بسم اللہ الرحمن الرحیم کی بحر اور رباعی کی بحر لا حول و لا قوۃ الا باللہ

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ نظامی صاحب، یہ شعر نظامی گنجوی کی شہرہ آفاق مثنوی "مخزن الاسرار" کا پہلا شعر ہے۔

یہ مثنوی بحر سریع مسدس مطوی مکسوف میں ہے اور وزن 'مُفتَعِلُن مُفتَعِلُن فَاعِلُن' ہے۔

کچھ دیگر اشعار

فاتحۂ فکرَتِ و ختمِ سخن
نام خدایست بر او ختم کن

پیشِ وجودِ ھمہ آیندگان
بیشِ بقائے ھمہ پایندگان

سابقہ سالار جہانِ قدم
مرسلہ پیوند گلوئے قلم

مکمل مثنوی پڑھیے!
 

محمد وارث

لائبریرین
اور کچھ دیگر اشعار در نعت

احمدِ مُرسل کہ خرد خاکِ اوست
ہر دو جہاں بستۂ فتراکِ اوست

آپ احمد (ص) مرسل کہ خرد انکی خاک ہے، ہر دو جہان آپکے فتراک (لغوی طور پر وہ چیز جس میں شکار یا دیگر ایسی چیز کو رکھا جاتا ہے) سے بندھے ہوئے ہیں۔

تازہ تریں سنبلِ صحرائے ناز
خاصہ تریں گوھرِ دریائے راز

آپ صحرائے ناز کے تازہ ترین پھول ہیں (کہ سب سے بعد میں آنے والے پیغمبر ہیں) اور آپ دریائے راز کے خاص ترین گوہر ہیں۔

نقطہ گہِ خانۂ رحمت توئی
خانہ برِ نقطۂ زحمت توئی

رحمت کے خانہ کا آپ ہی مرکز ہیں اور زحمت میں مدد دینے والے بھی آپ ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ نظامی صاحب، مطوی اور مکسوف دراصل دو زحافوں 'طے' اور 'کسف' کے نام ہیں، ان زحافوں کے استعمال کے بعد جو رکن حاصل ہوتے ہیں ان کو مطوی اور مکسوف کہتے ہیں۔

بحر سریع مثمن سالم کا وزن 'مُستَفعِلُن مَفعُولاتُ مُستَفعِلُن مَفعُولاتُ' ہے لیکن یہ مثمن استعمال نہیں ہوتی بلکہ مسدس استعمال ہوتی ہے۔

مسدس سالم میں اسکا وزن 'مُستَفعِلُن مُستَفعِلُن مَفعُولاتُ' رہ جاتا ہے لیکن یہ مسدس سالم بھی استعمال نہیں ہوتی بلکہ مسدس مزاحف استعمال ہوتی ہے۔

مزاحف میں جو ہمارے زیرِ نظر بحر ہے 'سریع مسدس مطوی مکسوف' اس میں دو زحاف استعمال ہوتے ہیں، جیسا کہ اوپر لکھا، طے اور کسف!

طے میں یہ کرتے ہیں کہ جس رکن کے شروع میں دو سبب خفیف ہوتے ہیں (اور صرف دو ہی رکن ایسے ہیں جنکے شروع میں دو سببِ خفیف ہیں یعنی مستفعلن اور مفعولات) انکے دوسرے سببِ خفیف کا آخری حرف گرا دیتے ہیں یعنی

مستفعلن (مس تف علن) میں 'تف' دوسرا سببِ خفیف ہے اور اسکی 'ف' اسکا آخری حرف سو 'ف' کو گرا دیتے ہیں یعنی

مستفعلن ===> طے = مُستَعِلُن (یہ چونکہ عروض میں معروف نام نہیں ہے سو مستعلن کو مُفتِعِلُن معروف سے بدل لیتے ہیں جو کہ اسکا ہم وزن ہے) یعنی

مستفعلن ===> طے = مُستَعِلُن = مُفتَعِلُن

اسی طرح مفعولات میں طے زحاف کے استعمال اس کے دوسرے سببِ خفیف (عو) کی واؤ گر جائے گی یعنی

مفعولات ===> طے = مَفعِلات

کسف یہ ہے کہ مفعولات کے آخری حرف یعنی 'ت' کو گرا دیتے ہیں یوں

مفعولات ===> طے = مَفعِلات ===> کسف = مَفعِلا

اب چونکہ مفعلا بھی عروض میں غیر معروف ہے سو اس کو فاعِلُن سے بدل لیتے ہیں جو کہ اسکا ہم وزن ہے یعنی

مفعولات ===> طے = مَفعِلات ===> کسف ==> مَفعِلا = فاعِلُن

یوں اصل وزن

مُستَفعِلُن مُستَفعِلُن مَفعُولاتُ

سے ہمیں طے اور کسف کے بعد جو 'مطوی مکسوف' وزن ملتا ہے وہ

'مُفتَعِلُن مُفتَعِلُن فاعِلُن' ہے اور یہی اس مثنوی کا وزن ہے۔

بر سبیلِ تذکرہ:

اس وزن 'سریع مسدس مطوی مکسوف' میں کوئی دس وزن جمع ہو سکتے ہیں جن کو طوالت کی وجہ سے چھوڑتا ہوں لیکن پہلے شعر کی تقطیع لکھ دیتا ہوں جس میں کہ دو مختلف وزن ہیں:

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
ھست کلیدِ درِ گنجِ حکیم

بس مل لا - مَفعُولُن
ہر رح ما - مَفعُولُن
نر ر حیم - فاعلان

ھست کلی - مفتعلن
دے د رِ گن - مفتعلن
جے حکیم - فاعلان

گویا اس شعر کا وزن ہے

مفعولن مفعولن فاعلان
مفتعلن مفتعلن فاعلان

اور یہ دونوں وزن اصل وزن

مفتعلن مفتعلن فاعلن

سے مختلف ہیں لیکن انکا اجتماع جائز ہے بلکہ دس وزن جمع ہو سکتے ہیں اس بحر میں جیسا کہ اوپر لکھا!

والسلام
 

فاتح

لائبریرین
محمد وارث صاحب کیا رباعی
لاحول ولا قوۃ الا باللہ
کی بحر میں بھی کہی جاتی ہے؟

جی ہاں! یہ رباعی کی ایک مستعملہ بحر ہے:
مفعول۔ مفاعیل۔ مفاعیلن۔ فاع
(اخرب۔ مکفوف۔ سالم۔ ازل)
(صدر و ابتدا۔ حشو اول۔ حشو دوم۔ عروض و ضرب)

اس میں تقطیع کر کے دیکھیے:
مفعول ۔ مفاعیل ۔ مفاعیلن ۔ فاع
لاحول ۔ ولا قووَ۔ تَ اِل لا بل ۔ لاہ
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ فاتح صاحب خوبصورت وضاحت کیلیے!

نظامی صاحب، ایک بات یہ کہ رباعی کے چوبیس اوزان میں سے یہ صرف ایک وزن ہے، مبتدیوں کو رباعی کا وزن یاد کرانے کیلیئے ابتدا میں یہ وزن سکھایا جاتا تھا کہ "مصرع" ہر کسی کی زبان پر ہے :) اور اگر صرف اسی وزن میں چاروں مصرعے کہیں تو وہ رباعی ہے اس لیے سیکھنے میں آسانی رہتی ہے!

اسکے علاوہ رباعی کے چوبیس اوزن سیکھانے کیلیے مولانا عبدالرحمٰن جامی علیہ الرحمہ نے چھ فارسی رباعیاں کہی ہیں جن میں ہر مصرعے کا وزن علیحدہ ہے سو چوبیس اوزان چھ رباعیوں میں جمع کر دیئے ہیں!

آخری بات یہ کہ میں نے عنوان کو جامع کر دیا ہے اور اس تھریڈ کو مناسب فورم میں منتقل کر دیا ہے!
 

الف نظامی

لائبریرین
بہت شکریہ فاتح ، بہت شکریہ محمد وارث۔
نظامی صاحب، ایک بات یہ کہ رباعی کے چوبیس اوزان میں سے یہ صرف ایک وزن ہے، مبتدیوں کو رباعی کا وزن یاد کرانے کیلیئے ابتدا میں یہ وزن سکھایا جاتا تھا کہ "مصرع" ہر کسی کی زبان پر ہے :) اور اگر صرف اسی وزن میں چاروں مصرعے کہیں تو وہ رباعی ہے اس لیے سیکھنے میں آسانی رہتی ہے!

اسکے علاوہ رباعی کے چوبیس اوزن سیکھانے کیلیے مولانا عبدالرحمٰن جامی علیہ الرحمہ نے چھ فارسی رباعیاں کہی ہیں جن میں ہر مصرعے کا وزن علیحدہ ہے سو چوبیس اوزان چھ رباعیوں میں جمع کر دیئے ہیں!

آخری بات یہ کہ میں نے عنوان کو جامع کر دیا ہے اور اس تھریڈ کو مناسب فورم میں منتقل کر دیا ہے!

شکریہ وارث صاحب۔ مولانا عبد الرحمن جامی کی یہ چھ فارسی رباعیاں بھی متعلقہ بحر کے ساتھ یہاں لکھ دیں تو نوازش۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نظامی صاحب، یہ رباعیاں مرزا یاس یگانہ چنگیزی نے عروض پر اپنی شاہکار کتاب 'چراغِ سخن' میں لکھی ہیں۔

انشاءاللہ، کچھ فرصت ملتی ہے تو میں ان کو یہاں لکھ دونگا!
 

الف نظامی

لائبریرین
علامہ جامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :-​
ہست صدائے سر خوانِ کریم - بسم اللہ الرحمن الرحیم
(کریم آقا کے دستر خوان سے اللہ تعالی کے فضلِ کرم کا سایہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ذریعہ نصیب ہوگا)​
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:-​
مطلعِ انوار خدائے کریم - بسم اللہ الرحمن الرحیم
(تجلیات ِ ربانی کا مطلع ابرِ رحمت بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے)​
حضرت نظامی گنجوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : -​
ہست کلیدِ درِ گنجِ حکیم - بسم اللہ الرحمن الرحیم
(حکیمِ مطلق کے خزانہ کی کنجی بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے)​
محمد وارث ، محمد یعقوب آسی: تصحیح کی درخواست ہے۔​
 
Top