سعود عثمانی بغیر اِذن کسی سے کہاں چلا جائے ۔سعود عثمانی

بغیر اِذن کسی سے کہاں چلا جائے
جسے بھی زَعم ِ سفر ہو یہاں' چلا جائے

رکو میں کوہِ فروزاں سے آگ لے آؤں
یہ عہدِ شب نہ کہِیں بے نشاں چلا جائے

یہ رسّیاں ہیں ترا رزق ' اے عصاے قلم !
چلے تو سب ہُنَر ِ ساحؐراں چلا جائے

کھڑی ہے دونوں طرف خِشت ِ آب کی دیوار
سو پانیوں کے کہیں درمیاں چلا جائے

جو صِدق زاد ہیں ' رُک جائیں ۔۔ لفظ ہوں کہ رفیق
تو آگ ساتھ رہے اور دھواؑں چلا جائے

میں جال سیتا ہُوا مطمئِن مَچھیرا ہوں
بَھلے کہیں مِرا رزقِ رَواں چلا جائے

ترا کرم ہے کہ تعریف کے لیے تو ہے
جو تُو نہ ہو تو یہ سب رایگاں چلا جائے
 
Top