اقتباسات بولتی دیواریں

دیوار انسانوں کے تحفظ کے لیے وجود میں لائی گئی تھی اور اب بے چاری خود غیر محفوظ ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ دیوار کی بھی وہی حالت ہوچکی ہے، جو دستور کی ہے، مگر دیوار تو (محاورے کے مطابق) غریب کی جورو کی طرح ہر ایک کی دسترس میں ہے۔

کسی کو دیواروں ’’پر باتیں لکھنا‘‘ اچھا لگتا ہے، تو کسی کو پوسٹر چسپاں کرنے کے لیے ان سے بہتر جگہ نہیں ملتی، کوئی پان کی پچکاری کے لیے دیواروں کو برمحل پاتا ہے، اور کوئی ’’ضروری حاجت‘‘ کے رفع کرنے کے لیے دیوار کا سہارا لیتا ہے۔

ان حالات میں شہر کی ہر دیوار اپنی بے چارگی پر ’’دیوار گریہ‘‘ نظر آتی ہے۔ یہ صورت حال دیواروں اور پس دیوار رہنے والوں کے لیے کتنی ہی الم ناک ہو، مگر عام شہریوں کے لیے بڑی فائدہ مند ہے۔

مثلاً پتھر دل محبوب کا ٹھکرایا اور دھتکارا ہوا دل شکستہ عاشق جب کسی دیوار پر ۔۔۔’’پروفیسر گُلگُلے شاہ کی کرامات۔۔۔۔ سنگ دل محبوب آپ کے قدموں میں ‘‘ لکھا ہوا پاتاہے تو بے قرار دل کو فوراً قرار آجاتا ہے اور پھر یہ عاشق پروفیسر گُلگُلے کے قدموں میں بیٹھا پایا جاتا ہے۔

دیواریں بتاتی ہیں کہ کس کس چیز کا منکر کافر ہے اور اب تک کون کون سا فرقہ کافر قرار پا چکا ہے۔ اس طرح مذہبی معلومات میں گراں قدر اضافہ ہوتاہے اور مسلمانوں پر منکشف ہوتا ہے کہ ان کی تعداد کس تیزی سے گھٹ رہی ہے۔
امّت گھٹنے کا غم مسلمانوں کو نورِ نظر اور لختِ جگر کی تعداد بڑھانے پر اُکساتا ہے اور دل سے آواز آتی ہے،

تو ہی ناداں چند ’’بچوں‘‘ پر قناعت کر گیا۔۔۔۔
۔۔۔
۔ عثمان جامعی کی کتاب، ’’کہے بغیر‘ سے اقتباس
 
ویسے اگر پروفیسر صاحب کا ایڈریس بھی مل جائے تو کی بات ہے :):):)
ہیں جی۔۔۔ آٹھ سال بعد بھی محبوب سنگدل ہی ہے
clear.png
 
ارے گلگلے بابا کے پاس صرف سنگدل محبوب کو ذیر کرنے کی سپشیلٹی ہے کیا اگر کوئی قابلِ التفات نہ سمجھے تو اسکو رام کرنے کا بھی تو کوئی نسخہ ہو گا ان کے پاس
تو ایسے بندے کو محبوب بنانے کی ضرورت کیا ہے۔ خوامخواہ کے نخرے
clear.png
 
زندگی کا مزہ تو کھٹے میں ہے !!۔۔۔۔
ٹی وی کے اشتہاروں تک
بات تو ٹھیک ہے ویسے دل اختیار میں ہوتا کب ہے بندے کے
دل کی ہی مانتے رہیے گا۔
اچھا۔۔۔تو یہ بات ہے
ڈھونڈتا ہوں کسی پروفیسر گلگلے کا پتہ اور بھابھی کو بھیجتا ہوں
 
Top