بچارہ شہزور صفحہ 254 تا 285

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فہیم

لائبریرین
تلاش ہے! اس رات موٹر ٹریننگ گراؤنڈ میں اسی سے ٹکراؤ ہوا تھا۔
علامہ ۔۔۔۔۔ میری سمجھ سے باہر ہے۔
بیگم تصدق کی ماما کا سراغ ملا یانہیں۔
نہیں۔
بیگم تصدق کو حراست میں لے لیجئے۔
کیوں۔۔۔؟ جب تک ماما کا سراغ نہ ملے ضروری نہیں سمجھتا۔
معقول رقم دے کر اُسے روپوشی پر آمادہ کرلیا ہوگا۔
تو اب تم بھی یہی کہہ رہے ہو حالانکہ آج ہی بیگم تصدق کی موافقت میں بولتے رہے تھے۔
ضابطے کی کاروائی نہ کی گئی تو علامہ کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے اس کا ہمدرد شہزور۔۔۔ نہ جانے

کیا کیا کر گذرے گا۔
تو تم اس دھماکے کو بھی اسی سے متعلق سمجھ رہے ہو۔
جی ہاں۔۔۔۔ وہ چاہتا ہے کہ میں کسی طرح سامنے آؤں! ورنہ آپ اپنے چالیس سالہ ملازم چوکیدار کو کوئی ایسا

تخریب کار سمجھ لیجئے جس نے کسی مقصد کے تحت اپنی کوٹھری میں آتش گیر مادہ چھپا رکھا تھا۔
میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔! رحمان صاحب نے کہا۔ پھر چونک کر اسے گھورتے ہوئے بولے۔ تمہیں یہاں نہیں آنا

چاہیے تھا۔
میری موٹر سائیکل باہر کھڑی ہے۔۔۔۔ اسے کمپاؤنڈ میں منگوالیجئے گا۔۔۔ نمبر ایکس وائی تین سو بارہ ہے۔
اور تم۔۔۔۔
کسی طرح نکل جاؤں گا۔۔۔۔ موٹر سائیکل یہیں رہے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈورا کرسٹی اور مائیکل ظفرالملک کے بنگلے سے بر آمد ہوئے تھے۔۔۔ اور ان کا تعاقب شروع ہوگیا تھا! تعاقب

کرنے والے نے ان کی گاڑی اسٹارٹ ہوتے ہی اپنی موٹر سائیکل سنبھال لی تھی۔ لیکن جیسے ہی اُسے

اسٹارٹ کرکے آگے بڑھنا چاہا کسی نے ڈڈونیا کی باڑھ کے پیچھے سے اس پر چھلانگ لگائی تھی اور کیرئیر پر

بیٹھتا ہوا بولا تھا۔۔۔۔۔ چلتے رہو۔
کک۔۔۔۔ کون ہو تم۔۔۔؟
دوست۔۔۔۔۔! چلو کہیں وہ ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہوجائیں۔
ہچکچاہٹ کے ساتھ اس نے موٹر سائیکل آگے بڑھائی تھی ۔۔۔ تعاقب جاری رہا۔
اور بالاآخر اگلی گاڑی اسی عمارت کے سامنے جارکی تھی جہاں ڈورا کرسٹی کا قیام تھا۔
اب جدھر میں کہوں گا اُدھر چلو۔ تعاقب کرنے والے کے پیچھے بیٹھے اجنبی نے کہا۔
کیا میں تمہیں جانتا ہوں؟ تعاقب کرنے والے نے پوچھا۔
نہیں تم مجھے نہیں جانتے۔
تو پھر۔۔۔؟
تو پھر کیا! مجھ سے جو کہا گیا ہے میں کررہا ہوں۔ اجنبی نے جواب دیا۔
کس نے کہا ہے۔
بحث کروگے مجھ سے۔
تعاقب کرنے والے نے موٹر سائیکل سڑک کے نیچے اتار کر روک دی۔۔۔! یہاں اندھیرا اور سناٹا تھا۔
یہ کیا کررہے ہو۔۔۔؟ اجنبی نے پوچھا۔
تمہاری شکل دیکھنا چاہتاہوں۔۔۔ تعاقب کرنے والے نے کہا۔۔۔۔ لیکن دوسرے ہی لحمے میں کوئی سخت سی چیز

اس کے داہنے پہلو میں چھپنے لگی تھی اور اجنبی بولا تھا کہ جدھر میں کہوں ادھر چلو۔
کک۔۔۔۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔۔؟
یہ میری انگلی نہیں ریوالور کی نال ہے۔
اوہ۔۔۔ لیکن کیوں۔۔۔۔؟
جہاں لے چلوں چپ چاپ چلتے رہو۔ وجہ بھی بتادی جائے گی۔۔۔۔۔! کیا تم ایڈوکیٹ سلمانی کے پی اے نہیں ہو۔؟
ہاں تو پھر۔۔۔؟
چلو۔! اجنبی نے ریوالور کی نال کا دباؤ بڑھاتے ہوئے کہا۔ جدھر سے آ ئے ہو اُدھر ہی بائیک موڑلو۔
تعاقب کرنے والے نے تعمیل ہی کرنے میں عافیت سمجھی تھی۔
کچھ دیر بعد ساجد نے پوچھا تھا۔ آخر مجھے کہاں لے جاؤ گے۔
تم لے جارہے ہو مجھے۔! اجنبی بولا۔
لفٹ لینے کا حیرت انگیز طریقہ ہے مسٹر۔۔۔۔ اور اگر کوئی دوسری بات ہے تو یہ بتادوں کہ میرے پرس میں زیادہ

رقم نہیں ہے! اور کلائی پر گھڑی بھی نہیں ہے۔
کلائی پر گھڑی نہ ہونا میرے لئے حیرت انگیز ہے۔! اجنبی نے کہا۔
جہاں اُترنا ہو بتادینا۔۔۔ میں بھی خاصا زندہ دل ہوں۔
اگر زندہ دل آدمی ہو تو سیدھے ستنام ہاؤز ہی کی طرف نکل چلو۔
کک۔۔۔۔۔ کیا مطلب۔؟
تم وہیں تو جارہے ہو۔
تم کیا جانو۔۔۔۔۔ آخر تم ہو کون۔۔۔۔؟
رکنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ چلتے رہو۔! اجنبی نے ریوالور کا دباؤ بڑھا کر یاد دہانی کرائی۔
یہی بتادو۔۔۔۔۔ آکر چکر کیا ہے۔
تمہیں اس کام پر کس نے لگایا ہے اور کیوں۔۔۔۔؟
کمال ہوگیا۔۔۔۔ نہ لفٹ لینا چاہتے تھے اور نہ مجھے لوٹنا چاہتے تے۔۔۔۔۔ بس یہ معلوم کرنا چاہتے ہو کہ مجھے کس

نے اس کام پر لگایا ہے۔
تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔
اور اگر میں یہ پوچھوں کہ تمہیں اس سے کیا سروکار۔۔؟
تو میں صاف صاف بتادوں گا کہ ڈورا کرسٹی میرے باس کی محبوبہ ہے اور میرا باس یہ ضرور جاننا چاہے گا کہ

اُس کا کوئی رقیب تو نہیں پیدا ہوگیا۔ اجنبی نے غصیلے لہجے میں کہا۔
اوہ۔۔۔۔۔ تو یہ بات ہے۔
اس سے زیادہ کچھ نہیں۔! اجنبی بولا۔
تمہارا باس کون ہے۔
تھوڑی دیر میں میرے والد کا نام بھی پوچھو گے۔
بہت تنک مزاج معلوم ہوتے ہو۔
مناسب یہ رہے گا کہ ہم کہیں بیٹھ کر کافی کا ایک ایک کپ پئیں۔ اجنبی بولا۔
اچھا خیال ہے! اس طرح میں جلد از جلد تمہاری شکل بھی دیکھ سکوں گا۔ ساجد نے کہا۔
تم تو میرے کوائف سے بھی بخوبی واقف معلوم ہوتے ہو۔
ٹپ ٹاپ کی طرف چلو۔
بت۔۔۔۔ بہت مہنگی جگہ ہے۔
اخراجات میرے ذمے۔۔۔۔ اجنبی بولا۔
اور اسی طرح ریوالور کی نال پر لے چلو گے۔
ریوالور کی نال نہیں ہٹا سکتا۔! ویسے مطمئن رہو۔ کوئی تیسرا اسے نہیں دیکھ سکے گا۔
ٹپ ٹاپ کی کمپاؤنڈ میں پہنچ کر ساجد نے اجنبی کی شکل دیکھی تھی اور ایک سرد سی لہر اُس کے پورے

جسم میں دوڑ گئی تھی۔ بڑی بڑی خوفناک آنکھیں تھیں۔ بھدی سی موٹی ناک کے نیچے اتنی گنجان مونچھیں

تھیں کہ دہانہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
اندر چلو۔۔۔۔۔۔ وہ غرایا تھا۔
جو کچھ پوچھنا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہں پوچھ لو۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اندر نہیں جاؤں گا! یہاں ایسے بھی لوگ ہونگے جو مجھے اچھی

طرح جانتے ہونگے۔
تو پھر اس سے کیا فرق پڑے گا۔
میں ایڈوکیٹ نادر سلمانی کا پرسنل اسسٹنٹ ہوں! بہتیرے جج اور وکیل مجھے اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ اُن

سے یہاں ملاقات ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ میری حیثیت اتنی نہیں کہ میں ایسی جگہوں پر دیکھا جاسکوں۔
اور تم یہ نہیں چاہتے کہ یہ بات سلمانی تک پہنچے۔
ظاہر ہے۔
تو اس کا مطلب ہوا کہ ڈورا کی نگرانی خود سلمانی نہیں کراہا۔
ہرگز نہیں۔
تو پھر۔۔۔۔؟
بیگم صاحبہ۔۔۔۔۔ سلمانی کو اس کا علم نہیں۔
ہوں۔۔۔۔۔ وہ کیوں اس کی نگرانی کرارہی ہیں۔
میں نہیں جانتا۔
اچھا تو پھر تم نے ہوٹل میں اُن دونوں کا تعاقب کیوں کیا تھا۔۔۔؟
اُن میں ایک ڈاڑھی والا ہپی بھی تھا۔۔۔ دراصل وہ ڈورا کرسٹی کی نگرانی اس لئے کرارہی ہیں کہ اُس کے ایک

ملنے والے کا پتہ معلوم کرسکیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ ڈاڑھی والا ایک ہپی ہے۔ بہرحال جب میں نے انہیں

اس کا حلیہ بتایا تو انہوں نے کہا کہ وہ نہیں ہوسکتا۔
بات کچھ کچھ سمجھ میں آرہی ہے۔! خوفناک شکل والا اجنبی سر ہلا کر بولا۔ خیر۔۔۔۔ تو کیا تم نے اُُس ہپی کو

ستنام ہاؤز میں بھی دیکھا جس کا پتہ تھیلما معلوم کرنا چاہتی ہے۔
نہیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے ستنام ہاؤز میں کبھی کوئی ہپی نہیں دیکھا۔
کوبرا کہلاتا ہے۔
پہلی بار نام سن رہا ہوں۔
خیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اس ملاقات کا ذکر تھیلما سے نہیں کروگے۔! میرا باس سمجھتا تھا کہ کوئی مرد ہے تمہاری

پشت پر۔۔۔۔۔ لیکن ہپی والا چکر میرے باس کے لئے بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
تمہارا باس کون ہے۔۔۔۔؟
اس کی فکر نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لو۔۔۔۔۔۔۔۔ رکھو۔۔۔۔۔۔ جہاں دل چاہے کافی پی لینا۔! اجنبی نے پرس سے پچاس کا ایک

کھینچا اور اُس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا۔ اگر اس ہپی کا سراغ مل جائے تو مجھے بھی مطلع کرنا۔۔۔۔۔۔۔ اس

طرح تم سو سو کے پانچ کڑکڑاتے ہوئے نوٹ کماسکو گے۔
ساجد نے اُس کے ہاتھ سے نوٹ جھپٹے ہوئے کہا۔ تم سے رابطہ کس طرح قائم کرسکوں گا۔
ڈھمپ میرا نام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ فون نمبر۔۔۔۔۔! اُس نے اُسے ایک کارڈ دیا تھا جس پر صرف فون نمبر چھپا ہوا تھا۔
اور ہاں! اگر میں نہ ملوں تو پیغام دے دینا۔
ایسا ہی ہوگا۔
ایک بار پھر آگاہ کردوں کہ تھیلما کو ہماری ملاقات کا علم نہ ہونے پائے۔
مطمئن رہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس رات شہر میں کئی جگہ دھماکے ہوئے تھے ! اور پولیس ہیڈ کوارٹر اپنے دوسرے معاملات کو التواء میں ڈال

کر اُن کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔
لوگ خوفزدہ تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ ان دھماکوں سے زیادہ تر سرکاری افسروں کا نقصان پہنچا تھا۔ اس لئے پولیس نے وطن

دشمن اور تخریب کار عناصر کی تلاش شروع کردی تھی۔ سابقہ خراب ریکارڈ رکھنے والے افراد کو بھی گرفتار

کرلیا گیا تھا۔ لیکن رحمان صاحب کا محکمہ شہزور نامی کسی ہپی کی تلاش میں تھا۔ ویسے وہاں اُس کا

کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔
فیاض کو حیرت تھی کہ آخر یہ نیا نام کہاں سے آٹپکا۔ لیکن چونکہ ہدایت براہِ راست رحمان صاحب کی طرف

سے جاری ہوئی تھی اس لئے چوں چراں کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی تھی۔
خود فیاض کو دفتر چھوڑنا پڑا تھا اور اب اُسے شدت سے عمران کی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔
ادھر عمران دوسرے چکروں میں تھا۔ کچھ ہی دیر پہلے سائیکومینشن کے آپریشن روم میں جولیا کا پیغام

موصول ہوا تھا جسے ڈی کوڈ کرنے کے بعد دوبارہ پڑھ رہا تھا۔
پیغام کے مطابق میاں توقیر نے فرحانہ جاوید سے شادی کی درخواست کی تھی۔ اور جلد ہی اُس کے گارڈین

علامہ دہشت کی خدمت میں بھی حاضری دینے والے تھے۔ کیونکہ اُن کیل درخواست پر فرحانہ نے یہی مشورہ

دیا تھا۔! وقت کا تعین ہوتے ہی اطلاع دی جائے گی۔
سائیکومینشن سے عمران رانا پیلس پہنچا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور بلیک زیرو کو طلب کرکے اُسے جولیا کا پیغام سنایا تھا۔
بقول آغا حشر۔ چڑیا پھدک کے باز کے پنجے میں آگئی۔! مجھے پہلے خدشہ تھا۔! بلیک زیرو کچھ سوچتا ہوا بولا۔

اسی لئے میاں توقیر کی گمشدگی پر زور دیا تھا۔
سوال تو یہ ہے تمہاری تجویز کو بروئے کار کیسے لایا جائے۔۔۔؟
راستے میں ہی لے اڑیں۔
یہ صرف اُسی صورت میں ممکن ہوگا جب ٹرین سے سفر کیا جائے! اگر فشیالا کے ہوائی اڈے سے روانہ ہوئے تو

یہاں کے ایئرپورٹ ہی پر اُن سے ملاقات ہوسکے گی۔۔۔۔۔۔ ویسے میرا اندازہ یہی ہے کہ میاں توقیر ٹرین میں وقت

نہیں ضائع کریں گے۔
یہاں کے ایئر پورٹ پر بھی کوشش کی جاسکتی ہے۔
اُسی صورت میں جب میاں توقیر علامہ یا فرحانہ کو اپنی آمد سے مطلع کئے بغیر روانہ ہوجائیں گے۔
جولیا تو ہمیں روانگی کے وقت سے ضرور مطلع کرے گی۔
دیکھا جائے گا۔! عمران نے شانوں کو جنبش دی۔ چند لمحے کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔ اب یہ سارے معاملات تم

سنبھالو گے۔ میں تو چلا ۔ فون پر رابطہ رکھوں گا۔
پھر اس نے اسے ساجد سے متعلق ہدایات دی تھیں اور ڈھمپ کے نام اُس کی کسی متوقع فون کال کے بارے

میں بتاتے ہوئے کہا تھا۔ اُس کا وہ پیغام ریکارڈ کرلینا۔
بہت بہتر۔
پھر وہ پیٹر کے کمرے میں آیا تھا جس کی حالت پہلے سے مختلف نظر آرہی تھی۔۔۔ عمران کو اُس نے اس طرح

دیکھنا شروع کیا تھا جیسے پہچاننے کی کوشش کررہا ہو۔
کیا حال ہے۔۔۔۔! عمران نے پوچھا۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ خدا کا شکر ہے۔۔۔۔۔ میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔
تم مجھے کیا پہچانوگے۔ نہت چھوٹا سا تھا جب مجھے دیکھا تھا تم نے۔
خدا جانے۔۔۔۔۔! مجھے کچھ بھی یاد نہیں۔۔۔۔۔ یہ بھی نہیں جانتا کہ میں کون ہوں۔۔۔۔۔ اور کہاں ہوں۔
عمران نے اسے گھورنا کر دیکھا تھا لیکن اُس کا چہرہ سپاٹ نظر آیا۔ آنکھوں سے لاتعلقی ظاہر ہورہی تھی۔
پھر اب کیا خیال ہے۔۔۔۔۔! وہ کچھ دیر بعد بولا۔
خیال۔۔۔۔۔ کیسا خیال۔۔۔۔۔؟
شائد تمہیں شراب نہیں ملی۔
شراب، نہیں تو۔۔۔۔۔میں شراب نہیں پیتا! مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی پی ہو۔
یہاں تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔؟
قطعی نہیں۔۔۔۔۔ لوگ بہت مہربان ہیں۔۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ جب تم اچھے ہوجاؤ گے تو تمہیں باہر ٹہلنے کی اجازت مل

سکے گی۔
عمران نے مایوسانہ انداز میں سر ہلایا تھا اور واپسی کے لئے مڑگیا تھا۔
شیلا کے پاس پہنچا تو وہ اس طرح منہ پھلائے بیٹھی نظر آئی جیسے اس کا قانونی حق رکھتی ہو۔
برقعے میں چلنا پڑے گا میرے ساتھ۔! عمران کھنکار کر بولا۔
بس اتنی سی بات۔۔۔۔۔! میں تو سمجھی تھی شائد ٹکڑے ٹکڑے کرکے کسی پیٹی میں رکھو گے ور وہ پیٹی

تمہیں اپنے سر پر اٹھانی پڑے گی۔
میں ڈاڑھی اور شیروانی میں کیسا لگوں گا۔
بہت اچھے۔۔۔۔۔ دونوں اس سج دھج سے نکلیں گے اور تم راہگیروں کو روک روک کر کہنا ایک عرض ہے جنابِ

عالی ٹرین پر سفر کررہے تھے کسی نے جیب سے بٹوہ نکال لیا۔۔۔۔۔ ساری رقم اور ریل کے ٹکٹ اُسی میں

تھے۔۔۔۔۔ لاکھ کہا ٹکٹ چیکر کو لیکن اُس نے یقین نہ کیا۔ گاڑی سے اُتار دیا۔۔۔۔۔ واپسی کے لئے مدد کی

درخواست ہے۔
اگر تمہاری خواہش یہی ہے تو اس کے لئے بھی تیار ہوں لیکن اب دیر نہ کرو۔
کیا تم برقعے کی بات سنجیدگی سے کررہے تھے۔
ہاں۔۔۔۔۔ یہی مناسب ہوگا۔
کہاں چلو گے۔۔۔۔۔؟
لمبا پروگرام ہے۔۔۔۔۔ باتیں پھر ہوجائیں گی۔
پھر اُس نے بلیک زیرو سے پیٹر کو سائیکومینشن منتقل کردینے کے لئے کہا تھا۔ اور شبہ ظاہر کیا تھا کہ وہ

اپنی یادداشت کھو بیٹھا ہے۔
بن رہا ہے جناب۔۔۔۔۔! بلیک زیرو نے کہا۔
 

فہیم

لائبریرین
حقیقت بھی ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔! سائیکومینشن کے اسپیشلسٹ ہی فیصلہ کرسکیں گے۔
بہت بہتر۔۔۔۔۔ آج ہی منتقل کردیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو دن شہر میں مختلف جگہوں پر دھماکے ہوئے تھے۔ اور تیسرا دن پرسکون گذرگیا تھا۔
چوتھی رات علامہ باہر جانے کی تیاری کررہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی تھی۔ ناگواری کے آثار اُس کے چہرے پر

ظاہر ہوئے تھے لیکن اُس نے ریسیور اٹھالیا تھا۔
میں فرحانہ بول رہی ہوں جناب۔۔۔۔۔! دوسرے طرف سے آواز آئی۔
اوہ۔۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔۔ کیا بات ہے۔۔۔۔۔؟
مم۔۔۔۔۔ میں بہت خائف ہوں جناب۔
تم۔۔۔۔۔ خائف ہو۔۔۔۔۔ علامہ کے لہجے میں حیرت تھی۔ کس سے۔۔۔۔۔؟
میں نے۔۔۔۔۔ ابھی ابھی اُس لڑکی کو دیکھا ہے۔
کس لڑکی کو۔۔۔۔۔؟
وہ جو اچانک مرگئی تھی۔۔۔۔۔ یاسمین۔۔۔۔۔یاسمین۔
تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نہ۔۔۔۔۔؟
میں سچ کہہ رہی ہوں۔ خواب نہیں دیکھا۔۔۔۔۔ اور نہ ہی کوئی نشہ کرتی ہوں۔ ابھی پندرہ منٹ پہلے کی بات

ہے۔۔۔۔۔ سفید لبادے میں ملبوس تھی۔ میرے پائیں باغ میں۔۔۔۔۔ اور اُس کے جسم سے ہلکی ہلکی روشنی پھوٹ

رہی تھی۔
کیا تم اس سے بہت زیادہ متاثر تھیں۔
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
پھر وہ تمہارے پائیں باغ میں کیا کررہی تھی۔
میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔
کچھ بولی تھی۔۔۔۔۔؟
نہیں جناب! لیکن ایسا لگتا تھا جیسے کسی قسم کا اشارہ کررہی ہو۔
محض واہمہ۔۔۔۔۔ اپنے ذہن کو فضولیات سے متاثر نہ ہونے دو۔۔۔۔۔! روح جسم کے بغیر محض ایک تصور ہے! اگر

مذہبی نکتہ نظر سے دیکھو تب بھی کسی روح کی دوبارہ تجسیم صور پھونکے جانے سے قبل ممکن نہیں۔
بہت بہت شکریہ جناب۔
علامہ ریسیور کریڈل پر رکھ کر برآمدے میں نکل آیا۔ تھوڑی دیر بعد اُس کی گاڑی یونیورسٹی کیمپس کی طرف

جارہی تھی اور وہ خود ہی ڈرائیو کررہا تھا۔
اس کا چہرہ پرسکون نظر آرہا تھا۔ اس عجیب و غریب اطلاع پر وہ آج کسی قسم کے ذہنی انتشار میں مبتلا

نہیں ہوا تھا۔ حالانکہ اُس رات جب فون پر یاسمین کی روح سے ہم کلام ہوا تھا تو اس کی حالت غیر ہوگئی تھی۔
فرحانہ جاوید سچ مچ خوفزدہ نظر آئی۔ چہرے کی رنگت زرد وہوگئی تھی۔
تم نے وہ بھوت کس جگہ دیکھا تھا۔ علامہ نے اس سے پوچھا۔
فرحانہ نے پائیں باغ کے ایک گوشے کی طرف اشارہ کیا۔
تو اُس نے تمہیں کسی قسم کا اشارہ کیا تھا۔
جی ہاں۔
اُس کے بعد۔۔۔۔۔ لیکن ٹھہرو۔۔۔۔۔ وہاں تو اندھیرا ہے۔ برآمدے کی روشنی اُس جگہ تک نہیں پہنچ رہی۔
میں نے شائد آپ کو یہ نہیں بتایاتھا کہ خود اُس کے جسم سے ہلکی ہلکی روشنی پھوٹ رہی تھی اور اُس

روشنی میں وہ پوری طرح دکھائی دیتی تھی۔ پھر دفعتاًًًً غائب ہوگئی تھی۔
تم نے جسم سے پھوٹنے والی روشنی کا ذکر کیا تھا۔ بہرحال تم اسے واہمہ سمجھنے پر تیار نہیں ہو۔
جی نہیں۔۔۔۔۔ قطعی نہیں۔۔۔۔۔ میں نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
چلو۔۔۔۔۔ وہاں چلتے ہیں۔ دیکھں شائد قدموں کے نشانات بھی چھوڑ گئی ہو۔ اگر وہ مجسم تھی تو قدموں کے

نشانات بھی ہوں گے۔
اس وقت ادھر جانے کی ہمت نہیں کرسکتی ۔ کل دن میں دیکھ لوں گی۔
میں ساتھ ہوں تمہارے ۔ بچوں کی سی باتیں نہ کرو۔
وہ نہیں مانی تھی۔ برآمدے میں کھڑی رہی تھی۔ اور علامہ ٹارچ روشن کئے ہوئے جھاڑیوں کی طرف بڑھ گیا تھا۔

بہت غور سے آس پاس کی زمین کا جائزہ لیتا رہا۔ لیکن کسی قسم کے بھی نشانات نہ مل سکے۔ تھک ہار کر

پھر برآمدے میں واپس آگیا۔
اگر اسے بھوت تسلیم بھی کرلیا جائے تو تمہارے بنگلے میں اس کا کیا کام۔! علامہ نے کچھ دیر بعد کہا۔
میں خود نہیں سمجھ سکتی جناب۔
تمہیں شائد علم نہیں کہ یہاں کا ایک بلیک میلر میرے پیچھے پڑھ گیا ہے اور اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ

کسی طرح یاسمین کی موت کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دے۔
وہ کون ہے۔
خدا جانے۔۔۔۔۔ بلیک میلر کبھی اپنی اصل شخصیت نہپیں ظاہر کرتے۔
آخر وہ کس بناء پر کہہ سکتا ہے کہ یاسمین کی موت کے ذمہ دار آپ ہیں۔
یہی بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ اور اگر اُسے بھان متی کا تماشہ ہی دکھانا تھا تو مجھے دکھاتا۔۔۔۔۔ تمہیں

کیا سروکار ان باتون سے۔
تو کیا سچ مچ۔۔۔۔۔! وہ جلدی جلدی سانس لیتی ہوئی بولی۔
بیوقوفی کی باتیں مت کرو۔۔۔۔۔ اُس کی موت سے مجھے کیا فائدہ پہنچتا۔
چلئے۔۔۔۔۔ اندر بیٹھئے۔۔۔۔۔ میں کافی بناتی ہوں۔
کیا وہ بوڑھی عورت آج کل نہیں ہے جو کچن میں کام کرتی تھی۔
اُسے ملیریا ہوگیا تھا۔ میں نے آرام کرنے کو کہا ہے۔
اس لئے خود ہی سارے کام کررہی ہو۔؟
مجبوری ہے۔
وہ اُسے سٹنگ روم میں لائی تھی اور خود کچن کی طرف چلی گئی تھی۔
علامہ خاموش بیٹھا سٹنگ روم میں رکھی ہوئی آرائشی مصنوعات کا جائزہ لیتا رہا۔
دفعتاً فون کی گھنٹی بجی تھی اور وہ چونک کر اٹھا تھا۔ ہاتھ بڑھایا تھا ریسیور کی طرف اور پھر رک گیا تھا۔

گھنٹی بجتی رہی۔ آخر فرحانہ دوڑتی ہوئی کال ریسیو کرنے آئی تھی۔
ہیلو۔ ہو ریسیور اٹھاکر ماؤتھ پیس میں بولی۔ جی ہاں۔۔۔۔۔ فرمائیے۔اوہ۔۔۔۔۔ جی ہاں۔۔۔۔۔ تشریف رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ بہتر

ایک منٹ۔
پھر اُس نے ریسیور علامہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ آپ کی کال ہے۔
میری کال۔۔۔۔۔ یہاں؟۔۔۔۔۔ کون ہے۔
کوئی خاتون ہیں۔
علامہ نے برا سا منہ بناکر اُس کے ہاتھ سے ریسیور لیا تھا اور اپنا نام بتاکر دوسری طرف سے کچھ سننے کا

منتظر رہا تھا۔
پروفیسر۔ نسوانی آواز آئی تھی۔ میں تمہیں نظر نہیں آؤں گی۔۔۔۔۔ لیکن تم سے تعلق رکھنے والے دوسرے لوگ

مجھے دیکھتے رہیں گے۔
تم جو کوئی بھی ہو! مجھے باور نہیں کراسکتیں کہ تم یاسمین کی روح ہو۔۔۔۔۔ لہذا یہ ڈرامہ ختم کرو۔۔۔۔۔ اور

مجھے بتاؤ کہ تم کیا چاہتی ہو۔
میں صرف یہ چاہتی ہوکہ وہ جو دنیا میں رہ گئے ہیں تمہاری دستبرد سے محفوظ رہیں۔
بڑا نیک خیال ہے۔۔۔۔۔ لیکن تم یہ نیک کام کس طرح انجام دوگی۔
تمہارا وہ شکار محفوظ ہوگیا ہے۔ جسے شادی کے بہانے مارنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔؟
اگر یہ بات نہ ہوتی پروفیسر تو میں اس وقت فرحانہ کے بنگلے میں کیوں نظر آتی۔۔۔۔۔ میں تم سے بہت قریب

ہوں۔
علامہ نے کنکھیوں سے فرحانہ کی طرف دیکھا تھا! اور وہ بولی تھی۔ اوہ میں چلوں پانی ابل گیا ہوگا۔
وہ چلی گئی اور علامہ پھر روح کی بات سننے لگاتھا۔ وہ کہہ رہی تھی۔ اس طرح فرحانہ بھی محفوظ ہوگئی ہے۔
کیا میں اسے مجذوب کی بڑ سمجھوں۔۔۔۔۔! علامہ جھنجھلا کر بولا۔
نہیں۔۔۔۔۔! یقین کرلو کہ میں یاسمین ہوں! اور عالم رواح سے بول رہی ہوں ورنہ تمہاری دنیا میں کون جانتا ہے کہ

پیر علی کے بیٹے ہو۔
مت بکواس کرو۔۔۔۔۔ مت بکواس کرو! دفعتاً علامہ کے پورے جسم میں تھرتھری پڑ گئی تھی۔
اب تمہیں میاں توقیر کا سراغ نہیں مل سکے گا۔
شٹ اپ۔۔۔۔۔! علامہ حلق پھاڑ کر دھاڑا تھا۔
اور دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہونے کی آواز آئی تھی۔
وہ ریسیور رکھ کر لڑکھڑاتا ہوا صوفے تک آیا۔ لیکن فون کی طرف ایسی نظروں سے دیکھے جارہا تھا جیسے

حقیقتاًً اُس میں سے کوئی غیر مرئی شے نکل کر مادی ہیبت اختیار کرلے گی۔
فرحانہ ٹرالی دھکیلتی ہوئی سٹنگ روم میں داخل ہوئی تھی۔۔۔۔۔اُس کی آہٹ پر وہ چونکا تھا۔ اور وہ اُسے حیرت

سے دیکھتی ہوئی بولی تھی۔آپ ٹھیک تو ہیں۔
ہاں۔۔۔۔۔ آں۔۔۔۔۔! اس نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی تھی۔
کوئی بری خبر تھی؟
یاسمین کی روح فون پر مجھ سے مخاطب تھی۔
نہیں۔! فرحانہ چلتے چلتے رُک گئی۔
اونہہ۔۔۔۔۔ کیا اہمیت ہے اس کی۔۔۔۔۔ کافی پلاؤ۔۔۔۔۔! علامہ نے کہا اور جیب سے رومال کھینچ کر چہرے کا پسینہ

خشک کرنے لگا۔
فون پر کیا کہہ رہی تھی۔ فرحانہ نے پوچھا۔
میاں توقیر کو میری دستبرد سے محفوظ رکھنا چاہتی ہے! لہذا اب مجھے اس کا سراغ نیہں ملے گا۔
میں نہیں سمجھی۔
ختم کرو۔۔۔۔۔ کافی لاؤ۔
فرحانہ نے کافی انڈیل کر پیالی اُس کی طرف بڑھائی تھی۔
ایک گھونٹ لے کر پیالی میز پر رکھتا ہوا بولا۔ تو وہ کل یہاں پہنچ رہا ہے۔
خط میں یہی لکھا تھا۔۔ لیکن یہ نہیں لکھا تھا کہ قیام کہاں کرے گا۔
ہمیشہ کانٹی نینٹل میں ٹھہرتا ہے۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ مجھ تک نہیں پہنچ سکے گا۔
کک۔۔۔۔۔ کیوں۔۔۔۔۔؟
میں نہیں سمجھی۔
وہ بلیک میلر۔۔۔۔۔ شیلا اور پیٹر کا سراغ آج تک نہیں مل سکا! وہ دونوں اُسی کے قبضے میں ہیں۔
فرحانہ کی آنکھوں میں عجیب سی چمک محسوس ہوئی تھی اور چہرہ کھل اٹھا تھا۔
علامہ نے یہ تبدیلی محسوس کرلی اور اُسے ایسی نظروں سے دیکھنے لگا جیسے اس نوعیت کا خاموش

اظہارِ مسرت اُسے ذرہ برابر بھی پسند نہیں آیا ہو۔
تم اس پر خوش ہورہی ہو۔
بہت زیادہ۔۔۔۔۔ یا اپنی پسند یا کچھ بھی نہیں۔
میں آدمی سے مایوس ہوتا جارہا ہوں۔
کیوں جناب۔؟
کسی قسم کی بھی تربیت اُسے جذبات کی غلامی سے رہائی نہیں دلاسکتی۔
فرحانہ کچھ نہ بولی۔ علامہ نے خاموشی سے کافی ختم کی تھی اور اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
کیا آپ ناراض ہیں مجھ سے۔! فرحانہ گھگھیائی۔
لیکن وہ کچھ کہے بغیر باہر نکلا چلا آیا تھا۔ فرحانہ بھی پیچھے پیچھے آئی تھی۔ وہ گاڑی میں بیٹھا انجن اسٹارٹ

کیا اور گاڑی بیک کر کے کمپاؤنڈ سے نکالی۔ فرحانہ جہاں تھی وہیں دم بخود کھڑی رہی۔
گاڑی سٹرک پر پہنچتے ہی تیز رفتاری سے مغرب کی جانب روانہ ہوگئی۔ دیوانوں کی طرح ڈرائیونگ کررہا تھا اور

ساتھ ہی بڑبڑاتا بھی جارہا تھا۔ تف ہے میری زندگی پر۔۔۔۔۔ ابھی تک اُس مردود کو تلاش نہیں کرسکا۔ جاگ

شہزور۔۔۔۔۔ جاگ۔۔۔۔۔ شہزور۔
وہ اتنے زور سے چیخا تھا کہ بالآخر اسے کھانسی آگئی تھی۔
کار خاصی تیز رفتاری سے سڑکیں ناپتی رہی۔ پھر شائد اُس نے اُسے کسی خاص راستے پر ڈال دیا تھا۔ اس

گاڑی میں اندر باہر کئی عقب نما آئینے لگے ہوئے تھے۔ ان کی موجودگی میں خواہ کسی بھی انداز میں تعاقب

کیا جاتا علامہ کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکتا تھا۔
شائد اس ویران سڑک پر آنکلنے کا یہی مقصد تھا کہ وہ تعاقب کرنے والوں پر نظر رکھ سکے۔
تھوڑی دیر بعد اُس نے گاڑی پھر شہر کی طرف موڑ دی تھی۔ اطمینان ہوگیا تھا کہ اس کا تعاقب نہیں کیا جارہا

اور پھر شہر کی جاگتی جگمگاتی سڑکوں سے گزرتے وقت ایک بار پھر اس پر بڑبڑاہٹ کا دورہ پڑا تھا۔
علامہ کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔ اور شہزور فولاد کی چٹان ہے۔ فولاد کی چٹان ہے۔۔۔۔۔ آخری

آدمی۔۔۔۔۔ توقیر زندہ نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔ خواہ سات پردوں میں چھپا دیا جائے۔۔۔۔۔ نہیں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔۔۔

اگر وہ بلیک میلر میری اصلیت سے واقب ہوگیا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے اس سے۔۔۔۔ وہ کسی طرح بھی اسے ثابت

نہیں کرسکے گا۔۔۔۔۔ اور اب میں اُسے بھی دیکھوں گا۔
گاڑی اُس کا تعاقب کی کوٹھی کی طرف جارہی تھی۔۔۔۔۔ اور پھر اچانک اُسے معلوم ہوا کہ اب ایک گاڑی اس کا

تعاقب کررہی ہے۔
وہ زیریلی ہنسی کے ساتھ بولا تھا۔ آؤ۔۔۔۔۔ آؤ۔۔۔۔۔ آج تمہاری شامت ہی آگئی ہے۔ تم جو کوئی بھی ہو۔
کچھ دور چلنے کے بعد اپس نے اچانک بریک لگائے تھے۔۔۔۔۔ اور پچھلی گاڑی نے ہارن دینا شروع کردیا تھا۔ پھر وہ

تھوڑی سی کترا کر اُس کی گاڑی کے قریب ہی سے آگے نکل گئی۔
ڈرائیو کرنے والےکی پشت ہی دیکھ سکا تھا۔ اب وہ خود اس کی گاڑی کا تعاقب کررہا تھا۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد

اُس پر ہنسی کا دورہ پڑا تھا۔۔۔۔۔ کیونکہ اس نے ایک موڑ پر ڈرائیور کی شکل دیکھ لی تھی۔ وہ کوئی عورت تھی۔۔۔۔

اور عورت بھی سفید فام۔
اُس نے ہونٹوں پر زبان پھیری اور دونوں گاڑیوں کا فاصلہ کم کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
اور پھر ایک جگہ موقع دیکھ کر اپنی گاڑی اس سے آگے نکال لے گیا۔
اوہ۔۔۔۔۔ تو یہ ہے۔! وہ برا سا منہ بناکر بڑبڑایا تھا۔ گاڑی آگے نکالتے ہوئے وقت اس نے اس کی شکل دیکھ لی تھی۔
لیکن وہ تعاقب کیوں کررہی ہے۔ بحثیت علامہ دہشت وہ اُس کے واقفوں میں سے نہیں تھی۔۔۔۔۔! پھر۔؟ ایک بڑا

سوالیہ نشان ذہن میں ابھرا تھا۔
اپنی کوٹھی کے قریب پہنچ کر اُس نے گاڑی روکی تھی اور اترنے بھی نہیں پایا تھا کہ پچھلی گاڑی قریب ہی

آرکی۔
عورت نے کھڑکی سے سر نکال کہا۔ بدتمیزی ضرور ہے لیکن کیا میں پوچھ سکتی ہیوں کہ یہ گاڑی کس کی ہے۔
علامہ نے چونک کر اپنی گاڑی کو دیکھا تھا اور نچلا ہونٹ دانتوں میں دبالیا تھا۔
آپ کیوں پوچھ رہی ہیں۔! علامہ نے سنبھل کر سوال کیا۔
میرا خیال ہے کہ یہ میرے ایک دوست کی گاڑی ہے۔
تو پھر۔۔۔۔۔ مجھے اعتراف ہے کہ یہ گاڑی میری نہیں ہے۔
کس کی ہے۔؟
آپ کے دوست کی۔ علامہ مسکرایا تھا۔
کیا نام ہے اُس کا؟
کمال ہے آپ اپنے دوست کا نام بھی نہیں جانتیں۔
میں اُسے کوبرا کے نام سے جانتی ہوں۔
کیوں نہ ہم اندر چل کر اس سلسلے میں گفتگو کریں۔
مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ عورت بھی اپنی گاڑی سے اترتی ہوئی بولی۔
آئیے۔۔۔۔۔! وہ اسے سٹنگ روم میں لایا تھا۔
میرا نام تھیلما نادر ہے۔
اور میں دہشت ہوں۔
دونوں نے مصافحہ کیا تھا۔۔۔۔۔! اور تھیلما اُسے بغور دیکھتی ہوئی بولی تھی۔ مجھے اپنے دوست کی تلاش ہے!

وہ مجھ سے ناراض ہوگیا ہے۔
لیکن میں کسی کوبرا کو نہیں جانتا۔
تم نے کہا تھا کہ وہ گاڑی تمہاری نہیں ہے۔
ہاں میرے ایک دوست کی ہے۔۔۔۔۔ اور وہ یہیں میرے ساتھ مقیم ہے۔ اس وقت غالباً لائبریری میں ہوگا۔
کیا وہ کوئی ہپی ہے۔
ہاں ہے تو ہپی ہی۔
 

فہیم

لائبریرین
تمہاری طرح مضبوط اور قدر آور۔۔۔؟
ہاں۔۔۔۔۔ وہ ایسا ہی ہے۔
خدا کے لئے مجھے اُس سے ملوادو۔۔۔۔۔ میرے پاس اُس کے لئے ایک اہم خبر ہے۔
اچھی بات ہے۔۔۔۔۔ آپ بیٹھئے۔۔۔۔۔! میں اُسے بھیجتا ہوں۔ علامہ نے کہا اور اٹھ کر اندر چلا آیا۔
دس منٹ کے اندر اندر شہزور بن کر اس نے انٹر کوم پر کسی ملازم کو مخاطب کیا تھا اور دوسری طرف سے

جواب ملنے پر بولا تھا۔
سٹنگ روم میں ایک انگریز عورت بیٹھی ہوئی ہے۔۔۔۔۔ اسے لائبریری کے دروازے تک پہنچا کر واپس چلے جاؤ۔
اس کے بعد وہ دروازے کے قریب ہی آکھڑا ہوا تھا۔ قدموں کی چاپ سن کر دروازہ کھولا اور تھیلما کا ہاتھ پکڑ کر

اندر کھینچ لیا۔ وہ اس کے بازؤں میں آگری۔
یہ کیا حرکت تھی؟ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا غرایا۔
اوہ۔۔۔۔۔ ڈارلنگ۔۔۔۔۔ مجھے معاف کردو۔۔۔۔۔ میں نے تمہاری گاڑی پہچان لی تھی اس شریف آدمی نے اعتراف کرلیا

کہ تم اس کے گھر میں موجود ہو۔
میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ کبھی میری ٹوہ میں نہ رہنا۔
دل سے مجبور ہوں اور میں تمہیں ایک اطلاع بھی دینا چاہتی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی بتانا چاہتی ھی جو کچھ

بھی ہوا اس میں میرا قصور نہیں تھا۔ اگر تم مجھے حالات سے آگاہ کردیتے تو۔
اسے بھول جاؤ۔! وہ ہاتھ ہلا کر بولا۔! کیا اطلاع دینا چاہتی تھیں۔
ایک آدمی تمہارے متعلق پوچھ گچھ کرتا پھر رہا ہے۔
کون آدمی ہے۔ِ
میں نے اسے نہیں دیکھا۔۔۔۔۔! نادر کے پی اے ساجد سے پوچھ گچھ کی تھی اور اسے پچاس روپے دیئے تھے

اور کہا تھا کہ اگر وہ تمہیں ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوگیا تو مزید پانچ سو روپے دے گا۔
اوہ تو ساجد کو اس نے اپنا نام اور پتہ بھی بتایا ہوگا۔؟
بتایا تھا۔۔۔۔۔ مجھے یاد نہیں رہا۔ اسے یاد ہوگا۔
کیا ساجد نے مجھے کبھی دیکھا ہے۔
ضرور دیکھا ہوگا۔ سنتام ہاؤس ہی کے ایک حصے میں تو رہتا ہے۔
خیر میں دیکھوں گا۔۔۔۔۔ اب تم اس آدمی کی بات کرو۔ جو میرے آدمی کو تمہاری تحویل سے لے گیا تھا۔
وہ معاملہ ہی میری سمجھ میں نہیں آسکا۔ جو ذہنی مریض بن کر آیا تھا وہ ڈاکٹر برناڈ کو زخمی کرکے اٹھالے

گیا۔
اور تم نے اسے وہ جگہ بھی بتادی تھی جہاں ہم آخری بار ملے تھے۔
میں ہوش میں کب تھی۔
تمہیں کیا ہوا تھا۔
ڈاکٹر برنارڈ کوزخمی کرنے کے بعد اس نے مجھے بے بس کردی تھا اور اس کے بعد اتنا ہی یاد ہے کہ اس نے

کوئی چیز میرے بازو میں انجکٹ کی تھی۔
تھیلما اچانک خاموش ہوگر شائد سوچنے لگی تھی کہ اس جھوٹ کو کس طرح آگے بڑھائے۔
خاموش کیوں ہوگئیں۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ انجکشن کے بعد کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے اسی دوران میں اس نے مجھ سے

تمہارے بارے میں سب کچھ پوچھ لیا ہو۔۔۔۔ مجھے بتاؤ کیا وہ اس جگہ پہنچ گیا تھا جہاں ہم آخری بار ملے تھے۔
ہاں پہنچ گیا تھا۔ وہ اسے غور سے دیکھتے ہوا بولا۔
تب تو پھر اسی انجکشن کے زیرِ اثر میں نے اسے سب کچھ بتادیا ہوگا۔! کیونکہ مجھے کچھ یاد نہیں کہ اس کے

بعد کیا ہوا تھا۔ اور سنو میں تم سے کچھ بھی نہیں چھپانا چاہتی۔۔۔۔۔ اس آدمی نے مجھے چرس کا ایکسٹریکٹ

بھی بجھوایا تھا جسے میں آج کل استعمال کررہی ہوں۔ ورنہ تمہارے منہ پھر لینے کے بعد مر ہی جاتی۔۔۔۔۔ میں

نہیں جانتی کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔
تب تو وہ تم سے ملتا بھی رہتا ہوگا۔
ہرگز نہیں۔۔۔۔ اس فون پر مجھ سے کہا تھا کہ وہ چوکیدار کو میرے لئے ایک پیکٹ دے گیا ہے۔ میں وصول کرلوں۔۔۔۔۔

اس پیکٹ میں چرس کا ایکسٹریکٹ ہے اور میرے لئے بہت دنوں کے لئے کافی ہوگا۔ اب میں نہیں سمجھتی کہ

اس نے ایسا کیوں کیا۔
اور اب ساجد کے بارے میں بھی سچی بات بتادو۔
کک۔۔۔۔۔ کیا مطلب۔؟
محبوبائیں جھوٹ بولتی ہیں تو میں انہیں جان سے ماردیتا ہوں۔
وہ۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ میں تمہارے ہی ڈر سے جھوٹ بولی تھی۔۔۔۔۔ مجھے معاف کردو۔ تمہیں تلاش کرنے کے سلسلے

میں سب کچھ ہوا ہے۔
اور کیا ہوا ہے۔؟
سس۔۔۔۔۔ ساجد والا معامہ۔۔۔۔۔ اس نے تمہیں کبھی نہیں دیکھا۔ وہ دراصل میں نے اسے ڈورا کرسٹی کی

نگرانی پر لگایا تھا کہ شائد کبھی تم اس سے ملو۔۔۔۔ اور ساجد تمہارا تعاقب کرکے تمہاری قیام گاہ سے واقف

ہوجائے۔
تو تم اس طرح رہی ہو میری ٹوہ میں۔
مجھے معاف کردو ڈارلنگ۔۔۔۔۔ میں تم سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔ ورنہ کوئی مرد مجھ سے ایسے لہجے میں گفتگو

کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔
پوری بات بتاؤ۔
تھیلما نے ساجد کی کہانی دہرائی تھی۔
اور وہ آنکھیں نکال کر بولا تھا۔ دل تو یہی چاہتا ہے کہ ابھی اسی وقت تمہارا گلا گھونٹ دوں۔۔۔۔۔ لیکن پھر سوچتا

ہوں کہ تم واقعی دل کے ہاتھوں مجبور ہی ہوگی۔۔۔۔۔ ویسے اول درجے کی احمق ہو۔۔۔۔۔۔ میں نے کتنی بار تمہیں

کہا ہے کہ تم سے ملنے کے بعد سے کوئی عورت نہیں جچی نظروں میں۔۔۔۔۔ ڈورا کرسٹی تم سے پہلے کی

بات ہے۔ اسکے ساتھ میں اب کیسے دیکھا جاسکتا ہوں۔
میں مرنے کو تیار ہوں ڈارلنگ۔ تمہاری زبان سے یہ اعتراف سن لینے کے بعد زندہ نہیں رہنا چاہتی۔
کیوں اس نے چونک کر پوچھا۔
کل یہی بات کسی دوسری سے نہ کہنی پڑے۔ لہذا میرے لئے یہ بہت بڑا اعزاز ہوگا کہ اس سے پہلے ہی

مرجاؤں۔
ساجد نے اس کا حلیہ کیا بتایا تھا۔
بڑی خوفناک شکل تھی۔ خونخوار آنکھیں۔ موٹی سی ناک۔۔۔۔۔ مونچھیں ایسی کہ دہانہ دکھائی نہ دیتا تھا۔ اس

نے ساجد کو یہ بھی بتایا تھا کہ ڈورا کرسٹی اس کے باس کی محبوبہ ہے! باس کو اس پر شبہ ہوگیا ہے کہ اس

کا تعلق کسی اور سے بھی ہے لہذا وہ اس کے ملنے جلنے والوں کی نگرانی کررہا ہے۔
وہ چند لحمے خاموش رہنے کے بعد بولا۔ اچھا تو اس نے ساجد سے یہ بھی کہا ہوگا کہ تم سے اس ملاقات کا

ذکر نہ کرے۔
اوہ۔۔۔۔۔ بالکل یہی کہا تھا۔ تم کتنی سوجھ بوجھ رکھتے ہو ڈارلنگ مجھے بتاؤ وہ کون ہے اور تمہارے پیچھے کیوں

پڑگیا ہے۔
ایک کاروباری حریف۔ تم فکر نہ کرو۔۔۔۔۔ اور ساجد سے کہہ دو کہ بدستور ڈورا کرسٹی کی نگرانی کرتا رہے۔
وہ تو کررہا ہے۔
بہت وفادار آدمی معلوم ہوتا ہے کہ تم سے ذکر کردیا۔
وہ تو اپنی جان بچانے کے لئے اس نے اس سے اتفاق کرلیا تھا ورنہ شائد گفتگو کرنا بھی پسند نہ کرتا۔
ہوں تو وہ چرس کا ایکسٹریکٹ۔؟
حیرت انگیز ہے ڈالنگ۔ چرس سے بھی زیادہ سرور لاتا ہے۔
اس کے بعد بھی اس نے تم سے فون پر گفتگو کی ہوگی۔
نہیں قطعی نہیں۔۔۔ لیکن مجھے شبہ ہے۔۔۔! میرا خیال ہے کہ سلمانی سے بات ہوتی رہتی ہے۔
اوہ۔۔۔! اس نے زوردار قہقہ لگایا تھا۔
وہ بھی ہنسنے لگی تھی اور پھر علامہ نے کہا تھا! اب تم جاؤ اور آئندہ ادھر کا رخ بھی نہ کرنا میں خود ہی تم

سے ملتا رہوں گا۔
تم بھول جاؤ گے۔
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ دراصل کچھ معاملات صاف نہیں تھے۔ جو اس معاملات کے بعد واضح ہوگئے ہیں۔ لہذا اب

نہ ملنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اچھا اب تم سٹنگ روم میں جاؤ۔ میرا دوست اچھا آدمی ہے کچھ دیر اس

سے گفتگو کئے بغیر مت جانا۔
میں کسی پالتو کتیا کی طرح تمہارے احکامات کی تعمیل کرتی ہوں
اسی لئے تمہارے علاوہ اب اور کوئی عورت پسند نہیں آتی۔۔۔ کل رات تک کے لئے رخصت۔
کل ملو گے۔! وہ خوش ہوکر بولی۔
ہاں۔۔۔ ہاں۔ اب روز ملوں گا بے فکر رہو۔
وہ سٹنگ روم میں واپس آئی تھی۔ لیکن اب وہ شخص موجود نہیں تھا۔ ہچکچاہٹ کے ساتھ ایک طرف بیٹھ گئی۔

لیکن اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا۔ علامہ جلد ہی اپنی اصل ہیبت میں وہاں پہنچ گیا تھا۔
مجھے افسوس ہے کہ محترمہ ایک ضروری کام میں الجھ گیا تھا۔ کیا آپ کی ملاقات اس سے ہوگئی۔ میں نے

ملازم کو ہدایت کردی تھیں۔
ہوگئی۔۔۔ تمہارا بہت شکریہ۔! تھیلما بولی۔
وہ علامہ اور شہزور کی آوازوں میں ہلکی سی بھی مماثلت محسوس نہ کرسکی تھی۔
آپ کیا پیئیں گی۔ علامہ نے پوچھا۔
کچھ بھی نہیں۔ ویسے آپ نے اپنا پورا تعارف نہیں کرایا۔
یونیورسٹی میں سوشیالوجی کو درس دیتا ہوں۔
اوہ۔۔۔ تو میں ایک استاد سے متعارف ہوئی ہون۔! خوش نصیبی۔
علامہ سرف مسکراکر رہ گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساجد نے ڈورا کرسٹی کو اُسکے گھر تک پہنچادیا تھا۔ اور پھر واپسی کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک

گاڑی اور آکر رکی اور اس پر سے وہی لحیم شحیم ہپی اترتا دکھائی دیا۔ جس کے سراغ پانے ہی کے لئے وہ

ڈورا کرسٹی کی نگرانی کرتا رہا تھا۔۔۔! سارے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی اور ہاتھ پیر کانپنے لگے۔ سڑک

کے دوسرے کنارے پر اس نے اپنی موٹر سائیکل روکی تھی۔
ہپی کو عمارت میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ اور نیچے بیٹھ کر ٹارچ کی روشنی میں موٹر سائیکل کے انجن کا

جائزہ لینے لگا۔
کبھی پلگ نکال کر اسے صاف کرتا اور کبھی کوئی پرزہ ٹٹولتا۔ بہرحال یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا جیسے گاڑی میں

اچانک کوئی خرابی واقع ہوجانے کی بنا پر اسے رکنا پڑا ہو۔
لیکن ضروری نہیں تھا کہ ہپی کی واپسی جلد ہی ہوجاتی۔ دل ہی دل میں اُسے گالیاں دے رہا تھا۔ پتا نہیں اس

وقت کہاں سے آیا مردود جبکہ وہ واپس جارہا تھا۔ دن بھر کی تھکن نے توڑ کر رکھ دیا تھا اور پچھلے دو دنوں سے

ڈورا کرسٹی خود اُسے بھی اچھی لگنے لگی تھی۔ اور یہی سوچتا رہتا تھا کہ اس قضیئے کے اختتام پر وہ

بھی اُس کے بوتیک میں جاکر اپی جلد کی رنگت کو مزید نگھارنے کا ٹھیکہ دے آئے گا۔
انجن پر جھکے جھکے کمر دکھنے لگی تھی۔۔۔ اس لئے پل بھر کو سیدھا ہونے کی کوشش کی۔ لیکن پوری طرح

سیدھا بھی نہیں ہوپایا تھا کہ کسی نے عقب سے گردن پر وار کیا۔۔۔ ایسی ہی ضرب تھی کہ آنکھوں میں

ستارے ناچے بھی اور تاریخی میں تحلیل ہوگئے۔ چکرا کر گرا تھا اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوگیا تھا۔
دوبارہ پتہ نہیں کب آنکھ کھلی تھی۔۔۔ اور کہاں کھلی تھی بوکھلا کر اٹھ بیٹھا۔
بستر سے کود کر دروازے کی طرف جھپٹا! ہینڈل گھما کر کھولنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ مقفل ثابت ہوا۔
پاگلوں کی طرح دروازہ پیٹنا شروع کردیا۔ ساتھ ہی احمقانہ انداز میں چیخے بھی جارہا تھا۔
بالآخر کسی نے باہر سے قفل میں کنجی گھمائی اور ڈپٹ کر بولا پیچھے ہٹ جاؤ۔
ساجد اچھل کر کئی قدم پیچھے ہٹ گیا تھا۔ دروازہ کھلا اور سامنے وہی دیوزاد ہپی کھڑا نظر آیا۔ کمرے میں

داخل ہوکر اُس نے دروازہ بند کرتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔ آرام سے بیٹھ جاؤ۔۔۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
لل۔۔۔۔۔ لیکن یہ سب کیا ہے۔ ساجد ہکلایا۔
کچھ بھی نہیں۔۔۔ بس معقول معاوضے پر تم میرے لئے ایک کام کرو گے۔ اور میں صرف پانچ سو پر ٹالنے کی

کوشش نہیں کروں گا۔ میری طرف سے پانچ ہزار۔
مم۔۔۔ میں سمجھا نہیں جناب۔
تم اپنی مالکہ کے لئے میرا پتہ معلوم کرنا چاہتے تھے۔
جج۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ میں بے قصور ہوں۔
مجھے علم ہے۔ کوئی بھی مالک کا حکم نہیں ٹال سکتا۔
جی ہاں۔۔۔ جی ہاں۔! ساجد خوش ہوکر بولا۔
میں اس سلسلے میں تم سے باز پرس نہیں کرنا چاہتا۔
شش۔۔۔ شکریہ جناب۔
لیکن وہ آدمی جس نے تمہیں اپنے مفاد میں ورغلانے کی کوشش کی تھی۔
آپ جانتے ہیں۔؟
مجھے علم ہے۔
تو پھر آپ یہ بھی جانتے ہں گے کہ وہ مجھے پستول کے زور پر اپنے ساتھ لے گیا تھا۔
ہاں میں یہ بھی جاتنا ہوں۔
تو پھر میں بے قصور ہو نا۔
میں نے ابھی تک تمہیں قصوروار تو نہیں ٹھہرایا۔
بہت بہت شکریہ جناب۔
مجھے بھی اُس آدمی کی تلاش ہے۔ اگر وہ ہاتھ آگیا تو میں تمہیں پورے پانچ ہزار دوں گا۔
آپ اتنے مہربان ہیں تو میں آپ کا کام مفت بھی کرسکتا ہوں جناب عالی۔
تم کس طرح کرو گے میرا کام۔
جی طرح بھی آپ فرمائیں گے جناب۔
ٹھیک ہے میں ایسا ہی جواب چاہتا سننا چاہتا تھا۔۔۔ تمہارے پاس اس کے فون نمبر ہیں۔؟
جی ہاں۔
اس سے فون پر رابطہ قائم کرکے کہو کہ تم نے میری قیام گاہ کا پتہ لگالیا ہے۔
بہت اچھا جناب۔
پتہ میں تمہیں بتادوں گا۔
ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن اگر اُس نے مجھ سے کہا کہ اُس کے ساتھ جاکر آپ کی قیام گاہ دکھاؤں تو۔۔۔؟
ایسی صورت میں اُس سے پانچ سو پہلے ہی وصول کرلینا۔
آپ کو کوئی اعتراض تو نہ ہوگا۔
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ مجھے رہا کردیں گے۔
کمال کرتے ہو۔۔۔۔۔ ارے بھئی گرفتار کب کیا تھا کہ رہا کروں گا۔ وہاں سڑک پر رک کر تمہیں پوری بات سمجھا دینا

خطرے سے خالی نہ ہوتا۔۔۔ اس لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا۔
کوئی بات نہیں۔۔۔! ساجد سر ہلا کر بولا۔ لیکن جناب۔۔۔۔۔ آخر میری مالکہ آپ کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہیں۔
بیوقوفی کی باتیں مت کرو۔۔۔۔۔! وہ اسے آنکھ مار کر مسکرایا تھا۔
ساجد کے دانت نکل پڑے۔۔۔۔۔ انداز ایسا ہی تھا جیسے بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایئر پورٹ پر میاں توقیر محمد جس شخص کو انٹر کانٹی نینٹل کا نمائندہ سمجھ بیٹھے تھے ہو بلیک زیرو کے

علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔۔۔۔۔! وہ اُس کی فراہم کی ہوئی گاڑی میں جولیا سمیت بیٹھے تھے اور پھر بیٹھے

ہی بیٹھے سو گئے تھے۔ کیونکہ گاڑی کی روانگی سے قبل بلیک زیرو نے انہیں کافی بھی پلوائی تھی۔
بیدار ہونے پر انہوں نے خود کو گاڑی کی بجائے کسی خواب گاہ میں پایا تھا۔
بلیک زیرو سے دوبارہ ملاقات ہوئی تھی اور اُس نے انہیں کچھ پوچھنے کا موقع نہیں دیا تھا خود ہی بتانے لگا تھا

کہ ان کی زندگی خطرے میں تھی اس لئے انہیں ایک محفوظ مقام پر لایا گیا ہے۔
میری زندگی خطرے میں تھی۔! میاں توقیر نے بے یقینی کے سے انداز میں پوچھا۔
جی ہاں۔۔۔۔۔ اور اُسی عورت کے توسط سے جس کے لئے آپ یہاں تشریف لائے ہیں۔
میاں توقیر کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا تھا۔۔۔۔۔ انہوں نے گرج کر پوچھا۔۔۔۔۔! تم آخر ہو کون اور تمہیں اس کی

جرات کیسے ہوئی۔
 

فہیم

لائبریرین
آگئے اپنی اصلیت پر۔۔۔۔۔! تیسری آواز سنائی دی اور وہ اُس کی طرف مڑ گئے۔
بائیں جانب والے دروازے سے عمران اندر داخل ہوا تھا۔
آپ اپنی شخصیت پر کتنے ہی غلاف چڑھائیں۔۔۔۔۔ آپ کی اصل تو نہیں چھپ سکتی۔
کیا مطلب۔۔۔۔۔؟
ایک جھٹکے میں فرشتہ پن رخصت ہوگیا! گرج برس رہے ہیں بچارے پر۔
ارے کہیں۔۔۔۔۔! تم لوگوں کا دماغ تو نہیں چل گیا۔
سنا بھئی۔۔۔۔۔! عمران نے بلیک زیرو سے کہا۔ ان کی شیریں زبانی کے چرچے تھے۔
اوہ۔۔۔۔۔ آخر تم لوگ ہو کون۔؟
عمران نے اُن کی بات کا جواب دینے کے بجائے بلیک زیرو سے کہا۔ تم نے اسٹارٹ ہی غلط لیا تھا۔
انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہو کہ ہم لوگ انہیں اغوا کر لائے ہیں اور مبلغ پانچ لاکھ
وصول کئے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔
وہ ۔۔۔۔۔ وہ لڑکی کہاں ہے جو میرے ساتھ تھی۔! دفعتاً وہ چونک کر بولے۔
اُسے تو ہم نے انٹر کانٹی نینٹل پہنچادیا تھا۔! وہ وہیں آپ کا انتظار کررہی ہوگی۔! عمران بڑی سادگی سے بولا۔

عورتوں کے اغوا کو ہم بدتمیزی سمجھتے ہیں۔
عورت کو کبھی نقصان نہیں پہنچتا۔ اگر وہ ایسا سمجھتی ہے تو غلط فہمی میں مبتلا ہے۔
تم جانتے ہو۔! میں کون ہوں؟
میاں توقیر محمد جھریام۔
اچھا اچھا ۔۔۔۔۔ میں سمجھ گیا! اپوزیشن۔
خدا کے لئے یہاں سیاست نہ چھیڑ دینا۔۔۔۔۔ ویسے تمہاری موت کی ذمہ داری اپوزیشن ہی کے سر آنے والی

تھی کہ اچانک قاتل نے اسکیم بدل دی۔ ویسے مجھے حیرت ہے کہ تمہیں اپنی دونوں خالہ زاد بہنوں کی موت

کی اطلاع نہیں ملی۔
دونوں۔۔۔۔۔ کیا ملطب۔۔۔۔۔ مجھے یاسمین کی موت کی اطلاع ملی تھی اور اس سفر کا اصل مقصد ماتم پرسی

تھا۔
دوسری بھی چل بسی۔۔۔۔۔ آُپ کا نانہال بھی ختم۔
خداوند۔۔۔۔۔ آخر تم کیا کہہ رہے ہو۔
زہر مائی ڈیئر توقیر محمد۔
کیا سوتیلی ماں۔؟
جی نہیں! سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ وہ بڑی نیک عورت ہے۔
تو پھر۔؟
لمبی کہانی ہے۔۔۔۔۔ اس کے لئے آپ کو ماضی میں چھلانگ لگانی پڑی گی۔
جلدی سے بتاؤ۔
آپ کے والد صاحب نے اپنے ایک مزارع پیر علی پر ظلم کیا تھا۔
بس۔۔۔۔۔! میاں توقیر ہاتھ اٹھاکر بولے۔۔ خدا کے لئے اس کا ذکر مت کرو۔۔۔۔۔ میں نے سنا ہے۔
اور اس گھرانے کا ایک فرد بچ گیا تھا۔
وہ کون ہے؟ کہاں ہے؟ جس طرح بھی ممکن ہوگا میں اسے خوش کرنیکی کوشش کروں گا۔
ہونہہ۔۔۔۔۔ آُپ سے کہیں زیادہ اونچی پوزیشن والا ہے۔۔۔۔۔ اور آپ آخری آدمی ہیں جس کے خاتمے کے بعد شائد

اس کے انتقام کی آگ فرد ہوجائے۔۔۔۔۔! وہ مصنوعی وبا اسی کی لائی ہوئی تھی جس کا شکار آُپ کے خاندان

کے افراد ہوئے تھے۔
لیکن اسے کسی طرح بھی ثابت نہیں کیا جاسکے گا کہ وہ پیر علی کا بیٹا ہے۔
آخر۔۔۔۔۔ وہ ہے کون۔۔۔۔۔؟
وہی جس کی خدمت میں آپ فرحانہ جاوید سے شادی کی دوخواست پیش کرنیوالے تھے۔
پروفیسر۔۔۔۔۔ میاں توقیر اچھل پڑے۔
ہاں۔۔۔۔۔ علامہ دہشت۔۔۔۔۔ فرحانہ اسی لئے جھریام پہنچی تھی کہ آُپ کو الجھانے کی کوشش کرے۔
خداوند۔۔۔۔۔! میاں توقیر دونوں ہاتھوں سےسرتھام کر رہ گئے۔۔۔۔۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر انہوں نے سر اٹھاکر

پوچھا۔ لیکن تم کون ہو؟ اور تمہیں ان معاملات کا علم کیسے ہوا۔؟
اس فکر میں نہ پڑئیے۔
میں تمہاری بات پر یقین کیسے کرلوں؟
کیا میں نے ابھی تک ماضی کے متعلق جتنی باتیں کی ہیں ان میں کچھ غلط تھا۔
نہیں لیکن۔
مطمئن رہیں جو کچھ بھی ہورہا ہے آپ کی بہتری کے لئے ہے! جیسے ہی مجھے ان حالات کا علم ہوا تھا میں

نے آُپ کے تحفظ کا انتظام کرلیا تھا۔ جولیا نافٹز واٹر میری ہی بھیجی ہوئی تھی۔ وہ آپ کی شناسا کسی

فرانسیسی خاتو کی بھانجی نہیں ہے۔
اوہ۔
وہ محض اس لئے وہاں بھیجی گئی تھی کہ علامہ زہروں کا ماہر معلوم ہوتا ہے۔
میاں توقیر سکتے کی سی حالت میں بیٹھے رہے۔
علامہ کے خلاف کوئی واضح ثبوت ابھی تک نہیں مل سکا! اسی لیے یہ قدم اٹھانا پڑا۔ عمران بولا۔
تو یہ کہیں کہ آپ کسی سرکاری ادارے سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہی سمجھ لیجئے۔! یہاں آُپ آرام سے رہیں گے۔! لیکن جب تک سارے معاملات صاف نہ ہوجائیں اس عمارت

سے باہر قدم نہیں نکال سکیں گے۔۔۔۔۔ میں اپنے خصوصی اختیارات کی بنا پر وزراء تک پر ایسی پابندیاں لگوا

سکتا ہوں۔
میرا سر چکرا رہا ہے۔
آرام کیجئے۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وزارت داخلہ کے توسط سے آپ کو مطمئن کردیا جائے گا کہ آپ غلط ہاتھوں میں

نہیں پڑے ہیں۔
میاں توقیر کچھ نہ بولے۔ پھر عمران اس کمرے میں واپس آیا جہاں جولیا اس کی منتظر تھی۔
شیلا کہاں ہے؟ اس نے عمران کو دیکھتے ہی پوچھا تھا۔
ہوگی کہیں۔۔۔۔۔! تمہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔
جولیا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے اسے گھورتی رہی تھی۔ دفعتاً اٹھ کر جھپٹ پڑی۔
ارے۔۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔۔ دماغ تو نہیں چل گیا۔ عمران ایک طرف ہٹتا ہوا بولا۔ جولیا پھر پلٹی تھی اس کی طرف۔
چیونگم ۔۔۔۔۔! عمران چیونگم کا پیکٹ اس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔
اس بار ہو حملہ آور نہیں ہوئی تھی۔ جھنجھلاہٹ اور شرمندگی کے ملے جلے آثار چہرے پر لئے کھڑی رہی۔۔۔۔۔

شاید سوچ رہی تھی کہ اس بوکھلاہٹ کی کیا ضرورت تھی۔
کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ یہ کیس ہمارے محکمے سے کس طرح تعلق رکھتا ہے۔
کسی طرح بھی نہیں۔
پھر ہم لوگ کیوں استعمال کئے جارہے ہیں۔؟
یہ اپنے چیف سے پوچھو کہ اس نے تم لوگوں کو میرے حوالے کیوں کردیا ہے۔
جولیا کچھ نہ بولی۔ لاجواب ہوگئی تھی۔ کیونکہ عمران بحیثیت عمران انہیں اپنے حکم پر چلانے کے اختیارات

ایکسٹو سے ہی حاصل کرتا تھا۔
بات کچھ اور آگے بڑھتی لیکن اس وقت انٹر کوم سے بلیک زیرو کی آواز آئی تھی۔ آپ کی فون کال ہے۔ عمران

صاحب۔
سیکرٹ سروس کے دوسرے ممبروں کی موجودگی میں وہ اسے عمران صاحب کہہ مخاطب کرتا تھا۔ اور وہ

سب اسے رانا پیلس کے نگراں کی حیثیت سے جانتے تھے۔ ان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ ایکسٹو

کی عدم موجودگی میں وہی ایکسٹو کا رول ادا کرتا ہے۔
عمران نے جولیا کی طرف دیکھا تھا اور دروازے کی جانب بڑھ گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساجد ریسیور کان سے لگائے دوسری طرف ڈھمپ کی آواز سننے کا منتظر تھا۔ کسی نے اسے ہولڈ آن کرنے

کو کہا تھا۔
اس نے کنکھیوں سے شہزور کی طرف دیکھا اور ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھ کر بولا۔! ہولڈ آن کرنے کو کہا گیا ہے۔
شہزور نے سر کو جنبش دی۔ لیکن اس کی طرف دیکھتا رہا۔
تھوڑی دیر بعد ساجد نے ڈھمپ کی آواز سنی۔
میں ساجد بولا رہا ہوں جناب۔ وہی جس کو آُ نے پچاس روپے چائے پینے کو دیئے تھے۔
اوہ۔۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔۔ سب خیرت؟ دوسری طرف سے آواز آئی۔
جی ہاں۔۔۔۔۔ آپ کا کام بن گیا ہے! میں جانتاہوں کہ ااس وقت وہ کہاں ہے۔
کہاں ہیے۔
یوں نہیں جناب۔! مبلغ پانچ سو جیب میں دالنے کے بعد ہی بتاؤں گا۔
تھیلما کو بھی آگاہ کیا یا نہیں۔
اب تو پہلے بزنس ہوگابقیہ باتیں بعد کی ہیں۔
میں نہیں سمجھا۔
کیوں نہ پہلے آُپ کا کام ہوجائے۔ ہوسکتا ہے وہ اس سے پہلے ہی مداخلت کر بیٹھیں اور آپ کا کام نہ ہوسکے۔
خاصے ذہین بھی معلوم ہوتے ہو۔
بندہ پروری ہے آُپ کی۔۔۔۔۔ ہاں تو پھر آپ کیا کہتے ہیں۔؟
تم نے معقول فیصلہ کیا ہے۔
میں رقم کی وصولیابی کی بات کررہا تھا۔
ٹھیک کررہے ہو۔۔۔۔۔ لیکن میں تمہیں رقم کہاں اور کیسے پہنچاؤں۔؟
آدھے گھنٹے بعد جیم خانے کے گیٹ پر ملوں گا۔
اور اگر اتنی دیر میں وہ کہیں کھسک گیا تو۔؟
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیونکہ اس نے ڈورا کرسٹی سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اسی جگہ رات کے کسی حصے

میں بھی اس سے مل سکتی ہے کیونکہ وہ پوری رات وہیں گزارے گا۔
تمہیں اس وعدے کا علم کیونکر ہوا۔؟
میں نے اپنے کانوں سے سنا تھا۔ وہ ڈورا سے ملنے گیا تھا۔ واپسی پر ڈورا اسے سڑک تک چھوڑنے آئی تھی۔

اور گاڑی کے قریب ہی کھڑے ہوکر انہوں نے گفتگو کی تھی۔ میں ڈوڈونیا کی باڑھ کے پیچھے چھپا ہوا سب کچھ

سن رہا تھا۔
اچھی بات ہے میں آدھے گھنٹے بعد جیم خانے کے پھاٹک پر ملوں گا۔
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہوجانے کی آواز سن کر اس نے بھی ریسیور رکھ دیا تھا۔
کیا رہی۔! شہزور نے نرم لہجے میں پوچھا۔
ساجد نے ڈھمپ کی گفتگو دہرائی تھی۔ اور شہزور بولا تھا۔
بہت خوب! اب تم ورانہ ہوجاؤ۔۔۔۔۔ اور جو کچھ بھی سمجھایا ہے اسے اچھی طرح یاد رکھنا۔
یاد رکھوں گا جناب۔
یہ ایک ہزار رکھو۔۔۔۔۔ بقیہ چار کام ہوجانے پر۔
شاجد نے نوٹ اس کے ہاتھوں سے جھپٹ لئے تھے اور انہیں بہت احیتاط سے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھتا

ہوا بولا تھا۔ شکریہ جناب کام آپ کی مرضی کے مطابق ہوگا۔
پھر اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی تھی اور دو آدمی اسے پکڑ کر وہاں سے لے چلے تھے۔
گاڑی پر بٹھایا تھا اور گاڑی کچھ دیر چلتی رہنے کے رکی تھی۔! پھر اس کی آنکھوں پر سے پٹی بھی اتار دی

گئی اور ایک آدمی بولا۔! یہیں اتر جاؤ۔۔۔۔۔ دو فرلانگ پیدل چلنے کے بعد تم جیم خانہ کے گیٹ تک پہنچ جاؤ گے۔
بہت اچھا جناب کہتا ہوا وہ گاڑی سے اتر گیا۔ اسے علم تھا کہ اب کدھر جانا ہے پیدل چل پڑا تھا اور گاڑی اسی

طرف موڑلی گئی تھی۔ جدھر سے آئی تھی۔
بار بار کوٹ کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک ہزار کے نوٹوں کو ٹٹولنے لگتا تھا۔ جلد ہی جیم خانے کے گیٹ

پر آپہنچا۔۔۔۔۔ معینہ وقت سے دس منٹ پہلے پہنچا تھا۔
پانچ سو اور ہتھیائے۔ وہ سوچ رہا تھا۔ جب دو موذیوں کے درمیان کھٹ پٹ ہوتو اسی طرح فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اور

وہ بی تھیلما یونہی خوامخواہ ٹر خارہی تھیں۔۔۔۔۔ قیامت کے وعدے پر۔۔۔۔۔ واہ۔ اب تمہیں تو میں اگلے سال ہی

بتاؤں گا کہ ہپی کو کہاں دیکھا تھا۔ سالی ایسے مٹک مٹک کر چلتی ہے کہ ارے باپ رے۔
ارے باپ بارے۔! بہ آواز بلند نکلا تھا زبان سے اور ایک بار پھر اس کے ذہن نے تاریکی میں قلابازی کھائی تھی۔

اسی رات دوباہ اس کی گردن پر قیامت ٹوٹی تھی اور ضرب بھی اتنی ہی شدید تھی کہ فوراً بے ہوش ہوگیا تھا۔
پھر ہوش میں آنے پر ڈھمپ کا خونخوار چہرہ نظر آیا۔ اس بار معاملات کوسمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی فوراً

گردن کی دوسری چوٹ یاد آگئی تھی اور اس کے ذہن پر جھنجھلاہٹ کا حملہ ہوا تھا۔ اٹھ کر بیٹھنے کی

کوشش کرتا ہوا بڑبڑایا۔
اس سالے نے بھی۔۔۔۔۔! پھر سختی سے ہونٹ بھینچ لئے تھے۔
ہاں۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔ بات پوری کرو۔۔۔۔۔! ڈھمپ سر ہلا کر بولا۔ اس سالے نے بھی تمہارے ساتھ یہی برتاؤ کیا تھا۔
نن۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔ ہائے میں کہاں ہوں۔۔۔۔۔ کیا خواب دیکھ رہا ہوں۔
بس بس! ابھی تم کہہ دو گے کہ مجھے بھی نہں پہچانتے۔
پپ۔۔۔۔۔ پہچانتا ہوں۔۔۔۔۔ ساجد نے کہا اور دفعتاً محسوس کیا کہا س کے جسم پر کوٹ نہیں ہے۔ ایک ہزار کے نوٹ

فوراً یاد آگئے۔
میرا کوٹ۔۔۔۔۔ میرا کوٹ! وہ مضطربانہ انداز میں چاروں طرف دیکھتا ہوا بولا۔
کوٹ کی جیب میں رکھی ہوئی رقم محفوظ ہے۔ وہ ساجد کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا مسکرایا۔
مجھے سردی لگ رہی ہے کوٹ پہنوں گا۔
لیکن اگر تم نے سچی بات نہ بتائی تو ساری رقم کوٹ سمیت ضبط کرلی جائے گی۔
نن۔۔۔۔۔ نہیں خدا کے لئے۔
تو پھر جلدی سے سچی بات بتادو۔
ساجد دھڑ سے لیٹ گیا اور لگا دونوں ہاتھوں سے پیٹ پیٹنے۔
یہ کیا ہورہا ہے۔ ڈھمپ نے آنکھیں نکالیں۔
سب اسی مردود کی بدولت ہے ۔ ہائے پیٹ کا ہلکا ہوں۔
لوہے کی گیندیں نگوادوں گا اگر یہ بات ہے۔ ڈھمپ نے کہا۔
میں نے میم صاحب کو آپ سے ملاقات کے بارے میں بتادیا تھا۔
ہوں تو یہ بات ہے! میرا اندازہ غلط نہیں تھا۔۔۔۔۔ میم صاحب نے اس ہپی کو بتادا۔ اور اس نے اسی طرح تمہیں

اٹھوالیا ہوگا۔
یہی بات ہے۔۔۔۔۔ یہی بات ہے۔
میم صاحب کو کیوں بتایا تھا۔
کوئی بات ہی نہیں رکتی پیٹ میں۔
آپریشن کا کیس معلوم ہوتا ہے۔
کک۔۔۔۔۔ کیا مطلب۔؟
پیٹ پھاڑ کر دیکھوں گا کہا ایسا کیوں ہوتا ہے۔
اور اگر میں تمہیں سب کچھ سچ سچ بتادوں تو۔؟
تمہاری جیب میں پورے دو ہزار ہوں گے۔۔۔۔۔ اور تم چپ چاپ کسی دوسرے شہر میں چلے جانا چند دنوں کے

لئے۔
مجھے منظور ہے۔
تو پھر جلدی سے بتاؤ۔
ساجد نے ہپی کے ہاتھوں اٹھنے کی کہانی دہراتے ہوئے کہا۔ اب وہ سنئے جو اس نے مجھ سے رٹایا تھا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top