بولتا پاکستان مشتاق منہاس اور عمران خان

آبی ٹوکول

محفلین
بولتا پاکستان مشتاق منہاس اور عمران خان
مشتاق منہاس صاحب نے کل کے بولتا پاکستان میں مولانا فضل الرحمان کہ بیان
" ہم کے پی کے میں تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو نہیں مانتے "
کو جسٹی فائی کرتے ہوئے ایک انتہائی مضحکہ خیز اور بھونڈی تاویل یہ پیش فرمائی کہ یہ بھی عمران خان کا قصور ہے کہ انھوں نے اپنی دھواں دار تقریروں کے زریعے مولانا کو دیوار کے ساتھ لگانے کی بے جا کوشش کی لہذا اب یہ مولانا کی طرف سے انتہائی درست ری ایکشن ہے ۔ لاحول ولا قوۃ الا بااللہ
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر یہ بات درست بھی تسلیم کرلی جائے تو تب بھی یہ مولانا صاحب کہ عمل کے لیے ہرگز کوئی جواز نہیں بن سکتی اور دوسری بات یہ ہے کہ جناب مشتاق منہاس صاحب آپکی آنکھوں میں شریف برادرن کی محبت اور عمران خان سے تعصب کی جو پٹی بندھ چکی ہے اسکا مشاہدہ تو بولتا پاکستان کہ ہرہر شو میں ایک سادہ سے سادہ پاکستانی بھی کرسکتا ہے ۔ اب کہنے کو تو آپ صحافی ہیں مگر اس صحافت کی آڑ میں بولتا پاکستان کے نام سے پیٹ پروری کا جوتسلسل آپ نے قائم فرما رکھا ہے وہ آپکے صحافتی ایجنڈے سے زیادہ کسی اور ایجنڈے کی خبر دیتا ہے ۔
آپ نے مولانا کی محبت میں انکی غلط بات کا زمہ دار بھی عمران کو ٹھرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران نے انکو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی مگر آپ یہ بھول گئے کہ مولانا کو بھلا دیوار کے ساتھ کون لگا سکتا ہے ؟؟؟
انکا تو اپنا ذاتی اور سیاسی حجم اتنا زیادہ ہے کہ انکو دیوار کے ساتھ لگانے کی کسی کی بھی کوئی بھی کوشش بندے کو ہلکان کرنے کے لیے کافی ہے اور اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کہ انھے کوئی دیوار کے ساتھ لگا سکے اور ویسے بھی دیوار کے ساتھ تو سیاسی طور پر نو وارد قوتوں کو لگایا جاتا ہے مولانا تو بہت پرانے اورمنجھے ہوئے بلکہ انتہائی زیرک اور شاطر سیاست دان ہیں کہ جنکی سیاسی چالوں کے ڈنکے بڑی بڑی دور دور تک سنائی دیتے ہیں انھے بھلا کون اور کیسے دیوار کے ساتھ لگا سکتا ہے ؟؟؟ اور ویسے بھی ایسے شخص کو کون دیوار کے ساتھ لگائے کہ جس کے پاس اگرچہ ایک سیٹ بھی ہو تو اپوزیشن میں بیٹھنا جسے بوجھ اور گالی لگے چناچہ ہر حکومت میں شامل ہوجانا جسکی ہمیشہ سے پہلی اور اولین ترجیح رہی ہو اوراس کے لیے جو بھی کشٹ اسے اٹھانا پڑے وہ اس راہ میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرئے ۔ اور ویسے بھی حقیقت یہ ہے کہ مولانا اور عمران کے مابین محاذ آرائی کی ابتدا عمران نے نہیں بلکہ خود مولانا نے فرمائی تھی اور وہ بھی ایک سنگین جھوٹا اور لایعنی پروپیگنڈہ، یہ پھیلا کر کہ عمران یہودیوں کا ایجنٹ ہے ۔ اب آپ کی آنکھوں پر تو تعصب کی اس قدر پٹی بندھ چکی ہے کہ آپ بولتا پاکستان کے ہر پروگرام میں خود کے عمران خان کے خلاف ہتک آمیز اور طعن و تشنیع پر مبنی رویہ کو اپنی ذاتی رائے بنا کرپیش کرتے ہیں جبکہ آپ اچھے سے جانتے ہیں کہ رائے تب دی جاتی ہے جب مانگی جائے یا پھر کسی خاص وقوعہ کا کوئی خاص پہلو اجاگر کرنا ہو، ویسے بھی ایک ہی شے کی بار بار گردان اور ایک ہی شخص کے خلاف ہمہ وقت کمر بستہ رہنا رائے سے زیادہ کسی خاص ایجن۔ڈے کی نشادہی کرتا ہے ۔
خاص طور اس وقت کہ جب آپ دوسروں کی بالکل ویسی ہی غلطیوں سے صرف نظر فرمائیں جبکہ اکیلےعمران کو ہدف تنقید و طعن تشنیع ٹھرائیں ۔ آپ تو صحافی ہیں اور صحافی سب سے زیادہ باخبر ہوتا ہے کل کے پروگرام میں جب سندھ سے ایک خاتون نے ٹیلی فون کرکے میاں بردارن کی صدر زرداری کے خلاف بازاری زبان کے استعمال کا ذکر کیا جو انھوں نے متعدد موقعوں پرزرداری صاحب کے خلاف استعمال کی، خاص طور شہباز شریف نے تو اول تو آپ نے اس بے خبری ظاہر فرمائی جو کہ صریحا ناممکن ہے کہ آپ جیسے زیرک صحافی سے میاں صاحب کی وہ تقاریر پوشیدہ ہوں اور پھر بعد میں آپ کھسیانی سی ہنسی ہنس کر یوں گویا ہوتے ہیں کہ اگر میاں صاحب نے ایسا کیا ہے تو ہم اسکی مذمت کرتے ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ کبھی عمران خان کی بابت بھی آپ کی یہ بے خبری بھی کام دکھائے اور پھر کسی ٹیلی فون کال پر، یاد رہے از خود نوٹس لیتے ہوئے نہیں بلکہ کسی ٹیلی فون کال پر آپ عمران خان کہ اس رویہ پر بھی بالکل ویسا ہی تبصرہ فرمائیں کہ ہم عمران خان کی اس حرکت کی مذمت کرتے ہیں تو تب تو ہمیں لگے گا کہ آپ کو واقعی صحافت کا پاس ہے اور آپ صحافت جیسے عظیم شعبہ میں فقط صحافت کی عظمت کا ایجنڈہ رکھتے ہیں نہ کہ اس سے مفر ، مگر جب آپ ہر دوسرے پروگرام میں از خود نوٹس لیتے ہوئے عمران خان کی کہی گئی ہر ہر بات میں میم میخ نکالتے ہیں تو یہ عمل آپکی صحافیانہ زمہ داریوں کو جہاں مشکوک بناتا ہے وہیں مسلسل ایک ہی شخص کے خلاف آپ کے کسی خاص ایجنڈے کا بھی پتا دیتا ہے ۔والسلام
 

آبی ٹوکول

محفلین
اس پروگرام کا نام ہی غلط ہے۔ اسکو بدل کر "کڑھتا جلتا پاکستان" کر دیں۔
نہیں پاکتسان تو نہیں البتہ اس کا نام ہونا چاہیے بولتا " مراثیستان یا پھر بولتا بھانڈستان " کیونکہ دونوں معروف اینکرز پرسن میں سے ایک کو اپنے پھکڑ پن (جسے پنجابی میں بھانڈ یا میراثی پنا کہتے ہیں) پر ناز ہے جبکہ دوسرا تو بغض و کینہ کی تمام حدیں پھلانگ چکاہے میں کافی عرصہ سے اند ونوں کو فالو کررہا ہوں انھوں نے صحافت کو بدنام کررکھ دیا ہے صحافت اور ذاتی رائے کہ نام پران دونوں حضرات کو کسی کی بھی پگڑی اچھالنے اور اسکی توہین و تضحیک کی کھلی چھٹی مل چکی ہے جبکہ الیکٹرونک میڈیا نے صحافت کو ایک مافیا کی شکل دے ہے یہ ٹی وی چینل پر اپنے ہونے کا ناجائزفائدہ اٹھاتے ہیں پہلے قلم کی طاقت تھی جسکا ایک محدود حلقہ اثر تھا مگر اب الیکٹرونک میڈیا کی بدولت ایسے لوگ زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں کیونکہ حلقہ اثر ایک تو پہلے کی بنسبت بہت وسیع اور دوسرے بہت مؤثرہوچکا ہے ،وہ بات جو قلم کی طاقت سے کبھی بین الطسور یا " کنائی محاورات " میں کہی جاتی تھی وہی بات اب ٹی وی کے ذریعے کھلم کھلا منہ پھاڑ کر اور بھرپورباڈی لینگوئج کے ساتھ کہی جاتی ہے بلکہ ٹھونسی جاتی ہے ۔
 
Top