محترم جناب الف عین
دیے سے دیے کو جلانا پڑے گا
اُجالے کو رستہ دکھانا پڑے گا

ہوا گھات میں ہے چراغوں کے ہر سُو
سو جگنو کو ہی ٹمٹمانا پڑے گا

اگر صبر کا پھل ہے کھانا کسی نے
تو اک پیڑ پہلے اُگانا پڑے گا

سمیٹا ہے جو آنکھ نے بے بسی میں
یہ قطرہ سمندر بنانا پڑے گا

نمایاں اندھیرے میں ہوتا دیا ہے
ہمیں جل کے خود کو دکھانا پڑے گا

کمانی اگر ہے صحافت سے روزی
تو قطرے کو قلزم دکھانا پڑے گا

دیا کیوں مقابل دیے کے یہاں ہے
دیے کو ہوا سے لڑانا پڑے گا

سحر عشق کے دشت کا ہے سفر تو
سرابوں سے خود کو بچانا پڑے گا
 

الف عین

لائبریرین
محترم جناب الف عین
دیے سے دیے کو جلانا پڑے گا
اُجالے کو رستہ دکھانا پڑے گا
دیےسے دیا جلانا محاورہ ہے، پہلا مصرع تبدیل کریں
ہوا گھات میں ہے چراغوں کے ہر سُو
سو جگنو کو ہی ٹمٹمانا پڑے گا
درست
اگر صبر کا پھل ہے کھانا کسی نے
تو اک پیڑ پہلے اُگانا پڑے گا
کسی نے کھانا پنجابی محاورہ ہے، اردو میں "کسی کو" کہتے ہیں
شعر دو لخت لگ رہا ہے
سمیٹا ہے جو آنکھ نے بے بسی میں
یہ قطرہ سمندر بنانا پڑے گا
ٹھیک، اگرچہ "اس قطرے کو" زیادہ درست ہوتا
نمایاں اندھیرے میں ہوتا دیا ہے
ہمیں جل کے خود کو دکھانا پڑے گا
واضح نہیں
"خود کو چل کر" بہتر استعمال ہے
کمانی اگر ہے صحافت سے روزی
تو قطرے کو قلزم دکھانا پڑے گا
درست
دیا کیوں مقابل دیے کے یہاں ہے
دیے کو ہوا سے لڑانا پڑے گا
دیا بہت نہیں ہو گیا غزل میں؟ شعر واضح بھی نہیں
سحر عشق کے دشت کا ہے سفر تو
سرابوں سے خود کو بچانا پڑے گا
"تو" کو طویل کھینچے جانے سے بچنا چاہئے
غور کرو ہےسفر بہترہے یا "ہو سفر"
 
دیےسے دیا جلانا محاورہ ہے، پہلا مصرع تبدیل کریں

درست

کسی نے کھانا پنجابی محاورہ ہے، اردو میں "کسی کو" کہتے ہیں
شعر دو لخت لگ رہا ہے

ٹھیک، اگرچہ "اس قطرے کو" زیادہ درست ہوتا

واضح نہیں
"خود کو چل کر" بہتر استعمال ہے

درست

دیا بہت نہیں ہو گیا غزل میں؟ شعر واضح بھی نہیں

"تو" کو طویل کھینچے جانے سے بچنا چاہئے
غور کرو ہےسفر بہترہے یا "ہو سفر"
بہت شکریہ سر
 
محترم جناب الف عین
محترمی الف عین

واقعی دیا غزل کچھ نہیں بہت زیادہ ہو گیا تھا مگر غزل میں روشنی پھر بھی نہ ہوئی. دیا کچھ دیے بجھا کر ایک بار پھر آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں. آپ کی رہنمائی کا بہت بہت شکریہ سلامت رہیں

دیا ہر دیے سے جلانا پڑے گا
اُجالے کو رستہ دکھانا پڑے گا
ہوا گھات میں ہے چراغوں کے ہر سُو
سو جگنو کو ہی ٹمٹمانا پڑے گا
اگر صبر کا پھل ہے کھانا کسی کو
تو اک پیڑ اس کا اُگانا پڑے گا
سمیٹا ہے جو آنکھ نے بے بسی میں
یہ قطرہ سمندر بنانا پڑے گا
نمایاں اندھیرے میں ہوتا دیا ہے
ہمیں بھی سو خود کو جلانا پڑے گا
کمانی اگر ہے صحافت سے روزی
تو قطرے کو قلزم دکھانا پڑے گا
سفر عشق کے دشت کا کر رہاہوں
سرابوں سے خود کو بچانا پڑے گا
 

الف عین

لائبریرین
سمیٹا ہے جو آنکھ نے بے بسی میں
یہ قطرہ سمندر بنانا پڑے گا
اس میں تبدیلی نہیں کی گئی، میرے خیال میں قطرہ کو پہلے مصرع میں لے جاؤ، تاکہ دوسرے مصرعے میں مناسب تبدیلیاں کر سکو جیسے
اسے پھر سمندر بنانا پڑے گا
 
محترمی الف عین بہت بہت شکریہ
ہے مدت سے سہما ہوا آنکھ میں جو
وہ قطرہ سمندر بنانا پڑے گا
یہ قطرہ جو سہما ہوا آنکھ میں ہے
اسے اب سمندر بنانا پڑے گا
مسافر ہوں اک عشق کے دشت کا اب
سرابوں سے خود کو بچانا پڑے گا
مسافر ہوں اب عشق کے دشت کا میں
سرابوں سے خود کو بچانا پڑے گا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
محترمی الف عین بہت بہت شکریہ
ہے مدت سے سہما ہوا آنکھ میں جو
وہ قطرہ سمندر بنانا پڑے گا
یہ قطرہ جو سہما ہوا آنکھ میں ہے
اسے اب سمندر بنانا پڑے گا
مسافر ہوں اک عشق کے دشت کا اب
سرابوں سے خود کو بچانا پڑے گا
مسافر ہوں اب عشق کے دشت کا میں
سرابوں سے خود کو بچانا پڑے گا
اگر متبادلات کا پوچھ رہے ہو تو دونوں اشعار میں بعد والا شعر بہتر ہے، یعنی
اسے اب سمندر
اورمسافر ہوں اب... بلکہ اب کی جگہ اک زیادہ بہتر ہو گا
 
Top