بلا عنوان

دو بزرگ قلمکاروں محترم شموئل احمد اورمحترم پیغام آفاقی صاحبان کو ادب کے نام پر ایک دوسرے سے جھگڑتے ہوئے دیکھنا بہت اچھا لگا۔اس طرح کے دلگداختہ مواقع اکثرو بیشترپیش آتے رہتے ہیں اور میں بطور ایک غیر مکمل منافق لطف اندوز ہوتا ہوں۔۔۔یہاں بھی سوچا تھا کہ منافقت کی اسی دیرینہ روش پر قائم رہوں گا لیکن دل نے کہا ’’بولئے ورنہ مسئلہ ہوگا‘‘۔ ادیب بھی گوشت پوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے اس لئے اس کا غیر مودب ہونا کوئی بعید ازقیاس اورکوئی قیامت خیزسانحہ نہیں اوراگر ادیب ’’تیسری یا دوسری دنیا‘‘ کا ہو تو اسکی محرومی کیا رنگ لاتی ہے اسکا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ رحمن عباس جیسے ناول نگارعہدساز کی حیثیت اختیار کرتے جارہے ہیں اور پیغام آفاقی کوئی ایوارڈ نہ پانے کی وجہ سے،شناخت، عظمت اورعزت وسادات کی روشنی سے محروم ہیں۔۔۔ بات نکلی تھی اقبال حسن آزاد کی پوسٹ سے جو محترمہ صدف اقبال کے حوالے سے تھی۔۔پیغام آفاقی صاحب نے کئی کمنٹس کئے جن میں ایک کمنٹ شموئل صاحب کے کسی پرانے اسٹیٹمنٹ کے حوالے سے تھا۔ شموئل صاحب نے آفاقی صاحب کو جو جواب دینا تھا وہ تو دیا لیکن ساتھ ہی یہ فتویٰ بھی صادر کردیا کہ آفاقی صاحب ’’گھٹیا سیاست‘‘ کر رہے ہیں۔۔۔یہ ایک ’بڑے ادیب‘ کا ایک ’’گھٹیا رویہ ‘‘ تھا ۔جی ہاں بالکل ایک غیرمہذب اور ناقابل برداشت رویہ۔۔۔ماضی میں کیا ہوا میرا اس سے کوئی سروکار نہیں مجھے تو بس یہ دیکھنا ہے کہ جب کوئی ’بڑا ادیب‘ کسی زد میں آتا یے تو اس کا ردعمل کیا ہوتا ہے اور یہی ردعمل مجھے اس ادیب سے دور یا قریب کرتا ہے۔ عظمت کی حد اور بیرومیٹر مقرر کرنا اپنی اصل فطرت میں ہی غلط ہے۔ عظمت ہے کیا،کون عطا کرتا ہے کیوں عطا کرتا ہے کس لئے عطا کرتا ہے اور کیا اسکو یہ حق حاصل ہے،ہے تو کس نے دیا، ایک سوال سے متعدد سوال پیدا ہوتے ہیں۔ گوپی چند نارنگ نے کہہ دیا تو ناول نگار عظیم ہوگیا بصورت دیگر دو کوڑی کا تھا؟ فاروقی صاحب نے کہہ دیا تو شاعرمتشاعر ہوگیا؟
دراصل وجہ کچھ اور ہے ۔اردو میں لکھنے والے بیشتر مطالعے کی صفت سے محروم ہوتے ہیں،اعتماد کی کمی ہوتی ہے اس لئے وہ نقادوں کے پاس بھاگتے ہیں اور انکے تلوے چاٹنے لگتے ہیں۔۔ غیر ملکی مصنفین کا مطالعہ کرنا ہی اصل مطالعہ نہیں ہے، زندگی کا مطالعہ ،مشاہدات کا مطالعہ ،تجربات کی چھانٹ پھٹک،مٹی کی بوباس کا فہم اصل ہے جو یقینا مبادیات کے مستحکم ہوئے بغیر ممکن نہیں اور یہ مبادیات آپ کی تہذیبی جڑ سے ماخوذ،مشتق اور مستعار ہیں۔ ایک طرف تو مطالعے کی صفت اوروسعت نہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنی تہذیبی جڑوں کو کھود کراکسیرحیات نکال نہیں پاتے دوئم یہ کہ جو لوگ مطالعہ کرنے کی صفت سے متصف ہیں وہ تو اپنی دنیا سے دوچار قدم آگے ہی نکل جاتے ہیں۔
لہذا اردوادیبوں کی زندگی کو سمجھنے میں ناکامی ،اس ناکامی سے وجود میں آنے والی بے اعتمادی اوراس بے اعتمادی سے پیداہونے والی محرومی اسے نقاد کے پاس سر کے بل لے کر جاتی ہے،ایوارڈ تفویض کرنے والوں کے یہاں ’’جبین نیاز‘‘ خم کراتی ہے اور پھر وہ محروم ذات مصنف عظیم ہوجاتا ہے۔
میرا ایک سادا سا سوال ہے۔ غالب درباری شاعر نہیں تھے۔درباری شاعر سے بڑا کونسا اعزاز تھا مغلیہ زمانے میں ؟ شیکسپئر کو بادشاہ برطانیہ کی جانب سے کون سا بڑا اعزاز ملا تھا، عظمت کا جو اعزاز سقراط کو ملا تھا کیا وہ آپ لینا پسند کریں گے؟ اب آئیے ماضی قریب کی تاریخ بھی کھنگال لیتے ہیں، بیسویں صدی میں برطانیہ کی ادبی تاریخ کی جہت متعین کرنے والے تین بڑے قلمکاروں آسکر وائلڈ ، جیمس جوائس اور گراہم گرین کو کونسا ایوارڈ ملا تھا؟ دوستویفسکی، گورکی، ٹالسٹائے، گراہم گرین ،جیمس جوائس ،اذرا پاونڈ کی ادبی حیثیت آپ کے رابندر ناتھ ٹیگور سے کم ہے ؟ اور موجودہ دور کو بھی شامل کرلیں، چینوا اچیبے، اسماعیل کادرے اور میلان کندرا کو ابھی تک نوبل نہیں ملا ۔ کیا گنٹرگراس ان لوگوں سے بڑے ناولسٹ تھے؟ ہیرولڈ پنٹر کو بستر مرگ پر خبر دی گئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے لگا اورخان پاموک کو دیا جائے گا اب اس عمر میں جب کہ میں بستر مرگ پر ہوں نوبل کے کر کیا کرونگا اور دوسرے سال اورخان پاموک کو دے دیا گیا۔۔۔۔ ایوارڈ کسی کی عظمت کی دلیل نہیں ہیں اگر کوئی ادیب ایسا سوچتا ہے تو میرے اپنے خیال میں وہ ادیب نہیں۔۔


ہاشم خان
 
Top