بلا عنوان

با ادب

محفلین
خطہ زمین پہ بسنے والے انسانوں نے انسانوں کو مختلف زمروں میں تقسیم کر رکھا ہے ... نہایت عجیب بات یہ ہے کہ انسان کی پرکھ یا اسکے شرف کے لئیے جو لوازم ضروری ہونے چاہیے تھے ان سے قطعی طور پہ صرف نظر کیا جاتا ہے ...
انسان کے شرف کے لیے اسکی دینداری اسکے اخلاق کی نہایت اہمیت ہے. لیکن فی زمانہ یہ باتیں لوگوں کو اسقدر کتابی لگتی ہیں کہ وہ اسکی حقیقت پہ یقین ہی نہیں رکھتے.
اور جو باتیں ثانوی حیثیت کا درجہ بھی نہیں رکھتیں انھیں ہی اولیت حاصل ہے .. رنگ ' نسل ' مال دولت ' گھر بار ' بنگلہ گاڑی یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کی انسانیت سے قطعاً کوئی تعلق نہیں رکھتیں
رنگ گورا ہے یا کالا اسکا عمل دینداری اور اخلاق سے کیا لینا دینا؟
نسل اور نسب کی کہانی بھی بڑی عجیب ہے جسے لوگ اکثر تفاخر کے لیئے استعمال کرتے ہیں ہر نسل اور نسب دوسرے کو کمتر اور خود کو برتر خیال کرتے ہیں ... ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کچھ تفاخر بھرے جملے سننے کو ملے کہ جی فلاں رسوم رواج ہماری قوم میں نہیں پائے جاتے ... فرمایا جی اسی قوم سے ہم بھی تعلق رکھتے ہیں وہاں بھی بعض جگہ قبیحات موجود ہیں سامنے والے حضرات آگ بگولہ ہوگئے فرمانے لگے اس قوم کے کس قبیلے سے تعلق ہے ...
بڑی ہی عجیب بات یہ ہے کہ اگر ہم انھی کے قبیلے سے ہوتت تو پھر وہ گھرانے کا استفسار کرتے اور اگر گھرانہ بھی یکساں ہوتا تو ذاتیات پہ اتر آتے کہ پیغمبروں کے ہاں بھی نافرمان جنم لیتے ہیں ...
حالانکہ اس کہانی کو شروع ہی میں سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ ہر قوم و نسل میں یر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ..
جہاں تک بات یے مال دولت کی تو محنت اور جد و جہد سے زندگی گزارنے لائق مال و دولت حاصل ہو سکتا ہے ... اور پھر جو اللہ نے آپکے حصے کا رزق مقرر کیا یے وہ اتنا ہی رہے گا جتنا لکھا جا چکا یے ..
انسانوں کی منڈی میں یہ تمام باتیں تب سنگین صورت حال اختیار کر جاتی ہیں جب آپ رشتہ جوڑنے کی بات کریں ..
اب آپکی پرکھ کے لئیے معیارات حسن اور مال ہوتا ہے.
اگر لڑکی والے یالڑکے والے شریف اور دیندار ہیں اور اس دینداری کو پسند فرما لیتے ہیں تو لوگوں کا چلن نہایت عجیب یے.
آپ رشتہ ٹہرائیے ... بچی صابر شاکر راضی بہ رضا کہ لڑکا نمازی اور تقوی دار ہے ...
اب عجیب حالات معاشرے میں ملاحظہ ہوں کہ لڑکی کی سہیلیاں بھائی صاحب کی تصویر کا تقاضا کر بیٹھیں گی ..اگر بچی ارشاد فرمائے کہ تصویر پاس نہیں تو نہایت ناقابل اعتبار ٹہرائی جائے گی اور شاید حد درجہ مظلوم بھی کہ شاید رشتے سے خوش نہیں تب ہی حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہے ..
کوئی سوال کرے تصویر پاس رکھنا کیوں ضروری ہے اور دوسری بات آپ کو غیر مردوں سے کیا دلچسپی ہے؟ ؟
وہ شرمندہ ہونے والی خاتون کہیں سے ڈھونڈ ڈھانڈ سہیلیوں کی خوشی کی خاطر تصویر دکھلا بھی دیں تو دو آرامنتظر ..
لڑکی کا رنگ دبتا ہو اور لڑکا خوش شکل ہو تو قیاس آرائیاں .. اتنی اچھی صورت کے لڑکے کو اس میں کیا دکھائی دیا ہو نہ ہو لڑکے میں کوئی خرابی ہے
یا لڑکی خوبصورت لیکن لڑکا کم رو اور خدانخواستہ دبتے رنگ کا مالک
ارے یہ تو تمھارے جوڑ کا ہی نہیں تمھارے ماں باپ پہ تم بوجھ تھی کیا؟ ؟ کیونکر رشتہ طے کیا ؟
لڑکا لڑکی اس ٹیسٹ میں بھی پاس ہو جائیں تو اگلا سوال ...
منگنی میں ہیرے کی انگوٹھی دی تھی؟
نہیں
سونے کی؟
نہیں
یعنی دی ہی نہیں ...
یہ اس تھرڈ ورلڈ کے لوگوں کا احوال ہے جہاں بھوک غربت اور افلاس عروج پر ہے اور یہ قوم شادی بیاہ زیور کپڑے لتے پہ اتنا خرچ کرتی ہے کہ اگر یہ اسراف بند کر دیا جائے تو پاکستان معیشت کے اعتبار سے دنیا میں اول نمبر پر آسکتا ہے ...
ہماری قوم کا ایک شدید مسئلہ ہے وہ مسئلہ اس قوم کا انسانیت کی قدر نہ کرنا ہے.
ہم ایک اچھے کپڑے لتے والے کو اچھے اخلاق والے پہ فوقیت دیتے ہیں
اچھی باتیں کرنے والے سے زیادہ اچھے مال والے کو فضیلت دی جاتی ہے. ...
یہ تمام مسائل قوم کی خواتین میں زیادہ شدت سے پائے جاتے ہیں. دینداری فقط پردے اور نماز تک.محدود کر کے باقی کے تمام اخلاقی رزائل کو اقدار کے نام پہ وہ سینے سے لگائے رکھتی ہیں.
لوگوں کے متعلق غلط گمان رکھنا منفی پراپیگنڈے پھیلانے میں کوشاں رہنا ..غلط رسوم و رواج کی آبیاری کرنا دوسروں کی عزت کو تار تار کرنا اور ان ہی تاروں سے سوراخوں والی نئے طرز کی چادر بننا ...
کیا یہ وقت نہیں کہ ہم مادیت پرستی اور جھوٹ نمائش اور دکھاوے کی اس دنیا سے باہر نکلیں اور ان اقدار کی آبیاری کی کوشش کریں جو دین نے سکھائے؟ ؟؟
سمیرا امام
 

سحرش سحر

محفلین
المیہ ہی یہی ہے کہ اشرف المخلوقات ... اشرف المخلوقات ظاہر بین ہوتے جا رہے ہیں ۔ انسانوں کو صرف دولت کے ترازو میں تولا جاتا ہے ' حسن بھی ثانوی درجہ پر ہے اور اعلی اخلاق تو کمزور انسان کی نشانی ہے ۔
اس صورت حال میں ہر با شعور انسان کو خودداری کی صفت اپنا نی چاہیے ۔ سکون سے رہے گا ۔ لوگوں کی پرواہ بالکل نہیں کرنی کہ لوگ کیا کہتے ہیں......؟؟؟؟؟
 

سین خے

محفلین
:)

کیا ہی خوب لکھا ہے۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ آپ جتنا بھی اس منافقت پر شور مچا لیں لیکن میں نے آج تک کوئی خاص تبدیلی آتے دیکھی نہیں ہے۔

کسی پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے نا ہی کوئی کان پکڑتا پایا جاتا ہے :)
 
بہت عمدہ اور تلخ حقیقت کو وا کرتی تحریر۔
لیکن سمجھ نہیں آتا کہ ان جھوٹے اور سطحی پیمانوں سے ہمارا معاشرہ کب اور کیسے نکل پائے گا؟

بلا عنوان تو بہرحال نہیں۔ :)
 
Top