بُنیاد: جدید طرز کا پہلا اُردو مجّلہ

خواجہ طلحہ

محفلین
اُردو میں مجلاتی صحافت کا کوئی سنہری دور اگر کبھی آیا تھا تو اب اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں۔ ادبی اور تفریحی رسالوں کو ناپید ہوئے تو عرصہ گزر گیا، سرکاری گرانٹ پہ سسک سسک کر زندہ رہنے والے کچھ مجّلے اپنی سہ ماہی یا ششماہی رونمائی سے اپنی زندگیوں کا ثبوت فراہم کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی اشاعت کا مقصد بھی کسی علمی خدمت سے زیادہ متعلقہ گرانٹ کا جواز پیدا کرنا اور وابستہ سٹاف کی روزی روٹی کا اہتمام کرنا ہوتا ہے۔

میگزین جرنلزم کےاس گئے گزرے دور میں بنیاد جیسے مستند اور جیّد رسالے پر نگاہ پڑتی ہے تو مسرت، حیرت اور استعجاب کے مِلے جلے جذبات بیک وقت بیدار ہوتے ہیں۔

لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) کے گورمانی مرکزِ زبان و ادب کا جاری کردہ مجّلہ درساتِ اُردو جسے ‘بنیاد’ کا انتہائی مناسب نام دیا گیا ہے، اِس وقت پیشِ نظر ہے۔ یہ اس سلسلے کا دوسرا شمارہ ہے، لیکن پہلا شمارہ چونکہ ن ۔ م ۔ راشد نمبر تھا اس لئے صحیح معنوں میں زیرِ نظر شمارہ ہی پہلا شمارہ ہے کہ اس کے مندرجات سے رسالے کے عمومی مزاج، اور مستقبل میں اسکی اُٹھان کا اندازہ ہوتا ہے۔
مرکزِ زبان و ادب کے بینر تلے شائع ہونے والے اس رسالے کے مندرجات قاری کی توقع کے عین مطابق شعر و شاعری، فکشن، فلسفے اور تنقید کے مضامین کا احاطہ کرتے ہیں۔ شعر کے میدان میں کلاسیکی اُردو شاعری میں طنز و مزاح کی روایت، راشد کا اندازِ تخاطب، اردو غزل میں اساطیری حوالے، مختار صدیقی کے ہیئتی تجربے، مجید امجد کا تصورِ وقت اور اِن کے علاوہ مولانا روم، غالب، وارث شاہ اور فیض سے لے کر افتخار جالب تک کی شاعری کے مختلف پہلؤں پر سیر حاصل بحث موجود ہے۔


مزید پڑھیں بی بی سی اردو ۔۔۔۔
 
Top