فہیم
لائبریرین
تلاش ہے! اس رات موٹر ٹریننگ گراؤنڈ میں اسی سے ٹکراؤ ہوا تھا۔
علامہ ۔۔۔۔۔ میری سمجھ سے باہر ہے۔
بیگم تصدق کی ماما کا سراغ ملا یانہیں۔
نہیں۔
بیگم تصدق کو حراست میں لے لیجئے۔
کیوں۔۔۔؟ جب تک ماما کا سراغ نہ ملے ضروری نہیں سمجھتا۔
معقول رقم دے کر اُسے روپوشی پر آمادہ کرلیا ہوگا۔
تو اب تم بھی یہی کہہ رہے ہو حالانکہ آج ہی بیگم تصدق کی موافقت میں بولتے رہے تھے۔
ضابطے کی کاروائی نہ کی گئی تو علامہ کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے اس کا ہمدرد شہزور۔۔۔ نہ جانے
کیا کیا کر گذرے گا۔
تو تم اس دھماکے کو بھی اسی سے متعلق سمجھ رہے ہو۔
جی ہاں۔۔۔۔ وہ چاہتا ہے کہ میں کسی طرح سامنے آؤں! ورنہ آپ اپنے چالیس سالہ ملازم چوکیدار کو کوئی ایسا
تخریب کار سمجھ لیجئے جس نے کسی مقصد کے تحت اپنی کوٹھری میں آتش گیر مادہ چھپا رکھا تھا۔
میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔! رحمان صاحب نے کہا۔ پھر چونک کر اسے گھورتے ہوئے بولے۔ تمہیں یہاں نہیں آنا
چاہیے تھا۔
میری موٹر سائیکل باہر کھڑی ہے۔۔۔۔ اسے کمپاؤنڈ میں منگوالیجئے گا۔۔۔ نمبر ایکس وائی تین سو بارہ ہے۔
اور تم۔۔۔۔
کسی طرح نکل جاؤں گا۔۔۔۔ موٹر سائیکل یہیں رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈورا کرسٹی اور مائیکل ظفرالملک کے بنگلے سے بر آمد ہوئے تھے۔۔۔ اور ان کا تعاقب شروع ہوگیا تھا! تعاقب
کرنے والے نے ان کی گاڑی اسٹارٹ ہوتے ہی اپنی موٹر سائیکل سنبھال لی تھی۔ لیکن جیسے ہی اُسے
اسٹارٹ کرکے آگے بڑھنا چاہا کسی نے ڈڈونیا کی باڑھ کے پیچھے سے اس پر چھلانگ لگائی تھی اور کیرئیر پر
بیٹھتا ہوا بولا تھا۔۔۔۔۔ چلتے رہو۔
کک۔۔۔۔ کون ہو تم۔۔۔؟
دوست۔۔۔۔۔! چلو کہیں وہ ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہوجائیں۔
ہچکچاہٹ کے ساتھ اس نے موٹر سائیکل آگے بڑھائی تھی ۔۔۔ تعاقب جاری رہا۔
اور بالاآخر اگلی گاڑی اسی عمارت کے سامنے جارکی تھی جہاں ڈورا کرسٹی کا قیام تھا۔
اب جدھر میں کہوں گا اُدھر چلو۔ تعاقب کرنے والے کے پیچھے بیٹھے اجنبی نے کہا۔
کیا میں تمہیں جانتا ہوں؟ تعاقب کرنے والے نے پوچھا۔
نہیں تم مجھے نہیں جانتے۔
تو پھر۔۔۔؟
تو پھر کیا! مجھ سے جو کہا گیا ہے میں کررہا ہوں۔ اجنبی نے جواب دیا۔
کس نے کہا ہے۔
بحث کروگے مجھ سے۔
تعاقب کرنے والے نے موٹر سائیکل سڑک کے نیچے اتار کر روک دی۔۔۔! یہاں اندھیرا اور سناٹا تھا۔
یہ کیا کررہے ہو۔۔۔؟ اجنبی نے پوچھا۔
تمہاری شکل دیکھنا چاہتاہوں۔۔۔ تعاقب کرنے والے نے کہا۔۔۔۔ لیکن دوسرے ہی لحمے میں کوئی سخت سی چیز
اس کے داہنے پہلو میں چھپنے لگی تھی اور اجنبی بولا تھا کہ جدھر میں کہوں ادھر چلو۔
کک۔۔۔۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔۔؟
یہ میری انگلی نہیں ریوالور کی نال ہے۔
اوہ۔۔۔ لیکن کیوں۔۔۔۔؟
جہاں لے چلوں چپ چاپ چلتے رہو۔ وجہ بھی بتادی جائے گی۔۔۔۔۔! کیا تم ایڈوکیٹ سلمانی کے پی اے نہیں ہو۔؟
ہاں تو پھر۔۔۔؟
چلو۔! اجنبی نے ریوالور کی نال کا دباؤ بڑھاتے ہوئے کہا۔ جدھر سے آ ئے ہو اُدھر ہی بائیک موڑلو۔
تعاقب کرنے والے نے تعمیل ہی کرنے میں عافیت سمجھی تھی۔
کچھ دیر بعد ساجد نے پوچھا تھا۔ آخر مجھے کہاں لے جاؤ گے۔
تم لے جارہے ہو مجھے۔! اجنبی بولا۔
لفٹ لینے کا حیرت انگیز طریقہ ہے مسٹر۔۔۔۔ اور اگر کوئی دوسری بات ہے تو یہ بتادوں کہ میرے پرس میں زیادہ
رقم نہیں ہے! اور کلائی پر گھڑی بھی نہیں ہے۔
کلائی پر گھڑی نہ ہونا میرے لئے حیرت انگیز ہے۔! اجنبی نے کہا۔
جہاں اُترنا ہو بتادینا۔۔۔ میں بھی خاصا زندہ دل ہوں۔
اگر زندہ دل آدمی ہو تو سیدھے ستنام ہاؤز ہی کی طرف نکل چلو۔
کک۔۔۔۔۔ کیا مطلب۔؟
تم وہیں تو جارہے ہو۔
تم کیا جانو۔۔۔۔۔ آخر تم ہو کون۔۔۔۔؟
رکنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ چلتے رہو۔! اجنبی نے ریوالور کا دباؤ بڑھا کر یاد دہانی کرائی۔
یہی بتادو۔۔۔۔۔ آکر چکر کیا ہے۔
تمہیں اس کام پر کس نے لگایا ہے اور کیوں۔۔۔۔؟
کمال ہوگیا۔۔۔۔ نہ لفٹ لینا چاہتے تھے اور نہ مجھے لوٹنا چاہتے تے۔۔۔۔۔ بس یہ معلوم کرنا چاہتے ہو کہ مجھے کس
نے اس کام پر لگایا ہے۔
تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔
اور اگر میں یہ پوچھوں کہ تمہیں اس سے کیا سروکار۔۔؟
تو میں صاف صاف بتادوں گا کہ ڈورا کرسٹی میرے باس کی محبوبہ ہے اور میرا باس یہ ضرور جاننا چاہے گا کہ
اُس کا کوئی رقیب تو نہیں پیدا ہوگیا۔ اجنبی نے غصیلے لہجے میں کہا۔
اوہ۔۔۔۔۔ تو یہ بات ہے۔
اس سے زیادہ کچھ نہیں۔! اجنبی بولا۔
تمہارا باس کون ہے۔
تھوڑی دیر میں میرے والد کا نام بھی پوچھو گے۔
بہت تنک مزاج معلوم ہوتے ہو۔
مناسب یہ رہے گا کہ ہم کہیں بیٹھ کر کافی کا ایک ایک کپ پئیں۔ اجنبی بولا۔
اچھا خیال ہے! اس طرح میں جلد از جلد تمہاری شکل بھی دیکھ سکوں گا۔ ساجد نے کہا۔
تم تو میرے کوائف سے بھی بخوبی واقف معلوم ہوتے ہو۔
ٹپ ٹاپ کی طرف چلو۔
بت۔۔۔۔ بہت مہنگی جگہ ہے۔
اخراجات میرے ذمے۔۔۔۔ اجنبی بولا۔
اور اسی طرح ریوالور کی نال پر لے چلو گے۔
ریوالور کی نال نہیں ہٹا سکتا۔! ویسے مطمئن رہو۔ کوئی تیسرا اسے نہیں دیکھ سکے گا۔
ٹپ ٹاپ کی کمپاؤنڈ میں پہنچ کر ساجد نے اجنبی کی شکل دیکھی تھی اور ایک سرد سی لہر اُس کے پورے
جسم میں دوڑ گئی تھی۔ بڑی بڑی خوفناک آنکھیں تھیں۔ بھدی سی موٹی ناک کے نیچے اتنی گنجان مونچھیں
تھیں کہ دہانہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
اندر چلو۔۔۔۔۔۔ وہ غرایا تھا۔
جو کچھ پوچھنا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہں پوچھ لو۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اندر نہیں جاؤں گا! یہاں ایسے بھی لوگ ہونگے جو مجھے اچھی
طرح جانتے ہونگے۔
تو پھر اس سے کیا فرق پڑے گا۔
میں ایڈوکیٹ نادر سلمانی کا پرسنل اسسٹنٹ ہوں! بہتیرے جج اور وکیل مجھے اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ اُن
سے یہاں ملاقات ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ میری حیثیت اتنی نہیں کہ میں ایسی جگہوں پر دیکھا جاسکوں۔
اور تم یہ نہیں چاہتے کہ یہ بات سلمانی تک پہنچے۔
ظاہر ہے۔
تو اس کا مطلب ہوا کہ ڈورا کی نگرانی خود سلمانی نہیں کراہا۔
ہرگز نہیں۔
تو پھر۔۔۔۔؟
بیگم صاحبہ۔۔۔۔۔ سلمانی کو اس کا علم نہیں۔
ہوں۔۔۔۔۔ وہ کیوں اس کی نگرانی کرارہی ہیں۔
میں نہیں جانتا۔
اچھا تو پھر تم نے ہوٹل میں اُن دونوں کا تعاقب کیوں کیا تھا۔۔۔؟
اُن میں ایک ڈاڑھی والا ہپی بھی تھا۔۔۔ دراصل وہ ڈورا کرسٹی کی نگرانی اس لئے کرارہی ہیں کہ اُس کے ایک
ملنے والے کا پتہ معلوم کرسکیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ ڈاڑھی والا ایک ہپی ہے۔ بہرحال جب میں نے انہیں
اس کا حلیہ بتایا تو انہوں نے کہا کہ وہ نہیں ہوسکتا۔
بات کچھ کچھ سمجھ میں آرہی ہے۔! خوفناک شکل والا اجنبی سر ہلا کر بولا۔ خیر۔۔۔۔ تو کیا تم نے اُُس ہپی کو
ستنام ہاؤز میں بھی دیکھا جس کا پتہ تھیلما معلوم کرنا چاہتی ہے۔
نہیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے ستنام ہاؤز میں کبھی کوئی ہپی نہیں دیکھا۔
کوبرا کہلاتا ہے۔
پہلی بار نام سن رہا ہوں۔
خیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اس ملاقات کا ذکر تھیلما سے نہیں کروگے۔! میرا باس سمجھتا تھا کہ کوئی مرد ہے تمہاری
پشت پر۔۔۔۔۔ لیکن ہپی والا چکر میرے باس کے لئے بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
تمہارا باس کون ہے۔۔۔۔؟
اس کی فکر نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لو۔۔۔۔۔۔۔۔ رکھو۔۔۔۔۔۔ جہاں دل چاہے کافی پی لینا۔! اجنبی نے پرس سے پچاس کا ایک
کھینچا اور اُس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا۔ اگر اس ہپی کا سراغ مل جائے تو مجھے بھی مطلع کرنا۔۔۔۔۔۔۔ اس
طرح تم سو سو کے پانچ کڑکڑاتے ہوئے نوٹ کماسکو گے۔
ساجد نے اُس کے ہاتھ سے نوٹ جھپٹے ہوئے کہا۔ تم سے رابطہ کس طرح قائم کرسکوں گا۔
ڈھمپ میرا نام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ فون نمبر۔۔۔۔۔! اُس نے اُسے ایک کارڈ دیا تھا جس پر صرف فون نمبر چھپا ہوا تھا۔
اور ہاں! اگر میں نہ ملوں تو پیغام دے دینا۔
ایسا ہی ہوگا۔
ایک بار پھر آگاہ کردوں کہ تھیلما کو ہماری ملاقات کا علم نہ ہونے پائے۔
مطمئن رہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس رات شہر میں کئی جگہ دھماکے ہوئے تھے ! اور پولیس ہیڈ کوارٹر اپنے دوسرے معاملات کو التواء میں ڈال
کر اُن کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔
لوگ خوفزدہ تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ ان دھماکوں سے زیادہ تر سرکاری افسروں کا نقصان پہنچا تھا۔ اس لئے پولیس نے وطن
دشمن اور تخریب کار عناصر کی تلاش شروع کردی تھی۔ سابقہ خراب ریکارڈ رکھنے والے افراد کو بھی گرفتار
کرلیا گیا تھا۔ لیکن رحمان صاحب کا محکمہ شہزور نامی کسی ہپی کی تلاش میں تھا۔ ویسے وہاں اُس کا
کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔
فیاض کو حیرت تھی کہ آخر یہ نیا نام کہاں سے آٹپکا۔ لیکن چونکہ ہدایت براہِ راست رحمان صاحب کی طرف
سے جاری ہوئی تھی اس لئے چوں چراں کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی تھی۔
خود فیاض کو دفتر چھوڑنا پڑا تھا اور اب اُسے شدت سے عمران کی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔
ادھر عمران دوسرے چکروں میں تھا۔ کچھ ہی دیر پہلے سائیکومینشن کے آپریشن روم میں جولیا کا پیغام
موصول ہوا تھا جسے ڈی کوڈ کرنے کے بعد دوبارہ پڑھ رہا تھا۔
پیغام کے مطابق میاں توقیر نے فرحانہ جاوید سے شادی کی درخواست کی تھی۔ اور جلد ہی اُس کے گارڈین
علامہ دہشت کی خدمت میں بھی حاضری دینے والے تھے۔ کیونکہ اُن کیل درخواست پر فرحانہ نے یہی مشورہ
دیا تھا۔! وقت کا تعین ہوتے ہی اطلاع دی جائے گی۔
سائیکومینشن سے عمران رانا پیلس پہنچا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور بلیک زیرو کو طلب کرکے اُسے جولیا کا پیغام سنایا تھا۔
بقول آغا حشر۔ چڑیا پھدک کے باز کے پنجے میں آگئی۔! مجھے پہلے خدشہ تھا۔! بلیک زیرو کچھ سوچتا ہوا بولا۔
اسی لئے میاں توقیر کی گمشدگی پر زور دیا تھا۔
سوال تو یہ ہے تمہاری تجویز کو بروئے کار کیسے لایا جائے۔۔۔؟
راستے میں ہی لے اڑیں۔
یہ صرف اُسی صورت میں ممکن ہوگا جب ٹرین سے سفر کیا جائے! اگر فشیالا کے ہوائی اڈے سے روانہ ہوئے تو
یہاں کے ایئرپورٹ ہی پر اُن سے ملاقات ہوسکے گی۔۔۔۔۔۔ ویسے میرا اندازہ یہی ہے کہ میاں توقیر ٹرین میں وقت
نہیں ضائع کریں گے۔
یہاں کے ایئر پورٹ پر بھی کوشش کی جاسکتی ہے۔
اُسی صورت میں جب میاں توقیر علامہ یا فرحانہ کو اپنی آمد سے مطلع کئے بغیر روانہ ہوجائیں گے۔
جولیا تو ہمیں روانگی کے وقت سے ضرور مطلع کرے گی۔
دیکھا جائے گا۔! عمران نے شانوں کو جنبش دی۔ چند لمحے کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔ اب یہ سارے معاملات تم
سنبھالو گے۔ میں تو چلا ۔ فون پر رابطہ رکھوں گا۔
پھر اس نے اسے ساجد سے متعلق ہدایات دی تھیں اور ڈھمپ کے نام اُس کی کسی متوقع فون کال کے بارے
میں بتاتے ہوئے کہا تھا۔ اُس کا وہ پیغام ریکارڈ کرلینا۔
بہت بہتر۔
پھر وہ پیٹر کے کمرے میں آیا تھا جس کی حالت پہلے سے مختلف نظر آرہی تھی۔۔۔ عمران کو اُس نے اس طرح
دیکھنا شروع کیا تھا جیسے پہچاننے کی کوشش کررہا ہو۔
کیا حال ہے۔۔۔۔! عمران نے پوچھا۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ خدا کا شکر ہے۔۔۔۔۔ میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔
تم مجھے کیا پہچانوگے۔ نہت چھوٹا سا تھا جب مجھے دیکھا تھا تم نے۔
خدا جانے۔۔۔۔۔! مجھے کچھ بھی یاد نہیں۔۔۔۔۔ یہ بھی نہیں جانتا کہ میں کون ہوں۔۔۔۔۔ اور کہاں ہوں۔
عمران نے اسے گھورنا کر دیکھا تھا لیکن اُس کا چہرہ سپاٹ نظر آیا۔ آنکھوں سے لاتعلقی ظاہر ہورہی تھی۔
پھر اب کیا خیال ہے۔۔۔۔۔! وہ کچھ دیر بعد بولا۔
خیال۔۔۔۔۔ کیسا خیال۔۔۔۔۔؟
شائد تمہیں شراب نہیں ملی۔
شراب، نہیں تو۔۔۔۔۔میں شراب نہیں پیتا! مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی پی ہو۔
یہاں تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔؟
قطعی نہیں۔۔۔۔۔ لوگ بہت مہربان ہیں۔۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ جب تم اچھے ہوجاؤ گے تو تمہیں باہر ٹہلنے کی اجازت مل
سکے گی۔
عمران نے مایوسانہ انداز میں سر ہلایا تھا اور واپسی کے لئے مڑگیا تھا۔
شیلا کے پاس پہنچا تو وہ اس طرح منہ پھلائے بیٹھی نظر آئی جیسے اس کا قانونی حق رکھتی ہو۔
برقعے میں چلنا پڑے گا میرے ساتھ۔! عمران کھنکار کر بولا۔
بس اتنی سی بات۔۔۔۔۔! میں تو سمجھی تھی شائد ٹکڑے ٹکڑے کرکے کسی پیٹی میں رکھو گے ور وہ پیٹی
تمہیں اپنے سر پر اٹھانی پڑے گی۔
میں ڈاڑھی اور شیروانی میں کیسا لگوں گا۔
بہت اچھے۔۔۔۔۔ دونوں اس سج دھج سے نکلیں گے اور تم راہگیروں کو روک روک کر کہنا ایک عرض ہے جنابِ
عالی ٹرین پر سفر کررہے تھے کسی نے جیب سے بٹوہ نکال لیا۔۔۔۔۔ ساری رقم اور ریل کے ٹکٹ اُسی میں
تھے۔۔۔۔۔ لاکھ کہا ٹکٹ چیکر کو لیکن اُس نے یقین نہ کیا۔ گاڑی سے اُتار دیا۔۔۔۔۔ واپسی کے لئے مدد کی
درخواست ہے۔
اگر تمہاری خواہش یہی ہے تو اس کے لئے بھی تیار ہوں لیکن اب دیر نہ کرو۔
کیا تم برقعے کی بات سنجیدگی سے کررہے تھے۔
ہاں۔۔۔۔۔ یہی مناسب ہوگا۔
کہاں چلو گے۔۔۔۔۔؟
لمبا پروگرام ہے۔۔۔۔۔ باتیں پھر ہوجائیں گی۔
پھر اُس نے بلیک زیرو سے پیٹر کو سائیکومینشن منتقل کردینے کے لئے کہا تھا۔ اور شبہ ظاہر کیا تھا کہ وہ
اپنی یادداشت کھو بیٹھا ہے۔
بن رہا ہے جناب۔۔۔۔۔! بلیک زیرو نے کہا۔
علامہ ۔۔۔۔۔ میری سمجھ سے باہر ہے۔
بیگم تصدق کی ماما کا سراغ ملا یانہیں۔
نہیں۔
بیگم تصدق کو حراست میں لے لیجئے۔
کیوں۔۔۔؟ جب تک ماما کا سراغ نہ ملے ضروری نہیں سمجھتا۔
معقول رقم دے کر اُسے روپوشی پر آمادہ کرلیا ہوگا۔
تو اب تم بھی یہی کہہ رہے ہو حالانکہ آج ہی بیگم تصدق کی موافقت میں بولتے رہے تھے۔
ضابطے کی کاروائی نہ کی گئی تو علامہ کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے اس کا ہمدرد شہزور۔۔۔ نہ جانے
کیا کیا کر گذرے گا۔
تو تم اس دھماکے کو بھی اسی سے متعلق سمجھ رہے ہو۔
جی ہاں۔۔۔۔ وہ چاہتا ہے کہ میں کسی طرح سامنے آؤں! ورنہ آپ اپنے چالیس سالہ ملازم چوکیدار کو کوئی ایسا
تخریب کار سمجھ لیجئے جس نے کسی مقصد کے تحت اپنی کوٹھری میں آتش گیر مادہ چھپا رکھا تھا۔
میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔! رحمان صاحب نے کہا۔ پھر چونک کر اسے گھورتے ہوئے بولے۔ تمہیں یہاں نہیں آنا
چاہیے تھا۔
میری موٹر سائیکل باہر کھڑی ہے۔۔۔۔ اسے کمپاؤنڈ میں منگوالیجئے گا۔۔۔ نمبر ایکس وائی تین سو بارہ ہے۔
اور تم۔۔۔۔
کسی طرح نکل جاؤں گا۔۔۔۔ موٹر سائیکل یہیں رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈورا کرسٹی اور مائیکل ظفرالملک کے بنگلے سے بر آمد ہوئے تھے۔۔۔ اور ان کا تعاقب شروع ہوگیا تھا! تعاقب
کرنے والے نے ان کی گاڑی اسٹارٹ ہوتے ہی اپنی موٹر سائیکل سنبھال لی تھی۔ لیکن جیسے ہی اُسے
اسٹارٹ کرکے آگے بڑھنا چاہا کسی نے ڈڈونیا کی باڑھ کے پیچھے سے اس پر چھلانگ لگائی تھی اور کیرئیر پر
بیٹھتا ہوا بولا تھا۔۔۔۔۔ چلتے رہو۔
کک۔۔۔۔ کون ہو تم۔۔۔؟
دوست۔۔۔۔۔! چلو کہیں وہ ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہوجائیں۔
ہچکچاہٹ کے ساتھ اس نے موٹر سائیکل آگے بڑھائی تھی ۔۔۔ تعاقب جاری رہا۔
اور بالاآخر اگلی گاڑی اسی عمارت کے سامنے جارکی تھی جہاں ڈورا کرسٹی کا قیام تھا۔
اب جدھر میں کہوں گا اُدھر چلو۔ تعاقب کرنے والے کے پیچھے بیٹھے اجنبی نے کہا۔
کیا میں تمہیں جانتا ہوں؟ تعاقب کرنے والے نے پوچھا۔
نہیں تم مجھے نہیں جانتے۔
تو پھر۔۔۔؟
تو پھر کیا! مجھ سے جو کہا گیا ہے میں کررہا ہوں۔ اجنبی نے جواب دیا۔
کس نے کہا ہے۔
بحث کروگے مجھ سے۔
تعاقب کرنے والے نے موٹر سائیکل سڑک کے نیچے اتار کر روک دی۔۔۔! یہاں اندھیرا اور سناٹا تھا۔
یہ کیا کررہے ہو۔۔۔؟ اجنبی نے پوچھا۔
تمہاری شکل دیکھنا چاہتاہوں۔۔۔ تعاقب کرنے والے نے کہا۔۔۔۔ لیکن دوسرے ہی لحمے میں کوئی سخت سی چیز
اس کے داہنے پہلو میں چھپنے لگی تھی اور اجنبی بولا تھا کہ جدھر میں کہوں ادھر چلو۔
کک۔۔۔۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔۔؟
یہ میری انگلی نہیں ریوالور کی نال ہے۔
اوہ۔۔۔ لیکن کیوں۔۔۔۔؟
جہاں لے چلوں چپ چاپ چلتے رہو۔ وجہ بھی بتادی جائے گی۔۔۔۔۔! کیا تم ایڈوکیٹ سلمانی کے پی اے نہیں ہو۔؟
ہاں تو پھر۔۔۔؟
چلو۔! اجنبی نے ریوالور کی نال کا دباؤ بڑھاتے ہوئے کہا۔ جدھر سے آ ئے ہو اُدھر ہی بائیک موڑلو۔
تعاقب کرنے والے نے تعمیل ہی کرنے میں عافیت سمجھی تھی۔
کچھ دیر بعد ساجد نے پوچھا تھا۔ آخر مجھے کہاں لے جاؤ گے۔
تم لے جارہے ہو مجھے۔! اجنبی بولا۔
لفٹ لینے کا حیرت انگیز طریقہ ہے مسٹر۔۔۔۔ اور اگر کوئی دوسری بات ہے تو یہ بتادوں کہ میرے پرس میں زیادہ
رقم نہیں ہے! اور کلائی پر گھڑی بھی نہیں ہے۔
کلائی پر گھڑی نہ ہونا میرے لئے حیرت انگیز ہے۔! اجنبی نے کہا۔
جہاں اُترنا ہو بتادینا۔۔۔ میں بھی خاصا زندہ دل ہوں۔
اگر زندہ دل آدمی ہو تو سیدھے ستنام ہاؤز ہی کی طرف نکل چلو۔
کک۔۔۔۔۔ کیا مطلب۔؟
تم وہیں تو جارہے ہو۔
تم کیا جانو۔۔۔۔۔ آخر تم ہو کون۔۔۔۔؟
رکنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ چلتے رہو۔! اجنبی نے ریوالور کا دباؤ بڑھا کر یاد دہانی کرائی۔
یہی بتادو۔۔۔۔۔ آکر چکر کیا ہے۔
تمہیں اس کام پر کس نے لگایا ہے اور کیوں۔۔۔۔؟
کمال ہوگیا۔۔۔۔ نہ لفٹ لینا چاہتے تھے اور نہ مجھے لوٹنا چاہتے تے۔۔۔۔۔ بس یہ معلوم کرنا چاہتے ہو کہ مجھے کس
نے اس کام پر لگایا ہے۔
تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔
اور اگر میں یہ پوچھوں کہ تمہیں اس سے کیا سروکار۔۔؟
تو میں صاف صاف بتادوں گا کہ ڈورا کرسٹی میرے باس کی محبوبہ ہے اور میرا باس یہ ضرور جاننا چاہے گا کہ
اُس کا کوئی رقیب تو نہیں پیدا ہوگیا۔ اجنبی نے غصیلے لہجے میں کہا۔
اوہ۔۔۔۔۔ تو یہ بات ہے۔
اس سے زیادہ کچھ نہیں۔! اجنبی بولا۔
تمہارا باس کون ہے۔
تھوڑی دیر میں میرے والد کا نام بھی پوچھو گے۔
بہت تنک مزاج معلوم ہوتے ہو۔
مناسب یہ رہے گا کہ ہم کہیں بیٹھ کر کافی کا ایک ایک کپ پئیں۔ اجنبی بولا۔
اچھا خیال ہے! اس طرح میں جلد از جلد تمہاری شکل بھی دیکھ سکوں گا۔ ساجد نے کہا۔
تم تو میرے کوائف سے بھی بخوبی واقف معلوم ہوتے ہو۔
ٹپ ٹاپ کی طرف چلو۔
بت۔۔۔۔ بہت مہنگی جگہ ہے۔
اخراجات میرے ذمے۔۔۔۔ اجنبی بولا۔
اور اسی طرح ریوالور کی نال پر لے چلو گے۔
ریوالور کی نال نہیں ہٹا سکتا۔! ویسے مطمئن رہو۔ کوئی تیسرا اسے نہیں دیکھ سکے گا۔
ٹپ ٹاپ کی کمپاؤنڈ میں پہنچ کر ساجد نے اجنبی کی شکل دیکھی تھی اور ایک سرد سی لہر اُس کے پورے
جسم میں دوڑ گئی تھی۔ بڑی بڑی خوفناک آنکھیں تھیں۔ بھدی سی موٹی ناک کے نیچے اتنی گنجان مونچھیں
تھیں کہ دہانہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
اندر چلو۔۔۔۔۔۔ وہ غرایا تھا۔
جو کچھ پوچھنا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہں پوچھ لو۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اندر نہیں جاؤں گا! یہاں ایسے بھی لوگ ہونگے جو مجھے اچھی
طرح جانتے ہونگے۔
تو پھر اس سے کیا فرق پڑے گا۔
میں ایڈوکیٹ نادر سلمانی کا پرسنل اسسٹنٹ ہوں! بہتیرے جج اور وکیل مجھے اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ اُن
سے یہاں ملاقات ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ میری حیثیت اتنی نہیں کہ میں ایسی جگہوں پر دیکھا جاسکوں۔
اور تم یہ نہیں چاہتے کہ یہ بات سلمانی تک پہنچے۔
ظاہر ہے۔
تو اس کا مطلب ہوا کہ ڈورا کی نگرانی خود سلمانی نہیں کراہا۔
ہرگز نہیں۔
تو پھر۔۔۔۔؟
بیگم صاحبہ۔۔۔۔۔ سلمانی کو اس کا علم نہیں۔
ہوں۔۔۔۔۔ وہ کیوں اس کی نگرانی کرارہی ہیں۔
میں نہیں جانتا۔
اچھا تو پھر تم نے ہوٹل میں اُن دونوں کا تعاقب کیوں کیا تھا۔۔۔؟
اُن میں ایک ڈاڑھی والا ہپی بھی تھا۔۔۔ دراصل وہ ڈورا کرسٹی کی نگرانی اس لئے کرارہی ہیں کہ اُس کے ایک
ملنے والے کا پتہ معلوم کرسکیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ ڈاڑھی والا ایک ہپی ہے۔ بہرحال جب میں نے انہیں
اس کا حلیہ بتایا تو انہوں نے کہا کہ وہ نہیں ہوسکتا۔
بات کچھ کچھ سمجھ میں آرہی ہے۔! خوفناک شکل والا اجنبی سر ہلا کر بولا۔ خیر۔۔۔۔ تو کیا تم نے اُُس ہپی کو
ستنام ہاؤز میں بھی دیکھا جس کا پتہ تھیلما معلوم کرنا چاہتی ہے۔
نہیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے ستنام ہاؤز میں کبھی کوئی ہپی نہیں دیکھا۔
کوبرا کہلاتا ہے۔
پہلی بار نام سن رہا ہوں۔
خیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اس ملاقات کا ذکر تھیلما سے نہیں کروگے۔! میرا باس سمجھتا تھا کہ کوئی مرد ہے تمہاری
پشت پر۔۔۔۔۔ لیکن ہپی والا چکر میرے باس کے لئے بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
تمہارا باس کون ہے۔۔۔۔؟
اس کی فکر نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لو۔۔۔۔۔۔۔۔ رکھو۔۔۔۔۔۔ جہاں دل چاہے کافی پی لینا۔! اجنبی نے پرس سے پچاس کا ایک
کھینچا اور اُس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا۔ اگر اس ہپی کا سراغ مل جائے تو مجھے بھی مطلع کرنا۔۔۔۔۔۔۔ اس
طرح تم سو سو کے پانچ کڑکڑاتے ہوئے نوٹ کماسکو گے۔
ساجد نے اُس کے ہاتھ سے نوٹ جھپٹے ہوئے کہا۔ تم سے رابطہ کس طرح قائم کرسکوں گا۔
ڈھمپ میرا نام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ فون نمبر۔۔۔۔۔! اُس نے اُسے ایک کارڈ دیا تھا جس پر صرف فون نمبر چھپا ہوا تھا۔
اور ہاں! اگر میں نہ ملوں تو پیغام دے دینا۔
ایسا ہی ہوگا۔
ایک بار پھر آگاہ کردوں کہ تھیلما کو ہماری ملاقات کا علم نہ ہونے پائے۔
مطمئن رہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس رات شہر میں کئی جگہ دھماکے ہوئے تھے ! اور پولیس ہیڈ کوارٹر اپنے دوسرے معاملات کو التواء میں ڈال
کر اُن کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔
لوگ خوفزدہ تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ ان دھماکوں سے زیادہ تر سرکاری افسروں کا نقصان پہنچا تھا۔ اس لئے پولیس نے وطن
دشمن اور تخریب کار عناصر کی تلاش شروع کردی تھی۔ سابقہ خراب ریکارڈ رکھنے والے افراد کو بھی گرفتار
کرلیا گیا تھا۔ لیکن رحمان صاحب کا محکمہ شہزور نامی کسی ہپی کی تلاش میں تھا۔ ویسے وہاں اُس کا
کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔
فیاض کو حیرت تھی کہ آخر یہ نیا نام کہاں سے آٹپکا۔ لیکن چونکہ ہدایت براہِ راست رحمان صاحب کی طرف
سے جاری ہوئی تھی اس لئے چوں چراں کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی تھی۔
خود فیاض کو دفتر چھوڑنا پڑا تھا اور اب اُسے شدت سے عمران کی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔
ادھر عمران دوسرے چکروں میں تھا۔ کچھ ہی دیر پہلے سائیکومینشن کے آپریشن روم میں جولیا کا پیغام
موصول ہوا تھا جسے ڈی کوڈ کرنے کے بعد دوبارہ پڑھ رہا تھا۔
پیغام کے مطابق میاں توقیر نے فرحانہ جاوید سے شادی کی درخواست کی تھی۔ اور جلد ہی اُس کے گارڈین
علامہ دہشت کی خدمت میں بھی حاضری دینے والے تھے۔ کیونکہ اُن کیل درخواست پر فرحانہ نے یہی مشورہ
دیا تھا۔! وقت کا تعین ہوتے ہی اطلاع دی جائے گی۔
سائیکومینشن سے عمران رانا پیلس پہنچا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور بلیک زیرو کو طلب کرکے اُسے جولیا کا پیغام سنایا تھا۔
بقول آغا حشر۔ چڑیا پھدک کے باز کے پنجے میں آگئی۔! مجھے پہلے خدشہ تھا۔! بلیک زیرو کچھ سوچتا ہوا بولا۔
اسی لئے میاں توقیر کی گمشدگی پر زور دیا تھا۔
سوال تو یہ ہے تمہاری تجویز کو بروئے کار کیسے لایا جائے۔۔۔؟
راستے میں ہی لے اڑیں۔
یہ صرف اُسی صورت میں ممکن ہوگا جب ٹرین سے سفر کیا جائے! اگر فشیالا کے ہوائی اڈے سے روانہ ہوئے تو
یہاں کے ایئرپورٹ ہی پر اُن سے ملاقات ہوسکے گی۔۔۔۔۔۔ ویسے میرا اندازہ یہی ہے کہ میاں توقیر ٹرین میں وقت
نہیں ضائع کریں گے۔
یہاں کے ایئر پورٹ پر بھی کوشش کی جاسکتی ہے۔
اُسی صورت میں جب میاں توقیر علامہ یا فرحانہ کو اپنی آمد سے مطلع کئے بغیر روانہ ہوجائیں گے۔
جولیا تو ہمیں روانگی کے وقت سے ضرور مطلع کرے گی۔
دیکھا جائے گا۔! عمران نے شانوں کو جنبش دی۔ چند لمحے کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔ اب یہ سارے معاملات تم
سنبھالو گے۔ میں تو چلا ۔ فون پر رابطہ رکھوں گا۔
پھر اس نے اسے ساجد سے متعلق ہدایات دی تھیں اور ڈھمپ کے نام اُس کی کسی متوقع فون کال کے بارے
میں بتاتے ہوئے کہا تھا۔ اُس کا وہ پیغام ریکارڈ کرلینا۔
بہت بہتر۔
پھر وہ پیٹر کے کمرے میں آیا تھا جس کی حالت پہلے سے مختلف نظر آرہی تھی۔۔۔ عمران کو اُس نے اس طرح
دیکھنا شروع کیا تھا جیسے پہچاننے کی کوشش کررہا ہو۔
کیا حال ہے۔۔۔۔! عمران نے پوچھا۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ خدا کا شکر ہے۔۔۔۔۔ میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔
تم مجھے کیا پہچانوگے۔ نہت چھوٹا سا تھا جب مجھے دیکھا تھا تم نے۔
خدا جانے۔۔۔۔۔! مجھے کچھ بھی یاد نہیں۔۔۔۔۔ یہ بھی نہیں جانتا کہ میں کون ہوں۔۔۔۔۔ اور کہاں ہوں۔
عمران نے اسے گھورنا کر دیکھا تھا لیکن اُس کا چہرہ سپاٹ نظر آیا۔ آنکھوں سے لاتعلقی ظاہر ہورہی تھی۔
پھر اب کیا خیال ہے۔۔۔۔۔! وہ کچھ دیر بعد بولا۔
خیال۔۔۔۔۔ کیسا خیال۔۔۔۔۔؟
شائد تمہیں شراب نہیں ملی۔
شراب، نہیں تو۔۔۔۔۔میں شراب نہیں پیتا! مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی پی ہو۔
یہاں تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔؟
قطعی نہیں۔۔۔۔۔ لوگ بہت مہربان ہیں۔۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ جب تم اچھے ہوجاؤ گے تو تمہیں باہر ٹہلنے کی اجازت مل
سکے گی۔
عمران نے مایوسانہ انداز میں سر ہلایا تھا اور واپسی کے لئے مڑگیا تھا۔
شیلا کے پاس پہنچا تو وہ اس طرح منہ پھلائے بیٹھی نظر آئی جیسے اس کا قانونی حق رکھتی ہو۔
برقعے میں چلنا پڑے گا میرے ساتھ۔! عمران کھنکار کر بولا۔
بس اتنی سی بات۔۔۔۔۔! میں تو سمجھی تھی شائد ٹکڑے ٹکڑے کرکے کسی پیٹی میں رکھو گے ور وہ پیٹی
تمہیں اپنے سر پر اٹھانی پڑے گی۔
میں ڈاڑھی اور شیروانی میں کیسا لگوں گا۔
بہت اچھے۔۔۔۔۔ دونوں اس سج دھج سے نکلیں گے اور تم راہگیروں کو روک روک کر کہنا ایک عرض ہے جنابِ
عالی ٹرین پر سفر کررہے تھے کسی نے جیب سے بٹوہ نکال لیا۔۔۔۔۔ ساری رقم اور ریل کے ٹکٹ اُسی میں
تھے۔۔۔۔۔ لاکھ کہا ٹکٹ چیکر کو لیکن اُس نے یقین نہ کیا۔ گاڑی سے اُتار دیا۔۔۔۔۔ واپسی کے لئے مدد کی
درخواست ہے۔
اگر تمہاری خواہش یہی ہے تو اس کے لئے بھی تیار ہوں لیکن اب دیر نہ کرو۔
کیا تم برقعے کی بات سنجیدگی سے کررہے تھے۔
ہاں۔۔۔۔۔ یہی مناسب ہوگا۔
کہاں چلو گے۔۔۔۔۔؟
لمبا پروگرام ہے۔۔۔۔۔ باتیں پھر ہوجائیں گی۔
پھر اُس نے بلیک زیرو سے پیٹر کو سائیکومینشن منتقل کردینے کے لئے کہا تھا۔ اور شبہ ظاہر کیا تھا کہ وہ
اپنی یادداشت کھو بیٹھا ہے۔
بن رہا ہے جناب۔۔۔۔۔! بلیک زیرو نے کہا۔