بلوچستان کی تعلیمی حالت – تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

زنیرہ عقیل

محفلین
Education-System-in-Balochistan-Article-by-Dr-Mariam-Chughtai-Doctor-of-Education-1.jpg

بلوچستان کی تعلیمی حالت:
بلوچستان پاکستان کا رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ مگر آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ جس کی آبادی ایک کروڑ اکتیس لاکھ ساٹھ ہزار ہے۔ اِس صوبے کی اہم بات یہ ہے کہ یہ صوبہ قدرتی وسائل اور خزانوں سے مالامال ہے۔ مگر یہ بات انتہائی افسوس کی ہے کہ پاکستان بننے سے آج تک اِس صوبہ کوہر شعبہ میں نظر انداز کیا گیا ہے اور اِس کی عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی بہت دور رکھا گیا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی اُسی طرح جاری ہے۔خاص طور پر تعلیم کے میدان میں یہ صوبہ سب سے زیادہ بدحالی کا شکار نظر آتا ہے۔

جب ہم تعلیم کے میدان میں بلوچستان کا دوسرے صوبوں سے تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو یہ جان کر انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ بلوچستان تعلیم ،صحت اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم اور سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔الف اعلان کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کی کل آبادی میں سے ستائیس لاکھ بچوں کو سکولوں میں ہونا چاہئے تھا مگر افسوس کہ کل آبادی میں سے صرف نو لاکھ بچے سکولوں میں جاتے ہیں جبکہ اٹھارہ لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔

صوبے میں کل سکولوں کی تعداد 12347ہے جس میں سے صرف 6 فیصد ہائی سکول ہیں۔صوبے میں6 7فیصدبچے سرکاری سکولوں میں داخلہ لیتے ہیں19 فیصد بچے غیر سرکاری(پرائیویٹ) سکولوں میں جبکہ 5فیصد دینی مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔الف اعلان کے مطابق 216 سکول اِس وقت غیر فعال ہیں باقی سکولوں میں سے 37فیصد سکول ایک کمرہ پر مشتمل ہیں اور 14فیصد اساتذہ بغیر سکول جائے ہی تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔سکول چھوڑنے والے بچوں کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ جیسا کہ پرائمری کی سطح پر آٹھ لاکھ پینسٹھ ہزار تین سو سینتیس (865,337 ) بچوں نے داخلہ لیا مگر اِن میں سے جو بچے مڈل سکول میں گئے اُن کی تعداد صرف ایک لاکھ اکانوے ہزار تین سو (191300) رہ گئی۔یہ اعدادو شمار خطرناک صوتحال کی نشاندہی کرتے ہیں۔

شرح خواندگی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو الف اعلان کی رپورٹ کے مطابق شرح خواندگی مردوں میں 37فیصد اور خواتین میں 15فیصد ہے۔جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح35فیصد سے بھی کم ہے۔

درج بالا اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ بلوچستان کا صوبہ دیگر صوبوں کی نسبت بہت ہی پسماندگی کا شکار ہے اور یہاں پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔کیا وجہ ہے کہ بہترین وسائل اور بیش بہا قدرتی خزانوں سے مالامال یہ خطہ انتہائی غربت ، پسماندگی اور جہالت کا شکار ہے۔ یہ غربت ہی ہے جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو زیورِتعلیم سے آراستہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔والدین اتنی استطاعت ہی نہیں رکھتے کہ وہ اپنے بچوں کو کتابیں ، کاپیاں اور بیگ خرید کر دے سکیں۔ہونا تو یہی چاہئے کہ حکومتیں تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سرِ فہرست رکھیں مگر حکومتوں کی ترجیحات میں یہ شامل ہی نہیں ہے۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں بھی پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح وڈیرہ نظام رائج ہے اِس لیے وہ اپنی اولاد کو تو بیرونِ ملک تعلیم کے لیے بھیج دیتے ہیں جبکہ اپنے علاقے کے لوگوں کو بنیادی تعلیم سے بھی محروم رکھتے ہیں۔ہمارے ملک میں تعلیم کا نظام اُس وقت تک ٹھیک نہیں ہوسکتا جب تک حکومتیں اِس مسئلہ کو ایک بہت بڑا مسئلہ نہ سمجھیں اور اِس کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر نہ رکھیں اور یہ قدم وفاقی حکومت اپنی نگرانی میں تمام صوبوں میں ہنگامی طور پر کروائے۔یہی وہ صورت ہے جس کے زریعے بلوچستان میں خاص طور پر اور دیگر صوبوں میں بھی امن لایاجا سکتا ہے۔

دیگر صوبوں میں بھی تعلیم کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے مگر بلوچستان کی نسبت دیگر صوبوں میں کسی حد تک خوشحالی اور شعور ہونے کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ اُن کے بچے اچھی سے اچھی تعلیم حاصل کر سکیں اِس کے لیے چاہے اُن کو اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں ہی کیوں نہ داخل کروانا پڑے۔بلوچستان میں چونکہ غربت بہت زیادہ ہے اور تعلیم کے حصول کے آسان زرائع بھی موجود نہیں ہیں اس لیے زیادہ آبادی تعلیم کی نعمت سے بھی محروم ہے۔ والدین چونکہ خود تعلیم یافتہ نہیں ہیں اِس لیے وہ تعلیم کی اہمیت اور اِس کے ثمرات سے بھی نابلد ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بچپن سے ہی حصولِ تعلیم کی بجائے حصولِ رزق کی دوڑ میں لگا دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کر سکیں۔یہاں حکومتی اور انفرادی طور پر سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ملک کے سب سے پسماندہ صوبے میں بچوں کو تعلیم دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور والدین میں یہ شعور اجاگر کریں کہ تعلیم ہی واحد راستہ ہے جس سے زندگیوں میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے اور اپنے معاش کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔خاص طور پر بلوچستان میں خواتین کی تعلیم پر بھی توجہ کی ضرورت ہے جہاں پر عورتوں کو گھروں سے نکلنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ اِس سلسلے میں بلوچستان کے رہائشی پڑھے لکھے نوجوانوں کو آگے آناچاہئے اور اپنے بزرگوں کو تعلیم کی اہمیت کے بارے میں قائل کرنا چاہئے کیونکہ یہ کام وہ سب سے بہتر اور آسانی سے کر سکتے ہیں۔ ایک اور بات جو قابلِ توجہ ہے کہ اِس وقت بلوچستان دیگر صوبوں سے کٹا ہوا ہے یعنی کوئی فرد جیسے کسی بھی صوبے میں آجاسکتا ہے مگر بلوچستان جانے کے لیے لوگوں کے دلوں میں ایک خوف ہے جس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔بلوچستان کے پڑھے لکھے نوجوانوں کودیگر صوبوں کے پڑھے لکھے نوجوانوں سے رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس عمل سے بلوچستان کے لوگوں میں یہ شعور پیدا ہو گا کہ تعلیم اور اُس کے نتیجے میں آنے والی خوشحالی کتنی بڑی نعمت ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ صرف اُن قوموں نے ہی ترقی کی ہے جنہوں نے تعلیم کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ہمیں اپنے بچوں کو رسمی اور غیر رسمی دونوں طرح کی تعلیم دینی ہے۔تاکہ ہمارے ملک کا ہر فرد ایک ذمہ دار باشندے کا کردار ادا کر سکے۔
بلوچستان کی تعلیم کے بنیادی مسائل اور اُن کی وجوہات کا ذکر کریں تو یہ بات پتہ چلے گی کہ سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔لوگوں کی اکثریت بنیادی سہولیات سے ہی محروم ہے تعلیم تو بعد کی بات ہے۔پھر تعلیم کا حکومتی ترجیحات میں شامل نہ ہونے کے باعث تعلیم پر کم بجٹ رکھا جانا اور جو رقم اس مد میں دی جائے وہ بھی کرپشن کی نظر ہو جانا۔تیسرے نمبر پر بلوچستان کی تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ جنسی تفریق بھی ہے اکثر دیہی علاقوں میں خواتین کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔پھر چوتھے نمبر پر تعلیم میں کسی پالیسی کا نہ ہونا اور یکساں نصاب تعلیم کا نہ ہونا بھی ہے۔
یہی وقت ہے کہ ہمیں اِن مسائل پر قابو پانا ہے اور اگر ہم نے اِن مسائل پر ابھی بھی توجہ نہ دی تو پھر بقول علامہ اقبال !

“تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں”


http://mariamchughtai.com/بلوچستان-کی-تعلیمی-حالت-تمھاری-داستاں/
 
Top