بن کے بدن میں روح سمایا چلا گیا

غزل ... !

موسم ہمارے پیار کا آیا چلا گیا
کتنا حسین خواب دکھایا چلا گیا

ترک تعلقات کی منزل ہے سامنے
مژدہ یہ اس نے ہم کو سنایا چلا گیا

محنت کی اس غریب کو قیمت نہیں ملی
کاندھے پہ اس نے بوجھ اٹھایا چلا گیا

کتنا عجیب شخص تھا کچھ دن رکا مگر
گلشن کو اس نے خوب سجایا چلا گیا

دشمن میری حیات کا جاں لے گیا میری
بن کے بدن میں روح سمایا چلا گیا

دیتے رہے جواب بڑی دیر تک سبھی
اس نے عجب سوال اٹھایا چلا گیا

عکس خیال یار کو دل میں کیا جو قید
نقش جمال یار بنایا چلا گیا

کل شب کسی کی یاد نے سونے نہیں دیا
اس کا خیال دیر تک آیا چلا گیا

آیا تھا اس مدار میں کوئی نیا قمر
چکر زمیں کے گرد لگایا چلا گیا

حسیب احمد حسیب
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حسیب احمد حسیب صاحب! بہت خوب! اچھے اشعار ہیں۔ اگر برا نہ مانیں تو ایک دو تجاویز دینا چاہوں گا۔ ایک تو یہ کہ جہاں ضرورت ہو وہاں کسرہء اضافت ضرور لگادیا کریں ۔ دوسرے یہ کہ اس غزل میں کئی جگہوں پر ردیف سے پہلے علامتِ وقف کوما کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر شعر کا مطلب گڑبڑ ہورہا ہے۔ مثلََا مطلع کا دوسرا مصرع۔
مندرجہ ذیل اشعار نامکمل سے ہیں۔ ان میں "اس" کا اشارہ استعمال ہوا ہے لیکن واضح نہیں ہوتا کہ یہ کس کی بات ہورہی ہے۔

محنت کی اس غریب کو قیمت نہیں ملی
کاندھے پہ اس نے بوجھ اٹھایا چلا گیا

آیا تھا اس مدار میں کوئی نیا قمر
چکر زمیں کے گرد لگایا چلا گیا

امید ہے آپ اس تبصرے کو مثبت انداز مین لیں گے۔ ایک دفعہ پھرداد!
:):):)
 

الف عین

لائبریرین
واقعی اس غزل میں کوما کی شدید ضرورت ہے۔
ظہیر صاحب کے نشان دہ دوسرے شعر میں اور دو اک دوسرئے اشعار میں بھی گرامر کی غلطی ہے۔ مثلاً قمر والے شعر میں ’جس نے‘ کہ بغیر ’لگایا‘ درست نہیں ہوتا۔
اس کے علاوہ
کتنا عجیب شخص تھا کچھ دن رکا مگر
گلشن کو اس نے خوب سجایا چلا گیا
’مگر‘ کی افادیت سمجھ میں نہیں آئی۔
اور دونوں مصرعوں کا بیانئہ مربوط نہیں ہوتا۔
 
آخری تدوین:
Top