بچوں کی کہانیاں: روشنی کا سفر۔ نزہت وسیم

ام اویس

محفلین
”ڈیڈ! مجھے پانچ ڈالر چاہیے۔“ سکپ ایسٹس گھر کے لان میں اپنے دوست محمد المصری کے ساتھ بیٹھا کاروبار سے متعلق ایک اہم مسئلہ پر گفتگو کر رہا تھا۔ عین اسی وقت اس کی دس سالہ بیٹی ماریا نے اس سے آ کر کہا:

”آپ اس ماہ کا جیب خرچ لے چکی ہیں۔“ اس نے نرمی سے جواب دیا:

”ڈیڈ پلیز ! میں وہ خرچ کر چکی ہوں ، مجھے ایک خاص چیز خریدنے کے لیے صرف پانچ ڈالر درکار ہیں۔“ ماریا نے اصرار کیا

”نہیں یہ اصول کے خلاف ہے ، ہم طے کر چکے ہیں کہ آپ کو جیب خرچ کے علاوہ مزید پیسے نہیں ملیں گے، آپ کو اپنے پیسے دھیان سے خرچ کرنا چاہیے۔“ سکپ نے نرم مگر حتمی لہجے میں جواب دیا اور محمد کی طرف متوجہ ہوگیا۔

ماریا سر جھکائے کھڑی تھی کہ اچانک محمد اس کی طرف دیکھتے ہوے بولا: ”میں آپ کو پانچ ڈالر ادھار دے سکتا ہوں، شرط یہ ہے کہ آپ مجھے جیب خرچ ملتے ہی واپس کر دیں گی۔“

”ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گی۔“ محمد نے جیب سے پانچ ڈالر کا سکہ نکالا اور اس کے ہاتھ پر رکھ دیا، خوشی سے ماریا کا چہرہ چمکنے لگا۔

سکپ نے حیرانی سے دیکھا لیکن پھرکچھ کہے بغیر بات چیت کی طرف متوجہ ہو گیا۔

ایک ہفتے بعد جب محمد لان میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا سکپ نے دیکھا مریم اسے پانچ ڈالر واپس کر رہی تھی۔ اس نے سوچا پانچ ڈالر، بہت معمولی رقم ہے محمد یہیں رہتا ہے اور اب ہمارا اچھا دوست بن چکا ہے، یقینا وہ کہے گا واپس کرنے کی ضرورت نہیں؛ لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا جب محمد نے پیسے لے کر جیب میں رکھ لیے اور مسکراتے ہوئے مریم کا شکریہ ادا کیا۔ یہ بات سکپ کے لیے انتہائی عجیب تھی؛ بلکہ اس کے لیے تو محمد المصری کی ہر بات ، ہر عمل ہی عجیب تھا۔ اس نے محمد سے پوچھا؛ ”تم نے پانچ ڈالر واپس کیوں لیے ؟“
اس کا جواب سن کر مزید حیران ہوا جب اس نے کہا: ”یہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، اسی لیے ہم اپنے بچوں کو قرض لینا اور ادا کرنا سکھاتے ہیں۔“

امریکہ سے تعلق رکھنے والا سکپ ایسٹس پیدائشی عیسائی تھا۔ اس کا تعلق مڈویسٹ کے ایک کٹر مذہبی خاندان سے تھا۔ اس کے اباء و اجداد نے اس علاقے میں بے شمار چرچ اور مشنری سکول بنائے تھے۔ اپنی نوعمری میں ہی وہ ہیوسٹن ، ٹیکساس منتقل ہوگیا۔ وہ باقاعدگی سے چرچ جاتا اور عیسائیت کے مختلف فرقوں کی تعلیم حاصل کرتا۔ اسے عیسائیت سے محبت تھی اور وہ اپنے مذہب کے معاملے میں بہت حساس تھا۔ اس کے خیال میں اس دنیا میں صرف عیسائیت ہی امن و سلامتی کا مذہب ہے، اس لیے وہ ہر شخص کوعیسائی بنانا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے ہر جگہ عیسائیت کی تبلیغ کرتا تھا۔ دوسری چیز جس کا اسے بے انتہا شوق تھا وہ موسیقی تھی۔ عیسائیت میں موسیقی کی بہت اہمیت ہے اور عبادت کے وقت باقاعدہ موسیقی کے آلات استعمال کیے جاتے ہیں؛ چنانچہ اپنے اس شوق اور مہارت کی وجہ سے وہ چرچ میں میوزک منسٹر تھا۔

عیسائیت کے فروغ کے علاوہ وہ اپنے باپ سے مل کر کئی قسم کے کاروبار بھی کرتا تھا۔ جن میں ریڈیو ، ٹی وی کے لیے موسیقی کے پروگرام تیار کرنا ، نجی طور پر میوزیکل شو منعقد کرنا، آلاتِ موسیقی کی تربیت دینا، اور انہیں فروخت کرنا اہم کام تھے۔ وہ ہر سال لاکھوں ڈالر کماتے تھے، اس کے علاوہ جو بھی نیا کاروبار شروع ہوتا، دونوں باپ بیٹا اس میں رقم لگانے سے نہ گھبراتے۔ کاروبار کے سلسلے میں اسے ہر طرح کے لوگوں سے ملنا اور سامان خریدنا پڑتا تھا؛ لیکن وہ کبھی کسی مسلمان سے نہیں ملا تھا۔

ایک دن اس کے والد نے کہا انہیں مصر کے ایک شخص سے کاروبار میں شراکت کرنی چاہیے۔ اسے یہ تجویز بہت اچھا لگی۔ ایسا کرنے سے ان کا کاروبار عالمی سطح پر شناخت بنا سکتا تھا؛ لیکن جب اس کے باپ نے بتایا: ”محمد المصری ایک مسلمان نوجوان ہے۔“
سکپ نے فورا جواب دیا:” نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں کسی مسلمان سے ملاقات نہیں کروں گا۔ مسلمان قابلِ بھروسہ نہیں ، وہ دہشت گرد، ہائی جیکر اور کڈ نیپر ہوتے ہیں۔ خدا پر یقین نہیں رکھتے بلکہ صحرا میں موجود ایک سیاہ کمرے کی عبادت کرتے ہیں اور دن میں پانچ وقت زمین کو چومتے ہیں۔“ اس کے لہجے میں حقارت تھی ، وہ مسلمانوں کے متعلق اتنا ہی علم رکھتا تھا۔

اس کے باپ نے اصرار کرتے ہوئے کہا : ”میں اس سے مل چکا ہوں وہ بہت عمدہ اور نفیس آدمی ہے، تم اس سے ایک بار مل لو! “

اسی وقت سکپ ایسٹس کو خیال آیا کیوں نہ میں اسے اپنے مذہب کی دعوت دے کر اپنا ہم مذہب بنا لوں پھر کوئی مسئلہ باقی نہیں رہے گا۔

چنانچہ اس نے اپنے باپ سے کہا:” میں اس سے اپنے طریقے سے ملوں گا۔“

المصری سے ملاقات کے لیے اس نے اتوار کے دن چرچ سے واپسی کا وقت مقرر کیا۔ اس نے عیسائی مبلغوں والا لمبا چوغہ پہنا، ہاتھ میں بائبل تھامی، گلے میں چمکدار صلیب لٹکائی اور سر پر پادریوں والی ٹوپی پہنی جس پر لکھا تھا( jesus is lord) اور انتہائی طمراق سے مکمل پادری کے روپ میں مسلمان نوجوان سے ملاقات کے لیے روانہ ہوا۔ اس کی بیوی اور دونوں بچیاں بھی مکمل مذہبی لباس میں اس کے ہمراہ تھیں، گویا وہ ایک مسلمان کومتاثر کرنے کا پورا اہتمام کرکے چلے تھے۔

جب وہ دفتر پہنچے تو اس کے باپ نے ایک نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان سے ملو یہ محمد المصری ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ اس کا ملاقاتی ایک لمبے عربی لباس میں ملبوس ہوگا، لمبی داڑھی ، لمبے گھنگھریالے بال، سر پر بڑا سا پگڑ باندھے، ماتھے پر بل ڈالے، کمر پر سیاہ نیام باندھے، یا کوٹ کے نیچے بم چھپائے، ذرا سا غصہ آنے پر جھٹ سے تلوار لہرانے لگے گا یا پھر بم نکال کر دھماکا کر دے گا ۔

لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ سادہ لباس میں ملبوس ، ایک عام سا، سیدھا سادا اور نفیس نوجوان تھا، نہ لمبی داڑھی ، نہ توپ، نہ عمامہ ، نہ تلوار اور تو اور اس کے تو سر پر بال بھی بہت کم تھے۔

محمد نہایت گرم جوشی سے مسکراتے ہوئے اٹھا اور سکپ سے ہاتھ ملایا۔ ابتدائی مختصر تعارف کے بعد اسکپ نے اس سے پوچھا:
کیا تم خدا پر یقین رکھتے ہو؟

محمد نے جواب دیا: ہاں

سکپ نے پوچھا: کیا تم آدم اور حوا (علیھما السلام ) کو مانتے ہو؟

محمد نے کہا: ہاں!

اچھی بات ہے۔ سکپ نے دل میں سوچا:

ابراھیم (علیہ السلام) کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے، کیا تم انہیں مانتے ہو اور ان کا اپنے بیٹے کو الله کی راہ میں قربان کرنا تسلیم کرتے ہو؟

ہاں ! محمد نے اثبات میں سر ہلایا۔

اچھا تو موسی علیہ السلام ، ان کے دس احکام اور سرخ سمندر کا پانی روک دینے پر یقین رکھتے ہو؟

ہاں !

بہترین ! سکپ نے دل ہی دل میں کہا:

اور دوسرے پیغمبروں موسی ، داود اور سلیمان (علیھم السلام ) کو بھی مانتے ہو؟

ہاں! محمد نے پھر سر ہلایا:

اس کے خیال کے مطابق اب سب سے مشکل سوال کا وقت آ گیا تھا، اس نے کہا: کیا تم بائبل کو مانتے ہو اور جیسس یعنی عیسٰی ( علیہ السلام ) کو بھی مانتے ہو کہ وہ الله کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔

ہاں !

اور یہ کہ ان کو سولی چڑھایا گیا تھا؟

ہاں !

اور کیا تم ان کے معجزاتی پرندوں کو بھی مانتے ہو؟ ہاں ہاں ! میں مانتا ہوں۔

سکپ ایسٹس نے دل میں سوچا: “ یہ تو اس سے کہیں زیادہ آسان ہے جتنا میں نے خیال کیا تھا، یہ عیسائیت قبول کرنے کے لیے بالکل تیار ہے کیونکہ یہ سب کچھ مانتا ہے۔

لیکن خود سکپ کے لیے یہ ایک دھماکہ دار خبر تھی کہ مسلمان بائبل کو بھی مانتے ہیں اور عیسی علیہ السلام کو بھی اور اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عیسی (علیہ السلام) دوبارہ دنیا میں واپس آئیں گے۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس نے دل میں سوچا:

اسے محمد المصری بہت اچھا لگا، اس کی طرف دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں خود سے شرط لگائی، وہ اس کو ضرور عیسائی بنائے گا۔

محمد نے مسکراتے ہوئے ایسٹس کو دیکھا اور کہا:” کیا اب ہم کاروبار کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟ “

بالاخر کچھ شرائط طے کرنے کے بعد وہ دونوں کاروبار میں شراکت دار بن گئے اور تقریبا ہر روز ان دونوں کی ملاقات ہونے لگی۔ یہاں تک کہ ان میں خوب دوستی ہوگئی۔ اکثر کاروباری دوروں میں بھی وہ اکٹھے سفر کرنے لگے۔ دورانِ سفر وہ ایک دوسرے سے لوگوں کے مختلف عقائد کے متعلق گفتگو کرتے، خدا کے تصور پر بات کرتے ، انسانی تخلیق کا کیا مقصد ہے؟ زندگی سے کیا درکار ہے؟ پیغمبر دنیا میں کیوں آئے اور کیا پیغام لے کر آئے؟ وہ اپنے ذاتی تجربات و احساسات بھی ایک دوسرے کو بتاتے۔ سکپ اچھی طرح جان گیا کہ محمد نفیس ، کم گو اور کسی قدر شرمیلا نوجوان ہے۔ وہ دل ہی دل میں بہت خوش تھا کہ اسے ایک معصوم مسلمان کو عیسائی بنانے کا موقع مل رہا ہے۔

ایک دن اسے معلوم ہوا کہ محمد اپنی عبادت گاہ یعنی مسجد میں قیام پذیر ہے۔ حالانکہ وہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کر رہا تھا۔ سکپ نے یہ سمجھ کر کہ شاید وہ بے گھر ہوگیا ہے اسے اپنے گھر رہنے کی دعوت دی۔ محمد نے انکار کر دیا۔ تبھی سکپ نے یہ سوچ کر کہ شاید یہ مفت میرے ساتھ رہنے پر راضی نہیں اسے پندرہ ڈالر کرایہ ادا کر دینے کا کہا۔ یہ سن کر محمد سوچ میں پڑ گیا، فورا ہی سکپ نے اسے پندرہ ڈالر میں ساتھ کھانے کی سہولت بھی پیش کر دی۔ دراصل وہ اسے عیسائیت کی طرف مائل کرنے کی ہر ممکن کوشش میں تھا۔ آخر اس کے اصرار پر محمد نے یہ پیشکش قبول کر لی اور اُن کے ساتھ رہنے پر آمادہ ہو گیا۔ اسکپ کا بڑا سا گھر شہر کے مضافات میں واقع تھا، جس کے پچھلے صحن میں ایک کمرہ محمد کو دے دیا گیا۔ جہاں وہ رہنے لگا اور رفتہ رفتہ گھر والوں کے ساتھ گُھل مل گیا۔

سکپ ایسٹس محمد المصری پر خاص نظر رکھتا۔ اس کے ہر کام کو غور سے دیکھتا اور اس کی عادات کا مشاہدہ کرتا۔ محمد انتہائی کم گو تھا، ضرورت کے وقت نپی تلی بات کرتا ورنہ خاموش رہتا۔ لین دین کے معاملات میں بہت ایماندار اور اصول پسند تھا، خریدار کے ساتھ انتہائی تحمل سے بات کرتا، چیز کی خوبی اور خامی کھول کر بیان کرتا، ہر ایک سے نرمی اور مہربانی سے پیش آتا اور اپنے بہترین برتاؤ سے اگلے کا دل جیت لیتا تھا۔

ایک دن سکپ اپنے نئے سپر سٹور میں پہنچا جس میں محمد کی شراکت داری تھی تو اس نے دیکھا اس کے سامنے میز پر قیمتی دوائیوں کے بہت سے بنڈل پڑے تھے اور وہ ان کی انتہائی تاریخ دیکھ رہا تھا۔ ان دواؤں کے ایکسپائر ہونے میں پانچ دن رہ گئے تھے، اس نے تمام دوائیں اٹھا کر کوڑے دان میں ڈال دیں۔

کیوں ؟ تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟ سکپ نے حیرت سے پوچھا: اس طرح تو بہت نقصان ہو گا۔

”جب تک یہ دوائیں ہسپتال پہنچیں گی ان کی آخری تاریخ گزر چکی ہو گی، اب انہیں بھیجنا بے کار ہے۔“محمد نے تحمل سے جواب دیا:

سکپ نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا: ”سو واٹ( پھر کیا ہوا ) “

”یہ دھوکا ہے میں ایسا نہیں کر سکتا، اسلام میں اس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ “

وہ شرمندہ ہوگیا اور اس نے دل سے تسلیم کیا، واقعی یہ غلط ہے۔

سکپ کو محمد کی ایک اور عادت نے بہت متاثر کیا۔ پہلے دن سے جونہی نماز کا وقت ہوتا وہ ہر کام چھوڑ کر انتہائی مہذب انداز میں معاف کیجیے کہتا، وضو کرتا اور ایک طرف کپڑا بچھا کر نماز ادا کر لیتا۔ البتہ جمعہ کے دن دو گھنٹے کے لیے غائب ہوجاتا۔ نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد آکر دوبارہ کام کرنے لگتا۔

اتوار کی چھٹی گزار کر سکپ پیر کو سٹور پر موجود تھا جب اس نے دیکھا کہ کھانے کے وقفے کے دوران بھی محمد کام میں مصروف ہے۔ اس نے محمد سے کہا: آؤ لنچ کے لیے چلیں تو اس نے نرمی سے بتایا کہ آج وہ روزے سے ہے۔

تھوڑے عرصے میں ہی اسے معلوم ہوگیا کہ محمد المصری ہر پیر اور جمعرات کے دن روزے سے ہوتا ہے۔ ہفتے کے ان دو دنوں میں وہ کچھ کھاتا پیتا نہیں اور اگر کوئی اسے کھانے کی پیشکش کرے تو نرمی سے انکار کر دیتا ہے۔

سکپ ایسٹس اس کے معمولات کو نہایت دل چسپی سے دیکھتا، اکثر اس سے سوالات کرتا اور مختصر و مدلل جواب سن کر دل ہی دل میں اس سے متاثر ہوتا۔ سو سویٹ ، سو نائس ۔ وہ سوچتا ، اگر یہ شخص عیسائی ہوجائے تو سچ مچ ایک اینجل (فرشتہ) بن جائے۔

رفتہ رفتہ کاروباری گفتگو کے علاوہ سکپ اس سے مذہب کے متعلق بھی بات چیت کرنے لگا۔ کبھی بائبل سے کوئی بات پڑھ کر سنا دیتا، کبھی کوئی واقعہ سنانے لگتا۔ محمد المصری مسکراتے ہوئے سنتا رہتا، اس دوران اگر نماز کا وقت ہوجاتا تو اٹھ کر نماز ادا کر لیتا۔ اس کی ایک اور بات جو سکپ کو بہت عجیب لگتی کہ وہ نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر کچھ مانگتا اور اس کے آنسو بہنے لگتے ۔ سکپ حیرت کے عالم میں چپکے چپکے دیکھتا کہ آخر اسے کیا دکھ ہے جو دعا مانگتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہنے لگتا ہے۔

سکپ ایسٹس اس بات پر بھی حیران ہوتا رہتا کہ محمد المصری نے کبھی اسے اسلام کی دعوت نہیں دی، کبھی اس نے اپنے خدا یا اپنے نبی کے متعلق کُھل کر بات نہیں کی۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
نزہت وسیم
 

ام اویس

محفلین
1-A9-F8365-9107-4-A6-D-9264-AA6976-D779-F0.jpg
 

ام اویس

محفلین
روشنی کا سفر
قسط:2
نزہت وسیم
عیسائیت کے بے شمار فرقے ہیں۔ سکپ کا ایک دوست سٹریٹ پریسٹ تھا۔ یعنی سڑک کا پادری۔ وہ ایک بہت بڑی صلیب اٹھائے گلیوں میں پھرتا، جب کوئی اس کی طرف متوجہ ہوتا یا بات چیت کرتا تو موقع پاتے ہی اسے ایک چھوٹی سی بائبل پڑھنے کے لیے دے دیتا۔ ایک دن سکپ محمد المصری کو عیسائیت کی دعوت دینے کے سلسلے میں مشورہ لینے کے لیے اس سے ملنے چلا گیا۔ میرا ایک مصری مسلم دوست ہے ، ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ اس نے گھورتے ہوئے غصے سے پوچھا: مسلم ؟
تم اس سے کیوں ملے ، اس سے دور رہو۔ سکپ نے جواب دیا: وہ بہت اچھا اور نفیس آدمی ہے۔ اس کا دوست بھاری آواز میں بولا: اس کی کتاب ہرگز نہ پڑھنا۔ کون سی کتاب ؟ اس نے تعجب سے پوچھا: کووران ۔ دوست نے انگریزی لہجے میں قرآن مجید کا نام لیا۔
سکپ نے ابھی تک ایسی کوئی کتاب احمد کے پاس نہ دیکھی، نا ہی اس کا ذکر سنا تھا۔ خیر مجھے اس سے کیا: یہ سوچ کر وہ دوسری باتوں میں مشغول ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔
ایک دن محمد المصری معمول سے کچھ وزنی کتاب اٹھائے سٹور میں داخل ہوا اور سکپ سے پوچھا:” یہ ہماری مقدس کتاب قرآن مجید ہے۔ کیا میں اسے پڑھنے کے لیے سٹور میں ایک طرف رکھ سکتا ہوں؟“
”ہاں ہاں کیوں نہیں !“ اس نے کتاب کو غور سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
اس کے ذہن میں اپنے دوست کی باتیں گونج رہی تھیں۔
”اس کتاب کو کھول کر مت دیکھنا۔“ اس نے اپنے آپ سے کہا۔
احمد کتاب کو میز پر رکھ کر دوسری منزل پر جا چکا تھا۔
سکپ کام کے دوران کبھی کبھی نظر اٹھا کر کتاب کو دیکھ لیتا تھا۔ آخر وہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوگیا۔ اس نے دل میں دعا کی: ”اے خدا اگر اس کتاب میں مجھے نقصان پہنچانے والی کوئی بات ہو تو مجھے بچا لینا۔“ اور کتاب کو کھول لیا۔ ایک سفید صفحہ سامنے آ گیا، اسے اُلٹا تو وہ کتاب کا آخری صفحہ تھا۔ او میرے خدا ! یہ کتاب تو الٹ چھاپ دی گئی ہے۔ کس قدر بے وقوف لوگ ہیں اس نے قرآن مجید کو پلٹا اور دوسری طرف سے کھول لیا۔
بسم الله الرحمن الرحیم
عربی کو چھوڑ کر اس نے نیچے لکھا انگلش ترجمہ پڑھنا شروع کیا۔
الله کے نام کے ساتھ جو بڑا مہربان ، نہایت رحم کرنے والا ہے۔
”ٹھیک لکھا ہے۔ “ اس نے سوچا۔
اگلی سطر پر نظر دوڑائی ۔ ”تمام تعریفیں اسی الله کی ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔“
“یہ بھی ٹھیک ہے۔“ اس کے دل نے کہا:
”جو بڑا مہربان رحم کرنے والا ہے“۔۔۔۔ اسی طرح اس نے سورة فاتحہ کا مکمل ترجمہ پڑھ لیا۔ ”اس میں ایسا کچھ بھی نہیں لکھا جو غلط ہو۔“
اس کا ہاتھ اگلا صفحہ کھولنے کے لیے بڑھا لیکن سکپ نے اسے روک لیا اور جلدی سے کتاب کو بند کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
دن گزرتے رہے، سکپ اپنی عبادت گاہ میں جاتا، معمول کے مطابق مذہبی کام سرانجام دیتا اور اپنے پیروکاروں سے بھی ملتا رہتا۔ محمد کے ساتھ کاروبار بھی نہایت عمدگی سے چل رہا تھا۔ ایک دن اس کا دوست جو کہ سٹریٹ پریسٹ تھا، بیمار ہو گیا اسے ہارٹ اٹیک ہوا تھا؛ چنانچہ اسے ہسپتال میں داخل کر لیا گیا اور کافی عرصہ اسے ہسپتال میں رہنا پڑا۔ سکپ ہر دوسرے تیسرے دن سٹور سے واپسی پر، اس کی خبر گیری کے لیے ہسپتال جاتا۔ اکثر محمد بھی اس کے ہمراہ ہوتا۔ دورانِ گفتگو سکپ کی کوشش ہوتی کہ مذہب اور عقائد کے موضوع پر بات کی جائے لیکن اس کا دوست اس موضوع کو پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ اسلام یا اس کی تعلیمات کے متعلق گفتگو میں بالکل دلچسپی نہیں لیتا تھا۔
ایک دن سکپ اس سے ملاقات کے لیے گیا تو اسی کمرے کا دوسرا مریض اپنی وہیل چئیر گھسیٹتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔ سکپ اس کے پاس چلا گیا اور اس سے اس کا نام پوچھا۔ اس نے انتہائی بے رُخی سے جواب دیا: ”میرا نام کچھ بھی ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“
سکپ نے پھر سوال کیا: ”آپ کہاں سے آئے ہیں؟“
اس نے تلخی سے جواب دیا: ”مریخ سے۔“
وہ اس کا جواب سن کر حیران ہوا اور سوچنے لگا یہ دل کا وارڈ ہے یا دماغ کا، پھر منفی خیالات جھٹکتے ہوئے اس نے مریض کی تنہائی اور افسردگی کو شدت سے محسوس کیا؛ چنانچہ ایک مذہبی رہنما ہونے کی حیثیت سے اسے خدا کی طرف متوجہ کرنے اور مایوسی سے نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔
سکپ نے اسے یوناہ یعنی یونس علیہ السلام کا قصہ سنانا شروع کیا کہ کس طرح خدا نے انہیں ایک گمراہ قوم کی ہدایت کے لیے بھیجا اور کیسے وہ لوگوں کی مخالفت اور دشمنی کی وجہ سے انہیں چھوڑ کر ایک کشتی میں سوار ہو گئے۔ سمندر میں طوفان آ جانے کی وجہ سے کشتی میں سوار لوگوں نے یوناہ ( یونس علیہ السلام ) کو سمندر میں پھینک دیا اور ایک بڑی وہیل انہیں نگل کر سمندر کی تہہ میں چلی گئی۔ یوناہ ( یونس علیہ السلام ) تین دن اور تین راتیں اس مچھلی کے پیٹ میں رہے پھر خدا کی رحمت سے مچھلی نے انہیں بحفاظت نینوا کے ساحل پر اگل دیا۔ اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم کبھی بھی اپنی زندگی کی مشکلات سے بھاگ نہیں سکتے اور ہم نہیں جانتے کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے، البتہ ہمارے تمام حالات و مشکلات کو خدا جانتا ہے۔
وہیل چئیر پر بیٹھا شخص سکون سے اسکپ کی کہانی سنتا رہا پھر کہنے لگا: “بالکل ایسا ہی ہے۔”
اگلی چند ملاقاتوں میں سکپ مسلسل اس کی دلجوئی کرتا رہا۔ آخر کار اس نے اپنے تلخ رویے کی معذرت کرتے ہوئے اسے بتایا کہ آج کل وہ ذہنی طور پر بہت پریشان ہے۔ وہ عیسائیت کے اعتراف کرنے والے عقیدے کے مطابق اس کے سامنے کچھ قبول کرنا چاہتا ہے۔
عیسائیت کا ایک فرقہ جسے کتھولک کہتے ہیں، ان کا عقیدہ ہے کہ پادری کے سامنے گناہ کا اعتراف کر لینے سے ہر سزا سے پاک اور بری ہوجاتے ہیں۔
سکپ نے کہا: ”سوری! تم میرے سامنے اعتراف نہیں کر سکتے کیونکہ میں کتھولک نہیں ہوں۔”
اس شخص نے جواب دیا: “ہاں! میں جانتا ہوں کیونکہ میں خود کیتھولک پادری ہوں”

سکپ یہ سن کر متعجب ہوا، اور دل میں کہا: “او میرے خدا! اس دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے، میں اتنے دنوں تک ایک پادری کو عیسائیت کی دعوت دیتا رہا ہوں؟”

اس پادری کا تعلق لاطینی امریکہ سے تھا اور اس کا نام پیٹر جیکب تھا، اس نے بتایا کہ وہ شمالی امریکہ، سنٹرل امریکہ، میکسکو اور نیو یارک میں بارہ سال تک چرچ کی مذہبی خدمات سر انجام دیتا رہا ہے۔ بیماری کے بعد وہ کئی سال سے اس ہسپتال میں ہے۔ وہ ہسپتال کی زندگی اور تنہائی سے سخت بیزار تھا اور اپنی باقی ماندہ زندگی کسی خاندان کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے۔ (کیونکہ کیتھولک پادری شادی نہیں کرتے اس لیے ان کا خاندان نہیں ہوتا)
نرم مزاج سکپ اس کے حالات سن کر بہت متاثر ہوا۔ گھر واپس آکر اپنے والد سے اس کے متعلق بات کی اور انہیں آمادہ کیا کہ اسے اپنے ساتھ اپنے گھر میں رہنے کی دعوت دیں۔
چنانچہ گھر والوں کی رضامندی سے وہ پادری ان کے گھر رہنے کے لیے آ گیا۔
سکپ نے اس سے بھی اسلام کے عقائد کے متعلق بات چیت کی اور اس کا جواب سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ پیٹر نے نہ صرف اس کی باتوں کی تصدیق کی بلکہ مزید بہت سی باتیں بتائیں۔ اس نے بتایا کہ کیتھولک پادری اسلامی تعلیمات باقاعدہ طور پر سیکھتے ہیں، بلکہ کچھ تو اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی ڈاکٹرز بھی ہوتے ہیں۔ سکپ یہ سن کر انتہائی متعجب تھا لیکن ابھی اس حیرت کدے میں بہت کچھ باقی تھا۔
گھر کے معمولات میں شامل تھا کہ رات کے کھانے کے بعد تمام افراد تھوڑی دیر بائبل سنتے اور مذہبی امور پر گفتگو کرتے۔ سکپ کے ہاتھ میں بائبل کا نیو ایڈیشن ہوتا، اس کے والد اپنی بائبل جو کنگ جیمز کا ایڈیشن تھا، وہ لے آتے، اس کی بیوی کے پاس اس کی بائبل ( گُڈ نیوز فار ماڈرن مین ) ہوتی، اور پادری کے پاس اپنی قدیم بائبل ہوتی جو پروٹسٹنٹ یعنی اسکپ کے فرقے کی بائبل سے زائد ابواب پر مشتمل تھی۔ یہ ساری کتابیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھیں۔ ان کا زیادہ تر وقت اس بحث میں گزرتا کہ کون سی بائبل میں کیا بات بیان ہوئی ہے اور کس بائبل کی کون سی بات دوسری بائبل سے زیادہ صحیح ہے۔ گھر کے تمام افراد کے ساتھ محمد المصری بھی وہاں موجود ہوتا۔ اسی دوران سکپ اسے بھی عیسائیت کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتا۔ محمد المصری اس کی ہر بات بظاہر بڑے غور سے سنتا، دھیمے سے مسکراتا مگر خاموش رہتا۔
قرآن مجید دیکھ لینے کے بعد، ایک دن سکپ نے محمد المصری سے اس کی مذہبی کتاب کے متعلق سوال کیا: “محمد! تمہاری کتاب کے کون کون سے اور کتنے ایڈیشن ہیں ؟ “
محمد نے جواب دیا: صرف ایک !
سکپ نے تعجب سے پوچھا: کیا اتنے عرصے میں اس کا دوسرا کوئی ایڈیشن نہیں چھپا؟
محمد نے بتایا: ”قرآن مجید عربی زبان میں ہے اور چودہ سو سال سے اپنی اصل حالت میں ہے۔“
پھر خلاف عادت بات کو بڑھاتے ہوئے کہنے لگا: ”دنیا کے تمام ممالک میں جہاں جہاں مسلمان موجود ہیں ہزاروں لوگ قرآن مجید کو زبانی یاد کرتے ہیں۔ خاص طور پر بچپن میں۔ جب سے یہ کتاب نازل ہوئی، بے شمار لوگوں نے اس پوری کتاب کو حفظ کیا اور دوسروں کو سکھایا ، لفظ بلفظ بغیر زیر زبر کی تبدیلی کے، آج بھی دنیا میں نوے لاکھ سے زیادہ حافظِ قرآن موجود ہیں۔“
سکپ کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا: ”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟“
سوالات اس کے ذہن پر ہتھوڑے کی طرح ضربیں لگانے لگے۔ اس نے سوچا: بائبل کی کوئی زبان نہیں۔ ہزاروں سال سے ہر زبان میں بائبل کے کئی ایڈیشن چھپتے ہیں لیکن ایک ایڈیشن دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتا؛ کیسے ممکن ہے کہ ایک کتاب کو اس کی اصل زبان میں، لفظ بلفظ کئی سو سال سے یاد کرکے سینوں میں محفوظ رکھا گیا ہو، اوراس میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی ہو؟
جاری ہے۔۔۔۔۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ماشاءاللہ۔ ام اویس بہنا۔ بہت ہی متاثر کن انداز ہے آپ کا۔ بہترین اسلامی کہانی لکھی ہے آپ نے۔ بہت خوب۔
اللہ رب العزت آپ کو جزائے خیر دے اور آپ کا قلم اسی طرح روشنی کا سفر جاری رکھے۔ آمین۔
 

سیما علی

لائبریرین
ماشاء الّلّہ بہت موثر انداز سلامت رہیے ۔پروردگار جزائے خیر عطا فرمائے۔ جیتی رہیے ڈھیر ساری دعائیں ۔
:flower::flower::flower::flower::flower:
 

ام اویس

محفلین
قسط :3
اسکپ کی زندگی میں وہ وقت بھی آیا تھا جب اسے بائبل میں موجود سنگین غلطیوں کا ادراک ہوا اور تحقیق کرنے پر وہ سمجھ چکا تھا کہ موجودہ بائبل عیسی علیہ السلام کے گزر جانے کے کئی سو سال بعد تحریر کی گئی تھی، مختلف لوگوں نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق لکھی تھی اس لیے اس میں بہت زیادہ تضاد تھا۔ وہ اکثر سوچتا تھا کہ عیسی علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں کو کرسچن کیوں کہا جاتا ہے؟
عیسی علیہ السلام نے خود کو کبھی کرسچن نہیں کہا، بلکہ طویل وقت گزر جانے کے بعد جب عیسائیت میں تبدیلیاں کی گئیں تب اسے کرسچن اور کرسچئنٹی کا نام دیا گیا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہودی نہ تو عیسی علیہ السلام کو مانتے ہیں ، نہ ان کی تعلیمات کو اور نہ ہی ان کے معجزات کو جبکہ محمد المصری نے بتایا، مسلمان عیسی علیہ السلام پر ایک پیغمبر کے طور پر ایمان لاتے ہیں۔ ان کے تمام معجزات کو تسلیم کرتے ہیں، انہیں حضرت مریم کا بیٹا اور کلمة الله مانتے ہیں۔ وہ الله کے بندے اور الله کی تخلیق ہیں کیونکہ وہ الله کہ کلمہ “کُن” (ہو جا) سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔

ایک دن حسبِ معمول رات کے کھانے سے فارغ ہو کر وہ سب اپنی اپنی بائبل لیے بیٹھے تھے کہ سکپ نے محمد المصری سے پوچھا: “تمہارا تثلیث کے متعلق کیا خیال ہے؟ “

(تثلیث سے مراد تین یا تینوں میں سے ایک کا عقیدہ ہے جو عیسائی خدا کے متعلق رکھتے ہیں یعنی وہ الله کے ساتھ حضرت عیسٰی اور مریم علیھما السلام کو بھی خدا مانتے ہیں۔ )

محمد المصری نے پوچھا: تین خدا ایک کیسے ہیں؟ پہلے آپ مجھے کسی مثال سے سمجھائیں۔

سکپ نے کہا: جیسا کہ سیب ہے۔ ایک اس کا چھلکا ، دوسرا اس کا گودا اور تیسرا اس کا بیج ، تینوں مل کر ایک سیب۔

محمد المصری نے کہا: “اور اگر اس میں زیادہ بیج ہوں یعنی ایک کی بجائے تین چار ہوں تو پھر؟ “

سکپ خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کے والد نے کہا: “میں بتاتا ہوں، جیسے ایک انڈہ ہے، اس میں ایک اس کا چھلکا، ایک سفیدی اور ایک زردی تینوں مل کر ایک”

محمد نے پوچھا: اور اگر دو زردیوں والا انڈہ ہو تو اس کا مطلب ہے چار ؟

اس بار کیتھولک پادری نے تثلیث کا عقیدہ سمجھانے کے لیے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا: یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک مرد، ایک اس کی بیوی اور ایک اس کا بیٹا، تینوں مل کر ایک فیملی ہوئے جس میں ہر ایک کی اہمیت ایک جیسی ہے۔

محمد المصری ذرا سا مسکرایا اور کہنے لگا: یہاں یعنی امریکہ میں اگر بیوی شوہر کو طلاق دے دے، تو اس کا گھر، اس کا مال ، اس کے بچے سب کچھ بیوی کے قبضے میں چلا جاتا ہے اس طرح تو بیوی کا پلڑا بھاری ہے یعنی خدا سے زیادہ اس کی بیوی طاقتور اور با اختیار ہوئی۔

کمرے میں خاموشی چھا گئی ، سب اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔

کچھ دیر کے بعد سکپ نے گویا سنبھلتے ہوئے کہا: اچھا تم بتاؤ کہ تم خدا کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہو؟

محمد المصری نے میز کے اردگرد بیٹھے تمام لوگوں پر نظر دوڑائی جو سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھ رہے تھے، پھر ہلکا سا کھنکارا او انتہائی دلکش و مسحور کن آواز میں تعوذ اور تسمیہ پڑھ کر سورة اخلاص کی تلاوت کی پھر اس کا انگلش ترجمہ سنانا شروع کیا۔
” کہہ دیجیے ! کہ الله واحد ہے ، ایک ہے ، الله ہر چیز سے بے نیاز ہے ، نہ اس کا کوئی بیٹا ہے نہ بیٹی اور نہ ہی اس کا کوئی باپ ہے اور اس کے مثل کوئی نہیں، وہ یونیک ہے۔“

واؤ ! سکپ نے دل میں کہا: کتنی خوبصورتی، جامعیت اور سادگی کے ساتھ خدا کا تعارف کروایا گیا ہے۔
محمد المصری اب خاموش تھا۔ میز پر بیٹھا ہر شخص گنگ تھا۔ دل دھڑک رہے تھے، سانسیں چل رہی تھیں اور ماحول پر پراسرار کیفی طاری تھی۔
جاری ہے۔
 

ام اویس

محفلین
روشنی کا سفر قسط: 4

دن یونہی گزرتے جا رہے، ایک دن عجیب بات ہوئی۔ پادری نے محمد سے درخواست کی کہ وہ اس کے ساتھ مسجد میں جانا چاہتا ہے اور مسلمانوں کی عبادت کا طریقہ دیکھنا چاہتا ہے۔

چنانچہ محمد المصری اسے اپنے ساتھ مسجد لے گیا۔ جب وہ دونوں واپس آئے تو اسکپ نے سرسری انداز میں پادری سے مسجد کے متعلق پوچھا؛ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ مسلمان مسجد میں جانور ذبح کرتے ہیں، بم بناتے ہیں، شور شرابا ، نعرہ بازی وغیرہ کرتے ہیں، جب پادری نے کہا: مسلمان وہاں کچھ بھی نہیں کرتے، وہ مسجد میں جاتے ہیں،نماز کے لیے صفیں بنا لیتے ہیں اور الله اکبر کہہ کر خاموش کھڑے رہتے ہیں، پھر رکوع کرتے ہیں، دو سجدے کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کرتے، اسی طرح نماز پڑھتے ہیں اور آخر میں سلام پھیر کر نمازمکمل کرتے اور اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں۔

اسکپ نے حیران ہو کر کہا: چلے جاتے ہیں؟ تقریر کرنے اور گانے بجانے کے بغیر؟

پادری نے کہا: ہاں!

سکپ اپنے چرچ کا میوزک منسٹر تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عبادت گانے بجانے کے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔

اسلام اور اس کی تعلیمات میں سکپ کی دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ ہر موقع پر محمد سے سوال کرنے لگا، کبھی جاننے کے لیے اور کبھی تنقید کے لیے۔ یہ کیسے، وہ کیسے، اسلام کیا کہتا ہے؟ عیسائیت میں کیا ہے؟

محمد المصری اس کے سوالات سن کر مسکراتا اور نرم لہجے میں اسے اسلام کے متعلق بہت سی باتیں بتاتا رہتا۔

محمد المصری نہ سگریٹ پیتا تھا، نہ شراب ، نہ جھوٹ بولتا ، نہ کسی معاملے میں بے ایمانی کرتا ، یہاں تک کہ جب وہ کسی عورت کو دیکھتا تو فورا اپنی نظریں جھکا لیتا۔ اسکپ اسے دیکھ کر کبھی کبھی سوچتا اگر آج عیسی علیہ السلام زندہ ہوتے تویہ شخص ان کا سب سے بڑا پیرو کار ہوتا۔

ایک دن کاروبار کے سلسلے میں وہ دونوں دوسرے قصبے میں گئے۔ واپسی پر رات گہری ہوچکی تھی، بیچ سڑک کے اچانک گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا اسکپ نے پریشانی کے عالم میں گاڑی ایک طرف روک لی۔ اس نے دیکھا محمد مطمئن اور پرسکون تھا اور کہہ رہا تھا “الحمد لله،قدر الله، ما شاء الله” سکپ ان الفاظ کے معنی نہیں جانتا تھا لیکن اسے محمد کے اس انداز پر رشک آیا۔ بارہا اس نے مشاہدہ کیا کہ کسی بھی مصیبت یا تکلیف سے گھبرا کر وہ شدید پریشان ہو جاتا مگر محمد مشکل سے مشکل حالات میں بھی کچھ کلمات پڑھتا رہتا ہے، اور پُرسکون رہتا ہے۔ اسکپ اسے دیکھ کر سوچتا کاش میں بھی ایسا ہی ہو جاؤں۔

اسلام کے متعلق سکپ کے سوالات بڑھتے گئے۔ کیونکہ اس کے اکثر سوالات عیسائیت اور عیسی علیہ السلام کے متعلق ہوتے جن کے جواب سن کر وہ مطمئن ہو جاتا اس لیے اب وہ کھلم کھلم محمد سے کہتا کہ تم عیسائیت قبول کر لو، محمد مسکرا کر بات بدل دیتا۔

آخر ایک دن اس نے کہا: اگر تم چاہتے ہو کہ میں عیسائیت قبول کر لوں تو تمہیں ثبوت دینا پڑے گا کہ تمہارا دین میرے دین سے بہتر ہے۔”

سکپ نے خوش ہوتے ہوئے کہا:”عیسائیت بہت آسان ہے۔ نہ تمہیں نماز پڑھنی پڑے گی نہ روزہ رکھنا ہوگا، نہ کچھ کھاتے وقت سوچنا ہوگا، نہ پیتے وقت، بس تمہیں ایک اچھا انسان بننا ہوگا۔”

محمد نرمی سے بولا: “سکپ تم میرا مطلب نہیں سمجھے، مجھے ثبوت چاہیے۔”

“ ثبوت! دین تو ماننے کا نام ہے اس میں کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔” سکپ نے جھنجلا کر جواب دیا:

محمد نے تحمل سے کہا: اسلام میں یہ دونوں خصوصیات موجود ہیں، ہم مانتے ہیں مگر ثبوت کے ساتھ، اسلام میں ہر لفظ جو کہا جاتا ہے ، ہر کلمہ جو بولا جاتا ہے، ہر کام جو کیا جاتا ہے اس کا ثبوت موجود ہے، قال الله تعالی و قال الرسول، یہی اسلام کی سچائی ہے۔ قرآن مجید میں الله نے فرمایا،بے شک ہم ہی نے اس ذکر(قرآن) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں، (الحجر) اور فرمایا: اے پیغمبر جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا اسے لوگوں تک پہنچا دو۔“ (المائدہ)

محمد نے رک کر ایک گہرا سانس لیا، پھر بولا: “خواہ ہم ان احکامات کی وجہ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں اور ان پر عمل کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں یہ ایک الگ بات ہے لیکن ہمارے پاس الله کے ان تمام احکام کا ثبوت قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی شکل میں موجود ہے، جو آج تک محفوظ چلا آرہا ہے اور ثابت شدہ حقیقت ہے۔ ”

محمد خاموش ہوگیا، سکپ بھی خاموش تھا۔یقینا وہ بائبل کے متعلق یہ دعوی نہیں کر سکتا۔

”پھر کیا محمد کا دین ہی بہتر ہے؟“ وہ سوچ میں پڑ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے
 
Top