سناؤ۔
میں ڈورا کرسٹی کے مکان کی نگرانی کررہا تھا کہ اچانک ایک گاڑی رکی اور اس پر سے وہی ہپی اترا اور مکان کے اندر چلاگیا۔۔۔ اُسے دیکھ کر میں ڈوڈونیا کی باڑھ کے پیچھے چھپ گیا۔ اور اُس کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ باہر نکلا۔۔۔ اور ڈورا کرسٹی ساتھ تھی۔ دونوں گاڑی کے قریب آکھڑے ہوئے تھے۔ ہپی اُسے کہیں لے جانا چاہتا تھا۔ لیکن وہ برابر کہے جارہی تھی جہاں بھی بتاؤ تین گھنٹے بعد پہنچ جاؤں گی۔ تین گھنٹے تک بے حد مصروف ہوں۔۔۔ تب ہپی نے کہا تھا کہ وہ رات بھر گرین ہٹس کے ہٹ نمبر تین سو گیارہ میں رہے گا۔۔۔ جب بھی اسے فرصت ملے وہاں پہنچ جائے۔
خوب۔۔۔! ڈھمپ سر ہلا کر بولا۔ یہ کام کتنے معاوضے پر کرتے۔؟
اگر تم اس کے ہاتھ آجاتے تو پورے پانچ ہزار۔۔۔۔ ایک ہزار پیشگی دیا ہے۔
بہت مہنگے ہوتے جارہے ہو۔
ساجد کچھ نہ بولا۔ پھر زور زور سے پیٹ پیٹنے لگاتھا۔
کوئی فائدہ نہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہوسکتا۔
ساجد اٹھ بیٹھا اور بولا۔ اب مجھے جانے دو۔
جب تک وہ ہاتھ نہ آجائے یہ ناممکن ہے۔
ارے تو کیا اب میری نوکری بھی جائے گی۔
چھ ماہ بعد بھی جاؤ گے تو نوکری برقرار رہے ملے گی۔
یہ کیسے ممکن ہے؟
میرا ذمہ۔۔۔ سلمانی تمہیں برخواست نہیں کرسکتا۔! اچھا بس اب چپ چاپ پڑے رہو۔۔۔ یہاں تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔
اُس کمرے سے نکل کر عمران نے ریڈی میڈ میک اپ اتارا تھا اور بلیک زیرو کے کمرے کی طرف چل پڑا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں موجود تھا۔
کیا رہا۔۔۔ عمران نے پوچھا۔
ہمارا تعاقب نہیں کیا گیا۔ دور دور تک کسی کا پتا نہیں تھا۔
ٹھیک ہے۔
عمران نے گھڑٰ دیکھی۔ ساڑھے بارہ بجے تھے۔ فون کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ پتا نہیں یہ دونوں نالائق گھر پر موجود بھی ہیں یا نہیں۔
اس نے ظفرالملک کے نمبر ڈائل کیے تھے۔
ہیلو۔۔۔ دوسری طرف سے آواز آئی۔
جاگ رہے ہو۔
جی ہاں فرمائیے۔
جیمسن کہاں ہے۔
غالباً سوگیا۔
جگا کر فون پر بھیجو۔
بہت بہتر۔
تھوڑی دیر بعد جیمسن کی بھرائی ہوئی سی آواز آئی تھی۔ یس یور میجسٹی۔
پہلے پوری طرح بیدار ہوجاؤ۔
جاگ ہی رہا تھا۔۔۔ آجکل رات کی نیند دوپہر کو آتی ہے۔
گرین ہٹس کے ہٹ نمبر تین سو گیارہ کے بارے میں ایک بار تم نے مجھے کوئی خاص بات بتائی تھی جو اب یاد نہیں آرہی۔
ہٹ نمبر تین سو گیارہ۔۔۔۔ جی ہاں وہ ہپیوں کا کلب ہے۔
تمہیں اور ظفر کو وہاں پہنچنا ہے! جتنی جلدی ممکن ہو اور اب ریسیور ظفر کو دے دو۔
جناب۔۔۔! ظفر کی آواز آئی تھی۔ اور عمران اُسے ہٹ نمبر تین سو گیارہ سے متعلق ہدایات دیتا رہا تھا۔ ریسیور رکھ بلیک زیرو کی طرف مڑا۔
تم میرے ساتھ آؤ۔۔۔! اُس نے کہا تھا۔
کیپٹن فیاض نے سر شام ہی ماما کی لاش دریافت کرلی تھی۔۔۔ اور مسٹر تصدق نے اُس کی شاخت بھی کی تھی۔
قریباً دس بجے شب کو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ مل گئی تھی جس کے مطابق موت واقع ہونے کے وقت کا تعین اُسی دن دو بجے سہ پہر کو کیا گیا تھا۔ اور موت کی وجہ زہر خوانی تھی۔
فیاض رپورٹ لے کر رحمان صاحب کے پاس پہنچا۔ وہ گھر ہی پر موجود تھے! رپورٹ پیش کرکے خاموش بیٹھا رہا۔
کم از کم اس موت کا تعلق بیگم تصدق سے ہرگز نہیں ہوسکتا۔ رحمان صاحب رپورٹ دیکھ چکنے کے بعد بولے تھے۔ کیونکہ انہیں کل ہی حراست میں لیا گیا تھا۔
تھوڑی دیر خاموش رہ کر انھوں نے کہا تھا۔ معدے میں غذا پائی گئی ہے وہ کسی بڑے ہی دستر خوان کی معلوم ہوتی ہے۔۔۔ لیکن لاش ملی ویرانے میں ہے۔۔۔ خود زپر کھا کر ویرانے کی راہ لینا سمجھ میں نہیں آتا۔
نہیں صاحب! صاف ظاہر ہے کہ لاش ویرانے میں پھینکوائی گئی تھی۔ فیاض بولا۔
شہزور کے بارے میں کیا معلومات حاصل کیں۔
وجود ہے اس کا۔۔۔۔۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں رہتا ہے۔
کیا اُس کا کوئی آدمی ہاتھ لگا ہے۔
چار آدمی۔۔۔۔۔ اور وہ چاروں منشیات کی غیر قانونی تجارت میں ملوث ہیں۔
اوہ۔
اور جناب۔۔۔۔۔ یہ مجھے خاصا طاقتور اور سائنٹی فک طور پر منظم کیا ہوا گروہ لگتا ہے۔
یہ کس بناء پر کہہ رہے ہو۔؟
ان میں سے تین پہلے بھی کئی بار گرفتار ہوکر سزا پاچکے ہیں لیکن کسی شہزور کا نام ان کی زبانوں پر نہیں آیا تھا۔ اس بار خاصی کدوکاوش کے بعد ان سے اگلوایا جاسکا ہے۔ وہ بھی اس لئے کہ ہم کسی شہزور کے وجود سے آگاہ ہوچکے تھے۔
رحمان صاحب نے پرتفکر انداز میں سر کو جنبش دی ۔
اور اس دریافت کا سہرا عمران کے سر ہے۔ فیاض بولا۔
لیکن یہ دھماکے جو شہر کے مختلف حصوں میں ہوئے ہیں اگر انہیں شہزور سے منسوب کیا جائے تو کیا وہ اول درجے کا احمق ثابت نہیں ہوتا۔
ابتدا آپ کی کوٹھی کے دھماکے سے ہوئی تھی۔
ہوں تو پھر۔
عمران کے خیال کے مطابق اس کا مقصد یہی تھاکہ۔
عمران کا نام مت لو۔۔۔ رحمان صاحب ہاتھ اٹھا کر بولے۔ اپنے نقطہ نظر سے حالات کا جائزہ لو۔
میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ دھماکے اس لئے ہوتے رہے ہیں کہ ہماری توجہ کسی خاص معاملے سے اُن دھماکوں کی طرف مبذول ہوجائے۔
ناولوں کی کہانیاں مت دہراؤ۔! رحمان صاحب برا سا منہ بنا کر بولے۔
تب پھر مجھے ازسر نو غور کرنا پڑے گا۔ فیاض نے جان چھڑانے کے لئے کہا۔
ویسے تہہ دل سے عمران کے نظریئے پر ایمان لے آیا تھا۔
یہی بہتر ہوگا۔! رحمان صاحب نے کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
اب اجازت دیجئے۔! فیاض اٹھتا ہوا بولا۔
شب بخیر۔
وہاں سے نکل کر گھر کی راہ لی تھی۔ عمران سے رابطہ قائم کرنے کے لئے بے چین تھا۔ لیکن کوئی صورت ایسی نہیں تھی جس کی بنا پر یہ ممکن ہوتا۔
گھر پہنچ کر دیر تک ڈرائینگ روم میں بیٹھا رہا تھا۔۔۔۔۔ پھر خواب گاہ میں چلا آیا تھا۔ ان دنوں بیوی اپنے والدین کے گھر گئی ہوئی تھی اس لئے ہر طرح کی بے قاعدگیاں جاری رہتی تھیں۔
کوٹ اتار کر کرسی پر ڈالا تھا اور جوتوں سمیت بستر پر گرگیا تھا۔۔۔۔ اور پھر ذرا سی ہی دیر میں خراٹے بھی شروع ہوگئے تھے۔۔۔۔ پھر شائد ایک گھنٹہ بھی نہیں گذرا تھا کہ فون کی گھنٹی کا شور خواب گاہ کی محدود فضا میں گونجنے لگا تھا۔
بوکھلا کر اٹھ بیٹھا! پہلے تو سمجھ میں نہ آیا کہ آنکھ کیونکر کھلی ہے۔ پھر کسی قسم کے شور کا احساس ہوا تھا! پھر نیند کا غبار چھٹ گیا اور گھنٹی کی آواز واضح ہوتی گئی۔ جھپٹ کر ریسیور اٹھایا اور ماؤتھ پیس میں دھاڑا تھا۔ ہیلوووو۔
کیا آسمان گر پڑا ہے سر پر۔! دوسری طرف سے آواز آئی۔
کک۔۔۔۔۔ کون ہے۔۔۔۔۔ ہالو۔۔۔۔۔ عمران، عمران۔
پہلے پوری طرح ہوش میں آجاؤ۔
اوہ۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ کیا بات ہے۔
یاسمین اور اس کی بہن کی اموات کا معمہ حل کرنا چاہتے ہو۔
کیوں نہیں۔ کیوں نہیں۔! ماما کی لاش بھی مل گئی ہے۔
کہاں اور کب۔؟
آج شام چھ بجے۔۔۔ ہائی وے کے دسویں میل پر جھاڑیوں میں۔۔۔ ایک ٹرک ڈرائیور نے اطلاع دی تھی اور وہ بھی زیر ہی سے مری ہے۔
موت کے وقت کا تعین ہوسکا یا ابھی نہیں۔؟
ہوگیا ہے۔۔۔ آج دوبجے سہ پہر۔
اور بیگم تصدق کل حراست میں لی گئی تھیں۔
خوامخواہ ۔۔۔ میں تو اس حق میں نہیں تھا۔۔۔ لیکن ڈی جی صاحب۔
کوئی بات نہیں۔۔۔ ہاں تو اگر تم کریڈٹ لینا چاہتے ہو تو بستر چھوڑدو۔
کوئی خاص بات۔
خاص الخاص۔ کچھ سادہ پوش بھی ساتھ لے لینا۔ گرین ہٹس کی طرف آؤ۔۔۔ تین سو گیارہ نمبر کے ہٹ پر نظر رکھنا۔ لیکن وہاں بھیڑ سے الگ رہ کر۔
وہاں کیا ہے۔؟
بھینس کے پائے پک رہے ہیں۔۔۔۔ تنوری روٹیاں اپنی لانا۔
یار سنجیدگی اختیار کرو۔
اتنی سنجیدگی تو نہیں اختیار کرسکتا کہ بیوی کی کمی پوری ہوجائے۔
اف۔۔۔۔۔ فوہ۔
وقت ضائع نہ کرو۔۔۔۔۔ جو کچھ کہا گیا ہے اُس پر عمل کرو۔
پوری بات معلوم کئے بغیر ہلوں گا بھی نہیں۔
جہنم میں جاؤ۔۔۔ کہہ کر سلسلہ منقطع کردیا گیا۔
فیاض نے برا سا منہ بناکر ریسیور کریڈل پر رکھ دیا تھا۔
ساحل کا یہ حصہ ریتلا نہیں تھا۔ سنگلاخ چٹانوں کا سیاہی مائل سلسلہ دور تک پانی میں اترتا چلا گیا تھا۔ اور انہی چٹانوں کے درمیان وہ عمارت واقع تھی۔۔۔ اور ہر چند کہ گرین ہٹس والی آبادی یہاں سے خاصے فاصلے پر تھی لیکن اس کا شمار اسی آبادی میں ہوتا تھا اور ہٹس کے سلسلے میں آخری عمارت سمجھی جاتی تھی۔۔۔ یعنی ہٹ نمبر تین سو گیارہ۔۔۔ خاصی بڑی عمارت تھی۔۔۔ بہت سے کمروں والی لیکن کہلاتی تھی "ہٹ" ہی۔
اس کے گرد خاردار تاروں سے بہت بڑے رقبے کو اس طرح گھیرلیا گیا تھا کہ عمارت وسط میں آگئی تھی اور اس گھیرے میں سرشام ہی بڑی بڑی مشعلیں روشن کردی جاتی تھیں۔۔۔ اور ہپیوں کے گروہ کھلے آسمان کے نیچے مشعلوں کی سرخ روشنی میں نشے پانی کے ساتھ غل غپاڑا مچایا کرےت تھے۔
عمارت کے اندر ایک بڑا ہال تھا جہاں رقص و موسیقی کی محفلیں جمتی تھیں اور یہ ڈائینگ ہال کی حیثیت بھی رکھتا تھا۔ اوپری منزل پر رہائشی کمرے تھے! جہاں کم حیثیت والے غیر ملکی سیاح قیام کرتے تھے۔ اور کم مایہ ہپی عورتیں انہیں کمروں میں مقامی آدمیوں سے اپنے دوسرے دن کے اخراجات وصول کرتی تھیں۔
بہرحال کاغذات پر یہ عمارت ایک اقامتی ہوٹل کی حیثیت رکھتی تھی۔
بظاہر دلاور خان نامی ایک آدمی اس کا مالک تھا لیکن حقیقتاً یہ بھی شہزور ہی کی تجارتی تنظیم کی ایک شاخ تھی۔
گرین بیچ ہوٹل اور اور ہٹ نمبر تین سو گیارہ کے درمیان چھ فرلانگ کا فاصلہ تھا۔ لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ دونوں کا تعلق کسی ایک ہی تنظیم سے ہوگا۔
سورج غروب ہوتے ہی ہٹ نمبر تین سو گیارہ کے خاردار تاروں والے احاطے میں یپیوں کی بھیڑ نظر آنے لگتی تھی۔ اور عمارت کی روشن کھڑکیاں دور سے ایسی لگتیں جیسے اُن شکستہ حال دو پایوں کو بڑی حقارت سے دیکھ رہی ہوں۔۔۔ کیونکہ وہ عمارت کے اندر اُسی صورت میں قدم رکھ سکتے تھے جب اُن کی عورتیں مقامی گاہکوں کے لئے تیار ہوں۔
ضرورت مند غیر ملکی ہپی عورتیں احاطے ہی میں ایسے مقامیوں کی تلاش شروع کردتی تھیں جو انہیں ڈائینگ ہال میں چلنے کی دعوت دے سکیں۔
ظفر اور جیمسن قریباً ڈیڑھ بجے وہاں پہنچ سکے تھے ان صاف ستھرے ہپیوں کو دیکھ کر کئی عورتیں ان کی طرف جھپٹی تھیں۔
میں یہاں کبھی نہیں آیا۔ ظفرالملک بولا۔
میں ایسی جگہوں پر تنہا آتا ہوں یور ہائی نس۔
اب انہیں سنبھالو۔
ایک آدھ کو تو ساتھ لینا ہی پڑے گا۔۔۔۔۔ ورنہ ڈائینگ ہال میں احمق لگیں گے۔
ذرا صاف ستھری۔! ظفر بولا۔
صاف ستھری یہاں کیوں آنے لگی۔۔۔ اوہو۔۔۔ مگر ٹھہریئے۔۔۔! تین چار عورتوں نے انہیں گھیر لیا تھا۔
نہیں ہم یہاں سروے کرنے آئے ہیں۔ جیمسن نے انہیں سامنے سے ہٹا کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
کس قسم کا سروے ڈارلنگ۔! ان میں سے ایک نے جیمسن کے چہرے کے قریب انگلی نجا کر پوچھا۔
ہر کھوپڑی میں کتنی جوئیں پائیں جاتی ہیں۔
وہ اُسے گندی سی گالی دیے کر پیچھے ہٹ گئی تھی۔
یہاں کے لارڈ کا بھتیجا معلوم ہوتا ہے۔ دوسری نے کہا۔
نہیں! براہِ راست آسمان سے یہاں اترا ہے۔ تیسری بولی۔
جہنم میں جائے۔۔۔۔۔ چھوتھی نے کہا۔۔۔۔۔ اور راستہ صاف ہوگیا۔
وہ آگے بڑھے اور پھر اچانک جیمسن رک گیا تھا۔ اس کی نظر ایک دیسی یپی لڑکی پر جم گئی تھی۔
کیا بات ہے؟ ظفر بولا۔
ذرا اسے دیکھئے۔
دیکھ رہا ہوں۔
کوئی خاص بات مارک کی آپ نے۔
ہاں! دو ناکوں والی ہے۔! ظفر جھنجھلا کر بولا۔
مذاق نہیں! غور سے دیکھئے۔۔۔ آپ نے اخبارات میں اُس لڑکی کی تصویر دیکھی ہوگی۔ کیا نام تھا اس کا۔۔۔ یاسمین۔۔۔ وہ یونیورسٹی کی طالبہ جس کی دوا کی شیشی میں زہریلی ٹکیاں شامل کردی تھیں کسی نے۔
ٹھیک کہتے ہو۔۔۔ ہوبہو۔۔۔ وہی لگتی ہے۔
اور تنہا بھی ہے۔۔۔ اوہ۔۔۔ اب ہمیں دیکھ رہی ہے۔! ارے وہ تو ادھر ہی آرہی ہے۔
کیا اندر چلنے کا ارادہ ہے۔ اُس نے قریب پہنچ کر انہیں اردو میں مخاطب کیا تھا۔
ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔جیمسن تھوگ نکل کر بولا۔
تو پھر آؤ۔۔۔ اس نے جیمسن کے بازر میں ہاتھ ڈال دیا تھا! ظفر نے شانوں کو جنبش دی اور ان کے پیچھے چلنے لگا۔
ہال میں زیادہ تر میزیں گھری ہوئی تھیں اور ایک نیم عریاں غیر ملکی عورت ان کے درمیان تھرکتی پھر رہی تھی۔ مائیکرو فون سے طربیہ موسیقی نشر ہورہی تھی۔
انہوں نے ایک میز سنبھالی۔ لڑکی بیٹھتے ہی بولی۔ میرے لئے تو شیری منگوادو۔۔۔۔ اور اگر تم لوگ بکری کے دودھ سے بھی شغل کرو تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
کوئی دخانی نشہ نہیں کرو گی۔! جیمسن نے پوچھا۔
دخانی کیا ہوتا ہے۔؟
میں ڈورا کرسٹی کے مکان کی نگرانی کررہا تھا کہ اچانک ایک گاڑی رکی اور اس پر سے وہی ہپی اترا اور مکان کے اندر چلاگیا۔۔۔ اُسے دیکھ کر میں ڈوڈونیا کی باڑھ کے پیچھے چھپ گیا۔ اور اُس کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ باہر نکلا۔۔۔ اور ڈورا کرسٹی ساتھ تھی۔ دونوں گاڑی کے قریب آکھڑے ہوئے تھے۔ ہپی اُسے کہیں لے جانا چاہتا تھا۔ لیکن وہ برابر کہے جارہی تھی جہاں بھی بتاؤ تین گھنٹے بعد پہنچ جاؤں گی۔ تین گھنٹے تک بے حد مصروف ہوں۔۔۔ تب ہپی نے کہا تھا کہ وہ رات بھر گرین ہٹس کے ہٹ نمبر تین سو گیارہ میں رہے گا۔۔۔ جب بھی اسے فرصت ملے وہاں پہنچ جائے۔
خوب۔۔۔! ڈھمپ سر ہلا کر بولا۔ یہ کام کتنے معاوضے پر کرتے۔؟
اگر تم اس کے ہاتھ آجاتے تو پورے پانچ ہزار۔۔۔۔ ایک ہزار پیشگی دیا ہے۔
بہت مہنگے ہوتے جارہے ہو۔
ساجد کچھ نہ بولا۔ پھر زور زور سے پیٹ پیٹنے لگاتھا۔
کوئی فائدہ نہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہوسکتا۔
ساجد اٹھ بیٹھا اور بولا۔ اب مجھے جانے دو۔
جب تک وہ ہاتھ نہ آجائے یہ ناممکن ہے۔
ارے تو کیا اب میری نوکری بھی جائے گی۔
چھ ماہ بعد بھی جاؤ گے تو نوکری برقرار رہے ملے گی۔
یہ کیسے ممکن ہے؟
میرا ذمہ۔۔۔ سلمانی تمہیں برخواست نہیں کرسکتا۔! اچھا بس اب چپ چاپ پڑے رہو۔۔۔ یہاں تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔
اُس کمرے سے نکل کر عمران نے ریڈی میڈ میک اپ اتارا تھا اور بلیک زیرو کے کمرے کی طرف چل پڑا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں موجود تھا۔
کیا رہا۔۔۔ عمران نے پوچھا۔
ہمارا تعاقب نہیں کیا گیا۔ دور دور تک کسی کا پتا نہیں تھا۔
ٹھیک ہے۔
عمران نے گھڑٰ دیکھی۔ ساڑھے بارہ بجے تھے۔ فون کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ پتا نہیں یہ دونوں نالائق گھر پر موجود بھی ہیں یا نہیں۔
اس نے ظفرالملک کے نمبر ڈائل کیے تھے۔
ہیلو۔۔۔ دوسری طرف سے آواز آئی۔
جاگ رہے ہو۔
جی ہاں فرمائیے۔
جیمسن کہاں ہے۔
غالباً سوگیا۔
جگا کر فون پر بھیجو۔
بہت بہتر۔
تھوڑی دیر بعد جیمسن کی بھرائی ہوئی سی آواز آئی تھی۔ یس یور میجسٹی۔
پہلے پوری طرح بیدار ہوجاؤ۔
جاگ ہی رہا تھا۔۔۔ آجکل رات کی نیند دوپہر کو آتی ہے۔
گرین ہٹس کے ہٹ نمبر تین سو گیارہ کے بارے میں ایک بار تم نے مجھے کوئی خاص بات بتائی تھی جو اب یاد نہیں آرہی۔
ہٹ نمبر تین سو گیارہ۔۔۔۔ جی ہاں وہ ہپیوں کا کلب ہے۔
تمہیں اور ظفر کو وہاں پہنچنا ہے! جتنی جلدی ممکن ہو اور اب ریسیور ظفر کو دے دو۔
جناب۔۔۔! ظفر کی آواز آئی تھی۔ اور عمران اُسے ہٹ نمبر تین سو گیارہ سے متعلق ہدایات دیتا رہا تھا۔ ریسیور رکھ بلیک زیرو کی طرف مڑا۔
تم میرے ساتھ آؤ۔۔۔! اُس نے کہا تھا۔
کیپٹن فیاض نے سر شام ہی ماما کی لاش دریافت کرلی تھی۔۔۔ اور مسٹر تصدق نے اُس کی شاخت بھی کی تھی۔
قریباً دس بجے شب کو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ مل گئی تھی جس کے مطابق موت واقع ہونے کے وقت کا تعین اُسی دن دو بجے سہ پہر کو کیا گیا تھا۔ اور موت کی وجہ زہر خوانی تھی۔
فیاض رپورٹ لے کر رحمان صاحب کے پاس پہنچا۔ وہ گھر ہی پر موجود تھے! رپورٹ پیش کرکے خاموش بیٹھا رہا۔
کم از کم اس موت کا تعلق بیگم تصدق سے ہرگز نہیں ہوسکتا۔ رحمان صاحب رپورٹ دیکھ چکنے کے بعد بولے تھے۔ کیونکہ انہیں کل ہی حراست میں لیا گیا تھا۔
تھوڑی دیر خاموش رہ کر انھوں نے کہا تھا۔ معدے میں غذا پائی گئی ہے وہ کسی بڑے ہی دستر خوان کی معلوم ہوتی ہے۔۔۔ لیکن لاش ملی ویرانے میں ہے۔۔۔ خود زپر کھا کر ویرانے کی راہ لینا سمجھ میں نہیں آتا۔
نہیں صاحب! صاف ظاہر ہے کہ لاش ویرانے میں پھینکوائی گئی تھی۔ فیاض بولا۔
شہزور کے بارے میں کیا معلومات حاصل کیں۔
وجود ہے اس کا۔۔۔۔۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں رہتا ہے۔
کیا اُس کا کوئی آدمی ہاتھ لگا ہے۔
چار آدمی۔۔۔۔۔ اور وہ چاروں منشیات کی غیر قانونی تجارت میں ملوث ہیں۔
اوہ۔
اور جناب۔۔۔۔۔ یہ مجھے خاصا طاقتور اور سائنٹی فک طور پر منظم کیا ہوا گروہ لگتا ہے۔
یہ کس بناء پر کہہ رہے ہو۔؟
ان میں سے تین پہلے بھی کئی بار گرفتار ہوکر سزا پاچکے ہیں لیکن کسی شہزور کا نام ان کی زبانوں پر نہیں آیا تھا۔ اس بار خاصی کدوکاوش کے بعد ان سے اگلوایا جاسکا ہے۔ وہ بھی اس لئے کہ ہم کسی شہزور کے وجود سے آگاہ ہوچکے تھے۔
رحمان صاحب نے پرتفکر انداز میں سر کو جنبش دی ۔
اور اس دریافت کا سہرا عمران کے سر ہے۔ فیاض بولا۔
لیکن یہ دھماکے جو شہر کے مختلف حصوں میں ہوئے ہیں اگر انہیں شہزور سے منسوب کیا جائے تو کیا وہ اول درجے کا احمق ثابت نہیں ہوتا۔
ابتدا آپ کی کوٹھی کے دھماکے سے ہوئی تھی۔
ہوں تو پھر۔
عمران کے خیال کے مطابق اس کا مقصد یہی تھاکہ۔
عمران کا نام مت لو۔۔۔ رحمان صاحب ہاتھ اٹھا کر بولے۔ اپنے نقطہ نظر سے حالات کا جائزہ لو۔
میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ دھماکے اس لئے ہوتے رہے ہیں کہ ہماری توجہ کسی خاص معاملے سے اُن دھماکوں کی طرف مبذول ہوجائے۔
ناولوں کی کہانیاں مت دہراؤ۔! رحمان صاحب برا سا منہ بنا کر بولے۔
تب پھر مجھے ازسر نو غور کرنا پڑے گا۔ فیاض نے جان چھڑانے کے لئے کہا۔
ویسے تہہ دل سے عمران کے نظریئے پر ایمان لے آیا تھا۔
یہی بہتر ہوگا۔! رحمان صاحب نے کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
اب اجازت دیجئے۔! فیاض اٹھتا ہوا بولا۔
شب بخیر۔
وہاں سے نکل کر گھر کی راہ لی تھی۔ عمران سے رابطہ قائم کرنے کے لئے بے چین تھا۔ لیکن کوئی صورت ایسی نہیں تھی جس کی بنا پر یہ ممکن ہوتا۔
گھر پہنچ کر دیر تک ڈرائینگ روم میں بیٹھا رہا تھا۔۔۔۔۔ پھر خواب گاہ میں چلا آیا تھا۔ ان دنوں بیوی اپنے والدین کے گھر گئی ہوئی تھی اس لئے ہر طرح کی بے قاعدگیاں جاری رہتی تھیں۔
کوٹ اتار کر کرسی پر ڈالا تھا اور جوتوں سمیت بستر پر گرگیا تھا۔۔۔۔ اور پھر ذرا سی ہی دیر میں خراٹے بھی شروع ہوگئے تھے۔۔۔۔ پھر شائد ایک گھنٹہ بھی نہیں گذرا تھا کہ فون کی گھنٹی کا شور خواب گاہ کی محدود فضا میں گونجنے لگا تھا۔
بوکھلا کر اٹھ بیٹھا! پہلے تو سمجھ میں نہ آیا کہ آنکھ کیونکر کھلی ہے۔ پھر کسی قسم کے شور کا احساس ہوا تھا! پھر نیند کا غبار چھٹ گیا اور گھنٹی کی آواز واضح ہوتی گئی۔ جھپٹ کر ریسیور اٹھایا اور ماؤتھ پیس میں دھاڑا تھا۔ ہیلوووو۔
کیا آسمان گر پڑا ہے سر پر۔! دوسری طرف سے آواز آئی۔
کک۔۔۔۔۔ کون ہے۔۔۔۔۔ ہالو۔۔۔۔۔ عمران، عمران۔
پہلے پوری طرح ہوش میں آجاؤ۔
اوہ۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ کیا بات ہے۔
یاسمین اور اس کی بہن کی اموات کا معمہ حل کرنا چاہتے ہو۔
کیوں نہیں۔ کیوں نہیں۔! ماما کی لاش بھی مل گئی ہے۔
کہاں اور کب۔؟
آج شام چھ بجے۔۔۔ ہائی وے کے دسویں میل پر جھاڑیوں میں۔۔۔ ایک ٹرک ڈرائیور نے اطلاع دی تھی اور وہ بھی زیر ہی سے مری ہے۔
موت کے وقت کا تعین ہوسکا یا ابھی نہیں۔؟
ہوگیا ہے۔۔۔ آج دوبجے سہ پہر۔
اور بیگم تصدق کل حراست میں لی گئی تھیں۔
خوامخواہ ۔۔۔ میں تو اس حق میں نہیں تھا۔۔۔ لیکن ڈی جی صاحب۔
کوئی بات نہیں۔۔۔ ہاں تو اگر تم کریڈٹ لینا چاہتے ہو تو بستر چھوڑدو۔
کوئی خاص بات۔
خاص الخاص۔ کچھ سادہ پوش بھی ساتھ لے لینا۔ گرین ہٹس کی طرف آؤ۔۔۔ تین سو گیارہ نمبر کے ہٹ پر نظر رکھنا۔ لیکن وہاں بھیڑ سے الگ رہ کر۔
وہاں کیا ہے۔؟
بھینس کے پائے پک رہے ہیں۔۔۔۔ تنوری روٹیاں اپنی لانا۔
یار سنجیدگی اختیار کرو۔
اتنی سنجیدگی تو نہیں اختیار کرسکتا کہ بیوی کی کمی پوری ہوجائے۔
اف۔۔۔۔۔ فوہ۔
وقت ضائع نہ کرو۔۔۔۔۔ جو کچھ کہا گیا ہے اُس پر عمل کرو۔
پوری بات معلوم کئے بغیر ہلوں گا بھی نہیں۔
جہنم میں جاؤ۔۔۔ کہہ کر سلسلہ منقطع کردیا گیا۔
فیاض نے برا سا منہ بناکر ریسیور کریڈل پر رکھ دیا تھا۔
ساحل کا یہ حصہ ریتلا نہیں تھا۔ سنگلاخ چٹانوں کا سیاہی مائل سلسلہ دور تک پانی میں اترتا چلا گیا تھا۔ اور انہی چٹانوں کے درمیان وہ عمارت واقع تھی۔۔۔ اور ہر چند کہ گرین ہٹس والی آبادی یہاں سے خاصے فاصلے پر تھی لیکن اس کا شمار اسی آبادی میں ہوتا تھا اور ہٹس کے سلسلے میں آخری عمارت سمجھی جاتی تھی۔۔۔ یعنی ہٹ نمبر تین سو گیارہ۔۔۔ خاصی بڑی عمارت تھی۔۔۔ بہت سے کمروں والی لیکن کہلاتی تھی "ہٹ" ہی۔
اس کے گرد خاردار تاروں سے بہت بڑے رقبے کو اس طرح گھیرلیا گیا تھا کہ عمارت وسط میں آگئی تھی اور اس گھیرے میں سرشام ہی بڑی بڑی مشعلیں روشن کردی جاتی تھیں۔۔۔ اور ہپیوں کے گروہ کھلے آسمان کے نیچے مشعلوں کی سرخ روشنی میں نشے پانی کے ساتھ غل غپاڑا مچایا کرےت تھے۔
عمارت کے اندر ایک بڑا ہال تھا جہاں رقص و موسیقی کی محفلیں جمتی تھیں اور یہ ڈائینگ ہال کی حیثیت بھی رکھتا تھا۔ اوپری منزل پر رہائشی کمرے تھے! جہاں کم حیثیت والے غیر ملکی سیاح قیام کرتے تھے۔ اور کم مایہ ہپی عورتیں انہیں کمروں میں مقامی آدمیوں سے اپنے دوسرے دن کے اخراجات وصول کرتی تھیں۔
بہرحال کاغذات پر یہ عمارت ایک اقامتی ہوٹل کی حیثیت رکھتی تھی۔
بظاہر دلاور خان نامی ایک آدمی اس کا مالک تھا لیکن حقیقتاً یہ بھی شہزور ہی کی تجارتی تنظیم کی ایک شاخ تھی۔
گرین بیچ ہوٹل اور اور ہٹ نمبر تین سو گیارہ کے درمیان چھ فرلانگ کا فاصلہ تھا۔ لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ دونوں کا تعلق کسی ایک ہی تنظیم سے ہوگا۔
سورج غروب ہوتے ہی ہٹ نمبر تین سو گیارہ کے خاردار تاروں والے احاطے میں یپیوں کی بھیڑ نظر آنے لگتی تھی۔ اور عمارت کی روشن کھڑکیاں دور سے ایسی لگتیں جیسے اُن شکستہ حال دو پایوں کو بڑی حقارت سے دیکھ رہی ہوں۔۔۔ کیونکہ وہ عمارت کے اندر اُسی صورت میں قدم رکھ سکتے تھے جب اُن کی عورتیں مقامی گاہکوں کے لئے تیار ہوں۔
ضرورت مند غیر ملکی ہپی عورتیں احاطے ہی میں ایسے مقامیوں کی تلاش شروع کردتی تھیں جو انہیں ڈائینگ ہال میں چلنے کی دعوت دے سکیں۔
ظفر اور جیمسن قریباً ڈیڑھ بجے وہاں پہنچ سکے تھے ان صاف ستھرے ہپیوں کو دیکھ کر کئی عورتیں ان کی طرف جھپٹی تھیں۔
میں یہاں کبھی نہیں آیا۔ ظفرالملک بولا۔
میں ایسی جگہوں پر تنہا آتا ہوں یور ہائی نس۔
اب انہیں سنبھالو۔
ایک آدھ کو تو ساتھ لینا ہی پڑے گا۔۔۔۔۔ ورنہ ڈائینگ ہال میں احمق لگیں گے۔
ذرا صاف ستھری۔! ظفر بولا۔
صاف ستھری یہاں کیوں آنے لگی۔۔۔ اوہو۔۔۔ مگر ٹھہریئے۔۔۔! تین چار عورتوں نے انہیں گھیر لیا تھا۔
نہیں ہم یہاں سروے کرنے آئے ہیں۔ جیمسن نے انہیں سامنے سے ہٹا کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
کس قسم کا سروے ڈارلنگ۔! ان میں سے ایک نے جیمسن کے چہرے کے قریب انگلی نجا کر پوچھا۔
ہر کھوپڑی میں کتنی جوئیں پائیں جاتی ہیں۔
وہ اُسے گندی سی گالی دیے کر پیچھے ہٹ گئی تھی۔
یہاں کے لارڈ کا بھتیجا معلوم ہوتا ہے۔ دوسری نے کہا۔
نہیں! براہِ راست آسمان سے یہاں اترا ہے۔ تیسری بولی۔
جہنم میں جائے۔۔۔۔۔ چھوتھی نے کہا۔۔۔۔۔ اور راستہ صاف ہوگیا۔
وہ آگے بڑھے اور پھر اچانک جیمسن رک گیا تھا۔ اس کی نظر ایک دیسی یپی لڑکی پر جم گئی تھی۔
کیا بات ہے؟ ظفر بولا۔
ذرا اسے دیکھئے۔
دیکھ رہا ہوں۔
کوئی خاص بات مارک کی آپ نے۔
ہاں! دو ناکوں والی ہے۔! ظفر جھنجھلا کر بولا۔
مذاق نہیں! غور سے دیکھئے۔۔۔ آپ نے اخبارات میں اُس لڑکی کی تصویر دیکھی ہوگی۔ کیا نام تھا اس کا۔۔۔ یاسمین۔۔۔ وہ یونیورسٹی کی طالبہ جس کی دوا کی شیشی میں زہریلی ٹکیاں شامل کردی تھیں کسی نے۔
ٹھیک کہتے ہو۔۔۔ ہوبہو۔۔۔ وہی لگتی ہے۔
اور تنہا بھی ہے۔۔۔ اوہ۔۔۔ اب ہمیں دیکھ رہی ہے۔! ارے وہ تو ادھر ہی آرہی ہے۔
کیا اندر چلنے کا ارادہ ہے۔ اُس نے قریب پہنچ کر انہیں اردو میں مخاطب کیا تھا۔
ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔جیمسن تھوگ نکل کر بولا۔
تو پھر آؤ۔۔۔ اس نے جیمسن کے بازر میں ہاتھ ڈال دیا تھا! ظفر نے شانوں کو جنبش دی اور ان کے پیچھے چلنے لگا۔
ہال میں زیادہ تر میزیں گھری ہوئی تھیں اور ایک نیم عریاں غیر ملکی عورت ان کے درمیان تھرکتی پھر رہی تھی۔ مائیکرو فون سے طربیہ موسیقی نشر ہورہی تھی۔
انہوں نے ایک میز سنبھالی۔ لڑکی بیٹھتے ہی بولی۔ میرے لئے تو شیری منگوادو۔۔۔۔ اور اگر تم لوگ بکری کے دودھ سے بھی شغل کرو تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
کوئی دخانی نشہ نہیں کرو گی۔! جیمسن نے پوچھا۔
دخانی کیا ہوتا ہے۔؟