بچوں کا اسلام

ذوالقرنین

لائبریرین
اس دھاگے میں اتوار کے روز شائع ہونے والا بچوں کا اسلام رسالے سے چیدہ چیدہ کہانیاں، حکایات، مراسلے وغیرہ مع ماخذ کے ساتھ شائع کریں گے۔
اس میں دیگر احباب بھی حصہ لے سکتے ہیں۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
کیا آپ جانتے ہیں؟
محمد شاہد خان جہاں پوری ۔ ملتان​

کس نے سب سے پہلے۔۔۔۔۔۔
:goodluck: بیت المال یا خزانے کا نظام جاری کیا۔
:goodluck: سن ہجری کا نظام قائم کیا۔
:goodluck: امیر المومنین کا لقب اختیار کیا۔
:goodluck: فوج کا باقاعدہ دفتر قائم کیا۔
:goodluck: مالی دفتر الگ قائم کیا۔
:goodluck: رضا کاروں کی تنخواہیں مقرر کیں۔
:goodluck: ملک کی پیمائش کا باقاعدہ نظام رائج کیا۔
:goodluck: مردم شماری شروع کی۔
:goodluck: نہریں کھدوائیں۔
:goodluck: اسلامی خلافت میں نئے شہر آباد کرائے۔ مثلا کوفہ، بصرہ وغیرہ۔
:goodluck: مقبوضہ علاقوں کو باقاعدہ صوبوں میں تقسیم کیا۔
:goodluck: جیل خانہ جات قائم کیا۔
:goodluck: محکمہ پولیس قائم کیا۔
:goodluck: راتوں کو گشت کرکے رعایا کا حال معلوم کرنے کا طریقہ رائج کیا۔
:goodluck: پرچہ نویس مقرر کیے۔
:goodluck: راستوں میں مسافرخانے اور کنوئیں بنوائے۔
:goodluck: غریب عیسائیوں اور یہودیوں کے وضیفے مقرر کیے۔
:goodluck: 20 رکعت نماز تراویح کا باقاعدہ طور پر جماعت کے ساتھ اہتمام کیا۔
:goodluck: تجارت کے گھوڑوں پر زکوۃ مقرر کی۔

یہ سب کام سب سے پہلے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جاری کیے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
وہ لڑکا
حافظ طلحہ اسلام - جھنگ​

رات کا پچھلا پہر تھا۔ دنیا میٹھی نیند میں تھی، دو آدمی اپنی نیند قربان کرکے شہر کا گشت لگا رہے تھے۔ ایسے میں انہیں چوک میں کوئی کھڑا نظر آیا۔ وہ سرکاری لیمپ کے نیچے کھڑا تھا۔
یہ اس کے نزدیک پہنچے تو معلوم ہوا، وہ دس بارہ سال کا ایک لڑکا ہے۔ انہوں نے دیکھا، وہ اپنا سبق یاد کر رہا تھا۔ ان میں سے ایک نے کہا:
"کیا تم دن کے وقت مدرسے میں نہیں پڑھتے کہ رات کے وقت یہاں کھڑے سبق یاد کر رہے ہو؟"
اس کی بات سن کر لڑکے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، کہنے لگا:
"میرے والد مسلمانوں کے بادشاہ کے ہمراہ جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں۔ میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہوں، میرے والد ہمارے لیے کوئی سرمایہ نہیں چھوڑ گئے۔ اس لیے میری والدہ سارا دن ٹوکریاں بناتی ہیں، میں ان کو بازار میں بیچتا ہوں۔ اس لیے دن میں میرے پاس پڑھنے کا وقت نہیں ہوتا۔ میں روزانہ صبح سویرے فجر کی نماز کے بعد محلے کے قاری صاحب سے سبق لیتا ہوں، رات کو یاد کرکے صبح انہیں سنا دیتا ہوں۔ میرا اور بادشاہ کا فیصلہ تو اللہ کی عدالت میں ہوگا۔۔۔۔ میں وہاں بادشاہ کا گریبان پکڑ کر عرض کروں گا، یا رب العزت! اس بادشاہ نے تیرے راستے میں شہید ہونے والے مجاہد کے گھرانے کی ذرا بھی خبر گیری نہیں کی۔ اس کے محل میں تو ہزار ہا چراغ جلتے تھے، لیکن مجھے گھر میں چراغ نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری لیمپ کی روشنی میں پڑھنا پڑتا تھا۔"
ان دو آدمیوں سے ایک خود بادشاہ تھا۔ وہ بچے کی باتیں سن کر بہت شرمندہ ہوا۔ اس نے آگے بڑھ کر کہا:
"میں ہی تمہارا بادشاہ ہوں۔ اے لڑکے مجھے معاف کردے۔ اگر تو نے میری شکایت اللہ تعالیٰ کے دربار میں کردی تو میں کہیں کا نہیں رہوں گا۔"
ساتھ ہی اس نے فرمان جاری کیا:
"اس بچے اور اس کی والدہ کو شاہی محل میں جگہ دی جائے، اسے شہزادوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مکتب بھیجا جائے۔"
دنیا اس بادشاہ کو سلطان محمود غزنوی کے نام سے جانتی ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
عجیب جواب
محمد نثار۔ گلشن ظہور کراچی​

خراسان میں ایک لڑکا رہتا تھا۔ وہ نسب کے اعتبار سے سید تھا، لیکن کھیل کود میں مشغول ہونے کی وجہ سے اس کے اخلاق تباہ ہو چکے تھے۔ وہ طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا تھا۔
اسی علاقے میں ایک حبشی عالم بہت پرہیز گار رہتا تھا۔ ان کی حیثیت آزاد کردہ غلام کی تھی۔ لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے، ایک روز یہ بزرگ مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ لوگوں کا ایک بڑا مجمع ان کے پیچھے تھا۔ یہ سید زادہ اچانک ان کے سامنے آگیا، نشے کی حالت میں تھا۔ لوگوں نے اس سید زادہ کو ان کے سامنے سے ہٹانا چاہا، مگر یہ نہ ہٹا۔ مجمع کو چیرتا ہوا شیخ کے سامنے پہنچا، ان کا دامن پکڑ لیا اور نہایت سخت لہجے میں بولا:
"اے سیاہ ہونٹ اور سیاہ منہ والے کافر ابن کافر! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد سے ہوں۔ مجھے ذلیل کیا جاتا ہے اور تیری عزت کی جاتی ہے۔ مجھے دھکے دیے جاتے ہیں اور تیری ہر قسم کی مدد کی جاتی ہے۔ کیوں؟؟؟"
لوگوں نے یہ کلمات سنے تو اسے مارنے کے لیے دوڑے۔ شیخ نے مشکل سے اسے بچایا اور لوگوں سے کہا:
"میں اس کی یہ سب باتیں اس کے جد امجد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاطر برداشت کرتا ہوں اور اسے معاف کرتا ہوں۔"
اس کے بعد شیخ نے اس سید زادے کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
"میں نے اپنے باطن کو پاک کر لیا اور تم نے اپنے باطن کو سیاہ کر ڈالا۔ اس لیے میرے دل کی سفیدی میرے سیاہ چہرے پر دیکھی گئی اور لوگوں کو اچھی معلوم ہوئی اور تمہارے دل کی سیاہی تمہارے سفید چہرے پر دیکھی گئی جو لوگوں کی نفرت کا سبب بنی۔ میں نے تمہارے والد کی پیروی اختیار کر لی اور تم نے میرے والد کی، تو لوگوں نے مجھے تمہارے والد کی پیروی کی حالت میں دیکھا، اور تمہیں میرے والد کی پیروی کی حالت میں۔ اس لیے انہوں نے مجھ کو تمہارے والد کا بیٹا سمجھا اور تمہیں میرے والد کا۔۔۔۔۔ تمہارے ساتھ وہ معاملہ کیا جو میرے ساتھ کرنا تھا اور میرے ساتھ وہ معاملہ کیا جو تمہارے ساتھ کرنا تھا۔"
(بحوالہ: تفسیر روح المعانی)​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
حالت کیسی ہے؟
شکیل احمد ساجد۔ مستونگ​

سلیمان بن عبدالمالک اپنے ملک کی ترقی دیکھ کر بہت خوش تھا۔ ایک روز اس نے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے کہا:
"عمر! جس حالت میں ہم ہیں، ہماری یہ حالت کیسی ہے؟"
جواب میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا:
"اے امیر المومنین! یہ خوشی کا مقام ہے؛ اگر اس میں گھمنڈ نہ ہو۔ یہ نعمت ہے؛ اگر ختم نہ ہو۔ یہ ملک ہے؛ اگر ہلاک نہ ہو۔ یہ خوشی ہے؛ اگر اس کے بعد رنج نہ ہو۔ یہ لذتیں ہیں؛ اگر اس کے ساتھ آفتیں نہ ہوں اور یہ بزرگی ہے؛ اگر اس کے ساتھ سلامتی ہو۔"
یہ سن کر سلیمان بن عبدالمالک رو پڑا۔ اتنا رویا کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
سیلاب
(محمد سلیم اختر۔ جامعہ مظاہر العلوم۔ کوٹ ادو)​

ایک لالچی شخص کے پاس ایک دودھ دینے والی گائے تھی۔ پس وہ روزانہ اس کا دودھ پانی ملا کر بیچتا تھا۔ اس طرح وہ دوگنا پیسے کما لیتا۔ اتفاق سے ایک دن وہ گائے کسی چراگاہ میں چر رہی تھی کہ اچانک سیلاب آیا اور گائے کو بہا کر لے گیا۔
وہ شخص اپنے گائے کے غم میں بیٹھا رو رہا تھا کہ اس کے بیٹے نے اس سے کہا:
"اے ابا جان! اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ وہ پانی جس کو ہم دودھ میں ملا کر بیچتے تھے، جمع ہوتے ہوتے آج ہماری گائے کو بہا کر لے گیا۔"
 
Top