بلاعنوان

فہیم

لائبریرین
واش بیسن کے نل سے پانی پوری رفتار سے بہہ رہا تھا۔ اور نصیر منہ پر پانی کے چھپاکے مارے جارہا تھا۔ جب اس سے بھی سکون نہیں ملا تو اس نے اپنا سر بہتے پانی کے نیچے کردیا۔ کچھ دیر یونہی رہنے کے بعد اس نے نل بند کیا اور تولیے سے اپنے سر کو خشک کرنے لگا۔ واش روم سے باہر نکل کر اس نے اپنے روم پارٹنر منصور کی طرف دیکھا جو حسب عادت اپنا لیپ ٹاپ گود میں رکھے اپنے بیڈ پر بیٹھا تھا۔
یار ابھی تو اس کا پیچھا چھوڑو نصیر نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔ دیکھ رہے ہو گتنی خطرناک گرمی ہے اور تم اس گرم ہوا پھیکنے والے پنکھے کے نیچے اس طرح بیٹھے ہو جیسے اے سی روم میں ہو۔
جواب میں منصور نے اس کو خالی الذہنی کی سی حالت میں دیکھا اور چند لحمے دیکھنے کے بعد بغیر کچھ کہے پھر اپنے لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوگیا۔
نصیر نے اس کے قریب جاکر لیب ٹاپ کی اسکرین پر نظر ڈالی اور اس کے منہ سے ایک نازہبہ بات نکلتے نکلتے رہ گئی۔ پہلے اس نے سوچا تھا کہ شاید منصور کسی بہت ہی اہم کام میں مصروت ہے اس لیے اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
لیکن یہاں تو منصور صاحب کسی انٹرنیٹ فارم میں مگن تھے۔ ساتھ میں کہی عدد میسنجر بھی اوپن تھے اور چیٹنگ جاری تھی۔
یار تمہارے سر کے بال اڑتے جارہے ہیں ساتھ میں نظر کی عینک کا نمبر بھی بڑھتا جارہے ہے۔
اور مجھے تمہارا مستقبل کا چہرہ کچھ اس طرح کا نظر آرہا ہے۔
سر بالوں سے بے نیاز بالکل شفاف آنکھوں پر موٹے فریم کی عینک اور مزاج اس کا تو پوچھیے ہی مت۔
نصیر نے اتنا ہی کہا تھا کہ منصور نے انتہائی خشک لہجے میں کہا۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔ سمجھے۔
جواب میں نصیر نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا جب ابھی یہ حال تو اُس وقت تو شاید بات کرتے ہی کاٹنے دوڑو۔
سچ کہتا ہوں تم اپنے بڑھاپے میں ضرور سنکی بوڑھے کہلاؤ گے۔
منصور نے اس بات پر کچھ نہیں کہا۔ بلکہ شاید وہ اتنا مگن تھا کہ اس کو سنائی ہی نہیں دیا ہو کہ نصیر نے کیا کہا۔
دونوں چونکہ بلڈنگ کے سب سے اوپر کے فلیٹ میں مقیم تھے۔ فلیٹ کیا صرف ایک کمرہ اور ایک واش روم۔
یہی وجہ تھی کہ اس سخت گرمی میں ان کا کمرہ حد درجے بھیانک بنا ہوا تھا۔ اس وقت دو بجے تھے۔ اور سورج اپنی پوری جولانی پر تھا۔
نصیر اور منصور میں جان پہچان زیادہ پرانی نہیں تھی۔ دونوں کی جان پہچان کی وجہ یہی کمرہ بنا تھا۔ ویسے منظور نے کوشش کی تھی کہ اس کا ایک الگ کمرہ ملے سکے لیکن کامیاب نہ ہوسکا تھا۔
(اس چیز کی وضاحت میں نہیں کررہا کہ وہ دونوں کیوں اس کمرے میں مقیم ہیں)
نصیر ایک ہنس مکھ اور زندہ دل نوجوان تھا۔ کافی ذہین بھی تھا۔ منصور کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ اس کو سوائے انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے سوا کسی دوسری چیز سے دلچسپی نہیں۔
میں تو جارہا ہوں کہیں گھومنے پھرنے اس گرمی میں مجھ سے تو نہیں بیٹھا جاتا اس کمرے میں نصیر نے کہا اور اپنے سوٹ کیس سے کپڑے نکالنے لگا۔
منصور کا اہنماک کچھ اور بڑھ گیا تھا۔ پتہ نہیں وہ کیا کررہا تھا۔ نصیر نے اب اس سے کوئی بات نہیں کی۔
اور کپڑے لے کر واش روم کی طرف بڑھ گیا۔
اسی دوران منصور نے ایک طویل سانس لیتے ہوئے لیپ ٹاپ آف کیا اور اس کو وہیں بیڈ پر ہی رکھ دیا۔
اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسا کر ہاتھوں کو اوپر کرتے ہوئے ایک انگڑائی لی اسی دوران نصیر میں لباس تبدیل کرکے باہر نکل گیا۔ اور اس کو اس پوزیشن میں دیکھ کر اس نے اس کو گھورتے ہوئے کہا۔ یہ کیا نحوست پھیلا رہے ہو۔ منصور نے ابھی بھی اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اٹھ کر نصیر کے برابر سے ہوتا ہوا واش روم میں داخل ہوگیا۔ جب تک منصور واش روم سے باہر آیا نصیر کمرے سے جاچکا تھا۔
منصور نے اپنے سوٹ کیس سے ایک کتاب نکالی اور بیڈ پر تکیے کے سہارے ٹیک لگا کر اس کو پڑھنے میں لگا۔ یہ بھی اتفاق تھا کہ جب بھی منصور کوئی کتاب پڑھتا۔ اس وقت نصیر کمرے میں موجود نہیں ہوتا تھا۔
اچانک چھت پر چلتا ہوا پنکھا آہستہ آہستہ سست ہونے لگا اور کمرے میں چلتی ہوئی ٹیوب لائٹ بھی بج گئی۔ منحوس لائٹ منصور نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور کتاب رکھ دی۔
دو منٹ بعد ہی منصور پسینے سے تر تھا۔ جب تک پنکھا چل رہا تھا تو پھر بھی کچھ بہتر تھا۔ لیکن اب تو منصور کو یہی لگ رہا تھا کہ جیسے کچھ دیر بعد وہ گرمی کی شدت سےبیہوش ہوجائے گا۔
اس نے واش روم کی جانب ڈور لگائی۔
ٹھنڈے پانی سے شاور لینے کے بعد اسے کچھ سکون محسوس ہوا۔
اس نے سوچا کہ اب اسے بھی کہیں باہر جانا چاہیے۔
ورنہ کچھ دیر بعد پھر اس کی حالت پہلے والی ہوگی۔
لائٹ کا کچھ بھروسہ نہیں تھا کہ کب آئے البتہ یہ وہ جانتا تھا کہ دو گھنٹے سے پہلے تو نہیں آتی۔
کچھ دیر بعد وہ بھی باہر جانے کو تیار تھا۔ باہر نکل کر اس نے فلیٹ کر لاک کیا اور سیڑھیاں اترنے لگا۔
فلیٹ کے قفل کی چابی نصیر کے پاس بھی تھی۔ اس لیے اس بات کی کوئی ٹینشن نہیں تھی کہ اگر اس کی نصیر غیر موجودگی میں نصیر واپس آیا تو اسے کوئی پرابلم ہوگی۔

//////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////


تم نے کہا تھا کہ تم کمپیوٹر پروگرامر ہو؟ اور تم نے ڈیٹا مینجمنٹ کا بھی کورس کیا ہوا ہے؟ نصیر نے منصور سے کہا۔ اس وقت رات کے گیارہ بجے کا وقت تھا اور نصیر اور منصور دونوں اپنے اپنے بیڈوں پر لیٹے اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے کہ اچانک نصیر نے منصور سے یہ سوال کرلیا۔
ہاں میں نے غلط نہیں کہا تھا۔ منصور کا جواب تھا۔ "صحیح نصیر نے کہا اچھا یہ بتاؤ ڈیٹا مینجمنٹ کا مقصد کیا ہے؟
ڈیٹا مینجمنٹ: یعنی کہ اپنے کمپیوٹر میں موجود ڈیٹا کو ایک ترتیب دینا کہ ضرورت پڑنے پر آپ کسی بھی چیز کو با آسانی پالیں۔
منصور نے پوری طرح سمجھاتے ہوئے کہا۔
اچھا ایک بات اور وہ یہ کہ جب تم کمپیوٹر میں ڈیٹا مینجمنٹ کرتے ہو تو ظاہر ہے کہ اپنی اور چیزوں کو بھی مینج رکھتے ہوگے؟ جیسے کپڑے، کتابیں اور دوسری چیزیں تاکہ ضرورت کہ وقت ان کی تلاش میں وقت ضائع نہ ہو۔
ظاہر ہے۔ منصور نے کہا لیکن تم یہ سب کیوں پوچھ رہے ہو۔
یار اگر واقعی ایسا ہے تو میں کسے جھوٹ سمجھوں نصیر نے مسکراتے ہوئے کہا وہ اب اٹھ کر بیٹھ چکا تھا۔
کیا مطلب منصور نے بھی اٹھتے ہوئے کہا۔ انداز میں تلخی تھی۔
مطلب یہ کہ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی تم کسی سے اپنے موبائل پر بات کررہے تھے۔ اس بیچارے کو شاید تمہارے کمپیوٹر سے کسی چیز کی ضرورت تھی۔ میں نے تو بس تمہارے منہ سے ہی یہ سنا تھا کہ پتہ نہیں وہ کہاں پڑی ہو اس لیے میں کمپیوٹر میں ڈھونڈوں گا۔
نصیر نے منصور کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
ابھی منصور کچھ جواب نہیں دے پایا تھا کہ اس کے موبائل کی بیل بجی۔
ہیلو منصور نے موبائل کو کان سے لگاتے ہوئے کہا اور سلام کا جواب دینے کے بعد دوسری طرف سے کچھ سنتا رہا۔ چونکہ کمرے میں سناٹا تھا اس لیے دوسری طرف سے آنے والی کی ہلکی سی آواز نصیر کے کانوں میں بھی آرہی تھی۔
وہ کسی کتاب کے بارے میں منصور سے کچھ کہہ رہا تھا۔
جواب میں منصور نے اتنا کہا کہ ابھی وہ کتاب مل نہیں سکی جب مل جائے گی تو وہ اسے بتادے گا اور موبائل ڈسکنیکٹ کردیا۔
اب یہ کیا تھا؟ نصیر نے منصور کو گھورتے ہوئے کہا۔
جواب میں منصور تھوڑا سا سٹپٹایا۔ اور پھر انتہائی خشک لہجے میں بولا میں نے کہا ہے نہ تم اپنے کام سے کام رکھو اور میرے معملات میں دخل اندازی چھوڑ دو۔
بھاڑ میں جاؤ نصیر نے بھی سخت لہجے میں کہا اور بیڈ پر لیٹ پر آنکھیں بند کرلیں۔
 

فہیم

لائبریرین
قسط دوئم​


دونوں کو اس کمرے میں رہتے ہوئے ایک ماہ ہوچکا تھا۔ اور نصیر کا دل منصور کے رویے اور حرکتوں کی وجہ سے کھٹا ہوگیا تھا۔ اس کے لیے منصور کا وجود اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔ پہلے اس نے سوچا تھا کہ شاید وہ اپنی زندہ دلی کی بدولت منصور کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا اوپر سے منصور کا رویہ اور بھی اس کو بالکل پسند نہ آیا۔ وہ شروع سے یہ اچھے اور خوش مزاج لوگوں سے ملتا آیا تھا۔ اس لیے خود اس کی بھی عادت خوش مزاجی اور ہنسنے بولنے والی تھی۔
اس رات کے بعد سے اس نے منصور سے سلام دعا بھی ختم کردی تھی۔
دوسری طرف منصور وہی اپنے حال میں مگن تھا۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ نصیر اس سے اب بات کیوں نہیں کررہا۔
اس وقت نصیر کمرے کی کھڑکی میں کھڑا ڈوبتے سورج پر نظریں جمایا ہوا تھا۔ جبکہ منصور حسبِ عادت اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ مصروف تھا۔
اچانک نصیر بے اخیتار چونک پڑا،،،،،،،، اس کی وجہ منصور کے حلق سے نکلنے والا قہقہ تھا۔ نصیر نے گھور کر اس کی جانب دیکھا۔ لیکن منصور اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ بلکہ اس کی نظریں اپنے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر تھیں۔
پاگل ہے،،،،،،، نصیر نے دل میں سوچا اور دوبارہ کھڑکی سے باہر کا نظارہ کرنے لگا۔ ڈوبتے سورج کے ساتھ پرندے اپنے اپنے ٹھکانوں پر لوٹ رہے تھے۔
اس وقت چڑیوں کا چہچہانا نصیر کو کافی خوشگوار محسوس ہورہا تھا۔
اس نے نیچے سڑک پر نظر ڈالی سامنے ہی مین روڈ چل رہا تھا۔ اور ٹریف رواں دواں تھا۔
وہ کھڑکی کے پاس سے ہٹ گیا۔ چونکہ کے گرمیوں کے دن تھے اس لیے سورج کے ڈوبنے کا وقت سات بجے سے بھی اوپر تھا۔
کھڑکی نے آٹھ بجائے اور نصیر رات کے کھانے کے لیے کمرے سے باہر نکل گیا۔ سڑھیاں اترتے وقت وہ سوچ رہا تھا کہ آج کھانا کہاں کھایا جائے۔
جس بلڈنگ میں رہائش پذیر تھا اس کے تھوڑے فاصلے پر ہی ایک باربی کیو سینٹر تھا۔ باربی کیو آئیٹم نصیر کو کافی مرغوب تھے۔ اس لیے اس نے رات کے کھانا اسی بار بی کیو سینٹر میں کھایا۔ کھانے کے بعد کولڈرنک پیتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ اس شہر میں اس کی جان پہچان کا کوئی نہیں تھا۔ اسے یہاں آئے ایک ماہ ہی ہوا تھا اور ابھی تو اس نے پوری طرح شہر دیکھا بھی نہیں تھا۔
اس کا تعلق ایک چھوٹے سے گاؤں سے تھا۔ اس نے وہیں ہوش سنبھالا اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔
اس کے گاؤں میں میٹرک تک تعلیم کا انتظام تھا۔ میڑک کے بعد اس نے قریبی شہر کے ایک کالج سے انٹر تک تعلیم جیسے تیسے حاصل کرہی لی۔ اپنے والدین کا وہ اکلوتا لڑکا تھا۔ اس کے علاوہ اس کی ایک بڑی بہن بھی تھی۔ جس کی شادی ہوچکی تھی اور وہ قریبی شہر میں ہی رہتی تھی۔
باپ کے پاس کچھ زمین تھی اس پر ہی کھیتی باڑی کرکے اس نے اپنے بچوں کا پالا پھوسا تھا۔
اور لڑکی کی شادی بھی کری تھی۔
نصیر کو مزید پڑھنے کی خواہش تھی لیکن باپ کی عمر اب ایسی نہیں تھی کہ وہ اکیلے ہی تمام بار سنبھالتا۔
مجبوراً اسے پڑھائی کو چھوڑنا پڑا۔ پہلے تو اس نے کوشش کی تھی کہ اسے کوئی پارٹ ٹائم جاب مل جائے تاکہ وہ باپ کا ہاٹھ بٹاسکے لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا تھا۔
پھر اس کے ماموں نے اس کو اس بڑے شہر میں اپنے ایک جاننے والے کے ذریعے ایک گارمنٹ فیکڑی میں جاب دلادی تھی۔ چونکہ اس کی تعلیم کوئی خاص نہیں تھی اس لیے کوئی بڑی جاب تو اسے نہیں مل سکی۔ لیکن پھر بھی یہ جاب اس کی ضروریات کے لحاظ سے بہتر تھی۔
ابھی وہ اپنے گھر بھی ہر ماہ ایک معقول رقم بھیجتا تھا اور اس کے اپنے پاس بھی خرچہ آرام سے چل جاتا تھا۔ اس کے باپ نے اپنی زمین ٹھیکے پر کسی دوسرے شخص کو دے دی تھی۔
اور خود گاؤں میں ہی ایک چھوٹی سی دکان کھول لی تھی اس طرح ان کا گزارا اب آرام سے ہورہا تھا۔
لیکن نصیر کو ایک بات کا بڑا قلق تھا کہ اس جاب میں اس کے پاس مزید پڑھنے کے لیے وقت بچانا ناممکن تھا۔
کولڈرنک ختم کرکے وہ اٹھ گیا۔ اس کے دماغ میں کچھ آیا ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں جائے اس لیے تھوڑی دیر یونہی سڑکیں ناپنے کے بعد اس نے کمرے کی راہ لی۔ کمرہ اس کو لاک ملا اس کا مطلب تھا کہ منصور موجود نہیں ہے۔
کمرے میں داخلے کے بعد اسے ایک ناگوار سی بو محسوس ہوئی۔ جس میں سگریٹ کے دھوئیں کی بو بھی شامل تھی۔ پہلے پہل تو اسے وہ پوری طرح سمجھ نہیں آئی۔ اس نے ناک سکوڑ کر اسے پھر محسوس کیا اور اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات اور گہرے ہوگئے وہ اس بو کو پہچان چکا تھا۔
یہ کسی اور کی نہیں بلکہ چرس کی بو تھی۔ اس نے دیکھا منصور کے بیڈ کے ساتھ موجود کارنر ٹیبل پر ایک ایش ٹرے پڑا ہوا تھا۔ اور اس میں کافی تعدار میں جلے ہوئے سگریٹ بھی موجود تھے۔
اس نے آج سے پہلے کبھی منصور کو سگریٹ پیتے نہیں دیکھا تھا۔
اس نے جاکر ایک ٹوٹا اٹھایا جو باقی ٹوٹوں سے تھوڑا بڑا تھا اور اس میں موجود تمباکو کو ایش ٹرے میں ہی نکال لیا۔ کوئی شک نہیں اس میں چرس شامل تھی۔
اسی وقت دروازہ کھلا اور منصور جھومتا ہوا سا کمرے میں داخل ہوا۔
تم میری جگہ پر کھڑے کیا کررہے ہو منصور نے جھومتے ہوئے چیخ کر کہا۔
وہ چلتے چلتے نصیر کے قریب پہنچ چکا تھا۔ ساتھ ہی نصیر کو بدبو ایک پھپکا برداشت کرنا پڑا جو منصور کے منہ سے آیا تھا۔
تو تم شراب بھی پیتے ہو۔ اور کیا کیا کرتے ہو تم منصور نے ایک ایک لفظ چبا کر ادا کیا۔
تم سے مطلب دفعہ ہوجاؤ ،،،،،،،،، اور اپنے کام سے کام رکھا کرو سمجھے منصور نے نصیر کا گریبان پکڑتے ہوئے کہا۔
لیکن دوسرے لحمے جھومتا ہوا سا پشت کے بل زمین پر جا گرا۔ وجہ گال پر پڑنے والا تھپڑ تھا۔
منصور کے منہ سے گالیوں کا ایک طوفان نکل پڑا ساتھ ہی اس نے کھڑے ہوکر اپنے پینٹ کی جیب سے ناصرف پستول نکال لیا بلکہ ایک نصیر پر ایک فائر بھی جھونک دیا۔
نشے کی وجہ سے ہاتھ بہک گیا تھا اور گولی نصیر کے بازو کو چھوتی ہوئی پیچھے نکل گئی۔
نصیر نے آگے بڑھ کر منصور کا پستول والا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کی کوشش تھی کہ کسی طرح منصور کے ہاتھ سے پستول چھین لے۔
دونوں ایک دوسرے سے گھتے ہوئے زمین پر گر پڑے۔
پھر ایک کے بعد ایک تین گولیاں چلیں اور نصیر منصور کو چھوڑ کر ہانپتا ہوا الگ ہٹ گیا۔
سامنے ہی منصور گولیاں پیٹ میں کھائے ٹرپ رہا تھا۔
اور اس کا خون فرش پر پھیلتا جارہا تھا۔ نصیر دہشت سے آنکھے پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا۔
گولی اس نے نہیں چلائی تھی۔ بلکہ ہاتھا پائی میں منصور سے ہی ٹریگر دب گیا تھا۔
ان کا کمرہ چونکہ کے سب سے اوپری منزل پر تھا۔ اس لیے آواز وہیں گونج کر رہ گئی تھی۔
تڑپتے تڑپتے منصور نے دم توڑ دیا۔
نصیر اب بھی اسے وحشت بھرے انداز میں دیکھ رہا تھا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم فہیم ، اگلی قسط کہاں رہ گئی؟

ابھی تو میں یہ دھاگہ اوپر لا رہی ہوں یاد دہانی کے طور پر ، بعد میں یہ پوسٹ الگ کر دیں گے ۔
 

فہیم

لائبریرین
تین سال ہو گئے فہیم، اب تو جاگ جاؤ!!

تین سال پہلے والا فہیم تو شاید لکھ دیتا پورا۔
اب والے غریب کے لیے تو اتنا لمبا پڑھنا ہی دشوار ہے۔
لکھے گا کیا بھلا:confused:

محمد امین بھائی سے درخواست ہے کہ وہ اس کو مکمل کردیں :)

اور یہ درخواست سب ممبران سے ہے :)
 

محمد امین

لائبریرین
کیوں فہیم تین سالوں میں کیا ہوگیا تمہیں؟؟؟؟ اور یہ بیل میرے سر کیوں منڈھنا چاہتے ہو۔۔۔۔تم خود کرو میاں
 
Top