بستہ ب کا بدمعاش

ضیاء حیدری

محفلین
بستہ ب کا بدمعاش
ہوسکتا ہے کہ آج کے بچے اس طرح کی شق سے آگاہ نہ ہوں کیونکہ سنہ 2002ء کے پولیس رولز میں ترامیم کر کے بستہ"الف"، "ب" یا "ج" کو فورتھ شیڈول میں بدل دیا گیا ہے، انگریز دور میں یہ اصطلاح مرتب کی گئی جس کے مطابق جرائم پیشہ افراد کے لیے تین خاص قسم کے رجسٹر ترتیب دئیے جاتے تھے جن کے نام بستہ (الف)، بستہ (ب) اور بستہ (ج) رکھے گئے تھے۔
ایک دلچسپ بات بتاؤں کہ خوف و دہشت کی علامت بنے یہ بدمعاش، اصل مجرم نہیں ہوتے تھے، بلکہ فتو ہوتے تھے ظالم جاگیردار جرم کرتے اور اپنی جگہ اپنے کسی کمی یا مزارعے کو وہ جرم اپنے سر لے کر اقبالِ جرم کرنے کا حکم دیتے اور چونکہ وہ مزارعہ انہی کا پروردہ ہوتا تھا اس لیے وہ انکار کی مجال نہیں رکھتا تھا۔اس طرح ایسا آدمی بھی بستہ "ب" یا بستہ "الف" میں درج ہو جاتا جو براہِ راست کسی جرم میں ملوث بھی نہیں ہوتا تھا۔
بدمعاش بننے میں بھی جذبہ قربانی کا دخل ہوتا ہے، یہ ہم جانتے نہیں تھے، اتنا ضرور سنا تھا کہ ایک نقطہ کے فرق سے محرم مجرم بن جایا کرتا ہے۔ لیکن امیری غریبی کے فرق سے جس طرح اپنے کمی ہاری پر اپنا جرم ڈال کر اسے مجرم بنا دیا جاتا ہے، یہ ہمارے جاگیردارانہ سماج کا شاخسانہ ہے،
پچھلے دنوں ایک بااثر شخصیت کے بیٹے نے ٹکر مار کر کئی نوجوان لڑکے مار دئے تھے اور الزام اس کے ڈرائیور پر لگا، جج صاحب نے بھی آنکھوں پر پٹی باندھ لی تھی، معاشرے کے ان بدبودار کرداروں کا اندراج ایک بستہ ب میں ہورہا ہے، اللہ کے ہاں دیرہے اندھیر نہیں ہے۔
 
Top