بلوچستان کے مرہٹے

کہتے ہیں کہ بارہ برس کے بعد گھورے کے دن بھی بدل جاتے ہیں لیکن یہ بات گھورے پہ تو شاید صادق آتی ہو کہ اس کا بھی استعمال زمین کی زرخیزی میں ہوتا ہے لیکن یہ بات بلوچستان کے مرہٹوں پر صادق نہیں آتی اور وہ اس جدید دور میں بھی تقریبا غلامی کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔

اورنگ زیب نے بادشاہ بننے کے بعد جب جنوبی ہندوستان فتح کرنے کی ٹھانی تو مرہوٹوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا کیونکہ کے شیوا جی کے مرنے تک مرہٹے کچھ علاقہ تو براہ راست اور باقی بیجا پور اور ریاست حیدر آباد کے تعاون سے تقریبا تمام دکن کو کنٹرول کر رہے تھے ۔ ستائیس سال تک چلنے والی یہ جنگ ہندوستان میں سب سے لمبی فوجی مہم ثابت ہوئی اور اس جنگ نے مغل سلطنت کو بہت کمزور کر دیا تھا ستائیس سال کے بعد مغل بادشاہ نے عالم پیری میں رجعت اختیار کی اور اپنے آخری دنوں میں اپنے بیٹوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کو بے بسی سے دیکھا ۔۔ ادھر اورنگ زیب کی آنکھ بند ہوئی ادھر طوائف الملوکی کا دور شروع ہو گیا اور مغل سلطنت چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گئی ۔

اگلے تقریبا پچاس برس تک مرہٹے اپنے زیر کنٹرول علاقے میں اضافہ کرتے رہے۔ 1737 میں مرہٹہ پیشوا باجی راو نے مغل افواج کو شکست فاش دی حتی کہ وہ پنجاب میں داخل ہوگئے ۔ لاہور میں جب وہ داخل ہوئے تو لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا کہ پنجابی زبان کو ایک نیا لفظ عطا کر گئے ۔ “تلنگا ” (زور زبردستی لوٹ کھسوٹ کرنے والا۔ بدمعاش) کیونکہ لاہور پر یلغار کرنے والوں میں زیادہ تر تعداد جنوب کے علاقے تلنگانہ کے مرہٹوں کی تھی ۔

احمدشاہ ابدالی اس وقت افغانستان کا حکمران تھا۔ اس نے سلطنت کی سرحدوں پر منڈلاتا خطرہ دیکھ کر 1757 میں حملہ کر کے مرہٹوں کو مار بھگایا اور اپنے بیٹے تیمور شاہ کو لاہور کا گورنر لگایا ۔ لیکن 1758 میں مرہٹوں نے تیمور شاہ کو شکست دے کر بھگا دیا اور اٹک تک پہچ گئے ۔ یہ محمود غزنی کے بعد ہندووں کے لیئے پہلا موقعہ تھا کہ وہ دریائے سندھ کے کنارے دوبارہ واپس پہنچے تھے ۔ احمد شاہ ابدالی نے 1759 میں پشتونوں اور بلوچوں کو بھرتی کر کے پنجاب کو دوبارہ فتح کیا ۔ مرہٹوں نے بھی اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیئے اپنا مارچ شروع کیا اور 1760میں دہلی پہچ گئے ۔ احمد شاہ ابدالی اور مرہٹہ افواج کا ایک دوسرے سے سامنا 1761 میں پانی پت کے میدان میں ہوا اور یہاں ہونے والی جنگ پانی پت کی تیسری جنگ کہلاتی ہے ۔ احمد شاہ ابدالی کی فوج میں اس وقت مری اور بگتی قبائل بھی شامل تھے کیونکہ ان کا علاقہ احمد شاہ کے زیر اثر تھا ۔ اس جنگ میں ہزاروں مرہٹے مرد اور عورتیں غلام بنے جنہیں ابدالی نے جنگ میں حصہ لینے والے سرداروں میں بانٹ دیا ۔ بگتیوں کے ساتھ آنے والے غلام مرہٹوں کی صحیح تعداد تو معلوم نہیں لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ ان کی اولاد آج بھی ڈیرہ بگتی میں آباد ہے اور مر ہٹہ بگتی یا مراٹھا بگتی کہلاتی ہے ۔

marhata-225x300.jpg

مرہٹہ بگتیوں کے سربراہ ۔ محمد دین مرہٹہ

وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان مرہٹہ بگتیوں کی اولاد مسلمان ہو گئی لیکن ان کی سماجی حیثیت غلاموں کی سی ہی رہی ۔ نہ ان کے پاس اپنی زمین تھی اور نہ کوئی اور آسرا جو انہیں اس پیہم غلامی سے نجات دلاتا حتی کہ 1948 میں جب پاکستان آزاد ہوا تو کہنے کو تو وہ آزاد ہو گئے تھے لیکن مناسب تعلیم اور کوئی اور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے وہ چھوٹی موٹی مزدوری کرنے پر ہی گذراہ کرتے رہے ۔ انہیں کوئی قبائلی تحفظ حاصؒ نہ تھا کہ وہ کوئی ستیزہ کار قبیلہ نہیں تھے چنانچہ انہیں ان کی نسلی خصوصیت کی بنا پر کمتر درجے پر فائز ضرور رکھا گیا ۔ اوریانا فلاشی نے جب مرحوم اکبر بگٹی کا انٹرویو کیا تھا تو اُن کی تعداد دس ہزار تھی البتہ آج یہ ضلع بگتی کی آبادی کا تقریبا تیس فیصد اور ڈیرہ بگتی شہر کی آبادی کا تقریبا ساٹھ فیصد ہیں ۔

ان میں اگرچہ کچھ لوگ تھوڑا بہت پڑھ لکھ کر چھوٹی موٹی سرکاری ملازمتوں میں بھی آ گئے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی سماجی حیثیت اسلام کے نام لیواوں کے معاشرے پر بد نما داغ ہے ۔ آج بھی وہ جن گھروں میں رہتے ہیں ان کی زمین وہ خرید نہیں سکتے کیونکہ باثر لوگ انہیں گھروں کی ملکیت دینے پر راضی نہیں ہیں اور انہیں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے سے منع کرتے ہیں ۔

جب مرحوم اکبر بگتی زندہ تھے تو اس وقت براہمداغ بگتی نے زبردستی ڈیرہ بگتی شہر سے متصل مرہٹوں کے قبضے میں موجود تھوڑی بہت زمینیں چھین لیں تھیں کیونکہ مرہٹے انہیں بیچنے پر آمادہ نہ تھے ۔ وہ رو دھو کے بیٹھ گئے کہ ان کی فریاد کی شنوائی کسی عدالت میں نہ ہو سکتی تھے ۔ وقت گذرا تو نہ مرحوم نواب رہے اور نہ براہمداغ بگٹی، اب ان زمینوں پر وہ راکھ اڑتی ہے جو ان انسان کے اعمال کو اپنے ساتھ اڑا کر لے جاتی ہے وہ انسان جو انکار کرتے ہیں ۔
ربط
http://www.riazshahid.com/2013/10/26/بلوچستان-کے-مرہٹے/
 

arifkarim

معطل
جب مرحوم اکبر بگتی زندہ تھے تو اس وقت براہمداغ بگتی نے زبردستی ڈیرہ بگتی شہر سے متصل مرہٹوں کے قبضے میں موجود تھوڑی بہت زمینیں چھین لیں تھیں کیونکہ مرہٹے انہیں بیچنے پر آمادہ نہ تھے ۔
حیرت ہے۔ اور بلوچ قوم آج بھی ان نام نہاد بگتی سرداران کو اپنا "آقا" سمجھتے ہیں۔
 

Qasim sanjrani

محفلین
جناب والا اس پانی پت کی تیسری جنگ میں احمد شاہ کے لشکر میں نصیر خان نوری کے علاوہ کہی بلوچ اقوام شامل تھے مری بگٹی کے علاوہ سنجرانی اور چاغی سے کہی بلوچ اقوام بھی سردار سنجرانی کے قیادت میں اس مزہبی جنگ میں شامل تھے ۔واپسی پر ان کے حصہ میں بھی بہت سے مرہٹےآئے جو آج بھی بڑی تعداد میں چاغی میں موجود ہیں یہ قبیلہ قاسم زٸی قبیلہ کہلاتا ھے ۔ان کے ساتھ کسی قسم کا ظلم نہیں ھوا بلکہ ان کو خاص عہدوں پر سردار سنجرانی نے رکھا اور کہیں لڑاہیوں میں ان مرہٹوں نے بڑے کانامے سر انجام دیٸے اور وفاداری کا ثبوت دیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
جناب والا اس پانی پت کی تیسری جنگ میں احمد شاہ کے لشکر میں نصیر خان نوری کے علاوہ کہی بلوچ اقوام شامل تھے مری بگٹی کے علاوہ سنجرانی اور چاغی سے کہی بلوچ اقوام بھی سردار سنجرانی کے قیادت میں اس مزہبی جنگ میں شامل تھے ۔واپسی پر ان کے حصہ میں بھی بہت سے مرہٹےآئے جو آج بھی بڑی تعداد میں چاغی میں موجود ہیں یہ قبیلہ قاسم زٸی قبیلہ کہلاتا ھے ۔ان کے ساتھ کسی قسم کا ظلم نہیں ھوا بلکہ ان کو خاص عہدوں پر سردار سنجرانی نے رکھا اور کہیں لڑاہیوں میں ان مرہٹوں نے بڑے کانامے سر انجام دیٸے اور وفاداری کا ثبوت دیا۔
محفل پر خوش آمدید۔ پہلی بار کسی بلوچ کو محفل پر دیکھا۔
 
Top