہو گی، اب انہیں بھیجنا بے کار ہے۔“محمد نے تحمل سے جواب دیا:
سکپ نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا: ”سو واٹ( پھر کیا ہوا ) “
”یہ دھوکا ہے میں ایسا نہیں کر سکتا، اسلام میں اس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ “
وہ شرمندہ ہوگیا اور اس نے دل سے تسلیم کیا، واقعی یہ غلط ہے۔
سکپ کو محمد کی ایک اور عادت نے بہت متاثر کیا۔ پہلے دن سے جونہی نماز کا وقت ہوتا وہ ہر کام چھوڑ کر انتہائی مہذب انداز میں معاف کیجیے کہتا، وضو کرتا اور ایک طرف کپڑا بچھا کر نماز ادا کر لیتا۔ البتہ جمعہ کے دن دو گھنٹے کے لیے غائب ہوجاتا۔ نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد آکر دوبارہ کام کرنے لگتا۔
اتوار کی چھٹی گزار کر سکپ پیر کو سٹور پر موجود تھا جب اس نے دیکھا کہ کھانے کے وقفے کے دوران بھی محمد کام میں مصروف ہے۔ اس نے محمد سے کہا: آؤ لنچ کے لیے چلیں تو اس نے نرمی سے بتایا کہ آج وہ روزے سے ہے۔
تھوڑے عرصے میں ہی اسے معلوم ہوگیا کہ محمد المصری ہر پیر اور جمعرات کے دن روزے سے ہوتا ہے۔ ہفتے کے ان دو دنوں میں وہ کچھ کھاتا پیتا نہیں اور اگر کوئی اسے کھانے کی پیشکش کرے تو نرمی سے انکار کر دیتا ہے۔
سکپ ایسٹس اس کے معمولات کو نہایت دل چسپی سے دیکھتا، اکثر اس سے سوالات کرتا اور مختصر و مدلل جواب سن کر دل ہی دل میں اس سے متاثر ہوتا۔ سو سویٹ ، سو نائس ۔ وہ سوچتا ، اگر یہ شخص عیسائی ہوجائے تو سچ مچ ایک اینجل (فرشتہ) بن جائے۔
رفتہ رفتہ کاروباری گفتگو کے علاوہ سکپ اس سے مذہب کے متعلق بھی بات چیت کرنے لگا۔ کبھی بائبل سے کوئی بات پڑھ کر سنا دیتا، کبھی کوئی واقعہ سنانے لگتا۔ محمد المصری مسکراتے ہوئے سنتا رہتا، اس دوران اگر نماز کا وقت ہوجاتا تو اٹھ کر نماز ادا کر لیتا۔ اس کی ایک اور بات جو سکپ کو بہت عجیب لگتی کہ وہ نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر کچھ مانگتا اور اس کے آنسو بہنے لگتے ۔ سکپ حیرت کے عالم میں چپکے چپکے دیکھتا کہ آخر اسے کیا دکھ ہے جو دعا مانگتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہنے لگتا ہے۔
سکپ ایسٹس اس بات پر بھی حیران ہوتا رہتا کہ محمد المصری نے کبھی اسے اسلام کی دعوت نہیں دی، کبھی اس نے اپنے خدا یا اپنے نبی کے متعلق کُھل کر بات نہیں کی۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
نزہت وسیم