بلوچستان بیلہ میں خوفناک حادثہ یا 27 افراد کا قتل، ذمہ دار کون؟

khabarkahani

محفلین
تحریر: رجب علی چتور

بلوچستان بیلہ کراسنگ کے مقام پر خوفناک حادثے میں 27 افراد کی جان گئی ، لاشیں ایدھی سرد خانہ سہراب گوٹھ کراچی لائی گئیں، ایدھی سرد خانے کےباہر میری ملاقات منظور نامی شخص سے ہوئی جس کے خاندان کے آٹھ افراد لقمہ اجل بنے۔ منظور نے بتایا کہ کل نو افراد جن میں دو خواتین اور بچے بھی شامل تھے پنجگور جا رہے تھے ان میں سے صرف ایک بچہ معجزانہ طور پر بچ گیا جس کی عمر پانچ برس ہے۔

منظور نے بتایا کہ انہیں جائے وقوعہ پر موجود کسی اور شخص نے بتایا کہ حادثے کے بعد یہ بچہ گاڑی کے قریب کھڑا رو رہا تھا اور گاڑی میں لگی آگ کے شعلوں میں اس کی ماں سمیت دیگر عزیز جل رہے تھے، وہ اپنی ماں کی آہ و بکا سن رہا تھا، وہ لوگوں سے فریاد کر رہا تھا کہ میری ماں کو بچا ؤ لیکن کوئی اس معصوم کی ماں کو بچانے والا نہیں تھا، ماں کو آنکھوں کے سامنے جل کر مرتا دیکھ کر بچے پر سکتہ طاری ہوگیا ہے، منظور کی باتیں سن کر مجھے بہت رنج ہوا، میں یہ سوچ رہا تھا کہ کس طرح اس بچے نے یہ سب برداشت کیا ہو گا ۔

بعد میں ایک ویڈیو میری نگاہوں کے سامنے آئی۔ آگ کے شعلوں نے گاڑیوں کو لپیٹ میں لے رکھا تھا، فلاحی ادارے کے رضاکاروں سمیت عوام کا جم غفیر سامنے کھڑا بے بسی کی حالت میں جلتی ہوئی گاڑیوں کو دیکھ رہا تھا، یہ مناظر اسی خوفناک حادثے

کے تھے جس میں کراچی سے پنجگور جانے والی مسافر کوچ کا سامنے سے آنے والے ٹرک سے تصادم ہوا تھا۔

میں سمجھ سکتا ہوں کہ جائے وقوعہ پر جمع افراد آگ میں لپٹے لوگوں کود کر بچا نہیں سکتے تھے، ا ن کے پاس آگ بجھانے کا سامان بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا اور نہ ہی کوئی فرد وہاں آگ بجھانے کے لیے کوشش کرتا دکھائی دے رہا تھا، لہٰذا وہاں موجود افراد نے موبائل فون سے آگ کے شعلوں کی ویڈیو بنائی۔

سرسری طور پر دیکھنے سے یہ ویڈیو عام سی معلوم ہوتی تھی لیکن ذرا سی توجہ دی جائے تو ویڈیو کے آغاز میں ہی شعلوں میں گھری مسافر کوچ سے اٹھنے والی انسانی چیخوں نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیئے۔ بچے خواتین اور مردوں کی چیخ و پکار واضح طور پرسنی جاسکتی تھی لیکن آگ میں جلنے والوں کو کوئی بچانے والا نہیں تھا، دیکھتے ہی دیکھتے بچوں اور خواتین سمیت 27 افراد موت کی وادی میں چلے گئے۔

بلوچستان کی شاہراہوں پر حادثات معمول ہیں، ہر سال سیکڑوں افراد لقمہ اجل بنتے ہیں لیکن کبھی کسی نے سوچا ہے یہ حادثات کیوں ہوتے ہیں، ڈرائیوروں کی غفلت اپنی جگہ لیکن میرے خیال میں اکثر حادثات کا ا ایک ہی جواب ہے، ّایرانی تیل کی اسمگلنگ۔ پنجگور جانے والی کوچ بھی جس ٹرک سے ٹکرائی تھی اس کے خفیہ ٹینکس میں ایرانی اسمگل شدہ تیل تھا جس کے باعث دھماکوں کے ساتھ آگ نے شدت پکڑی ۔

بلوچستان میں جگہ جگہ آپ کو پیٹرول اور ڈیزل کے ڈمپنگ ایریاز دکھائی دیں گے جہاں بڑے بڑے ٹینک لگے ہوں گے لیکن آپ کو ان کی ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں ۔

کراچی میں روز ایسی گاڑیاں جن میں خفیہ ٹینک نصب ہوتے ہیں پکڑی جاتی ہیں اور ہزاروں لیٹر اسمگل شدہ ایرانی پیٹرول اور ڈیزل بھی برآمد کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود کئی گاڑیاں ملکی سرحد عبور کرنے کے ساتھ صوبائی سرحد بھی عبور کر کے نہ صرف کراچی پہنچ جاتی ہیں بلکہ یہاں سے پھر اندرون ملک بھی تیل کی سپلائی ہوتی ہے۔

تیل کی اسمگلنگ روکنے کے لئے حکومتی سخت دعوے صرف دعوے ہی دکھائی دیتے ہیں، بلوچستان میں پولیس بھی موجود ہے، ساتھ ہی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے خصوصی فورسز بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ایرانی تیل کی اسمگلنگ زور و شور سے نہ صرف جاری ہے بلکہ انسانی زندگیوں کے ضیاع کا باعث بھی بن رہی ہے۔

منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام میں مشکلات تو سمجھ آتی ہیں کہ پوری مال بردار گاڑی میں اگر چند کلو منشیات ہوں تو پکڑنا انتہائی مشکل ہے لیکن یہ ممکن ہی نہیں کہ مال بردار گاڑیوں میں ہزاروں لیٹر تیل اسمگل ہوتا ہو اور متعلقہ اداروں کی ملی بھگت نہ ہو۔ ان حالات میں یہ کہنا دورازقیاس نہ ہوگا کہ جن حادثات کی وجہ ایرانی تیل کی اسمگلنگ ہےوہ حادثات نہیں قتل کی وارداتیں ہیں اور ان میں جان سے گئے افراد کی موت کے وہ تمام ادارے ذمہ دار ہیں جنہیں اسمگلنگ روکنے کا کام سونپا گیا ہے۔


اس تحریر کے مصنف رجب علی چتور گزشتہ اٹھارہ برس سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ آج کل ایک نجی نیوز ٹی وی چینل میں رپورٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان سے رابطہ کے لیے ہمیں ای میل کیجیے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top