بلراج کومل کی نظم

مخلص انسان

محفلین
کچھ لوگ
جو میرے دل کو اچھے لگتے تھے
عمروں کے ریلے میں آئے
اور جا بھی چکے
کچھ دھندوں میں مصروف ہوئے
کچھ چوہا دوڑ میں جیتے گئے
کچھ ہار گئے
کچھ قتل ہوئے
کچھ بڑھتی بھیڑ میں
اپنے آپ سے دور ہوئے
کچھ ٹوٹ گئے کچھ ڈوب گئے
مجھ پر اب یہ خوف چھایا ہے
میں کس سے ملنے جاؤں گا
میں کس کو پاس بلاؤں گا
آندھی ہے ، گرم ہوا ہے ، آگ برستی ہے
کچھ دیر ہوئی
اک صورت ، شبنم سی صورت
اس تپتی راہ سے گزری تھی
دو بچے پیڑ کے پتوں میں چھپ کر بیٹھے تھے
ہنستے ، شور مچاتے تھے
اک دوست پرانا
برسوں بعد ملا مجھ کو
اس جلتے دن کی
صبح کچھ ایسی روشن تھی
جب باد صبا وارفتہ رو
خوشبؤں ، نغموں ننھی منی باتوں کا
انداز لیے آنگن میں چلی
میں زندہ ہوں
یہ سوچ کے خوش ہوجاتا ہوں
وہ تھوڑی دیر تو میرے پاس سے گزری تھی
وہ میرے دل میں اتری تھی
اس بے محرم سے موسم میں
شاید وہ کل بھی آئے گی
شاید وہ کل بھی میری راہ سے گزرے گی
 
Top