بسنت مبارک ہو! (از سجاد میر)

عاطف بٹ

محفلین
بسنت مبارک ہو!​
سجاد میر​
پتنگ بازوں کو مبارک ہو، بسنت کا میلہ سجنے والا ہے۔ عبوری حکومت نے الیکشن کرانے کے ساتھ اس تقریب کو تازہ کرنے کا فرمان جاری کر دیا ہے۔ ذرا غور کیجئے، کتنا انقلابی اقدام ہے۔ میرا اس سے پہلے یہ خیال تھا کہ صرف دو لوگ خوش ہوئے ہیں۔ ایک تو ان کی اہلیہ جنہوں نے فرمایا ہے کہ ان کے اور ان کے بچوں کے لئے سیٹھی صاحب نگران وزیراعلیٰ مقرر ہونے کا دن زندگی کا سب سے خوبصورت دن ہے۔ دوسرے پتا چلا ہے کہ امتیاز عالم اس دن پھولے نہ سماتے تھے۔ گویا گوہر مراد مل گیا ہے۔ ان کی اہلیہ کا فرمان سن کر تو مجھے یقین نہیں آیا۔ میرے خیال میں وہ اتنی چھوٹی بات نہیں کر سکتی۔ یہ چھوٹی بات کہہ کر بھی میں نے بات چھپائی ہے۔ کم از کم میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ یہ چھوٹا پن ہے۔ جگنو محسن کا تعلق ایسے خانوادے سے بتایا جاتا ہے جو اس خطے کی اشرافیہ گنا جاتا ہے۔ بڑے لوگوں کی اولاد کو ایسے چھوٹے پن کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ آخر یہ اوقات نکلی۔ زندگی کا مقصد یہ انہوں نے بتایا کہ ان کی خوشی اس لئے ہے کہ سیٹھی صاحب کی خواہش یہ تھی۔ یا خدایا، یہ کیا لوگ ہیں، بچے سقے کی دو دن کی حکمرانی پر مر مٹے ہیں۔
امتیاز عالم کی خوشی کا جو احوال میں نے پڑھا ہے، اس سے مجھ پر بہت کچھ منکشف ہوا۔ میں نے عرض کیا تھا نجم سیٹھی میرا مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ان کی تقرری کا مطلب کیا ہے۔ یہ لوگ پھولے نہ سماتے تھے ہمارا بندہ تخت لاہور تک جا پہنچا ہے۔ اب دیکھنا کیا کرتا ہے۔ لاہور کے ”ترقی پسند آزاد خیال اور لبرل“ شہریوں نے راتوں رات بینرچھپوا کر شہر بھر میں اپنی خوشی کا چرچا کر ڈالا، اگرچہ یہ خوشی اس وقت کرکری ہوگئی تھی جب نجم سیٹھی صاحب نے نظریہء پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔ الطاف حسن قریشی بتاتے ہیں کہ امتیاز عالم کا منہ لٹک گیا۔
میں نے عرض کیا تھا کہ یہ نگران سیٹ اپ ہی سے لگتا ہے کہ انقلاب وغیرہ نہیں آ رہا، اب ان باتوں سے مزید لگتا ہے کہ انقلاب کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ اپنا کام دکھا گئی ہے۔ میں میاں صاحب کی حکمت عملی کا بھی جائزہ لے رہا ہوں۔ وہ سیفما جاتے تھے، تو ہم لوگ پوچھا کرتے تھے کہ وہاں کیوں جاتے ہیں۔ جاتے ہیں تو ہندی مسلم بھائی بھائی کے نعرے کیوں لگاتے ہیں۔ لگاتے ہیں تو یومِ آزادی پر کیوں لگاتے ہیں۔ یہ تو خیر ایک پہلو ہے۔ جس طرح ملک بھر میں نگران سیٹ اپ آئے ہیں، اس پر سبھی خاموش ہیں۔ بین السطور بہت کچھ ہے، فی الحال عالمی اسٹیبلشمنٹ کا لفظ یاد رکھئے، کام آئے گا۔
اب انہوں نے جو انقلابی اعلان کیا ہے ، ہے تو بسنت منانے کا، ہو سکتا ہے جگنو محسن سے پوچھیں تو وہ بتائیں کہ سیٹھی صاحب کو پتنگیں اڑانے کا بڑا شوق تھا۔ آپ ان کے تجزئیے نہیں سنتے۔، وگرنہ ایسی تو کوئی بات نہیں۔ مجھ سے پوچھئے تو عرض کروں کہ ان لوگوں کا انقلاب اتنا ہی ہے۔ بسنت پر مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں، بلکہ بڑا شوق ہے۔ ایک تو اس لئے کہ کوئی عشرہ بھر یہ تقریب لاہور شہر کا نشان بن گئی تھی۔ میں دور بیٹھا خوش تھا، مگر کسی برس بھی آ نہ سکا حالانکہ بڑی بڑی ملٹی نیشنل دعوتیں ملتی تھیں۔ یہاں آیا تو یہ تہوار سیاست اور دہشت گردی کی نذر ہو گیا۔ میں نے کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہ تھا، اکثر شہروں کی اپنی تقریبات ہوتی ہیں، لاہوریوں نے میلہ چراغاں کے بعد اس ثقافتی اظہار کو اپنا لیا۔ الگ پکوان طے پا گئے، اس دن کی مناسبت سے رونقیں لگنے لگیں۔ امراء کی بات چھوڑئیے۔ اندرون شہر کی حویلیاں، پنج ستارہ ہوٹلوں کی چھتیں اور رات گئے کی سرگرمیاں الگ رہیں۔ وہ تو اس طبقہ کا معاملہ ہے۔ یہ جو دن بھی مناتا ہے، اسی انداز میں مناتا ہے۔ اس کی نسبت سے کوئی تخصیص نہیں۔ ان کا الگ کلچر ہے۔ مگر عوام کا رنگ ڈھنگ اور تھا۔
ہاں ڈور سے ہونے والی اموات کی کہانی دوسری ہے۔ کہنے والے کہتے تھے، یہ انتظامی مسئلہ ہے، اس کا طریقہ ڈھونڈنا چاہئے تھا۔ مذہبی اعتراض بھی تھے، کسی نے اسے سکھوں کا تہوار بتایا، کسی نے ہندوﺅں کا۔ مگر ہمارے انتظار حسین کیا کھوج لگا کر آئے ہیں۔ کس طرح یہ تہوار لاہور سے دلّی پہنچا۔ وہاں کیسے مزاروں سے جلوس نکلتے تھے۔ حضرت بختیار کاکی کے مزار سے، حضرت نظام الدین اولیا کے مزار سے، پوری داستان ہے، اس کی، بڑی دلچسپ اور خوبصورت۔ یہ نہیں کہ یہ مسلمانوں کا مذہب تھا، مگر ان کے کلچر کا حصہ ضرور تھے۔
چھوڑئیے اس بات کو۔ ذرا س پر غور کیجئے کہ یہ تہوار سیٹھی صاحب کس انداز میں منانا چاہیں گے، اس انداز میں جس انداز میں عوام مناتے ہیں، یا اس انداز میں جس انداز میں ہماری اشرافیہ کے لچھن ہیں۔ حضور، آپ کی انہی حرکتوں کی وجہ سے تو عوام آپ سے بدظن ہوئے تھے۔ چلئے، چھوڑئیے، آخر یہ کارنامہ انجام دینے کا آپ کو اتنا شوق کیا تھا۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ جن کے دور میں بسنت کی رسم دوبارہ لانچ ہوئی۔ اس لئے آپ کے قبلے کا پتا نہیں چلتا، مشرف کے آخری دور میں بسنت کے علاوہ ایک چیز کا اور چرچا ہوا تھا جسے ”میراتھان“ کہتے تھے۔ لمبی واک، مخلوط، بھئی مخلوط ۔ اس پر بھی بڑا ہنگامہ کھڑا ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب مرحوم اقبال حیدر کو اس موقع پر ڈنڈا ڈولی کیا، تو میں نے عر ض کیا اقبال بھئی یہ آپ کس کام میں پڑ گئے۔ اس سے اچھا نہ تھا کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ جدوجہد کرتے رہتے، بجائے اس کے کہ لڑکے بالوں کے ساتھ ڈنڈا ڈولی بنے لٹکتے پھرتے۔
بس اس سے اندازہ لگائیے کہ یہ کس پائے کے لوگ ہیں اور یہ کیا کر سکتے ہیں۔ نگرانوں نے مختصر وقت میں بڑے کام کئے ہیں۔ ایک تو انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ مزید چڑیا نہیں ڈھونڈیں گے۔ دوسرے ایک اندر کی بات بتاﺅں وہ اعلیٰ سطح کی انتظامی میٹنگوں میں اپنے ٹی وی پروگرام کے ساتھی کو ساتھ لئے بیٹھے تھے۔ ہو گئی نگرانی اور ہوگئی حکومت۔ بچے بھی خوش امتیاز عالم بھی بغلیں بجا رہا ہے اور منیب اقبال کے بھی عیش ہوگئے۔ آگیا انقلاب…. ان کی پانچ رکنی کا بینہ بھی ملاحظہ کر لی ہوگی۔ مزید کیا چاہتے ہیں۔
ویسے کرنے والے دو ایک ماہ میں بھی کام دکھا جاتے ہیں۔ معین قریشی چھوڑئیے، اب جو حفیظ شیخ کے بعد ایک وزیر خزانہ آئے تھے، وہ دو کام کر گئے ہیں۔ ایک تو شوگر کی امپورٹ پر ایک روپے25پیسے کی سبسڈی دے گئے، دوسرے گاڑیوں کی خریداری میں شناختی کارڈ نمبر کی شرط ختم کر گئے۔ اس پر میں کیا تبصرہ کروں، ابھی ابھی قیصر بنگالی کا تبصرہ سن کر آیا ہوں۔ ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے پتا نہیں، بس انقلاب نہیں آ رہا۔ آپ خاطر جمع رکھیں اور بسنت منانے کی تیاریاں کریں۔ عوامی سٹائل کے علاوہ بھی گنجائش ہے اگر آپ اس کلب کا حصہ ہوں۔ کلب سے میرا مطلب سمجھ گئے، چلئے چھوڑئیے!
 

عمران اسلم

محفلین
انقلاب آئے گا اور چلا بھی جائے گا۔
کوئی لندن، کوئی جدہ، کوئی نیویارک کے بینکوں میں انقلاب کو بھرے گا۔
 
Top